راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135620
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135620 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

جس راستہ کاانتخاب کرے سمجھ بوجھ کر انتخاب کر ے دوسرے الفاظ میں اُس پر حجت تمام ہو چکی ہو ۔اس سلسلہ میں قرآ نِ کریم میں بہت سی آیات پائی جاتی ہیں منجملہ یہ آیت:

( رُسُلاًمُبَشِّرِیْنَ ومُنْذِ رِیْنَ لِئَلَّایَکُوْ نَ لِلنَّاسِ عَلَٰی اللَّهِ حُجَّة بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَا نَ ﷲ عَزِیْزاً حَکِیْماً ) ( ۱ )

''اور ہم نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تاکہ خدا کے سامنے لوگوں کے پاس کوئی حجت نہ رہ جائے اور خدا توبڑا ہی عزیز و حکیم ہے''۔

خا ص طور سے آیت کے ذیل میں خداوند عالم نے جو فرمایا ہے: ( وَکَا نَ ﷲ عَزِیْزاً حَکِیْماً ) اس سے واضح ہوتاہے کہ اتمام حجت حکمت الٰہی کا لازمہ ہے یہ تقر یباً وہی بات ہے جس کا ہم نے اپنے استد لال میں ذکر کیا تھا کہ حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ نبوت کا راستہ انسان کے لئے کھلا رہے ۔ا سی سے ملتی جلتی ایک اور آیت ہے( البتہ یہ آیت جن کا ہم ذکر کررہے ہیں بعض میں مخاطب ایک مخصوص قوم ہے یا کہیں کہیں اہل کتاب سے خطاب ہے یا مشرکین مکہ مخاطب ہیںلیکن مضمون سب کا ایک ہی ہے )

( اَنْ تَقُوْلُوْااِنَّمَااُنْزِلَ الْکِتَا بُ عَلَیٰ طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَاِنْ کُنَّاعَنْ دِ رَاسَتِهِمْ لَغَٰفِلِیْنَاَوْتَقُوْلُوْالَوْاَنَّااُنْزِلَ عَلَیْنَاالْکِتَابُ لَکُنَّااَهْدَیٰ مِنْهُمْ ) ( ۲ )

ہم نے نبی کو کتاب کے ساتھ بھیجا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب خدا تو بس صرف دو ہی گرو ہوں (یہودو نصاری) پر جو تم سے پہلے تھے نازل ہوئی ہے اور ہم تو ان کے پڑھنے ( پڑھانے ) سے بے خبرتھے یا یہ نہ کہنے لگوکہ اگر ہم پر بھی کتاب ( خدا ) نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں سے بہتر طور پر راہ راست طے کرتے''۔

اگر ہم نے تمہارے لئے پیغمبر نہ بھیجا ہوتا توتم کہہ سکتے تھے کہ خدا نے یہودیوں کے لئے پیغمبر بھیجا اور انھوں نے راہ حق کو جان لیا تھا اگرچہ ان میں سے اکثر گمراہ ہو گئے عیسائیو ں کا بھی یہی حال ہوا اگر خدا نے ہمارے لئے پیغمبر بھیجا ہوتا تو ہم اس سے بہتر طور پر راہ حق کی پیروی کرتے اسی لئے ہم نے تمہارے لئے بھی پیغمبر بھیجاتا کہ تمہارا بھی امتحان لیا جاسکے ۔

____________________

۱۔سورئہ نساء ، آیت ۱۶۵ ۔

۲۔سورئہ انعام آیت ۱۵۶ و۱۵۷ ۔

۲۱

دلچسب بات یہ ہے کہ قرآ ن میں ایک اور جگہ ارشاد ہو تا ہے کہ لوگو ں نے پیغمبر کی بعثت سے پہلے قسم کھا رکھی تھی کہ اگر خدا ہمارے لئے کوئی پیغمبر بھیجے تو ہم اس کی پیروی کرینگے اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے :

( وَاَقْسَمُوْابِﷲ جَهْدَ اَ یْمَا نِهِمْ )

معلوم ہواکہ وہ لوگ پہلے سے خدا پر عقیدہ رکھتے تھے اور انھو ں نے بہت بھاری بھاری قسمیں کھا رکھی تھیں :

( وَاَقْسَمُوْابِﷲ جَهْدَ اَیْمَا نِهِمْ )

اور انھوںنے بڑی سختی سے قسمیں کھا رکھی تھیں:

( لَئِنْ جَا ئَ هُمْ نَذِ یْر لَیَکُوْ نُنَّ اَهْدَیٰ مِنْ اِحْدَ ی الاُمَمِ )

'' کہ اگر ان کے درمیان کو ئی ڈرانیوالا (پیغمبر ) آئیگا تو وہ دوسری تمام امتو ں سے زیا دہ ہدایت یا فتہ ہونگے''۔

( فَلَمَّاجَائَهُمْ نَذِیْرمَاْزَادَهُمْ اِ لَّانُفُوْراً ) ( ۱ )

''پھر جب ان کے پاس ڈرانے والا (رسول ) بھیج دیا تو اس کی اتباع اورحمایت کے بجائے اور زیادہ اس سے دور بھاگنے لگے ''۔

پس معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں پر حجت تمام کرنا رہا ہے ایک اور آیت میں اہل کتاب سے خطاب ہے :

( یَاَهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَیٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْامَاجَائَ نَامِنْ بَشِیْرٍوَّلاَنَذِیْرٍفَقَدْجَاْ ئَکُمْ بَشِیْر وَّ نَذِ یْروَاللَّهُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ) ( ۲ )

'' اے اہل کتاب جس وقت پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی ہمارا رسول تمہارے پاس آیاکہ تم پر حق آشکار کردے اور تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے درمیان کوئی خو شنجری دینے والا یا عذاب خدا سے ڈرانے والا (نبی ) نہیں آیا ہے تمہارے درمیان خوشنجری دینے والا اور ڈ رانے والا ( پیغمبر ) آچکا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ''۔

البتہ اہل کتاب خود کو ایک نبی کا پیروسمجھتے تھے لیکن اس انتظار میں تھے کہ ایک اور پیغمبر آجائے شاید اس وحی کی بنیاد پر ان کا یہ انتظار تھا جو پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہو چکی تھی اور ان کو آخری نبی کی بشارت دی جا چکی تھی :

____________________

۱۔سورئہ فا طر آیت ۴۲ ۔

۲۔سورئہ ما ئدہ آیت۱۹۔

۲۲

( بِرَسُوْلٍ یَا تِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُهُ اَحْمَدُ ) ( ۱ )

'' ایک پیغمبر کی کہ جن کا نام احمد ہو گا اور میرے بعد آئیں گے ''۔

میں تم کو بشارت دیتا ہوں بہر حال یہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے اور یہ اسلئے تھا کہ تمہارے پاس یہ کہنے کا بہانہ نہ رہے چونکہ پیغمبر نہیں آیا اسلئے ہم گمراہ ہو گئے اس لئے کہ کتاب میں تحریف ہو چکی تھی یا گذشتہ انبیا ء علیہم السلام کی تعلیمات ہم تک نہیں پہنچی تھیں ۔ایک اور نبی کی ضرورت تھی یا یہ کہ چونکہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اس لئے ہم اس کے منتظر تھے اور جب وہ نہ آیا تو ہم شک میں پڑ گئے تم ایسی با تیں نہ کر سکو اس لئے :( فَقَدْ جَائَکُمْ بَشیْر وَنَذِیْر )

''تمہارے در میان ایک ڈرانے والااوربشارت دینے دالا(رسول )آچکا ہے''۔

دوسری آیت میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَ لَوْاَ نَّااَهْلَکْنَٰهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوْارَبَّنَالَوْلَا اَرسَلْتَ اِلَیْنَارَسُوْلاً فَنَتَّبِعَ ئَ ایَا تِکَ مِنْ قَبَلِ اَنْ نَذِ لَّ وَنَخْزَیٰ ) ( ۲ )

''اور اگر ہم ان کو رسول کے آنے سے پہلے ہی عذابِ ہلاکت میں مبتلا کر دیتے تو ضرور کہتے کہ اے ہمارے پالنے والے تونے ہمارے پاس (اپنا ) رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم اپنے ذلیل و رسوا ہو نے سے پہلے ہی آیتو ں کی پیروی کر لیتے ''۔

