راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135616
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135616 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

خاتمیت سے متعلق شکوک کا جا ئزہ

خاتمیت اسلام پر قرآنی دلالت کے با رے میں جو اہم ترین شکوک و شبہات بیان ہو ئے ہیں اس حصہ میں ہم انھیں بیان کرنے کی کو شش کریں گے:

۱۔ عربی زبان میں''خَاتَم''کے معنی انگشتری کے ہیں اور سورئہ مبارکہ احزاب کی چالیسویں آیت میں یہ مجازی طور پر زینت کے معنی میں استعمال ہواہے ۔اس بناء پر''خاتم النبیین'' کا مطلب (انبیاء کی زینت)ہے اور مسئلہ خاتمیت پر کسی طرح دلالت نہیں کرتا ۔

جواب :عربی زبان میںلفظ خاتم کامجازی معنی میں زینت کے لئے استعمال ہونا عام طریقہ پررائج نہیں ہے اور لغت زبان کے ما ہرین میں کسی نے بھی اس آیت کے بارے میں اس طرح کااحتمال بیان نہیں کیاہے۔ ظاہر ہے آیت کا ایک غیرمشہور معنی بیان کرناجو اس کے ظاہر کے برخلاف ہو کوئی قیمت نہیں رکھتا اور اس سے خاتمیت پر آیت کی دلالت میں کوئی ضرر پیدا نہیں ہوتا۔

۲۔ اس آیت میں ''خاتم النبیین''کالفظ استعمال کیاگیاہے ''خاتم الرسل''کا نہیںہے اور چونکہ ''نبی''اور ''رسول''میں فرق ہے لہٰذا اس آیت سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کوئی خداکا رسول مبعوث نہیں ہوگا؟

جواب :ہم ''نبی''اور ''رسول ''کے مفہوم کی بحث میں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ ان دونوں کے مفہوم چاہے کتنے ہی ایک دوسرے سے مختلف ہوں لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں کے مابین عام خاص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے یعنی ہر رسول نبی بھی ہو تا ہے (لیکن ایسانہیں ہے کہ تمام انبیاء رسول بھی ہوں)اس بنیاد پر یہ کہناکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا یہ رسول کو بھی شامل ہے لہٰذا ختم نبّوت کا لازمہ ختم رسالت ہے ۔ (چونکہ نفی عام مستلزم نفی خاص ہوتی ہے)

۳۔قرآن کریم کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ خداوند عالم نے زمانۂ مستقبل میں انبیاء علیہم السلام مبعوث کرنے پر بنا رکھی ہے ۔مثال کے طور پر ارشاد ہو تا ہے :

۳۸۱

( یَٰابَنِیْ آدَمَ مَّایَْتِیَنَّکُمْ رُسُل مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ ) ( ۱ )

''اے بنی آدم اگر تم میں تمہارے ہی درمیان سے کچھ رسول آئیں اور تم سے ہمارے احکام بیان کریں ۔۔۔''

ظاہرہے کہ یہ آیت حضرت رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں نازل ہوئی ہے اور اس میں اسی دور کے بنی آدم سے خطاب بھی ہے اب اس واقعیت و حقیقت کے مد نظر اور اس اعتبار سے کہ فعل ''یَاتِیَنَّکُمْ ''صیغۂ مضارع ہے اور لفظ ''رُسُل''جمع ہے یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ،دوسرے انبیاء علیہم السلام بھی مبعوث ہوں گے ۔لہٰذا اس طرح کی آیات کی موجود گی میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟

جواب :معترض کے اس شبہہ میں کو ئی استحکام نہیں پا یا جاتالگتا ہے وہ عربی زبان کی لطافت اور ا س کے قوانین سے بالکل آشنا نہیں ہے :

اولاً فعل مضارع تمام مقامات پرفعل کے زمانۂ مستقبل میں واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔

دوسرے یہ کہ اس آیت میں لفظ''اِمّا''حرف شرط''اِنْ''اور ''مائے''زائدہ سے مرکب ہے۔اس بناء پر آیت کا مضمون جملۂ شرطیہ کی صورت میں بیان کیاگیاہے۔یعنی اگر تمہاری طرف انبیاء علیہم السلام بھیجے جائیں تو ان کی اطاعت و پیروی کرنا اورہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جملۂ شرطیہ شرط کے محقق ہونے کا ضا من نہیں ہے اس بنا ء پر یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آخری نبی کے بعد قطعاً اور انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جائیں گے۔

اس کے علاوہ اس سے پہلے کی آیات کے سیاق سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس آیت میں بنی آدم علیہ السلام کے مخا طب اس وقت کے لوگ ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اورحواکو زمین پر بھیجا گیاتھا۔اس آیت سے پہلے کی آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ،ان کے بہشت میں آنے اورروئے زمین پر ان کے اتارنے کی داستان بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد بنی آدم سے خطاب کر کے کچھ مطالب بیان کئے گئے ہیں اوریہ آیت بھی ان

ہی سے متعلق ہے۔تو معلوم ہواکہ اس آیت میں تمام لوگوں سے خطاب کیاگیاہے اور ان کو یہ حکم دیا گیاہے کہ جب کبھی بھی کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا جائے تو اس کی اطاعت کرنا ۔رہا یہ مسئلہ کہ یہ انبیاء علیہم السلام کس زمانہ میں مبعوث ہوںگے اور ان میں آخری نبی کون ہوگا آیت اس چیز کو بیان نہیں کررہی ہے۔

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۳۵۔

۳۸۲

قرآن کریم کے بعض سوروں میں زیربحث آیت کی ماننداوربھی آیات ہیں جن پرغور وفکرکرنے سے یہ مفہوم اور بھی واضح اور روشن ہوجاتا ہے ۔

سورئہ بقرہ میں خداوندعالم ارشاد فرماتاہے :

( قُلْنَااهْبِطُوْامِنْهَاجَمِیْعَاًفَاِمَّایَْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ( ۱ )

''ہم نے کہا:سب نیچے اتر جائو۔پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو لوگ میری ہدایت پر چلیں گے ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوںگے ''۔

( فَاِمَّایَْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ هُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلا یَضِلُّ وَلَایَشْقَٰی ) ( ۲ )

''۔۔۔پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ تو وہ گمراہ ہوگا اورنہ مصبیت میں پھنسے گا''۔

ان آیات کا سیاق ایک ہے فرق بس یہ ہے کہ آخری دو آیات میں ہدایت اور راہنمائی بھیجے جا نے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور زیر بحث آیت (سورئہ اعراف۳۵)میں خداوند عالم کے فر ستا دہ ہادیوں یعنی انبیاء علیہم السلام کے بارے میں گفتگو کی کئی ہے ۔

۴۔ قرآن کریم میں ہے :( یُلْقِی الرُّوحَ مِنْ اَمْرِهِ عَلَیٰ مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ ) ( ۳ )

''۔۔۔وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپنے حکم سے روح (فرشتہ)نازل کرتاہے ۔۔۔''۔

اس آیت کا صاف طور پر مدلول یاکنایہ یہ ہے کہ خداوندعالم جس شخص کو چاہے نبی بنا کر بھیج سکتاہے حالانکہ یہ آیت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو رحیات میں نازل ہوئی ہے ۔

یہ آیت صاف دلالت کر تی ہے کہ آپ کے بعد بھی دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جائیںگے ۔

