عدالت خواہی اور قدرت طلبی
اس مقام پر اہم یہ ہے کہ ان دو نظریات اور تفسیروں کے نتائج بالکل جد ا اور متفاوت ہوں گے تاریخ تشیع اور تسنن نیز ان کی موجودہ صورت حال کے تجربوں نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ وہاں نظریات اور تفاسیر سے زیادہ انھیں دو مختلف اقسام کے نتیجہ سے متاثر ہیں، ان میں سے ایک مہم ترین فرق یہ ہے کہ دوران معاصر میں انقلابی عناصر اہل سنت کی حکومت میں بالکل شیعہ حکومت کے خلاف انقلابی عناصر جو عدالت خواہ اور قدرت طلب ہے، اس سے بالکل متفاوت ہے۔
دور حاضر میں حقیقی شیعوں کی سب سے بڑی مشکل بلکہ سب سے حساس ترین اور پریشان کن بات ان کی عدالت خواہی ہے۔ ان کے اسلامی اور سیاسی اعتقاد اور طرز فکر جو ان کے لئے الہام بخش اور ان کی تحریک کا سرچشمہ ہے وہ ان کی عدالت خواہی انصاف پسندی ہے وہ لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ عدالت کو پورے معاشرہ میں قائم کرسکیں، یا بالفاظ دیگر یہ کہنا مناسب ہے کہ انھوں نے قیام کیا ہے تاکہ ایسے اسلام کو برپا کریں جس کا اصلی پیغام عدالت اور اس کی برقراری اور استواری کو استحکام بخشیں جب کہ اہل سنت کے درمیان اٹھنے والی تحریکیں صرف اس لئے ہیں کہ وہ ایک قدرتمند اور باعظمت اسلامی مرکز کی بنیاد ڈالیں، صدر اسلام میں قائم مسلمانوں کی قدرت و شوکت کو دوبارہ پہلے ہی کی طرح برقرار کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ گذشتہ جیسی قدرت کے مالک رہیںاور ان کے لئے قدرت کے نمونے صدر اسلام میں خلفاء ہیں، ان کی نظر میں اسلام دین کے پہلے مرحلہ ہی میں ایک قدرت ہے اور اس کی تاریخ قدرت اور اقتدار ہے۔ لیکن ان کے مقابلہ میں شیعہ بلکہ اس دور کے شیعہ پہلے دور میں اسلام کو دین عدالت قرار دیتے ہیں اور اس کی اصلی تاریخ عدالت اور انصاف ہے مثلا ان کی نظر میں خلیفہ دوم کی مہم ترین خصوصیت قدرت و عظمت ہے اور ان لوگوں کی نظر میں امام علیـ کی مہم ترین خصوصیت آپ کی عدالت اور مساوات ہے۔ وہ لوگ صدر اسلام کے تابناک اور درخشان دور میں خلفاء کی شکل میں ایسے قدرتمند افراد کو دیکھتے ہیں جو اس دور میں ایک عظیم حکومت حاکم تھی درحقیقت اس دور میں سچے خلفاء کی شکل میں عدالت و انصاف اور مساوات کا مظہر دیکھتے ہیں جو ایک سادہ انسان کی طرح زندگی گذارتے تھے اور تنہا دین و عدالت کی خاطر سر جھکاتے تھے اور بس۔
درست یہی علت موجب تھی کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جب قدرت اور حکومت کی باگ ڈور ذمہ دار انقلابیوں کے ہاتھ میں آگئی، تو اس کے داخلی تغیرات کا عدالت اور عدالت اجتماعی کے اجرا کرنے یا اسے اجرا نہ کرنے کی بہ نسبت جائزہ لینا چاہئے۔ تمام نکات میں ہر ایک سے اہم نکتہ جو انقلاب کے بعد داخلی اُتار و چڑھاؤ کی شکل میں نظر آتا ہے وہ یہی نکتہ تھا۔ اور دوسرے مسائل اسکے بعد اہمیت رکھتے تھے لیکن اگر بالفرض ایسا کوئی انقلاب اہل تسنن کی سرزمینوں پر واقع ہوتا تو یہ مسلم تھا کہ عدالت کی بہ نسبت لوگ اس قدر حساس نہ ہوتے بلکہ احتمال قوی تو یہ ہے کہ وہ اس انقلاب کو قدرتمند بنانے کی فکر میں رہتے۔ البتہ یہ روش اس انقلاب کے قدرتمند ہونے اورمکمل طورپر اجتماعی نیز مختلف افکار کے حامل عناصر کے جذب ہونے کا باعث ہوتی۔
انقلابی پوشیدہ توانائیوں کے مقامات