خدا نے لوگوں کو اس لئے خلق فرما یا تھا کہ وہ اپنے اختیار کے ذریعہ صحیح راستہ یا غلط راستہ کا انتخاب کریںاور اگرغلط راستہ کو انتخاب کیا تو اپنے اعمال کی سزا پائیںپس غلط راستہ انتخاب کر نے والوں پر عذاب تو نازل ہو نا ہے لیکن اگر ہم پیغمبر بھیجنے سے پہلے ہی اُن پر عذاب نا ز ل کرتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اچھے اور برے راستہ کو نہیں پہچان سکے تو نے پیغمبر کیو ں نہیں بھیجا ؟ کہ وہ ہماری ہدایت کرتا ؟یا ہم غفلت میں مبتلا تھے تو تونے کسی کو کیوں نہیں بھیجا کہ وہ ہم کو غفلت سے بیدار کر تا ؟لہٰذا اس طرح کے بہانو ں کے سدّ باب کے لئے انبیاء علیہم السلام کا بھیجا جانا ضروری ہے ۔

ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَمَاْکُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ صف آیت۶۔

۲۔سورئہ طہ آیت۱۳۴۔

۳۔سورئہ اسراء آیت۱۵ ۔

۲۳

''اور ہم جب تک کسی رسول کو بھیج کر اتمام حجت نہ کر دیں کسی پر عذاب نہیں کیا کرتے ''۔

یہ آ یات اس بات کی تا ئید کر تی ہیں کہ نبوت کا ایک مقصد کم سے کم اتمام حجت کر کے عذر کی راہیں بند کر نا ہے ۔

لوگوں کی تعلیم

اسی طرح دوسری آ یات بھی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر کو بھیجا گیا کہ وہ لوگو ں کو اُن چیزوں کی تعلیم دیں جو وہ نہیں جانتے اور اسکا نتیجہ بھی تقریبا یہی ہے یعنی جس چیز کو خود لوگ اچھا سمجھتے ہیں اُس پر عمل کریں چاہے کوئی پیغمبر مبعوث نہ بھی ہوا ہو ۔اسی لئے حتی جن محرومین تک پیغمبروں کی دعوت تبلیغ نہیںپہنچی ہے وہ بھی اپنی عقل کے مطابق جواب دہ ہیں ۔بہر حا ل نبوت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے یا خود نہیں سمجھ سکتے ان کو سکھایا جائے ارشاد ہو تا ہے :

( وَ يُعَلِّمُکُمْ مَاْ لَمْ تَکُوْ نُوْا تَعْلَمُوْنَ ) ( ۱ )

''اور تم کو وہ باتیں بتائے جن کی تمہیں (پہلے سے )خبر (بھی ) نہ تھی ''۔

اور سورئہ نساء میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَ عَلَّمَکَ مَاْ لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ) ( ۲ )

''اور جو باتیں تم نہیں جانتے تھے تمہیں سکھا دیں ''۔

یہ آیتیں بھی تقریباًاسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں ۔

تحریفات کی اصلاح

بعض آیات سے کچھ دوسرے مطالب بھی معلوم ہوتے ہیں جوشاید تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے نہ ہو ں شاید اصل بحث میں وارد ہونے سے پہلے تمہید کے طور پر ان کا ذکر نامناسب نہ ہو فرض کیجئے کہ خدا نے ایک پیغمبر بھیجا اور کچھ لوگو ں کو راہ حق کی ہدایت کی پھر کچھ زمانہ گزرنے یاکسی اور وجہ سے اس پیغمبر کی تعلیمات میں تحریف کردی گئی اور جو چیز لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ تھی اب ممکن ہے وہی گمراہی کا باعث ہو اور ہم نے تو خو د اپنے زمانے میں بہت سے

____________________

۱۔سو رئہ بقرہ آیت ۱۵۱ ۔

۲۔سورئہ نساء آیت۱۱۳۔

۲۴

ایسے نمو نہ دیکھے ہیں ۔وہ انجیل جو خدا کی طرف سے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی آج اس کاکوئی ایک حصہ بھی اصل شکل میں موجود نہیںہے۔شایددنیا کے تمام کتب خانو ں میں انجیل کا ایک بھی اصل نسخہ نہ مل سکے ۔جو کچھ ہے وہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شاگردوں کے نام سے جانے جا تے ہیں جبکہ اُن افراد کی طرف مو جو دہ انجیلوں کی نسبت بھی یقینی نہیں ہے ۔ان مختلف انجیلوں کا لہجہ اور طرز تحریر کسی تاریخی کتاب کی طرح ہے مثلاً فلاں دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاگر دوں کے در میان آ ئے اور یہ کہا اور انھوں نے سوال کیا اور آپ نے یہ جواب دیا وغیرہ وغیرہ ۔

ظاہر سی بات ہے کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اسی کتاب میں ایسے مطالب ہیں جو عقل کے بھی خلاف ہیں اور آسمانی شریعتوں کا جن باتوں پر اتفاق ہے اسکے بھی خلاف ہیں اس میں شر ک کی باتیں بھی ہیں اور آسمانی کتابوں کے متفقہ احکام میں تحریف بھی ہوئی ہے لہٰذا یہ وہ بات ہے جسکا امکان موجود ہے (ادل دلیل علی امکان الشی وقوعہ) (یعنی کسی شئی کے ممکن ہو نے کی محکم ترین دلیل اُسکا واقع ہو نا ہے )لہٰذا ممکن ہے خدا کسی پیغمبر کو بھیجے اُ ن لوگوں کو حق کا راستہ بھی بتادے اُن پر کوئی کتاب بھی نازل کر دے اور بعد میں اُس کتاب میں تحریف ہو جا ئے ۔ایسی حالت میں بھی یہ لوگ اُن لوگوں کی طرح ہیں کہ جن کے درمیان کوئی پیغمبر اور کتاب نہ آئی ہو ۔ضرورت ہے کہ کوئی پیغمبر آئے اور کم سے کم اُن تحریفات کی اصلاح کرے ۔اب چاہے نئی شریعتیں آئیں یا نہ آئیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن لو گو ں کو انحراف و گمراہی سے نکال کر حق کی طرف دعوت دینا خود اپنی جگہ نئے نبی کی آمد کی ایک معقول وجہ ہے ۔

دینی اختلاف کا بر طرف کرنا

بعض آیات اس مطلب کی طرف اشارہ کر تی ہیں کہ اہل کتاب کے علما ء نے کچھ مطالب لوگوں سے چھپا رکھے تھے اور لوگوں سے نہیں بیان کر تے تھے یہ وہ اختلافات تھے جو علمائے اہل کتاب نے خود اپنے مفادات کی خاطر ایجاد کئے تھے یہ چیز بھی سبب بنتی کہ خدا کوئی پیغمبر بھیجتاتاکہ وہ ان اختلافات کو رفع دفع کر کے لوگوں کے سامنے حق کی نشا ندہی کرے سورئہ ما ئدہ میں ارشادہو تا ہے :

( یَٰآهْلَ الْکِتَابِ قَدْجَائَکُمْ رَسُوْلُنَاْیُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْراًمِمّا تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُوْاعَنْ کَثِیْرٍ ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ مائدہ (آ یت ۱۵ ۔

۲۵

''اے اہل کتاب تمہا رے پاس ہما را پیغمبر آ چکا ہے تا کہ( کتاب خدا ) کی بہت سی اُن باتوں کو جنہیں تم چھپایا کر تے تھے تمہا رے سامنے صاف صاف بیا ن کر دے اور تمہاری بہت سی خطائوں کو در گذر کر دے ''۔

تم نے آ سمانی کتاب کے بہت سے مطالب چھپا رکھے تھے واضح ہے کہ اُن میں ایسے علماء موجود تھے جو جانتے تھے اور لوگوںکو نہیں بتا تے تھے البتہ دوسری آیات بھی ہیں جو دلالت کرتی ہیں یہ لوگ کچھ چیزیں خود لکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ خدا کی جانب سے ہے ۔قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :

( فَوَیْل لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْ نَ هَٰذَامِنْ عِنْدِاللَّهِ ) ( ۱ )

''پس وائے ہوان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں لوگوں سے کہتے پھر تے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں سے آئی ہے ''۔

اور سورئہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :

( یُحَرِّفُوْ نَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ) ( ۲ )

