راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135637
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135637 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

افعال بھی شما ر ہو تے ہیں ۔

بہر حا ل یہ نکتہ قا بل غورہے کہ قرآن کریم نے اجتما عی موجودات کی تحلیل میں ایک بنیا دی اصل کے عنوان سے تا ریخ اور سما جیات کے میدان میں توحید افعالی اور ارادہ و مشیت الٰہی کے مسئلے کو بیان کیاہے اور ان امور کوالٰہی سرچشمہ سے الگ اور جدانہیں سمجھتا۔

۲۔ دوسرا نکتہ یہ کہ قر آ ن کریم نے کبھی بھی معا شرتی تبدیلیوں کا جا ئزہ لیتے وقت کسی کام کے انجا م دینے والے سے اس کی ذمہ داری کوسلب نہیں کیا ہے یعنی اگر چہ قر آ ن نے کسی بھی سماجی اور نفسیاتی محرک اور سبب سے غفلت نہیں برتی لیکن ان اسباب کو لوگوں کی ذمہ داری ختم ہو جا نے کی بنیاد بھی قرار نہیں دیا بلکہ اپنے تمام کا مو ں کے وہی ذمہ دار ہیں اِس پر تاکید کی ہے ۔ سورۂ مبا رکہ ٔ اسراء میںاس بات کو بڑے دلچسپ انداز میںبیان کیا گیا ہے :

( مَنِ اهْتَدَیٰ فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَایَضِلُّ عَلَیْهَاوَلَا تَزِرُ وَازِرَة وِزْرَاُخْرَیٰ وَمَاکُنَّامُعَذِّ بِیْنَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُوْلاً وَاِذَااَرَدْنَااَنْ نُهْلِک قَرْیَةً اَمَرْ نَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْافِیْهَافَحَقَّ عَلَیْهَاالْقَوْلُ فدَ مَّرْنَٰهَا تَدْمِیْراً ) ( ۱ )

''جو شخص بھی ہدا یت حا صل کر ے یہ اس کے اپنے فا ئدے کے لئے ہے اور جو گمرا ہی اختیار کر ے وہ بھی اپنا ہی نقصا ن کر تا ہے اور کو ئی کسی کا بو جھ اٹھا نے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب نہیں کر تے کہ جب تک (اُن میں) کو ئی رسو ل نہ بھیج دیںاور ہم نے جب بھی کسی قریہ کو ہلا ک کر نا چا ہا تو اس کوخوش حالی کی راہ پر لگا دیاپس انھو ں نے وہاں برائیاں پھیلائیںاور فسق و فجور سے کام لیانتیجہ میں اس شہر پر عذاب لازم ہو گیا توہم نے اسے مکمل طو ر پر(زیر وزبر کر کے) تباہ کر دیا'' ۔

پہلی آیت کے ابتدا ئی حصہ میں اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کاخود ذمہ دار ہے اور کو ئی بھی کسی دو سرے کے گناہ کا بو جھ نہیں ا ٹھا ئے گا لیکن چو نکہ عمل کے سلسلہ میں ذمہ دا ری علم و آگہی کی بنیاد پر عائد ہوتی ہے لہٰذا آیت میں آگے بڑھکرخدا وند عالم فر ماتا ہے کہ ہم انبیا ء علیہم السلام کے بھیجنے اور ان پر حجت تمام کرد ینے سے پہلے کسی پرعذاب نا زل نہیں کر تے ۔ جی ہاں! کسی قوم پر خداوند عالم یوں ہی عذاب نازل نہیں کرتابلکہ وہ اس وقت عذاب کا فیصلہ کر تا ہے جب حجت تمام ہو جا ئے اور راہِ ہدا یت پوری طرح روشن ہو جا ئے اور اس کے با وجود

____________________

۱۔سورئہ اسراء آیات۱۵۔۱۶۔

۳۶۱

لوگ دشمنی اورہٹ دھر می کی وجہ سے راہِ حق کو قبو ل کر نے سے گریز کر یں ۔اِ س حا لت میں لوگ اپنے کفرکے خو د ذمہ دار ہیں اور عذاب کے مستحق ہیں پس ہر انسان یا جما عت اپنی رفتا ر و گفتار کی خود ذمہ دار ہے ۔

دو سری آیت میںیہ بیان ہوا ہے کہ کسی کا فر اور دشمن حق قو م کی ہلا کت کا الٰہی فیصلہ کس طرح جامۂ عمل پہنتاہے ۔ اس آیت کی تھوڑی سی وضا حت ضرو ری ہے ۔ کیو نکہ عبا رت ''اَمَرْنَا مُتْرَ فِیْھَا'' کے بارے میں مفسّرین

کے در میا ن اختلاف ہے۔ ایک گر وہ نے فعل ( اَ مَرْنَا )کی میم تشدید کے ساتھ قرائت کی ہے اور اس کے معنی ''جَعَلَنَا مُتْرَفِیْھَا امرا ئ''یعنی (ثر وتمندوں کو رہروحا کم قرار دیا ) بیان کئے ہیں ۔ایک گرو ہ نے مذ کو رہ امر کوشرعی امر سمجھا ہے اور اس کے متعلّق کو محذو ف قراردیاہے (یعنی ہم نے ثر وتمند وں کو اپنی اطا عت کا حکم دیا )لیکن ظا ہری طو ر پر یہ تفسیرآیت کے ظا ہر ی معنی کے ساتھ سا زگا ر نہیں ہیں اور ''امر ''مذکو ر سے مرادامر تکوینی ہے ۔ اس بنا ء پر آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جب بھی کو ئی قوم اپنے غلط انتخا ب کی وجہ سے مستحقِّ عذاب ہو تی ہے تو ان کا معاشرہ نظام قدرت کے تحت ایسی سمت میں بڑھتا ہے کہ ان کے دولت مند افرادفسق اور فجور میں غر ق ہو جا تے ہیںاور چو نکہ ثر وتمند وں کے اعمال اعلیٰ سطح پرخدا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یعنی خدا نے ہی دنیا کا نظا م ایسے رخ پر لگایا ہے کہ جس سے ایسے ثروتمندپیدا ہو ئے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے فسق و فجور کر نے لگے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے امر تکو ینی سے یہ کام انجام پایا ہے ۔ پس خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ نظام احسن میں لو گو ں کا امتحا ن لیا جا ئے اور ایک گروہ اپنے اختیار کا غلط فائدہ اٹھاکر غلط راستہ اپنا یا اور عذا ب نا زل ہو نے کی زمین فراہم کرلی ۔

المختصریہ کہ مندر جہ بالا آیت میں خدا کے تکو ینی فیصلہ کی طرف اشا رہ لگتاہے تشریعی حکم کی طرف نہیں جیسا کہ ہم خدا وند عالم کے اوصاف سے متعلق گفتگو میں بیان کر چکے ہیں کہ خدا وند قدوس کے ارا دہ کی دو قسمیں ہیں :

۱۔تکوینی

۲۔تشر یعی

اور وہ سب کچھ بھی جو دنیا میں ہو تا ہے اطا عت ونا فر مانی ،کفر وایمان سب خدا کے ارادئہ تکو ینی کے تحت ا لٰہی قضا و قدرکے دائرے میں داخل ہے۔ البتہ اپنے مقا م پر یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ اس عقیدہ سے کسی بھی طرح سے جبر لاز م نہیں آتا ۔کیو نکہ انسان کے تمام اختیاری کام اس کے اپنے اختیار سے انجام پائے ہو تے ہیں اور فا علِ مختا ر کا انتخاب عمل اس کے ظہور کی علّتِ تا مہ کا ایک جزء ہے ۔

