راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135875
ڈاؤنلوڈ: 3496

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135875 / ڈاؤنلوڈ: 3496
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت مو سیٰ کو نبوت کے آغاز ہی سے دو معجزے عطا کر رکھے تھے۔ حضرت عیسیٰ کے پاس کئی معجزے تھے۔مٹی سے پرندے بنادینا مردوں کو زندہ کرنا اندھوں کو بینائی عطا کرنا بر ص کے مریضو ں کو شفاء دینا اور اسی طرح غیب کی خبریں دینا وغیرہ۔

( وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاکُلُوْنَ وَمَا تَدَّ خِرُوْنَ فِیْ بُیُوْ تِکُمْ ) ( ۱ )

''اور تم کو اس بات کی خبر دونگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو ''۔

یہ سب خداوند عالم کی مصلحت سے وابستہ ہے کہ وہ کب کسی پیغمبرکو ایک معجزہ عطا کرتا ہے اور کب ایک سے زیادہ ،اس کا کوئی اصول اور فار مولا ہمارے سامنے نہیں ہے اور نہ ہی ہم کو اس کا علم دیا گیا ہے اجمالی طور پر قرآن نے بیان کردیا ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام ایک سے زیادہ معجزہ رکھتے تھے لیکن ایسا نہیں تھا کہ لوگ جس کا بھی مطالبہ کر تے وہ انجام دید یتے تھے قرآن نے کچھ ایسے مقامات بھی بیان کئے ہیںجہاں لو گوں نے کسی مخصوص معجزہ کا مطالبہ کیا اور انبیاء علیہم السلام نے اسے رد کردیا ۔پہلے کلی طور پر کہتا ہے کہ جس نبی کو بھی معجزہ پیش کر نا ہو خدا کے اذن سے پیش کرنا چاہئے ایسا نہیں ہے کہ معجزہ کے سلسلے میں نبی خود مختار ہو بلکہ خدا کی اجازت سے ہی'' معجزہ ''پیش کرے گا ۔ خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( وَمَاکَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَا تِیَ بِآیَةٍاِلَّا بِاذْنِ اللَّهِ ) ( ۲ )

''اور کسی پیغمبر کے بس میں نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ دکھائے''۔

کچھ مقامات پر خاص طور سے فرماتا ہے کہ لوگوں نے معجزات کی فرمائشیں کیں لیکن انبیاء نے معجزہ نہیں پیش کیا ۔ حتی بعض آیات کے لہجہ سے اگر دوسری آیات نہ ہو تیں تو یہ وہم پیدا ہو جاتا کہ انبیاء علیہم السلام کو سرے سے معجزہ دیا ہی نہیں گیا تھا اور یہ معجزہ کا انکار کر نے وا لو ں کے لئے ایک دستاویز بن جاتی لیکن ان کے مقابل انبیاء علیہم السلام کے صاحب اعجاز ہو نے پر صاف و صریح آیات مو جو د ہیں اور ان آ یتو ں پر ذرا سی تو جّہ سے اُ ن آ یات کا ابہام دور ہو جاتا ہے کہ جن سے بظا ہر یہ وہم ہو تا تھاکہ انبیاء علیہم السلام سرے سے معجزہ دکھا نے سے انکار کرتے تھے یعنی وہ اتمام حجت کے بعد، معجزہ دکھلا نے کی فر مائش قبول نہیں کر تے تھے یا یہ کہہ لیجئے کہ نا معقول قسم کے خلا فِ مصلحت مطالبے پو رے کر نے سے پر ہیز کر تے تھے مثال کے طو رپر اگر اس طرح کی در خواست کی جاتی کہ جس سے

____________________

۱۔سورئہ آل عمران ۴۹۔

۲۔سوررئہ مومن آیت ۷۸۔

۸۱

لو گوں کے سا منے اختیار کا راستہ بند ہو جاتا تو ایسا کرنا حکمت الہٰی کے خلاف تھا اور اصل غرض فوت ہوجاتی ہے معجزہ اس لئے ہو نا چاہئے کہ لو گو ں کو معلوم ہو جا ئے کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے اور لوگ پو رے اختیا ر کے ساتھ اس کی اطاعت کریں۔ اب اگر معجزہ ایسا ہو کہ جس سے لو گو ں کا اختیار ان سے سلب ہو جائے تو اس سے خلقت کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ۔معلو م ہو ا کہ انبیاء علیہم السلام اس طرح کی فر ما ئشیں قبول نہیں کر تے تھے اور اسی طرح جو مطالبے لوگ حرص و ہوس کے تحت کر تے تھے اور جن کو پورا کر نے کے لئے نبی کو صبح سے شام تک چو کا لگاکر بیٹھنا پڑے کہ جو شخص جو بھی مطالبہ کرے اس کو نبی انجام دیتا رہے اس طرح کے تمام مطالبو ں سے انبیاء علیہم السلام صرف نظر کر تے تھے۔چونکہ یہ سب غرض خلقت اور حکمت الہٰی کے خلا ف ہے نبی کو ایک مر تبہ لو گو ں کے سامنے اپنی نبوت ثابت کر دینا چاہئے کہ ان پر حجت تمام ہو جا ئے اور بس لیکن اگر ایک شخص نبی سے آ کر کہے کہ اس پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا دیجئے دو سرا شخص کہے کہ اس در یا کو خشک کر دیجئے تیسرا کہے اس طر ح کیجئے اور چو تھاکہے اس طرح کیجئے تو انبیاء علیہم السلام اس طرح کی چیزو ں کو قبول نہیں فر ما تے تھے یا لوگ طرح طرح کے بہانے کیا کرتے تھے مثال کے طور پر کہا کرتے تھے کہ ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ کے پاس ایک باغ نہ ہو اور اس میں نہریں اور محل نہ ہو ں تو اس میںمصلحت نہیں پائی جاتی یا یہ کہ آسمان سے سو نے کے کنگن آئیں اور آپ کے ہاتھ میں چلے جائیں یااسی طرح کی دوسری باتیں انبیاء علیہم السلام قبول نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ مصلحت صرف اتنا چاہتی تھی کہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے اور ان کی نبوت ثابت ہوجائے۔ بعض آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی انبیا ء علیہم السلام پر لوگوں کی طرف سے بہت زیادہ دبائو ڈالا جاتا تھا کہ اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو فلاں کام انجام دیجئے لیکن اس میں خدا کی مصلحت نہیں ہوتی تھی ،جب لوگوں پر حجت تمام ہوجاتی تو پھر معجزے کے لئے ان کی دوسری در خواستوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔لوگ اصرار کرتے اور نبی پر دبائو بڑھ جاتا تھا بلکہ بعض او قات تواگر ان کو خداوند عا لم کی تا ئید حاصل نہ ہوتی تووہ دبائوکے تحت ان کے مطالبوں کو جامہ عمل پہنا دیتے۔

لیکن پیغمبر معصو م ہو تے ہیں خدا ن کی خودحفا ظت کرتا ہے اور وہ مصلحت ِحق کے خلاف ارادہ نہیں کرتے لیکن حالات ان کو سخت دبائو میں مبتلا کر دیتے تھے اور با لآ خر ان کو جواب دینا پڑتا تھا کہ ہماری رسالت تو یہی ہے جس کا تم مشاہدہ کر رہے ہو خداوند عالم نے ہم کو جو امر دیا تھا وہ ہم نے تم تک پہنچا دیا اب تم ایمان لائو یا نہ لائو مختلف قسم کی باتیں اس سلسلے میں کیا کر تے تھے چنانچہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں آیات سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم پر لوگوں کا دبائو اس قدر بڑھا ہواتھا کہ خداوند عالم کو وحی کرنا پڑتی تھی کہ اے ہمارے نبی مصلحت نہیں ہے آپ ان کے اس طرح کے مطالبے قبول نہ کیجئے گا :

