حاکم کی بہ نسبت اہل سنت کا نظریہ
فی الحال حاکم کے متعلق اس مقام پر شیعوں کے نظریہ کو بیان کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اس لئے کہ قارئین اس موضوع سے بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حاکم کی نسبت اہل سنت کا نظریہ کیا ہے اور یہ کن عوامل اور اسباب سے متأثر ہیں اور عمل میں اس کے کیا آثار اور نتائج ظہور میں آئے اور ابھی بھی ظاہر ہورہے ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ پوری تاریخ میں اہل سنت کے درمیان بعض اصولی (بنیادی طورپر) نظریات کے موافق ہونے کے باوجود اس باب میں، یہ مسئلہ پوری طرح تمام گوشوں میں روشن نہیں ہے اس کا سبب بھی معلوم ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک دینی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حکام سے ہمیشہ بہت زیادہ ٹکراؤ پایا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہمیشہ صاحبان قدرت دین اور دینداروں سے اپنے کو قانونی اور امینیتی طورپر منوانے کے درپے رہا کرتے تھے اور ان پر دباؤ ڈالتے تھے تاکہ ان کو قانونی حیثیت دے دیں۔ یعنی دین اپنے آپ کو ایک ایسی شکل میں ڈھال لے جو ان (حکام) کی آرزؤں اور خواہشات کو بخوبی بروئے کار لانے پر قادر ہو۔ شاید ہی دین کا کوئی بھی دوسرا حصہ اس حدتک تمام پہلوؤں سے اس پر دباؤ ڈالا گیا ہو اور اس حدتک ان سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا ہو۔
اس مسئلہ کی تبعیت میں اس موضوع کے متعلق منابع اور مصادر بھی بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جو مختلف اور رنگ برنگ کے ہونے کے ساتھ ساتھ پراکندہ اور ایک دوسرے کے مخالف بھی ہیں۔ کنزل العمال، جو حقیقت میں اہل سنت کی احادیث کے سلسلہ میں منظم اور طبقہ بندی شدہ دائرة المعارف ہے، اس میں تقریبا چار سو احادیث تنہا کتاب الامارة، کے عنوان سے مذکور ہیں اور یہ احادیث اس مجموعہ کا تنہا ایک حصہ ہیں۔ اس لئے کہ ان کے علاوہ بہت سی احادیث موجود ہیں جو اس موضوع سے بلا واسطہ مستقلاً متعلق ہیں جنھیں اس کتاب میں نقل کیا گیا ہے اس باب کی احادیث کا یہ مختصر حصہ ہے اس لئے کہ اکثر احادیث اس بارے میں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے غیر مستقیم طورپر اس سے متعلق ہیں کہ اس کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔
ان احادیث کی سند اور رجال احادیث کے سلسلہ میں تحقیق کئے بغیر، البتہ اہل سنت کے اپنے معیار کے مطابق نہ کہ شیعوں کے معیار کے مطابق، موضوع بحث کو نظر میں رکھنے کے ساتھ ساتھاور ان کے درمیان تعارض و تنوع کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ بات بڑی ہی آسانی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ اس سلسلہ میں جعل و تحریف کا بازار خوب خوب گرم رہا ہے۔ اگرچہ بہت کم ایسے محدثین اور علما گذرے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اس بات کی اجازت دے دی ہو کہ وہ ان احادیث (نصوص) میں تنقید کریں، لیکن یہ مسلّم ہے کہ ابتدا میںیہی مطلب ذہن میں آتا ہے، البتہ سیاست کی دخالت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ امر فطری بھی محسوس ہوتا ہے۔
یہ کہ بہت کم لوگوں نے ان احادیث میں تنقید کی جرأت کی ہے یہ خود اپنے مقام پر حائز اہمیت ہے اس لئے کہ طول تاریخ میں اس موضوع سے متعلق مختلف مسائل مخصوصاً معتزلہ کی نہائی شکست اور اشاعرہ کی شہرت حاصل کرلینا اس قدر اجماع اور اتفاق کا حامل تھا کہ قاعدتاً ابتدائی منابع اور مصادر کے بارے میں صحت و سقم کی گفتگو ہی فضول تھی یہاں پر بحث یہ نہ تھی کہ یہ احادیث (نصوص) آیا علم رجال اور درایہ کے اصول وضوابط کے مطابق ہیں؟ یا اس کے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان احادیث کے متعلق کوئی دوسری تفسیر اور بیان کو اس لحاظ سے حاصل کرنے کی کوشش جو فقہا، متکلمین اور محدثین کے اجماعی اور متفق علیہ نظر یات کو باطل کرے وہ پہلے سے ہی محکوم تھی۔
اس دوران ایک دوسری مشکل تھی وہ اس شخص کے متہم ہونے کا ڈرتھا مخصوصا ان علما کی تہمت جو بلا واسطہ یا غیر بالواسطہ حکام کی حمایت کررہے تھے۔ ا س لئے کہ ان کے بارے میں معمولی جستجو جز کی حیثیت اور موقعیت کے تنزل اور ان کی حکام کی مشروعیت کو کم کرنے کے کچھ اور نہیں تھی۔ جو چیز عملی طور پر موجود تھی آخری نظریہ وہ تھا جس میں درحد امکان حکام وقت کی تائید اور اس کی تقویت میں نظر دی جائے اور چونکہ حالات بھی ایسے تھے، لہٰذا کوئی بھی نئی کوشش اس کی بیشتر تائید اور تقویت میں مفید واقع نہیںہوسکتی تھی اور عملی طور سے وہ ان کو کمزور بنانے میں ان کی معاون ہوسکتی تھی۔ جب یہ فکر ایک اصل اور قاعدہ کے عنوان سے قبول کر لی گئی تھی تو صرف قہر اور غلبہ کے زور پر اور اقتدار کے استقرار کے ذریعہ کسی پر مسلط ہوجانا اور شمشیر و خونریزی کے ذریعہ حکومت کو حاصل کرلینا مشروعیت لاتا ہے، لہٰذا اس کی اطاعت واجب ہے اور اس کے خلاف اعتراض اور قیام کرنا منع اور حرام ہے، اس صورت میں اس کی اس سے زیادہ تائید اور تقویت کا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچتا جس سے تمسک کرتے ہوئے دوبارہ احادیث میں جمع و تاویل اور جرح و تعدیل کا راستہ اختیار کریں، جب حالات ایسے تھے تو ایسی صورت میں فطری طورپر نہ تو نظام حکومت اس قسم کی بحث اور چھان بین کو پسند کرتے تھے اور نہ ہی ان سے ساز باز رکھنے والے علما چھان بین کو پسند کرتے تھے۔ یہ دو عوامل اور دوسرے اسباب اس بات کے باعث ہوئے کہ بحث ایسے ہی مجمل اور بغیر تنقید کے رہ جائے۔
موجودہ صدی کی تیسری دہائی کے نصف میں خلافت عثمانی کے ساقط ہوتے ہی جس اہم شخص نے ایک دوسرے انداز میں اس مسئلہ کی تفسیر و تحلیل کی، وہ الاسلام و اصول الحکم، نامی کتاب کے مؤلف علی عبد الرزاق ہیں جنھوں نے ایسے وقت میں دنیائے اسلام مخصوصاً دنیائے عرب میں ایک عظیم ہنگامہ کھڑا کردیا۔ انھوں نے بطور مستقیم خلافت کی بحث اور اس کی دینی و تاریخی حیثیت اور اس کے وجوب شرعی یا عدم وجوب شرعی کے موضوع کو چھیڑا اور یہ دور ایسا تھا جس میں خلافت عثمانی کے سقوط نے، بڑی شدت سے تمام اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا، اس کو چھیڑ دیا اور امامت و حکومت کے مسئلہ کو عمومی طورپر اپنی بحث و نقد کا مرکز بنالیا۔
اس کتاب نے جو ہنگامہ کھڑا کیا وہ اس نکتہ کو بتا رہا تھا کہ اس موضوع کے متعلق اہل سنت کے عقائد ان مورد میں کس حدتک غیر قابل تنقید اور مناقشہ ہیں۔ واقعیت تو یہ ہے کہ یہ ہنگامہ اس سے زیادہ کہ (عبدالرزاق کے مخالفوں کے بقول) مؤلف کے دین اور اسلام مخالف رجحان کی نشاندہی کرتا ہے اور مثال کے طور پر یہ ان کے کفر و الحاد کی علامت ہے، اس سے کہیں زیادہ اس موضوع کے متعلق اہل سنت کی حساسیت کا موضوع وہ مباحث تھے جس پر انھوں نے تنقید و تحلیل و تجزیہ پیش کیا تھا۔ وگرنہ اسی دور میں ان کے علاوہ بہت سے دوسرے بھی مصنفین تھے جولوگ اسلام کے اصولی مسائل میں بھی خدشہ اور شک و تردید ظاہر کیا کرتے تھے۔ لیکن اس میں سے کسی کو بھی اس شدت سے چہار جانب مخالفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اس کتاب کے سلسلہ میں یہ کہا گیا: ''جب سے ہمارے ملکوں میں کتابوں کے چھاپنے کی صنعت کا رواج ہوا ہے، اس وقت سے آج تک کوئی کتاب بھی ایسی نہیں چھاپی گئی ہے جو عبدالرزق کی کتاب کی طرح کسی اور کتاب نے اس حدتک شورشرابہ، شر و فساد اور ہنگامہ کھڑا کیا ہو۔''
حکومت اور حاکم
بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک نکتہ کی طرف یاد دہانی ضروری ہے کہ اہل سنت کے نزدیک حکومت سے مراد اسلامی اور دینی حکومت ہے، جس کی خصوصیات ایک مسئلہ ہے اور حاکم اور اس میں پائی جانے والی شرائط اور صفات ایک دوسرا جدا گانہ مسئلہ ہے۔ یہ دونوں باہم باطنی ارتباط رکھنے کے باوجود عملی طور سے دو متفاوت چیزیں ہیں اور دو مختلف عوامل کے تحت متأثر ہوئے ہیں۔
حکومت کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ عموماً قرآن اور سنت رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
نیز بعض مواقع پر صحابہ کی میراث سے متأثر ہے۔ لیکن حاکم کی بہ نسبت مسئلہ ان کا نظریہ صدر اسلام سے عباسیوں کے دور اقتدار کی ابتدا کے سیاسی اور تاریخی حالات سے متأثر ہے۔ یا واضح تر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے متعلق ان (اہل سنت) کا تصور اور فہم اسلام کے نظری معیار سے متأثر ہے اور حاکم کی حیثیت سے اس کا تصور تاریخی حقائق سے متأثر ہے۔ اگر یہ تعبیر حکومت اور اس کی خصوصیات کے سلسلہ میں مناسب ہو تو پھر آرزوؤں کے طالب اور اسوہ و نمونہ کے فکرمند حاکم کے متعلق واقعیت پسند اور واقع بین ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں ان دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں پایا جاتا (بالکل شیعوں کے نظریہ کے بر خلاف) یہ دونوں دو مختلف چیزیں ہیں اور ان دونوں کو مختلف ہی دیکھا جانا چاہئے۔
اب یہ معلوم کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ اسلام ایک وسیع اور جامع دین ہے۔ جو دین ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ہے عبادت بھی ہے اور قانون و سیاست بھی۔ یہ خصوصیات ایک دین ہونے کے عنوان سے خود اسلام کی طرف پلٹتی ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے دوسرے ادیان کے ماننے والوںکی طرح اس پر اسلام کے تمام عقائد پر ایمان رکھنا واجب ہے اور چونکہ حقیقت ایسی ہی ہے لہٰذا اسلام کے غیر عبادی حصہ سے بھی چشم پوشی کرنا ناممکن ہے۔ وہ شخص مسلمان ہی باقی نہیں رہ سکتا و حالانکہ اس نے ان حصوں کو فراموشی کے حوالہ کردیا ہے۔ اگر وہ ان پر عمل نہ کرنا چاہے یا ان پر عمل نہ کرسکے اس کا معتقد اور ملتزم نہ رہے ۔ اس لئے کہ ان عقائد پر ایمان نہ رکھنا اس کے عقائد کی صحت کے لازمہ کے بر خلاف ہے۔
لیکن یہ مسئلہ کا صرف ایک پہلو ہے اور نظریہ پردازی سے متعلق مسائل ہیں لیکن یہی مسائل عملی طور پر ایک دوسری شکل اختیار کرلیتے ہیں، جیساکہ ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام دین بھی ہے اور ایک حکومت بھی، قرآن اور سنت نبوی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس حکومت کو کس حاکم کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور اس مسئلہ میں قرآن و سنت کا اس بارے میں نظریہ کیا ہے کیا ان دونوں نے جسے بیان کیا ہے ویسا ہی وجود میں بھی آیا ہے یا مسئلہ دوسری طرح پیش آگیا، جو تغیرات وجود میں آئے وہ کیا تھے اور کیوں وجود میں آگئے اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟
یہی ان حساس ترین نقاط میں سے ایک ہے جس کے ذریعہ سیاست و امامت اور حکومت کے متعلق شیعوں اور سنیوں کے نظریات میں شدید اختلاف ہے۔ دنیائے اسلام کے متعلق ان دونوں کا فہم دینی اعتبار سے اسلامی دنیا میں کوئی فرق نہیں رکھتا ہے اس لئے یہ دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ دنیائے اسلام کے قوانین اسلام ہی کے قوانین کا ایک حصہ ہے اور اس پر ایمان رکھنا اور اس پر پابندی بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں گروہ یکساں طورپر حکومت اسلامی کی ضرورت کے قائل ہیں۔ لیکن اس کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے، یہاں تک کہ اس کے فروعات میں بھی بہت زیادہ فرق کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ ان کا اساسی فرق اور اختلاف صرف حاکم سے متعلق ہے۔ حکومت کے متعلق دونوں ایک جیسے نظریات کے حامل ہیں۔ اہل سنت کے نظریہ کے مطابق حاکم عملاً نظری اعتقاد کے لحاظ سے حکومت سے جدا اور ایک الگ مفہوم ہے اور جو چیز اس سے متعلق ہے حالانکہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ ایک دوسرے سے متصل ہیں۔
