راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135617
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135617 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

ہیں ۔یعنی مال غنیمت میں سے جو کچھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم کو تمہا رے حصّہ کے طور پر تم کودیںتو لے لو اور اگر عملاًیا زبا نی طور پر منع کریںتو اس کو چھوڑدو ۔

بہر حال اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے کہ مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کرنے میں آپ کے حکم کا اتبا ع کرنا لازم و ضروری ہے۔

۳۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا منصب حکومت

قرآن کریم کی بعض آیات پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکومت اورولایت کے منصب کوبیان کرتی ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کریم سورئہ مبارکہ احزاب میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مومنوںکے ساتھ قریبی اور گہرے رابطہ کے بارے میں فرماتاہے :

( اَلْنَّبِیُّ اَوْلَیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَْنْفُُسِهِمْ ) ( ۱ )

''نبی تو مومنین پر خود ان کی جانوں سے بڑھکر حق رکھتے ہیں ۔۔۔''۔

اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کایہ ایک ایساعہدہ اور منصب ہے کہ آپ کا فیصلہ یاتجویز دوسروں کے فیصلوں اور تجویزوں حتی کہ ان کی ذات کے او پر بھی مقدّم ہے اور یہ وہی منزلت ہے جس کو ''ولایت امر '' سے تعبیر کیاجاتاہے ۔

اس کے علاوہ جس آیت کے ذریعہ حکومتی امور میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرنا لازم ہے وہ سورئہ مبارکہ نساء میں ہے :

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ ئَ امَنُوْااَطِیْعُوْااللَّهَ وَاَطیِعُوْاالرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ ) ( ۲ )

''اے ایمان لانے والوﷲکی اطاعت کرو اور رسول اور اولی الامرکی (بھی)اطاعت کرو '' ۔

اس آیت میں لفظ ''اَطِیْعُوْا'کی دو مرتبہ تکرار میںایک بار خداکی اطاعت اور دوسری مرتبہ پیغمبر اور صاحبان امر کی اطاعت کیلئے ہے اوردوسری طرف یہ ظاہرہے کہ'' اُولواالامر''اسے کہتے ہیں جو حکومتی معاملوں میں دخا لت کرسکتا ہو اور بنیادی طور پر''اُولو االامر '' ''رسول''صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ میں آیاہے اوردونوں کو ایک ہی ''اطیعوا'' سے مخاطب کیا گیاہے یعنی یہاںپیغمبر کی اطاعت سے مراد وہ امورہیں جن میں عام طور سے میں ''اولوا الامر''کی

____________________

۱۔سورئہ احزاب آیت۶۔۲۔سورئہ نساء آیت۵۹۔

۴۰۱

طرف رجوع کیا جاتاہے یعنی جو امور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ۔

ا لبتّہ آیت کا بعد والاحصّہ( فَاِنْ تَنَٰزَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ )

''اور اگر تم کسی بات میں جھگڑاکرو تو اس امر میں خدا اور رسول کی طرف رجوع کرو ۔۔۔'' بھی اسی مطلب کے صحیح ہونے پر شاہد ہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے۔کہ اس آیت میں اطاعت کا مطلب، وحی کے مضامین کو قبول کرنا یاتفسیر وحی کے مقام میں پیغمبرکے کلام پر عمل کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت سے مراد آپ کی حکومت کے احکام و قوانین ہیں اس وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ''اولواالامر''کی شان ایک ہے ۔

اس مختصر سی بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن کریم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے منصب تبیین و تفسیروحی،قضاوت اور حکومت کی تائید کرتا ہے ۔

معصوم اماموں کے منصب

شیعہ حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ نبوت اور رسالت کے علاوہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام منصب بارہ معصوم اماموں کے لئے بھی ثابت ہیں اور یہ عقیدہ شیعہ مذہب کے ضروری عقائدمیں شمار ہوتاہے اور اس مدعاکوسورئہ نسا کی اسی انسٹھویں آیت سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔

مذکورہ آیت کا مد لول مطابقی ''اولوالامر''(صاحبان امر)کے لئے حکومت اور ولایت کا منصب ثابت کرناہے ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ اس آیت کے ظاہرکے مطابق صاحبان امر کی اطاعت کی ضرورت مملکت کے اندر اس طرح ہے کہ وہ اس میں حق د خالت رکھتے ہیں یعنی حکومتی معاملات کے اعتبار سے اور ''اولواالامر''کا عنوان بھی اساسی اور بنیادی طورپر اسی معنی سے مناسبت رکھتاہے اس بناء پر صاحبان امر من جانب ﷲمنصب ولایت و حکو مت پر فائز ہیں اور حکومتی معا ملات میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے

دوسری طرف اسلام میں قضاوت کا منصب حکومت کی فرعوںمیں سے ایک فرع ہے۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو لوگوں پر ولایت کے منصب پر فائز تھے آپ قضاوت کے معا ملات بھی انجام دیتے تھے اور آپ قاضیوں کو اس منصب پر تقررکرنے کا حق بھی رکھتے تھے ۔

۴۰۲

اصولی طور پر اسلام میں قا بل اعتماد قاضی کا انتخاب اور تقرراسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ اس آیت کے مطابق صاحبان امر کے لئے حکومت کامنصب ثابت ہے تو قضاوت کا منصب بھی جو اسی کی ایک فرع ہے وہ بھی اسی کے ضمن میںان کے لئے ثابت ہوجاتاہے ۔

صاحبان امر کے منصب قضاوت کے مد نظران کا تیسرا منصب یعنی قرآن کریم کی آیات کی تفسیرمیں بھی ان کے کلام کا معتبر ہونا ثابت ہوجاتاہے۔جو شخص من جانب ﷲمسندقضاوت پر جلوہ افروزہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وحی کے تمام مطالب کو صحیح طریقہ سے سمجھ سکتا ہواور معاشرے اور اسلامی قضاوت سے مربوط قوانین( جن کو قرآن میں تفصیلی طور پر بیان نہ کیا گیا ہے) ان کی صحیح معرفت رکھتاہو۔ اس بناء پر قرآن کریم کی آیات اور پیغمبر اسلام کی سنّت سے ایساشخص امت کے لئے معتبراور حجت ہوگا۔

اس وجہ سے اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صاحبان امر من جانب ﷲمنصب حکومت پربھی فائز ہیں اور منصب قضاوت پر بھی اور نیز تفسیر وحی اورسنّت نبوی میں بھی ان کی رائے معتبر ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صاحبان امر کون لوگ ہیں ؟

ہم گذشتہ بحثوں میں یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ شیعہ اور سنّی حضرات کی تائیدشدہ روایات کے مطابق صاحبان امر وہی بارہ امام علیہم السلام ہیں ۔اہل سنّت سے نقل ہواہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض اصحاب(منجملہ جابربن عبدﷲانصاری )نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیاکہ خدااور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرنے کا مطلب تو سمجھ گئے لیکن یہ فرمائیے کہ اولواالامر سے مراد کون ہیں؟اسی مقام پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہ اماموں کے نا موں کے ساتھ اولواالامر کے عنوان سے انھیںمعین فرمادیا۔

البتّہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولواالامر بذات خود کسی شخص کو معین کردیں تو خداوندعالم کی اطاعت کی بنا پر اس کی اطاعت کرنابھی واجب ہوگی۔جس طرح پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھی کو ئی لشکر اسلام روانہ کر تے تھے تو کسی فوجی افسر کو معین فرماتے تھے توامت پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہوجاتی تھی اسی بنیاد پر آپ نے اسامہ کے بارے میں فرمایا :''لَعَنَ ﷲ ُمَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسٰامَة ''

''جس نے بھی اسامہ کے حکم سے سرپیچی کی اس پر خداکی لعنت ہے ''اس لئے کہ اسامہ کی اطاعت رسول خدا کی اطاعت کی بنا پر واجب قراردی گئی تھی پس جو بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یااولواالامر کی جانب سے منصوب ہواس کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔ولایت فقیہ کی دلیل بھی اسی سے حا صل ہوتی ہے۔