جواب :یہ آیت بھی اس سے پہلے کی آیت کی طرح زمانۂ مستقبل کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ کسی بھی شخص کو پیغمبری کے لئے منتخب کرنا مشیّت ِالٰہی کے تابع ہے اور وہ کافروںکے مادی معیاروں

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۳۸۔ ۲۔سورئہ طہ آیت۱۲۳۔۳۔سورئہ غافر آیت۱۵۔

۳۸۳

کی اتباع نہیں کرتا۔خداوندعالم جس شخص کے لئے مصلحت دیکھتاہے اس پر وحی نازل کردیتا ہے اور اس کو رسالت کے لئے منتخب کرلیتا ہے ۔بنا بر این زیر بحث آیت بھی مندرجہ ذیل آیت کے مضمون سے مشا بہت رکھتی ہے جس میں کہا گیا ہے :

( ﷲ ُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالتَهُ ) ( ۱ )

''۔۔۔ﷲبہتر جانتا ہے کہ کہاں اپنی پیغمبری قراردے ۔۔۔''۔

مورد بحث آیت بھی اس آیت کی طرح اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ خداوند عالم زمانۂ مستقبل میں کسی نبی کو مبعوث کرے گا بلکہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسانوں کو رسالت کے لئے منتخب کرنا کچھ مصلحتوں کا تابع ہے جن کو خداوندعالم بہتر جانتا ہے ۔لہٰذا ان آیات میں فعل مضارع ''یلقی''یا ''یجعل''کسی طرح سے بھی مستقبل کے معنی میں نہیں ہے۔

بہر حال عربی زبان اور اس کے قواعد سے آشنا شخص بخوبی جانتاہے کہ مندرجہ بالا آیات میں کسی بھی عنوان سے خاتمیت کا انکار نہیں ہے یقیناً ہمارامدّعایہ بھی نہیں ہے کہ''یلقی الروح'' خاتمیت کو بیان کرتاہے بلکہ بات صرف یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد آئندہ زمانہ میں کوئی اورپیغمبرضرور مبعوث ہوگا اس پر آیت دلالت نہیں کرتی۔اب اگر رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کسی اور دوسرے پیغمبر کے مبعوث ہونے کی بات ہوتی تو مذکورہ آیت میں وہ بھی شامل ہوتالیکن ''خاتم النبیین''صاف طور پر ختم نبوت پر دلالت کرتاہے اور یہ بھی بیان کرتا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کوئی اور پیغمبر مبعوث نہیں ہوگا۔

خاتمیت سے متعلق کچھ اور شکوک و شبہات پیش کئے گئے ہیں جن کو مربوط کتابوںمیں تلاش کیاجاسکتاہے لیکن ان کے اندر کسی قسم کی پائیداری نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سے صرف نظر کررہے ہیں ۔

اختتام نبوّت کی وجہیں

ختم نبوّت کے متعلق ایک اہم سوال یہ کیا جاتا ہے کہ :جب خداوندعالم انسانوں کی ہدایت کے لئے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتارہا تو اب ایک معین زمانہ میں انبیاء علیہم السلام کا یہ سلسلہ منقطع کیوں ہوگیا؟ اس سوال کا قطعی جواب تو یہی ہے کہ

(ﷲاعلم حیث یجعل رسالتہ)خدواند عالم اپنی حکمت بالغہ اور اپنے علم مطلق کی بنیاد پر جانتاہے کہ

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۱۲۴۔

۳۸۴

انبیاء علیہم السلام کو کہاں ْکب اور کس طرح مبعوث کرے؟ اور ہم اس مسئلہ کے راز سے کامل طور پر آگاہ نہیں ہیں ۔ حکمت الٰہی یہی ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی نہ بھیجا جائے ۔

لیکن قرآن کریم کی آیات سا منے رکھ کر کچھ ایسے نکات معلوم کئے جاسکتے ہیںجو کسی حد تک ختم نبوت کی وجہوں کو واضح کرتے ہیں ۔اس کے باوجودتوجہ رہے کہ یہ ان ہی پر بات تمام نہیں ہوتی اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیاکہ اس مسئلہ کی اصل وجہ علم کے دائرے سے کہیں بالاترہے اورہم قرآن کے بعض مطالب کے ذریعہ اس مسئلہ کی حکمت کے محض بعض حصّوں تک رسائی حاصل کرسکے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں :

۱۔انبیائے الٰہی خدااور لوگوں کے درمیان واسطہ رہے ہیں تاکہ لوگوں کی ابدی سعادت کی طرف رہبری کریںلیکن کچھ عرصہ بعد انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں تحریف ہوجایا کرتی تھی یا اس کو معاشرہ کے درمیان بالکل ہی ختم کردیا جاتاتھا ۔اس بناء پر انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں تحریف یا ان کی دعوت کے اثرات زائل ہوجانے کے بعد حکمت الٰہی تقاضاکرتی تھی کہ کوئی دوسرا نبی مبعوث کیاجائے تاکہ وہ دوبارہ دعوت الی ﷲکو زندہ کرے ،اور تحریفات کی اصلاح کرے اور رسالت الٰہی کو اس کے اصل راستہ پر پھر سے گامزن کردے :قر آ ن میں ار شاد ہو تا ہے :

( وَمَااَنْزَلْنَاعَلَیْکََ الْکِتَا بَ اِلَّالِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْافِیْهِ ) ( ۱ )

''اور ہم نے تم پر(اس)قرآن کو نازل نہیں گیا مگر اس لئے کہ جن باتوں میں یہ لوگ آپس میں جھگڑا کرتے ہیں ان کو تم صاف صاف بیان کرو۔۔۔''۔

اس بنیاد پر نئے نبی مبعوث کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ اس سے پہلے والے نبی کی شریعت میں تحریف اور ختم ہونے سے بچاناتھالیکن یہ مسئلہ دین اسلام اور اس کی آسمانی کتاب کے بارے میں صادق نہیں آتا چونکہ خداوندعالم نے اس کی ضمانت خود اپنے ذمہ لی ہے :

( اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّالَهُ لَحَافِظُوْنَ ) ( ۲ )

''بیشک ہم نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی اسکے محافظ بھی ہیں ''۔

تو معلوم ہوا کہ خاتمیت اسلام کی ایک حکمت یہ ہے کہ خداوندعالم نے ا سے ہرطرح کی تحریف اور تغیر و تبدّل سے محفوظ رکھا ہے

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت۶۴۔۲۔سورئہ حجر آیت۹۔

۳۸۵

۲۔دوسرے پیغمبر کو مبعوث کرنے کی ایک دوسری وجہ زمانہ مستقبل کے معاشروں اور امتوں کے لئے پہلے نبی کی شریعت کا کافی نہ ہوناتھا ۔مثال کے طور پر ایک نبی ایک ایسے معاشرہ میں معبوث ہو جس میں بہت سادہ قوانین و ضوابط رائج ہوں یا ان کی فکر ی سطح پست ہو ۔ظاہر ہے ایسے معاشرہ میں دین کے اجتماعی احکام وسیع طور پر یا دین کے بلند و بالا اور عمیق معارف کا پیغام نہیں پہنچایا جاسکتا ہاںاگر آہستہ آہستہ ، زمانہ گذرنے کے ساتھ معاشرہ کا ڈھانچاکچھ پیچیدہ ہوجائے اور لوگ فکر و ثقافت کے لحاظ سے ترقی کرلیں توایسے میں ان کو نئے نبی کی ضرورت پیش آئیگی کہ وہ ان کے حالات کے مناسب زیادہ کامل شریعت پیش کرسکے ۔لہٰذانئے نبی کو بھیجنے کی ایک اوروجہ یہ ہے کہ پہلی شریعت کی تکمیل کی جا ئے چا ہے گذ شتہ احکام کی تفصیل بیان کرنے یانئے احکام پہو نچا نے کی صورت میںہی کیوں نہ ہو ۔