اس نکتہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم امامت و وصایت کے متعلق ان دونوں کے نظریات کو بیان کریں۔ اس مقام پر مسئلہ یہ نہیںہے کہ رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا وصی کون ہے؟ مسئلہ کا آغاز یہاں سے شروع نہیں ہوتا۔ شیعوں کے نزدیک بنیادی طورپر مسئلہ، امام اور وصی کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ امامت و وصایت ہے۔ کسی شخص کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے مقام اور مرتبہ کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ امامت و وصایت کا مرتبہ کیا ہے اور اس کی منزلت کیا ہے اور اس کے مطابق کون امام یا وصی بن سکتا ہے۔ ان کی نظر میں امام اور خلیفہ وہ ہے جس میں اس منصب کو سنبھالنے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ پہلے شان و منزلت کی تعریف اور اس کی حدبندی کی جاتی ہے اور پھر اس مقام کے حائز شخص کو معین کیا جاتا ہے۔
یہ نکتہ زیادہ وضاحت طلب ہے اور اگرچہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ہماری بحث کو ایک حدتک موضوع سے منحرف کردے؛ لیکن اس چیز کے واضح ہونے کے لئے کہ بہتر سمجھنے میں یہ بحث خاصی اہمیت کی حامل ہے، مجبوراً ہم پر لازم ہے کہ اس بارے میں مزید گفتگو کریں۔
شیعوں کا موقف
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد خلافت و وصایت کے متعلق شیعوں کا نظریہ اور ان کا موقف تنہا یہ نہیں ہے کہ رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے بعد امام علیـ کو اپنا جانشین مقرر فرمادیا ہے اور بار بار اس موضوع کی تاکید فرمائی ہے۔ بلکہ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ بنیادی طورپر اس موضوع کے متعلق ان کا درک وسیع و عمیق اور اس کی کچھ اہم خصوصیات ہیں۔ یا ایک دوسرے بیان کے مطابق ایک فرد اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا جانشین کون ہے؟ مسئلہ اس میں منحصر نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی جانشینی کا مفہوم کیا ہے؟ اور اس کے جوانب اور خصوصیات کیا ہیں؟ اور ان خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کون اس منصب کو سنبھال سکتا ہے اور کس کو یہ منصب سنبھالنا چاہیئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شیعہ حضرات آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خلافت و وصایت کے سلسلہ میں مختلف عقلی و نقلی دلائل کی رو سے ایک خاص مقام و منزلت کے قائل ہیں اور انھیں اس بات کا اعتقاد ہے کہ خلافت و وصایت اپنے اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے سیاسی رہبری کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بلند و بالا درجات کی حامل، حساس تر اور سرنوشت ساز ہے۔ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے دور میں مسلمانوں کے سیاسی رہبر (اس کے رائج مفہوم و معنی میں) نہیں تھے کہ صرف اپنے ہاتھ میں اقتدار لئے رہتے نتیجةً یہی کیفیت ان کے جانشین کی ہے کہ مقام رہبری میں وہ ایک معمولی سیاسی رہبر کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ ایک عام انسان آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا جانشین نہیں ہوسکتا جو صرف عوام کی سیاسی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لئے رہے۔ اور یہ خود پہلے درجہ پر ان خصوصیات کا ہونا اسلام کی انفردی شان ہے۔
جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ اسلام دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حکومت بھی ہے۔ ایمان بھی ہے اور سیاست و حکومت بھی یہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ اور بہم متصل ہیں اور ان میں جدائی نا ممکن ہے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
مدینہ کے حاکم اور زمام دار ہونے کے عنوان سے اس بات پر مصر تھے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی سیرت اور مدینہ میں زمام داری کا طریقہ خود اس بات پر بہترین دلیل ہے۔ اس سماج کی قرآنی تعلیمات اور اس کے احکام کے مطابق رہبری کرنی چاہیئے۔ یہاں پر سماج کو اسلام کے دستورات کے مطابق ادارہ کرنا مقصود تھا نہ کہ تنہا لوگوں کا انتظام سنبھال لینا۔ بلکہ اصلی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی زندگی عدل کے مطابق ادارہ ہو اور ان کی زندگی کے تمام گوشوں، فردیاور مختلف معاشرتی گوشوں میں اسلامی قوانین کو حاکمیت حاصل رہے۔ اور یہ امر اسی وقت پورا ہوسکتا تھا جب اس سماج کا رہبر اپنے اندر اخلاقی اور معنوی لیاقت کو علم و بصیرت باہم ملائے ہوئے ہو اور پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ایسی ہی خصوصیات کے اتم اور اکمل مصداق تھے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کون ایسی رہبری کو سنبھال سکتا ہے اور کون ایسا شخص ہے جسے ایسے راہبر کا جانشین ہونا چاہیئے جو سماج کو بھی چلائے اور لوگوں کی زندگی کے تمام فردی اور معاشرتی پہلوؤں میں اسلامی قوانین کو جاری کرسکے۔ زیادہ واضح عبارت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اتنی صلاحیت پائی جاتی ہو کہ وہ اسلامی قوانین میں سے کسی بھی قانون کے سلسلہ میں معمولی خطا کے بغیر سماج کی رہبری کرے۔ کیا وہ شخص جو تنہا سماج کے سیاسی امور کو ادارہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ مطلوبہ شرائط کا مالک ہوسکتا ہے؟ اور کیا اس منصب ( وصایت اور ولایت) کے لئے کم سے کم شرائط کا حامل ہے؟
اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو لوگوں کی رہبری کے سلسلہ میں ایک سیاسی رہبر کے مقابلہ میں برتری حاصل تھی تو اس بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے جانشین کو بھی ایک سیاسی رہبر کے مقابلہ میں مخصوص صلاحیتوں اور فضیلتوں کا مالک ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم اس بات کو قبول کرلیں کہ ہر دور میں نہ تنہا یہ کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دور میں سماج کو قرآنی اور اسلامی قوانین کے مطابق چلانا ایک فریضہ ہے تو اس بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے جانشین اور حرضی کو بھی اپنے فریضہ کی انجام دہی کے لئے علمی قدرت اور لازم دینی بصیرت کے ایسی خصوصیات سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے۔ آخرکار اگر ہم نے یہ قبول کرلیا کہ ایک اسلامی سماج کا رہبر جو احکام اسلامی اور اس کے اقدار کو محقق کرنے کی فکر میں ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس میں روحی اور معنوی امتیازات اور خاص تقویٰ پایا جاتا ہو اور خود ایسے فضائل کا مالک ہو جسے سماج میں رواج دینا چاہتا ہے اور مسلماً یہ قاعدہ اس شخص کے بارے میں جو آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد قدرت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے بدرجۂ اولی اس میں ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
اسی وجہ سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خلافت و وصایت یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اصل امامت شیعوں کے نزدیک ایک خاص فضیلت اور مرتبہ کی حامل ہے۔ اس سے پہلے کہ مسئلہ، جانشین کے سلسلہ میں اٹھے اور یہ کہ وہ کون شخص ہے، اصل مسئلہ مفہوم جانشینی کے مختلف گوشوں کا ہے اور یہ کہ کون شخص ایسے منصب کا عہدہ دار اور ان صلاحیتوں کا حامل ہوسکتا ہے اور کون فرد اس عہدہ کو سنبھا لے۔
یہ صحیح ہے کہ حضرت امیر المومنین علیـ کی بلا فصل خلافت کے سلسلہ میں شیعوں کا عقیدہ پہلے مرحلہ میں حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی جانب سے آپ کی جانشینی کی سفارشیں اور مکرر و صریح تاکیدیں تھیں لیکن اس مقام پر اس نکتہ کو اضافہ کرنا ہوگا کہ امیر المومنین حضرت علیـ اس وجہ سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بلافصل خلیفہ تھے کہ وہ ان خصوصیات کے مالک تھے کہ جو ایسے منصب کے لئے ضروری ہیں اور ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میںسب سے زیادہ منصب خلافت کے لئے شائستہ اور اس کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ شیعوں کے اعتقاد کے مطابق وہ سبب جو اس بات کا باعث بنا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
امام علیـ کو بلافصل خلیفہ متعین کردیں، ان میں وہ منحصر بہ فرد خصوصیات موجود تھیں جو کسی دوسرے شخص میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ یہی خصوصیات باعث ہوئیںجس کی وجہ سے آپ دوسرے شخص کے مقابلہ میں اس منصب کے لئے زیادہ شائستہ ہوں۔ آپ کا یہ امتیاز شائستگی اور کفایت جو آپ کو اس منصب کے لئے شائستہ بنارہی تھی۔ خود آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا آپ کو انتخاب کرکے آپ کے بارے میں سفارش کرنا اس مدعا کی عملی تائید تھی۔
خلاصہ یہ کہ شیعوں کے نزدیک امامت و خلافت کے مسئلہ میں بحث، کسی فرد کے سلسلہ میں ہونے سے پہلے اس کی منزلت اور فضیلت کے سلسلہ میں ہے۔ سب سے پہلے مقام و منزلت کی تعریف اور حدبندی کی جائے اس کے بعد صاحب مقام و منزلت کو منتخب کیا جائے۔ امام وہ ہے جس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہوں جو منصب امامت کے احراز کے لئے ضروری ہیں اور ایسا ہر گز نہیں ہے کہ امامت و خلافت کی کوئی زاتی شان اور حیثیت ہو جس کے خلفا اور ائمہ حامل رہے ہیں، وہ حاصل ہو جائیں۔
لیکن اہل سنت کے نظریہ کے مطابق مسئلہ بالکل برعکس ہے۔ ان کے وہاں اس شان کا حامل پہلے معین کیا جاتا ہے پھر اس کی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی شان اورحیثیت تعریف اور اس کی حدبندی کی جاتی ہے۔ وہ پہلے وصی اور خلیفہ کو معین کرتے ہیں اور اس کے بعد خلافت اور وصایت کی تعریف کرتے ہیں۔ حاکم کے متعلق ان لوگوںکا نظریہ اسی اصل کے زیراثر ہے۔ جو کچھ واقع ہوجاتا ہے اسے قبول کرلیا جاتا ہے اور پھر حاکم کے اختیارات اور اس کی خصوصیات، حالات کی تعریف اور اس کی حدبندی کی جاتی ہے۔