''یہ لوگ کلام کو ان کے اصل مقام سے ادھر ادھرکر دیتے ہیں ''۔

اہلِ کتاب کے بہت سے علماء کا یہی کام تھا وہ یہی کیا کر تے تھے ۔قرآن فرماتا ہے پیغمبر اسلئے آ ئے ہیں کہ اُن حقائق کو آشکار کریں جن کو تم نے چھپا رکھا تھا خدا وند عالم فر ما تا ہے :

( کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِ رِیْنَ وَاَنزَلَ مَعهُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النََّاسِ فِیْماَاخْتَلَفُوْافِیْهِ وَمَااخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّاالَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَاجَائَتْهُمُ الْبَیِّنَٰتُ بَغْیاً بَیْنَهُمْ فَهَدَی اللَّهُ الَّذِیْنَ ء امََنُوْالِمَااخْتَلَفُوْافِیْهِ مِنَ الْحَقّ بِاِذْ نِهِ وَاللَّهُ یَهْدِیْ مَنْ یَشَآئُ اِلَٰی صِرَاطٍ مَُسْتَقِیْمٍ ) ( ۳ )

''لوگ ایک امت کی شکل میں تھے پس خدا نے (نجات کی ) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے ) ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور اُن پیغمبروں پر برحق کتاب بھی نازل کی تا کہ جن باتوں میں لوگ جھگڑ تے تھے (کتاب خدا اسکا فیصلہ کر دے )لیکن سوائے اُن لوگوں کے کہ جن کو کتاب دی گئی تھی اورجن پر حجت آشکار ہو چکی تھی

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۷۹۔

۲۔سورہ نساء آیت ۴۶۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت۲۱۳۔

۲۶

صرف آ پس میں حسد کے سبب ( اُ ن کے بارے میں اختلاف کیا ) ورنہ کسی اور نے ان میں اختلاف نہیں کیا اور خدا نے اپنی مہر بانی سے ایمان داروں کو وہ راہ حق دکھا دی کہ جن میں ان لوگوں نے اختلاف کر رکھا تھا اور خدا جس کوچاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کر دیتا ہے ''۔

اس آیۂ شریفہ ِمیں بہت زیا دہ بحث کی گنجا ئش ہے بہت سے ایسے نکتہ ہیں جو پہلی نگاہ میں مبہم نظر آتے ہیں کہ ا ن کے بار ے میں بحث کی ضرورت ہے منجملہ( کَا نَ النّاسُ امَّة ً وَاحِدَةً ) میںایسے زمانے کی طرف اشارہ ہے کہ جب لوگ ایک امت تھے ۔یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ امت واحد سے کیا مراد ہے ؟کیا اعتقا د کے لحاظ سے لو گ ایک تھے یا کسی اور لحاظ سے ؟مثلاً جگہ اور مقام کے اعتبار سے ،یا ایسے لوگ تھے کہ جن کی زندگی میں سادگی اور یکسانیت پائی جاتی تھی اور اگر مراد وحد تِ عقیدہ ہے تو آیا وہ لوگ حق پر تھے یا اُن کے اعتقاد باطل تھے ؟

علّا مہ طبا طبائی طاب ثراہ نے بعد کے جملہ کو قرینہ قرار دیکر اس جملہ کے بارے میں یہ خیال ظاہر فرمایا ہے کہ لوگ ایک سیدھی سادی یکساں زندگی بسر کرتے تھے جناب آدم علیہ السلام کے روئے زمین پر بسنے کے ابتدائی ایّا م میں ہی کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اولا دیں بھی تھیں اور وہ با لکل سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے پیچیدہ قسم کے معاشرتی مسائل نہیں پائے جاتے تھے کہ اختلا ف کا سبب بنتے اور اگراختلا ف تھے بھی تو شخصی اختلا ف تھے ۔

بہر حال علا مہ طبا طبا ئی( رضو ا ن ﷲ علیہ) نے اس طرح کا خیال ظا ہر کیا ہے لیکن احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ سب لو گ عقیدہ کے لحا ظ سے ایک عقیدہ حق پر قائم رہے ہوں یعنی ایک ایسا زمانہ گذرا ہو کہ جب سب موحد ہوں اور اپنے انبیاء علیہم السلام اور پیغمبر منجملہ حضرت آدم علیہ السلام کی باتوں پر عمل کرتے رہے ہوں اب اگر کچھ لوگ مخالفت کرتے بھی رہے ہوں گے تویہ مخالفت ہرامت میں ہوتی ہے لیکن مسلک میں اختلاف نہ رہاہوگا ایک توحیدی مسلک تھا جو حضرت آدم انسانوں کے لئے لائے تھے اور معاشرے کا مسلک ومذہب وہی تھا پھر یہ زمانہ ختم ہوگیا مختلف مذاہب ومسالک وجود میں آئے شرک آلود مسالک ، مختلف مذا ہب وجو د میں آجا نے کے بعد جب معا شرہ میں حق گم ہو گیا تو اس بات کی ضرو رت پیش آئی کہ دو سرے پیغمبر مبعو ث ہو ں خود حضرت آدم نبی تھے لیکن ایک مد ت گزر گئی مثلاً ایک ہزا ر سال ، اس وقت ایک ہزا ر سال بھی کچھ نہیں تھے روا یت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر تقر یباًنوسو سال تھی ۔ ایک نسل گزر گئی اور لوگ بھی حضرت آدم علیہ السلام کے دین پر رہے پھر اس کے بعد مثلاً دوسرے ہزا رے میں جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا سے تشر یف لے گئے تو لو گو ں میں کچھ اختلا فات پیش آئے اور شرک آلو د مذا ہب وجو د میں آ گئے : فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِّیْنَ ''خدا نے حضرت آ دم علیہ السلام پر اکتفا ء نہ کی اور انبیاء علیہم السلام کو بھیجنا شرو ع کر دیا :

۲۷

''( ثُمَّ اَرْسَلْنَارُسُلَنَا تَتْرَا ) ''۔( ۱ ) ''خدا نے یکے بعد دیگرے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ لو گو ں کے در میان پیش آ نے والے اختلا فات بر طرف ہوجا ئیں ''۔( فَبَعْثَ ﷲ النَبِیِّیْنَ مُبَشَِّریْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَاَنْزَلَ مَعْهُمُُ الْکِتَابَ ) ( ۲ )