لیکن قرآن کریم نے اسلام کے با رے میںاس ضرورت کی بھی نفی کر دی ہے کیونکہ یہ دین کامل ہے اور آنے والی نسلوں کو جن چیزوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے وہ سب اپنے ساتھ لیکر آیاہے۔ ار شاد ہو تا ہے :

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ ) ( ۱ )

''۔۔۔آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا۔۔۔''۔

اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی مروی ہے کہ آپ نے فر مایا ہے :

(مَامِنْ شَیٍ یُقَرِّبَکُمْ اِلَی الْجَنَّةِ وَیُبَعِّدَکُمْ مِنَ النَّارِ اِلَّاوَقَدْاَمَرْتُکُمْ بِهِ وَمَا مِنْ شَیئٍ یُقَرِّبَکُمْ مِنَ النَّارِ وَ یُبَعِّدَکُمْ مِنَ الجَنَّةِ اِلَّاوَقَدْ نُهِیتکُمْ عَنْهُ

''جنّت سے قریب اور دوزخ سے دور کرنے والی ہر چیز کا حکم میں نے تم تک پہنچادیا اورہر وہ چیزجو تم کو دوزخ سے قریب اور جنّت سے دور کرتی ہے میں نے اس سے تم کو منع کر دیا ہے۔۔۔''۔

اس نص و دلیل سے استفادہ ہوتاہے کہ اسلام دین کامل ہے اور اس کو پھر سے تکمیل تک پہنچانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں ہے لہٰذا کسی نئے نبی و رسول کے بھیجے جا نے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

۳۔قرآن کریم میں بھی گذشتہ کتابوں کے مثل یہ مسئلہ موجود ہے کہ خداوندعالم نے کلی مسائل مختلف آیات کے ضمن میں بیان فرمادیئے ہیںاور ان کی تفصیل بیان کرنا پیغمبر کی ذمّہ داری قرار دی ہے۔مثال کے طور پر قرآن نے

____________________

۱۔سورئہ مائدہ آیت۳۔

۳۸۶

نماز کو واجب کیاہے لیکن اس کے جزئی احکام بیان نہیں کئے ہیں،یہ ذمہ داری پیغمبر کو سونپ دی ہے سورئہ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:( وَاَنْزَلَنَااِلَیْکَ الذِّکْرَلِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْهِمْ ) ( ۱ )

''۔۔۔اور ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں تم اسے صاف صاف بیان کرو۔۔۔''۔

حضرت رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنے دور ِ حیات میں اسی الہٰی نظام کے مطابق اپنا فرض ادا کیا ،احکام و معارف کی تفصیل امت کے سامنے بیان فرمادی اور اپنے اصحاب پر یہ اقوال و احا دیث آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنافرض قرار دیدیا۔ اس سے بھی بڑھکرپیغمبر کی دعوت تبلیغ جاری اور باقی رکھنے ، اور امت اسلامیہ کی دینی ضرورتوں، کو پورا کرنے اوران کے سوا لوں کے جوابات دینے کے لئے و صایت اور امامت کا سلسلہ جا ری کردیاجس کی بنیا د پر ،رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد لوگوں کے در میان معصوم اما موں کاایک گروہ موجودہے جو اگرچہ عہدہ ٔ نبوت نہیں رکھتا اور ان پر (انبیاء کی طرح) وحی نہیں نازل ہوتی لیکن وہ عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیںاور حقایق الٰہی ان پر الہام ہو تے رہتے ہیں ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد احکام کی توضیح و تشریح اور قرآن کی تفسیر کرنا اس گروہ کی ذمہ داری ہے اور یہ امامت کا سلسلہ قیامت تک باقی رہے گا یہاں تک کہ اگر رو ئے زمین پرصرف ددو آدمی زندہ رہیں تو ان میں سے ایک خدا کی حجت ہو گا ۔

خلاصہ کلام یہ کہ نئے پیغمبر کو مبعوث کئے جانے کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ اگر شریعت کے احکام کی تفصیل بیان کرے اور اس کے ذریعے حجت خدا اور لوگوں کے ما بین رابطہ بر قرار رہے اور اسلام میں یہ مسئلہ رسول خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے ذریعہ پوراہو جا تا ہے۔ لہٰذااس اعتبار سے بھی نئے پیغمبر کو مبعوث کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہو نے کے بعد ختم ہو گیا اور دین اسلام قیامت تک استوار و محکم رہے گا ۔ نہ اس میں کو ئی تحریف کی جا سکے گی اور نہ ہی اس کے احکام میںنسخ کے ذریعہ کو ئی تغیر تبدل واقع ہو گا۔ قرآن کریم کی دوسری آیات بھی اس مدعا کی تا ئید کرتی ہیں :

( ۔۔۔( وَ اِنَّهُ لَکِتَاب عَزِیْزلَایَاتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَامِنْ خَلْفِهِ تَنْزِیْل مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ) ( ۲ )

''اوریہ قرآن تو یقیناً ایسی گراں بہا کتاب ہے کہ با طل نہ تو اس کے سامنے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے حملہ

____________________

۱۔سورئہ نحل آیت۴۴۔ ۲۔سو رئہ فصّلت آیت۴۱۔۴۲۔

۳۸۷

کر سکتا ہے یہ تمام خو بیو ں وا لے عالم و دانا (خدا) کی بارگاہ سے نا زل ہو ا ہے '' ۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ قرآن کریم میں کسی قسم کی بھی کو ئی با طل(بات) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میںیا آپ کے بعد راہ نہیںپا سکتی ہے ۔ قر آن کریم میں باطل کے راہ پا نے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس طرح کو ئی چیز کم کر دی جا ئے یا کو ئی بات بڑھا دی جا ئے کہ اس کو پہچانا نہ جا سکے یا اس کے احکام منسوخ ہوجائیں اور آیت میں جملہ ''یَا تِیْہِ الْبَاطلُ '' کی عمومیت کا تقا ضا یہ ہے کہ ان میں سے کو ئی ایک احتمال بھی قرآن کریم کے با رے میں محقق نہیں ہو سکتا پس اس آیت سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ قر آن کریم کو نسخ کر نے والی کوئی کتاب اس کے بعد نا زل نہیں ہو گی اور نتیجہ میں ایسی کوئی کتاب لیکر آنے والا بھی مبعو ث نہیں ہو گا ۔البتہ اس آیت اور اس سے پہلے والی آیات کے مفاد میں فر ق ہے ۔ اس لئے کہ اس آیت میں کسی نئے پیغمبر کے نئی آسمانی کتاب کے ساتھ مبعوث ہو نے کے فرض کی نفی کی گئی ہے لیکن اس آیت سے اس احتمال کا انکار نہیں کیا جا سکتاکہ خدا کسی ایسے پیغمبر کو مبعوث کر ے جو اسی قر آن کی تبلیغ و تر ویج میں مشغو ل ہو جا ئے ۔کیو نکہ گز شتہ زمانہ میں کچھ ایسے انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے ہیں جنھو ں نے دو سرے نبی کی کتاب کی تبلیغ کی ہے (مثال کے طور پر حضرت لوط ،حضرت ابرا ہیم کی کتاب( ۱ ) و شریعت کے مبلغ تھے )۔ اس بنا ء پر آخری آیت سے صرف خا تمیت قرآن کے اعلان اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کسی دوسرے پیغمبر کے آسمانی کتاب لیکرمبعوث ہو نے کے احتمال کی نفی کو ثا بت کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال آیت کے ذریعہ اپنے مد عا کو پوری طرح صاف صاف ثا بت کرنے کے لئے صرف سورئہ احزاب کی وہ آیت کا فی ہے کہ جس کا ذکر ہم نے کیا ہے۔