اب تک جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے بطور اختصار یہ کہا جاسکتا ہے: اہل سنت اور شیعوں کے نظریات سیاست اور حکومت سے متعلق اور کلی طورپر اسلام کے غیر عبادی قوانین چونکہ ایک ہی منابع اور مصادر کی طرف پلٹتے ہیں، لہٰذا ایک حد تک یہ دونوں ایک جیسے ہی ہیں اور اگر ان دونوں میں کوئی اختلاف بھی ہے تو وہ صرف فروع میںہے اور اصول میں کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ بھی ان کی سنت کی تحقیق اور چھان بین کے سلسلہ میں تنقید کے معیار کی طرف پلٹتا ہے۔ اس لئے کہ سنت نبوی کو پہچاننے میں ان دونوں کے معیار مختلف ہیں۔ حاکم کے حالات اور خصوصیات کے متعلق ان دونوں کے نظریات میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں اہل سنت کا نظریہ ان حکام کو قانونی حیثیت دینے کی وجہ سے وجود میں آیا تھا جو صدر اسلام (ابتدائی صدیوں) میں حکومت کو اپنے اختیار میں لئے ہوئے تھے۔ اسی کو قانونی مان لینے کے سبب اس باب میں ان کے کلامی اور فقہی مباحث وجود میں آئے اور انھیں ترقی ملی لیکن شیعوں نے بنیادی طورپر اس مسئلہ کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھا ہے۔ حاکم کے متعلق ان لوگوں کے نظریات اصل حاکمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وجود میں آئے۔ حاکمیت جس طرح آنحضرصلىاللهعليهوآلهوسلم
ت کے ہاتھوں میں تھی اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جانشینوں کے ہاتھ میں پہنچی یا جس طرح ان تک پہنچنا چاہئے تھا۔ ان لوگوں کی نظر میں حاکمیت نبوت و رسالت کا ایک جزو ہے اور چونکہ امامت و وصایت بھی اسی طرح نبوت کا ایک سلسلہ اور اس کی بقاکا نام ہے اور اس کا مر تبہ اسی کے جیسا ہے، لہٰذا یہاں بھی وہی حاکمیت سرایت کرے گی (یہاں پر ادامہ کو استمرار سے تعبیر کیا گیا ہے، جو اصل خاتمیت کے منافی نہیں ہے جو اسلام کے ارکان میں سے ایک ہے) درست یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے ان لوگوں کی فکر حاکمیت کے باب میں ان کے حالات و خصوصیات اور اس کے اختیارات وجود میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا اس زاویہ کے مطابق اسلام کی ابتداء میں جو کچھ ہوا وہ سب قانونی حیثیت نہیں رکھتا تھا اور اس کو فطری طورپر حاکم کے شرائط اور خصوصیات کو قانون مند کرنے کے لئے معیار نہیں بنایا جاسکتا۔
یہاں پر مناسب ہے کہ خوارج کا بھی ذکر کیا جائے۔ ان لوگوں نے نفسیاتی، معاشرتی اور قبیلہ جاتی اسباب کی بنیاد پر اہل سنت کے برخلاف پہلے موجودہ حالات کی بالکل اس کی نفی کردی اور پھر حاکم اور اس کے شرائط کے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا۔ شیعوں کی طرف سے موجودہ حالات کی نفی کرنا خاص قسم کے نظریاتی دلائل کی بنا پر ہے اور خوارج کے نظریات موجودہ حالت کی نفی کے ذریعہ ہی وجود میں آئے تھے۔
بہرحال ہماری بحث یہ تھی کہ حاکم کے متعلق اہل سنت کا نظریہ ان کے حکومت کے نظریہ کی بہ نسبت نہیں تھا۔ حکومت کے سلسلہ میں ان لوگوں کی فکر سماج کو اسلام کے قوانین کے مطابق ادارہ ہونا چاہئے یہ قرآن و سنت سے متأثر تھا حاکم اور اس کی خصوصیات کے متعلق ان کا نظریہ تاریخی حقائق سے متأثر تھا۔
دو نظریئے
دو طرح کے زاویۂ نگاہ کا آغازان دومسئلوں کی نسبت آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رحلت کے بعد والے ایام کی طرف پلٹتے ہیں۔ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وفات کے بعد کسی کو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سماج پر اسلامی احکام اور اس کے دینی موازین اور معیار ہی کومعاشرہ پر حاکم ہونا چاہئے۔ یعنی سماج کو کن قوانین کے تحت ادارہ کرنا چاہئے یہ مسئلہ بالکل واضح اور متفق علیہ تھا لیکن اس حاکم کے بارے میں جسے خلافت کے لئے انتخاب ہونا چاہئے، مسئلہ بہت واضح نہیں تھا۔ جو چیز اہمیت کی حامل تھی اور عملی طور پر موجود تھی وہ یہ کہ سماج کو منظم اور ادارہ ہوناچاہئے اورایک فرد کو اس منصب کے لئے منتخب ہونا چاہئے تھا۔ جب ابوبکر کو لوگوں نے خلیفہ بنادیا، عموماً لوگوں نے اس کی بیعت کرلی۔ اس کی بیعت خاص ان اوصاف کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی یا ایسی خصوصیات کی بناپر نہیں ہوئی تھی جس کے لئے وہ لوگ اپنے حاکم کے لئے قائل تھے۔ ان لوگوںکی نظر میں یہ مسئلہ کہیں زیادہ عملی اور اسے فوراً انجام پانا تھا، بلکہ ان۔ غور و خوض اور تنقیدوں سے بھی یہ مسئلہ زیادہ سادہ تھا۔ کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کرلی اور بقیہ دوسرے لوگوں نے بھی وقت ضائع کئے بغیر ان لوگوں کا اتباع کرلیا۔
ابوبکر کی حاکمیت اور خلافت ایک تاریخی حقیقت کے طورپر قبول کرلی گئی۔ اس زمانہ میں ابوبکر کے علاوہ اگر کسی دوسرے شخص کی بھی بیعت کرلی گئی ہوتی تو اس کی بھی خلافت اور حاکمیت کو قبول کرلی گئی ہوتی۔ جس چیز نے خلیفہ اول کی خلافت کو مستقر اور پائدار بنا دیا، وہ یہ تھی کہ کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کرلی اور بقیہ لوگوں نے یہ کہہ کر بیعت کرلی کہ ہم بھی انھیں کے تابع ہیں۔ اس مقام پر قابل غور بات تو یہ ہے جب اہل مدینہ نے حضرت زہرا٭ کی لگاتار دعوتوں کے جواب میں ان لوگوں سے یہ چاہ رہی تھیں کہ وہ لوگ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وصیت کو فراموش نہ کریں اور حق کو اس کے راستہ سے منحرف نہ کریں تو وہ لوگ کہہ رہے تھے: ''آپ کو اس سے پہلے اقدام کرنا چاہئے تھا۔ اب تو ہم نے بیعت کر لی ہے اور مسئلہ تمام ہوچکا ہے۔ اور اگر آپ اس سے پہلے آتیں تو ہم ضرور علی کے ہاتھوں پر بیعت کرلیتے۔''
اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کا آخری انجام کیا ہوا، پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا ایک حاکم اور زمام دار کے عنوان سے ان کا اپنا مقام خود تھا اور یہ خاص مقام بعنوان شارع، سیاستمدار اور ایک سیاسی رہبر کے عنوان سے بھی شرعی مقبولیت کے ساتھ تمام لوگوں کے نزدیک قابل قبول تھا۔ آپ کے بعد قدرت ابوبکر کے ہاتھ میں آگئی اس زمانہ کے لوگ اس کے لئے چاہے اس کے قبل ہو یا بعد خاص دینی مقام کے قائل نہ تھے۔ ان لوگوںکی نظرمیں وہ بھی دوسرے مہاجرین و انصار کی طرح ایک فرد تھا۔ لیکن اہمیت کا حامل یہ تھا کہ اس کی بیعت آنے والے ادوار میں ایک فکر کی پیش خیمہ بنی جو بعد میں حاکم اور اس کے شرائط کے متعلق اہل سنت کی اصلی فکر میں تبدیل ہوگئی۔ اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت ہے۔
جن لوگوں نے سب سے پہلے ابوبکر کی بیعت کی، ان کی تعداد بہت کم اور انگشت شمار تھی۔ ان لوگوں کی بیعت دوسروں کی بیعت کا اصلی مقصد بن گئی۔ یعنی بعد میں بیعت کرنے والوں نے کہا کہ چونکہ ان لوگوں نے اس کی بیعت کرلی ہے لہٰذا ہم بھی اس کی بیعت کریں گے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم واقعیت کے سامنے سرتسلیم خم ہیں۔ ان کا تسلیم ہوجانا یعنی اس کو قانونی حیثیت دے دینا۔ اس لحاظ سے اس کو قانونی حیثیت سے تسلیم کرلینا ایک حقیقت بن گیا تھا۔
اگرچہ خلیفہ اول و دوم کے سلسلہ میں یہ واقعیت اس حد تک محسوس نہیں تھی لیکن ان دونوں موارد میں بھی حقیقت اس طرح تھی۔ ابوبکر نے عمر کو معین کیا یعنی اس کی خلافت اور جانشینی کو قانونی حیثیت دے دی اور لوگوں نے بھی (اس مسئلہ میں) اس کا اتباع کیا۔ عثمان کو عبد الرحمن نے چھہ نفرہ کمیٹی کی نیابت میں قانونی حیثیت دے دی، لوگوں نے بھی اسے قبول کرلیا۔ لیکن حضرت علیـ کے خلیفہ بننے کا واقعہ ایک دوسری منطق کی بنیاد پر استوار تھا۔ آپ کو لوگوں نے وسیع پیمانہ پر اپنے بے حد اصرار کے ذریعہ اپنا خلیفہ بنالیا تھا۔
اس مسئلہ میں جو نکتہ اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ حاکم کی حکومت کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کردینے کی فکر کے سبب جو اس کی حکومت کی ایک واقعیت ہے لہٰذا خلفائے راشدین کے دور میں اس فکر کا نطفہ وجود میں آیا۔ اگرچہ اس تفکر کا نطفہ بعد میں خاص طور سے بنی امیہ کے برسرکار آنے کے وقت بارآور ہوگیا اور عملی طور خلفائے راشدین کے دور میں اس نے کہیں زیادہ متفاوت اور مختلف مفاہیم اور مطالب پالئے اور ان کے زمانہ سے جو کچھ ہوتا تھا اسے عملی شکل دے دی گئی اور اسی دور کو دینی اور قدسی احترام مل گیا۔ اس تفکر میں بھی سرایت کرگیا بلکہ اس کی کم و بیش متفق علیہ مشروعیت نے اس کی شایان شان مدد کی۔
جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ اس تفکر کا تانا بانا بنی امیہ کے دور میں بُنا گیا اور اس کو ترقی ملی اور اس مسئلہ میں دوسرے مسائل کی مانند معاویہ کا بہت ہی کلیدی اور بنیادی کردار تھا۔ جب اقتدار اس کے ہاتھوں میں آیا تو اس نے خلافت کو اپنے خاندان کی میراث بنانے کے لئے بہت کوشش صرف کردی۔ ایک ایسا سلسلہ جو اس زمانہ تک بے سابقہ تھا۔ تمام اہمیت کی حامل مخالفتوں کے باوجود آخرکار وہی کامیاب ہو ا اور خلافت ان کی موروثی بن گئی۔ اب اس کے بعد خلیفہ کی تعیین ایک خاص سوچے سمجھے انداز سے ہونے لگی اور اس میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں رہا اور اسے مسلمانوں کے مقابلہ میں استقلال مل گیا۔ مسئلہ یہ نہیں تھاکہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں یا حاکم سے متعلق دینی ضوابط و قوانین کیا ہیں تاکہ ان (قوانین) کے مطابق خلیفہ اور حاکم کو معین کیا جائے۔ اس دور میں پہلے والا خلیفہ اپنے بعد والے خلیفہ کوجو بیٹا اور بھائی ہوا کرتا تھا اسی کو خلیفہ بنادیا کرتا تھا۔ واقعیت یہی تھی اور اسے بدل دینا بھی نہایت مشکل امر تھا اس دور کے بہت سے لوگوں کی نظر کے مطابق یہ کام ناممکن تھا۔ وہ لوگ بھی جو اس کو امر ممکن لیکن مشکل جانتے تھے وہ خوداسے پسند نہیں کرتے تھے، اس کی طرف رغبت نہیں رکھتے تھے کیونکہ بہت زیادہ مشقت، ایثار اور فداکاری کا موجب تھا۔
اس طرح یہ واقعیت عقیدہ، ارمان اور قانون و ضابطہ کے مقابلہ میں کامیاب ہوگئی۔ اس لئے کہ پہلے ہی سے بنا حقیقت کو قبول کرلینے پر ہی تھی۔ اگرچہ وہ واقعیت جسے بعد میں قانونی مان لیا گیا اس سے بالکل جدا تھی اس حقیقت سے جو ابتدا میں قبول کرلی گئی تھی۔ خلفائے راشدین کے دور میں حاکم کے جو شرائط اور حدود و اختیارات تھے، بعد میں یہ شرائط بدل گئے اور آخرکار نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم کو صرف اس اعتبار سے کہ قدرت اس کے ہاتھ میں ہے مشروعیت بخشتا تھا اور واجب الاطاعت یہاں تک کہ اگر معمولی اور کم سے کم لازمی شرائط کا مالک بھی نہ ہو یا قہر و غلبہ کے زور پر حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہو اور یا ظلم و ستم کرے اور وہ حدود شریعت کو بھی پامال کردے اور فاسق ہوجائے۔
جیسا کہ معروف قاضی اور فقیہ ابن جماعة کہتے ہیں: ''تیسرا راستہ جس کے ذریعہ جبری بیعت منعقد ہوجاتی ہے وہ کسی فرد کی قدرت اور شان و شوکت اور قہر و غلبہ سے تعبیر کی جاتی ہے اگر کسی زمانہ میں باصلاحیت اورشرائط کا حامل امام نہ ہو اور اس کی عدم موجودگی میں ایسا باصلاحیت شخص ہو جو اس منصب کو سنبھال لے اور فوجی طاقت کی بنیاد پر بغیر اس کے کہ کوئی جامع الشرائط اس کی بیعت کرے وہ اگر اس عہدہ کا احراز کرلے، ایک قوی انسان اپنی نظامی قدرت اور طاقت کے ذریعہ بغیر بیعت کے یا اس کا جانشین ہوجائے جس کی بیعت صحیح تھی، اس کو اپنے ما تحت کرلے تو ایسی حالت میں اس کی اطاعت واجب ہو جائے گی... یہاں تک کہ مسلمانوں کے امور پھر سے ادارہ ہونے لگیں اور ان میں اتحاد پیدا کرلیں جہل و فسق اس کے اجرا کرنے سے مانع نہ ہوں گے۔'' اس کے بعد اضافہ کرتے ہیں: ''اگر امامت قہر و غلبہ کے ذریعہ کسی پر محقق ہوجائے اور پھر کوئی دوسرا شخص قیام کرے۔ اور پہلے والے شخص کو شکست دے دے تو اس صورت میں شخص اول معزول ہوجائے گا اور بعد والا شخص امام ہوجائے گا، جو کچھ ہم نے یہاں پر مسلمانوں کی وحدت اور ان کی مصلحت کے سلسلہ میں بیان کیا۔ یہ وہی اسباب ہیں جس میں واقعہ حرہ میں ابن عمر نے کہا:'' ہم اس کے ساتھ ہیں جو کامیاب ہوجائے''۔