''پھر ﷲ نے بشارت دینے اور ڈرا نے وا لے نبیو ں کو بھیجا اور ان کے سا تھ بر حق کتا ب نا زل کی ''۔شاید اس آیت کی بنا ء پر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آ دم علیہ السلام کو کتاب نہیں ملی تھی بلکہ زبا نی تبلیغ کیا کرتے تھے اور لو گو ں کے درمیا ن کو ئی مدوّن کتاب نہیں تھی ۔ اس کے بعد کے دور میں جب لو گو ں کے درمیا ن اختلا فات وجو د میں آ ئے تو خدا نے انبیا ء علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتاب نا زل فر ما ئی یعنی وحی شدہ متن جو لوگوںکے درمیا ن محفو ظ رہا ۔ یہ بات کہ جناب آ دم پر الہا م ہو اکہ لو گو ں کو حج پر جا نے کیلئے کہئے ( کیو نکہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حج خلقتِ آ دم علیہ السلام کے آ غاز سے تھا ) او ر لوگ چو نکہ جا نتے تھے کہ حضرت آدم علیہ السلام پیغمبر ہیں اور ان پر وحی ہو تی ہے لہٰذا عمل کر تے تھے لیکن بعد میں جب اختلا فا ت وجو د میں آئے تو ایک ایسے متن کی ضرورت پیش آئی جو لوگو ں کے در میان محفو ظ رہے نو شتے کی صو رت میں ہو یا کسی اور صورت میں اور اس کی عبارتیں محفو ظ رہیں کتاب کیوں نازل کی ؟ خدا وند عالم فر ما تا ہے :( لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَااخْتَلَفُوْافِیْہِ )''تا کہ جن با تو ں میںلوگ جھگڑاکرتے تھے کتاب خدا اْن کے اختلافا ت ختم کر دے اور اپنا فیصلہ سنادے''۔ ( وَمَااخْتَلَفَ فِیہِ اِ لَّا الَّذِ ینَ اُوْتُوْہْ )'' لو گوں میں اختلاف کے علاوہ خود کتاب کے بارے میں بھی اختلاف رونماہوا ، کن لوگوں نے اختلاف کیا؟ اْن لوگوں نے جو عمدا ًکتاب میں تحریف کیا کرتے تھے : ( بَغیاًبَینَھْم ) ظلم و ستم اور سر کشی کی بنیاد پر دین خدا میں اختلافات ایجاد کیا کرتے تھے ۔ ظاہر ہے وہ اپنے مفاوات کی خاطر ایسا کیا کرتے تھے ۔( فَهَدَی اللَّهُ الَّذِ یْنَ آمَنُوالَمَااخْتَلَفُوْافِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِه وَاللَّهُ یَهِدِیْ مَنْ یََّشَائُ اِلَیٰ صراطٍ مْستَقِیم ) ''تب خدا نے ایمان داروں کو راہ حق دکھادی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ''۔اس آیت کو شاہد قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ جب خدا کے دین میں اختلا ف ہوا تو یہ اختلا فات کی موجودگی اس بات کا سبب بنی کہ کو ئی دو سرا پیغمبر مبعو ث کیا جا ئے جو اس اختلا ف کو بر طرف کر دے وہ اختلاف جو ایک پیغمبر کے چلے جا نے اور امت کے درمیا ن مو جو د نہ رہنے کی بناء پر وجو د میں آ تا تھا ۔اگر چہ یہ اختلاف سر کشی کا نتیجہ تھا اور کچھ لوگ یہ کام عمد اً کیا کر تے تھے لیکن خدا دو سرا پیغمبر اپنے لطف و کرم کی بنا ء پر بھیج دیتا کہ بعد کی نسلیں گمراہ نہ ہوں ۔انبیاء علیہم السلام کے وجو د کے سلسلہ میں قر آ ن کریم سے اور بھی حکمتو ں اور مصلحتو ں کا پتہ چلتا ہے چنانچہ عقل کی بنیا د پر ان میں سے کچھ (حکمتو ں کا ) پتہ چلا یا جا سکتا ہے ۔اب ہم قر آ ن مجید سے معلو م ہو نے وا لی بعض حکمتیں بیا ن کر تے ہیں :

____________________

۱۔سو رئہ مو منون آیت ۴۴۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۲۱۳۔

۲۸

قضا وت

جیسا کہ خود قر آ ن کریم سے پتہ چلتا ہے انبیا ء کے وجود کا ایک فا ئدہ یہ تھا کہ وہ اصل حکم اور قانون پہنچانے کے علا وہ اس حکم کے مصا دیق بھی معین فر ما دیتے تھے اور لو گو ں کے درمیا ن رو نما ہو نے وا لے اختلا فات کے فیصلے فرما تے تھے (اب سوا ل یہ ہے کہ تمام انبیا ء علیہم السلام اسی طرح کے تھے یا بعض انبیا ء علیہم السلام ایسے تھے)

حضرت دا ؤد علیہ السلام ان ہی انبیا ء علیہم السلا م میں سے ہیں جو منصب کے اعتبار سے خدا کی جا نب سے لو گو ں کے ما بین اختلا ف کے فیصلے کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ۔

اور بظا ہر یہ کام بعض انبیا ء علیہم السلام سے ہی مخصو ص رہا ہے۔ ارشا د ہوتا ہے :

( یَٰادَاوُوْدُاِنَّاجَعَلْنَٰکَ خَلِیْفَةً فِیْ الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ) ( ۱ )

''اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں( اپنا )خلیفہ قرار دیا پس تم لو گو ں کے در میا ن حق کی بنیا د پر ٹھیک فیصلے کیا کرو '' ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں ارشاد ہو تا ہے :

( اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَا بَ بِا لْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَا اَ رَاکَ ﷲ وَ لَا تَکُنْ لِلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً ) ( ۲ )

____________________

۱۔سور ئہ ص آیت ۲۶ ۔

۲۔سورئہ نساء آیت۱۰۵۔

۲۹

''ہم نے اس کتا ب کو تم پر بر حق طو ر پر اس لئے نا زل کیا ہے کہ جس طرح خدا نے تمہا ری ہدا یت کی ہے اسی طرح لو گو ں کے در میا ن فیصلہ کرو اور خیا نت کر نے وا لو ں کے طر فدار نہ بنو ''۔

واضح ہے کہ یہا ں پر حکو مت اور فیصلہ سے مراد اختلا فات کے سلسلہ میں لو گو ں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے۔

حکو مت

بعض انبیا ء علیہم السلام منصف اور قا ضی کی حیثیت سے او نچا مقام رکھتے تھے یعنی با قا عدہ طور پر معا شرہ اور حکومت کے سر براہ تھے اور لو گو ں پر ان کی اطا عت کر نا فرض تھا ۔ قر آن کی ایک آیت میں مجمو عی طور پر کہا گیا ہے کہ ہم نے ہر پیغمبر کو لو گو ں کے درمیا ن اس لئے بھیجا کہ لوگ ان کی اطا عت کریں ۔ لہٰذا جو پیغمبربھی جس چیز کے لئے دعوی ٰ کرے کہ یہ خدا کی جا نب سے ہے اور اس پر عمل کا حکم دے لو گو ں پر اس کی با ت ما ننا ضروری ہے۔ اگر وہ لوگوںسے کہے

کہ میں انصاف کر نے کے لئے بھیجا گیا ہو ں تو لو گو ں کے لئے قبو ل کر نا ضرو ری ہے ۔اگر وہ کہے کہ میں لو گو ں کے حا کم کے عنوا ن سے آ یا ہو ں سیاسی اور معاشرتی امور میں میری پیر و ی کرو تو لو گو ں پر اس کی پیر وی ضروری ہے مجموعی طور پر ہر پیغمبر جس آبا دی میں بھیجا گیا ہو (اس کی نبوت ثابت ہو جا نے کے بعد ) خدا کی طرف سے بس جو بھی دعو یٰ کرے لو گو ں پر اس کا قبو ل کر نا لا زم ہے :( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِِ ﷲ ) ( ۱ )

''اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر اس و اسطے کہ خدا کے حکم سے لو گ ا س کی اطا عت کریں ''۔

اگر ایسا ہو کہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ نبی کی کو نسی با ت خدا کی طرف سے ہے اور کو نسی با ت اپنی طر ف سے ہے اور اس کے یہا ں بعض حالا ت میں یہ احتما ل ہو کہ وہ جھوٹ بھی بو ل سکتا ہے تو یہ امر مقصد کے خلا ف ہو گا اور اس پر اعتما د نہیں رہے گا ۔

لہٰذا جب نبی کی نبو ت ثا بت ہو جا ئے تو لا محا لہ طور پر بے چو ن و چرا اس کی اطاعت کر نی چا ہئے مگر یہ کہ وہ خود یہ کہے کہ میں یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں ،اب اگر وہ یہ دعو یٰ کرے کہ اس کو خدا کی طرف سے کو ئی منصب دیا گیا ہے تو لو گو ں کو اس کی با ت بہر حال ما ننا چا ہئے ۔ یقیناً بعض مقا ما ت پر بعض انبیا ء علیہم السلام نے خود حکو مت اپنے ہا تھ میں نہیں لی ہے بلکہ خدا کی جا نب سے انھو ں نے کسی اور شخص کی حکو مت کی تا ئید کر دی ہے ۔ چنا نچہ روا یا ت کی روشنی میں بنی اسرا ئیل کے کچھ افراد اپنے

____________________

۱۔سورۂ نسا ء آیت۶۴۔

۳۰

نبی صمو ئیل کے پاس آئے اور آ کر کہا :

( ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُقَا تِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللَّهِ ) ( ۱ )

''ہما رے واسطے ایک باد شا ہ مقر ر کیجئے تا کہ ہم را ہ ِ خدا میں جہاد کریں ''۔

ظا ہر ہے خود صمو ئیل نبی با دشاہ نہیں تھے ۔ور نہ لو گ ان سے یہ نہ کہتے کہ خد ا سے در خوا ست کیجئے کہ وہ ہمارے لئے ایک با دشا ہ مقرر کر دے ، معلو م ہو ا کہ ہر پیغمبر خدا کی طرف سے حکو مت کا حا مل نہیں ہو تا ،البتہ یہ یقین کے سا تھ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرف سے حکو مت کے حا مل تھے اسی طرح گذ شتہ انبیا ء علیہم السلام میں بھی بعض انبیاء علیہم السلام منجملہ حضرت سلیمان حکو مت کے حا مل تھے۔ قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ ہم نے ان کو ملک عطا کیا ۔ رسو لِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں بہت سی دلیلیں ہیں خود قرآن کریم میں یہ جملہ مو جو د ہے:

