راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135879
ڈاؤنلوڈ: 3496

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135879 / ڈاؤنلوڈ: 3496
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

ختم ہوجاتا اور ان کے نزول کی ضرورت پوری نہ ہوتی ۔

اس کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے :اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ لوگ اس حالت میں فرشتہ کا دیدار چا ہتے ہیں تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ فرشتہ انسانی شکل میں مجسم ہوکر سامنے آ ئے لیکن اگر فرشتہ انسانی شکل وصورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوتا تو یہ لوگ یہی کہتے کہ تم بھی ہماری طرح کے انسان ہو معلو م ہوا یہ لوگ فرشتوں کو ان کی حقیقی صورتو ں میں دیکھنا چاہتے تھے اور یہ فی الحال ان کیلئے ممکن نہیں تھا ۔دوسرے لفظوں میں قرآن فرماتاہے کہ اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں : اول یہ کہ تم فرشتہ کو اس کی حقیقی صورت میں دیکھنا چاہتے ہو جس کی تم میں فی الحال قا بلیت نہیں پائی جاتی کیو نکہ اگر تم اس کو دیکھ لو گے توتمہارا دم نکل جائیگا اور اگر انسان کی شکل وصورت میں دیکھو گے توتمہاری دل کی مراد پوری نہیں ہو گی لہٰذا فرشتہ کا دیدار ہونا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ بعض مخصوص انسان اپنی قابلیت کے تحت وحی کے واسطہ سے فرشتہ سے رابطہ قائم کرسکتے ہیںکہ جس کی تم میں قابلیت نہیں پائی جاتی ۔

اس کے بعد کی آیت میں قرآن کریم اعلان کرتا ہے :

( وَلَوْجَعَلْنَا هُ مَلَکاً لَجَعَلْنَا هُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَاْ عَلَیْهِمْ مَاْیَلْبِسُوْنَ ) ( ۱ )

''اور اگر ہم فرشتہ کو نبی بنا کر بھیجتے تو (آخر)اس کو بھی انسانی صورت میں بھیجتے تو گویا ہم بھی ان کو اسی شبہ میں مبتلا کر دیتے کہ جس کے یہ مرتکب ہوئے ہیں''۔

اور دوسرے مقام پر قرآ ن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَ فِی اللَّهِ شَک فَا طِرِالسَّمَٰوَٰتِ وَالْاَ رْضِ ) ( ۲ )

''ان کے پیغمبروں نے (ان سے ) کہا کہ خدا کے بارے میں کہ جس نے سارے آسمان وزمین کو پیدا کیا شک کیا جا سکتا ہے ؟'' ۔

ان کے جواب میں لوگ کہتے تھے:( قَا لُوْااِنْ اَنْتُمْ اِلّابَشَرمِثْلُنَا )

''تم بھی تو بس ہمارے ہی جیسے آدمی ہو ''۔

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۹۔

۲۔سورئہ ابرا ہیم آیت۱۰۔

۴۱

( لَومَاتَاْتِیْنَابِاِلْمَلََٰئِکَةِ اِ نْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ) ( ۱ )

''اگر تم اپنے دعوے میں سچّے ہو تو فرشتو ں کو ہما رے سامنے کیوں نہیں لا کر کھڑ ا کرتے ''۔

یعنی فرشتو ں سے ہماری ملا قات کیو ں نہیں کرا تے ؟

خدا وند عالم ان کے جواب میں فر ماتا ہے :

( مَا نُنَزِّلُ المَلَا ئِکةَ اِلّاَ بِالْحَقِّ وَمَاکانُوْااِذاًمُّنْظَرِیْنَ ) ( ۲ )

''ہم فرشتوں کو نہیں بھیجا کر تے مگر یہ کہ حق کے ساتھ اور اس وقت اُن کو (ہدایت ہو تی ہے) کہ (جان بچانے کی )مہلت بھی نہ دیں ''۔

ملا ئکہ کا نازل کرنا کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کچھ شرطوں کا ہو نا ضروری ہے اگر ہم فرشتو ں کو ان کی نگا ہو ں کے سامنے کھڑ ا کر دیں تو پھر وہ اس دنیا میں زندہ ہی نہیں رہ سکتے اور ان کو اس دنیا میں رہنے کی مہلت نہیں ملے گی۔

قرآ ن کریم میںارشاد ہو تا ہے:

( وَمَامَنَعَ النَّاسَ انْ یُؤْمِنُوْااِذْجَائَ هُمُ الهُدَیٰ اِلَّااَنْ قَالُوْااَبَعَثََ اللَّهُ بَشَراًرَسُْولًا ) ( ۳ )

''اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ چکی تو اُن کو ایمان لانے سے اس کے سوا اور کسی چیز نے نہ روکا کہ وہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے آ دمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے''۔

خدا وند عالم ان کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے :

( قُلْ لَوْکانَ فی ْالَارْضِ مَلَائِکَة یَمْشُوْنَ مُطمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَاعَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَآئِ مَلَکاً رَسُوْلاً ) ( ۴ )

''اے رسول تم کہدو کہ ا گر زمین پر فرشتے (بسے ہوئے )ہو تے جو اطمینان سے چلتے پھر تے نظر آتے تو ہم ان لوگوں کے پاس فرشتہ ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ''

ایک دو سرے مقام پر کفار کا قول قر آن نقل کرتا ہے :

____________________

۱۔سورئہ حجر آیت ۷۔

۲۔سورئہ حجر آیت ۸۔

۳۔سورئہ اسراء آیت ۹۴۔

۴۔۔سورئہ اسراء آیت ۹۵۔

۴۲

( وَقَالُوْاماَلِ هَٰذَ اَالرَّسُوْلِ ِیَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الاَسْوَاقِ لَوْلَااُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَک فَیَکُوْنَ مَعَهُ نَذِیْراً ) ( ۱ )

''اوران لو گو ںنے ( یہ بھی ) کہا کہ یہ کیسارسو ل ہے جو کھانا کھا تا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتاہے اس کے پاس کو ئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہو ا تا کہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے) ڈرائے '' ۔

یہ سب( لو تا تینا با لملائکه ) کی ما نند ہے یعنی نبی کے ساتھ ایک فرشتہ آئے کہ جس کو دیکھ سکیں البتّہ اسکے علا وہ بھی وہ بہت با تیں کیا کر تے تھے جو ہماری بحث سے تعلق نہیں رکھتیں ۔

خد ا وند عالم ان کے جواب میں فرماتا ہے :

( وَمَااَرْسَلنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْناَ بَعضَکُم لِبَعْضٍ فِتْنَةً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْراً ) ( ۲ )

''اور (اے رسول )ہم نے آ پ سے پہلے پیغمبر نہیں بھیجے مگر یہ کہ سب کے سب ہی آ پ کی ہی ما نند کھا نے کھا تے تھے اور با زا رو ں میں چلتے پھر تے تھے اور ہم نے آ پ میں سے بعض کو بعض کے لئے سبب ِ آ زمائش بنایا کہ خدا کی طاعت میں آ یا آپ لوگ صبر کر تے ہیں (یا نہیں ) اور آ پ کا پر ور دگار بڑا دیکھنے والا ہے''۔

انسان اس دنیا میں امتحان کے لئے پیدا کیا گیا ہے جب اس کے لئے کسی چیز کا حق ہو ناثا بت ہو جا ئے تو اس کا امتحان اس طرح ہو تا ہے کہ کیا وہ حق کو قبول کر تا ہے یا خوا ہشات ِ نفسانی کی وجہ سے قبول نہیں کرتا ؟