فطری طورپر ان حالات میں حکام بھی خاموش نہیں بیٹھے اور ان کا بیکار بیٹھنا منطقی بھی نہیں تھا۔ یہ طرزفکر اس حاکم کی رضایت کی موجب تھی بلکہ اس کے لئے اسوہ (نمونہ) تھا وہ اس بات کی کوشش کررہا تھا کہ قرآن، روایات، فقہ، تاریخ، کلام اور فلسفہ کے ذریعہ اپنے عیوب پر پردہ ڈال دے۔ اور اس نے ایسے ہی کیا بھی اور چونکہ لوگوں کے روحیات اور ان کی، تاریخی اور ثقافتی قدمت اور اس دور کے معاشرتی اور سیاسی بدلاؤ سے ہماہنگ تھا لہٰذا فوراََ ہی شدت کے ساتھ اس میں جذب ہوگیا۔ اگر ہم یہاں پر اس موضوع کے سلسلہ میں بحث کریں اور اسی طرح احادیث کو جعل کرنے اور ان میں تحریف کا رواج کیسے پیدا ہوا اور اس کا انجام کیا ہوا تو اس بحث کے ذریعہ اصل موضوع سے خارج ہونے کا سبب ہوگا اس کو نظر انداز کرتے ہوئے تنہا دو نکات کے ذکر پر ہی اکتفا کریں گے۔
قضا اور قدر کا مسئلہ
اب یہ دیکھنا ہے کہ اس دور کے قدرتمندوں کے سامنے کون سی مشکل کھڑی تھی؟ ان لوگوں کا ہدف یہ تھا کہ وہ لوگوں کو حکام کی اطاعت کے لئے آمادہ کریں۔ صرف اس لئے کہ ان کی قدرت اور حکومت ایک حقیقت ہے، اس کے ماننے پر لوگوں کو مجبور کریں، امویوں کی تنہا یہی ایک آرزور تھی۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے یاد دہانی کرائی ہے وہ اس قدر مائل نہیں تھے کہ دینی اعتبار سے اپنے واسطے کسی مقام و منزلت کے قائل ہوں۔ نہ تو وہ اس کے محتاج ہی تھے اور نہ ہی اسے پسند ہی کرتے تھے اور اگر انھوں نے کبھی دینی فکر سے بھی فائدہ اٹھانا چاہا ہے، وہ بھی محض اپنی دنیاوی قدرت کو مستحکم بنانے کے لئے تھا نہ کہ اپنے کو مسلمانوں کے دینی خلیفہ کے سبب دینی حیثیت اور موقعیت کو مستحکم کرنے کے لئے تھا۔ جبکہ یہ عباسی خلفا کی سوچ بالکل بر خلاف تھا تاکہ وہ اپنے لئے دینی حیثیت فراہم کرلیں اور اس کے سایہ میں اپنے دنیوی اقتدار کو مزیدمستحکم کرلیں۔
کون سا ایسا سبب تھا جو ان کے اہداف کی تکمیل میں ان کا مددگار اور معاون ثابت ہو؟ اور لوگوں کو کسی قید وشرط کے بغیر اطاعت کے لئے مجبور کرے۔ روحی ونفسیاتی، ثقافتی اور تاریخی سابقے کو مد نظر رکھتے ہوئے قضا و قدر سے تمسک ہی ایک بہترین ذریعہ تھا۔ دوران جاہلیت کے عرب بے شک و تردید تقدیر اور قسمت کے متعلق راسخ اعتقاد کے مالک تھے۔ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ انسان کی زندگی اور قسمت اس کے ارادہ اور اختیار سے خارج ہے اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز پہلے ہی سے معین کئے جاچکے ہیں اور ان میں تبدیلی ایجاد کرنا انسانوں کے بس سے باہر ہے۔
یہ تفکر جس حد تک ان بدو اعراب میں پایا جاتا تھا، اسی حد تک قریش اور مکہ میںرہنے والوں کے درمیان بھی کاملاً رائج اور راسخ تھا۔ بنیادی طورپر ان کی بت پرستی ایسے ارتباط میں قابل درک اور اس کی تحلیل کی جاسکتی ہے۔ ان لوگوں کا متعدد خداؤں پر اعتقاد اور ان سے تقرب طلب کرنا نیز قربانی کرنا اس وجہ سے تھا کہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ صرف یہی بت ان کی زندگی میں اثر انداز ہیں۔ وہ لوگ زندگی کے تمام مراحل میں ولادت سے لیکر موت تک بیٹے یا بیٹی ہونے سے لیکر قحط سالی اور سوکھا میں مبتلا ہو جانے تک، تجارت اور اس کے منافع سے لیکر جنگ میں کامیابی اور شکست تک، خطرناک اور مہلک بیماریوں زمین گیری سے لیکر فقر و غربت مفلوک الحالی تک غرض کہ زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق مسائل میں وہ انھیں بتوں یا ارباب کو دخیل سمجھتے تھے اور اس دوران انسانوں کے کردار کو بے اہمیت سمجھتے تھے۔
قاعدتاً بت پرستی یا متعدد خداؤں کے رجحان اور مختلف آلہہ اور معبودوں پر اعتقاد انسان کی آزادی اور ذمہ داری کے متضاد ہے،ایک ایسی دنیا میں جہاں اس کے مقدرات کا ہر حصہ ایک نامرئی اور مستقل طاقت کے ہاتھ میں ہو، انسان کی آزادی کے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ ایک انسان اسی صورت میں آزاد رہ سکتا ہے جب وہ اپنی تقدیر کا خود بنانے والا (یا کم ازکم ایک حد تک) ہو، ورنہ اگر یہ مان لیا جائے کہ انسان کی تقدیر مستقل خداؤں کے ہاتھ میں ہے تو پھر آزادی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہے گا۔
بہر حال زمان جاہلیت میں جبر اور تقدیر کی طرف رجحان معاشرہ کی رائج فکر جاہلیت کے زمانہ کی فکر تھی جو اس لحاظ سے مسخ اور انسان کے باطن کی نابودی کے باعث تھے، وہ لوگ قرآن کے سخت حملات اور تنقید کا نشانہ بنے۔ ایسی تنقیدیں جن کے اہداف مختلف تھے۔ پہلا ہدف یہ تھا کہ ایسے منحرف اور غیر واقعی عقائد کاخاتمہ کردیا جائے۔ یہ جاہلی اور احمقانہ وہم و خیال تھا جو اس دنیاکو متعدد خداؤںاور مختلف ارباب کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ دوسرا ہدف یہ تھا ان کے وجدان، ضمیر اور فردی ذمہ دار ی کی حس کو ایسے انسانوں میں بیدار کرنا جو اپنے آپ کو مسلوب الاختیار اور مجبور سمجھتے تھے۔ اور اسی معیار کے تحت وہ کسی بھی پستی، ذلت اور انحراف و پلیدگی کے مقابلہ میں سرتسلیم خم کردیتے تھے اور اپنے باطنی دباؤ کے مقابلہ میں کہ فطری طورپر پستی اور پلیدی سے منھ موڑے ہوئے تھے اس بات کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان متعدد خداؤں سے تقرب کے ذریعہ اپنے زعم ناقص میں کامیاب ہوجائیں نہ کہ خود اپنی باطنی اصلاح کے ذریعہ۔ ان کے ذہنوں میں اس حالت کو بدلنے کی طرف کوئی توجہ بھی نہ تھی، جب ایک انسان کی سعادت اور شقاوت اس کے ہاتھ میں نہ ہو اور وہ اپنے اعمال کا مرہون منت بھی نہ ہو اور جوکچھ بھی ہے وہ متعدد آلہہ خداؤں اور بتوں کے ہاتھ میںہے، اس صورت میں یہ امر فطری ہے کہ کوئی فرد بھی اپنی سعادت اور خوش بختی کو حاصل کرنے کے لئے اپنی اس حالت کی اصلاح کی فکر بھی نہیں کرسکتا اور ان بتوں کے علاوہ کسی دوسرے سے توسل نہیں کرسکتا، ان کے کہنے کے مطابق اپنی شفاعت کرنے کے علاوہ کسی اور سے متوسل نہیں ہوگا۔ آخرکار یہ چاہتا تھا کہ اعتقادی اور معاشرتی بلندی و فکری سروری کی بنیادوں کو منتخب کرے اور اسی طرح سخت بے رحم اور مادی و پلید حاکم کو ختم کردے۔ اس دور کے جاہلی معاشرہ میں جو چیز حاکم کی سروری کو ایک خاص موقعیت عطا کرتی تھی نہ تو وہ قدرت شمشیر ہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتی تھی جس کے زور بازو پر جبری خرافات رائج تھے۔ اس دور کے حجازی سماج میں قومی تعصب اور اس میں تفرقہ اور مرکز واحدنہ ہونے کی وجہ سے انھیں مطیع بنانے میں تلوار کی طاقت کارساز نہیں تھی۔ اس دور کے ظالم اور فاسد حکام کی قدر و منزلت لوگوں کی جہالت اور ان کے تعصب سے وجود میں آئی تھی نہ کہ ان کی ناتوانی اور کمزوری۔ ٹھیک اسی وجہ سے وہ لوگ نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نسبت آپ کی زندگی کے آخری لمحات تک آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سخت کینہ توزی کرکے آپ کے سرسخت دشمنوں میں رہے اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے جب وہ لوگ خوف یا طمع کی بنیاد پر مسلمان ہوئے تو پھر بھی انتقام کے لئے موقع کی تلاش میں لگے رہے اور آخرکار ان لوگوں نے امویوں کے سایہ تلے اپنا انتقام لے ہی لیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ توحید پر ایمان لانا اور اس کو ماننا، جس معنی میں ادیان الٰہی خاص طور سے دین مبین اسلام میں وارد ہوا ہے، اگرچہ ایک فطری اور باطنی امر ہے، لیکن اسے سمجھنے کے لئے معمولی عقلی کمال کی ضرورت ہے۔ وہ انسان جس کے پاس اتنی عقل بھی نہ ہو وہ اتنی آسانی سے اس بات کو درک نہیں کرسکتا کہ اس دنیا میں سب کچھ خداکے ہاتھ میں ہے اور جن چیزوں کو انسان مؤثر اسباب میں سے شمار کرتا ہے، وہ سب کے سب خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، اسی خدا کی مخلوقات میں سے ہیں اسی مادی دنیا کے وسائل اور آلات ہیں اور اس کی طاقت میں ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا چاہئے کہ زمانۂ جاہلیت کے اعراب کمترین عقل اور معمولی فہم و درک سے بھی محروم تھے۔ ان لوگوں کی ثقافتی و تاریخی سابقہ اور معاشرتی ماحول ہر قسم کی تبدیلیوں سے دور تھا کہ وہ عقل و رشد کے درک کرنے کا سبب بنے۔
جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ وہ روشنی کے علت و معلوم کے مفہوم کو سمجھنے سے بھی قاصر اور معذور تھے۔ اگرچہ روشنی کے مفہوم کو اجمالی طور سے پہچانتے تھے۔ لیکن مختلف اسباب سے باہمی روابط کو کشف کرنے پر قادر نہ تھے۔ اسی وجہ سے ان لوگوں کے درمیان خرافات، کہانت اور تطیر (فال بد) اپنی ممکنہ حماقت کے ساتھ ان لوگوں کے درمیان رائج تھا۔ البتہ ہر قوم و ملت میں کچھ نہ کچھ خرافات پایا جاتا ہے، لیکن جو چیز ان جاہلیت کے عربوں کے درمیان رائج تھی وہ خرافات سے بھی آگے بڑھ گئی تھی۔ عموماً یہ سب کچھ خرافات پسندی اور اس سے لگاؤ ہی کا نتیجہ نہیں تھاجو روحی اور نفسیاتی ضروریات کے دبادینے یا ان پر فشار نہ دینے کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں۔ بلکہ یہ ان کی حماقت، سفاہت اور عقل کو خاموش کردینے سے وجود میں آتے تھے۔ یہاں پر مناسب ہے کہ ہم ''دور جاہلیت میں اعراب کی عقلانی زندگی'' کے سلسلہ میں احمد امین کی باریک اور دقیق توصیف کو نقل کردیں۔''
''دوران جاہلیت میں اعراب علت و معلول اور سبب و مسبب کے درمیان رابطہ کو بخوبی درک کرنے پر قادر نہیں تھے۔ اس زمانہ میں اگر کوئی انسان مریض ہوجاتا اور درد میں مبتلا ہوجاتا تو اس درد کو لاعلاج تصور کرتے۔ اگرچہ ایک طرح سے وہ مریض اور دواؤں کے درمیان ارتباط کو سمجھ لیا کرتے تھے۔ لیکن یہ باہمی ارتباط اور قانون مندی ان لوگوں کے لئے پوری طرح روشن نہیں تھا۔ بس انھیں صرف اسی حد تک سمجھتے تھے کہ اس کے قبیلہ والوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اس دوا کو فلاں درد میں استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی جان لینے پر قادر تھے۔ اسی وجہ سے ان لوگوں کے لئے یہ امر تعجب کا باعث نہ تھا جب ان کا عقیدہ یہ ہو کہ رئیس قبیلہ کا خون کتے کیلئے شفا ہے یا انسان کے مریض ہونے کی علت اس کے بدن میں خبیث روح کے حلول کر جانے کے سبب ہے، لہٰذا اس کے علاج کے لئے اس روح کواس کے بدن سے خارج کرنا چاہئے۔ یا یہ کہ اگر کسی کے دیوانگی میں مبتلا ہونے سے خائف ہوتے تو اسے قاذورات اور مردوں کی ہڈیوں سے آلودہ کردیتے اور دوسرے بہت سے خرافات کے نمونے ان کے درمیان رائج تھے یہ تمام خرافات اس وقت تک مورد قبول تھے جب تک اس قبیلہ کے لوگ انھیں انجام دیتے رہتے، اس وقت تک نہ تو ان کے بارے میں کوئی سوال کرتا اور نہ ہی کوئی انکار کرتا تھا۔ اس لئے کہ یہ نظر میں گہرائی اور اسباب و علل اور مرض میں جستجو کی قدرت کا پایا جانا وہ ہے کہ انسان کو ایسے اعمال کے ارتکاب کے لئے اکساتا ہے جبکہ زمانۂ جاہلیت کے اعراب اس وقت تک ترقی کے اس مرحلہ پر نہیں پہونچے تھے۔