۴۰۳

معصوم امام جو صاحبان امر ہیں انھوں نے غیبت کے زمانہ میں جامع الشرائط فقہاء کو اپنا نائب قرار دیا ہے اور مسلمانوں پر ان کی اطاعت واجب کی ہے اور حتیٰ کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ ان (فقہائ)کے قول کو رد کرنا ہمارے قول کو رد کرناہے اور جس نے ہمارے قول کو رد کیا وہ مشرک ہے۔پس اسی بنیا دپر ولی فقیہ کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔

یہ مطلب بیان کردینا بھی مناسب ہے کہ اس آیت سے اصل ولایت فقیہ کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔یہ حق بات ہے کہ ہم پہلی ہی نظر میں اولواالامرکے مصادیق کو نہیں پہچان سکتے لہٰذا ہمیں اولواالامر کو مشخّص و معین کرنے کے لئے وحی کے مفسر یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن سے متمسّک ہوناچاہئے جیسا کہ متعدد روا یات کی بنیاد پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معصوم اماموں کا اولواالامر کے عنوان سے تعارف کرایاہے اور ائمہ علیہم السلام نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے۔ حضرت امام محمد باقراور امام صادق کے زمانہ میں بنی امّیہ اور بنی عباس کے درباری علماء ان کی غاصبانہ حکومت کو ثابت کرنے اور اس کی شرعی حیثیت ثابت کرنے کے لئے اسی آیت سے استدلال کیا کرتے تھے ۔جیسا کہ آج بھی بعض مسلم حکمراںاپنی حکو مت کو قا نونی اور شرعی ثابت کر نے کے لئے اسی آیت کا سہا را لیتے ہیں ۔

ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے اصحاب کو اسی طرح کے اشخاص سے بحث کرنے کی تعلیم دی تھی۔ اسی تعلیم کی اساس و بنیاد پر اس طرح کے باطل دعوئوں کے جواب میں یہ کہنا چاہئے :کہ جس طرح نماز،زکاة،حج وغیرہ ۔۔۔سے متعلق آیات کے نازل ہونے کے بعد ان آیات کے معانی کو سمجھنے ،ان عبادات کے انجام دینے کے طریقہ کو سمجھنے اور ہر ایک عبادت کے خصوصیات کو جاننے کے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔اسی طرح آیۂ اولواالامر کے بارے میں بھی تمہارا وظیفہ و فریضہ یہ ہے کہ تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے رجوع کرو۔جس فعل کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اصحاب نے عمل کیااور آپ سے سوال کیااورآپ نے بھی ان کے جواب میں اولواالامر کے مصادیق کی تعیین فرمائی اور جہاں وحی کی تفسیر کرنے میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فر مان حجت ہے، آپ نے اولواالامر کے مصداق کو بارہ معصوم اماموں میں منحصر فرمادیا ہے اور اولواالامر سے خداوندعالم کی مراد بھی وہی بارہ معصوم امام ہیں لہٰذاتمام مسلمانوں پر ان کی اطاعت و پیروی کرنا واجب ہے۔

اس بناء پر آیۂ اولواالامر براہ راست ولایت فقیہ پر دلالت نہیں کرتی اگر چہ یہ اصل اپنی جگہ معتبرہے اور فقہا کا ائمہ کی طرف سے منصوب ہونا ثابت ہے۔اگر غیر معصو م کو بھی اولواالامر قرار دیا جائے( جیسا کہ اہل سنّت نے

۴۰۴

پہلے ایساکیا ) تو اس سے سوء استفادہ کا راستہ صاف ہوجائیگا اور ممکن ہے کہ اس سے اصل ولایت فقیہ کے متعلق بھی خدشہ ہونے لگے۔اولواالامر کے معنی میںتوسیع ہوجانے کے بعدیہ امکان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ فقیہ کو مسلمانوں کا ولی فقیہ ہوناچاہئے اس مطلب پر ہمارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ یہ لازم ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے آشناہو اگرچہ یہ تقلید کی حد تک ہی ہو نہ کہ اجتہادکے ذریعہ ۔

نتیجتاً آیۂ اولواالامر سے اصل ولایت فقیہ کا استفادہ کرنا درست نہیں ہے البتہ ولایت فقیہ کی مشروعیت امام معصوم کے منصوب کرنے کی وجہ سے ہے :

''۔۔۔والرادعلیهم کالراد علیناوالراد علیناوالراد علی ﷲوهوعلی حد الشرک''