۸۲

( وَقَالُوْا لَولَا نُزِّلَ عَلَیْه ِآیَة مِنْ رَبِّهِ )

''نبی پر ان کے پر ور دگار کی طرف سے کیا کو ی معجز ہ نازل نہیں ہوتا ''۔

یہ تو ایسی با ت ہے گو یا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتک کو ئی معجزہ نہ پیش کیا ہو اور ان کی نبوت کے لئے کوئی دلیل مو جود نہ ہو ،کہتے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کوئی آیت یعنی معجز ہ کیوں نازل نہیں ہوا ؟ ظاہر ہے ان تمام دلایل اور معجزات پیش کرنے کے باوجود اس طرح کی باتیں محض بہا نہ تلاش کرنا ہے ۔ لہٰذا خدا وند عالم نے ان کے جواب میں فرمایا ( اے ہمارے نبی! )

( قُلْ اِنَّ اللَّهَ قَادِرعَلَٰی اَنْ یُّنَزِّلَ آیَةً وَلٰکِنَّ اَکْثرَهُمْ لَا یَعلَمُوْنَ ) ( ۱ )

''(آپ ان سے) کہدیںکہ خدا معجزے کے نازل کرنے پر ضرور قادر ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ (خدا کی مصلحتو ں کو ) نہیں جانتے ''۔

بعض آیات بتاتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زیادہ دبائو میں تھے۔قرآن کا بیان ہے :

( فَلَعَلَّکَ تاَرِک بَعْضَ مَایُوْحَیٰ اِلیَْکَ وَضَائِق بِهِ صَدْرُکَ اَنْ یَقُوْلُْوْا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیه ِکَنْز اَوْجَائَ مَعْهُ مَلَک ) ( ۲ )

''توکیا آپ وہی کے ذریعہ بھیجی گئی بعض باتیں صرف اس خیال سے چھو ڑدیں گے کہ آپ کا دل اس طرح کی باتوں سے بھرگیاہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل کیا گیا یا تصدیق کے لئے ساتھ میں کوئی فرشتہ کیو ں نہیں آیا ''۔

شاید ہم کلمہ (لعلّ) کے با رے میںکہیں بیان کرچکے ہیں :

قرآن میں لعلّ کبھی بولنے والے کے لحاظ سے ،کبھی سننے والے کے لحاظ سے اور کبھی مقام اور حالات کے تقاضے و لحاظ سے استعمال ہوتا ہے۔لعلّ، ترجّی یعنی (شاید)کے معنی میں ہے لیکن اس کے محل ا ستعمال میں فرق ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ شاید فلاں کام ہوجائے یعنی یہ شاید مخاطب کے یہاں پائی جانے والی امید کے لحاظ سے اور کبھی یہ شاید خود متکلم کی تو قّع کو بیان کرتاہے لیکن بعض وقت یہ شاید دونوں میں سے کسی ایک کی بھی توقع اورامیدسے تعلق نہیں

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت ۳۷۔

۲۔سورئہ ہود آیت۱۲۔

۸۳

رکھتابلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ مقام اور حالات اسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں بھی جب خداوند عالم یہ فرماتا ہے :

(فَلَعَلَّکَ تَارِک بَعْضَظاہر ہے ایک نبی کے ذہن اقدس میں اپنے فریضۂ رسالت کے چھوڑنے کا تصورپیدا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی خدا اپنے نبی کے بارے میں اس طرح کی توقع رکھتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت حالات اتنے سخت ہوچکے تھے کہ ایک عام انسان، انسان ہونے کے نا طے یہ کہنے پر مجبور ہوتا کہ اب میں رسالت کا یہ فریضہ چھوڑ کر اپنے کامو ں میں مشغول ہوجاتا ہوں۔

پس یہ جملہ( فَلَعَلَّکَ تَارِک بَعْضَ مَا یُوْحٰی اِلَیَْکَ ) حالت کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے خود پیغمبر کے اعتبار سے استعمال نہیں ہوا ہے۔(وضائق بہ صدرک )اور آپ کا سینہ بہت زیادہ تنگ آچکا ہے ؟ کس بات سے ؟ اس بات سے کہ کفار کہتے ہیں :

( اَنْ یَقُولُوا لَولَا اُنْزَلَ عَلَیْهِ کَنْز اَوْجَائَ مَعَهُ مَلَک )

''ان پر کو ئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہو تا یا ان کے ساتھ فرشتہ کیو ں نہیں آیا ؟تو آپ کا دل تنگ ہے کہ ان کو کیا جواب دے ؟( اِنَّمَااَنْتَ نَذیروَﷲ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ وَکِیْلٍ )

''آپ تو صرف ( عذاب سے ) ڈرا نے والے ہیں اور خدا ہر چیز کا ذمہ دار ہے ''۔

آپ اس کے ذمہ دار نہیں کہ کون ایمان لا تا ہے اور کون ایمان نہیں لا تا:

( وَﷲ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَکِیلٍ ) ''خدا ہر چیز کا ذمہ دار ہے''۔

آپ صرف اپنا فریضہ انجام دیجئے اس سے زیا دہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ خدا اپنے بندوں کی ہدایت کرتا ہے، چاہیں تو قبول کریںاور چاہیں تو قبول نہ کریں ،آپ سے ان کے افعال کے با رے میں سوال نہیں ہو گا ۔

اسی طرح خدا وند عالم کا یہ فرمان( وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَ اضُهُم ) ْ)( ۱ ) اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بہت سخت تھا کہ میں بشر کی نجات کے لئے حق کے ایسے پیغامات لیکر آیا ہوں لیکن یہ پھر بھی مجھ سے رو گردانی کر تے ہیں چنانچہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب کر کے خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَاِنْ کَانَ کَبُرَعَلَیْکَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغَِ نََفَقًافِی الْاَرْضِ اَوْسُلَّما ًفِی ْالسَّمَآئِ فَتَأْتِیَهُمْ بِآیَةٍ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سو رئہ انعام آیت ۳۵ ۔

۲۔سورئہ انعام آیت۳۵۔

۸۴

''اگر ان لوگوں کی روگردانی آپ پر اس قدر سخت ہے تو جائیے اگر ہوسکے تو زمین کی تہو ں میں کوئی سرنگ ڈھونڈھ نکالئے یا آسمان پہ چڑھنے کے لئے سیڑھی لگا لیجئے اور کوئی ایسی نشانی لاکر دکھا دیجئے (کہ یہ لوگ قبول کرلیں اور ایمان لے آئیں ''۔

یعنی خدا کبھی ایسے کام انجام نہیں دیگا اس کے کام لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتے اور آپ بھی اس طرح کے کام انجام نہیں دیں گے اور دے بھی نہیں سکتے۔کیونکہ خدا اس کی اجازت نہیں دے گا۔(پھر بھی ) اگر انجام دے سکتے ہوں تو انجام دیجئے ۔اس کے بعد خدا فرماتا ہے :

( وَلَوْشَائَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدَیٰ )

''اگر خدا چا ہتا کہ سب کے سب حتمی طور پر ایمان لے آئیں تو وہ عاجز نہیں تھا ایک کام ایسا کردیتا کہ وہ سب کے سب ایمان لے آتے لیکن خدا کی حکمت اس کی اجازت نہیں دیتی۔اس کا تقاضا ہے کہ انسان راہ حق کو خود اختیار کرے خدا تو صرف اختیار کے استعمال کی زمین فراہم کردیتاہے۔ وہ لوگوں کو مجبور نہیں کرتا کہ سب کے سب راہ حق کو منتخب کر لیں خدا کا یہ مقصد نہیں ہے۔خدا کسی سیاست داں کی مانند نہیںہے کہ وہ ہر روز ایک نئی چال سے لوگوں کو ایک خاص راستہ کی طرف لگادے اور جب ایک طریقہ سے کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرلے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کردیتا ہے کہ وہ صحیح راہ سے واقف ہو جائیں :