یہی سببیت کے رابطہ کو درک نہ کرنے کی ناتوانی باعث ہوئی جس کی وجہ سے ان کے درمیان خرافات اور خیالاتی داستانوں کا دور دورہ اعراب کی جاہلیت کو بیان کرتا ہے تھا اور یہ کہ ادبی کتابیں ایسی داستانوں سے کیوں بھری پڑی ہیں... یہی وہ اسباب ہیں جن کے مدنظر یہ نکتہ سمجھ میں آتاہے کہ وہ گذشتہ وآئندہ حوادث کو سمجھنے کے لئے کہانت اور فال بد (تطیر) سے توضیح دیتے ہیں۔''
''یہ حقیقت ہے کہ ہر قوم اور سوسائٹی چاہے جتنی بھی متمدن اور ترقی یافتہ ہوں، اس سو سائٹی میں ایسے لوگ طبیعت کے حامل ہوتے ہیں جو خرافاتی مل جاتے ہیں، لیکن عربی ادب کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ یہ عقائد، اس زمانہ کے عام لوگوں کے عقائد تھے یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہ تھا بلکہ ہر قبیلہ ان پر ایمان رکھتا تھا اور نہ یہ کہ استثنائی طور پر مخصوص افراد بلکہ انہیںکے ایسے اس زمانہ کے تمام قبیلے اس کو قبول کرتے ہوئے اس کو قانونی اور آئینی حیثیت دیتے تھے اگرچہ اس بات کا امکان ضرور ہے کہ ان کی مثلوں یا جاہلی اشعار میں سے ایک شعر یا ان کے قصوں میں بلند افکار کی جھلک یا اسباب و مسببات کی نسبت سببیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہو اور اگر ایسے تفکرات کا وجود ہے بھی تو ان موارد میں بھی گہری فکروں یا تحلیلی شرح کو واضح اور روشن انداز میں تلاش نہیںکرسکتے ہیں۔''
اس کے بعد امین سیرہ ابن ہشام سے ایک داستان کو نقل کرتے ہیں: ''قبائل ثقیف میں سے ایک قبیلہ کے لوگ ستاروں کے ٹوٹنے (مراد شہاب آسمانی ہے) کو دیکھ کر خوفزدہ ہوئے اور اپنے ہی قبیلہ کے ایک فرد عمرو ابن امیہ جو بنی علاج سے تھا اس کے پاس گئے اور وہ عربوں کے درمیان ہوش و ذکاوت میں معروف بھی تھا، اس سے کہا: ''اے عمرو کیا نہیں دیکھا کہ آسمانوں میں ستاروں کے ٹوٹنے سے کیا اتفاق اور حادثہ پیش آیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور اس کے بعد یہ کہنے لگا: ''دیکھو اگر ٹوٹنے والے ستارے ان میں سے ہیں جن کی مدد سے خشکی اور دریاؤں میں راستے معلوم کئے جاتے ہیں، موسم سرما اور گرما کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور لوگوں کی معیشت ان سے وابستہ ہے، یہ آسمان سے ٹوٹ گئے ہیں، تو خدا کی قسم یہ اس دنیا کے تمام ہونے اور مخلوقات کی نابودی کی علامت ہے اور اگر ٹوٹنے والے ستارے یہ نہیں ہیں بلکہ وہ آسمان پر ثابت ہیں، تو یہ مخلوقات کی تقدیر کی علامت ہے جسے خداوندعالم نے خلائق کے لئے مقدر فرمایا ہے۔ اب تمہیںبتاؤ ٹوٹنے والے ستارے ان دونوں دستوں میں سے کون سے تھے؟''
عجیب بات تو یہ ہے کہ ابھی بھی ان عربوں کے درمیان ایسے عقائد پائے جاتے ہیں، البتہ وہ لوگ جنھوں نے قدیم وراثت کو ابھی تک بچائے رکھا ہے اور اس کے مطابق پلے بڑھے اور پروان چٹ ھے ہیں، ایسے لوگوں کے درمیان اب بھی ایسے مسائل پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ابھی بھی زندہ ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ سعودی عرب کے عظیم مفتی شیخ عبد العزیز بن باز نے ایک عرب کے بدن سے ایک شیطان کو خارج کیا اور پھر وہ شیطان ان کے ہاتھوں پر مسلمان ہوگیا!۔
اس مقام پر جو بات قابل توجہ اور غور طلب ہے وہ یہ کہ ایک ملک کی ایک عظیم مذہبی شخصیت بلکہ مکتب وہابیت کی پہلی شخصیت جس کا عقیدہ ہے کہ اس کا اسلام سلف صالح کے اسلام کے مانند خالص اور اصیل ہے شک و شبہہ خرافات اورجعلیات (جعلی چیزوں) سے دور ہے، وہ خود اس دور میں ایسے تفکرات کا مالک ہے۔ وہ خود ایک شیطان کو بھگانے کے لئے خود ایسا اقدام کرتاہے اور پھراس شیطان کو اسلام کی دعوت دیتا ہے اور وہ بھی اسلام قبول کرلیتا ہے۔ زیادہ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ سعودی عرب کے اخباروں نے خود اس واقعہ کو کسی تردید کے بغیر درج کردیا گویا وہ ان چیزوں کے متعلق ایسے عقائد کے حامل ہیں جن کے مقابلہ میں دوسروں کے طعنوں اور تمسخر سے نہیں ڈرتے ہیں۔
بہرحال زمانۂ جاہلیت کے اعراب کی صحیح اور ہمدردانہ درک کے لئے ان کی فکری اور ذہنی خصوصیات کا جاننا اس بحث اور بہت ساری پیش کی ہوئی بحثیں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ لہٰذا امین کی توصیفات کے طولانی ہونے کے باوجود بہتر ہے کہ اس کی کتاب کے دوسرے حصہ کو بھی یہاں پر نقل کریں۔
قدیم ایام میں اعراب کی خداشناسی
''اس دنیا کے متعلق ایک عرب کی نگاہیںایک یونانی باشندہ کی طرح کلی اور وسیع النظر نہیں ہوسکتیں ہیں۔ اس لئے کہ یونانی اپنی فلسفیانہ کوشش کے پہلے ہی مرحلہ میں اس جہان پر نظر دوڑاتا ہے اور پھر اپنے آپ سے سوال کرتا ہے، یہ دنیا کیسے وجود میں آئی ہے؟ میری نظر میں یہ دنیا تبدیلیوں اور انقلابات کا ایک مجموعہ ہے۔ کیا ان تغیرات اور تبدیلیوں کے پس پشت کوئی واحد اور ثابتحقیقت نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ پانی ہے یا ہوا ہے یا آتش؟ میرے احساسات کے مطابق یہ تمامی اجزاء ایک شے واحد کی طرح ایک دوسرے سے مرتبط اور معین اور ثابت قوانین کے تابع ہے۔ یہ نظام کیا ہے اور کیسے وجود میں آیا اور کس نے انھیں وجود بخشا ہے؟
یہ سوالات اور اسی قسم کے دوسرے بہت سارے سوالات ایک یونانی اپنے آپ سے کررہا تھا اور یہی اس کے فلسفہ کی بنیاد اور یہ سب اس کی عمومی اور کلی نظریہ کا نتیجہ تھا۔ لیکن ایک عرب نہ اسلام سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد دنیا کو اس فکر اور زاویۂ نگاہ سے نہیں دیکھ رہا تھا۔ جب بھی اس کی نظریں کسی خاص چیزوں کی طرف جذب ہوتیں تو اس کی طرف لپک کر بڑھتا اور اس کے وصف میں اپنے سینہ کو حکمت و شعر اور مثل سے مالامال کرلیتا اور اس کی توصیف میں اپنی زبان کھول دیتا یعنی اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوجاتا۔
اس کی نگاہیں وسیع النظر اور کامل نہیں تھیں۔ اس اسباب اور عوامل کے بارے میں تحلیل و تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔ اس سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ جب وہ کسی شے سے پیش آتا تھا تو کبھی بھی اس شے کی کلیت کے بارے میں غور و خوض نہ کرتا بلکہ جو پہلو اس کی نظروں کو اپنی طرف جذب کرلیتا اس کی طرف متوجہ ہوکر غور سے دیکھتا تھا۔ جیسے جب وہ کسی درخت کے سامنے کھڑا ہوجاتا، تو وہ اس کا مل و جود کے سلسلہ میں کبھی بھی غور و فکر نہ کرتا۔ بلکہ اس کے بعض اجزا اس کی نظر کو اپنی طرف جذب کرلیتے اس کے تنے اور اس کی شاخوں کے مانند کہ وہ ان کی خوبصورتیوں کی طرف متوجہ ہو جاتا اور اس کی توصیف میں اپنا سر دھننے لگتا۔ پورے باغ کو وہ اپنی نظروں میں نہیں سموپاتا تھا اور اس کا ذہن ایک دوربین کی تصویر کی طرح صورتوں کو محفوظ نہیں رکھ پاتا تھا۔ اس کی مثال شہد کی مکھی کے ایسی ہے جو ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف پرواز کرتی ہے اور تمام پھولوں سے اس کے رس کو چوس لیتی ہے۔ ایک عربی شخص کی ذہنی و عقلی خصوصیت یہی ہے جو نقائص کی توجیہ کرنے والی ہے اور عربی ادب کی خوبصورتی بھی ہے یہاں تک کہ اسلامی ادوار میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے۔
شہرستانی اسی مسئلہ کو ایک دوسرے انداز میں وضاحت کرتے ہیں: ''عرب میں حکما بہت کم تھے اور ان کی حکمت بھی اکثر دفعی اور ناگہانی فکریں اور خودجوش تھیں... عربوں اور ہندیوں کی فکری فعالیتیں تقریباً ایک جیسی رہی ہیں۔ ان کا مقصد اشیا کے خواص کو معلوم کرنا تھا۔ ان کے ا فکار میں غالباً فطرت و طبع کا غلبہ تھا۔ ایرانی اور رومی لوگ اپنی فکری فعالیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت نزدیک تھے۔'' ان کا ہدف اشیا کی کیفیت معلوم کرنا اور ان کے افکار میں وجہ غالب اکتساب اور سعی و تلاش کرنا رہا ہے۔''
امین مندرجہ بالا عبارت کو نقل کرنے کے بعد اضافہ کرتے ہیں: ''شہرستانی کی طرح بہت سے مستشرقین کا نظریہ یہ تھا کہ اس دنیا کے متعلق اعراب کا زاویۂ نگاہ وسیع اور سب پر شامل نہیں ہے اور اصولاً اس دنیا کے متعلق اس طرح غور و خوض بھی نہیں کرسکتے تھے۔
فطری طورپر جبر کے رجحان نے ایسے ماحول میں ترقی کی اور اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا۔ اسے وسعت بخشنے کے لئے کسی شخص کی تبلیغ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایسے حالات میں اصولاً کوئی فکر کامیاب نہیں ہوسکتی جز جبر کے رجحان کے افکار کو مزید آگے بڑھانے اور نفوذ کے لئے کسی اور کو ایسا موقع ملنے والا نہیں ہے۔ لوگوں کی طبیعت (ذہنیت) اور روحی اور نفسیاتی عمارت کا حال یہ ہے کہ وہ جز دلیل و برہان ہر شے کو ماننے کے لئے آمادہ ہیں اس لئے کہ عملاً ان کی عقلی فعالیتیں تحلیل کے لحاظ سے معطل ہوچکی ہیں۔ یہی وہ سبب ہے جو اشاعرہ، اہل حدیث، جبر کے طرفداروں اور عقل کو خطا جاننے والوں کی آخری کامیابی ہے۔ اس مسئلہ کے سیاسی اسباب کے حامل ہونے سے زیادہ، معاشرتی، نفسیاتی، ثقافتی اورتربیتی اسباب کا حامل تھا۔ انھیں اس دور میں یقینی کامیابی ملی جب موجودہ سیاسی حاکمیت ضعیف اور اس میں اختلاف ایجاد ہوچکا تھا اور حکومت افراتفری کا شکار تھی۔ ان کی کامل کامیابی کے حصول میں حکام کے اقتدار کی پشت پناہی یا تبلیغی اور دینی تسلط کے تحت ایسا اقتدار حاصل نہیں ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ سماج خود جبری فکر کا مالک اور جبر پسند تھا جس کی وجہ سے وہ عقل و ارادہ اور آزادی کے طرفداروں پر غالب آگئے اور اس میں جبر کی ترویج کرنے والے حکام کا کوئی دخل نہیں تھا۔
لیکن عین اس عالم میں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دوران جاہلیت میں جبری رجحان کے قوانین اور اصول تدوین ہوکر رائج رہے ہوں یا ایک فلسفی اور کلامی مکتب کی شکل میں موجود رہا ہوں جیساکہ ہم نے بعد کی صدیوں میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ وہ موجود تھا۔ وہ ایک عمومی اور ایسا وسیع اور با نفوذ عقیدہ تھا۔ اس طرح سے اس نے عربوں کی نفسانی اور عقیدتی یہاں تک کہ ان کی معاشرتی اور سیاسی عمارت کو اثرانداز کردیا تھا اور اسی ماحول میں وہ لوگ پھلے پھولے اور پروان چڑھے تھے۔ البتہ یہ بھی اضافہ کرنا چاہئے کہ یہ عقیدہ اور طرزفکر ایک مدت کے لئے اس وقت کے سیاسی اور معاشرتی حالات کی وجہ سے تحت الشعاع میں قرار پاکر بے چینی اور امیدوار کرنے والے ایام بھی تھے جس زمانے میں اسلام قدرت پاکر تیزی سے پھیلتا جارہا تھا اس وقتاپنا سکہ جمالیا۔ لیکن جب اسلام کی توسیع آہستہ آہستہ کم ہوگئی اور مائل بہ زوال ہو گیا اور دوسری قومیں اور ملتیںجدید بادشاہت میں اپنی جگہ بنالی تو اس فکر اور عقیدہ کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملا اور دوبارہ اس کے لئے حالات فراہم ہو گئے۔ مخصوصا ًیہ تازہ مسلمان اس کے میدان میں ایک خاص مہارت اور تجربہ اور منظم و مدون افکار و عقائد کے حامل تھے۔ اور یہ سب کچھ معاویہ کے بر سر اقتدار آتے ہی اور اس کی حکومت کے جڑ پکڑتے ہی شروع ہوگیا اور اسی مقام سے داستان کا سنجیدگی سے آغاز ہوجاتا ہے اس لئے کہ ایسی شروعات کے حالات مہیا ہوچکے تھے۔