( اَلنَّبِیُّ اَوْ لَیٰ بِا لْمُوْمِنِیْنَ ) ( ۲ )

''یعنی نبی مو منین کی جا نو ں پر ان سے زیا دہ حق رکھتے ہیں ''۔

اس کے علا وہ بھی کئی مقا ما ت ہیں مگر فی الحال ان کا بیان بحث سے خا رج ہے ۔ لہٰذا نبو ت کے ثا نوی مقا صد میں سے ایک مقصد جو بعض نبو تو ں میں محقق ہو ا یہ تھا کہ زمین پر ایک حکومت حقہ قا ئم کریں کہ جس کے سا یہ میں لو گو ں کی دنیا اور آ خرت دو نو ں کی اصلا ح ہو جا ئے ۔

انبیا ء علیہم السلام کی رسا لت کے ذیل میں جو سیاسی مقا صد مدنظر قرار دیئے گئے ہیں ان کی ایک مثال جناب موسیٰ کا وا قعہ ہے کہ جہاں انھو ں نے فر عون کو عبا دت الٰہی کی دعوت دی اور ضمنی طور پر فر ما یا: (فَاَرْسِلْ مَعِی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْل)یہ آپ کے اغراض و مقا صد میں سے ایک امر تھا جس کی آپ نے فر عون سے پہلی ہی ملاقات میں وضاحت کرتے ہو ئے کہہ دیا :اے فر عون میں تیری طرف خدا کا رسول بن کر آ یا ہو ں۔( فاَرْسِلْ مَعِی بَنِیْ اِسْرَا ئِیْل )

''بنی اسرا ئیل کو میرے ہمراہ کر دے ''۔لو گو ں کو آ زادانہ زند گی بسر کر نے کے لئے ایک ظالم حکمراں کے تسلط سے نکا ل کر دوسری سر زمین پرلیجا نا ایک سیا سی اور اجتما عی کا م ہے اور یہ حضرت مو سیٰ علیہ السلا م کی رسالت کے مقا صد کا ایک حصہ تھا اور قر آن کریم کی آیات سے مکمل طو ر پر یہ بات واضح ہے:

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت ۲۴۶۔

۲۔سورئہ احزاب آیت ۶۔

۳۱

( وَقَالَ مُوْسَٰی یَافِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلمِّنْ رَّبِّ الْعَٰا لَمِیْنَحَقِیْقعَلَٰی اَنْ لَّآ اَقُوْ لَ عَلَی اللَّهِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَبِّکُمْ فَاَ رْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ) ( ۱ )

''اور مو سیٰ نے (فر عون ) سے کہا اے فر عون میں یقیناًپر ور دگا ر عا لم کی جا نب سے رسو ل ہو ں مجھ پر واجب ہے کہ خدا کے با رے میں سچ کے سوا (کو ئی با ت )نہ کہو ں میں تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے وا ضح و رو شن معجزہ لیکر آ یا ہو ں پس بنی اسرا ئیل کو میرے ہمراہ کر دے ''۔

یاد دہا نی

قرآن کریم سے نبو ت کے جن فو ائد بلکہ اغراض و مقاصد کاپتہ چلتا ہے ان میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ لوگ جن چیز و ں کوسمجھ سکتے ہیں یا وہ جن با توں کو مبہم انداز میں سہی تھو ڑا بہت سمجھتے ہیں ان کو یا د دہانی کے لئے ایک توجہ دلا نے یا سمجھا نے وا لے کی ضرورت ہے جو ان کو ادھوری یا نامفہو م بات پوری طرح سمجھا سکے اور قر آن کریم کے الفاظ میں لوگ غفلت سے نکل کر با خبر وآگاہ ہو جا ئیں ۔

قر آن کریم میں خود قرآن کریم کے لئے اور بہت سی دو سری آ سمانی کتا بو ں کے لئے جو ذکر ،ذکریٰ، تذکرہ، اور مذکر کی ما نند الفا ظ استعمال ہو ئے ہیں ،اسی مو ضو ع کی طرف اشارہ کر تے ہیں ۔

ذکر، یا د دہانی کو کہتے ہیں یعنی وہ بات جس کو انسان جانتا ہے لیکن مکمل طور پر یا اس کا ایک حصہ بھول گیا ہے یا بے تو جہ ہو گیا ہے اس کو یا د دلا نا اورظا ہر ہے انتخاب میں علم اسی وقت مؤثر یا مفید ہو تا ہے جب اس کی طرف انسان متو جہ ہو ممکن ہے معا شرہ کچھ ایسے حا لات کا شکا ر ہو جا ئے کہ جس کے سبب یہ غفلت عام ہو جا ئے اور معا شرہ کی فضا ایسی شکل اختیار کر لے کہ انسان کے ذہن سے یہ مسا ئل با لکل نکل گئے ہو ں اور لو گو ں کا اپنے آپ ان کی طرف متوجہ ہو نا بھی میسر نہ ہو ۔ ایسے مقام پر انبیائعلیہم السلام کا کام لو گو ں کو اس غفلت سے نکا لنا ہے ۔ اسی با رے میں نہج البلاغہ کے اس مشہو ر و معروف جملہ میں اشا رہ ہے:

( لِیَسْتَادُوْهُمْ میِْثَاقَ فِطْرَتِهِ وَ یُذَ کِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهِ ) ( ۲ )

''ان سے فطرت کے عہد و پیمان پو رے کرا ئیں اور انھیں بھو لی ہو ئی ﷲکی نعمتیں یا ددلا ئیں''۔

____________________

۱۔سو رئہ اعراف آیت ۱۰۴۔۱۰۵۔

۲۔نہج البلاغہ خطبہ اول در ذکر اختیا ر الانبیاء علیہم السلام۔

۳۲

خدا کی معرفت اور خدا کی بندگی ایک فطری امر ہے لیکن لو گ اس سے غا فل ہو جا تے ہیں بہت سی چیزو ں کو لو گو ں کی عقل درک کر تی ہے لیکن یہ عقل ڈھیروں خو ا ہشات نفسا نی کے اندر دفن ہو کر رہ جا تی ہے۔ انبیاء کا کام یہ ہے کہ ان مد فون عقلو ں کو ابھا ر کر سا منے لا ئیں :

( وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیغ ِوَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَا ئِنَ الْعَقُوْلَ ) ( ۱ )

''اور تبلیغ یعنی رسا لت الٰہی کے ذریعہ لو گو ںپر حجت تمام کریں اور ان کی مد فون عقلو ں کو با ہر نکا لیں ''۔

اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کی طرف ہم متو جہ کر نا چا ہتے ہیں یعنی الٰہی رسالت اور تبلیغ کے ذریعہ لو گو ں پر حجت تمام کیا جانا نبوت کے اہداف میں شا مل ہے معلو م ہو ا یا د دہا نی یعنی لو گو ں کو غفلت سے نکا لنا ،اور فطری طور پر لوگ جن چیز و ں کو درک کر تے ہیں یا جن چیز و ں کی وہ اپنی عقل کے ذریعہ شنا خت پیدا کر تے ہیں اُن کی طرف تو جہ دلانا انبیا ء علیہم السلام کے فر ائض میں ہے اور انبیا ء کے وجود سے ہی یہ تمام فو ائد وا بستہ ہیں ۔