اب آگے انسان کو خودصاحب اختیار ہے۔خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فَمَنْ شَائَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ ) ( ۱ )

''پس جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کا فر ہوجائے''۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہو تا ہے:

( وَلَوشَائَ ﷲ لَجَمَعَهُمْ عَلَی الْهُدَیٰ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِیْنَ ) ( ۲ )

''(نادانی نہ کرو )اگر چاہے سب کو ہدایت پر جمع کردیتا (مگر وہ نہیں چاہتا کہ سب مجبور ہو کرایمان لے آئیں )پس آپ اپنا شمار نادانوں میں نہ ہونے دیں ''۔

ایک مقام پر خدا ارشاد فرماتا ہے:

____________________

۱۔سورئہ کہف آیت ۲۹۔

۲۔سورئہ انعام۳۵۔

۸۵

( لَعَلَّکَ بٰخِعنَفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ اِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَآئِ آیَة ًفَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَاخَاضِعِیْنَ ) ( ۱ )

''شاید (اس فکر میں آپ)اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے کہ یہ کفار ایمان کیو ں نہیں لاتے اگر ہم چاہتے کہ ہر قیمت پریہ لوگ ایمان لے آئیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کردیتے کہ ان لوگوں کی گر دنیں اسکے سامنے جھک جاتیں''۔

ان سے ملتی جلتی دوسری تعبیر یں بھی ہیں لیکن بہ ظاہر ان کے دوسرے معنی ہیں۔ بعض مقامات پر ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ آیت کیوں نازل نہیں ہوتی ؟شاید پہلی نظر میں یہ خیال آئے کہ وہ کہتے تھے کوئی معجزہ کیوں نہیں لاتے لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن کی آیات ہیں یعنی کبھی کبھی وحی نازل ہوئے کئی دن ہوجایا کرتے تھے اس وقت منافقین یا کفّار کہا کرتے تھے کہ ان کا جبرئیل کہاں ہے ؟کوئی آیت کیوں نازل نہیں ہوتی ؟کبھی کبھی توہین آمیز الفاظ استعمال کیا کرتے مذاق اڑانے کے لئے کہا کرتے تھے :جائو کہیں سے ایک آدھ گڑھ لائو ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان سب کے یہ طعن وطنز برداشت کرنے پڑتے تھے ۔

سورئہ اعراف میں اس کی طرف اشارہ ہے :

( وَاِذَالَمْ تَأْتِهِمْ بِآیَةٍ قَالُوْا لَوْلَااجْتَبَیْتَهَا قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِع ُمَایُوْحَیٰ اِلَیَّ مِنْ رَبِِّیْ ) ( ۲ )

''اور جب آپ ان کے پاس کو ئی آیت نہ پیش کرتے توکہتے آپ نے اسے کیوں نہیں بنا لیا (اے رسول ) آپ کہد یجئے کہ میں تو بس اسی وحی کا پا بند ہوں جو میرے پر ور دگا ر کی طرف سے میرے پاس آتی ہے''۔

لولا اجتبیھا (اجتبائ)''یعنی طول دینا کہیں سے اپنی طرف جذب کر نا''بہ ظاہر اس سے یہ مراد ہے کہ اگر رسول پر کوئی آیت نازل نہ ہوتی، اور وحی میں دیر ہوجاتی تو کہتے آپ ادھر ادھر کہیں سے خود کیوں نہیں بنالیتے ان سے جواب میں کہدیں میں تو بس خدا کی وحی کا پابند ہو ں جب وہ مجھ پر وحی کر ے گا میں پہنچا دونگا اور جب وحی نہ کرے گا تو میں اپنی طرف سے کچھ نہیں پیش کرسکتا ۔

( قُل انَّمَا ا تَّبعُ مایُوحیٰ الیَّ مِنْ رَبّیْ ) بظاہر اس آیت میں ''بآیةٍ ''سے مراد قر آن کی آیت ہے ۔

اسی مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت بھی ہے اس کے با رے میں بھی یہی احتمال پایا جاتا ہے:

____________________

۱۔سورئہ شعرا ء آیت۳۔۴۔

۲۔سورئہ اعراف آیت ۲۰۳۔

۸۶

( وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْلَااُنْزِ لَ عَلَیْهِ آیَة مِنْ رَبِّهِ فَقُلْ اِنَّمَا الغَیْبُ لِلَّهِ فَا نْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِنَ المُنْتَظِرِیْنَ ) ( ۱ )

''اور کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر کو ئی آیت کیوں نہیں نازل ہو تی تو (اے رسول ) کہد یجئے کہ غیب کا علم تو صرف خدا کے واسطے ہے انتظار کرو اور میں (بھی )تمہا رے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہو ں ''۔

یہاں بھی احتمال ہے کہ آیت سے مراد قر آنی آیات کے نازل ہو نے کا مطالبہ ہو ارشاد ہو تا ہے کہ علم غیب خدا سے مخصوص ہے۔آیات الہٰی غیب سے تعلق رکھتی ہیںاور میرے ہا تھ میں نہیں ہیں،جب خدا چاہتا ہے نازل کرتا ہے میں بھی انتظار کر رہا ہوں جب خدا وحی کرے گا میں تمہارے سامنے بیان کردو نگا ۔

ا لبتہ ایک دوسرا احتمال یہ بھی دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر کوئی دوسرا معجزہ کیوں نہیں لاتے ۔

اور پھر ارشاد ہوتا ہے :(انّما الغیب لّلہ) یعنی معجزہ کا تعلق بھی غیب سے ہے اور وہ خدا کے قبضہ قدرت میں ہے۔

اسی طرح قرآن نے بعض اہل کتاب کا قول نقل کیا ہے :

( اَلَّذِیْنَ قَالُوْااِنَّ اللَّهَ عَهِدَ اِلَیْنَا اَ لَّانُوْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتَّیٰ یَاتِیَنَابِقُرْبَانٍ تَاکُلُهُ النَّارُ )

'' وہ کہتے تھے کہ خدا نے ہم سے عہد لیا ہے کہ جب تک کوئی رسول ایک قربانی نہ کرے اور اس کو (آ سمانی ) آگ خاکستر نہ بنا دے اس وقت تک ہم اس پر ا یمان نہ لا ئے ''۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو یہ کام انجام دید یجئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم ملتاہے کہ جواب میں کہد یجئے :

( قُلْ قَدْ جَائَکُمْ رُسُل مِنْ قبَْلِی بِا لَبیِّنَاتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْهُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ) ( ۲ )

''( اے رسول ) کہد یجئے کہ اگر تم اپنے قول میں سچّے ہو کہ اس طرح کا عمل انجام پانے کے بعد تم ایمان لے آئو گے تو بتائو مجھ سے پہلے کے نبیوں نے جب یہ کام کیا تو ان پر ایمان کیوں نہ لائے؟ نہ صرف یہ کہ ایمان نہ لائے بلکہ تم نے انھیں قتل کر دیا ؟''۔

____________________

۱۔ سو رئہ یو نس آیت ۲۰۔

۲۔سورئہ آل عمران آیت۱۸۳۔

۸۷

قرآن ان کے ارادوں کو فاش کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور ایمان ہی نہیں لانا چاہتے:

اوّ لا ً قرآن اس کی تائیدنہیں کرتاکہ خدانے ایسی کوئی سفارش کی ہو بلکہ قرآن فرماتا ہے : اس سے پہلے پیغمبر آئے واضح اور بیّن دلایل لیکر آئے اس عمل کو بھی انجام دیا توکیوں تم ایمان نہیں لائے اور ان کو قتل کر ڈالا ؟

اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوند عالم لوگوں کی خواہشات نفسانی کا تابع نہیں ہے کہ وہ جو کچھ در خواست کریں خدا اس کو انجام دیدے بلکہ خدا کا کام خود اسی کی اپنی حکمت کی اساس وبنیاد پر ہے جس کو وہ خود جانتا ہے اور صرف جس حد تک اتمام حجت کی ضرورت ہو تی ہے، ضروری جانتا ہے او ر اس سے زیا دہ اس کی مخصوص مصلحتو ں کے تا بع ہے۔

پیغمبر پر کچھ اور معجزات کیو ں نہیں نا زل ہو تے اس کے جوا ب میں قرآ ن فر ما تا ہے :

( وَمَامَنَعْنَا اَنْ نُرْسِلَ بِالآ یَا تِ اِلَّا اَن کَذَّبَ بِهَاالآوَّلُونَ وآ تَیْنَاثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْابِهَاوَماَنُرْسِلَ بِالآیَاتِ اِلَّاتَخْوِیْفاً ) ( ۱ )

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کو ئی وجہ مانع نہیں ہے کہ گزشتہ قو مو ں نے انھیں جھٹلا دیا اور ہم نے قو م ثمو د کو کھلے معجزے کے طور پر او نٹنی عطا کی جو (ہما ری قدرت ) ظاہر کرتی تھی تو ان لو گو ں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو معجزے صرف ڈ را نے کی غرض سے بھیجا کر تے ہیں ''۔

اس مطلب کی ذرا وضاحت ضرو ری ہے آیت کے ظا ہری معنی میں کچھ ابہا م پایا جاتا ہے کہ دو سرو ںکی تکذیب معجزہ لا نے میں کیسے مانع ہو سکتی ہے ؟اس کے مختلف طریقو ں سے جواب دیئے گئے ہیں ۔ منجملہ یہ :چو نکہ پہلے'' آ یتو ں'' کے بھیجنے سے کو ئی نتیجہ نہ نکل سکا اب اگر اس کے بعد بھی آیتیں بھیجے تو یہ فعل عبث ہو گا اور خدا وند عالم عبث کام انجام نہیں دیتا لیکن اتنا بیان کر دینا بھی کا فی نہیں ہے کیا خدا نہیں جانتا تھا کہ ان معجزو ں کا بھیجنا بے سو د ثابت ہو گا ؟یعنی اگر خدا جا نتا تھاکہ اس سے پہلے بھیجی جا نے والی آیات کا کو ئی فائدہ نہیں ہے تو ان کو نہ بھیجتا ؟ یہ وجہ جو بیان کی گئی ہے مبہم ہے گو یا خدا کو پہلے یہ علم نہیں تھا کہ اس کا فائدہ ہو گا یا نہیں ہو گا ۔لہٰذا گزشتہ قو مو ں میں بھیج کر امتحان کیا اور جب یہ دیکھ لیا کہ اس کا کو ئی فائدہ نہیں ہے تو کہہ دیا اب نہیں بھیجو ں گا یقینا یہ بات صحیح نہیں ہے اور یقینا کہنے وا لے کا بھی یہ مقصد نہیں ہے پس ہم اس بیان کی اسطرح تکمیل کر سکتے ہیں :پہلے جو آیت بھیجی گئی وہ اتمام حجت کے لئے تھی اور خدا بھی جانتا تھا کہ لوگ چا ہے ایمان نہ لا ئیں لیکن اتمام حجت کے لئے آ یت کے بھیجنے میں ہی مصلحت ہے اور یہ کام لغو یا بے فا ئدہ نہیں ہے لیکن اب اگر اتمام حجت کے بعد

____________________

۱۔سو رئہ اسراء آیت ۵۹ ۔

۸۸

دو بارہ آیت بھیجے تو یہ لغو و بے فائدہ ہو گا۔

بعض دو سرے مفسرین اس آیت کی اس طرح تفسیر کر تے ہیں : اس آیت میں ''آیات '' سے مراد وہ عذاب ہیں جو گزشتہ قو مو ں پر نازل ہو ئے ۔ گزشتہ قو مو ں پر نا زل ہو نے والے عذاب، عذاب استیصال کی صورت میں نازل ہو ا کر تے تھے ۔یعنی پوری قوم نیست و نا بود ہو جایا کر تی تھی ۔ اس طرح کا واقعہ تاریخ میں متعد د مر تبہ پیش آیا ہے ۔ خدا نے کو ئی نشانی نازل کی لو گو ں نے اس کی تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہو گیا اگر خدا وند عالم اس اُمت پر بھی اُسی طرح کی آیات نازل کر ے تو یہ بھی عذاب کی مستحق ہو گی لیکن اس امت کے ہلا ک کئے جانے میں مصلحت نہیں ہے اس امت کو تو قیامت تک باقی رہنا ہے لہٰذا اس امت پر تباہ کنندہ عذاب نازل نہیں ہو گا مر حو م علامہ طبا طبائی نے اسی مطلب کی تائید کی ہے۔

بہر حال مجمل طور پر ان آ یتو ں سے پتہ چلتا ہے کہ ہر پیغمبر سے جو کچھ مطالبہ کیا جا ئے وہ اس کو انجام دیدے ایسا نہیں ہے ،بلکہ ان سے بہت زیا دہ مطالبے کئے جا تے تھے اور ان پر بہت زیا دہ زور دیا جاتا تھا لیکن انبیاء علیہم السلام ان کو قبول نہیں کر تے تھے کیو نکہ مصلحت نہیں تھی اور حجت بھی تمام ہو چکی تھی۔

نتیجتاًقر آ ن بھی اس بات کی تا ئید کر تا ہے کہ معجزہ ،حجت تمام کر نے کے لئے ہے او ر اس سے زیادہ کی کو ئی ضرو رت بھی نہیں ہے اور ان مخصوص مصلحتو ں کی تا بع ہے جو ہر زمانہ میں مو جو د رہی ہے۔

۸۹

معجزہ کا دائر ئہ حدود

معجزہ کے سلسلہ میں ایک یہ مسئلہ بیا ن کیا جاتا ہے کہ کیا معجزہ پیغمبر کی نبوّت کے اثبات سے مخصوص ہے یا معجزہ کا دائرہ نبوّت کے اثبات سے عام ہے ؟یعنی وہ غیر معمولی امور کہ جن کو قرآن نے معجزہ کے عنوان سے بیان کیا ہے آیا وہ ان امور سے ہی مخصوص ہے جو کسی پیغمبر کو اس کی نبو ت کے اثبات کے لئے دیا گیا ہے یا ان مقامات سے مخصوص اور منحصر نہیں ہے ؟