ان (فقہائ)کے قول کو رد کرنا ہمارے قول کو رد کرناہے اور جس نے ہمارے قول کو رد کیا اس نے اللہ کے قول کو رد کیا وہ مشرک ہے۔

معارف قرآن کے مجموعہ میں سے ''رہنماکی معرفت ''کی بحث تمام ہوگئی ہم خداوند قدوس سے معارف قرآن کریم کے تمام حصّوں کے اتمام کے بارے میں مددچاہتے ہیں ۔

امید ہے کہ ہم خداوندعالم کی خاص عنایتوں کے ذریعہ اس راہ پرگامزن رہیں گے جس راہ کو اہل بیت علیہم السلام عصمت و طہارت نے ہمیںقرآن اور احکامات کوسمجھنے کے لئے اچھی طرح ہمیں دکھلایاہے۔

پہلے ہم قرآن کریم کے معارف صحیح طرح سمجھیںاس کے بعداپنی اوردوسروں کی سعادت و رستگاری کے لئے ان پر عمل کریں ۔

الحمد ﷲرب العالمین

۴۰۵

فہرست

حرف اول ۴

مقد مہ ۶

حسی او ر عقلی اد را ک ۷

احسا سا ت کا دا ئرہ ۷

عقل کا د ائرہ ۸

تجر بہ کی ر ا ہ ۹

اہم بات ۱۳

نبوّت قرآن کی نگاہ میں ۱۷

بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد ۱۷

تشریعی ہدایت (الٰہی رہنمائی ) ۱۷

لوگوں کی تعلیم ۲۴

تحریفات کی اصلاح ۲۴

دینی اختلاف کا بر طرف کرنا ۲۵

قضا وت ۲۹

حکو مت ۳۰

یاد دہا نی ۳۲

ڈرانا اور خو شخبری دینا ۳۳

ظلم اور برائی سے مقا بلہ ۳۴

لوگوں کو توحید اور معاد کی طرف متوجہّ کرنا ۳۵

۴۰۶

پیغمبروں کا بشر ہو نا ۳۹

معجزہ ۵۱

معجزہ کی ضرورت ۵۱

معجزہ کی حقیقت ۵۲

کچھ سوالوں کے جوابات ۵۵

۱۔سوال : کیا معجزہ نبوت کے دعوے سے وابستہ ہے یا نہیں ؟ ۵۵

۲۔کیامعجزہ عقلی طور پر ممکن ہے یا نہیں ؟ ۵۶

صحیح جواب کیا ہے؟! ۵۷

۳۔کیا انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے ؟ ۶۰

معجزہ قرآن کی روشنی میں ۶۸

آیت ۶۸

انبیاء علیہم السلام کے معجزات ۷۸

معجزہ کی کیفیت ۸۰

معجزہ کا دائر ئہ حدود ۹۰

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات ۹۲

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ۹۵

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات ۹۵

حضرت مریم کی کرامت ۹۹

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی کرامت ۱۰۱

طا لوت کی کرامت ۱۰۲

۴۰۷

ارمیا اور حضرت یونس علیہ السلام کے معجزات ۱۰۲

حضرت دائو د علیہ السلام کے کرامات ۱۰۳

حضرت سلیمان علیہ السلام کے کرامات ۱۰۴

اصحاب کہف ۱۰۷

عقلی نکتہ ۱۰۷

نتیجہ ۱۰۸

دائمی اعجاز ۱۰۹

اہل کتاب کے نزدیک پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نشانیاں ۱۱۰