ہم نے پیغمبروں کو بھیج کر اپنی حجت تمام کردی ،لوگو ں کے لئے ان کا پیغمبر ہو نا ثابت ہو جا تا ہے تو اس وقت ان کا امتحان ہو تا ہے کہ وہ اپنی ہی جنس کے ایک انسان کی اطاعت کر تے ہیں یا اُن کاجذ بۂ تکبران کو اطاعت سے روک دیتا ہے (وَجَعَلنَا بَعْضَکُم لِبَعْضٍ فِتْنَةً )آ پ تمام لوگ انسان ہیں لیکن بعض انسانو ں کا بعض انسانوں کے ذریعہ امتحان ہو تا ہے پیغمبروں کا امتحان بھی اس طرح ہو تا ہے کہ جب لوگ ان کی دعو ت ِتبلیغ کو نہیں مانتے تو وہ آیا تبلیغ سے دست بر دار ہو جا تے ہیں؟ یا تبلیغ کو جا ری رکھتے ہیں ۔اور صبر کر تے ہیں :( اَ تَصبِرُونَ وَکَانَ رَبُّک بَصِیْراً ) ۔

ارشاد خدا وندی ہے :

____________________

۱۔سو رئہ فرقان آیت ۷۔۸ ۔

۲۔سورئہ فر قان آیت ۲۰۔

۴۳

( وَمَاْاَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّارِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْمَلُوْ نَ ) ( ۱ )

''اور (اے رسول ) ہم نے آ پ سے پہلے بھی آد میوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا کہ ان کے پاس وحی بھیجا کر تے تھے تو اگر تم لوگ خود نہیں جا نتے ہو تو عالموں سے پوچھ لو''۔

یہو د و نصا ریٰ اور دو سری قوموں سے سوال کرو کہ ان کے انبیاء علیہم السلام انسان تھے یا نہیں؟ اہل خبرہ اور امت کے دانشوروں سے سوال کرو تو وہ تم کو بتلائیں گے کہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام بھی انسان تھے ۔

سورئہ انبیاء میں ارشادفر ماتا ہے :

( وَمَاجَعَلنَاهُم جَسَداً لا یَاکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَاکَانُواخَالِدِینَ ) ( ۲ )

''اور ہم نے ان (پیغمبروں )کے بدن بیجان نہیں بنا ئے تھے کہ انھیں کھا نے پینے کی احتیا ج نہ ہو اور نہ وہ (بدن سے آزاد روح تھے ) کہ ہمیشہ زندہ رہیں ''۔

سورئہ فرقان میں ارشاد ہو تا ہے:

( وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَرجُو نَ لِقائَنَالَولَا اُنْزِلْ عَلَیْنَاالْمَلَائِکَةُ اَوْنَرَیٰ رَبَّنَالَقَدِ اسْتَکْبَرُوافِی اَنفُسِهِم وَعَتَوْعُتُوّاًکَبِیْراًیَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلَائِکَةَلاَ بُشْرَیٰ یَومَئِذٍ لِلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَحْجُوْرًا ) ( ۳ )

''اور جو لوگ (قیامت میں )ہماری ملا قات کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ آخر فرشتے ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ؟پروردگار کو( کیوں نہیں ) دیکھتے ؟ان لوگوں نے دراصل اپنے کو(بہت ) بڑا سمجھ لیا اور بڑی سرکشی پر اتر آئے (حالا نکہ )جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گنہگاروںکوکچھ خوشی نہ ہوگی وہ فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے دوررہو ''۔

( ذَٰلکَ بِاَنَّهُ کَانَتْ تاَ تِیْهِمْ رُ سُلُهُمْ بِالْبَیِّنَا تِ فَقَالُوْا اَبَشَر یَهْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَاسْتَغْنَی اللَّهُ وَاللَّهُ غَنِیّ حَمِیْد ) ( ۴ )

''یہ اس وجہ سے ہے کہ جب ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلے معجز ے لیکر آ ئے تھے تو کہتے تھے کہ کیا (ہمارے جیسے ) آدمی ہمارے رہبر بنیں گے ؟ پس (یہ کہہ کر ) کا فر ہوگئے اور منھ پھیر بیٹھے توخدا نے بھی (ان کی ) پروانہ کی اور

____________________

۱۔سو رئہ انبیاء آیت ۷۔

۲۔سورئہ انبیاء آیت ۸۔

۳۔سورئہ فر قان آیت ۲۱۔۲۳۔

۴۔سو رئہ تغابن آیت۶ ۔

۴۴

خدا تو ہر اک سے بے نیاز اورسزاو ا ر حمد ہے '' ۔

یہا ں قر آ ن نے کلی طو ر پر تمام قو مو ں کا حال نقل کیا ہے کہ جب انکے درمیا ن انبیاء علیہم السلاممبعو ث کئے جا تے تھے تو وہ کہا کر تے تھے :( اَبَشَر یَهْد ُونَناَ ) کیا بشر ہماری ہدایت کرے گا؟

( فَکَفَرُواوَتَوَلّوا ) وہ (نبیوں ) کا انکار کر تے اور رو گر دانی اختیار کر لیتے تھے جبکہ (خود) خدا ان سب سے بے نیاز ہے ۔حکمت ِخدا کا تقا ضا بس اتنا ہی ہے کہ وہ ان کے درمیان انبیاء علیہم السلام مبعو ث کر کے ان پر اپنی حجت تمام کر دے۔خدا کو اس بات پر اصرار نہیں ہے کہ ان کو ہر حال میں انبیاء علیہم السلام کی اتباع کر نی ہو گی (کیونکہ)خدا کو ان کی کو ئی ضرورت نہیں ہے (وَاسْتَغْنَی ﷲ وﷲ غَنِیّ حَمِید)حکمتِ خدا کا تقا ضا بس اس قدر ہے کہ ان کے لئے راستہ کی وضاحت کردے تاکہ وہ اپنے اختیار اور خواہش سے راہِ حق یا راہِ باطل کو منتخب کر لیں۔

یہا ںتک کہ ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے آیات کلی طو ر پر تمام انبیاء علیہم السلام کے بارے میں تھیں لیکن بہت سے مقا مات پر ہر نبی کے لئے الگ الگ بھی مطلب بیا ن ہو ئے ہیں کہ ان کی قوم والو ں نے اس نبی کے مقابل اسی طرح کی باتیں کہی ہیں منجملہ حضرت نوح علیہ السلام کے سلسلہ میںخدا وند عالم ار شاد فر ماتا ہے :

( فقَالَ الْمَلَائُ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْامِنْ قَوْمِهِ مَاهَٰذَآ اِلَّابَشَر مِثْلُکُمْ یُرِ یْدُ اَنْ یَتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْشَائَ اللَّهُ لَاَنْزَلَ مَلَٰئِکَةً مَاسَمِعْنَابِهَٰذَافِیْ آبَائِنَاالْاَوَّلِیْنَ ) ( ۱ )

''ان کی قوم کے سرداروں نے جو کا فر تھے کہا کہ یہ بھی تو بس تمہارے ہی جیسا انسان ہے (مگر) اس کی خواہش ہے کہ تم پر برتری حاصل کرلے (ورنہ ) اگر خدا ( پیغمبر نبی بھیجنا چا ہتا ) تو فرشتو ں کو نازل کرتا ہم نے تو (کبھی ) ایسی بات اپنے باپ دادائو ں کے سا منے نہیں سنی تھی ''۔قو م نو ح علیہ السلام اس سلسلہ میں شاید سچ کہتی چونکہ حضرت آ دم علیہ السلام سے لیکر حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک اتنا فاصلہ ہو گیا تھا کہ لوگو ں کو ما سبق انبیاء علیہم السلام کی کوئی دقیق خبر نہیں تھی لیکن بعد کی قو موں کے لئے یہ باتیں با لکل صحیح نہیں تھیں اور ایسا نقل بھی نہیں ہو ا ہے کہ بعد والی قو مو ں نے یہ کہا ہو کہ ہم نے اس طر ح کی با تیں نہیں سنی ہیں ۔اسی طرح قو مِ نوح کے سر دار قوم والو ں سے کہتے تھے :

( اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُل بِهِ جِنَّة فَتَرَبَّصُوْا بِهِ حَتَّٰی حِیْن ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ مو منون آیت۲۴۔

۲۔سور ئہ مو منون آیت ۲۵۔

۴۵

''در حقیقت اس آدمی (حضرت نوح ) پر جنو ن طا ری ہے لہٰذ ا کچھ دن حالات کا انتظا ر کر لو'' ۔