۳۶۲

بہر حال امرآیت میں الٰہی امر چا ہے تکو ینی ہو یا تشر یعی دولتمندوںکے فسق و فجور کے بعد خدا کا قول ان کے سلسلہ میں متحقق ہو جا تا ہے اور یہ وہ قول یہ ہے کہ گنا ہگا روں کو عذابِ الٰہی میں گر فتار کر کے اُن کا کار وبار سمیٹ دیا جا ئے گااس آیت میں ایک قابل توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ دولت پرستوںکے فسق و فجو ر اور ان کی ہلا کت دونوںکو خدا وند عا لم کے ارادہ و عمل سے منسو ب کیاگیا ہے اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف ہم پہلے اشا رہ کر چکے ہیں ۔ یعنی اجتما عی امورکی وضاحت میں تو حیدِ افعا لی کا ظہور ؛قرآن کی نظر میںیہ تمام امور انسانی اختیار کو سلب کئے بغیرالٰہی ارادہ کے دائرہ میں انجام پائے ہیں ۔

یہی مفہوم سورئہ انعام میں اس طرح بیان ہو اہے :

( وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنَافِیْ کُلِّ قَرْیَةٍ اَکَابِرَمُجْرِمِیْهَٰالِیَمْکُرُوْافِیْهَٰاوَمَایَمْکُرُوْن اِلَّابِاَنْفُسِهِمْ وَمَایَشْعُرُوْنَ ) ( ۱ )

''اسی طرح ہم ہر قریہ میں بڑے بڑے مجر مین کو مقرر کر تے ہیں کہ وہ مکر و فریب سے کام لیںلیکن (در اصل) مکا ری کا اثر خود ان کے علا وہ کسی اور پر نہیں ہو تا ہے اور انھیں اس کا بھی شعور نہیں ہے ''۔

اس آیت میں بھی (جَعَلْنَا )سے مرا د تکوینی طور پر قرار دینا ہے اور اس لحاظ سے یہ بھی آیت (کَذٰ لِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً )کی مانندہے ۔ پس اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا مکر و فریب کو ئی اچھا اور پسندیدہ کام ہے یا یہ کہ وہ لوگ اپنے کا مو ں کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ آیت میںاس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ امور خدا کی مشیت اور اراد ہ کے دا ئرے سے با ہر نہیں ہیں اور خدا کا ارادہ ان کاموںسے مغلوب بھی نہیں ہو ا ہے ۔ وہ خود یہ چا ہتا ہے کہ یہ انسان آزاد اور مختا ر رہیں اور انھوں نے یہ اپنے ارادہ و اختیا ر سے غلط فا ئدہ اٹھا کر اس طرح کے برے کام انجام دیئے ہیں لہٰذا وہ خودہی ان کے ذمہ دار بھی ہیں ۔

مختصریہ کہ ہر شخص اور ہر معا شرے کا اپنے کام کے سلسلہ میںخود،ذمہ دار ہونا قرآن مجید کے سماجی اور معاشرتی اصولوں میں سے ایک بنیا دی اصو ل ہے ۔

۳۔تیسرا نکتہ جو بعض ماہرین سما جیات کے نظریہ کے بر خلاف ان آیات سے پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ قرآن کریم کی نظر میں معاشرے کے طبقات بندھے ہوئے یا ان کی راہیں بند نہیںہیں جیسا کہ بعض معا شرو ںمیں اس طرح کے افکا ر پا ئے جا تے ہیں کہ قدرت نے معا شرہ کومخصوص طبقوں میں اس طرح تقسیم کیاہے کہ ایک طبقہ کے

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت ۱۲۳۔

۳۶۳

افراد دوسرے طبقہ میں نہیںجاسکتے اور اس طر ح کی طبقہ بندی جو عام طور سے ذات پات،نسل و قوم یا اقتصادی حیثیت وغیرہ پراستوار ہو تی ہے قرآ ن کی رو سے غلط ہے البتہ انسانوں کے درمیان تکوینی اور پیدائشی اختلافات جو دنیا کے نظامِ احسن کا ایک جزء ہے موجود ہیں اورقرآن ِ کریم نے اس کی تا ئید بھی کی ہے لیکن اس کوسماجی اور معاشرتی طبقہ بندی کا معیا ر قرار نہیں دیاہے۔

بعض معا شرو ں میں نسلوں یا رنگوں کی بنیا د پر طبقہ بندی ہوتی ہے ۔ نسل پرست یانسلی امتیاز کے قا ئل معاشروں میں عام طور پرسفید فا موں کورنگین فا موں کے مقابلے میں سما جی حیثیت سے ممتاز مقام حا صل ہے ۔ قرآن ان نسلی اختلافات کو قبو ل تو کر تا ہے لیکن اس کو مقام و حیثیت کے تعین کا معیار قرار نہیں دیتا :

( یَااَیُّهَاالنََّاسُ اِنَّاخَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍوَاُنْثَیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبَاًوَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوااِنََّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَﷲ اَتْقَیٰکُمْ اِنَّ ﷲ عَلیمخَبیر ) ( ۱ )

'' اے انسا نو! ہم نے تم سب کو ایک مر د اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تم کو قوموں اور قبیلوںمیں تقسیم کر دیا تا کہ آپس میں ایک دو سرے کو پہچا ن سکو بیشک تم میں سے خدا کے نز دیک زیا دہ محترم وہی ہے جو زیا دہ پر ہیز گا ر ہے اور ﷲ ہر شیٔ کا جا ننے والا اور ہر با ت سے با خبر ہے ''۔

فطری عوامل کی بناء پر لوگوں کے درمیان نسلی اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور طرح طرح کے قبیلے بن جاتے ہیں ۔ان اختلافات کی بنیاد حکمت الٰہی پر استوارہے اور نظام عالم میں اس چیز کا ہونا ضروری ہے لیکن جیسا کہ آیت میں آیا ہے یہ اختلافات کبھی بھی لوگوں کے ایک دوسرے پربرترہونے کا سبب نہیں ہوسکتے بلکہ حقیقی برتری اور فضیلت کاسبب تقوی اور پر ہیز گاری ہے۔

دوسرے گروہ نے معاشرے کو لوگوں کی اقتصادی حیثیت کے معیارپر تقسیم کیا ہے ۔یہ مسئلہ خصوصاً مارکسزم میں خاص مقام رکھتاہے ۔اس نظریہ کے مطابق ہر معاشرے میں اس کے مخصوص معاشرتی نظام کے تحت ہمیشہ دواصلی طبقے پائے جاتے رہے ہیں ایک حکمراں طبقہ جو سرمایہ اور اقتصادی وسائل سے بہرہ مندہوتا ہے اور ایک رعایا اور عوام کا طبقہ ہے جو اقتصادی اور مالی وسا ئل سے محروم ہو تا ہے ۔کیا اسلام اس طرح کی طبقاتی تقسیم کو قبول کرتا ہے؟ قرآن کریم کی آیات اور اسلامی تعلیمات معمولی آشنائی اس سوال کا نفی میں جواب دینے کے لئے کافی ہے ۔

____________________

۱۔سورئہ حجرات آیت ۱۳۔

۳۶۴

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک گروہ نے نادانی کی بناء پر یہ خیال کر لیاہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں اس طرح کی طبقاتی تقسیم کو قبول کیا گیاہے اور بعض منحرف اور گمراہ کن فکر رکھنے والوں نے یہ کوشش کی ہے کہ اپنے غلط تصور کے تحت اس طرح کے افکار پر اسلام کی تائیدی مہر لگادیں اور بعض آیات کی معا شرے اور تا ریخ کے با رے میں ما ر کسسٹ طرزفکر کے مطابق تطبیق کریں ۔ان کے اس طرح کے دعووں میں سے ایک کا دعویٰ یہ ہے کہ مستضعف اور مستکبر کی تعبیرجو قرآن میں استعمال ہوئی ہے،یہ معاشرے کے دو ثروتمند اور فقیرطبقوں کی حکایت کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ اسلام اقتصاد کوایک تاریخی اور سماجی تغیرات کا سبب سمجھتا ہے ۔

ہم نے جوآیات استضعاف اور استکبار کی بحث میں نقل کی ہیں ان پر غورو فکر کرنے سے واضح ہو جاتاہے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالناکسی بھی اعتبار سے قرآنی آیات کے ساتھ میل نہیں کھاتا جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ، قرآن کریم نے مستضعفین کے کئی گروہ نقل کیئے ہیں۔ مستضعفین کا ایک گروہ وہ ہے جن کی مدد کرنا چاہیے اور قرآن کریم نے مومنین کو ان کی حمایت کی دعوت دی ہے :

( وَمَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُونَ فِیْ سَبیلِ ﷲ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَااَخْرِجْنَامِنْ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا ) ( ۱ )

''مستضعفین کا یہ گروہ ان سب ناتوان ،مردوں،عورتوںاور بچوں پر مشتمل ہے جو کافر معاشرے میں گرفتار ہیں اور ہجرت کی طاقت نہیں رکھتے ۔یہ لوگ مومن اور خدا شناس ہیں اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اس سے رہائی کی درخواست کرتے ہیں تاکہ کافروں سے الگ ہوجائیںاور ایک مسلمان معاشرے میںزندگی گزاریں''۔

مکہ کے کمزور مومنین جو مشرکوں کے ظلم کا شکار تھے ور ہجرت کی طاقت بھی نہیں رکھتے تھے اسی گروہ سے ہیں۔ خدانے ان کی دعاقبول کی اورمومنوں کو حکم دیا کہ کافروں کے ساتھ جنگ کریں اور ان مستضعفین کو ان کے چنگل سے نجات دیں یہ گروہ اگر چہ مستضعف بنادیا گیا مگر اس نے خود کو معاشرے کے رنگ میں نہیں ڈھالا اور کفر کے آیندہ عقائد سے خود کو دور رکھا اپنے فکری استقلال اور خود مختاری کو محفوظ رکھا اگر چہ وسائل کی کمی کے سبب امداد اور حمایت کے مستحق تھے ۔

اس گروہ کے ذکر کے ساتھ بھی قرآن کریم نے مستضعفین کے ایک اورگروہ کی(مذمت) کی ہے چنانچہ موت کے بعد فرشتوں کے ساتھ ان کی گفتگو ان کے سخت انجام کی حکایت کرتی ہے :

____________________

۱۔ نساء آیت۷۵۔

۳۶۵

( اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّهُمُ الْمَلَٰئِکةُظَالِمِی اَنْفُسِهِمْ قَالُوْافِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْاکُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی اْلاَرْضِ قَالُوْااَلَمْ تَکُنْ اَرْضُْ ﷲ وَاسِعَةًفَتُهَاجِرُوْافِیْهَافَاُولَٰئِک مَاوَٰیهُمْ جَهَنَّمُ وَسَائَ تْ مَصِیْراً ) ( ۱ )

''جن لوگوں کی ملا ئکہ نے اس حال میں روح قبض کی کہ انھوںنے اپنے نفس پر ظلم کررکھا تھا اور جب ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ؟انھو ں نے کہا ہم زمین میں کمزور بنا دئے گئے تھے ملا ئکہ نے کہاکہ کیا زمین خدا میں گنجائش نہیں تھی کہ تم وہاںسے ہجرت کر جاتے؟!پس ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کس قدربد ترین ٹھکانا ہے ''

مستضعفین کا یہ گروہ ہجرت نہ کرنے کے کی بناء پر مجرم قرارپایا اور خدانے ان سے جواب طلب کیا ہے ۔ پس ایسا نہیں ہے کہ اسلام ہر مستضعف اور کمزورکی تائید اور تمجید کردے یہ حقیقت ان آیات سے مزیدروشن ہوجاتی ہے کہ جن دو زخ میں مستکبر ین اور مستضعفین کے درمیان بحث وجدل کا ذکر ہے۔

مستضعفین کا یہ گروہ ، دو زخ میں مستکبر ین کا ہمنشین ہے اور یہ دونوںگروہ ایک ساتھ معذب ہوں گے ، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں عنوان استضعاف بذات خود کسی مثبت پہلو کا حامل نہیں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں مستضعف طبقہ تمام اہمیتوں کامالک ہو ۔

اس بحث سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ مستضعفین سے امامت اور رہبری کا وعدہ صرف ان کے مستضعف ہونے کی وجہ سے نہیںہے بلکہ یہ وعدہ انکے ایمان کی وجہ سے کیا گیا ہے اور آیت( وَنُریدُاَن نَمُنَّ عَلیَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْ ا ) ( ۲ ) کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس گروہ پرصرف اس کے مستضعف ہو نے کی وجہ سے خدا نے احسان کیا ہے بلکہ امامت کی لیاقت کا معیارانکا ایمان ہے۔ اس دعوے پر شاہد وہی مطلب ہے کہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کیااور وہ یہ کہ خدا مستضعفین کے ایک گروہ کو دو زخ میں بھیجے گا ۔ بہت ممکن ہے ان لوگوں نے اپنی تمام عمر استضعاف میں گزاری ہو اورپھر ان کا انجام بھی دو زخ ہو اگرصرف استضعاف کا عنوان ہی فضیلت اور برتری کا معیار ہو تا تو یہ لوگ کبھی بھی دوزخ میں نہ جاتے ۔ یہ لوگ اگراپنی محرومیوںکے ساتھ با ایمان ہوتے اور خدا کے احکام پر عمل کرتے تو جنت کے مستحق ہو تے۔معلوم ہواکہ مستضعفین کے ایک گروہ کی رہبری کا وعدہ کہ جس کی طرف آیت میں اشارہ ہوا ہے ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہے صرف ان کے استضعاف کی و جہ سے نہیں ہے۔

____________________

۱۔سورئہ نساآیت۹۷۔

۲۔سورئہ قصص آیت۵۔

۳۶۶

یہاںاس سوال کا امکان ہے کہ اگر مذکورہ بات صحیح ہے تواس آیت میں(الَّذِیْنَ استضعفوا)کے بجائے (الذین آمنوا)کیوں استعمال نہیں ہوا ؟ اس سوال کے جواب میں کہاجاسکتاہے کہ آیت میں استضعاف کی صفت کا استعمال ایک خاص نکتہ کے تحت ہے ۔زیربحث آیت سے پہلے آیت میں آیا ہے کہ فرعون نے لوگوں کے ایک گروہ کو ضعیف و محروم کردیاتھا یا ان کو ضعیف شمار کرتاتھااور اس کے بعد آیت میںاس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے ان ہی ضعیف اور ناتوان لوگوں کوکہ جنھیں فرعون ضعیف شمار کرتاتھا اپنی مخصوص نعمتوں سے نوازا اور ان کو سرداری اور حاکمیت تک پہونچادیا ۔حقیقت میں اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ خداکی قدرت اور ارادہ عالم فطرت اورمعاشرتی اسباب وعلل سے برتر ہے۔ اور طاغوتی معاشروں پرحاکم معیارات کھوکلے اور بے قیمت ہیں؛ مادی طاقت و ثروت سرداری کا معیار نہیں ہے ۔

اسی آیت کے مشا بہ سورئہ اعراف میں آیاہے:

( وَاَوْرَثْنَاالْقَوْ مَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا ) ( ۱ )

''اور ہم نے مستضعفین کو(سر زمین فلسطین کے)بعض مشرقی اور مغربی حصے (کہ جس میں برکت قرار دی تھی )میراث کے عنوان سے عطا کر دیئے ''۔

قر آ ن یہ بات سمجھا نا چا ہتا ہے کہ اس گرو ہ کا ضعیف ہو نا اس بات سے ما نع نہیں ہے کہ خدا وند قدوس ان کو رفعت و بلندی عطا کرے اور انھیں حکومت تک پہنچا ئے اور ان کو زمین کی نعمتوں کا وا رث بنا ئے ۔

مختصر یہ کہ لو گو ں کی اقتصا دی حا لت کی بنا ء پر معا شرے کی دوطبقوںمیں تقسیم اور مستضعفین او ر مستکبر ین کو ایک دوسرے کے مقا بل معا شرے کے طور پر دو بنیادی طبقو ںمیں تقسیم کر دینا قر آن کے نز دیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہاں پر ایک بنیادی نکتہ پر تو جہ ضرو ری ہے کہ اصولی طور پر غربت اور ثروت قرآن کی نگا ہ میں ایمان اور کفر یا حق اور با طل کے برابر نہیں ہے ۔ بہت ممکن ہے کچھ فقرا ء و مستضعفین قرآن کی نگا ہ میںبے وقعت ہو ں اورکچھ دولتمند قر آن کریم کی نگا ہ میں تائیدواحترا م کے لائق ہو ں ۔اب اگرہم ما رکسزم کی اصطلاح سے استعمال کر نا چا ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ جو شخص بھی حکمراں طبقہ سے تعلق رکھتا ہو وہ اسلا م کی نگا ہ میں برااور قابل مذمت ہے ۔