ڈرانا اور خو شخبری دینا

قرآنی آیات سے ایک اور یہ نکتہ سمجھ میں آتاہے کہ کبھی کبھی انسان کسی چیز کو جا نتا ہے یہا نتک کہ اس کی طرف تو جہ بھی ہو تی ہے لیکن عمل کا جذ بہ نہیں ہو تا ۔اس صو رت میں انسان کو کسی محرک کی ضرورت ہو تی ہے اور انبیاء علیہم السلام ''منذر ''(ڈرا نے وا لے )اور مبشِّر (بشا رت دینے وا لے ) کے عنوان سے یہ کام انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو ا بھا ر تے اور جذ بہ پیدا کر تے ہیں اور ان کی سو ئی ہو ئی خو ا ہشو ں کو بیدار کر تے ہیں ۔ ہر انسان عذا ب سے ڈرتا ہے یہا ں تک کہ اس کا معمو لی ترین احتما ل بھی مؤ ثر ہے اگر چہ عملی طور پر لو گو ں میں اس کا اثر دکھا ئی نہیں دیتا لیکن جب پیغمبر آ کر آخرت کے عذا بو ں کی تفصیل بیا ن کر تا ، اور بہشت کی نعمتو ں کا شما ر کرا تا ہے یہ ڈرانا اور بشارت دینا لو گو ں کے ،خو ا ہشات کو عملی اور علم کو آگا ہی میں بدل دیتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیا ن کیا تھا انسان کی روح میں دو کا ر خا نے کام کر تے ہیں : ایک عقل و بصیرت او ر دو سرے خو ا ہش و رغبت ۔ انبیا ء علیہم السلام خو ف اور بشا رت یعنی خدا وند عالم کی نعمتو ں کی خو شخبری اور اس کے عذاب کی طرف سے خبر دار کر کے انسا ن کی خو اہشات و رجحانا ت کو مہمیز کر تے ہیں ۔

اگر آ پ قر آ ن کریم کی تحقیق و مطالعہ کریں تو آ پ کو معلو م ہو گا کہ آ یات کا ایک بڑا حصہ چا ہے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ اول در ذکر اختیار الانبیاء علیہم السلام ۔

۳۳

کی زبا نی ہو یا پچھلے انبیاء علیہم السلام کی زبا ن سے نقل کئے ہو ئے ہو ں سب انذار و بشارت سے متعلق ہیں یعنی ان میں آخرت کے عذاب اور آخرت کی نعمتو ں کا ذکر ہے قرآن کریم میں یہ مسائل اتنی اہمیت کے حا مل ہیں کہ پیغمبر کو (نذیر )کہا گیا ہے سورئہ فاطر میں ارشا د ہو تا ہے :

( وَ اِ نْ مِنْ اُ مَّةٍ اِ لَّا خَلَا فِیْهَا نَذِ یْر ) ( ۱ )

''کو ئی امت نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے درمیان ڈرا نے والا ''نذیر''ضرور آ یا ہے ''۔

یہ نبی کی سب سے نما یاں صفت ہے اور مکمل طور پر اس کی ضرورت کا احساس کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ معاشرہ میں کو ئی ایسا ہو نا چا ہئے جو لو گو ں کو مستقبل کے خطر وں سے آ گا ہ کر تا رہے ۔ مختصر یہ کہ آ پ نے مذ کو رہ آیات میں مشا ہدہ کیا کہ ان میں مبشّر اور منذر کی صفت بار بار دہرا ئی گئی ہے :

( رُسُلاً مَُُبشِّرِیْْنَ وَ مُنْذِ رِیْنَ ) اور( فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ) ۔

قر آ ن کریم میں خود چند مقا مات پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے او صاف میں بھی ''بشیر ''اور ''نذیر '' آ یا ہے پس معلو م ہو ا کہ یہ بھی نبو ت کا ایک ہدف ہے ۔

ظلم اور برائی سے مقا بلہ

انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے سلسلہ میں جن اغراض و مقاصد کا پتہ چلتا ہے ، علمی طو ر پر اس ظلم اور برائی سے مقابلہ بھی ہے جو ان کے زما نہ میں رائج رہے ہیں ۔ قر آ ن کریم سے جیسا کہ پتہ چلتا ہے کہ جس قو م کے در میا ن بھی کو ئی پیغمبر مبعو ث ہو ا ہے ان کے درمیان ضرور کو ئی بد عنوا نی یا مخصوص برائیا ں را ئج رہی ہیں اگر چہ کسی استثناء کے بغیر تمام انبیا ء کا ایک بنیا دی ہدف لو گو ں کو خدا ئے وا حد کی بند گی کی طرف دعوت دینا رہا ہے ۔ خدا وند عالم ارشا د فرماتا ہے :

( وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلِّ اُمَّةٍرَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُ وْااللَّهَ وَاْجْتَنِبُوْاالطَّاغُوْت ) ( ۲ )

یعنی''اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول ضرور بھیجا کہ خدا کی عبا دت کرو اور طا غوت سے بچے رہو ''۔

لیکن اس معمو لی ہد ف کے ساتھ کہ جس کا ایک کلی عنوان خدا کی عبا دت اور اس کے تمام احکام ''کرو اور نہ کرو '' کے سا منے سر تسلیم خم کر نا ہے ہر پیغمبر نے اپنے زمانہ میں رائج برائیوں کی اصلاح کوبنیاد قراردیاہے مثال کے طورپرجہاں حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعہ کاذکرہے وہیں:

____________________

۱۔سو رئہ فا طر آیت۲۴۔

۲۔سورئہ نحل آیت ۳۶۔

۳۴

( وَزِنُوْابِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ) ( ۱ )

''اورجب کچھ( تولنا ہوتو) بالکل صحیح ترازوسے تولاکر و''۔

اور( وَلَاتَبْخَسُوْاالنَّاسَ اَشْیَائَ هُمْ ) ( ۲ )

''اور لوگوں کوان کی(خریدی ہوئی )چیزیں کم نہ دیا کرو ''کابھی ذکر اس کے ساتھ موجود ہے یاجب حضرت لوط علیہ السلام مبعوث ہوئے تو ان کے زمانہ میں ایک خاص برائی رائج تھی جس کا انھوں نے مقابلہ کیا،قرآن کریم میں اس طرح کے نمونہ بہت ہیں یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اہداف میں سے ایک ہدف اپنے زمانہ کی برائیوں سے مقابلہ کرنا بھی رہاہے۔

لوگوں کو توحید اور معاد کی طرف متوجہّ کرنا

ہم نے اس بحث کے آغاز میں اس بنیاد پر ضرورت نبوت کی دلیل قائم کی تھی کہ انسان اپنے اختیار کے ساتھ کمال وارتقاء کے لئے پیدا کیاگیا ہے اور وہ اس دنیا میں اپنے اچھے اور برے اعمال کے ذریعہ آخرت میں اپنے لئے سعادت یاشقاوت فراہم کرتا ہے پس اس کو اس دنیا میں انجام دئے جانے والے اپنے افعال کے اخروی نتائج کے ساتھ رابطے سے آگاہ ہوناچاہئے تاکہ وہ اچھے یا برے اعمال آزادانہ طورپر اختیار کرسکے دوسرے لفظوںمیں اس کیلئے اس چیزکا جاننا ضروری ہے کہ کون سے کام اچھے ہیں کہ ان کوانجام دے سکے اور کونسے کام برے ہیں کہ ان کو انجام نہ دے اور چونکہ انسان کی عقل دقیق طورپر ان رابطوں کو معلوم نہیں کرسکتی لہٰذا حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ وہ بشرکیلئے اس علم تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ مقررفرمائے اور وہ راہ وہی وحی اور نبوت کی راہ ہے ۔

اس کے بعد کی بحث میں ہم نے عرض کیا تھاکہ قرآن کی آیات کریمہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر خدا انبیاء علیہم السلام کو نہ بھیجتا تو لوگوں پر حجت تمام نہ ہوتی اور ہم نے اس ذیل میں کہا تھا چونکہ انسان کی عقل ،خیروشرکی شناخت کیلئے کافی نہیں ہے اور وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ہمیں کون سے کام نہیںانجام دینا چاہئیں اور کون سے کام انجام نہیں دینا چاہئیں ۔

بحث کے ضمن میں ہی ایک اور نکتہ بھی واضح ہوگیا جس کی بنیادپر ہم''نبوت کی ضرورت''پر دوسری دلیل قائم کرسکتے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ :کبھی کبھی انسان حتّیٰ ان مسائل میں کہ جہاں انسان کی عقل اس کودرک کرنے کے لئے