حالات بھی پرسکون ہوچکے تھے اور فتوحات کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا تھا اور عثمان اور حضرت علیـ کے زمانہ کا ناقابل ہضم اور سنگین تجربہ اور مسلمانوں کے درمیان کی جھڑپیں اور آپسی جنگیں موجود تھیں۔ یہی وہ دور ہے جس میں اہل کتاب اور دوسرے مذاہب کو موقع مل گیا ، تاکہ وہ لوگ اسلام کے اس جدید نظام میں اپنی حیثیت کو پھر سے پالیں اور اپنے عقائد کی تبلیغ و ترویج کا آغاز کردیں۔ زیادہ اہمیت کا حامل تو یہ ہے کہ معاویہ اور بنی امیہ کے برسر اقتدار آتے ہی زمانۂ جاہلیت کی میراث کو امکانی صورت میں دوبارہ احیا کرنے کا موقع مل گیا۔ اس لئے کہ عربوں کی بدوی اور جاہلی طبیعتیں بھی ایام جاہلی سے عمیق اور گہرا تعلق رکھتی تھیں اور وہ خود بھی اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے اس کو زندہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ بیشتر عرب کے عوام الناس کے دلوں میں ان ایام سے محبت کی کچھ چنگاریاں باقی رہ گئیں تھیں اس حدتک کہ وہ زمانۂ جاہلیت سے عشق کرتے تھے۔
جبر کے رجحان کی تبلیغ
گویا اس دور میں جاہلیت کی میراث کے زندہ ہونے کے لئے تمام جہات سے حالات فراہم تھے مخصوصاً جبر و تقدیر کی طرف رجحان کو دوبارہ زندہ ہونے کا موقع فراہم ہوگیا اور عملی طور پر ایسا ہی ہوا۔ اس فکر نے فاتحانہ شان سے اپنے قدم آگے بڑھادیئے اور آہستہ آہستہ اس نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، البتہ اسے حکام کی جانب سے سرکاری طورپر حمایت بھی حاصل تھی۔ اگر اتفاق سے معاویہ اور بنی امیہ کی جانب سے منظم طورپر پشت پناہی بھی نہ ہوتی تب بھی اس دور کے مجموعی حالات پر توجہ کرتے ہوئے اسے اپنا راستہ بناہی لینا تھا۔ لیکن جب اسے حمایت اور پشت پناہی بھی مل گئی اور اس کے ساتھ ضمیمہ ہوگئی تو اس کا چوطرفہ قاہرانہ تسلط چھا گیا۔ اور سب سے بدتر تو یہ تھاکہ اس نے دینی اور قرآنی لباس پہن لیا اور اس لئے کہ یہ لباس ہر قسم کے عیب و نقص سے محفوظ ہوجائے، جعل و تحریف اور تاویل و تفسیرکا سلسلہ شروع ہوگیا اور جبری رجحان کی اصل کے مطابق اسلام اور قرآن کی ہماہنگ تصویر بنالی۔ اب اس کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ گیا تھا کہ یہ تفکر قرآن کی تائید کے مطابق ہے، بلکہ زیادہ اہم یہ تھا کہ یہ کہہ دیا کہ بنیادی طورپر اسلام اور قرآن، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ کس مقصود کو حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ لوگ اس طرح سے پوری شدت کے ساتھ اس کی حمایت کیوں کرتے تھے۔ جیساکہ ہم پہلے بھی اس بات کو بیان کرچکے ہیں کہ وہ لوگ اس فکر کے مقابلہ میں، لوگوں سے سکوت اور اپنی اطاعت چاہتے تھیاور وہ یہ چاہتے تھے کہ لوگ ان کے تابع رہیں اور ان کے سامنے تنقید و اعتراض میں اپنی زبانیں نہ کھولیں۔ یہ نہ کہیں کہ ایسا کیوں کیا ہے اور ایساکیوں نہیں کیا ہے؟ یہ نہ کہیں کہ ظلم کیوں کر رہے ہو اور دین کو کیوںپائمال کررہے ہو؟ یہ نہ کہیں کہ کیوں حدود الٰہی کو پائمال کررہے ہو؟ اس کی حرمت پائمال کرنے والوں کو کیوں سزا نہیں دے جارہے ہو؟یہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں بیت المال کو تاراج کیا جارہا ہے ؟ اور اسے اپنی بولہوسی اور افسانوی عیش و نوش میں صرف کررہے ہو؟ اپنے حکام اور والیوں کے ظلم و ستم اور تجاوز و لاابالی گری سے ان کی روک تھام کیوں نہیں کررہے ہو؟ وہ مطلق العنان رہنا چاہتے تھے کہ بغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے حکومت کریں۔ دیہاتی طبیعت، زمانۂ جاہلیت کی خصلتیں، بے حدثروتاور بے شمار رفاہ و آسائش لامحدود قدرت، بے پناہ شہوترانی کم ظرفیتی اور نفس کی حقارت نیز تمام سیر حاصل چوطرفہ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کی حس نے ان لوگوں کو اس حد تک مست کردیا تھا کہ ہوسرانی اور عیش و عشرت کے اسباب فراہم کرنے کے علاوہ وہ کچھ اور سوچ نہیں سکتے تھے۔ ایسے لوگ جن کے باپ دادا کی نظروں کو چند اونٹوں کے بار خیرہ کردیتے تھے اور یہی بات ان کو حسد کرنے پر آمادہ کردیتی تھی، آج وہی لوگ بزرگترین شہنشاہیت کے اہم لوگوں میں ہوگئے ہیں اور حکومت کے اہم عہدو ں پر فائز ہوگئے ہیں فطری طورپر ان لوگوں کے اعمال، کردار اور ان کی غیر فطری اور بیجا توقعات، توقع کے خلاف نہیں تھیں۔
وہ لوگ حاکم، خلیفہ یا گورنروں اور سرداروں سمیت کسی قید و بند کے بغیر کیسے آزادانہ حکمرانی کر یں۔ اس لئے کہ اس کو ایک طرف شرعی قوانین رکاوٹ ڈال رہے تھے اور دوسری طرف سے عوام بھی انھیں احکام شرعی پر پابند رہنے کے لئے مجبور کرتی تھی۔ اس سے مقابلہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسلامی معاشرہ ایک جاہلی سماج نہیں تھا جو ہر قسم کے قانون اور ضابطہ سے بے نیاز ہو۔ بلکہ اس سماج میں اسلام موجود تھا جس کا وہ لوگ علانیہ طورپر انکار نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ اسلامی قوانین کا انکار خود انھیں کے انکار کا باعث تھے۔ ہاں وہ لوگ قوانین کو پائمال کرسکتے تھے لیکن وہ لوگ اس کے اصل قوانین کا انکار نہیں کرسکتے تھے۔
ان کی نظر میں بہترین راہ حل جو نہ اسلام کے انکار کا سبب بنے اور نہ ہی ان کی آزادی، قدرت اور شہوترانی میں رکاوٹ کا باعث ہو، یہی سبب تھا جس کی وجہ سے جبر کے رجحان کی تبلیغ کی جائے اور وہ یہ کہیں کہ انسان کے پاس اپنا کوئی ارادہ نہیں ہے وہ مجبور مخلوق ہے اور وہ اپنی تقدیر بنانے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے اور اس میں کوئی دخالت کا حق نہیں رکھتا ہے۔ اس کی تقدیر خدا کے اختیار میں ہے اور انسان کو اس کی زندگی میں جو کچھ بھی کو ملتا ہے وہ اسی کی جانب سے ہے اور اس کی مشیت کے تحت ہے۔ اس طرح اسی زمانۂ جاہلیت کے جبر کے رجحان کی فکر کی کا مسئلہ ٔجبر اسلامی کے رنگ میں ڈھال کر اس کی ترویج کی جارہی تھی بس فرق اتنا تھا کہ متعدد خداؤں کے مقام پر خدائے واحد یہ کردار ادا کر رہا تھا۔
اس تفسیر کے مطابق جو کچھ بھی انسان کو ملتاہے وہ سب کچھ اس کے ارادہ سے خارج اور مشیت خداوندعالم اور قادر مطلق کی مشیت کے مطابق ہے۔ وہ خواہ فطرت اور فطری حوادث سے ہو یا یہ چاہے حاکم یا خلیفہ یا کسی دوسرے انسان کی طرف سے ہو اہمیت کا حامل یہی آخری نکتہ ہے۔ یعنی جو کچھ حاکم کی جانب سے انجام پائے وہ تقدیر الٰہی ہے جو اس کے ذریعہ سے اپناوجود پاتا ہے لہٰذا اس میں تغییر اور اعتراض کے لئے زبان کھولنا ممکن نہیںہے۔ جیساکہ خود حاکم کا وجود بھی ایک تقدیر الٰہی ہے جس کو بدلا نہیں جاسکتا اور اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں لائی جاسکتی ۔ وہ مو جود ہے کیونکہ خداوندعالم نے ارادہ کیا ہے اور وہ قادر ہے اس لئے کہ خود خداوندعالم نے ایسا چاہا ہے۔
بطور نمونہ عباسی خلفا میں سے دوسرے خلیفہ منصور کی تقریر کی طرف توجہ دیں۔ جسے اس نے اپنے مکہ کی مسافرتوں میں سے ایک مسافرت میں عوام سے اس طرح خطاب کیا: ''ائے لوگو! میں روئے زمین پر خدا کی طرف سے سلطان ہوں۔ جو اس کی بصیرت اور تائید و حمایت کے ذریعہ تم پر حکومت کررہا ہوں۔ اس کا خزانہ دار ہوں اور اسی کی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہوں اور اسی کے ارادہ کے مطابق تقسیم کرتا ہوں اور اسی کی اجازت سے عطا کرتا ہوں۔ خدا نے مجھے اپنے خزانہ کا قفل بنایا ہے۔ لہٰذا جب تم پر بخشش کرنا چاہتا ہے تو مجھے کھول دیتا ہے اور جب روک دینا چاہتا ہے تو مجھے قفل کر دیتا ہے۔ لہٰذا خد ا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس مبارک دن کے صدقہ میں وہ تمھیں نعمتیںعطا کرے گا، جس کی اس نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: ''آج میں نے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمھارے لئے دین اسلام کو انتخاب کرلیا۔ '' اس سے چاہو کہ وہ مجھے صواب اور راہ ہدایت کی توفیق دے اور تم پر احسان و مہربانی کیلئے میرے دل میں الہام کرے اور مجھے عدل کے مطابق تمھارے درمیان روزی کی تقسیم کی توفیق عنایت کرے۔''
اس کاایک دوسرا نمونہ معاویہ کی بات ہے۔ اغراض السیاسة فی اعراض الریاسة، نامی کتاب میں موجود ہے جو ایسے ہی مطالب سے پٹی پڑی ہے، اس (معاویہ) کے قول سے اس طرح نقل کرتا ہے: ''ہم بادشاہ لوگ زمانہ کی طرح ہیں۔ لہٰذا جسے چاہتے ہیں اسے سربلند کردیتے ہیں اور جسے نیچا کرنا چاہتے ہیں وہ پست ہوجاتا ہے۔'' اس وقت مؤلف معاویہ کے اس کلام کی تائید اور توضیح کیلئے اضافہ کرتے ہیں: ''معاویہ کے یہ کلمات اس کی بلند ہمتی اور کمال بزرگواری کی حکایت کرتے ہیں کہ بادشاہی کے عالم میں کامل الٰہی حمایت کی حامل ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بادشاہ لوگ خداوندعالم کے نائب اور اس کے خلیفہ ہوتے ہیں، ان کے فرمان لوگوں کے اموال، خروج، کسی کی آزادی اور غلامی اور ان کے خون (قصاص و دیات) پر نافذ ہیں اور جو بھی عظیم مرتبہ اور شریف رتبہ کا خواہاں ہو تو اس پر لازم ہے کہ بادشاہ کی اطاعت کرے اور اس کو قلباً بھی تسلیم کرے۔
اسی سلسلہ میں محمود صبحی اپنی کتاب نظریة الامامة، میں معاویہ کی سیاست کے متعلق اس طرح تحریر کرتے ہیں: ''معاویہ نے اپنی حکومت کے ارکان کو تنہا مادی قدرتوں کے سہارے مستحکم نہیں کیا، بلکہ اس نے اس راہ میں دینی عقائد کا بھی سہارا لیا ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ اس میں اور علیـ میں خلافت کے سلسلہ میں اختلاف تھا لہٰذا حکمیت کو خدا کے سپرد کردیا گیا اور خدا نے اسے علیـ پر برتری عطا کردی اور علیـ کو خلافت سے معزول کردیا اور مجھے خلیفہ بنادیا، اسی طرح جب اس نے اہل حجاز سے اپنے بیٹے یزید کے لئے بیعت لینا چاہی تو ان سے کہا کہ خلافت کے لئے یزید کا انتخاب قضاء الٰہی میں سے ایک ہے اور اس کے بندوں کو اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح نزدیک تھا کہ مسلمانوں کے اذہان میں یہ بات بیٹھ جائے کہ خلیفہ جو چاہے اور جس امر کا حکم دے اگرچہ وہ خدا کے دستور کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، وہ خد اکی جانب سے اس کے بندوں کے حق میں قضا اور حتمی فیصلہ ہے جسے اس نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کردیا ہے۔
عثمان کے دور میں اپنی گورنری کے زمانہ میں معاویہ یہ بات صریحی طورپر کہتا تھا کہ بیت المال میں موجودہ مال و دولت خداوندعالم کا مال ہے اور مسلمانوں کا مال نہیں ہے۔ اور یہ اس وجہ سے تھا تاکہ انھیں خود اپنے لئے محفوظ کر سکے۔ بالکل اسی طرح جب اس نے اپنی حکومت کو قائم کرنے اور مستحکم بنانے کے لئے اور تفویض الٰہی کی فکر نیز بادشاہوں کے دینی حق ہونے کے ذریعہ مدد حاصل کی اور یہ مسلمانوں کی سیاست شرعی کی بہ نسبت بری طرح مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا۔ اس لئے کہ وہ چاہتا تھا دین کے نام پر جتنا ہوسکے اپنی ذاتی قدرت کو بڑھانے کے لئے فائدہ اٹھائے اور دینی عقائد کو حکام کے ہوا و ہوس کے تابع بنادے۔''