چیلنج، قر آن کے معجزہ ہو نے کا ثبوت ۱۱۲

قرآن کریم معجزہ کیوں ہے ؟ ۱۱۸

۱۔صَرف و انصراف ۱۱۸

۲۔بلاغت: ۱۱۹

۳۔ اختلاف نہ ہو نا : ۱۲۲

۴۔پیغمبر امی کی جا نب سے ہے ۱۲۴

۵۔جا معیت : ۱۲۵

۶۔علمی نکات کا اظہار : ۱۲۶

۷۔غیبی خبریں : ۱۲۶

ایرانیوں پر رومیوں کا غلبہ ۱۲۷

فتح مکہ ۱۲۷

پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بقیہ معجزات ۱۲۸

۴۰۸

شقّ ا لقمر ۱۲۸

لو گوں کے ادراک میں تصرف ۱۳۰

''القاء رُعب ''اور'' نزول سکون و اطمینان'' ۱۳۳

عصمت ۱۴۰

ملا ئکہ کی عصمت ۱۴۲

کیا انبیا ء علیہم السلام وحی میں کسی چیز کا اضا فہ کر سکتے ہیں ؟ ۱۴۵

مقا مِ عمل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت ۱۴۸

مقا مِ عمل میں انبیا ء کے معصوم ہو نے پر کیا کو ئی قر آ نی دلیل ہے ؟ ۱۵۰

کیا عصمت ''جبر '' ہے ؟ ۱۵۳

عصمت انبیاء علیہم السلام سے متعلق شبہات ۱۵۵

حضرت آدم علیہ السلام ۱۵۶

حضرت ابر اہیم اور حضرت یو سف علیہما السلا م ۱۵۸

حضرت یونس علیہ السلام ۱۶۱

حضرت موسیٰ علیہ السلام ۱۶۲

حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما ا لسلام ۱۶۴

حضرت محمد مصطفےٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۶۶

پہلی آیت ۱۶۶

دو سری آیت ۱۷۰

تیسری آیت ۱۷۴

چو تھی آیت : ۱۷۷

۴۰۹

پانچویں آیت ۱۸۱

غیرانبیا ء علیہم السلام کا معصوم ہو نا ۱۸۶

اَئمہ علیہم السلام کی عصمت ۱۸۹

اَئمہ علیہم السلام کی عصمت پر قر آ نی دلیل ۱۹۰

اولی الامر کی شان کیا ہے ؟ ۱۹۳

اہل بیت علیہم السلام کون ہیں ؟ ۱۹۸

ادیان کا اشتراک اور امتیاز ۲۰۰

اسلام ،دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح ۲۰۰

ادیان کے اختلاف کی وجہیں ۲۱۲

۱۔بغا وت و سر کشی ۲۱۲

۲۔تحریف ۲۱۷

احکام کے جزئیات میںادیان ایک نہیں ہیں ۲۱۹

رہنما کی پہچان ۲۲۲

انبیاء علیہم السلام ۲۲۲

قرآن میں تا ریخی مباحث کا محور ۲۲۲

قرآ ن مجید میں انبیاء علیہم السلام سے متعلق آیات کی تقسیم ۲۲۳

قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے اوصاف ۲۲۴

رسول ،نبی اورنذیر ۲۲۴

رسول اورنبی کا فرق ۲۲۶

انبیاء علیہم السلام کی تعداد ۲۲۸

۴۱۰

کلمۂ امت کی وضاحت ۲۲۸

انبیاء علیہم السلام کی کثرت ۲۳۰

انبیاء علیہم السلام کی جنس ۲۳۳

اپنی قوم کا ہم زبان ہونا ۲۳۴

دعوتِ توحید ۲۳۵

معا شرہ میں رائج برا ئیو ں اور بد عنو انیو ں سے جنگ ۲۳۵

فضیلت کے اعتبا ر سے مرا تب کا فرق ۲۳۶

اجر طلب کر نے سے پر ہیز ۲۳۷

اولواالعزم انبیاء علیہم السلام ۲۴۱

کیا اولو ا العزم انبیا ء علیہم السلام ہی صا حبا نِ کتاب و شریعت ہیں ؟ ۲۴۲

صا حبانِ کتا ب او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام کی رسالت کا دا ئرہ ۲۴۳