____________________

۱۔سورئہ اسراء آیت ۳۵۔

۲۔سورئہ اعراف آیت۸۵۔

۳۵

کافی ہے۔بعض عوامل کی وجہ سے غفلت کاشکار ہوجاتاہے مثال کے طورپر وجود خدااورتوحید کے اثبات کے لئے انسان کی عقل کافی ہے لیکن کبھی کبھی سماجی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے استعمال سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یعنی معا شرہ کی فضاء وہ شکل اختیا ر کر لیتی ہے کہ انسان اس حقیقت سے غا فل ہو جا تا ہے اور اپنی عقل اس با رے میں کہ تو حید حق ہے یا نہیں، استعمال نہیں کر تا ۔یہ وہ حقیقت ہے جس کو کم و بیش سبھی افراد ما نتے ہیں ۔ فرض کر لیجئے کہ کسی گھرا نے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہو کہ جس نے جب سے اپنی آ نکھیں کھو لیں اپنے ماں باپ کو بتو ں کی پر ستش کرتے دیکھا اور جب مدر سہ میں دا خل ہوا تو وہاں بھی اس کو شر ک آ میز تعلیم دی گئی ۔ ظا ہر سی با ت ہے کہ کوئی مذہب اپنے مذ ہب کی حقا نیت کی دلیل کے لئے بہت سی غلط با تیں بیا ن کر سکتا ہے اور ان غلط با تو ں سے بچہ کا ذہن جب ما نوس ہو گیا ہو اور معا شرہ کی فضا نے بھی اس کی مدد کی ہو او ر تو حید و خدا پرستی کی بحث بھی با لکل اس کے کان سے نہ ٹکرائی ہو ، تو ان تمام حا لات میں ایک انسان کا مشرک ہو جانا انہو نی بات نہیں ہے اس کے ذہن میں ممکن ہے یہ سوال ہی پیدا نہ ہو کہ کیا یہ راستہ حق کا ہے یا باطل ؟

اسی طرح ہم نے معاد کے با رے میں بھی عرض کیا تھا کہ عام طور سے معاد یا قیا مت کے اثبات کیلئے انسان کی عقل کا فی ہے لیکن اگر کو ئی شخص ایسے ما حو ل میں زند گی بسر کر رہا ہو کہ آ خرت کی زند گی کے نا م سے با لکل اس کے کان آ شنا نہ ہو ں اور وہ اس مسئلہ کی طرف متو جہ ہی نہ ہو ا ہو ، جو کچھ بھی اس نے دیکھا ، سُنا ،اور پڑھا ہو وہ سب محض دنیا ی زند گی اور اس کی لذ تو ں سے مر بو ط ہو ، یا وہ عقل کو عام طور پر اپنی معا شی حا لت سد ھا ر نے اور اجتماعی امو ر کو انجا م دینے میں لگا ئے رہا ہو تو ظا ہر ہے ایسے شخص کو خود بخود عالم آخرت کی فکر نہیں ہو گی اور اگر کبھی خیال آ یا بھی تو ممکن ہے اس کے ذہن میں اس قدر شکو ک پیدا کر دیئے جا ئیں کہ وہ اس پر یقین ہی نہ کر سکے پس یہاں تک کہ ان امو ر میں بھی کہ جہاں انسان اپنی عقل سے بذات خود دلیل قا ئم کر کے حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔ کبھی کبھی حالات اس طرح کے ہو جا تے ہیں کہ انسان کی عقل کا فا ئدہ با قی نہیں رہتا اور ہم یہ جا نتے ہیں کہ یہ دو مسئلے یعنی تو حید اور معاد (ﷲاور قیا مت پر ایمان) اد یان کے سب سے اہم مسا ئل ہیں ۔اگر کسی کے لئے حل نہ ہو پا ئیں تو وہ مجمو عی طو ر پر آخرت کی کا میابی کے لئے کو ئی راستہ نہیں نکال سکے گا اور اس طرح کے مسا ئل میں ہمارا مشا ہدہ یہی ہے کہ کبھی کبھی معا شرہ کے حا لات کی وجہ سے انسا ن ان سے غا فل ہو جا تا ہے ۔

۳۶

اس بناء پر جس ﷲنے انسان کو آخرت کی کا میابی کے لئے پیدا کیا ہے ،(وہ کا میابی جو ﷲ اور آخرت پر ایمان کے ذریعے ملتی ہے )اس کو یہ بھی علم ہے کہ انسا نو ں کے سا منے کچھ ایسے حا لات پیش آ جا تے ہیں کہ وہ اُن مسائل کو کلی طور پر بُھلا دیتا ہے لہٰذا اس طرح کے حا لات میں حکمت الٰہی کا یہ تقا ضا ہے کہ کچھ ایسے مصلحین اور تعلیم دینے وا لے اور یاد دہا نی کرا نے وا لے افراد بھیجے جولو گو ں کو اُن با تو ں کی طرف متوجہ کریں جن کی فطرت گو اہی دیتی ہے اور عقل جن با توں پر دلا لت کر تی ہے اگر چہ وہ ان با تو ں سے غا فل ہی کیو ں نہ ہو گئے ہو ں ۔

مو لا ئے کا ئنا ت کے کلام میں یہ جملے ''یُذَکِّرُوْھُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِہِ''''انھیں ﷲکی بھو لی ہو ئی نعمتیں یا د دلائیں ''، وَ یُثِیْرُوْا لَھُمْ دَ فَا ئِنَ الْعُقُوْل''''اور ان کی مد فو ن عقلو ں کو با ہر نکا لیں''ممکن ہے اسی با ت کی نشاندہی کر رہے ہوں یعنی کبھی کبھی انسا نو ں کی عقلیں خو ا ہشات ، شکوک و شبہات اور معا شرتی ما حول کے پر دوں میں دفن ہوجا تی ہیں اور کسی کا م کی نہیں رہ جا تیں ۔ اس طرح کی عقل کا وجود یا عدم کو ئی فرق نہیں کر تا وہ عقل رکھتے ہیں لیکن اُن کی عقل ان کو نور نہیں بخشتی ایسے حا لات میں بھی لا زم ہے کہ خدا اپنی حکمت متعا لیہ کی بنیا د پر پیغمبروں کو مبعوث فرمائے تا کہ وہ لو گو ں کو اس غفلت سے نجا ت دلا ئیں اور ان پر یہ مسئلہ وا ضح کر دیں کہ خدا ایک اور اکیلا ہے تم اپنی عقلوں کی طرف رجو ع کرو اور اس با رے میں غور و فکر سے کام لو یا اگر لوگ شکوک و شبہا ت میں مبتلا ہو ں تو اُن کے شبہا ت دور کر دیں ہم اس طریقہ سے بھی نبوت کی ضرورت پر دلیل قا ئم کر سکتے ہیں اس دلیل کا پہلی دلیل سے فرق یہ ہے کہ پہلی دلیل میں اس با ت پر زور دیا گیا تھا کہ کچھ با تیں انسان کو جا ننا چا ہئے تھا لیکن جا ن نہیں سکتا تھا لیکن یہاں اس چیز پر زور دیا گیا ہے کہ لو گو ں کو ان با تو ں کی طرف متو جہ ہو نا چا ہئے کہ جن سے وہ غا فل ہیں۔

جب ہم قر آ ن کریم کی آیات کا مطا لعہ کر تے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کے اہد اف و مقا صد میں ان دو چیزو ں پر زور دیا گیا ہے ہم نے انبیاء علیہم السلام کو اس لئے مبعوث کیا کہ وہ لو گو ں کو توحید کی دعوت دیں حا لانکہ تو حید خود عقل کے ذریعہ ثا بت ہو تی ہے اور قرآن نے بھی تو حید پر عقلی دلیلیں دی ہیں ۔ پھر بھی خدا وند عالم فر ما تا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد لو گو ں کو تو حید کی دعوت دینا ہے اور اسی طرح دو سرے مقام پر فر ما تا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا ہدف و مقصد لو گو ں کو معا د کی طرف توجہ دلا نا تھا ۔ ہم اس سلسلہ میں بھی قر آن کریم کی بعض آ یتو ں کی طرف اشا رہ کر تے ہیں ۔

( وَلَقَدْ بَعَثْناَفِیْ کُلِّ اُ مَّةٍ رَسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْاﷲ وَاجْتَنِبُوْاالطَّا غُوْ ت ) ( ۱ )

''اور ہم نے ہر امت میں ایک (نہ ایک )رسو ل اس با ت کے لئے ضرور بھیجا کہ خدا کی عبا دت کرو اور طاغوت سے دور رہو ''۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرما تا ہے :

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت ۳۶۔

۳۷

( وَمَااَرْسَلْناَ مِنْ قبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ اِ لَّا نُُوْحِیْ اِلَیْهِ اَنَّهُ لَااِلَٰهَ اِ لَّا اَنَافَاعْبُدُوْنِ ) ( ۱ )