دوسری آیت میں ایک اور پیغمبر کی زبا نی (البتہ اس پیغمبر کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے) قر آن نقل فر ماتا ہے :

( وَقاَلَ الْمَلَاُ مِنَ قَوْمِه الذین کَفَرُوْا وَکَذَّ بُوْابِلِقَائِ الآخِرَةِ وَاَ تْرَفْنَٰهُمْ فی الحَیَٰوةِ الدُّ نْیَامَاهَٰذا اِلَّابَشَرمِّثْلُکُمْ یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُوْنَ مِنْهُ وَیَشْرِبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ وَلَئِن اَطَعْتُمْ بَشَراً مِّثْلَکُمْ اِ نَّکُمْ اِذاً لَخَٰسِرُوْنَ ) ( ۱ )

''اور ان کی قوم کے چند سرداروں نے جوکافر تھے اور (روز )آخرت کی حاضر ی کو بھی جھٹلا تے تھے اور دنیا کی (چند روزہ ) زند گی میں ہم نے انھیں عیش اور نعمت بھی دے رکھی تھی (قوم والو ں سے ) کہہ دیا یہ تو بس تمہا رے ہی جیسا آدمی ہے جو چیزیں تم کھا تے ہو یہ بھی کھا تا ہے اور جو چیزیں تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے اور اگر تم لوگو ں نے اپنے ہی جیسے آد می کی اطا عت کر لی تو تم ضرور گھا ٹے میں رہو گے''۔

حضرت صالح علیہ السلام کے با رے میں قر آن کریم فرماتا ہے کہ ان کی قوم نے اُن سے کہا :

( قَالُوْااِنَّمَآاَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ مَااَنْتَ اِلَّابَشَر مِثْلُنَا ) ( ۲ )

''وہ لوگ بولے کہ تم پر تو بس جادو کر دیا گیا ہے (کہ ایسی باتیں کر تے ہو )تم بھی تو آخر ہما رے ہی ایسے آدمی ہو ''۔

حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی طرح کی باتیں ملتی ہیں کہ ان کی قو م نے اُن سے کہا :

( قَالُوْااِنَّمََآاَنْتَ مِنَ المُسَحَّرِیْنَوَمَااَنْتَ اِلَّابَشَرمِثلُنَا وَاِن نَظُنُّکَ لَمِنَ الکَاذِبِینَ ) ( ۳ )

''وہ لوگ کہنے لگے تم پر تو بس جادو کردیا گیا ہے ( کہ ایسی باتیں کر تے ہو ) اور تم بھی تو ہما رے ہی ایسے آدمی ہو اور ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ تم جھو ٹ بول رہے ہو ''۔

خدا وند عالم قرآنِ کریم کے سورئہ یس میں ایک واقعہ اس طرح نقل فرماتا ہے :

( وَاَضْرِبْ لَهُم مَثَلاً اَصحَا بَ القَرْ یَةِ اِذْجَآئَ هَاالْمُرْسَلُوْنَ اِذْاَرسَلْنآاِلَیهِمُ اَثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْهُمَافَعَزَّزْنَابِثَا لِثٍ فَقَالُوااِنَّآاِ لَیکُم مُرسَلُونَ قَالُوْامَااَنْتُمْ اِلَّا بَشَرمِثلُنَا ) ۴ )

____________________

۱۔سورئہ مو منون آیت۳۳،۳۴۔

۲۔سو رئہ شعراء آیت ۱۵۳ ۔۱۵۴۔

۳۔سو رئہ شعراء آیت ۱۸۵ و۱۸۶ ۔

۴۔سورئہ یس آیت ۱۳۔۱۴۔۱۵۔

۴۶

''اور (اے رسول )تم (ان سے )مثال کے طور پر ایک آبادی کا قصہ بیان کرو کہ جب وہاں (ہمارے ) پیغمبر آئے اس طرح کہ پہلے ہم نے ان کے پاس دو پیغمبر بھیجے تو ان لوگو ں نے دو نو ں کو جھٹلا یا ،تب ہم نے ایک تیسرے (پیغمبر ) کو (ان دونوں کی ) مدد کے لئے بھیجا تو ان تینوں نے کہا ہم تمہا رے پاس (خدا کے ) بھیجے ہو ئے (آئے ) ہیں تو وہ لوگ کہنے لگے کہ تم لوگ بھی تو بس ہما رے ہی جیسے آدمی ہو اور خدا نے کچھ نازل نہیں کیا ہے تم سب کے سب با لکل جھو ٹے ہو ''۔

روایات میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ملک شام کے شہر انطاکیہ میں پیش آیا جو اَ ب تر کی میں ہے۔

بہر حال، قرآنِ کریم میں ہے :

( اِذْجَائَ تْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَینِ اَیدِ یهِمْ وَ مِن خَلْفِهِم اَلَّاتَعْبُدُ وْااِلَّااللَّهَ ) ( ۱ )

''کہ ہم نے ان کے پاس ان کے سامنے اوران کے بعد (مختلف صورتوں سے مختلف شہروں میں ) انبیاء بھیجے جو ( یہ خبر لے کر ) آ ئے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ''۔

تو لوگو ں نے ان کے جواب میں کیا کہا ؟

( قَالُوْالَوْشَائَ رَبُّنَالَاَنْزَلَ مَلَٰئِکَةً فَاِنَّابِمَآاُرْسِلْتُمْ بِهِ کَافِرُوْنَ )

''کہنے لگے اگر ہمارا پرور دگار چا ہتا تو فرشتے نازل کرتا پس جس بات پر تم لوگ مبعوث کئے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے ''۔

قرآ ن کریم کا ان سے سوال ہے :

( هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَْن یَا تِیَهُمُ اللَّهُ فِی ظُلَلٍ مِنَ الْغَمََامِ وَالْمَلَٰئِکَةُ وَقُضِی الْاَمْرُوَاِلَی اللَّهِ تُرْجَعُ اْلاُ مُورُ ) ( ۲ )

''کیا وہ لوگ اسکے منتظر ہیں کہ سفید ابر کے سا ئبا نوں (کی آڑ ) میں خدا ( عذاب کے فرشتوں کے ساتھ ) ان پر ظاہر ہو اور سب جھگڑ ے تمام کر دے حالا نکہ کل امر خدا کی ہی طرف پلٹنے ہیں ''۔

____________________

۱۔سو رئہ فصلت آیت ۱۴۔

۲۔سو رئہ بقرہ آیت۲۱۰۔

۴۷

جی ہاں !اس طرح کا انتظار حقیقتا موجو د تھا جیسا کہ اس سے قبل کی آیات میں بھی بیان ہو چکا ہے کہ ان کا کہنا تھا :جب تک ہم خدا کو نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لا ئیں گے او ر ہم پر ملا ئکہ کیو ں نہیں نازل ہو تے ؟! قر آ ن کریم نے اسی کا ذکر کیا ہے :

( هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّااَنْ تَاتِیَهُمُ الْمَلَٰئِکَةُ اَوْیَاتِیَ رَبُّکَ اَویَا تِیَ بَعضُ آیَا تِ رَبِّکَ یَوْ مَ یَاتِی بَعْضُ آیَا تِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْساًاِیمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبلُ اَوْکَسَبَتْ فِی اِیمَانِهَاخَیْراً قُلِ انْتَظِرُوْااِنَّامُنْتَظِرُوْنَ ) ( ۱ )

'' آیا یہ لوگ صرف اس کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا اس سے بالا تر خود پرور دگار کی آمد کے منتظر ہیں ؟پرور دگار کی کچھ نشانیاں دیکھنا چا ہتے ہیں (آخر کیو نکر سمجھا یا جائے) حالانکہ جس دن تمہا رے پروردگار کی بعض نشانیا ں آ جا ئیںگی۔۔۔''۔