ہما رے اس دعوے کا شا ہد، جیسا کہ ہم پہلے بھی اس کی طرف اشا رہ کر چکے ہیں یہ ہے کہ مستضعفین کا ایک گروہ جو دنیا میں بھی ما دی امکا نا ت سے محرو م رہا ہے آ خرت میں بھی وہ جہنم میںداخل ہو گا اور اس پر عذاب کیا جا ئیگا

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۱۳۷۔

۳۶۷

دوسری طرف قرآن نے بعض دولتمندوں اور معا شرہ میں بلند مقام رکھنے والوں کی تعریف و تحسین کی ہے ، بعض الٰہی

انبیا ء علیہم السلام جیسے حضرت سلیمان ، داؤد ، اور یوسف علیہ السلام درجۂ نبوت، امت کی رہبری اور عصمت کی مانند معنوی مقا ما ت پر فا ئز ہو نے کے ساتھ ہی ساتھ سلطنت و حکومت کے بھی مالک تھے اور ممکن ہے یہ دعو یٰ بھی صحیح ہو کہ بعض او لو ا العزم انبیا ء بھی درجۂ حکو مت پر فا ئز رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ایسے گھرا نے میں پیدا

ہو ئے تھے جو دربار ِحکو مت سے وابستہ تھایا حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر عون کے گھر میں پر ورش پا ئی اور جوا نی تک فر عون کے در بار میں رہے اسی طرح اصحا بِ کہف حاکم وقت کے دربا ریو ں میں سے تھے لیکن در با ر سے بھا گ نکلے ، خدا نے ان پر احسا ن کیا اور ان کومنفرد امتیا زات سے نوا زا ،'' مو منِ آل فر عون '' فر عو ن کے در با ریو ں میں سے تھے اوراس کے با وجود ایسا مستحکم ایما ن رکھتے تھے کہ قر آن کا ایک سو رہ (سورئہ مو من )کا ان ہی کے نام پر رکھاگیاہے ۔

بنا بر این، قر آ ن کی رو سے دولت مطلق طور پر عظمت و بلندی کی مخالف نہیں ہے جیسا کہ فقر و محرومی بھی بالذات بلندی کا معیار نہیں ہے بلکہ حقیقی معیار وہی ایمان و کفر اور اطا عت و عصیا ن ہے مو من چا ہے فقیر ہو یا امیر، خدا کے نزدیک ذیقدر ہے جیسا کہ آیت میں آیاہے:

( اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲ اَتْقَٰکُمْ )

''بیشک تم میں سے خدا کے نز دیک زیا دہ محترم وہی ہے جو زیا دہ پر ہیز گا ر ہے ''۔

اور کا فر چا ہے فقیر ہو یا امیر ،مردودبا رگا ہ ہے ۔

۴۔چو تھا نکتہ یہ ہے کہ کسی فرد یا معاشرے پر خدا کی نعمتوں کا نزول بذا ت خود، خدا کے نزدیک نہ اس فرد یامعاشرہ کے تقرب اور بلندی کی دلیل ہے اور نہ ان کی پستی اور ذلت کی نشانی ہے بلکہ مادی نعمتو ں کے ذریعہ طرح

طرح کی الٰہی سنتیں جاری ہو تی ہیں کبھی نعمت مو منوں اور کا فروں کے امتحان کے لئے ملتی ہے جیساکہ ارشاد ہے :

( وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّوَالْخَیْرِفِتْنَةً وَاِلَیْنَاتُرْجَعُوْنَ ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ انبیا ۳۵۔

۳۶۸

''اور ہم تو اچھا ئی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزما ئیں گے اور تم سب پلٹا کر ہما ری ہی بارگاہ میں لا ئے جا ؤ گے ''

ایک دوسری آیت میںبھی یہی مفہوم بیان ہوا ہے

( فَاَمَّاالْاِنْسَانُ اِذَامَاابْتَلَٰهُ رَبُّهُ فَاَکْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَیَقُوْلُ رَبَّیْ اَکْرَمَنِوَاَمَّآاِذَامَاابْتَلٰهُ فَقَدَرَعَلَیْهِ رِزْقَهُ فَیَقُوْلُ رَبَّیْ أَهَانَنِ ) ( ۱ )

''لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کے پر ور دگارنے اس کو آزمانے کے لئے عزت اور نعمت دیدی تو کہنے لگا کہ میرے رب نے مجھے با عزت بنایا ہے اور جب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کردیا تو کہنے لگا کہ میرے پر وردگار نے مجھے ذلیل و رسوا کر دیاہے ''۔

جیسا کہ آیت سے پتہ چلتاہے نعمت سے مالا مال لوگوںکے لئے نعمت اور فقراء کے لئے فقرو غربت ایک الٰہی امتحان کا ذریعہ ہے؛ جناب سلیمان علیہ السلام جب خدا کی طرف سے مستحق انعام قرارپائے اور عظیم سلطنت اور حکومت پر فائز ہوئے تو قرآن کہتا ہے :

( قَالَ هَٰذامِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ ) ( ۲ )

''کہنے لگے :یہ میرے پر وردگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چا ہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں یا کفران نعمت کر تا ہوں ''۔

پس دنیا کی مادی نعمتوں کے سلسلے میں خدا کی عام سنتوں میں سے ایک سنت نعمت سے سر شار دولتمندوں کی آزمائش اور امتحان ہے اورپھر ان کا چھن جانا بھی ایک طرح کی آزمائش ہے ۔

اس کے علاوہ کہاجا سکتا ہے جیسا کہ پہلے بیان شدہ آیا ت میں آپ نے ملاحظہ کیا ،کبھی کبھی ممکن ہے کہ پریشانیاں ،مفلسی ،خشکسالی اوردنیا کی دوسری سختیاں حقیقت میں نعمت الہٰی ہوںجوانسان کو خداکی یاددلانے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول کر نے کا ذریعہ بن جا تی ہیں سورئہ انعام کی آیت۴۲ اور سورئہ اعراف کی آیت۹۴ میںاس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد کہ خدا پیغمبروں کی بعثت کے ساتھ سا تھ لوگوں کے لئے سختیاں اور پریشانیاں

____________________

۱۔سورئہ فجر آیت۱۵۔۱۶۔

۲۔سورئہ نمل آیت۴۰ ۔

۳۶۹

ہی نا زل کردیتاہے ۔تاکہ( لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُونَ ) '' شاید ہما رے سامنے گڑگڑائیں''( لَعَلَّهُمْ یَضَّرََّعُوْنَ ) ''شاید ہما رے سا منے گریہ و زاری کریں''اس تعبیر سے یہ واضح ہوتاہے کہ ان سختیوں اور دشواریوں کا باطن در اصل نعمت ہے چونکہ یہ انسان کی روح میں تضرع کی حالت اور خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کیفیت پید ا کر تی ہیں ۔

دوسری طرف کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چیز ظاہر میں تو نعمت نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں خدا کے قہر اور عذاب کے علاوہ کچھ نہ ہوتی سو رئہ آل عمران میں ار شاد ہو تا ہے :

( وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااَنََّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْر لَاِنْفُسِهِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْماًوَلَهُمْ عَذَاب مُّهِیْن ) ( ۱ )

''اور خبر دار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیںوہ ان کے حق میں کو ئی بھلا ئی ہے ،ہم تو یہ بس اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ جتنا گناہ کر نا چا ہیںکرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے ''۔

چونکہ خدانے کافروں کے اس گروہ سے اپنی عنایت کو دور کردیا یہ لوگ پستیوں میں چلے گئے۔خدا ان کو دنیاسے زیادہ استفادہ کی مہلت دیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پستی اور انحطاط کے راستے میں قدم بڑھائیں اور سخت ترین عذاب کے مستحق قرار پا ئیں۔