''اور (اے رسول ) ہم نے تم سے پہلے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس پر وحی کر دی کہ بس میں ہی ﷲ ہوں پس تم میری ہی عبا دت کرو ''۔

ان آیا ت سے بخو بی یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ لو گو ں کو ﷲ کی عبا دت کی دعوت دینا انبیاء علیہم السلام کے اہم فر ائض میں سے تھا قر آن کریم نے بہت سے مسا ئل میں انبیا ء علیہم السلام کے وا قعات ذکر کئے ہیں اور تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں سر فہرست اسی مسئلۂ تو حید کو قرار دیا گیا ہے کہ صرف اور صرف خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبادت کیا کرو : مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ''۔

اسی بات کو بیان کر نامقصود ہے کہ عقیدئہ توحید اگر چہ فطری ہے اور اس پر عقل بھی دلالت کر تی ہے پھر بھی انسان اپنے مخصو ص (معا شرتی ) حا لات میں گھر جا نے کے بعد اس سے غافل ہو جا تے ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ انبیا ء علیہم السلام بھیجے جا ئیں تا کہ وہ لو گو ں کو ان کا یہ بھو لا ہو ا سبق یاد دلا ئیں معا د یا قیامت سے متعلق بھی بہت سی آ یا ت ہیں منجملہ یہ آیت:

( یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهِ عَلَیٰ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِهِ لِیُنْذِرَیَوْمَ التَّلاَ قِ ) ( ۲ )

''خدا اپنے نبیو ں میں سے جس پر چا ہتا ہے روح کو نا زل کر تا ہے تا کہ وہ پیغمبر (لو گوں کو)قیامت کے دن سے ڈ را ئے ''۔

بہر حال قیامت اور عا لم آخرت کے متو قع خطروں کی طرف لو گو ں کو متو جہ کر نا بھی پیغمبروںکے اہداف میں شا مل رہا ہے۔

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت ۲۵۔

۲۔سورئہ مو من(غافر) آیت ۱۵۔

۳۸

پیغمبروں کا بشر ہو نا

نبوت کی ضرورت کی دلیل اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ( عقلی راستہ کے علاوہ جو سب کی دسترس میں ہے ) کوئی ایسی راہ ہو جو ابدی سعادت اور شقاوت تک پہنچنے کا راستہ بتائے لیکن یہ راہ دوسری تمام خصوصیات کو بیان نہیں کرتی یعنی یہ دلیل نبوت اور وحی کی کیفیت بیان نہیں کرتی کہ کیا ہر فرد پر وحی ہوسکتی ہے ؟ کیا نبی کو بھی ہر حال میں انسانوں کی ایک فرد ہونا چاہئے ؟ کیا ہر معاشرے یا ہر شہر میں ایک پیغمبر ہونا ضروری ہے ؟ یہ دلیل ان جزئیا ت کی وضاحت نہیں کرتی البتہ خارجی قرائن کے ذریعہ یہ چیز یں سمجھی جاسکتی ہیں لیکن دقیق طور پر یہ جزئیات خود اس دلیل سے حاصل نہیں ہوسکتے تھے ۔

قرآن کریم نے ان مسائل کے بارے میں بحث کی ہے منجملہ قرآ ن کریم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نبی کو ہر حال میں بشر ہونا چاہئے اور ضمنی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان براہ راست خداوندعالم سے رابطہ بر قرار کرکے خیر و شر کا علم اس سے حاصل نہیںکر سکتاایک طرف تو یہ کہ تمام انسان نبی نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف نبی کو انسانوں کے درمیان سے ہی مبعوث ہونا چاہئے ۔یہ بات عام طور پر لوگوں کی بہانہ باز یوں کے جواب میں بیان کی گئی ہے یعنی قرآن کریم فرماتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جاتے تھے تو لوگ ان کی دعوت قبول نہ کرنے کیلئے بہانے کیا کرتے تھے منجملہ کہا کرتے تھے کہ ''اگر خدا ہماری راہنمائی ہی کرنا چاہتا ہے تو اچھا ہوتا کہ وہ ہماری راہنمائی کے لئے کسی فرشتہ کو بھیج دیتا'' یاوہ کہا کرتے تھے :جب تک ہم خدا کو نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لائینگے۔یا یہ کہا کرتے تھے : اگر خدا ہماری ہدایت کرنا چاہتا ہے تووہ نبی کے ہمراہ کسی فرشتہ کو بھی بھیجتا کہ ہم بھی اس فرشتہ کا دیدار کرتے اور اسی طرح کی باتیں، اسی طرح قرآن کلی طور پر فرماتا ہے : تمام قومیں انبیاء علیہم السلام سے کہا کرتی تھیں : آپ بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہیں اور ہم اپنے ہی جیسے بشر کی پیروی نہیں کرسکتے اور یہی وہ مقام ہے جہاں قرآ ن کریم فرماتا ہے : (پیغمبر کو ہر حال میں انسان ہی ہونا چاہئے ) اور یہ خداوند عالم کی سنت ہے کہ وہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان سے کسی کو رسالت کیلئے منتخب کرتاہے۔فرشتہ عام انسانوں کے سامنے ظاہر نہیں ہوسکتا ہاں ایک وقت ہے جب تمام انسان ملک کادیدار کرسکتے ہیں لیکن یہ و ہ وقت ہے کہ جب انسان کا آخری وقت آجاتا ہے یعنی اس پر موت کی نشانیاں ظاہر ہوجاتی ہیں اور وہ عالم ملکوت کی طرف کوچ کرنے لگتا ہے ۔

۳۹

ان آیات سے ہم یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ نبوت منتخب انسانوں کو ہی ملنا چاہئے ورنہ تمام انسانوں پروحی نازل نہیں ہو سکتی ۔اس لئے کہ ان کی روح اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ رابطہ قائم کرسکیں لیکن اگر خدا کی طرف سے انسانو ں کے درمیان کوئی ایسی شخصیت نہ ہوتو حکمت خدا باطل ہو جائیگی اور انسان کی خلقت کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا ۔معلوم ہوا خداوند عالم کو خلقت کی شرطوں کو اس طرح فراہم کرنا چاہئے کہ ا نسانو ںکے درمیان کوئی اس قابل ہوکہ جس پر اپنی و حی نازل کرکے دوسروں تک پہنچا سکے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَقَاْلُوْالَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَک ) ( ۱ )

'' لوگ کہتے کہ اس (نبی ) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ''۔

یقیناپیغمبر پر فرشتہ اور ملک نازل ہوتے تھے لیکن ان قومو ںکا مقصد یہ تھا کہ فرشتے اس طرح کیو ں نہیں نازل ہوتے کہ ہم بھی ان کو دیکھ سکیں ۔

قرآن کریم ان کے جواب میں فرماتا ہے :

( وَ لَوْاَ نْزَلْنَا مَلَکاً لَقُضِیَ الْاَمْرُثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ) ( ۲ )

''حالا نکہ اگر ہم فرشتہ بھیج د یتے تو (انکا )کام ہی تمام ہوجاتا (اور )پھر انھیں (اس طرح کے سوال کرنے کی ) مہلت ہی نہ ملتی ''۔

یعنی لوگوں کی زندگی اور فرشتوں کے دیدار کے درمیان ایک تکونیی رابطہ موجود تھا عام لوگ زندگی کے عام حالات میں فرشتہ کا دیدار نہیں کرسکتے فقط موت کی صورت میں ہی انکا دیدار ممکن ہے اگر ہم فرشتہ کو اس طرح نازل کرتے کہ یہ لوگ بھی اس کو دیکھیں توان کو موت آجا تی اور انکا قصہ ہی تمام ہوجاتااور پھر بعثت اور ہدایت کا ہدف باطل ہوجاتا چونکہ ہمارا مقصد ان کو راہ و راستہ سے آشنا کرانا تھا کہ وہ راستہ پہچان لیں اور اسکے بعد اپنے انتخاب کے مطابق عمل کریں ۔اگر یہ قرار ہوتا کہ فرشتہ نازل ہو اور یہ لوگ اس کو دیکھ کر مرجائیں تو اس صورت میں بعثت کا ہدف

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت ۸۔

۲۔سورئہ اانعام آیت۸۔

۴۰