معاویہ اور اس کے جانشینوں کی بہت سے اسباب کے تحت کہ یقینا ان میں سے متعدد اسباب معاشرتی اور فکری حالات اور تاریخی سابقہ اور اس زمانہ کے لوگوں کی روحی عمارت کی طرف پلٹی ہے۔ ان کی کامیابی تنہا ان کے پرپیگنڈہ اور اقدام سے نہیں تھی بلکہ معاویہ اور اس کے ہم عقیدہ جس ہدف کو حاصل کرنا چاہتے تھے اس وقت کے عرب عوام بھی واقعات اور مسائل بالکل ویسے ہی دیکھتے اور نیتجہ گیری کرتے تھے۔ ایسی طرز فکر کے نمونہ کو اس نظریہ میں جس کو حسن بصری نے حجاج بن یوسف کے متعلق اظہار کیا، اس کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اہمیت کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے معاصر فقہا اور محدثین کی بہ نسبت ان لوگوں میں سے کہیں زیادہ گستاخ اور آزادی خواہ تھا۔ یہاں تک کہ معتزلی لوگ اسے اپنا سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ اس نے اپنے دور کے حاکم کے جبری رجحان کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور اسی سلسلہ میں عبدالملک اور حجاج سے مکاتبات برقرار رکھااور دلیل پیش کرنے کے ضمن میں ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی، بعض قرآنی آیات کو اپنے مدعیٰ کے شاہد کے طورپر پیش کرکے جبرکو ثابت کرنے کے لئے مدد لی جارہی تھی ان کی دلیلوں کو رد کیا ہے۔
یہاں تک کہ وہ ایسا شخص ہے جس نے بارہا معاویہ پر اس کے برے اعمال کی وجہ سے، تنقید کی ہے۔
لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود لوگوں کو حجاج جو ہر طرح کی جنایت کرنے سے اس کو کوئی باک نہیں ہوتا تھا، کے خلاف جنگ کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا: اور اس کی توجیہ اس طرح کرتا: ''اس سے جنگ نہ کرو اس لئے کہ اگر وہ عذاب الٰہی ہے تو عذاب الٰہی کو تم اپنی تلواروں سے دفع نہیں کرسکتے اور اگر خدا کی مصیبت ہے تو اس پر صبر کرو تاکہ خدا تمھارے اور اس کے درمیان حکومت کرے اس لئے کہ وہ بہترین حکم کرنے والا ہے۔''
جب کہ وہ حجاج کو بدترین خلق خدا شمار کرتا تھا اور اس کے بارے میں اس طرح اظہار نظر کیا کرتا تھا: ''اگر ہر امت اپنے اشرار اور پست لوگوں کو ایک میدان میں لائیں اور ہم بھی حجاج کو اس میدان میں لائیں تو ہم اس رقابت میں جیت جائیں گے۔''
تاریخی شواہد (نمونے)
اس مقام پر مناسب ہے کہ ہم بطور مثال چند تاریخی نمونے ذکر کریں۔
عاشورا کے خونیں واقعہ کے بعد جب اہل بیت حرم کو ابن زیاد کے دربار میں اسیر بناکر لے جایا گیا، اس دربار میں جناب زینب اور امام سجاد اور ابن زیادہ کے درمیان کچھ باتیں ردّوبدل ہوئیں جو ہماری اس بحث سے متعلق اور قابل تأمل اورقابل غور و خوض ہیں۔ ابن زیاد نے اشارہ سے امام سجادـ کے سلسلہ میں سوال کیا کہ وہ کون ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ علی ابن الحسین ہیں۔ اس (ابن زیاد) نے کہا کہ کیا وہ علی ابن الحسین نہیں تھے کہ جسے خدا نے قتل کردیا؟ امامـ نے فرمایا کہ میرا ایک بھائی تھا جس کا نام بھی علی ابن الحسین تھا جسے تیرے لشکریوں نے اسے قتل کردیا۔ ابن زیاد نے کہا بلکہ اسے خدا نے قتل کیا ہے۔ یہ سن کر امامـ نے یہ آیت پڑھی۔(اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا) ''یعنی خدا وندعالم انسان کو جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اسے موت دے دیتا ہے۔ '' یہ سن کر ابن زیاد غضبناک ہوگیا اور کہا کہ تم میں اتنی جرأت کہ میرا جواب دو اور میری بات ردّ کرو، (جلاد کو حکم دیا کہ) اس کی گردن مار دو۔ البتہ اس کے بعد کچھ نا خوش گوار واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے اس کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا گیا۔
اسی قسم کی ایک بحث یزید کے دربار میں پیش آئی۔ یزید نے امامـ کو مخاطب کرکے کہا، اس خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے تمھارے باپ کو قتل کرڈالا۔ امامـ نے فرمایا کہ اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس نے میرے باپ کو قتل کیا۔ یزید نے جیسے ہی یہ جملہ سنا تو آپ کے قتل کا حکم جاری کردیا لیکن بعض اسباب کی بنا پر آپ کو قتل نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد اس نے آپ کو اپنے نزدیک بلانے کا حکم دیا۔ جب آپ اس کے نزدیک پہنچے تو اس نے اس زنجیر کو کاٹنا شروع کردیا جو آپ کی گردن میں پڑی ہوئی تھی اور اس کے ضمن میں یہ آیت پڑھی (ما اصابکم من مصیبة فبما کسبت ایدیکم و یعفو عن کثیر) ''لوگوں پر جو مصیبتیں وارد ہوتی ہیں وہ سب انھیں کے اعمال کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت سی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے۔ '' اس آیت کو سن کر امامـ نے فرمایا: نہیں، ایسا نہیں ہے یہ آیت ہمارے بارے میں نہیں ہے جیساکہ تونے سوچ رکھا ہے بلکہ جو ہمارے سلسلہ میں ہے وہ یہ ہے: (ما اصابکم من مصیبة فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل نبرأ ھا لکیلا تأسوا علی مافاتکم ولاتفرحوا بما آتاکم) ''تم پر کوئی مصیبت وارد نہیں ہونے والی ہے، چاہے وہ مصیبت تم سے اور تمہاری جان سے متعلق ہو؛ ایسے حوادث جو باہر سے تم تک پہونچتے ہیں، مگر وہ چیزیں جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں جو نعمت تم سے اُٹھ گئی ہے اس کے بارے میں افسوس نہ کرو اور جو چیز تمہیں حاصل ہوگئی ہے اس پر شاد و خرم نہ ہوؤ۔'' اس کے بعد امامـ نے فرمایا کہ ہم ہیں وہ لوگ جو ایسی صفات کے مالک ہیں۔
کیا اس کے علاوہ تھا جو یہ دونوں کہنا چاہتے تھے : امام حسینـ اور آپ کے اصحاب پر جو مصیبتیں بھی نازل ہوئیں وہ سب خد اکی طرف سے تھیں اس میںحاکم کی کوئی دخالت نہیں تھی؟ اور حاکم تو صرف خداوند عالم کے ارادہ کو وجود میں لانے کا سبب رہا ہے۔ یہ ابن زیاد، یزید اور اس کے فوجیوں نے امامـ کو شھید نہیں کیا فقط خداوند عالم نے انھیں قتل کیا ہے اور خدا نے ایسا کیوں کیا؟ یہ بھی انھیں کے اقدامات کا نتیجہ تھا اور وہ لوگ انھیں سزاؤں کے مستحق تھے۔ یہاں پر اہمیت کا حامل یہ تھا کہ حاکم پوری طرح اس جرم سے بری نظر آرہا تھا، ساری ذمہ داریاں خدا کے دوش پر پلٹ رہی تھیں اور اس میں حاکم کا کوئی اپنا کردار اور اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔
اور اس طرح سے حاکم اختیار، قدرت اور اپنے آپ کو بالکل محفوظ پارہا تھا اس لئے کہ اس کے تمام اعمال و کردار اور اسوہ اور اقدامات خداوندعالم کے ارادہ کی تجلی اور اس کے مظا ہر تھے لہٰذا ا نہیں نہ بدلا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس پر اعتراض کیا جاسکتا تھا۔ یہ امویوں کے نظریات کی تفسیر تھی۔ اس لئے کہ نہ تو وہ دین کا انکار کرسکتے تھے اور نہ ہی ان کا یہ انکار نہ کرنا ان کی آزادی کو سلب کرتا تھا۔ انھیں قدرت، آزادی عمل اور نامحدود اختیار چاہیئے تھا انھیں دینی شان وحیثیت اور احترام وغیرہ سب کچھ اس تفسیر کے سایہ میں حاصل ہورہا تھا۔
اموی لوگ قاعدتاً اسی فکر کی بنیاد پر سوچتے، اپنی زندگی، حکومت اورا س کی تبلیغ کرتے تھے۔ ان کی پوری خلافت کا زمانہ اسی قسم کے حوادث اور نمونوں سے بھرا پڑا ہے۔ جب معاویہ مر گیا تو یزید نے مدینہ کے گورنر (حاکم) کو لکھا: ''معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا۔ خداوندعالم نے اسے کرامت عطا کی اور اپنا جانشین بنادیا اور لوگوں کے امور کو اس کے حوالہ کردیا اور اسے قدرت و مقام اور سیادت بخشی۔
اسی طرح سے خود معاویہ بھی ان لوگوں کے اعتراض کے جواب میں جو لوگ یزید کی جانشینی کے مخالف تھے ان سے کہا: ''یہ خدا کا ملک اور اس کی سلطنت ہے اور وہ جسے چاہے عطا کرے۔ یزید کی ولایت عہدی کو خداوندعالم نے مقدر فرمایا ہے اور تقدیرات الٰہی میں سے ہے اور تمہیں چوں و چرا اور اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے کسی کو بھی اختیار حاصل نہیں ہے۔''
ان لوگوں کے گورنر بھی اسی روش کے مطابق خطبہ دیتے اور تبلیغ کرتے تھے۔ ایک روز ابن زیاد نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا: ''ائے لوگو! ہم توتمھارے رؤسا ہیں اور ہم ہی تم سے بلاؤں کو دفع کرتے ہیں۔ ہم خدا کی دی ہوئی قدرت سے حکومت کرتے ہیں اور اس کی دی ہوئی عطا جو اس نے ہمارے اختیار میں قرار دی ہے اس سے تمہارے لئے بخشش کرتے ہیں۔ ہماری اطاعت تم لوگوں پر واجب ہے اور جو ہم پسند کرتے ہیں ویسے ہی تم عمل کرو، ہم تمھارے ساتھ عدل کے مطابق حکم کریں گے۔ پس اپنی اطاعت و نصیحت اور ہمکاری کے ذریعہ کوشش کرو کہ اپنے آپ کو ہماری عدالت کے مشمول اور مستحق بناؤ۔''
اسی طرزفکر کے ترقی یافتہ نمونہ کو قرآن و حدیث کے بہت سے عناصر کو اپنے اندر سموئے ہوئے مطالب کو جسے یزید ابن عبدالملک کے تفصیلی وصیت نامہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جسے اس نے اپنے دوبیٹوں کی ولایت عہدی کے سلسلہ میں لکھا تھا۔
جعل حدیث
اسی طرزفکر کی بنیاد پر ''یعنی جو کچھ بھی حاکم انجام دیتا ہے، وہی خداوندعالم کی جانب سے تقدیر ہے'' بہت زیادہ مقدار میں حدیثیں گڑھی گئیں۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ اگر اس نے صحیح عمل کیا تو اسے اجر ملے گا اور تمھیں شکر گذار رہنا چاہیئے اور اگر اس نے صحیح عمل نہیں کیا تو اس کے گناہوں کا بوجھ اسی کے سر پر ہے اور تجھے صبر کرنا ہوگا یا اگر یہ کہ حاکم کی جانب سے تمہیں کوئی اذیت پہنچے تو اس کے مقابل میں صبر کرو اور اس کی بیعت نہ توڑو اس لئے کہ جو بھی ایسا کرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف نسبت دے ڈالی کہ آپ نے فرمایا: ''میرے بعد ایسے حکام آئیں گے جو میری ہدایت پر نہ ہوں گے اور میرے طریقہ پر نہیں چلیں گے یعنی میری سنت کو نہیں اپنائیں گے، وہ اپنے سینوں میں شیطانوں کے ایسے دلوں کو انسانی جسم میں حمل کرتے ہوں گے لیکن وہ شیاطین کے قلوب جیسے ہوں گے۔ کسی نے سوال کیا کہ ہم ان کے مقابلہ میں کیا کریں؟ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: نہیں، ان کے فرامین کو کان دھرکے سنو اور ان کی اطاعت کرو اس لئے کہ ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اگرچہ وہ تم پر تازیانہ ہی کیوں نہ برسائیں اور تمھارے اموال کو غصب ہی کیوں نہ کرلیں۔ آخرکار یہ کہیں گے کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا کہ ہر حاکم کی اطاعت کرنا اس لئے کہ اس کی اطاعت میری اطاعت ہے آپ بطور نمونہ کتاب الامارة؛ کنزالعمال، میں رجوع کرسکتے ہیں قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ اس باب میں جتنی احادیث بھی مذکور ہیں وہ سب کے سب ایسے مطالب پر مشتمل ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ وہ اصلی محرک جو اس بات کا موجب ہوا کہ ایسی بے شمار احادیث گڑھی جائیں وہ یہی جبری رجحان کے متعلق تفکر تھا اور یہ کہ خود حاکم اور اس کے اعمال و کردار خدا کی تقدیر ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صاحبان اقتدار اتنے پر بھی قانع نہ تھے اور اسے اپنی حاکمیت کو مستحکم بنانے کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے۔ لہٰذا بہت ساری جھوٹی احادیث گڑھ ڈالیں اور یہ حدیثیں وجود میں آئیںکہ کسی بھی صورت میں بیعت کا توڑنا جائز نہیں ہے۔ جو اپنے امیر کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ وہ جیسا بھی ہو خواہ اچھا ہو یا برا، عادل ہو یا فاجر، اس کے پیچھے نماز ادا کرو اور اس کے دستور کے سامنے گردن جھکادو۔ انھیںبرا بھلا نہ کہو کہ انھیں برا کہنا مجھے برا کہنے کے برابر ہے۔ ان لوگوں نے نماز کو اس کے وقت سے تاخیر کردی تو کسی اعتراض کے بغیر نماز میں ان کی اقتدا کرو، حاکم کے خلاف خروج کرنے کی فکر کو ذہن سے نکال دینا اورجو بھی ایسا کرے گا وہ دین سے خارج ہوجائے گا۔ اور جو بھی حاکم کے خلاف قیام کرے گا اس کی گردن مار دو۔ جو بھی مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بنے اسے قتل کردو۔ ہر صورت میں، خواہ رضایت کے ساتھ ہو یا اکراہ کے ساتھ، اپنے حاکم کی اطاعت کرو۔ اقتدار کی خاطر ان سے مقابلہ کے لئے قیام نہ کرو۔ ہر وہ قوم جو سلطان کو ذلیل کرنا چاہے تو خداوندعالم اس کو اس دنیا میں ذلیل کرے گا اور ہر وہ شخص جو کسی امیر کے ہوتے ہوئے لوگوںکو اپنی طرف دعوت دے تو اس پرخدا، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہو اور ایسے شخص کی گردن ماردو۔