قرآن کریم میں معجزہ کے واقعات کی تحقیق وجستجو سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ معجزہ صرف نبوت کے اثبات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی نبوت کے اثبات کے علاوہ بھی معجزے دکھلائے ہیںاور انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے خاصان خدا نے بھی خداوند عالم کی عطا کردہ طاقت وقوَت کے ذریعہ معجزات دکھلائے ہیںاور دنیا میں ایسے بھی واقعات رو نما ہوئے ہیں جو ایک انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتے لیکن قدرتی اصولوں کے خلاف محض ارادہ الٰہی کے تحت عالم فطرت سے مافوق بنیادوں پر رو نما ہوئے ہیں ۔ منجملہ خود انسان کی پیدائش، قرآن کریم کی رو سے، قوانین فطرت کے مطابق نہیں تھی ۔یعنی ایسا نہیں تھا کہ مادہ نے مخصوص حالات سے گزرنے کے بعد خود بخود انسان کی شکل اختیار کرلی ہو۔قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کا واقعہ ایک غیرمعمولی امر کی صورت میں بیان ہوا ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلقت کا واقعہ اور کچھ دوسرے واقعات بھی ہیں جن کی طرف ہم اشارہ کرینگے۔یہ سب اثبات نبوت کے لئے معجزہ کے عنوان سے بیان نہیں کئے گئے ہیں ۔لہٰذا بنیادی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی خلقت ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔قوانین فطرت کے بر خلاف ہواہے اسی طرح دوسرے انسان با وجودیکہ اپنے سے پہلے انسانوں کے ذریعہ پیدا ہوئے اور بعد میں پیدا ہونے والوں انسانوں کے لئے ایک قانون فطرت فراہم آگیا لیکن پھر بھی کبھی کبھی اسی قانون آفرینش میں بعض غیر معمولی واقعات بھی وجود میں آئے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادی اسباب وعوامل کے بغیر غیر معمولی طور پر خلق ہوئے۔اسی طرح نبوت کی بنیاد بھی ایک غیر معمولی امر ہے یہ کہ ایک انسان پر وحی ہواور اس کو علم عطا کردیا جائے ایک غیر معمولی واقعہ ہے دینوی اسباب اس بات کے متقاضی نہیں ہوتے کہ ایک انسان کسی مافوق ذات سے اس طرح کا رابطہ نبی کے عنوان سے بر قرار کرے۔در حقیقت خود نبوت قوانین فطرت سے الگ ایک غیر معمولی امور کا ایک سلسلہ ہے جو عذاب کی شکل میں مختلف قوموں پر نازل ہوا اور وہ بھی نبوت کے اثبات کے لئے نہیں تھا۔جیسے حضرت نو ح نے ایک ہزار سال کے بعد خدا وند عالم سے اپنی قوم پر عذاب نا زل کرنے کی دعا فرمائی اور خدا وند عالم نے عذاب نازل کیا

۹۰

اور وہ سب کے سب نیست و نا بود ہو گئے ۔ یہ واقعہ بھی نبوت کے اثبا ت کے لئے معجزہ کی صو رت میں نہیں تھا ۔ بلکہ ایک عذاب الہٰی تھا جو ظا ہراً قدرتی اسباب و عوا مل کے تحت نہیں تھا۔ کیو نکہ اس با رے میں قر آ ن کریم کے لہجے سے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر معمو لی واقعہ تھا ۔ اسی طرح قوم عاد،قوم ثمود ،قوم لوط اوردو سری قو مو ں پر جو عذاب نازل ہو ئے یہ سب غیر معمولی انداز میں واقع ہو ئے ہیں یعنی ملائکہ نازل ہو تے عذاب نازل کر تے اور قوم نیست و نا بود ہو جایا کرتی تھی یہ سب واقعات بھی نبو ت کے لئے نہیں تھے۔بلکہ سر کشو ں اور کا فروں کا فیصلہ کر نے کے لئے تھے یہ سب عذاب استیصا ل تھے اوراصو لی طور پر قرآ ن کریم میں عذاب کی جن قسمو ں کو عذاب استیصال کے نام سے بیان کیا گیا ہے وہ سب غیر معمو لی عذاب ہیں جو بہر حال نبو ت کو ثابت کر نے کی غرض سے نہیں تھے۔

اسی طرح جو عذاب تنبیہ کے طور پر کسی قوم یا جماعت پر نازل ہو تے تھے اور وہ سب کے لئے نہیں ہو تے تھے ان کے بھی غیر معمو لی طور پر نازل ہو نے کا امکان پایا جا تا ہے جیسے بنی اسرائیل کے بعض لو گو ں کا بندر اور سُور میں تبدیل ہو نا ( وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَةَ وَالخَنَا زیرَ)''اور ان میں سے کسی کو (مسخ کر کے )بندر اور (کسی کو ) سور بنا دیا ''یہ بھی غیر معمو لی امو ر ہیں جو نبو ت کے اثبات کے لئے نہیں ہیں۔

ان کے علا وہ بھی واقعات ہیں جو قرآ ن کریم میں بہت بڑی تعداد میں مو جو د ہیں جو خاص نو عیت کے غیر معمو لی واقعہ کی نشاندہی کر تے ہیںلیکن نبوت کو ثابت کر نے کے لئے نہیں پیش آ ئے ہیں۔حضرت زکریا کا بوڑھاپے میں صاحب او لا د ہو نا ،اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کاصاحب فر زند ہو نا وغیرہ ۔

اس طرح کے امور کبھی کبھی بعض مومنین کے ایمان پختہ کرنے کیلئے ہوتے تھے اور کبھی دوسری مصلحتوں کو مدّ نظر رکھکر انجام پا تے تھے۔

حتی معجزہ کا دائرہ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے افراد نے بھی معجزات دکھائے ہیں ۔قرآن کریم میں بہت سے ایسے غیر معمولی امور کا ذکر ہے جو انبیائے کرام سے مخصوص نہیں ہیں ۔خاص طور سے وہ علوم جو بعض افراد کو عطا کئے گئے یا وہ الہامات جو بعض افراد پر کئے گئے سب غیر عادی رہے ہیں۔

لہٰذا اس سوال کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ معجزہ کا دائرہ صرف ایسے غیر معمولی امور سے مخصوص نہیں ہے جو نبوت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دئے جاتے ہیں ۔

۹۱

اب ہم ان میں سے بعض معجزاتی واقعات بیان کرتے ہیں :

اگر ہم مختلف قوموں پر نازل شدہ عذاب کی تحقیق و جستجو کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجا ئیگی کیونکہ قرآن کریم میں اس طرح کے مسائل جگہ جگہ تکرار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں کہ کس قوم پر کو نسا عذاب نازل ہوا ہے اور یہ بحث انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کی تاریخ کے موضوع سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔لہٰذا ہم ان کو یہاں بیان نہیں کرینگے جو مخصوص اشخاص کے لئے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیںیا انبیاء علیہم السلام کے ان معجزوں کو بیان کریں گے جو نبوت کے اثبات کے لئے قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے ہیں :

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان دو نشانیوں کے علاوہ جو آپ کو اپنی نبوت کے اثبات کیلئے عطا کی گئیں تھیں بنی اسرائیل کے مصرسے نکل جانے اور فرعونیوں کے چنگل سے نجات پانے کے بعد بھی بہت سے معجزے ظاہر ہوئے جن کو قرآن کریم نے نبو ت کی بنیاد بنایا ہے :

الف :ان کا سب سے پہلا مسئلہ دریا کو پار کر نا تھا :قر آن میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَجَٰوَزْنَابِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الْبَحْرَ ) ( ۱ )

''اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار کر دیا ''۔

جب بنی اسرائیل نے مصر کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا تو رات کے وقت کھلے اور ایک بڑے دریا کے کنا رے پہنچے جس کو انھیں پار کر نا تھا ۔ تو خدا وند عالم نے دریا کو خشک کر دیا اور بنی اسرائیل اس سے گزر گئے اور یہ کام نبوت کے اثبات کے لئے نہیں تھا اس لئے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی نبوت بنی اسرائیل پر ثابت ہو چکی تھی اور فر عو نیو ں نے آپ کی نبوت کو مانا ہی نہیں تھا ۔ایسی صورت میں معجزہ کی کو ئی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ معجزہ رو نما ہوا اور دریا خشک ہو گیا ۔

ب:بنی اسرائیل طویل راستہ چلنے کی وجہ سے پیاس سے جاں بلب تھے اور پانی میسر نہیں تھا تو حضرت مو سیٰ

____________________

۱۔سو رئہ اعراف آیت ۳۸ ۱۔

۹۲

نے خدا وند عالم سے اپنی قوم کیلئے پانی کی درخواست کی تو آواز قدرت آ ئی اے موسیٰ علیہ السلام اپنا عصا ایک پتھرپر مارو تا کہ اس سے بنی اسرائیل کے نبیو ں کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے جاری ہو ں چنا نچہ اس واقعہ کے بعد سے وہ اس پتھر کو اپنے ساتھ اٹھا کر چلتے تھے جہاں پر بھی ان کو پیاس لگتی تھی اسی عمل کو انجام دیتے تھے ۔اس بارے میں قرآن کریم فر ماتا ہے :