''یقینا ﷲکی نشانیاں تکو ینی ہوں یا تشریعی کا ئنات کی تخلیق اور کتاب و نبوّت کی صورت میں معجزے کے طور پر بہت زیا دہ ہیں لیکن وہ لوگ ان کے خواہاں نہ تھے بلکہ وہ ایسی نشانیاں چاہتے تھے جو دنیا کو بدل ڈالے اور دنیا میں کوئی بنیا دی اثر رو نما ہو جائے ''۔

(یَومَ یَا تِی بَعْضُ آ یَاتِ رَبِّکَ لَا یَنفَع تو جس دن خدا وند عا لم کی بعض ایسی نشانیاں ظا ہر ہوںگی اس دن جو ایمان نہیں لا ئے ہیں ان کا ایمان لا نا ان کیلئے کو ئی فائدہ نہ پہنچا ئے گا مثال کے طور پر اگر عذاب ہو نے لگے اور وہ لوگ عذاب نا زل ہو تے وقت ایمان لا ئیں تو کیا فائدہ ؟! جیسے فر عو ن نے غر ق ہو تے وقت کہا تھا: ( آ مَنتُ بِمَا آ مَنَتْ بہِ بَنُوا اِسرَا ئِیل)فر عو ن کو جواب دیا گیا :اب ؟اب ایمان لا نے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے؟ (یَو مَ یَا تِی بَعضُ آیَاتِ ربِّکَ ۔) اگر اس طرح کی نشا نیاں ظاہر ہو نے لگیں تو لوگو ں سے اختیار سلب ہو جائے گا اور پھر زبر دستی کا ایمان کس کام کا ہو گا ؟اسی طرح اگر کار ِخیر انجام نہ دیا جا ئے اور اس طرح کی صو رت دیکھنے کے بعد کار خیر انجام دیں تو اسکا کو ئی فا ئدہ نہیں۔ (اَوکَسَبَت فِی اِیمَانِھَاخَیرا ) اس کے بعد فر ما تا ہے ( قُلِ انتَظَرُوا )''کہد یجئے اپنے نشہ میں پڑے رہو اور انتظار کرو ہم بھی انتظار کر تے ہیں ''۔

قر آنِ کریم میں ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۱۵۸۔

۴۸

( هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَأْوِیْلَهُ یَوْمَ یَا تِیْ تَاْوِیْلُهُ یَقُوْلُ الَّذِ یْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَائَتْ رُسُلُ رَبِّنَابِالْحَقِّ فَهَلْ لَنَامِنْ شُفَعَائَ فَیَشْفَعُوْالَنَآاَوْنُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِ یْ کُنَّا نَعْمَلُ قَدْخَسِرُوْااَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَاکَانُوْایَفْتَرُوْنَ ) ( ۱ )

اس آیت میں ایک اور تعبیر ہے !کیا وہ تاویل قرآ ن کے ظاہر ہو نے کے علا وہ کسی اور چیز کے منتظر ہیں ؟ ہم نے تا ویل ِقر آ ن کی بحث میں پہلے عرض کیا تھا کہ اس آیت اور اس کے مشابہ آیات میں تا ویل قرآ ن کے حقیقی مصادیق وہ مطالب ہیں جو قر آن میں بیا ن ہو ئے ہیں توکیا وہ حقیقت ِ قرآن کے ظہو ر کے منتظر ہیںیعنی جب قرآن فر ماتا ہے کہ قیا مت ہے ،عالمِ آخرت ہے ، ملائکہ ہیں تو کیا یہ لوگ خود قیامت یا ملائکہ کو دیکھ کر ان پر ایمان لانا چا ہتے ہیں ؟جبکہ جس دن قر آ ن کی بیان کر دہ یہ حقیقت ظا ہر ہو گی اور ان مطا لب کے مصا دیق محقّق ہو ں گے کسی کے لئے ایمان لا نے کاوقت باقی نہ رہ جائے گا ۔

اس وقت جو لوگ ان حقائق کو بھو لے ہو ئے تھے اور ایمان نہیں لا ئے تھے وہ کہیں گے: (قدجَا ئت رُسُلُ رَبِّنَابِالحَقِّ) ہاں پیغمبر جو کچھ فر ما تے وہ بالکل سچ فر ما تے تھے اب ہم کیا کریں! (فَھَلْ لَنَا مِن شفعا ء فَیَشفَعُوالَنَا اَو نُرَدُّ فَنَعمَل غَیرَالَذِی کُنَّا نَعمَل )

ظا ہر ہے ان کی موت کے وقت تا ویل قر آ ن ظاہر ہو گی وہ کہیں گے کہ کیا ہم کو دنیا میں وا پس پلٹا یا جا سکتا ہے پتہ چلا جس دن تا ویل قرآ ن ظاہر ہو گی وہ ان کی موت کا دن ہو گا یہی وہ دن ہو گا کہ جب وہ حقا ئق کہ جن کا وعدہ کیا گیا ہے او ر جو لو گو ں کی آ نکھو ں سے غا ئب رہی ہیں ظا ہر ہو ںگی اور وہ خود ان کا مشا ہدہ کریں گے اور کہیں گے (قَد خَسِرُوا اَنفُسَھم )ہم اپنے جی سے ہار چکے ہیں اب ہما رے ہا تھ میں کچھ نہیں رہا ہم نے اپنی زندگی کھو دی ، بہت نقصان اٹھا یا (وَ ضَلَّ عَنْھُمْ مَاکَا نُوْْا یَفتَرُوْنَ) انھوں نے جن کو خدا کا شریک قرار دیا تھا ، اور خدا پر افتراء و بہتان با ندھے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ ہما ری شفاعت کریں گے ہم کو خدا کے عذاب سے بچالیں گے اب وہ خو د مشا ہدہ کریں گے کہ یہاں کسی بت کا کو ئی نشان نہیں ہے کسی کا کو ئی بس نہیں چلتا۔خدا کا حکم ہے جو نازل ہو رہا ہے اور اس سے بھا گنے کی کو ئی جگہ بھی نہیں ہے ۔

قر آ نِ کریم میںایک جگہ اور ارشاد ہو تا ہے :

( هَلْ یَنظُرُونَ اِلَّآاَن تَاتِیَهُمُ المَلَٰئِکَةُ اَوْیَاتِیَ اَمرُرَبِّکَ کَذَا لِکَ فَعْلَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ )

____________________

۱۔سو رئہ اعراف آیت ۵۳۔

۴۹

( وَمَاظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰکِنْ کَانُوْااَنفُسَهُم یَظْلِمُوْنَ ) ( ۱ )

''کیا یہ (اہل مکہ )اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے (قبض روح کے لئے ) آجا ئیں یاتمہارے

پر ور دگار کا حکم آ پہنچے جو لوگ ان سے پہلے گذ رے ہیں وہ بھی ایسی با تیںکر تے تھے اور خدا نے ان پر (ذرا بھی )ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود (کفر کی وجہ سے ) اپنے او پر ظلم کر تے رہے ''۔

پس نتیجۂ بحث یہ نکلا کہ : خد وند عالم کی حکمت اگرچہ تقا ضا کر تی ہے کہ وہ عقل کے علا وہ کسی دو سرے طریقہ سے انسانو ں کی ہدا یت کرے لیکن ہدایت کی یہ راہ بعض ایسے انسانو ں کی استعداد اور قا بلیت پر منحصر ہے کہ (جن کو خدا پہچا نتا ہے )خدا ان افراد کو بھیجے کہ لو گ ہدایت یافتہ ہو جا ئیں ۔

( وَﷲاَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ ) (خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے )۔