یہ بھی جبر ہی کے رواج دینے کی امویوں کی ایک داستان تھی۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ حاکم کو ایک ایسی موقعیت عطا کردیں جہاں پر وہ ہر قسم کی تنقیدوں سے محفوظ رہے، واقعیت تو یہ ہے کہ وہ اپنے اس ہدف میں کامیاب بھی ہوگئے ان لوگوں نے اس راہ میں اس قدر سعی و تلاش کی کہ بعد میں اس طرح معروف ہوگیا ''الجبر و التشبیہ امویان و العدل و التوحید علویان'' یعنی اموی وہ لوگ ہیں جبر و تشبیہ کے مروج، طرفدار اور اس کی تبلیغ کرنے والے ہیں اور علوی وہ لوگ ہیں جو عدل و توحید کے داعی ہیں۔ در حد امکان ائمہ(ع) اندھا مفلوج، بے حرکت اور بے حس بنا دینے والے جبری رجحان کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور اس سے مقابلہ کیا لیکن متعدد اسباب کے تحت جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے اس کو وسعت ملی اس فکر نے اپنی جگہ بنالی اور حاکم کے متعلق اہل سنت کے تفکر کو بنانے میں بنیادی حصہ حاصل کرلیا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اہل سنت نے بعد میں جبر کے متعلق ان مبلغین کی تفسیر کو مان لیا۔ پھر بھی یہ بات ان کے حق میں ایک حدتک صحیح ہے لیکن اس مقام پر یہ نکتہ تھا کہ حاکم کے متعلق اہل سنت کا نظریہ ایسی فکر سے متاثر ہوکر پھلا پھولا اور یہ مورد قبول قرار پایا۔
یہ احادیث اگرچہ جبری رجحان کے موضوع کے ساتھ امویوں کی مستقیماً تبلیغ و ترویج اور حمایت حاصل نہیں تھی لیکن اس کے برے اثرات کا نتیجہ ضرور تھیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ قوی اور اسے مستحکم بنانے کی خاطر گڑھی گئیں تھیں۔ یہ احادیث حاکم کے اقدامات اور اس کے اوامر کے متعلق تھیں جو الٰہی مشیت اور اس کے ارادہ کے متعلق ہونے پر دلالت کرتی تھیں، درحقیقت یہ احادیث حاکم کو ایک ایسے مقام پر پہنچانا چاہتی تھیں جس کے بعد وہ ہر قسم کے نقصان اور تنقید سے محفوظ کررہا تھا، اس کے بغیر کہ اس کے لئے دینی شان اور منزلت کو بتانے کی کوئی ضرورت پڑے تا کہ اس طرح اس کے سایہ میں اس کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اور وہ احادیث جو حاکم کی اطاعت کے وجوب اور اس کے خلاف قیام یا بیعت کے توڑنے کی حرمت پر دلالت کرتی تھیں در حقیقت وہ بھی اس خدشہ ناپذیر حیثیت کو باقی رکھنے اور ہر قسم کی تنقید سے بری اور محفوظ تھیں۔
اہل سنت کے تمام فقہا اور محدثین اور متکلمین، علما حاکم کے متعلق اسی زاویہ سے فکر کیا کرتے تھے اور اسی کی بنیاد پر ان لوگوں نے اس کی اطاعت کے وجوب اور اس کی مخالفت کی حرمت اور اس کے حدود و اختیارات کے متعلق تعریف اور تحلیل و تجزیہ کیا۔ ان لوگوں کے کلام کا لب لباب یہ تھا کہ خود حاکم، ہونے کے عنوان سے کہ وہ کون ہے اور کیسے قدرت کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کے عقائد کیا ہیں اور وہ عمل کیسے کرتا ہے؟ وہ بھی مشروعیت رکھتا اور اس کی اطاعت واجب ہے۔ اس لئے کہ اس کاحضور اور اس کی قدرت ایک واقعیت ہے اور یہ خدا کی مشیت اور اس کا ارادہ ہے جس نے اسے ایک واقعیت میں متجلی کردیا ہے۔
اگرچہ اہل سنت کے متکلمیناور ان کے بزرگ فقہا اور علما کے درمیان ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے، جن کے نظریات حاکم کے متعلق ایسے نہ تھے یعنی مثال کے طورپر حاکم میں عدالت، دینداری، شجاعت، سیاست، ذہانت، قرشی ہونا، یہاں تک کہ مجتہد ہونے کی شرط کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن اولاً ایسے لوگ اقلیت میں تھے اور دوسرے یہ کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات فراموشی کے حوالہ کردیئے گئے اسی طرح کہ جیسے معتزلہ کا کوئی نام نشان نہیں بچا اور ان کے عقائد اور افکار اشعریوں اور سلفیوں کے خشک عقائد کے تحت الشعاع قرار پاگئے۔ ایسے متکلمین اور فقہا کا ایک گروہ ان کے ہم فکر آزاد فکر معتزلیوں کی طرح ابتدائی صدیوں کے شکوفائی اور ترقی کے زمانہ اور تمدن اسلامی کے عقلانی دور میں معروف ہوگئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناپید ہوگئے۔ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ ان کے افکار نہ تو خود انھیں کے دور میں اور نہ ان کے بعد والے ادوار میں بدرجہ اولیٰ بے توجہی کا شکار ہوگئے، نہ ہی ان کے افکار کو فقہی و کلامی یا سیاسی و معاشرتی حیثیت مل سکی اور نہ ہی اہل سنت کے دینی (سیاسی) عقائد کا حصہ نہ بن سکے۔ بلکہ جس چیز کو حاکمیت حاصل تھی اور کلیدی حیثیت کی حامل تھی وہ وہی عمومی فکر تھی جس نے تاریخ اسلام کو وجود بخشا اور اب بھی تمام تغیرات کے باوجود قائم ہے اور فعالانہ طور پر عمل کررہا ہے۔
مرجئہ کی فکر
اس مقام پر دوسرا عامل ایک ایسی فکر تھی جو امویوں کی حکومت کے وسط میں ظاہر ہو ئی اور بڑی ہی تیزی سے ترقی پاکر پھیلی چلی گئی اور وہ مرجئہ کی فکر تھی۔ یہ کہ تفکر کیوں وجود میں آیا اور کیسے پھیل گیا، یہ خود ایک مستقل بحث ہے۔ لیکن جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ امویوں نے بڑی بے صبری سے اس (تفکر) کا استقبال کیا اور وسعت اور رواج دینے کی سعی و تلاش کی اور اس سے بہت زیادہ فائدے اُٹھائے۔
مرجئہ کی فکر در اصل خوارج کے شدت پسند طرز فکر کے مقابلہ میں عکس العمل کے طورپر وجود میں آئی جو اس بات کے قائل تھے کہ گناہ صغیرہ کا مرتکب بھی کافر ہے اور اس کا قتل بھی واجب ہے۔ خوارج کی یہ شدت پسندی ایک طرح کی اباحہ گری کا موجب بنی جو اس بات کا عقیدہ رکھتی تھی کہ ایسا عمل ایمان کو نقصان نہیں پہونچا سکتا۔
لوگوں کی نیکیوں یا برائیوں کو ان کے اعمال و کردار کی بنیاد پر اس کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ وہ شخص باایمان ہو۔ لیکن یہ کہ اس کے اعمال کیسے ہیں؟ نہ تو اہمیت کے حامل ہیں اور نہ ہی اس دنیا میں افراد کو اس معیار پر پرکھنے کے قابل ہیں۔ نہ ہی ان کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ عقیدہ ایک طرح سے اعتقادی اور دینی توجیہ اور پناہ کی حیثیت رکھتا تھا تاکہ اس کے ذریعہ ہر قسم کی معصیت اور بے بندوباری سے توجیہ کے ذریعہ اپنے آپ کو ان سے بچایا جاسکے۔ لہٰذا یہ لاابالی لوگوں کے لئے مطلوب ہے اور اس دور کے معصیت کاروں کے حق میں تھا جو اس زمانہ کی اکثریت میں تھے؛ یہی دوران جاہلیت کی میراث کے مطابق اور اس کے موافق بھی تھا۔ ایسی میراث اب بھی اپنی قدرت اور پورے تسلط کے ساتھ پابرجا اور باقی تھی۔
دوران جاہلیت کی خصوصیا ت میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس دور کے لوگ ہر قسم کی قید و بند اور قانون و ضابطہ سے دور بھاگ رہے تھے۔ دور جاہلیت کی ثقافت آزاد ثقافت اور ہر قسم کے قانون اور ضوابط سے دور تھی۔ زیادہ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ ہر چیز کو مباح اور ہر قید وبند سے آزادی کی ثقافت خاص طورپر شہوت کی ثقافت حاکم تھی۔ اس دور کے حالات بھی اسی قسم کی خصوصیات کو پسند کرتے تھے اور موجودہ شواہد بھی اسی امر پر دلالت کرتے ہیں اور اسلام ان خصوصیات کا چوطرفہ مخالف اور اس کا مخالف تھا۔ اگرچہ دین اسلام نے اہم تبدیلیاں پیدا کیں، لیکن وہ ثقافت جنھوں نے اپنی اولاد کو انھیں خصوصیات اور ان کے پسندیدہ نظام کے مطابق ان کو پروان چڑھایا تھا اتنا ہی طاقتور، زیادہ اثر انداز اور اس کے کہیں زیادہ دیرپا اثرات تھے اوراتنی جلدی آسانی سے ممکن نہ تھا کہ اپنے مخالف کے حق میں میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتے۔ اگرچہ وہ اس قدر قوی بھی نہ تھے کہ دین کا انکار کردیتے اور خود دوبارہ حاکم بن بیٹھتے۔ لیکن کم سے کم اتنا ضرور تھا کہ وہ دین کے لباس کو اتار کر پہلے ہی کے مانند اپنی (اسی جاہلیت کے اصول پر) زندگی گذارے اور ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔
شہوت پرست اعراب کی شہوانی فطرت، حدود و قیود اور پابندی سے گریزاں رہنا، وسیع پیمانہ پر رفاہ جیتی ہوئی زمینوں کی بے انتہا دولت و ثروت، اس کی خوبصورت کنیزیں اور بڑی تعداد میں اسیر بنائے ہوئے غلام عیاشی کے نئے نئے آلات جو اس سے پہلے قابل تصور بھی نہ تھے، مجموعی طور سے حالات ایسے بنا دیئے گئے تھے،
خود وہ لوگ کسی ایسے سہارے کی تلاش میں تھے تاکہ اس کی مدد کے ذریعہ اپنے باطنی اور وجدانی دباؤ کو کم کردیں اور کوئی عذر شرعی تلاش لیں اور وہ اپنی عیاشی میں مشغول ہوجائیں۔ اور واقعیت تو یہ ہے کہ لوگوں کا لاابالی گری اور ہر قسم کی قید سے آزادی اور عیاشی امویوں کے دور میں خود امویوں سے کم نہ تھی۔ نمونہ کے لئے آپ کتاب الاغانی میں رجوع کرسکتے ہیں۔
زمانۂ جاہلیت کی طبیعت، اس دور کی روحی اور نفسانی تشنگی اور اسی طرح معاشرتی اور ثقافتی حالات مرجئہ کی فکر یعنی بے بند باری کی فکر کو طلب کررہی تھی۔ اسی وجہ سے جب یہ تفکر وجود میں آیا تو لوگ ماہی بے آب کی طرح اس کی طرف ٹوٹ پڑے البتہ خود اموی لوگ بھی انھیں حالات کو دو اسباب کے تحت پسند کرتے تھے۔ اس لئے کہ اولاً: یہ تفکر شہوترانی اور خواہشات نفسانی کے مطابق تھا اور جب عوام حلال طلبی اور عیش و نوش کی بدولت دینی اور اخلاقی پابندیوں سے منھ موڑ کر اپنی انتخاب کی ہوئی ڈگر میں چل پڑے تو اس صورت میں کوئی بھی دوسرا شخص ان پر تنقید نہیں کرسکتا تھا۔ دوسرے: اس اصل کے مطابق جو کہتا ہے کہ عمل اور کردار ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، یہ اصل انھیں بچالیتی تھی، اس لئے کہ اس کی مدد سے وہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ اگر حاکم یا اس کے والی خود حاکم سے عیاشی میں ان کے آدھا بھی نہیں تھے۔ ان کے حکام ان لوگوں سے زیادہ لاابالی اور بے بند وبار تھے اور فسق و فجور میں مبتلا ہوں، شراب پیتے ہوں، ظلم و ستم کرتے ہوں، تعدی و تجاوز کرتے ہوں تو اس کے لئے یہ اعمال اتنے اہم نہیں ہیں اہمیت کا حامل تو صرف ایمان ہے اور اس کے اعمال اس کو ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اسے یہ اعمال نہ تنہا دین سے خارج نہیں کرتے بلکہ اس کے ایمان و معنویت کے مرتبہ کو بھی کم نہیں کرسکتے۔ اس طرح بڑی ہی آسانی سے اپنے تنقید کرنے والوں کو افکار عمومی کے مقابلہ میں نہتھا کردیں گے۔ اس لئے کہ آخرش ان کے کلام کا لب لباب یہ تھاکہ یہ لوگ ایسے اعمال کے ارتکاب سے اپنے ایمان و تقوی کو کھوبیٹھتے ہیں اور اس طرح حاکمیت کی صلاحیت اور شائستگی کو بھی کھو بیٹھیں گے۔
بہرحال یہ مسلم ہے کہ اس طرزفکر کو امویوں کی طرف سے حمایت اور تشویق حاصل رہی ہے اور حاکم کو شرعی اور قانونی حیثیت دینے اور اس کو محفوظ کرنے، جو حاکم کو مستحکم بنانے اور ہر قسم کی تنقید سے روک دیتا ہے، کم از کم امویوں کے دوسرے دور میں حائز اہمیت کردار ادا کیا ہے۔ البتہ جیساکہ اس سے پہلے بھی ہم کہہ چکے ہیں کہ اس درمیان دوسرے عوامل بھی دخیل رہے ہیں کہ ہم ان کے بیان سے صرف نظر کرتے ہیں۔