خیال رہے کہ قر آن کریم کی آیات کے علا وہ تواتر سے متعدد روا یات بھی مو جو د ہیں جن کو تمام اسلا می فرقوں نے نقل کیا ہے ۔ نمو نہ کے طور پر ''حدیث منز لت ''کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ حدیث تو ا ترکے ساتھ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہو ئی ہے کہ آ پ نے امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :

''اَنْتَ مِنّیِ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْ سَیٰ اِلَّا اَنَّهُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ''( ۲ )

''تم کومجھ سے وہی نسبت ہے جو جو ہا رون کومو سیٰ سے ہے مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا '' ۔

ہم نے خاتمیت سے متعلق جو قرآنی دلیلیں پیش کی ہیں وہ صر ف ایک علمی بحث کی حد تک ہے ورنہ مسئلہ خاتمیت اسلام کے ضر وریات میں سے ہے اور ضروری اعتقادات کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے ۔

____________________

۱۔قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کتاب کو (صحف )سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

۲۔علا مہ مجلسی نے (منزلت)کے متعلق تمام روایات کتاب ''تا ریخ امیر المو منین ''باب ۵۳ سے نقل کی ہیں رجوع کیجئے بحار الانوار جلد ۳۷ (طبع جدید )صفحہ ۲۵۴۔۲۸۹۔

۳۸۸

انبیاء علیہم السلام کے دوسرے منصب

مقا م نبوت و رسالت کے علاوہ قر آن کریم میں انبیائے الٰہی کے دوسرے اوصاف و کمالات و منصب بھی بیان ہو ئے ہیں ۔ ان اوصاف و کمالات کو دو حصو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

۱۔وہ معنوی اور روحانی اوصاف جو خود ان ہی کی ذات سے متعلق ہیں اور ان کی مخصوص صلاحیت و استعداد ، ذاتی خصو صیات اور ان کی عبا دتو ں کے پیشِ نظر ان کو عطا کئے گئے ہیں ۔

۱۔انبیاء علیہم السلام کے وہ منصب جو سما جی اور معا شرتی ہیںاور عوا م الناس کے ساتھ ان کے خاص روابط کی عکا سی کر تے ہیں ۔

پہلی قسم میں صفت مخلَص ہے یعنی وہ جس کو خدا وند عالم نے اپنے لئے خا لص بنا لیاہو ۔ مثال کے طور پر قرآن کریم حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد فر ماتا ہے :

( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَا بِ مُوْسَیٰ اِنَّهُ کَا نَ مُخْلَصاًوَکَا نَ رَسُوْلاً نَبِیّاً ) ( ۱ )

'' اور اس کتاب میں مو سیٰ کا تذکرہ کرو اس لئے کہ وہ مخلَص اور خدا کے فرستادہ پیغمبر تھے''۔

اس آیت میں حضرت مو سیٰ کے نبی اور رسول ہو نے کے علاوہ ان کے (مخلَص ) ہو نے کی صفت بھی بیا ن کی گئی ہے، اور یہ وہی صفت اور مقام ہے جس کے لئے شیطان ابتداء سے ہی ایسے بندو ں کو گمرا ہ کر نے سے عا جز ی کا اعلان کر دیاہے ۔قرآ ن میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَلَا ُغْوِ یَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبٰا دَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ مریم آیت۵۱۔

۲۔سورئہ حجر۳۹۔۴۰۔

۳۸۹

''اور سب کو گمرا ہ کرو نگا مگر ان میں سے تیرے خا لص بندے میرے بہکا نے میں نہیں آئیںگے ''۔

یعنی کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو خدا وند عالم نے اپنے لئے خا لص قرار دیا ہے ان کا وجود ہراس چیز سے صاف اور پا کیزہ ہے جو خدا سے بیگانہ کر دیتی ہے ، قرآن کریم نے کچھ انبیاء علیہم السلام سے متعلق اس مقام و منزلت کا تذکر ہ کیا ہے ۔ مثال کے طور پرحضرت یوسف علیہ السلام کے لئے ارشاد ہو تا ہے :

( اِنَّهُ مِنْ عِبَادِناَالْمُخْلَصِیْنَ ) ( ۱ )

''بیشک وہ ہما رے خا لص بندوں میں سے تھے ''۔

انبیاء علیہم السلام کا ایک اور رو حانی مر تبہ صدّیق ہو نا ہے ۔قرآن کریم حضرت ادریس علیہ السلام کے سلسلے میں ار شا د فر ماتا ہے :

( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَا بِ اِدْرِیْسَ اِ نَّهُ کَا نَ صِدِّ یْقاً نَبِیّاً ) ( ۲)

''اور قر آن میں ادریس کا تذ کرہ کرو بیشک وہ بڑے سچّے نبی تھے ''۔

لفظ'' صِدّیق ''کا روا یات میں بھی تذکرہ ہے ۔ یہ ''صدق '' کا صیغۂ مبالغہ ہے یعنی صدیق اس کو کہا جاتا ہے جس کی رفتار و کر دار مکمل طور پر اس کی گفتار کے مطابق ہو اور اس کی گفتار و کردار میں کو ئی تنا قض نہ ہووہ تمام حقا یق پرعقیدہ رکھتا ہے اور ان سب پر عمل بھی کر تا ہے ۔ یہ صفت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ میں بھی سورئہ مر یم (آیت ۴۱) میں بیان ہوئی ہے ۔ اور اس (صدیق ) کی مو نث (صدیقہ) سورئہ ما ئدہ آیت ۷۵۔ میں حضرت مر یم علیہا السلام کے لئے استعمال ہوئی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی دو سری قسم کی خصوصیات کے تذکرہ میں نمو نہ کے طور پر مقامِ( اما مت) کو پیش کیا جاسکتا ہے خدا وند عالم قرآن میں حضر ت ابرا ہیم علیہ السلام کے سلسلے میں ار شاد فر ماتا ہے :

( وَ اِذِ ابْتَلَیٰ اِبْرَاهِیْمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاَ تَمَّهُنَّ قَا لَ اِ نّیِ جَا عِلُکَ لِلنَّا سِ اِمَاماً ) ( ۳ )

''اور جب ابراہیم کا ان کے پر ور دگا رنے کچھ کلمات کے ذریعہ امتحا ن لیا اور انھو ں نے ان سب کوپو را

