بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ مؤلف
آئندہ کی تاریخ اس بات کی نشاندہی کرے گی کہ موجودہ صدی کی ۷۰ئ اور ۸۰ئ کی دہائیاں ، اسلام اور مسلمانوں کے سیاسی افکار و نظریات کی تاریخ میں اہم ترین موڑ ہیں، اب یہ کہ یہ موڑ کس طرح کے مستقبل کی صورت میں سامنے آئے گا یہ ایک الگ مسئلہ ہے؛ اہم بات یہ ہے کہ ایک بڑی تبدیلی آگئی ہے اور طرح طرح کے تجربات اسلامی دنیا میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس تبدیلی کے پشت پناہ ہیں۔
ا ن نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کا آنے والا زمانہ ،چاہے ایک دین کے عنوان سے ہو یا ایک مستقل تاریخی ثقافتی اور معاشرتی حقیقت کے عنوان سے ، پوری طرح یقینا موجودہ صورت حال سے وابستہ ہے اور یہ موجودہ صورت حال بھی اس دین کی گذشتہ تاریخ، خاص طور سے اس کے دورِجدید میں وارد ہونے کی کیفیت ، اس کے باہمی عمل اور ردعمل ، نیز اس کی اپنی درونی توانائیوں اور وسعتوں کا ہی نتیجہ ہے۔ ان تین اسباب،ٍ خاص طور سے آخری سبب کا موجودہ حالت کے وجود میںبڑا کردار رہا ہے اور رہے گا۔ یہاں،اہم بات یہ ہے کہ ایک انقلاب آفرین محرک کے عنوان سے خود اسلام کے بنیادی اور فیصلہ کن کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ایسے لوگ بہت ہیں جو خود اسلام کی ذاتی توانائیوں اور صلاحیتوں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات پر توجہ دیئے بغیر تاریخ اسلام میں رونما ہونے والے تغیرات اور موجودہ اسلام کی تحقیق میں مشغول ہوجاتے ہیں اور اس کو ایک ایسی تاریخی، ثقافتی اور معاشرتی حقیقت کے عنوان سے دیکھتے ہیں جو محض عصری تبدیلیوں پر مشتمل ہے، ایک ایسی حقیقت کے عنوان سے نہیں دیکھتے مذکورہ خصوصیات کے علاوہ مستقل طور پر خود اپنی فعالیت اور خلاقیت کا بھی حامل ہے۔ حالانکہ ادیان الٰہی اور ان میں سرفہرست اسلام، میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کااس آخری نکتہ کی طرف توجہ دیئے بغیر تحقیق وجایزہ ناممکن ہے۔
اس بات میں کہ دین، اپنے ماننے والوںکا ایمان و اعتقاد ہونے اور ان ہی کے ذریعہ معاشرے میں وارد ہونے کے سبب اور خود تاریخی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے،کسی کو کوئی کلا م نہیں ہے۔ کلام تو اس میں ہے کہ آیا اس کی ما ورائے تاریخ کوئی حقیقت ہے یا نہیںہے؟ اگر ہم یہ مان لیں کہ دین کی تاریخ سے ماورا ایک مستقل حقیقت ہے اور ایک طرح سے اسے تاریخ کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے تو ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ اس خصوصیت کی طرف توجہ کئے بغیر اس کو صرف ایک ایسے عامل کی حیثیت سے دیکھنا کہ جس کو تاریخ وجود میں لاتی ہو ، ہم کو غلط نتائج کی طرف لے جائے گا،اب اگر ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں تو منطقی طور پرسے ہمیں بھی یہ قبول کرلینا چاہیے کہ دین کے تاریخ سے ماورا ہونے کا یہ عنصر بھی مختلف معاشرتی، فکری اور سیاسی حوادث کے مقابلے میں کارفرما رہا ہے اور اپنے اصول اور خصوصیات کے مطابق اس نے مختلف عکس العمل ظاہر کئے ہیں اور اس رد عمل کو جاننے کے لئے جس طرح سے تاریخی، معاشرتی ،اقتصادی اور ثقافتی حالات کا جاننا ضروری ہے ، اسی طرح اس عنصر کی انقلاب آفریں خصوصیتوں، اس کی توانائیوں کے سر چشموںاور حالات کے مطابق ڈھل جانے کی صلاحیتوں پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