ادیان الٰہی ایک ہیں یا کئی؟ ۲۴۵

دین کے اندر اختلافات ۲۴۸

عا لمی رسالت کا مفہو م ۲۵۰

تمام الٰہی انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہے ۲۵۱

انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا عالمی ہونا ۲۵۵

پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا عالمی ہونا ۲۵۶

مخا لفین کی دلیلو ں پر ایک نظر ۲۶۰

تبلیغ اسلام کے تئیں جنوںکا کر دار ۲۶۲

ظہو ر اسلام کے بعد بقیہ تمام ادیان کا غیر معتبر ہو نا ۲۶۳

۴۱۱

انبیاء علیہم السلام کی امتیں ۲۶۵

مو جو دہ بحث کا علو م سما جیات ونفسیات سے رابطہ ! ۲۶۶

خو د امتو ں کے ذریعے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب ۲۶۷

انبیاء علیہم السلام سے جنگ کر نے وا لے سردا روں کی پہچان ۲۷۱

انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کے نفسیاتی اسباب ۲۷۴

استکبار (خود کو بڑا سمجھنا ) ۲۷۴

احساس بر تری ۲۷۷

ظلم ۲۷۷

نفسانی خوا ہشات ۲۷۸

گنا ہ میں آلو دہ ہو نا ۲۷۹

بے نیا زی(بے فکری) کا احساس ۲۸۰

انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کے چند نمونے ۲۸۱

مستکبر اور مستضعف قرآن کی نگا ہ میں ۲۸۵

استضعاف اور استکبار کے لغوی معنی ۲۸۵

مستکبروں اور مستضعفو ں کی گفتگو ۲۸۷

قرآن میں مستکبر اور مستضعف کا مطلب ۲۹۰

مستضعفین سے متعلق آیات کا ایک جائزہ ۲۹۳

نتیجۂ بحث ۳۰۰

استکبار اور استضعاف کی اہمیت ۳۰۱

عوام کا انبیا ء علیہم السلام کے ساتھ برتائو ۳۰۳

۴۱۲

مذاق اڑا نا ۳۰۴

تہمت ۳۰۶

بہانہ تلاش کرنا ۳۱۱

ڈرانااوردھمکانا ۳۱۷

امتوں کے ساتھ خدا کا طر یقۂ کار (الٰہی سنّتیں ) ۳۲۱

مشکلات کے ذریعہ ہدایت ۳۲۵

املاء اور استد راج کی روش ۳۲۶

الٰہی جال اور اخلاقی اقدار کی ہم آہنگی ۳۲۸

سنّت عذاب ۳۳۱

خدا کی سنّتوں کا ایک دوسرے میں مؤثر ہونا ۳۳۲

الف )حضرت نوح علیہ السلا م کی قوم ۳۴۰

ب ) ہود علیہ السلام کی قوم( عاد ) ۳۴۱

ج ) صالح علیہ السلام کی قوم (ثمود) ۳۴۱

د) لوط علیہ السلام کی قوم ۳۴۲

ہ)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم ۳۴۲

و:حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ۳۴۲

ز)حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی قوم (آل فرعون ) ۳۴۳

الف )اصحاب سبت ۳۴۴

ب )قوم سب ۳۴۴

ج )اصحاب رسّ ۳۴۴

۴۱۳

ہ )اصحاب فیل ۳۴۵

عذابِ استیصال کا، کافروں سے مخصوص ہونا ۳۴۵

مستضعفین کا حاکم ہونا ۳۴۸

الٰہی امدادآنا ۳۴۹

شکران نعمت سے اضافہ اورکفران نعمت سے کمی ۳۵۰

انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کی سنت ۳۵۵

وحی کی حقیقت ۳۵۷

سما جیات میں اسلامی طرز تفکر سے متعلق چند نکات ۳۶۰

چند نفسیاتی پہلو ۳۷۱

فلسفۂ تا ریخ کے بارے میں ایک نکتہ ۳۷۶

خا تمیت ۳۷۸

خاتمیت سے متعلق شکوک کا جا ئزہ ۳۸۱

اختتام نبوّت کی وجہیں ۳۸۴

انبیاء علیہم السلام کے دوسرے منصب ۳۸۹

۱۔وحی کی توضیح وتفسیر ۳۹۲

۲۔قضاوت اورفیصلے کر نا ۳۹۳

۳۔حکو مت ۳۹۵

پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عہدے ۳۹۷

۱۔وحی کی تفسیر کا منصب ۳۹۷

ب۔پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قضاوت کاعہدہ ۳۹۸

۴۱۴

۳۔پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا منصب حکومت ۴۰۱

معصوم اماموں کے منصب ۴۰۲

فہرست ۴۰۶

۴۱۵