____________________

۱۔سورئہ یو سف آیت ۲۴۔

۲۔سورئہ مریم آیت ۵۶۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت ۱۲۴۔

۳۹۰

دکھایا تو خدا نے فر مایا میں تم کولو گوں کا امام بنا نے والا ہو ں ''۔

امامت وہ عہدہ اورمقام ہے جو نبوت ورسالت کے بعد حضرت ابراہیم کو عطا کیاگیا ہے ۔یہ ایک سماجی اورمعاشرتی عہدہ ہے جس کا رابطہ لوگوں سے ہے:( لِلنَّاسِ اِمَاماً ) اس بناء پر اس عہدے اور مقام کی وجہ سے لوگوںپر کچھ فرائض عائدہوجاتے ہیں جیسے سیرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتداء اور ان کے احکام پر عمل کرنا۔

یہاں یہ بھی واضح کردینا مناسب ہوگا کہ زیر بحث اوصاف صرف انبیا ء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے اوصاف انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے افراد میں بھی مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں۔اس بات

کی تائید سورئہ نسا ء کی اس آیت سے ہوتی ہے :

( وَمَنْ یُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ﷲ ُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّ یْقِیْنَ وَالْشُّهَدَائِ وَالصّٰالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقاً ) ( ۱ )

''اور جن لوگوںنے خدااو رسول کی اطاعت کی تویہی وہ لوگ ہیں جو انعام یافتہ حضرات کے ساتھ ہوںگے یعنی جو انبیائ، صدیقین ،شہداء اور صالحین میں سے ہیں اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں''۔

اس آیت میں صدیقین ،شہداء اور صالحین کا انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ذکر کیاگیاہے۔اس بناء پر آخری تین گروہوں سے مراد غیر انبیاء ہیں اور یہیں سے یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ یہ تین منصب انبیاء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہیں(اس آیت میں شہداسے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے اعمال کے شاہدہیں) بعض آیات میں صالحین کی صفت اہل کتاب کے مومنین کے لئے استعمال کی گئی ہے ارشاد ہو تا ہے :

( ۔۔۔( وَیُسَارِعُوْنَ فِی الخَیْرَاتِ وَاُوْلَٰئِکَ مِنَ الصَّا لِحِیْنَ ) ( ۲ )

'' ۔۔۔ اور نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی لوگ نیک بندوںمیںسے ہیں ''۔

بہر حال ہم اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ قرآن کریم نے (صدیقہ )کی صفت کو حضرت مریم کی شان میں استعمال کیا ہے البتہ اس مقام پر ہماری بحث انبیاء علیہم السلام کے انفرادی او صاف کے متعلق نہیں ہے جوممکن ہے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دو سرے افراد میں بھی پائے جاتے ہوں بلکہ ہم توانبیاء علیہم السلام کے اجتماعی اور معا شرتی منصب و مقام کے بارے میں بحث کررہے ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۶۹۔۲۔سورئہ آل عمران آیت۱۱۴۔

۳۹۱

۱۔وحی کی توضیح وتفسیر

انبیاء علیہم السلام کی نبوت اور رسالت کا تقاضا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ خداوند عالم کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں اور خالق و مخلوق کے درمیان ایک اما نت دار کا کر داراداکریں ۔ انبیاء علیہم السلام کے مبعوث کئے جانے کالازمہ اور اس پرعقلی دلیل بھی یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو ایسا ہو نا چاہیے کہ وہ پیغام خدا (وحی کی صورت) حاصل کریں اور لوگوں تک پہنچادیں ،نبوت ورسالت کا اصل کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اورلوگوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ پیغامِ خدا کو انبیاء علیہم السلام سے لیں اور اس پر ایمان لا ئیںاور خداوند عالم کے قوانین پر عمل کریں۔ در حقیقت ان پیغاموںکے سلسلے میں انبیاء علیہم السلام کی پیروی کرنا ہی خدا کی اطاعت کرنا ہے ۔ چو نکہ اس مقام پر ان کا کام پیغام پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ارشاد ہو تا ہے:

( وَمَاعَلَیَ الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبلََاغُ ) ( ۱ )

''(خدا)کے پیغمبر کی پیغام خدا پہنچانے کے علاوہ (اور) کوئی ذمہ داری نہیں''۔

اِن باتوں کے با وجود قرآن کریم کی آیات سے یہ نتیجہ حاصل ہو تا ہے کہ انبیاء علیہم السلام مقام نبوت و رسالت کے علاوہ وحی کی توضیح و تفسیرکے بھی ذمہ دار تھے یعنی ان دو نوں باتوں میں فرق ہے کہ کو ئی شخص پیغام حاصل کرے اور اس کو بالکل اسی طرح اپنے مخاطب تک پہنچادے اور یہ کہ اس پیغام کی اپنے مخاطب کے سامنے تفسیرکرے ۔ اصلِ نبو ت کا تقاضابس یہ ہے کہ خداکا رسول پیغام خداوندی کو اپنی امت تک پہنچادے ۔ مثال کے طور پر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک قرآن کریم کی جو آیات کو وحی کے ذریعہ پہنچتی تھیںلو گوں کے سامنے تلاوت فرمادیا کرتے تھے ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام لو گو ں تک خدا کا پیغام پہنچا نا تھا لیکن لو گو ں کو کبھی کبھی مزید وضا حت کی ضرورت ہوتی یعنی بہت سے مقا مات پر لو گو ں کے لئے وحی کے مطالب تفسیر کے محتاج ہو تے تھے اس میں مجمل باتوں کو بیان کرنا ضروری تھا۔ضرورت تھی کہ جز ئی مسائل کی بھی ان کو تعلیم دی جا ئے ،مثا ل کے طور پر قر آن کر یم فرماتا ہے :( اَقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ ) (نماز قا ئم کرو) اگر چہ اس جملہ سے نما ز کا اصلی وجو ب سمجھ میں آ تا ہے لیکن نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا لہٰذاایسے مقام پر خدا وند عالم کی طرف سے کسی ایسے شخص کو معین ہو نا چاہئے جو نمازکی شرطیں،احکام اوراس کے پڑھنے کاطریقہ بھی بیان کرے۔

اس بنا ء پر انبیاء علیہم السلام (رسالت اور نبو ت کے علا وہ ) وحی کی توضیح و تشریح کر نے کے منصب پر بھی فا ئز

____________________

۱۔سورئہ مائدہ آیت۹۹۔

۳۹۲

تھے اور بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ لو گو ں کو اس مر حلہ میں بھی انبیاء علیہم السلام کی اطاعت کر نی چا ہئے اور وحی سے متعلق جن چیزو ں کو انبیاء علیہم السلام بیان فر ما ئیں انھیں تسلیم کر نا چا ہئے چنا نچہ ارشاد ہو تا ہے :

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ ﷲ ) ( ۱ )

''اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر اس وا سطے کہ لوگ خدا کے حکم سے اس کی اطا عت کریں ''۔

آیت میں مطلق طور پر حکم کے اندازسے یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام چا ہے اصلِ وحی پہنچارہے ہو ں یا اس کی تشر یح و تفصیل بیا ن فر ما رہے ہو ں ہر حا ل میں ان کی اطا عت و پیر وی کر نی چا ہئے دو سرے لفظو ں میں اگر ہم لو گو ں پر اصل وحی کی اطاعت سے بڑھکرکسی اور چیز کی اطاعت کو واجب کر نا چا ہیں تو پہلے مر حلہ میں انبیاء علیہم السلام جو وحی کی تفسیر کر یںاس میں ان کی اطاعت کر نی چا ہئے ۔