____________________

۱۔سو رئہ نحل آ یت۳۳۔

۵۰

معجزہ

معجزہ کی ضرورت

یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ حکمت ِ الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے حواس وعقل کے ذریعہ جو معلومات حاصل کرتا ہے اس سے زیادہ معلومات اس کو حاصل ہوتو اب یہ معلومات لا محالہ کسی غیرمعمولی طریقہ یعنی وحی اور نبوت کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہیں اور یہ ثابت ہوجانے کے بعد تمام انسان حامل وحی ہونے کی صلاحیت و استعداد بھی نہیں رکھتے مجبورا کچھ ہی افراد پر وحی نازل ہوگی اور دوسرے افراد با واسطہ طور پر ان سے استفادہ کریں گے اب یہ مسئلہ در پیش ہے کہ ہم کو یہ کیسے معلوم ہو کہ کس شخص پر وحی ہو ئی ہے ؟کیونکہ وحی کوئی قابل محسوس چیز نہیں ہے کہ جب کسی پر نازل ہوتو دوسرے افراد بھی اس کا مشاہدہ کریں اور سمجھ لیں کہ فلاں شخص پیغمبر ہے لہٰذا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہئے کہ جس سے ہم سمجھ جائیںکہ یہ شخص دوسروں سے ممتاز ہے اور حامل وحی ہونے کی استعداد رکھتا ہے اور خدا نے بھی اس پر وحی نازل کی ہے ۔یہاں جوجواب دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر خدا کی کوئی نشانی ہو نی چاہئے یعنی اس شخص کے رفتار وکردار واعمال اس چیز کی نشاندہی کرتے ہوں کہ وہ خدا سے رابطہ رکھتا ہے تو اس وقت قاعدہ (حکم الا مثال فیما یجوزوفیمالا یجوز واحد )کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح وہ اس سلسلے میں خدا سے رابطہ رکھتا ہے اس کے مثل دوسرے تمام امور میں بھی رابطہ رکھتا ہوگا ۔مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس کوئی معجزہ ہونا چاہئے جس سے لوگ سمجھ سکیں کہ پیغمبر خدا سے ربطہ خاص کے تحت وہ افعال انجام دے سکتا ہے جو دوسرے انسان انجام نہیں دے سکتے اور یہ معجزہ اس کوخداوند عالم نے عطا کیا ہے ۔اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ یہ شخص خدا سے رابطہ رکھتا ہے اور وہ اس (پیغمبر)کی باتوں کو قبول کر لیں گے ۔

اس بارے میں کچھ مسائل زیر بحث آتے ہیں :

۱۔ معجزہ کیا ہے ؟

۲۔کیا معجزہ عقلاً ممکن ہے ؟

۳۔کیا معجزہ قانون علت کے ساتھ سازگار ہے ؟یا میل کھاتا ہے؟

۵۱

۴۔کیا پیغمبر کے لئے صاحب معجزہ ہونا ضروری ہے یا پیغمبر پر خدا کا محض ایک فضل ہے ؟

۵۔کیاتمام انبیاء صاحب معجزہ تھے یا معجزہ بعض انبیاء علیہم السلام کے لئے مخصوص تھا ؟

۶۔کیاصاحب معجزہ انبیاء علیہم السلام ابتدا سے ہی معجزہ دکھلا تے تھے یا جب ان سے معجزہ کا مطالبہ کیا جاتا تھا تو معجزہ دکھلا تے تھے ؟

۷۔کیا معجزہ نبوت کی قطعی دلیل ہے یا عوام الناس کو قانع کرنے کے لئے ہے ؟

۸۔کیا انبیاء علیہم السلام معجزہ دکھلا نے کے سلسلے میں لوگوں کا ہر مطالبہ قبول کرلیا کر تے تھے یا بعض مطالبوں کو قبول کرتے تھے اور بعض کورد فرمادیا کرتے تھے اور اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟

۹۔کیا انبیاء علیہم السلام کے علا وہ کو ئی اور صاحب ِ معجزہ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟

۱۰۔ انبیاء علیہم السلام اور غیر انبیاء کے معجزات کے با رے میں قر آ ن کے بیانات (اگر غیر انبیاء کے لئے صا حبِ معجزہ ہو نا قبول کر لیا جائے ) یہ وہ مسائل ہیں جن کا الگ الگ ایک سر سری جا ئزہ لینے کی ضرو رت ہے :

معجزہ کی حقیقت

بغیر کسی شک و شبہ کے معجزہ ایک غیر معمو لی عمل ہے جو عادت کے خلا ف ظاہر ہو تا ہے چا ہے یہ کام خار جی دنیا سے تعلّق رکھتا ہو یا خبر کی صو رت میں سامنے آ ئے خبر دینا بھی ممکن ہے دنیا کے عام دستور کے خلا ف غیر معمو لی ذرائع سے ہو۔

لیکن معجزہ کی حقیقی تعریف میں صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کیو نکہ انبیاء علیہم السلام کے علا وہ بھی بہت سے افراد مل سکتے ہیں کہ جنھو ں نے غیر معمو لی کام انجام دیئے ہیںاور ا ب بھی مو جو د ہیں جیسے ریاضت کش مرتا ض اور جادو گر وغیرہ جو غیر معمو لی کام انجام دیتے ہیں لیکن ان کے یہ افعال معجزہ نہیں ہیں ۔ اس لئے معجزہ کی تعریف میں یہ بھی بڑھا نا چا ہئے کہ وہ غیر معمو لی کام کہ جوعادت کے خلا ف ظہو ر ہو خدا کی طرف سے ہو نا چا ہئے اور چو نکہ ہم کو یہ معلوم نہیں کہ کو نسا عمل خدا کی طرف سے ہے اور کو نسا عمل خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔معجز ہ کے لئے کچھ علا متیں مدّ نظر رکھی گئی ہیں:

۵۲

۱۔معجزہ کسی بھی بڑی طا قت سے مغلو ب نہیں ہو تا ،عالم ِ طبیعت یعنی دنیا میں بہت زیا دہ علّت و معلو ل یا اسباب و اور مسبّب مو جود ہیں۔ایک علّت کسی شئے کے وجود میں ممکن ہے موئثر ہو لیکن اس سے زیادہ قوی کو ئی دوسری علّت کمزو ر علّت پر غالب آکر اس کے اثر کو روک سکتی ہے۔مثال کے طور پر آگ کاغذ کو جلا دیتی ہے لیکن اگر آگ پر پانی ڈالا جائے تو خود آگ بجھ جاتی ہے اس مقام پر ایک علّت ِمادی دو سری علّت پر غالب آجاتی ہے۔ عالمِ فطرت میں ایسے سیکڑوں بلکہ ہزاروں اسباب ومسبّبات ہیں جو دوسرے اسباب سے مغلو ب ہو جا تے ہیںلیکن معجزہ وہ ہے جس پر کو ئی بھی علّت غالب نہیں آسکتی نہ تو کو ئی دنیا وی چیز اس کو با طل کر سکتی ،نہ اسکے اثر کو زائل کر سکتی اور نہ ہی اس کو رو ک سکتی اور نہ ہی کوئی مادیّت سے ما وراء عمل اس میں کو ئی خلل اندازی کر سکتا فرض کیجئے کو ئی مرتاض یا جادو گر بہت زیادہ ریا ضت و مشقّت کے ذریعہ ایسی طاقت پیدا کر لے کہ وہ غیر معمو لی کام انجام دینے لگے مثال کے طور پر ہا تھ کے اشا رے سے چلتی ٹرین (ریل) روک دینے کی قوّت رکھتا ہو تو بھی اس طرح کی طاقتیں کبھی معجزہ کے سامنے ٹک نہیں سکتیں۔ کو ئی بھی مادّی یا ما دّیت سے ما وراء انسانی طا قت نہ معجزہ کے اثر کو بے کار کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کی راہ میں رکا وٹ بن سکتی ہے ۔ یہ امارات میں سے ہے کہ یہ کام، خدا کا کام ہے ۔ ایک جا دو گر ہاتھ کے اشا رے سے چلتی ہو ئی ریل کو روک سکتا ہے لیکن ممکن ہے دوسرا اس سے بڑا جادوگر اس جادوگرکے جادوکو توڑ کرایک اشارہ سے ریل گاڑی کو چلا دے یا شروع میں ہی جب وہ ریل کو روکنا چاہتاہویہ اسکے اس جادو کو باطل کردے اور ایساہونا محال نہیں ہے کیو نکہ جس کی طاقت زیادہ ہوتی ہے وہ غالب آجاتا ہے اور کمزور کو مغلوب کر دیتا ہے لیکن معجزہ میں کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت معجزہ کے عمل میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ کیونکہ وہ طاقتیں اگر انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور ہیں تو وہ خداوند عالم کی قدرت اور ارادہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اوراگر بالفرض کوئی اور پیغمبر اس میں خلل اندازی کرنا چاہے گا تو یہ بھی ﷲکے ا مر کو توڑنے کے مترادف ہوگا اس لئے کہ جب خدا اپنی حکمت کے ذریعہ کسی پیغمبر کے یہاں معجزہ ظاہر کرنا چاہے گا تو کسی نہ کسی حکمت کے تحت ہوگا وہ حکمت کے بغیر معجزہ ظاہر نہیں کرتا اب اگر کوئی دوسرا پیغمبر آکر اس پیغمبر کے معجزہ کو روکنا چاہے تو اس سے خود خدا کے منشاء کی خلاف ورزی لازم آتی ہے جو ایک نبی کے لئے بعید ہے نتیجتاً معجزہ کبھی بھی کسی عامل سے مغلوب نہیں ہوسکتا۔