( وَاَوْحَیْنَا اِلَیٰ مُوسَیٰ اِذِاسْتَسْقٰهُ قَومُهُ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَا کَ الحَجَرَ فَاَنْبَجََسَتْ مِنْهُ اثْنَتَاعَشْرَةَ عَیْناًقَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ) ( ۱ )

''اور جب مو سیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان سے پا نی مانگا تو ہم نے ان پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو (پس ) اس پتھر سے (پا نی کے )بارہ چشمے پھو ٹ نکلے اور ہر قبیلہ نے اپنا چشئمہ آب پالیا ''۔

ج:بنی اسرائیل بیا بان میں گرمی کی شدت سے پریشان تھی تو خدا وند عالم نے ان پر سا یہ کے لئے بادل کے ایک ٹکڑے کو معین فر مادیا کہ وہ ان کو آفتاب کی تمازت سے بچائے۔قرآن کریم میں یہ بات کئی مقامات پر بیا ن ہوئی ہے منجملہ سورئہ بقرہ (آیت ۷۵)میں ہے( وَظَلّلْنَا عَلَیکُمُ الْغَمَامَ ) ۔) (اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کیا )اور یہ کوئی عام با ت نہیں تھی بلکہ یہ غیر معمولی کام خدا وند عالم کے خاص ارادہ سے واقع ہوا تھا کہ بنی اسرائیل آفتاب کی تمازت سے پریشان نہ ہوں۔

د: چنانچہ بنی اسرائیل (جیسا کہ روایات میں ہے کہ خود بنی اسرائیل کہا کر تے تھے کیو نکہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کو دھو کہ باز اور ضدی قوم کے عنوان سے تعارف کرایا ہے۔وہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے احکام کی ٹھیک سے اطاعت نہیں کر تے تھے اور دین کے احکام کو جیسا چاہئے تھاقبول نہیں کر تے تھے )نے یہ تجویز رکھی کہ واقعاًیہ احکام خدا وند عالم کی طرف سے ہیں تو اس پہا ڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا دیجے ٔاور ان کی یہ درخواست قبو ل بھی ہو ئی :

( وَاِذْنَتَقْنَاالْجَبَلَ فَوْقَهُمْْ کَاَنَّهُ ظُلَّة وَظَنُّوْااَنَّهُ وَاقِع بِهِمْ ) ( ۲ )

''جب ہم نے ان (کے سروں )پر پہاڑ کو چھت کی طرح لٹکا دیا اور وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان پر ابھی گر پڑے گا ''۔

البتہ بنی اسرائیل حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم کر تے تھے لیکن بہانہ بازی کیا کر تے۔

ر: جس بیا بان میں بنی اسرائیل کچھ مدت تک مقیم رہے وہاں (منّ و سلوی ) کا نزول بھی شاید ایک غیر معمولی

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت ۱۶۰ ۔

۲۔سورئہ اعراف آیت ۱۷۱ ۔

۹۳

طریقہ تھا (کیو نکہ بیابان میں سکو نت اختیار کر نے کی وجہ بھی خدا وند عالم کے حکم سے نا فر مانی بنی تھی۔خدا نے حکم دیا تھا کہ شہر میں دا خل ہو کر وہاں کے کا فرو ں سے جنگ کریں ایک بنی اسرائیل نے بھی نہیں مانا اور کہنے لگے موسیٰ علیہ السلام تم اور تمہا را خدا جا ئے ان سے جنگ کرے او ر ان کو شہر سے با ہر کر دے ہم اس کے بعد شہر میں داخل ہو نگے:

( فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَا تِلَا اِنَّا هَٰهُنَا قَا عِدُوْنَ ) ( ۱ )

''تم اور تمہارا خدا (جا ئے )اور دو نوں (جا کے )لڑو ہم تو یہیں جمے بیٹھے ہیں''۔

خداوند عالم کے اس حکم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم نے حکم دیدیا کہ چایس سال تک اسی بیابان میں زندگی بسر کریں ۔

(اربعین سنة یتیھون فی الارض)و ہ چالیس سال تک مصر کے جنگل میں بھٹکتے رہے صبح کے وقت چلنا شروع کرتے اور چلتے رہتے تھے پھر عصر کے وقت یہ دیکھتے تھے کہ جہاں پر صبح کے وقت تھے اب بھی وہیں پرہیں (البتہ قرآن میں اسکا ذکر نہیں ہے ) اور حضرت موسی علیہ السلام بھی اسی چالیس سال کی مدّت کے دوران دنیا سے کوچ کر گئے ۔اس دوران انھوں نے جب خشک بیابان میں کھانے کی فرمائش کی تو خداوند عالم نے ان پر منّ وسلوی( ۲) نازل کیا ۔

قرآن کریم کے ظاہر کلام سے پتہ چلتا ہے کہ (من و سلوی ) کا نزول ایک غیر معمولی چیز تھی، جولوگ معجزوں کے منکر ہیں آسانی سے اس کی تاویل کرسکتے ہیں جیسا کہ کہا بھی ہے : منّ ایک مخصوص گھا س تھی جس سے ایک خاص قسم کا عرق نکلتا تھا اور سلوی بھی ایک قسم کا پرندہ تھاجو اسی جگہ پر ہوتا تھا وہ لوگ اسی گھاس اور پرندوہ کو کھایا کرتے تھے لیکن ظاہر قرآن سے لگتا ہے منّ سلوی کا نزول بھی ایک غیر معمولی طریقے سے ہوتا تھا لیکن ہم کو اس بات پرزیادہ اصرار نہیں ہے چونکہ صاف طور پر بیان نہیں ہوا ہے لہٰذا ہم نے احتمال کے طور پر لکھا ہے کہ(منّ سلوی ) بھی شاید غیر معمولی طریقہ سے نازل ہوتا تھا ۔

بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ایک سلسلہ ہے جو ان کے ہا تھوں بنی اسرائیل کے لئے ظاہر ہوا ہے حالانکہ آپ کی نبوت ثابت ہوچکی تھی اور اپنی نبوت کو ثابت کرنے کیلئے معجزہ دکھلانے کی ضرورت نہیں تھی ۔

____________________

۱۔سورئہ ما ئدہ آیت ۲۴۔

۲۔من و سلوی کے مختلف معنی ہیں لیکن مشہور ومعروف یہ ہیں کہ (منّ) تر نجین کو کہتے ہیں اور ( سلوی ) بھنا ہوا گو شت یا (تیتر یا بٹیر ) کے مانند پرندہ ہوتے تھے جنکا وہ شکار کرتے تھے اور ذبح کر کے کھا جاتے تھے۔

۹۴

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دستر خوان کا وا قعہ ہے جس کا سورئہ ما ئدہ میں ذکر ہے اور اسی مناسبت سے اس سورہ کانام مائدہ (خوان )رکھا گیا ہے اور یہ نبوت کو ثابت کر نے کیلئے نہیں تھا کیونکہ حوار ئین، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کے شاگرد تھے ایک دن ان کے ذہن میں آیا کہ اس طرح کی فرمائش کرنا چاہئے اور انھوں نے کھانے کے لئے حضرت عیسیٰ سے آسمان سے خوان نازل ہونے کی در خواست کردی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی یہ پیشکش قبول کرلی اور خداوند عالم کے حضور دعا مانگی تو خداوند عالم نے اس طرح کا خوان نازل فرمایا اور سب نے کھا یا ۔ یہ بالکل واضح سی بات ہے یہ ایک غیر معمولی بات تھی حضرت عیسیٰ کی درخواست پر آسمان سے خوان نازل ہوا جبکہ یہ نبوت کے اثبات کیلئے نہیں تھا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات

الف :حضرت ابراہیم علیہ السلام بو ڑھے ہوچکے تھے اور حالانکہ آپ کے کوئی اولاد نہ تھی آپ خود بھی بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور آپ کی زوجہ (سارہ ) بھی با نجھ تھیں۔جس وقت قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کی غرض سے فرشتے نازل ہوئے وہ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے چونکہ حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی تھے اور آپ کی ہی طرف سے تبلیغ کرتے تھے اور حضرت لوط نبی تھے لیکن حضرت ابراہیم کی (شریعت کی )اتباع کرتے تھے( ۱ ) ۔

ملائکہ ابتدا ء میں انسانوں کی شکل میں ظاہر ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ آپ کے پاس مہمان آئے ہیں آپ نے ان کی مہمانی کیلئے گوسفند ذبح کرکے حاضر کر نے کا حکم دیا جب کھانالگایا گیا تو انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا اور عام رواج میں یہ چیز بہت معیوب سمجھی جاتی تھی کہ کسی کے گھر مہمان آئے اور میزبان اس کے سامنے کھانا لگا ئے اور مہمان کھا نا کھانے سے پرہیز کرے اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو دشمنی اور کینہ کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ لوگ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو پریشان ہوگئے کہ کیا

____________________

۱۔بعض انبیائ، رسول اور صاحب شریعت ہیں (اگر چہ تمام رسول بھی صاحب شریعت نہیں ہیں)اور دوسرے انبیاء (چاہے وہ ایسے زمانے میں ہو ںیا بعد والے زمانے میں )صاحب شریعت نبی کے تابع ہوتے ہیں چنانچہ حضرت لوط حضرت ابراہیم کی شریعت کے تابع تھے ۔

۹۵

بات ہے کھانا کیوں نہیں کھاتے ؟ انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیرت کو دور کرنے کیلئے کہا کہ ہم خداوند عالم کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور شہر لوط کو زیر وزبر کرنے کیلئے آئے ہیں۔اسی موقع پر انھوںنے حضرت ابراہیم کو یہ اطلاع دی کہ خداوند عالم آپ کو دو بیٹے عطا کرے گابعض آیات میں ایک بیٹے کا ذکر ہے اوربعض دوسری آیات میں دوبیٹوں کاتذکرہ ہے لیکن زیادہ ترآیات میں صرف حضرت اسحٰق علیہ السلام کا تذکرہ ہے ۔ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ بشارت دی تو آپ کی زوجہ آپ ہی کے پاس تھیں جب انھوں نے سنا:

( فَاَ قْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِی صَُّرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوْزعَقِیْم )

''تو ابراہیم کی بی بی چلاتی ہوئی انکے سامنے آئیں اور اپنا منھ پیٹ لیا اور کہنے لگیں ایک تو (میں) بڑھیا (اس پر ) بانجھ لڑکا کیونکر ہوگا ''۔

یہ عورتوں کی عادت ہے کہ کسی تعجب خیز واقعے کے وقت وہ گلا پیٹتی ہیں اس آیت میں مکمل طور پر اس کی منظر کشی کردی گئی ہے (فَصَکَّتْ وَجْھُھَا)اپنے گال پیٹ کر کہا میں صاحب اولاد ہونگی؟ ملائکہ نے کہا (کذلک قال ربک)آپ کے رب نے یو نہی فر ما یا ہے آپ صاحب اولا د ہونگی؟( فَبَشّرَنَاهَابِاِسحَٰقَ وَ مِنْ وَرَاء اِسْحَٰقَ یَعْقُوْبَ ) مقصود یہ ہے کہ یہ بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔سارہ بھی بانجھ تھیں اور خود حضرت ابراہیم بھی بوڑھے ہوچکے تھے شاید اس وقت آپ کی عمر سو سال ہوگی اسی حالت میں خدانے آپ کو صاحب اولاد ہونے کی بشارت دی۔( ۱ )

ب ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرودیوں کی آگ سے نجات دینے کا واقعہ بھی بہ ظاہرنبوت کے اثبات کے لئے نہیں تھا کیونکہ یہ مسئلہ ثابت ہوچکاتھا اس کے بارے میں بحث کرچکے تھے اورا گرحضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی نبوت کے اثبات کے لئے معجزہ دکھانا لازم تھا تو آپ معجزہ دکھلا چکے تھے اوراور حضرت براہیم علیہ السلام کو آگ میںڈالنے کی ضرورت کہ خدا وند عالم حضرت ابرا ہیم کی پیغمبری کے اثبات کے لئے ان کو آگ سے نجات دے

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت ۶۹۔یہ بشارت کا واقعہ قر آن کریم میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے منجملہ :سورئہ ہود آیت ۷۱۔۷۳، سورئہ حجر آیت ۵۳۔۵۵، سورئہ والذاریات آیت۲۸۔۳۰۔

۹۶

نہیں رہ گئی تھی ۔ بظاہر یہ بھی نبوت کو ثابت کر نے کے لئے نہیں تھابلکہ یہ منجانب ﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ایک کرامت تھی۔اگر چہ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ خداوند عالم اس کے ذریعہ ان کو یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پیغمبر ہیں۔اس واقعہ کا بھی قرآن کریم میں بہت زیادہ تذکرہ ہے منجملہ ارشاد ہوتا ہے :

( قُلْنَایَانَارُکُوْنِی بَردًاوَسَلَاماً عَلَٰی اِبرَاهِیْمَ ) ( ۱ )

''تو ہم نے کہا اے آگ تو ابراہیم پر با لکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث بن جا (کہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے''

ج:حضرت ابراہیم کے ذریعہ پرندوں کے زندہ ہونے کا واقعہ بھی ہے جب آپ نے خداوند عالم سے درخواست کی تھی کہ اے پروردگار :

( رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَیٰ )( ) ۲ )

''اے میرے پروردگار مجھے دکھادے کے تو مردے کو کیونکر زندہ کرتا ہے''۔

حکم ہواابراہیم چارپرندوںکوذبح کرکے ان کے گو شت الگ الگ مقام پر رکھدو۔۔۔اور پھر ان کو آواز دواور جب آپ نے ان کو آواز دی تو وہ زندہ ہوگئے۔یہ بھی نبوت کے اثبا ت کے لئے نہیں تھا کیونکہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ شاید آپ کے پاس اور کوئی نہیں تھا ایک بیابان میں جہاں آپ کے (اردگرد ) دسیوں پہاڑ پھیلے ہوئے تھے آپ نے یہ کام انجام دیا ممکن ہے کسی اور نے دیکھا بھی نہ ہو ۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی کرامت

انبیاء علیہم السلام سے ظاہر ہونے والی کرامات میں سے حضرت زکریا کا واقعہ بھی ہے جس کاقرآن کریم نے دو مقامات پر ذکر کیا ہے ارشاد ہے :

( ذِکْرُرَحْمَةِ رَبِّکَ عَبْدَهُ زَکَرِیَّا ) ( ۳ )

''یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا ذکر ہے جو(اس نے )اپنے بندہ زکریا کے ساتھ کی تھی''۔

حضرت زکریا علیہ السلام بہت بوڑھے ہوچکے تھے جیسا کہ قرآ ن کریم میں خود جنا ب زکریا کی زبانی آیا ہے :

____________________

۱۔سورئہ انبیاء آیت۶۹۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۲۶۰۔

۳۔سورئہ مریم آیت ۲۔

۹۷

( قَالَ رَبِّ اِنِّی وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّی ) عرض کی اے میرے پالنے والے میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں۔

( وَاشْتَعْلَ الرَّأْسُ شَیْبًا ) ''اور سر کے بال اور بھویں مکمل طور پر سفید ہوچکی ہیں''۔

( وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً ) اور ان کی بیوی بھی اس وقت تک بانجھ تھیں۔پھر بھی انھوں نے خداوندعالم سے فرزند کی دعا کی اور خدا نے بھی آپ کی دعا مستجاب فرمائی اورآپ کو حضرت یحییٰ جیسا فرزند عطا کیا۔

سورئہ آل عمران میں اس بات کا معمولی تمہید کے ساتھ بڑے لطیف انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔یعنی پہلے حضرت مریم علیہا لسلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ آپ کا بیت المقدس میں ایک حجرہ تھا جس میں آپ عبادت میں مشغول رہا کرتی تھیں۔( ۱ )

حضرت زکریا علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے آپ بیت المقدس کے منتظم تھے ظاہرہے آپ ہی حضرت مریم علیہا السلام کی خبر گیری رکھتے تھے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی روز مرہ کی ضروریات پورا کرے لیکن :

( کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَعِنْدَهَارِزْقاً ) ( ۲ )

''جب بھی زکر یا ان کے پاس محراب عبادت میں جاتے تو مر یم کے سامنے غذا مو جود پاتے''۔

یہ بھی ایک کرامت تھی جو ایک غیر نبی کے لئے انجام پائی (جن کا ہم نے یہاں پر اپنے مو ضو ع کی مناسبت سے ذکر کر دیا ہے )جناب زکریا علیہ السلام پو چھتے :

( قَالَ یَامَرْیَمُ اَنَّٰی لَکِ هَٰذَا )

''اے مریم !یہ (کھا نا )تمہا رے پاس کہاں سے آیا ''۔

( قَالَتْ هُوَمِنْ عِنْدِاللََٰهِ اِنَّ اللَّهَ یَرْزُقُ مَنْ یَشَآئُ ُبِغَیْرِحِسَا بٍ )

''تو مریم یہ کہہ دیتی کہ یہ خدا کے یہاں سے (آیا )ہے بیشک خدا جس کو چا ہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے ''۔

____________________

۱۔بنی اسرائیل میں رواج تھا کہ کبھی کبھی اپنی اولاد کو بیت المقدس میں عبادت اور خدمت کے لئے وقف کردیتے تھے حضرت مریم کے باپ نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے ان کو اولاد دی تو وہ اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گے ان کے ذہن میں لڑ کا تھا لیکن جب لڑ کی دیکھی تو کہا (فَلَمّاَ۔۔۔کَالاُنثَٰی) جب اپنے بچہ کو دیکھا تو کہا پرور دگار یہ تو بچی ہے اور خدا بہتر جانتا ہے اس نے کیا پیدا کیا ہے اور لڑکا لڑکی کے مانند نہیں ہے لیکن جیسا کہ نذر کی تھی حضرت مر یم کوبیت المقدس میں لے گئے اور شاید یہ پہلا مو قع تھا کہ ایک لڑکی بیت المقدس میں خدمت اور عبا دت کے لئے لا ئی گئی تھی ۔

۲۔آل عمران آیت ۳۶۔

۹۸

ایک دو مر تبہ نہیں بلکہ :کُلَّمَا دَخَل جب بھی (زکریا ) ان کی محراب عبادت میں جاتے تو مریم کے سا منے غذا مو جو د پا تے ۔یعنی حضرت مریم علیہا لسلام کی روزی آسمان سے نازل ہوا کرتی تھی۔جب حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا لسلام کے لئے ان چیزو ں کا مشاہدہ کیا کہ خدا اپنے صالح بندوں پر اسی طرح لطف و کرم کرتا ہے تو آپ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں بھی اپنے خدا سے ایک فر زند کی خواہش کروں اور آپ نے دعا کی :

( هُنَا لِکَ دَعَاْ زَکَرِیَّا رَبَّهُ )

یہ ماجرا دیکھا اور خدا سے دعا کر بیٹھے بہر حال یہ بھی ایک کرامت ہے جو آپ کو عطا کی گئی تھی ۔

حضرت مریم کی کرامت

( اِذْقَاْلَتِْ الْمَلَائِکَةُ یَامَرْیَمُ اِنَّ اللَّهَ یُبَشِّرُ کِ بِکَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَیٰ ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهاًفِیْ الدُّ نْیَاوَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ) ( ۱ )

''(جب فرشتوں نے (مریم سے ) کہا اے مریم !خدا تم کو اپنے کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسی ابن مریم ہو گا اور وہ دنیا وآخرت میں آبرو اور خدا کے مقرب بندوں میں ہو گا ''۔

جس وقت حضرت مریم اپنے حجرے میں عبا دت میں مشغو ل تھیں تو فرشتے نے آپ پر وحی کی (اب حضرت مریم نے اس وقت کو اپنی آنکھو ں سے دیکھا یا نہیں یہ آیت سے پتہ نہیں چلتا) آپ کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا۔

اس کا نام بھی خدا وند عالم نے رکھ دیا ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم ،اور اس کی خصو صیات بھی بیان فر ما دی ہیں کہ وہ بچپن میں لو گو ں سے با تیں کرے گا اور اسکے بعد ایسا ویسا کرے گا :

( وَیُکَلِّمَ النَّاس فِی الْمَهْدِ وکَهلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ )

''اور جب وہ جھو لے میں پڑا ہو گا اور بڑی عمر کا ہو جا ئیگا لو گو ں سے با تیں کرے گا اور نیکو کا روں میں ہو گا ''

اس وقت حضرت مریم علیہا السلام نے کہا :

( قَالَتْ رَبِّ اَنَّیٰ یَکُوْنُ لِیْ وَلَد وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَر )

''میں کیسے صا حب فر زند ہوں گی جبکہ میں نے شا دی نہیں کی ہے اور کسی مرد نے مجھے ہاتھ نہیں لگا یاہے''۔

فرشتو ںنے کہا:( قَالَ کَذَ لِکِ اللَّهُ یَخْلُقُ مَایَشَائُ )

____________________

۱۔آل عمران آیت ۴۵۔

۹۹

''خدا کا یہی فیصلہ ہے کہ آپ صا حب ادلا د ہوں''۔

حضر ت مریم علیہا السلام کے صاحب فرزند ہو نے کی بشارت کا واقعہ بھی غیر معمو لی تھااور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان (اگر چہ پیغمبر نہ ہو )فرشتوں کے ذریعہ خدا وند عالم کے مخاطب بن سکتے ہیں اور ان پر الہام (یا عام معنی میں ان پر وحی کی جا سکتی ہے۔)

اس کے بعد حضرت مر یم علیہا السلام نے نا گہاں ایک انسان کو اپنی مخصوص محراب عبادت میں جہاں حضرت زکریا علیہ السلام کے علا وہ اور کو ئی نہیں آ سکتا تھا دیکھا جو ایک خو بصورت جوان کی شکل میں ظاہر ہو ا تھا حضرت مریم نے کہا :

( قَالَتْ اِنِّیِ اَعُوذُبِالرَّحْمَٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیّاً )

حضرت مریم علیہا السلام نہیں سمجھ سکیں کہ یہ جوان فرشتہ ہے آ پ نے خیال کیا کہ کو ئی ایسا شخص ہے جوشاید کسی برے قصد سے یہاں پر آیا ہے لہٰذا اس فرشتہ نے کہا :

( قَالَ اِنَّمَااَنَارَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَهَبَ لَکِ غُلَاماًزَکِیّاً )

ایک انسان کے سامنے فرشتہ کا ظا ہر ہو نا بھی ایک غیر معمولی بات ہے اور اسکے بعد حضرت مریم علیہا السلام کا اسباب طبیعی کے بغیر صاحب فر زند ہو نا بھی غیر معمو لی واقعہ ہے جو ایک غیر نبی کے لئے رو نما ہو ا ہے۔

۱۰۰