الٰہی نعمتوں کے سلسلے میں ایک اورسنت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی معاشرہ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرے تو خدا کی حکمت تقاضا کر تی ہے کہ اس معاشرے میں مادی نعمتوں کا نزول بڑھا دے کہ یہ لوگ مادی وسائل کے ذریعے معنوی ترقی اور کمال کی طرف زیادہ سے زیادہ قدم بڑھاسکیں ارشاد ہو تا ہے:

( وَلَوْاَنَّ اَهْلَ الْقُرَیٰ ئَ امَنُوْاوَاتَقَّوْالَفَتَحْنَاعَلَیْهِمْ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ ) ( ۲ )

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔۔۔''۔

اسی طرح سے اہل کتاب کے بارے میںارشاد فرماتا ہے:

( وَلَوْاَنَّهُمْ اَقَامُُوْاالتَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَااُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِنْ رَبَّهُمْ لَاَکَلُوْامِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ) ( ۳ )

''اور اگر یہ لوگ توریت و انجیل اور جو ان کی طرف پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اُن سب پرقائم ہوتے تو اوپر(آسمان) سے اور قدموں کے نیچے (زمین )سے سیر ہوکر رزق حاصل کرتے ۔۔۔''۔

جی ہاں! اگر کسی معاشرے نے تقوٰئے الٰہی اختیار کیا اور خداسے لو لگا ئی تو اُس پر مادی نعمتوں کی فراوانی خداکے اکرام کی دلیل ہوسکتی ہے لیکن یہ کو ئی عام قاعدہ نہیں ہے کہ ہر انعام و نعمت عزت و احترام اور ہر سختی و مصیبت خدا کے نزدیک ذلت اور خواری کی دلیل ہو ۔

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت۱۷۸۔ ۲۔سورئہ اعراف آیت۹۶ ۔۳۔سورئہ مائدہ آیت۶۶۔

۳۷۰

چند نفسیاتی پہلو

۱۔انبیاء علیہم السلام کی قوموں سے مربوط آیات سے کچھ اور نکات جو معلوم ہوتے ہیں ان میں نفسیاتی رنگ زیادہ پایاجاتاہے در اصل انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے ایساہے کہ نعمتوں کی فراوانی اور آسایش و آرام پاکر آہستہ آہستہ مست ومغرور ہوجاتا ہے اور اس قدر خوشی میں غرق ہوجاتاہے کہ اپنے پر وردگار کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے قرآن کریم کی بعض آیات میں اس طرح کے لوگوں کے بارے میں ایک دلکش تعبیر استعمال ہوئی ہے ؛سورئہ قصص میں ارشاد ہو تا ہے:

( وَکَمْ اَهْلَکْنَامِنْ قَرْیَةٍبَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا ) ( ۱ )

''اور ہم نے کتنی ہی بستیو ں کو ان کی معیشت کے غرور کی بنا ء پر ہلا ک کر دیا ''۔

( بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا ) یعنی وہ اپنی زند گی میں مست تھے( روٹی روزی کی فروانی کے نشہ میں چور ہو کر زندگی بسر کر رہے تھے) اور عام طور سے اس طرح مستی ما دی نعمتو ں کی فرا وانی سے ہی وجود میں آتی ہے۔

اسی طرح سورئہ مبا رکۂ علق میں ارشاد ہو تا ہے :

( کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغَیٰ اَنْ رئَ اهُ اسْتَغْنَیٰ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ قصص آیت۵۸۔

۲۔سورئہ علق آیت۶۔۷۔

۳۷۱

اس سر کشی اور غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان حق سے منحرف ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی وہ حق سے دشمنی اور انبیا ئے الٰہی سے جنگ کر نے پر آما دہ نظر آنے لگتا ہے ۔پس بہت سے لوگ نعمتو ںکی فراوانی اور آرام کی وجہ سے نفسیا تی طو ر پر انبیا ء اور ان کی دعوت کی مخا لفت کر نے لگتے ہیں جو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس کی طرف قر آن نے اشارہ کیا ہے۔

البتہ یہاں اس با ت کو مدّ نظر رکھنا چا ہئے کہ اس نفسیا تی عمل کا مطلب انسان کوسر کشی پر مجبور کرنا اور اس کا اختیا رسلب کر لینا نہیں ہے ۔قرآن کریم نے اگرچہ ان کے مضر اثرات کاانسانوں پر مؤثر ہونا قبول کیاہے مگرجن کے نفوس ما دیت سے متا ثر ہو کر مغرور اور مست ہو جا تے ہیں ان کی مذمت بھی کی ہے، دوسرے لفظو ں میں، قرآن ان چیزوں کو گمراہی کااصل سبب نہیں سمجھتااگرچہ یہ اسباب لو گو ں کی گمرا ہی کے لئے راستہ ہموار کر تے ہیں ۔

اس گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ما دی نعمتوں سے انسان منحر ف تو ہوسکتا ہے مگر یہ انحراف کے لئے علت تا مہ نہیں ہیں یہ آیات نعمتو ں سے متعلق ایک نفسیاتی پہلو سے پر دہ اٹھا نے کے علاوہ ایک تربیتی پہلو کو بھی بیان کر تی ہیں یعنی جن آیات میں ان مطالب کی طرف اشا رہ ہے اور جو تعبیریں دو لتمندوںاور مجرمو ں کی جانب سے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کے سلسلہ میں استعمال ہو ئی ہیں وہ سب انسا ن کو یہ درس دیتی ہیں کہ وہ متوجہ رہیں کہ کہیں ما دی فائدے اس کو راہِ حق اور خدا کی یا د سے منحر ف نہ کردیں ارشاد ہو تا ہے:

( یَٰأَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُلْهِکُمْ اَمْوَٰلُکُمْ وَلَااَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِﷲ ) ( ۱ )

''ایمان والو خبر دارتمہا رے اموال اور تمہا ری اولاد تمھیں یا د خدا سے غا فل نہ کر دے ''۔

۲۔قرآن کریم نے ایک اور نفسیاتی پہلو کی طرف بھی اشا رہ کیا ہے جو خود اپنے مقا م پر مؤثر اور اہم اثرات رکھتا ہے اورقرآنِ کریم نے اس کے اثر کو قبو ل بھی کیا ہے لیکن اس کو ذمہ دا ری بر طرف ہوجانے کا بہانا یا جبر و اکرا ہ کا باعث نہیں سمجھتا ۔البتہ اس نفسیاتی پہلو کی وضا حت سے پہلے ایک بات تمہید کے عنوان سے بیان کر نا ضروری ہے ۔

____________________

۱۔سورئہ منا فقون آیت۹۔

۳۷۲

عالم خلقت کی خصو صیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسا نو ں کی تخلیق میںمختلف قسم کے فرق پائے جاتے ہیں ، اس حقیقت کا انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ تما م انسان مختلف اعتبار سے جسم ،رنگ،جنس اور عقل و شعور وغیرہ میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔خدا وند قدوس نے اپنی حکمتِ بالغہ کی بنیاد پر یہ فرق رکھا ہے اور یہی فرق خلقت کے نظامِ احسن کا ایک حصہ ہے البتّہ کسی بھی انسان کو ان تخلیقی اختلافات پراعتراض کر نے کاحق نہیں کیونکہ کسی کا کو ئی حق خدا کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ اس حق کے تلف ہو نے کو مد نظر رکھ کر پر ور دگا ر عالم پر اعتراض کر سکے ۔مثا ل کے طور پر کو ئی انسان خدا وند عا لم پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ مجھے ایسا کیو ں بنایااور ویسا کیوں نہیں بنایا؟! اس''کیوں''کا کو ئی مطلب نہیںہے اس لئے کہ انسان خلقت سے پہلے معدوم تھا اور ظاہر ہے کہ ایک معدوم چیزوجود کے بعد موجدپر اعتراض کی قدرت نہیںرکھتی اور نہ ہی اسے اعتراض کا کو ئی حق ہے۔ خلقت کے بعد بھی جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سب خدا وند عالم کا عطیہ ہے اور جو کچھ اس کے پاس نہیں ہے اس کی نسبت بھی اعتراض کا حق نہیں رکھتا ورنہ حقیقت میںیہ اعترا ض حکمتِ الٰہی پر اعتراض ہوگا اور اگر جان بوجھ کرکیا جا ئے اور عملی صورت اختیار کر لے تو یہ ایک طرح کا کفرہے ۔