ادھر دو تین دہائیوں کے دوران اسلامی حلقوں اور مسلمان نشین ملک میں حقیقی اسلام پسندی کی ایک نئی لہر اٹھی ہے جس نے شیعوں اور سُنیوں دونوں کو متاثر کیا ہے۔ ان دونوں، خاص طورپر انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اسلام پسندی کی یہ لہرجب اپنے کمال تک پہنچ گئی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دونوں(مکاتب فکر) ایک دوسرے کے مانند جدید واقعات کے سلسلہ میں بھی ردعمل ظاہر کریں گے۔ لیکن بعد میں جب احساسات کا یہ طوفان ٹھنڈا پڑ گیا، تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں اپنے اپنے تاریخی تجربوں، فقہی و کلامی اصولوں اور نفسیاتی و معاشرتی ڈھانچوں کے مطابق دو الگ الگ طریقوںسے نئے مرحلوں کو طے کریں گے اور یہ فرق جس طرح دو مختلف تاریخی تجربوں کا مرہون منت ہے، ٹھیک اسی طرح دو مختلف فقہی اور کلامی نظام کا بھی مرہون منت ہے۔ اس رہ گزر میں دونوں کی موجودہ صورت حال جو یہاں تک پہونچی ہے جدید مرحلہ کے جس قدر اپنے تاریخی تجربے سے ہماہنگی رکھتی اسی قدر اپنے اعتقادی نظام اور اصولوں سے بھی ہماہنگ ہے۔
موجودہ حالت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان دونوں نکات کاپوری یکجہتی اور دقت کے ساتھ جائزہ لیا جائے؛ خاص طور سے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان دونوں فرقوں نے اپنی جامعیت اور تمامیت کیساتھ اپنے پیروؤں میں دینی، سماجی اور روحانی ڈھانچہ کوکس طرح تشکیل دیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کے یہاں زمانہ کے تغیرات، دباؤ اور خود پر عائد شدہ فرائض سے مقابلہ کرنے کے تین وسائل اور قابلیتیں پائی جاتی ہیں؟ یہ نکتہ اس سے قطع نظر کہ موجودہ حالات کے سمجھنے میں بہتر مدد کر سکتا ہے، کسی حدتک آئندہ کے حالات کی بھی نشاندہی کرسکتا ہے۔
یہاں ہماری بحث کا مقصدنہ تو مناظرانہ اور اپنی اہمیت جتاناہے کہ اسلام سے متعلق کونسا تجربہ اور کون سی تفسیر صحیح اور کونسی غلط ہے، نہ ہی اختلا ف آمیز مسائل کو چھیڑنا مقصود ہے کہ اسلامی اتحاد و بھائی چارگی میں خلل واقع ہو ؛ یقینی طور پر دونوں مکاتب فکر کے روحانی، تاریخی،اعتقادی اور فکری امتیازات کو غیر جانب داری کے ساتھ علمی پیرائے میں بیان کرنااور بتاناکہ ان امتیازات کے اسباب و علل کیا تھے اور ان کے نتائج اور اثرات کیا پڑے؟ چونکہ زیادہ گہرائی سے صحیح شناخت میں مددگار ثابت ہوںگے، ان کے چھپانے سے کہیں زیادہ ،اخوت اور اتحاد کے استحکام میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج کی اس کھلی ہوئی، مواصلاتی ذرائع سے بھری دنیا میں نہ تو ہی ممکن ہے اور نہ ہی مناسب ہے کہ حقیقتیں خصوصاً جہاں وہ دین کی قوتوں اور گہرائیوں کی حامل ہوں لوگوں سے چھپائی جائیں۔ کسی بھی مکتب فکر کے مامنے والوں کی طرف سے اس کی حقیقت کا چھپایا جانا ہی اس بات کا سبب بنتاہے گا کہ دوسرے افراد اس کی تحریف شدہ شکل دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے انداز میں اس کی تفسیر کریں ۔
تفاہم، ہماہنگی ، ہمفکری اور ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریوں کا احساس اور تقدیر ساز مشترکہ مسائل میں مشارکت اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب دونوں اخلاص اور شجاعت کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھیں اور خود کو ایک دوسرے کے سامنے پیش کریں کہ ہیں۔یہ امور آج کی دنیا میں ایک دوسرے کو کھل کر سمجھنے کے علاوہ اور ایک دوسرے کے احترام کی رعایت کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔
اس شناخت کا معمولی ترین نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے ان کے محدود وسائل اور اصول و نظریات کے دائروں سے زیادہ امیدیں اور توقعات نہیں رکھیں گے، (افسوس کہ یہی وہ مشکل ہے مسلمان جس سے ہمیشہ روبرو رہے ہیں اور آج بھی ہیں)انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون ہیں اور ان کے مدمقابل کون ہے؟ اور وہ کن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مقاصد اور ان مقصد کی تکمیل کے بارے میں دونوں کے تصور اور نطریات کیاہیں؟ اور کس طرح دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی مشارکت اور تعاون کر سکتے ہیں۔