اصولی طور پر تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان یہ مر حلہ مشتر ک ہے ۔ اس لئے کہ خدا وند عالم کی طرف سے پیغام لا نے والا شخص فطری طور پر اس کی حقیقت جا ننے کے بعد اس وحی کے بھیجنے وا لے کے اصل مقصود کو سمجھ لیتا ہے لہٰذا ایک ایساشخص(پیغمبر ) خدا وند عالم کے کلام کی تفسیر کر ے گا تو یقیناً اس کی تفسیر وا قعے کے مطابق ہو گی اور اسی لئے لو گو ں پر بھی اس کی با تو ں پر اعتماد کر نا اور ان کی پیر وی کر نا ضروری ہے ۔

البتہ لو گو ں کی ضرورتیں اسی مرحلہ پرتمام نہیں ہو تیں بلکہ ان کی کچھ دوسری ضرو رتیں بھی ہیں اگر چہ یہ ضرورتیں اس حد تک نہیں ہیں کہ عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا وند عالم پر ان ضرو رتو ں کا پوراکر نا لازم ہو بلکہ خدا وند عالم اپنے فضل و کرم اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ان ضر ورتو ں کو بر طرف کر تا ہے۔ یہ ضر ورتیں انبیاء علیہم السلام کے دوسرے سما جی عہدوں کے اسباب فر اہم کر تی ہیں ۔

۲۔قضاوت اورفیصلے کر نا

عوام الناس کو اختلافات کے وقت کسی ایسے مرجع کی ضرورت پڑتی ہے جو قوا نین الٰہی کی روشنی میں فیصلہ کرکے ا ن کے اختلافات دورکردے اور ایک قطعی حکم صادر کرے دوسرے الفاظ میں لو گوں کا احکام اور قوانین کی معرفت حاصل کر ناانھیں ا س قاضی سے بے نیاز نہیں کرسکتا جو اُن احکام کو ان کے خاص مصادیق پر مطابقت کردیتا ہے اور اسی مقام پر لوگ قاضی کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں ۔ قاضی کلّی حکم سے آگاہ ہو تا ہے اور دلائل،شواہد اور

____________________

۱۔سورئہ نسا ء آیت ۶۴۔

۳۹۳

معتبر گوا ہو ں کی بنیاد پر ان کے مصادیق کو معین کرتا ہے البتہ قاضی کو ایسا ہو نا چاہئے کہ جھگڑا کرنے والے طرفین اس کے حکم کو دل و جان سے تسلیم کریں اور اس کی رائے کے مطابق عمل کریں تا کہ اختلاف ختم ہو جائے ۔ یہ ایسی چیز ہے جس کی ضرورت تمام معا شروں کو تھی اورآئندہ بھی اس کی ضرورت باقی رہے گی ۔

خداوند عالم نے اپنے بندوں پر لطف و کرم کے طور پر اپنے انبیاء علیہم السلام کو عہدہ قضاوت عطا کیا ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا تمام انبیاء علیہم السلام کو یہ مقام عطا کیا گیا تھا ؟ اس مسئلہ کو صاف طور پر کسی آیت میں بیان نہیں کیا گیاہے ۔ صرف بعض آیات کے مطلق ہو نے کی بنیاد پر اس عہدے کوتمام انبیاء علیہم السلام سے منسوب کیاجاسکتا ہے :

( مَن یُطِعِ الرَّ سُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ ) ( ۱ )

''جس نے رسول کی اطاعت کی تواس نے ﷲ کی اطاعت کی ۔۔۔''۔

ان آیات کے مطلق ہو نے کے علاوہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو صاف طور پر اس چیز کے او پر دلالت کرتی ہو کہ تمام انبیاء علیہم السلام مقام حکم و قضاوت کے حامل تھے ۔ بعض آیات میں یہ مقام صرف خاص انبیاء علیہم السلام کو عطا کئے جا نے کی بات کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پرخداوند عالم حضرت داؤ د علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

( یَادَاوُوْدُاِنَّاجَعَلنَاکَ خَلِیْفَةً فیِ الاَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقَِّ ) ( ۲ )

'' اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں (اپنا خلیفہ اور جانشین) قرار دیا پس لوگوں کے درمیان با لکل حق سے فیصلہ کرلیا کرو اور خوا ہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو '' ۔

اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ عہدۂ حکم و قضاوت نبوّت کے لوازمات میں سے نہیں ہے اس لئے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو پہلے نبوت عطا کی گئی اور اس کے بعد ان کو مسندِ قضاوت پر بیٹھنے اوراپنی امت کے درمیان فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ تو معلوم ہوا کہ قضاوت ایسا منصب ہے جو انبیاء علیہم السلام کے لئے جدا گانہ طور پر قرار دیا گیا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام اس منصب پر فا ئز تھے ۔

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۸۰۔

۲۔سورئہ ص آیت ۲۶۔

۳۹۴

۳۔حکو مت

لوگوں کی دوسری بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا قائدو رہبر ہو جو معاشرہ کے امور کی لگام اپنے ہا تھوں میں تھا مے اور ان پر حکومت کرے اسی بنیاد پر خدا وند عالم نے اپنے بعض انبیاء کو عہدۂ (حکومت ) پر فائز کیا تا کہ لوگوں کی بنیادی اور اصل ضرورت بھی بغیر جواب کے نہ رہ جائے اور زمین پر انبیاء علیہم السلام کی حکومت نمونہ کے طور پرسب سے اچھی حکومت قرار پا ئے البتہ قضاوت جس کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں حکومت کی ایک ضرورت شمار کی جاسکتی ہے لیکن ہر حال میں یہ دونوں مقام ایک دوسرے سے جُدا ہیں ۔ قضاوت ان مقامات پر کی جاتی ہے کہ جہاں دو یا چند افراد کے در میان حقوقی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف پیدا ہو جائے لیکن کبھی معاشرہ کو اس کی ضرورت ہو تی ہے کہ ایک صاحب منصب کی طرف سے حکم واقعی اور یقینی اس طرح صادر ہو کہ متفاوت آراکے لئے ایک حتمی اور اٹل فیصلہ ہو اور تمام لوگ اس کی پیروی کرنا بذات خود لازم سمجھتے ہوں اور اسی مقام پر مسئلہ حکومت کی ضرورت پیش آتی ہے ۔

مثال کے طور پر ملک کی لا ئن آف کنترول (سرحد) پر دشمن کے حملہ کرنے کے مو قعوں اور ان سے دفاع کی خاطرمختلف نظریات بیان کئے جا ئیں۔ کبھی کبھی ان مسائل کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کوئی قطعی رائے یا مشورہ نہ ہو تو خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ جس فوج میں ہر فوجی اپنی رائے پر عمل کرتا ہو تو اس فوج کے سر پر کا میابی کا سہرا نہیں بندھ سکتا ۔ البتہ حکومت کی ضرورت صرف مسئلہ جنگ اور دفاع سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جنگ کے مو قع پر اس کی ضرورت اور آشکار ہوجا تی ہے ۔