یقیناً خدا وند قدوس نے جب انسانو ں کو پیدا کیا اور ان میں سے ہر ایک کو مخصوص استعداد کا مالک بنا دیااور اُن پراُن کی استعداد اور توانا ئیوں کے مطابق احکام عا ئد کر دیئے تو اس مقا م پر خدا وند عالم نے خود اپنے ذمہ بندوں کے کچھ حقوق رکھے ہیں اور وہ یہ کہ اگر کو ئی شخص اپنی استعداد سے فائدہ اٹھاکراطاعت ِخدا کی راہ میں قدم بڑھا ئے تو خدا اس کو اپنے لطف و کر م سے جزا دے گا ۔ پس انسان کا خدا وند عالم پر اولاً جوحق ہے خود خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے نہ یہ کہ انسان اپنی طرف سے اس پر کو ئی حق رکھتا ہے دوسرے یہ کہ یہ حق صرف فرائض کی ادائیگی کے مر حلہ اور نیک اعمال کی جزاء کے عنوان سے ہے تکو ینی مرحلہ اور انسانو ں کو وجود عطا کر نے کے مو قع سے تعلق نہیںرکھتاجیسا کہ خداوند عالم سورئہ روم میں ارشاد فر ماتا ہے :

( وَکَانَ حَقًّاعَلَیْنَا نَصْْرُالْمُوْمِنِیْنَ ) ( ۱ )

''اور صا حبانِ ایمان کی مدد کر نا تو ہما را فرض تھا ''۔

____________________

۱۔سورئہ روم آیت۴۷۔

۳۷۳

جی ہا ں، خدا وند عالم نے حقیقی مو منوں کی مدداپنا حق قرار دیا ہے اوریہ ذمہ داری اپنے ذمہ میں لی ہے لیکن تکوینی نظا م کے تحت مخلوقات میں فرق غیر قابلِ انکا ر ہے اور نظا مِ احسن کے اسباب میں سے ہے قر آ نِ کریم نے بھی اس حقیقت پر تا ئید کی مہر لگا تے ہو ئے سورئہ زخرف میںاعلان کیا ہے :

( وَرَفَعْنَابَعْضَهُمْ فَوْقََ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاًسُخْرِیّاً ) ( ۱ )

''اور ہم نے درجات میںبعض کو بعض سے او نچا بنا یا ہے تا کہ ایک دوسرے سے کام لے سکے ''۔

سورئہ انعام میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقََ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْْ فِیْ مَائَ ا تَیٰکُمْ ) ( ۲ )

''اور بعض کے درجات کو بعض سے بلند کیا تا کہ تمھیں جو کچھ دیا ہے اس کے ذریعے آ زما ئے' '

البتہ چو نکہ یہ اختلاف حکمتِ الٰہی کے مطابق ہے لہٰذا قرآن اس کوایک مطلوب حالت سمجھتا ہے اور انسان کو دو سروں کو دی گئی نعمتو ں کی آرزو دل میں پالنے سے منع کر تاہے ۔ سورئہ نساء میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَ لَا تَتَمَنَّوْامَافَضَّلَ ﷲ بِهِ بَعْضَکُمْ عَلَیٰ بَعْض ) ( ۳ )

''اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیا دہ دیا ہے اس کی تمنّا اور آرزو نہ کر نا ''۔

بہر حا ل یہ تکو ینی اختلافات فطری طور پرمعا شرتی زند گی میں اثر انداز ہو تے ہیں جو شخص جسمانی طا قت ، ذہانت اور خلاقیت کی دوسروں سے بہتر صلا حیت رکھتا ہے جب اس استعداد و قابلیت سے صحیح استفا دہ کر تا ہے، مادی نعمتو ں سے زیا دہ بہرہ مندہو تاہے البتہ جیسا کہ ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ ما دی نعمتیں انسان کی سعا دت اور کرامت کی علا مت نہیں ہیں ،بزر گی تواس وقت آتی ہے کہ جب انسان اپنے اختیار سے راہِ راست کا انتخاب کرے ۔ قرآ ن یہ نہیں کہتا ''اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲ اَعْلَمَکُمْ ''ممکن ہے کسی کے پاس بہت زیا دہ علم ہو لیکن ا س کے با وجود وہ جہنمی ہو ،بزر گی کا معیا ر تو تقویٰ ہے اور کچھ نہیں ۔

اس تمہید کے بعدآئیے اصل بحث کا جا ئزہ لیتے ہیں ؛ ما دی نعمتو ں کی فراوانی کبھی بھی فضیلت اور بزر گی کاسبب

____________________

۱۔سورئہ زخرف آیت ۳۲۔

۲۔سورئہانعام آیت ۱۶۵ ۔

۳۔سورئہ نساء آیت ۳۲۔

۳۷۴

نہیں ہوتی مگرقر آ نِ کریم اس با ت کو بھی قبول کر تا ہے کہ جب معا شرے کے کچھ افراد مادی وسائل کے سہارے مخصوص مقا م اور عہدہ حا صل کر لیں تووہ معا شرے کے دوسرے ا فرا د پر مؤثر ہو سکتے ہیں۔ہر شخص کے اندر ایک کمزوری ہے جو عام طور سے پا ئی جاتی ہے اور وہ بزرگوں کی اند ھی تقلید کر نا ہے ؛لوگوںکے اندر یہ بچکا نہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ بڑے آ رام سے معا شرے کی ممتا ز شخصیتو ں کی پیر وی کر تے ہیں اور خود کو ان ہی کے کر دار میں ڈھالنے کی کو شش کر تے ہیں ۔ پس جس طرح دولت اورمعاشرتی مقام و حیثیت خودصا حبِ دولت و منصب کے غرور اور سر کشی کا سبب ہے اسی طرح دوسرو ں کو اندھی تقلید پر بھی ابھارتی ہے یہ جھکاؤ ایک نفسیا تی امرہے اور قرآ ن نے بھی اس کو ایک حقیقت کے عنوان سے قبو ل کیا ہے ؛ اسی حقیقت کی بنا پر اہلِ دوزخ کے ایک گروہ کے با رے میں قرآن کہتا ہے :

( وَقَالُوْارَ بَّنَااِنَّآاَطَعْنَاسَادَتَنَاوَکُبَرَآئَنَافَاَضَلُّوْنَاالسَّبِیْلاَ رَبَّنَائَ اتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذ َابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناًکَبِیْراً ) ( ۱ )

'' اور وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نے اپنے سر دا روں اور بزر گو ں کی اطا عت کی تو انھو ں نے ہمیںراستہ سے

بہکا دیا اب ان پر دو ہرا عذاب نا زل کر اور اور ان پر بہت بڑی لعنت کر '' ۔

مگر قر آ ن کی طرف سے اس حقیقت کی تصدیق کا مقصدہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو جبراور مجبوری قرار دے کر ذمہ داری کا سبب قرار دیدیںکیونکہ جو لو گ اپنی گمرا ہی کی ذمہ داری قو م کے بڑے لو گو ں کی گر دن پر ڈالتے ہیں ان کا عذر قابلِ قبول نہیں ہے ۔ اگر چہ انسان میں تقلید اور بڑوں کے بتا ئے ہو ئے راستہ پر چلنے کا عنصر پا یا جا تا ہے اور اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن تا ریخی تجربات کی روشنی میںخدا نے انسان کوان امو رکا مقابلہ کر نے کی قوت و صلاحیت بھی دی ہے ۔