یہ کتاب جوآپ کے سامنے ہے اُن چار تقریروںکی ذرا تکمیل و تفصیل کے ساتھ ترتیب شدہ شکل ہے جو ۱۹۸۷ء کے موسم خزاں میں عصر حاضرکے فن پاروں کے موزیم ہال میں کی گئی تھیں۔ اس زمانہ میں ان تقریروں کے اہتمام کا واحد مقصد یہ تھا کہ شیعوں ا ور سنیوں کے سیاسی افکار کے بنیادی میدانوں پر کھل کے گفتگو کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ میدان کیوں اور کس طرح وجود میں آئے؟ کن اسباب و عوامل سے متاثر ہیں؟ کس طرح ان دونوں کے سیاسی افکار میں مؤثر ہوئے ہیں؟ اور یہ کہ ان دونوں طرزتفکر نے موجودہ زمانے کے تیزی سے بدلتے ہوئے عجیب و غریب تغیرات نیز اس کی ضرورتوں اور تقاضوںکے مقابلہ میں کیا عمل و ردعمل ظاہر کیا ہے اور ظاہر کررہے ہیں۔ اور ایک آخری اور بنیادی ہدف یہ تھا کہ شیعہ ا ور سنی دونوں فریق ایک دوسرے کی صاف و شفاف اورحقیقی صورت کو بہتر طور پرپہچان لیں، ایک دوسرے کی فقہی اور کلامی حدبند یوں اور ضرورتوں کو نیز ایک دوسرے کے تاریخی تجربوں اور اعتقادی ڈھانچوں کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ ایک دوسرے کی توقعات اور امیدیں ان ہی اصول و معیار ات اور قابلیتوں کے مطابق ہوں۔
اس کے باوجود کہ بیان شدہ موضوعات و مباحث کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا تھا، اس کے زیور تحریر سے آراستہ ہونے میں تاخیر ہوئی۔
یہاںجسبات کی یاد دہانی ضروری ہے وہ یہ کہ اس کتاب کی چاروں فصلیں ان ہی تقریروں کے محور پر نظم و ترتیب دی گئی ہیں۔ اگر یہ کتاب مستقل طورپر ان تقریروں پر توجہ کئے بغیر مرتب کی جاتی تو اس کے ابواب قائم کرنے میں تبدیلی نظر آجاتی اور بہت سی بحثیں ایک مستقل باب کی شکل میں پیش کی جاتیں، لیکن بعض اسباب و عوامل کہ جن میں سب سے اہم وقت کی تنگی مباحث کی وسعت اور دور حاضر کے مختلف مسائل کی پیچیدگی ہے کہ جن کے تحت یہ کام نہیں ہو سکا۔یہ واقعات اسی طرح ،سبب بنے کہ حوالے زیادہ اور بعض وقت طولانی ہو جائیں اور اس بات کے لئے ضروری ہوگیا کہ ہم اپنے محترم قارئین سے معذرت چاہیں۔
آخر میں مَیں اپنے اوپر لازم جانتا ہوں کہ ادارۂ تحقیقاتی امام صادقـ کے سربراہ حضرت آیت اللہ جعفر سبحانی دام ظلہ کا شکر گذار ہوں، جنھوں نے اس کتاب کی نظم و ترتیب میں اپنے ادارے کے تمام وسائل خصوصاً اس (ادارہ) کے کتب خانہ کو میرے اختیار میں دے دیا تھااور میں نے پوری طرح اس سے استفادہ کیا، اسی طرح جناب بہاء الدین خرمشاہی زید توفیقاتہ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں، جنھوں نے اس کتاب کی نظر ثانی کی ذمہ داری قبول کی اور جناب مصطفےٰ تاج زادہ کا ممنون ہوںجنھوں نے ان تقریروں کے انعقاد کے اہتمام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
اسی طرح لازم ہے کہ جناب محمد باقری لنکرانی صاحب کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے ان تقریروں کے کیسٹوں کو زیور تحریر سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور یہ کتاب سب سے پہلے مرحلہ میں ان ہی کی زحمتوں، مشقتوں اور انتھک کوششوں کی مرہون منت ہے؛ اسی طرح جناب علی رضا بہشتی صاحب، جناب کیومرث امیری صاحب، جناب محمد باری دامت عزہم اور دوسرے بھا ئیوں کا بھی شکر یہ ادا کرتاہوں جن میں سے ہر ایک نے الگ الگ اس کتاب کے منظر عام تک پہونچنے میں لانے میں خاص اہتمام برتا ہے خدا ان سب کو ان کی زحمتوں کا اجر عطا کرے۔
محمد مسجد جامعی
موسم سرما۔۱۹۸۹ئ