۵۳

۲۔معجزہ سیکھا اور سکھایا نہیں جاسکتا،معجزہ کوئی سیکھنے کی چیز نہیں ہے کہ کوئی پڑھکر یاد کرلے اور نہ ہی معجزہ میں ریاضت اور مشقت کی ضرورت ہے کہ کوئی زحمتیں اٹھاکر صاحب معجزہ بن جائے بلکہ یہ ایک الہٰی عطیہ ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے لیکن دوسرے غیر معمولی کام جو بعض افراد انجام دیتے ہیں وہ سیکھے اور سکھائے جاسکتے ہیں اور جب تک وہ افراد ریاضت کرتے رہیں گے ان سے نتیجہ حاصل کرتے رہیں گے ۔یہ سب اپنی ریاضت سے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ا ن کے کام خدائی کام نہیں ہیں اس کے بر عکس (تعلیم وتعلّم یاد نیوی اسباب سے مغلوب ہوئے بغیر) معجزہ کاظہور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ امر خدا کے حکم سے ہے ۔اسی بناء پر اگر اس طرح کے کسی انسان کا تعارف کرایا جائے اور لوگ اس کی زندگی سے واقف ہوں کہ ا س نے اس کام کے لئے نہ کوئی ریاضت کی ہے نہ کسی سے پڑھا ہے اور نہ ہی کسی استاد سے سیکھا ہے اور وہ معجزہ دکھلائے تو لوگ آسانی سے قبول کرلیتے ہیں کیونکہ یہ قدرت الہٰی سے رونما ہوا ہے ۔بر فرض لوگوں کے درمیان کوئی نا آشنا پیغمبر ہو ( کیونکہ پیغمبر ہمیشہ اپنی ہی قوم کے درمیان سے مبعوث کئے جاتے تھے اور لوگ ان کو اچھی طرح پہچا نتے ہوتے تھے اور ان کی پوری زندگی لوگوں پر آشکار ہوا کرتی تھی پھر بھی فرض کر لیجئے کہ ) لوگ نہیں جانتے کہ اس پیغمبر نے کسی سے سیکھا اور پڑ ھا لکھا ہے یا نہیں تو لوگ اس کے معجزہ کا توڑ کرنے والوںسے مدد حاصل کرکے مقابلے کرسکتے ہیں کہ کوئی اس پر غالب آسکتا ہے یا نہیںاگر کوئی غالب آجائے تو معجزہ معجزہ نہیں ہوسکتا جیسے حضرت موسی ٰ علیہ السلام کا معجزہ فرعون کے جادوگر جس کے مقابلہ پر آگئے تھے اور انھوں نے دیکھ لیا کہ وہ سب مغلوب اور بے بس ہیں ۔یہ سب اس بات کی نشانی ہے کہ یہ انسان کا کام نہیںہے بلکہ انسان کے بس سے باہر ہے ۔

لہٰذا مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں : (معجزہ وہ غیرمعمو لی فعل ہے جو قدرت الہٰی کے پر تو میں انجام دیا جاتا ہے اور معجزہ کی دو علامتیں ہیں :

۱۔کسی سے سیکھ کر یا سکھاکر حاصل نہ ہوا ہو۔

۲۔ کسی بھی دوسری قوت سے مغلوب نہ ہو ۔

۵۴

کچھ سوالوں کے جوابات

۱۔سوال : کیا معجزہ نبوت کے دعوے سے وابستہ ہے یا نہیں ؟

یہ انبیا ء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہے ،انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے افراد بھی معجزہ دکھلاسکتے ہیں؟ یقینا ہم اس موضوع پر بعد میں تفصیلی بحث کریں گے لیکن یہاں اجمالی طور پر اتنا عرض کردینا چاہتے ہیں کہ معجزہ کے لئے دو اصطلاحیں ہیں : اگر چہ لفظ معجزہ قرآنی اصطلا حوں میں سے نہیں ہے بلکہ معجزہ کا لفظ علما ئے اصول دین کے درمیان رائج رہا ہے لیکن انکے درمیان بھی معجزہ کے لئے دو اصطلا حیں رائج رہی ہیں۔

۱۔معجزہ کی وہ شکل جو خاص معنی میں ا نبیاء علیہم السلام سے مخصوص ہے اور نبوّت کے دعوے سے وابستہ ہے ۔

۲۔معجزہ کی وہ شکل جو عام معنی میں ہے اور جس کی ہم ائمہ علیہم السلام کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ اگرچہ پیغمبر نہیں تھے لیکن وہ خدا کی اجا زت سے معجزے انجام دیا کر تے تھے۔

ظاہر ہے کہ غیر نبی کی طرف سے معجزہ کی نسبت ادّعا ئے نبوّت کے ساتھ برابر نہیں ہے اس بناء پر جب ہم معجزہ کو نبوّت کی دلیل کے عنوان سے پیش کر تے ہیں تو اس کی خاص اصطلا ح مدّ نظر ہو تی ہے یعنی جو کچھ پیغمبر اپنی نبوّت کی دلیل کے عنوان سے پیش کر تا ہے اور جب ہم اس کو غیر انبیاء سے منسوب کرتے ہیں تو اس کے عام معنی مراد ہو تے ہیں یعنی ہر وہ غیر معمو لی کام جو قدرت َالہٰی کے پر تو میں (الٰہی منصب ) نبوّت یا امامت کو ثابت کر نے کے لئے انجام دیا جاتا ہے چا ہے وہ فعل کسی نبی کے ذریعہ انجام پائے یا کسی غیر نبی کے ذریعہ انجام دیا جائے ۔

۵۵

۲۔کیامعجزہ عقلی طور پر ممکن ہے یا نہیں ؟

کچھ افراد کہتے ہیں کہ معجزہ عقلی طور پر ممکن نہیں ہے کیو نکہ یہ قانو ن علیت کے خلا ف ہے یعنی یہ مسئلہ دوچیزوں میں منحصر ہو جاتا ہے کہ یا تو ہم قانو ن علّیت کو تسلیم کریں اور معجزہ کا انکار کر دیں یا معجزہ کو قبو ل کریں اور قانون علیت کو تسلیم نہ کریں ۔یہ افراد کہتے ہیںکہ قانون علیت کو تسلیم کر نے کا مطلب یہ ہے کہ ہر معلو ل کی مخصوص علّت ہوتی ہے جو اس کے وجو د یا ظہور کا سر چشمہ قرار پاتی ہے مثلاً حرارت کا سر چشمہ آگ ہے ۔اس بناء پر یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ حرارت یا (گرمی ) برف سے پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح گھاس کا اگنا ،خود زندگی کا وجود ، انسان کا زندہ ہونا ،مرنا ، بیمار ہونا اور شفا پانا ان تمام عوارض یا معلو لوں کا سر چشمہ ان کی مخصوص علّتیں ہو تی ہیں ۔اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ کوئی چیز علت و معلول کے اس قانون کے بغیر وجود پاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ ہم قا نو نِ علّیت کو تسلیم نہ کریں اس سلسلہ میں سادہ اندیشی کے کئی جوابات دیئے گئے ہیں جو بحث کے قابل نہیں ہیں ۔مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ یہ ایک استشنائی مسئلہ ہے یعنی ہم قانون علیت کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ اس سے آزاد اور مستثنیٰ ہے یہ ایک عامیانہ سی بات ہے کیونکہ اگر قانون علیت ایک عقلی قانون ہے تو اس میں استشناء کا سوال نہیں پیدا ہوتا ۔اس لئے ہم اس طرح کے جوابوں سے قطع نظر کرتے ہیں ۔ ان جوابات کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے ۔