ہما ری اس گفتگوکا لب لباب یہ ہے کہ اسلام انسان کے ارادہ اور اختیا ر کے سلسلہ میں بہت زیا دہ اہمیت قا ئل ہے اور اسی کو اصل سمجھتا ہے لہٰذا اختیاری کامو ں کے دائرہ وحدود میں کسی بھی عذر کو قبو ل نہیں کر تا ۔ اس بات کا شاہد کہ '' ا س طرح کے نفسیاتی پہلو انسان پراس کے اختیار ات کے راستہ سرے سے بند نہیں کر تے ''یہ ہے کہ بہت سے مستضعفین اگرچہ سماجی اعتبار سے ایک دم نچلے درجہ پر تھے مگر اس کے با وجود معا شرے کی بڑی شخصیتو ں سے متأثر

____________________

۱۔سورئہ احزاب آیت۶۷۔۶۸۔

۳۷۵

ہوئے بغیر انبیاء پرایمان لے آئے۔ مثال کے طور پر حضرت نوح کی قوم کے سر کردہ افراد آپ سے کہا کر تے تھے :

( قَا لُوْاأَنُوْمِنُ لَکَ وَ اتّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ ) ( ۱ )

'' ان لو گو ں نے کہا ہم آپ پر کس طرح ایمان لا ئیں؟! جب کہ آ پ کے تمام پیر و طبقہ کے لوگ ہیں''۔

اور سورئہ ہود میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَمَانَرَیٰک اتَّبَعَکَ اِلاَّالَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَابَادِیَ الرَّأْیِ ) ( ۲ )

''اور ہم تمہا ری اتباع کر نے وا لو ں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہما رے پست طبقہ کے سادہ لو ح افراد ہیں '' ۔

معلوم ہوا اس زمانہ کے غلط رسم و رواج کی بنا پر جو لوگ ''اراذل ''(نیچے طبقے والے)کہے جا تے تھے وہ خداکے پیغمبر پر ایمان لا کر اور قوم کے سر دا روں کی تقلید کے خلاف اقدام کر کے نجات پا گئے پس ایسا نہیں ہے کہ اگر معاشرہ کا کو ئی گروہ ''ارذلین '' (یعنی پست طبقے )کے زمرہ میں آتاہو تووہ معاشرہ کی فضا سے اتنا گھٹ جائے کہ اس سے ڈٹ کر مقابلہ کر نے کی قوّت ہی نہ رکھتا ہو ۔ مختصر یہ کہ انسان ایسے مستقل ارادہ کا ما لک ہے جس سے وہ ان تمام نفسیاتی اسباب کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے ۔

فلسفۂ تا ریخ کے بارے میں ایک نکتہ

زیر بحث آیات سے ایک اور نتیجہ جو حا صل ہو تا ہے وہ فلسفۂ تا ریخ کی ایک بحث سے تعلق رکھتا ہے ۔فلسفۂ تا ریخ سے آشنا ایک گروہ کا خیال ہے کہ تا ریخی تغیرات ہمیشہ تر قی کی طرف گا مزن ہو تے ہیں اور جبر تاریخ اس چیز کا تقا ضا ہے کہ معا شرے ہمیشہ تر قی کر تے رہیں اور تا ریخ کا ہر دور پہلے والے دور سے ممتا زاورزیادہ کامل ہو ۔

قرآنِ کریم کی آیا ت کے تحقیقی جا ئزے سے یہ بات واضح و روشن ہو جا تی ہے کہ مند رجہ بالاعقیدہ قر آن کی رو سے درست نہیںہے ؛ایسا نہیں ہے کہ ہر نیا معا شرہ قدیم معا شرہ سے معنوی اورما دی لحا ظ سے زیادہ کامل ہو ۔ مثال کے طور پر قرآن کریم معا شروں کی ما دی ترقی کے متعلق سورئہ روم میں ارشاد فر ماتا ہے :

( اَوَلَمْ یَسِیْرُوْافِیْ الٔاَرْضِ فَیَنْظُرُوْاکَیفَ کَانَ عَٰقِبَةُ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِهِمْ کَانُوْااَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَاَثَارُوْاالْاَرْضَ وَعَمَرُوْهَآ اَکْثَرَمِمَّاعَمَرُوْهَا ) ( ۳ )

'' کیا یہ لوگ رؤے زمین پر چلے پھر ے نہیں ہیںکہ دیکھتے جو لوگ ان سے پہلے گذر گئے ان کا انجام کیا ہوا؟

____________________

۱۔سورئہ شعراء آیت۱۱۱۔ ۲۔سورئہ ہود آیت ۲۷۔۳۔ سورۂ روم،آیت۹۔

۳۷۶

حالانکہ وہ لوگ قوّت میں ان سے کہیں زیادہ قوی تھے اور جس قدر زمین اُن لو گوں نے گوڑکرزراعت کے ذریعہ آباد کی ہے اس سے کہیں زیادہ زمین ان لو گوں نے آباد کی تھی ۔۔۔'' ۔

اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ پہلے کے بعض معاشر ے اور تہذیبیں علم اور ما وی صنعت کے اعتبار سے جدید معاشروں سے کہیں زیا دہ تر قی یا فتہ تھے ۔ بنیادی طورپرتا ریخ بشر یت میں بہت سی ایسی در خشاں تہذیبیں تھیں جو کچھ اسباب کی وجہ سے ختم ہو گئیں اور بعدمیںآنے والے معاشرے مد توں تک ان کے علمی آثار اورفنی وسائل سے محردم رہ گئے اس بنا پریہ لا زم نہیں ہے کہ انسانی تمدن ہمیشہ مادی ترقی کی راہ پرہی گا مزن رہاہو۔

روحانی ترقّیوں کے اعتبار سے بھی یہ بات روشن ہے ممکن ہے کہ ایک معاشرہ اپنے اختیار و انتخاب سے صحیح فائدہ اٹھاکر مو من ہو اور اس کی آئندہ نسلیں اپنے غلط انتخاب کی بنا پر کفر کا راستہ اختیار کرلیں ۔ لہٰذا کو ئی ایسی دلیل موجو د نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ جبر تاریخ کی بنا پر ہرمعاشرہ اپنے پہلے کے معاشروں کی ثقافت سے بالاترہو اور اس سے زیادہ روحانی اور اخلاقی اقدارر کھتا ہو ۔

البتہ اسلا م کی پیشینگو ئی کی بنیاد پر زمین پر ظا ہر ہو نے والا سب سے آخر ی معا شرہ ما دی اورمعنوی لحا ظ سے تا ریخ ِ انسانیت کا سب سے بہتر اور بلند معا شرہ ہو گا لیکن یہ معا شرہ جبرتا ریخ کی اساس و بنیا د پر نہیںبلکہ اپنے زما نہ کے لوگوں کے ذریعہ اختیار و انتخاب کے صحیح استعمال کے سبب مادی اور معنوی تر قیاںحاصل کرے گا اور خداوند عالم بھی اپنے انعام و اکرام سے ان کی نعمتوں میں اضافہ کر دے گا ۔ اس نکتہ کو بھی یاد رکھنا چا ہیٔے کہ سما جیات اور فلسفۂ تاریخ سے متعلق قوا نین و ضوابط کہ جن میں جبراور ایک دم سے انسان کے ہاتھوں سے اسکے اختیارات سلب کرلئے جا نے کی باتیں ہیں یہ سب قرآن کے نز دیک ہر گز قابل قبول نہیں ہیں۔

۳۷۷

خا تمیت

نبو ت کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا خدا کی جا نب سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا یا کسی خاص زمانہ میں ختم بھی ہو سکتا ہے اسلام کے نقطۂ نگاہ سے اس سوال کا جواب با لکل واضح و روشن ہے اور کسی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں ہے؛ اسلام کے ضروریات میں کہ جن کا ما ننا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ایک یہ ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کے آخری نبی ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کو ئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا اور نہ ہی اب مستقبل میں مبعوث کیا جائیگا ۔یہ اسلامی عقیدہ اتنا مشہور و معروف ہے کہ دو سرے مذاہب والے بھی بخوبی جا نتے ہیں کہ اسلام خاتمیت کا قائل ہے۔ اسلامی تعلیمات سے معمولی آشنائی رکھنے والا بھی اس بات کو بخوبی جا نتا ہے کہ مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (خاتم الا نبیاء ) اور آپ کا دین (خاتم الا دیان) ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا قرآن کریم میں اس عقیدہ کے شواہد مو جو د ہیں یا نہیں؟