مختصر یہ کہ متعدد دلیلوں کی بنیاد پر معاشرہ کو ایک اچھی اور طاقتور حکومت کی ضرورت ہو تی ہے۔ اب ایسی صورت میں کیا ہر نبی کے لئے منصبِ حکومت پر فائز ہو نا بھی ضروری ہے ؟ ظاہری طور پر اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے نہ تو عقلی دلیل ہی ہمارے پاس ہے اور نہ ہی نقلی دلیل ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہو سکے ۔ قرآن کریم سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام عہدۂ حکومت پر بھی فائز تھے اور اپنی امت کے درمیان حکمرانی بھی کرتے تھے لیکن قرآن میںکوئی ایسی آیت نہیں ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کے اس مقام پر فائز ہو نے پرباقاعدہ سے دلالت کرتی ہو بلکہ اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یقیناً بعض انبیاء علیہم السلام اس منصب پر فائز نہیں تھے ۔

۳۹۵

مثال کے طور پر قرآن کریم میں بیان کی گئی (طالوت) کی داستان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس زمانہ کے پیغمبر منصب حکومت پر فائز نہیں تھے ۔ بنی اسرائیل کے بڑے بڑے افراد نے اپنے انبیاء علیہم السلام سے آکر کہا کہ خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کیجئے کہ وہ ہمارے لئے کو ئی حاکم معین فرمادے ۔قرآن کریم میںارشاد ہوتا ہے :

( ۔۔۔( اِذْقَا لُوْا لِنَبِیٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکاً نُقَاتِلْ فِی سَبِیْلِ اللّٰهِ ) ۔۔۔۔( وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً ) ( ۱)

'' جب انھو ں نے اپنے نبی سے کہا : ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تا کہ ہم راہ خدا میں جہاد کریں ۔۔۔، اور ان کے نبی نے ان سے کہا : بیشک اللہ نے طالوت کو تمہا را بادشاہ مقررکیا ''۔

اس آیت سے یہ ظا ہرہو تا ہے کہ وہ پیغمبر بذات خود حاکم نہیں تھے اور اگر وہ خدا کی طرف سے منصب حکومت پر فائز ہو تے تو ان کے جواب میں کہہ سکتے تھے : میں خود خدا کی جانب سے منصب حکومت پر فائز ہوں اور کسی دوسرے شخص کو با دشاہ یا حاکم معین کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن قرآن کے نقل کے مطابق انھوں نے بنی اسرائیل سے کہا : اگر خدا کوئی حاکم معین فرمادے تو کیا تم اس کی پیروی کروگے ؟ اور چونکہ انھوں نے مثبت جواب دیا تھا تو خداوند عالم نے طالوت کو ان کا حا کم قرار دیا ۔ معلوم ہو ا کہ ان آیات میںمذ کورہ پیغمبر منصب حکومت پر فائز نہیں تھے اور کوئی ایسی ظاہری دلیل بھی نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرے کو طالوت پیغمبر تھے بلکہ خداوند عالم نے کسی دوسرے شخص کو بنی اسرا ئیل پر سلطنت اور حکومت کے لئے منتخب کیا تھا ۔

پس کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو نبوت کے لئے حکومت کا ہو نا ثابت کرسکے بلکہ قرآن کریم کی بعض آیات سے استفادہ ہو تا ہے کہ ان دونوں منصبوں کے الگ الگ ہو نا ممکن ہے ۔ بعض آیات اور روایات سے یقینی طور پر آشکار ہو تا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام منصب حکومت پر بھی فائز تھے ۔

گذشتہ مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام منصب نبوت ورسالت پر فائز ہو نے کے ساتھ ساتھ وحی، قضاوت اور حکومت جیسے منصبوں پر فائز تھے ۔ ان منصبوں میں سے بعض معاشرتی منصب تمام انبیاء میں پائے جاتے تھے اور بعض دوسرے منصب صرف انبیاء علیہم السلام کے ایک گروہ سے ہی مخصوص ہو تے تھے ۔

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۲۴۶ ،۲۴۷ ۔

۳۹۶

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عہدے

اب دیکھنا یہ ہے کہ مندرجہ بالا سو شل سماجی عہدوں میں سے کو نساعہدہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں صادق آتاہے ۔ اکثر آیات سے یہ استفادہ ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مذکورہ بالا تمام منصبوں پر فائز تھے ۔ وحی کی تفسیر کرنے میں آپکا کلام حجت تھا ، آپ کی قضاوت و داوری بھی حجت تھی، آپ لوگوں پر حکو مت بھی کرتے تھے اورآپ کے تمام حکومتی احکام کی اطاعت لوگوں پرواجب تھی۔

۱۔وحی کی تفسیر کا منصب

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ ) ( ۱ )

''جس نے رسول کی اطاعت کی تواس نے ﷲکی اطاعت کی ۔۔۔''۔

اس آیت میںلفظ''الرسول''میں ''ال''عہد ہے جنس نہیں ہے اور ''رسول'' سے مراد بھی پیغمبر اسلام ہیں: البتہ اگر ''ال''معنای جنس کے لئے بھی ہو تو بھی استدلال میں کوئی خلل نہیں پڑے گا چونکہ پیغمبر اسلام ہر حال میں اس کے مطلب میں شامل ہوںگے ۔

بہر حال آیت میں بیان کیاگیاہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (یاتمام انبیاء علیہم السلام)کی اطاعت کرنا خداکی اطاعت کرناہے اور آیت کے اطلاق سے یہ پتہ چلتاہے کہ وحی کی تفسیر کرنے میں بھی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجت ہیں اور آپ کی اتباع کرنا واجب ہے یہی معنی سورئہ نساء آیت۶۴سے بھی حاصل ہوتے ہیں :

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّهِ )

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجامگر اسلئے کہ خداکے حکم سے لوگ اسکی اطاعت کریں۔۔۔''۔

یہ آیت بالعموم پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی شامل ہوتی ہے اور مطلق اطاعت ،اوروحی کی تفسیر کی اطاعت کرنے کو بھی شامل ہے ۔اس بناء پر ان آیات کے مطلق ہونے سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ پہلا منصب (یعنی وحی کی تفسیر کرنا اور اس کو بیان کرنا)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ثابت ہے ۔مندرجہ بالاآیات کے علاوہ دوسری آیات بھی ہیںجواس مدعا کوصاف طریقہ سے ثابت کرتی ہیں ۔مثال

کے طور پر خداوندعالم ارشاد فرماتاہے:( وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْهِمْ ) ( ۲ ) ''۔۔۔اور ہم نے تمہاری طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں تم ان کو صاف صاف بیان کرو ''۔

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت ۸۰۔ ۲۔سورئہ نحل آیت۴۴۔

۳۹۷

اور ظاہر ہے کہ وحی بیان کرنے کامقام اس کے اصل متن کو پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور خداوندعالم ارشاد فرماتاہے:

( یَتْلُوْاعَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) ( ۱ )

''۔۔۔جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھے اور ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے ۔۔۔''

یہ آیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہے اور آیات کی تلاوت اور کتاب کی تعلیم دینے کے درمیان فرق رکھا گیا ہے اور اسکاظاہری مطلب یہ ہے کہ دوسرے منصب سے تفسیر وحی کامنصب ہی مراد ہے ۔

اس اعتبار سے قرآن کریم کی آیات اس بات کی شاہد ہیں کہ وحی الٰہی کی تفسیر اور دینی قوانین اور احکام کی تفصیل بیان کرنے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام سب کے لئے حجت ہے اور اس بارے میں بھی لوگوں کو ان کے کلام کی پیروی کرنا چاہیے ۔