پس معترض کا کہنا یہ ہے کہ آپ نے جو معجزہ کی تعریف کی ہے اس سے قانون علیت کا ٹوٹنا لازم آتا ہے اور قانون علیت کا ٹوٹ جانا اس کے معتبر نہ ہونے کے برابر ہے یعنی اگر ایک جگہ بھی استثنا ء یا جدا گا نہ مسئلہ کی بات کی گئی تو اس سے ثابت ہوگا کہ علیت و معلولیت کا وجود ضروری ہی نہیں ہے جبکہ قانون علیت کے کچھ فروعات ہیں (اور منجملہ ان کے ایک فرع کا لازم و ضروری ہونا بھی ہے) یعنی کسی معلول کا اپنی علت تامّہ کے بغیر متحقق ہونا محال ہے تو اب آپ جو کہتے ہیں کہ ایک جگہ آگ گلزار بن گئی یعنی بغیر پانی کے آگ بجھ گئی اور آگ کی جگہ بغیر بیج ڈالے گلستان تیار ہوگیا تو اس کا مطلوب یہ ہوگا کہ قانون علیت ٹوٹ گیا اور آگ کے اندر سے بھی پھولوں کا کھلنا ممکن ہے اور اس سے قانون علّیت سے کسی مسئلہ کے استشناء کا مطلوب قانون علّت کی ضرورت کا انکار ہے۔یعنی اپنی علّت تامّہ کے بغیر پھول کھل اٹھیں یا دوسری جانب آگ کی علّت تامّہ جلا ناہے لیکن وہ نہیں جلاتی یعنی وہ اپنی علت تامّہ سے منفک (جدا)ہوجاتی ہے ۔اس کا صاف سا مطلب قانون علّیت کا انکار ہے ۔

۵۶

شاید اسی وجہ سے (اشاعرہ )نے قانون علّیت کا انکار کرتے ہوئے کہا تھا :(جس چیز کو ہم علّت سمجھتے ہیں۔خدا کی سنّت ہے ہم یہ جو دیکھتے ہیں کہ چراغ کے جلتے ہی کمرہ میں روشنی ہوجاتی ہے تو چراغ جلنے اور کمرہ میں روشنی ہونے کے درمیان کسی طرح کا رابطہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی سنّت ہے جو اس طور پر جاری ہے کہ جب آپ چراغ جلائیں گے توکمرہ میں روشنی کرے گا )لہٰذا معجزات اور غیر معمو لی امور کے بارے میں اشاعرہ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں :کسی طرح کی علّیت کا وجود نہیں ہے بلکہ ایک فعل خدا کی سنّت کے خلاف انجام پایا ہے اور خلاف سنت کام انجام پا نا محال نہیں ہے ،اب تک خدا کی سنت رہی ہے کہ اس طرح کی رفتار اپنا ئے لیکن بعض مواقع پر وہ سنّت کے خلا ف بھی عمل کر تا ہے ۔

بنا بر این اشا عرہ نے اس اعتراض کے جواب میں اس قضیہ کی دو شقو ں میں سے ایک شق کو قبول کر لیا اور وہ علیت حقیقی کا انکار ہے ۔ان کے مقابل کچھ افراد قانون علیت کو قبول کر تے ہیں اور معجزات کا انکار کر تے ہیں یعنی قرآن میں بیان ہو نے والے معجزات کی مختلف طریقو ں سے تا ویل کیا کر تے ہیں (چنانچہ مختلف بحثو ں کے ضمن میں ہم نے ان کے طریقۂ کار کے با رے میں اشارہ کیا ہے )مثال کے طور پر انھو ں نے بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہو جا نے کی دریا ئے نیل کے جزر و مد سے تاویل کی ہے اور اسی طرح سے دوسری چیزیں بھی بیان کی ہیں ان لوگوں نے بھی ان دو شقو ں میں سے اس کو قبول کیا ہے کہ معجزہ کو ئی چیز نہیں ہے اور قرآ ن کر یم میں جو کچھ اس بارے میں بیان ہوا ہے وہ مجاز اور استعا رہ کے طور پر بیان ہوا ہے اور معجزہ کا عقیدہ رکھنا در اصل خرا فات ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

صحیح جواب کیا ہے؟!

صحیح جواب یہ ہے کہ قانون علیت اپنی جگہ باقی ہے اور استثناء کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔معجزہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جو قانون علیت سے منافات نہیں رکھتا اس کو یوں سمجھئے :

قرآن (جیسا کہ ہم نے توحید کی بحث میں بیان کیا ہے )قانون علیت کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے ۔ اس طور پر کہ نہ تو دو سری چیزوں کے طول میں خدا کی فاعلیت کا انکار کرتا اور نہ ہی اس سے معجزات اور خلا ف عادی افعال کی نفی لا زم آتی ۔ہم یہاں مجمل طور پر اشارہ کر دیں کہ قانون علیت کے دو معنی ہیں :

۵۷

۱۔کو ئی بھی معلول علت کے بغیر وجود میں نہیں آتا ہر معلول علت کا محتاج ہے۔قدر متیقن علت فاعلی کا محتاج ہو تا ہے اور اگر معلول مادی ہو تو علت ما دی اور صوری کا بھی محتاج ہے اور اگر کام کر نے والا کو ئی حکیم ہے تو علت غائی بھی ضروری ہے۔بہر حال بحث علت فاعلی سے ہے اور ہر معلول کے لئے علت فاعلی ضرو ری ہے اس قانون کو کو ئی توڑ نہیں سکتا اس کے ایک بدیہی معنی ہیں کہ اگر ایک چیز اپنے آ پ وجود میں نہیں آ تی تو لا محالہ کسی اور نے اس کو وجود بخشا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام چیزیں عام اسباب یا علتو ں کے ذریعہ ہی وجود پا ئیں بلکہ یہ قا نون صرف اتنا کہتا ہے کہ ہم ہر معلول کے لئے ایک علّت کے قا ئل ہو ں اور اسی طریقہ سے ہم اس پو ری دنیا کے وجو د سے خدا کے وجو د کا یقین حاصل کر تے ہیں ۔علیّت خدا اس لئے ہے کہ دنیا معلول ہے دنیا کا وجود محتاج ہے اور بغیر علّت کے وجود نہیں پا سکتا ۔

۲۔قانون علیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ہم معلول کی ایک خاص علت بیان کر یں کہ اس معلول کے وجود کے لئے اس علت کا ہونا حتمی اور ضروری ہے یقینا کلی طور پر علت ومعلول کے درمیان سنخیت پائی جاتی ہے لیکن عقل بغیر تجربہ کے کبھی بھی ایک وجود کے لئے کوئی ایک ایسی علت مقرر نہیں کرسکتی کہ جس پر وہ وجود منحصر ہوعام طور پر اشیاء کی مخصوص علتیں تجربوں کے ذریعہ معین کی جاتی ہیں ۔