ہم گذشتہ ایک بحث میں ( پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کے عالمی ہو نے ) سے متعلق کچھ آیات پیش کرچکے ہیں جن سے اِس بحث میں بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ؛

سورئہ فر قان میں ارشاد ہو تا ہے :

( تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الفُرْقَانَ عَلَٰی عَبدِهِ لِیَکُونَ لِلْعَٰلَمِیْنَ نَذِیِْراً ) ( ۱ )

''با بر کت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان (حق کو باطل سے جدا کرنے والی کتاب) نازل کی تا کہ وہ سارے جہان کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جا ئے''۔

اس آیت سے (ایک کامل آخری دین کی حیثیت سے ) خاتمیت اسلام کا استفادہ کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ عالمین کسی خاص زمانہ سے مخصو ص نہیں ہے جب تک دنیا قائم ہے ہر ایک امت چا ہے وہ کہیں بھی ہو (عالمین )

____________________

۱۔سورئہ فرقان آیت ۱۔

۳۷۸

کا جزء شمار ہو گی اور رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے لئے( نذیر ) یعنی ڈرانے والے ہوں گے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ آخر الزماں تک کو ئی دو سرا رسول و نبی مبعوث نہیں کیا جائیگاایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :

( ۔۔۔( وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هَٰذَاالقُرآنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ) ( ۱ )

'' اور یہ قرآن مجھ پر وحی کے ذریعہ اس لئے نازل کیا گیا کہ میں تمہیں اور جس جس تک ( اسکی خبر پہنچے ) اسکے ذریعہ اُسے ڈرائوں ''۔

لفظ ( مَن بَلَغ )رسو ل اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور حیات میں مو جو د تمام انسانوں کے ساتھ آئندہ زمانے کے بھی تمام انسانوں کو شامل ہے اور اس کا مطلب وہی خاتمیتِ دین اسلا م ہے ۔

ایک اور جگہ ارشا د ہو تا ہے :( وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّاکَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیْراًوَنَذِیْراً ) ( ۲ )

'' اور ہم نے تم کو نہیں بھیجا مگر تمام لو گو ں کے لئے خو شخبری دینے اور ڈرا نے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لو گ نہیں جا نتے ''۔

مفسرین کے کہنے کی بنیا دپر لفظ ''کا فةً ''''ناس '' کے لئے حال کے طور پر استعمال ہو ا ہے اس لئے کہ ا ولاً ''تائے تا نیث ' ' کے ساتھ آیا ہے دوسرے یہ کہ قرآ ن کریم میں دو سرے مقا مات پر بھی اسی عام معنی میں استعما ل ہواہے۔( ۳ )

اس بیان کے اعتبار سے آیت کا مد لول یہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصر افراد اور جو لوگ بعد میں آئیں گے سب انذار کے مخا طب ہیں، اور دعوت اسلام ان کو بھی شا مل ہے ۔ اس صو رت میں دو سرے نبی کا کو ئی تصو ر ہی با قی نہیں رہ جا تا ۔

اس طرح کی تمام آیات کے علا وہ بھی جن میں سے ہر آیت کسی نہ کسی عنوان سے ہما رے مد عا کو ظا ہر کر تی ہے،ایک آیت اور بھی ہے جو خا تمیت پر صاف صاف دلالت کر تی ہے ار شا د ہو تا ہے :

( مَاکَا ن مُحَمَّدَ اَبَآ أَحَدٍ مِنْ رِّجَا لِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْ لَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۱۹۔

۲۔سورئہ سبأ آیت ۲۸۔

۳۔لفظ'' کا فّةً' زیربحث آ یت کے علا وہ بھی اور دو سری چا ر آ یتو ں میں استعما ل ہو ا ہے کہ ان سب مقامات پر عمومیت کے معنی پر دلالت کر تا ہے ''۔

۴۔سورئہ احزاب آیت ۴۰۔

۳۷۹

''محمد تمہا رے مر دوں میں کسی کے با پ نہیں ہیں لیکن وہ ﷲ کے رسول اورخاتم انبیاء ہیں ''۔

اگر چہ یہ آیت اپنے منھ بو لے بیٹے زید کی طلاق شدہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی کے جواز کو بیان کررہی ہے لیکن اس میں ضمناًخا تمیت کامسئلہ بھی بیان کیا گیاہے ۔

قبل از اسلام اپنے منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی نہ کرنے کا دستور تھا خداوند عالم نے اس غلط رسم کو منسو خ کرنے کی خاطر رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوحکم فرمایا کہ زید کی مطلقہ سے شادی کرلیں ۔ اس کے بعد آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور حیات میں کو ئی ایک بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حقیقی بیٹا نہیں ہے اور زید بھی صرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منھ بولے بیٹے ہیں(حقیقی بیٹے نہیںہیں ) ۔ اس بناء پر زید کی مطلقہ سے شادی کرنے میںپیغمبر کے لئے کو ئی ما نع نہیں ہے۔

اس بناء پر صدرِ آیت ایک فقہی اور تاریخی مسئلہ سے مر بو ط ہے لیکن آیت کے ذیل میں''خاتم النبیین'کا لفظ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت پرنص ہے ۔ قرائت مشہور کے مطابق

'' خَا تَمْ '' تا ء پر زبر انگشتری (انگو ٹھی )کے معنی میں ہے لیکن انگشتری کے لئے ایک لفظ ''ختم'' کے مادہ سے کیوںبنا یاگیا اس کی دلیل یہ ہے کہ گذشتہ زمانہ میں عام طور سے خطوط کے آخر میںپیغامات کو لپیٹ کر اُن کے لفافہ پر انگوٹھی کی مہر لگادیتے تھے چونکہ خطوط کی انتہا اسی پر ہو ا کرتی تھی لہٰذا اس کو خاتم کہا کرتے تھے ۔ اہل زبان کے بقول ''خاتم ''کا مطلب''مایخُتَمُ بِہِ''ہے یعنی جس کے ذریعہ کو ئی چیز ختم ہو ۔ اس بنیاد پر ''خاتم النبیین'' یعنی ''مَنْ یَختَم بِہِ النُبُوَّ ة''(وہ کہ جس پر نبوت ختم ہو جا ئے) اور اس معنی کو تمام اہل لغت نے بیان کیا ہے ،کسی نے بھی اس میں شبہ نہیں کیا ہے پس آیہ شریفہ کے اس حصّہ کا واضح مد لول یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے مبعوث ہو نے کے بعد انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ۔

یہاں یہ بات بھی لا ئق ذکرہے کہ خاتمیت اسلام کی بات صرف قرآن سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر متعدد روا یات بھی دلالت کرتی ہیں جو ہماری کتب احا دیث میں مو جو د ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے

مروی ہے : نبوت ایک محل کی مانند ہے جس کی آخری اینٹ میں ہوں اور میرے آنے کے بعد اس محل کی عمارت مکمل ہو گئی ہے ۔( ۱ )

خلا صۂ کلام یہ کہ قرآن اور اسلامی روایات کی رو سے خاتمیت کے مسئلہ میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں پایا جاتا البتہ اس با رے میں بے شمار شبہات پیدا کئے گئے ہیںجن کا ایک جا ئزہ پیش کر دیناقا رئین کرا م کے لئے ضرورمفید ثابت ہو گا ۔

____________________

۱۔ مو جودہ دور کے ایک دا نشمند نے کتاب ( معالم النبوّة) میں ۴۵ حدیثیں اس باب میں جمع کی ہیں او ر اس سے بڑھکر یہ کہ خاتمیت کے اثبات میں مبسوط بیان قلمبند کیا ہے ۔ رجوع فر مائیے : جعفر سبحانی معالم النبو ة فی القرآن الکریم بیر دت دار الا ضواء ۴۰۵ ھ صفحہ ۱۴۸سے۱۸۰۔

۳۸۰