ب۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قضاوت کاعہدہ

دوسرا منصب مسئلہ قضاوت(فیصلہ کرنے)سے مربوط تھا۔قرآن کریم کی بعض آیات کی شہادت کی رو سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے یہ منصب بھی ثابت ہے:

( وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مَصَدِّقاًلِّمَابَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُهَیْمِناًعَلَیْهِ فَاحْکُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللََّهُ وَلَاتَتَّبِعْ اَهْوَٰائَ هُمْ عَمَّاجَائَ کْ مِنَ الْحَقِّ ) ( ۲ )

''اور ہم نے تم پر یہ کتاب (قرآن )بر حق نازل کی جو کتاب(اس کے پہلے سے )اس کے وقت میں موجود ہے اسکی تصدیق کرتی ہے اور ان پر حاکم ہے ۔پس ان کے درمیان جو کچھ خدا نے تم پر نازل کیا ہے اسکے مطابق تم بھی حکم دو اور حق بات جو خدا کی طرف سے آچکی ہے (اس سے کترا کے) خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو ۔۔۔''۔

اس آیت کی بنیاد پر ایک طرف تو قرآن کریم اپنی ما سبق آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف ان پر حاکم بھی ہے یعنی ان کے احکام کو منسوخ کردیتا ہے اس کے بعد قرآن کریم میں فرماتاہے:اب جبکہ ہم نے تم پریہ کتاب نازل کردی ہے تو لوگوں کے درمیان احکام الٰہی کی اساس و بنیاد پر فیصلہ کرو۔یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوندعالم کی جانب سے منصب قضاوت پر بھی فائز تھے ۔خاص طور سے یہ کہ

____________________

۱۔ سورئہ جمعہ آیت۲۔۲۔سورئہ مائدہ آیت۴۸۔

۳۹۸

خداوند عالم اسکے بعد بلافاصلہ یہ فرماتاہے : اے پیغمبر لوگوں کی ناحق خواہشات نفسانی اور ہوا و ہو س کی اتباع کرکے قضاوت نہ کرنا''یہ تعبیر اس چیز کی حکایت کرتی ہے کہ قضاوت کا حکم ایسا نا زک مر حلہ ہے کہ اس میں خواہشات نفسانی اور شیطانی ہواو ہوس کی بنا پر لغزشوںکا زیادہ امکان پایاجاتا ہے ۔

البتّہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرح ہر گناہ سے معصوم تھے لیکن قرآن کریم کی یہ تعبیر اور اس کے مانند دو سری تعبیریں جن میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب قرار دیا گیاہے یہ پیغمبر کے بجا ئے تمام انسانوں کی تربیت کے لئے ہیںاور عام طور پر خطر ناک اور اہم لغزشوں کی پہچان کرانے کے با رے میں استعمال کی گئی ہیں تاکہ لوگ پہلے سے ہی ان سے بچنے کے لئے آما دہ ہو جا ئیں ۔بہر حال مذکورہ آیت (فَاحْکُمْ بَیْنَھَمُکی تعبیر کے مد نظر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منصب قضاوت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور دوسری آیت میں اس طرح ہے

( اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَااَرَاکَ ﷲ ُ وَلَاتَکُنْ لِلْخَآئِنِینَ خَصِیْمَاً ) ( ۱ )

''ہم نے تم پر بر حق کتا ب اسلئے نازل کی ہے کہ جس طرح خدانے تمہاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ہر گز خیانت کرنے والوں کے طرفدار نہ بنو''۔

یہ آیت بھی( لاتَکُن لِلْخائنین خصیما ) جملہ کے مدنظر صاف طورپرپیغمبر کے منصب قضاوت پر فائز ہونے اور عدالت کے ساتھ فیصلہ کرنے پر دلالت کرتی ہے ۔اسی طرح سورئہ مبارکہ احزاب میںخداوندعالم ارشاد فرماتاہے :

( وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَامُؤْمِنَةٍ اِذَاقَضَیَ اللَّهُ وَرَسُوْلُهُ اَمْراًاَنْ یَکُونَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْضَلَّ ضَلَٰلاً مُّبِیْناً ) ( ۲ )

'' کسی مومن اور کسی مومنہ کے لئے یہ مناسب نہیںہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کا م (کے کرنے نہ کرنے )کا اختیار ہواور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ شخص کھلم کھلا گمراہی سے دوچار ہوچکا ہے ''۔

اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خداو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر کسی چیز کا فیصلہ کردیں یا کسی کام سے منع کر دیں توکسی

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۱۰۵۔۲۔سورئہ احزاب آیت۳۶۔

۳۹۹

کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے ۔(قضیٰ)کی تعبیر اگر چہ قضاوت اور مشاجرہ کے دور کرنے میں منحصر نہ بھی ہو تب بھی یقینا اس کوشامل ہو گی۔

قرآن کریم کے سورئہ نساء کی آیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منصب قضاوت پر فائز ہونے پرصاف طور سے دلالت کرتی ہے :

( فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَهُمْ ثُمَّ لَایَجِدُ وْافِیْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجاًمِمَّاقَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً ) ( ۱ )

''لیکن ایسانہیں ہے،تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ کو اپنے باہمی جھگڑوں میں اپنا حاکم (نہ)بنائیں،اور پھر جب آپ فیصلہ کر دیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریںاور آپ کے فیصلہ کے سا منے سراپا تسلیم ہو جا ئیں ''۔

آیت صاف دلالت کررہی ہے کہ اس وقت تک لوگ حقیقی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم کو اپنے اختلافات اورلڑائی جھگڑوں میں اپنا حَکَم(قاضی) قرارنہ دیں اور اسکے بعد آپ جو بھی حکم صادر فرمائیں اسکو تسلیم کریں۔لوگوں کے مومن ہونے کے لئے صاف طور سے یہ شرط لگانااس چیز کی حکایت ہے کہ خداوند عالم نے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو منصب قضاوت عطا کیا ہے ۔

ما ل غنیمت سے مربوط بعض آیات سے بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے منصب قضاوت ثابت کیا جاسکتا ہے۔نمونہ کے طور پر سورئہ حشرمیں مال غنیمت تقسیم کرنے کے طریقوں کو بیان کرنے کے بعد مسلمانوں سے یہ کہاگیا ہے کہ مال غنیمت کو تقسیم کرنے اور حصے معین کرنے میں پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشورہ کی عزت و توقیر کریں اور ان کے حکم کی پیروی کریں :

( وَمَآئَ آتَٰکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْهُ وَمَانَهَٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ) ( ۲ )

''۔۔۔اور جوکچھ رسول تم کو دیں اس کولے لو اور جس سے منع کریں اس سے ہاتھ کھینچ لو ۔۔۔''۔

البتّہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت (غنائم جنگی)سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ''ما اٰتاکم''میں حرف''ما''شرعی امور اور احکام و قوانین کو بھی شامل ہوتاہے یعنی جس چیز کا بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم دیں اس کو انجام دو اور جس چیز سے منع کریں اسکو چھوڑدو لیکن آیت سے پہلے اور آیت کے بعد والے قرینوں کے مد نظر آیت کے پہلے معنی ہی مناسب

____________________

۱۔سورئہ نسا ء آیت۶۵۔۲۔سورئہ حشر آیت۷۔

۴۰۰