عام طور پر اس لئے کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کوئی غیب کے ذریعہ سمجھ لے )اور تجربہ بھی کسی وجود کی مخصوص منحصر علت کو ہرگز تمام زمانوں میں ہر جگہ ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ انسان کا تجربہ محدود ہے ہم سیکڑوں اور ہزاروں تجربے بھی کر ڈالیں تب بھی عقل کہتی ہے کہ ممکن ہے یہ وجود کسی اور ایسے طریقہ سے بھی حاصل ہوجائے کہ جس کا علم ہم نہیں رکھتے شاید ہزاروں سال تک انسان یہ سوچتا رہا کہ حرارت آگ کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتی اور شاید آگ کے کشف ہونے سے پہلے وہ اس فکرمیں رہا ہو کہ آ فتاب کے علا وہ کسی اور چیز سے حرارت حاصل نہیں ہوسکتی لیکن جب آگ کا انکشاف ہوا تو معلوم ہوا کہ اس سے بھی حرارت حاصل ہو تی ہے اور آج دوسرے متعدد طریقو ں سے حرارت پیدا کی جا رہی ہے۔بہت سے کیمیائی عمل ورد عمل سے حرارت پیدا کر دیتے ہیں ۔ دو چیزوں کے ٹکرا نے یا رگڑ نے یا حر کت دینے سے حرارت پیدا ہو تی ہے اور ممکن ہے اس کے علاوہ دوسرے طریقہ سے بھی حرارت پیدا ہو تی ہو جس کوہم نہیں جا نتے۔معلو م ہوا تجر بہ کبھی بھی ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لئے علت منحصرہ کا اثبات نہیں کر تا ۔

۵۸

اب اگر لوگ خیال کر تے ہوں کہ ایک فرشتہ کے وجود کی ایک مخصوص علّت ہے اور پھر اسکی کو ئی اور نئی علّت معلو م ہو جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قا نون علّیت ٹوٹ گیا ؟ایک وجود کے لئے کو ئی نہ کوئی علّت ہو نے کا قا نون تو بدیہی تھا لیکن کسی مخصوص علّت کی نشاندہی نہیں کر رہا تھا ۔صرف اتنا بتا رہا تھا کہ کوئی معلول بغیر علّت کے وجود میں نہیں آسکتا لیکن وہ علّت کیا ہے قا نو ن علّیت نے نہیں بتا یا تھا ؟جب ایک نئی علّت پتہ چلی تو ہم سمجھ گئے کہ پہلے والی علّت (علّت منحصرہ ) نہیں تھی بلکہ اس معلول کے لئے اس علّت کی جگہ اُس علّت سے بھی استفا دہ کیا جا سکتا ہے ۔

اب اگرہم یہ تسلیم کر لیں کہ بیمار ہمیشہ دوا کھا نے سے ہی صحتیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کے دوسرے طریقہ بھی ہو سکتے ہیں تو اس سے قانو ن علّیت نہیں ٹوٹتا ۔ایک بے جان پیکر کے جاندار جسم میں بدلنے کا ایک فطری طریقہ یہ ہے کہ وہ جاندار کے جسم کا حصّہ بن جا ئے اور نطفہ یا بیج کی شکل اختیار کرے اور پھر ایک جاندار میں تبدیل ہو جائے ۔ اب اگر کو ئی اور طریقہ بھی ہو کہ جس سے ایک بیجان وجود جاندار میں تبدیل ہو جائے تو اس سے قا نون علیت نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کوایک نئی علَّت کا انکشاف کہا جا ئے گا ایسی صورت میں نئی علّت کی دو صو رتیں ہیں :ایک تو یہ کہ وہ علّت علمی انکشافات کی ما نند صرف مادی ہو جو مثلاًآواز اور تصویر کی منتقلی کے طریقوں کی صورت میں رو نما ہوا کر تی ہے اور ہر ایک اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔یہ وہ مادی اور قدرتی علّتیں ہیں جن کا علم پہلے نہیں تھا اور اب ان کی شناخت ہو ئی ہے لیکن کبھی کبھی علّتیں تحصیل کے قابل ہو تی ہیں اور کچھ لوگ ان کو حاصل بھی کر لیتے ہیں لیکن وہ علّتیں مادّ ی علّتو ں کے مثل نہیں ہوتیں ۔جیسے وہ نفسانی قوّتیں جو اہل ریاضت حاصل کر تے ہیں وہ بھی عالم ما دیّت میں ایک وجو د کی پیدائش کے لئے ایک علّت اور سبب ہے لیکن خود علّت کو ئی مادی وجود نہیں رکھتی بلکہ ایک غیر مر ئی نفسیاتی عمل ہے اور اس سے بھی قا نو ن علّیت کا ٹوٹنا لا زم نہیں آ تا بلکہ ایک نئی علّت کا انکشاف ہے ۔ہاں بس ایک مادی وجود کے لئے ایک غیر مادی علّت ہے ۔ ان سب سے بالا تر ایک معنوی علّت ہے جو قابل تحصیل اور سیکھنے سکھا نے کی چیز نہیں ہے بلکہ خالص الہٰی عطیہ ہے وہ بھی ایک طرح کی علت ہی ہے چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک پیغمبر نے مردہ کو زندہ کردیا تو اس کا مطلب ہے کہ خداوند عالم نے ایک قوت اس پیغمبر کو عطا کی تھی اور پیغمبر نے خدا کے اذن سے اس قدرت کا استعمال کیا تھا یہی قدرت ایک علت ہے کیو نکہ ایک نئی چیز کے وجود ،مردہ کے زندہ ہونے اور مریض کے صحتیاب ہونے میں موثر ہوئی ہے ۔

۵۹

پیغمبر نے خداوند عالم کی عطا کردہ اس نفسانی قوت کااستعمال کیا ہے جو خدا نے اس کو عطا کی ہے لیکن وہ سیکھنے سکھانے کی چیز نہیں ہے اور نہ ہی دوسروں کی اس تک رسائی ہوسکتی ہے لیکن بہر حال وہ ایک علت ہے لہٰذا خلاصئہ جواب یہ ہوا :

معجزہ کا تسلیم کرنا قانون علیت کا نقض نہیں ہے بلکہ مادی موجودات کے لئے ایسی علت کا تسلیم کرنا ہے جو مادی علتوں کی جنس سے نہیں ہے بلکہ ایک معنوی علت ہے جو پروردگار نے اپنے لطف کے تحت عطیہ کے طور پر پیغمبر کی ذات میں ودیعت کی ہے اور وہ قابل تعلیم و تعلم بھی نہیں ہے ۔

۳۔کیا انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے ؟

یہ بات تو واضح ہوگئی کہ معجزہ کسے کہتے ہیں اور یہ کہ معجزہ قانون علیت سے کوئی تنا قض نہیں رکھتا اور اعجاز آمیز امور کا ظہورمحال نہیں ہے نہ محال ذاتی ہے اور نہ محال وقوعی، محال ذاتی اس لئے نہیں ہے کہ اس فرض سے تنا قض لازم نہیں آتا اور محال وقوعی اس لئے نہیں ہے کہ اس کی علت کا متحقق ہونا ممکن ہے چنانچہ معجزہ کے فرض کرنے کا مطلب کسی علت کے بغیر معلول کا فرض کر لینا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے معلول کے وجود کو ہم نے تسلیم کیا ہے کہ جس کی علت سے ہم واقف نہیں ہیں اور یہ عقلا محال نہیں ہے ۔

اب سوال پیش آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟اگر خدا تمام انبیاء کو معجزہ کے بغیر ہی بھیج دیتا تو نہ کوئی اعتراض کرتا اور نہ ہی الہٰی غرض فوت ہوتی اور نہ ہی حکمت الٰہی کے خلاف ہوتا ۔

جی ہاں بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ جب انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق ہے اور ان کی تعلیمات انسان کی عقل اور فطرت کے موافق ہے تو ایسی صورت میں جیسے ہی وہ لوگوں کے درمیان سے مبعوث کئے گئے اور انھوں نے حق باتیں بیان کیں لوگوں کو قبول کرلیناچاہئے اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ لوگ محسوس کریں کہ یہ باتیں غیب کے ذریعہ غیر معمولی ذرائع سے پہنچی ہیں۔فرض کیجئے کہ کوئی شخص پیغمبر کی نبوت پر اعتقادنہیں رکھتا لیکن اس کی تعلیمات کے مطالب کو تسلیم کر تا ہے ۔

پیغمبر کہتا ہے : سچ بو لو

۶۰