امنیت و عدالت کے متعلق ایسے تفکرات کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی ہے کہ اہل سنت کی حکومت میں ہونے والے اکثر قیام دینی اور ثقافتی لحاظ سے بامقصد تھے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ان میں سیاسی تحریکیں دیکھنے میں آئی ہوں، جبکہ تشیع کی حکومت میں فاطمی خلفاء کے ہونے کے باوجود سیاسی تحریکیں کثرت سے دیکھنے میں آئی ہیں، شیعوں کے نزدیک حکام کے خلاف قیام کے لئے تا حدکافی دلائل تھے۔ لہذا شیعوں کے نزدیک ایسے قیام کے وجود میں آنے کا امکان ان اہل تسنن کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھا جن کے پاس نہ ایسے اصول تھے بلکہ ایسے قیام موجودہ نظام کے لئے مخل تھے لہذا ان کے نزدیک نامشروع اور ناجائز شمار کئے گئے ہیں۔
اہل سنت کے درمیان دین و تہذیب کی خاطر ہونے والے قیام تنہا ان کے نزدیک سیاسی و معاشرتی نظری اصول کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔ معاشرتی و سیاسی میدان میں کہ جو جائز بھی ہو اور ان میں انقلابی عوام کی تغییر طلب توانائیوں کو اپنے اندر جگہ بھی دے سکے اور انھیں کامل ہدایت کرسکے، فطری طورپر ایسی تبدیلیاں اور اصلاحات وغیرہ دین و تہذیب کے دائرے میں امکان پذیر ہیں اورشیعوں کے لئے ایسی کوئی مشکل نہیں تھی جو اہل تسنن کیلئے ہے، بلکہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ یہ انقلابی توانائیاںاپنے مشروع دائرے میں جاری ہوں خواہ وہ معاشرتی ہوں یا سیاسی یا اسلحوں کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہوں، اس سلسلہ میں کوئی مشکل نہ تھی لہذا انقلابی توانائیاں اپنا ایک فطری مقام حاصل کرچکیں، لیکن اہل سنت کے لئے ایسا کوئی امکان نہیں تھا، ان کے وہاں عصیان و طغیان اور عمومی غم و غصہ کے اظہار کرنے کے مقامات بند کردئے گئے تھے؛ حاکم اور بدعتوں کے خلاف قیام نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی وجہ سے اکثر تحریکیں بے دینی اور کج فکری کو مٹانے کی خاطر وجود میں آئی تھیں بشرطیکہ ان کا حاکم سے کوئی ربط نہ ہو۔ کبھی یہ تحریکیں معتزلہ سے مقابلہ کے لئے کبھی شیعیت و تصوف اور فلاسفہ سے مقابلہ کے لئے تو کبھی مذاہب اربعہ اور فقہی اور کلامی مکاتب میں سے کسی ایک سے مقابلہ کے لئے اور کبھی لوگوں کے عقائد اور ان سے مقابلہ کے لئے وجود میں آتی تھیں جو ایک خاص، متعصب اور خشک مزاج گروہ کے لئے ناپسند تھے جس کی وجہ سے ان کے مال، ناموس اور خون ہدر اور حلال ہو جاتے تھے۔
تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے لامتناہی سلسلہ کا اصلی سبب یہی عامل تھا۔ ان فرقوں میں متعدد مشترک نکات کے ہوتے ہوئے جو انھیں ایک مرکزی نکتہ کی طرف راہنمائی کرتے تھے، ان نکات کے ہونے کے باوجود اسلام کی تاریخ میں اسلامی فرقوں کے درمیان خوںریز لڑائیوں کی کثرت ہے۔ اس کے علاوہ اجتماعی، سیاسی اور قومی عوامل بھی دخیل رہے ہیں۔ لیکن اس نکتہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ انقلابی توانائیوں کے خروج کے لئے جائز اور صحیح مقامات نہ ہونے کی وجہ سے کہ جس کی مدد سے سیاسی اورمعاشرتی اصلاحات انجام دی جاتیں ہیں، خود ایسی توانائیوں کے منحرف ہونے کا عظیم عامل ہے جو فطری ہونے کے ساتھ ساتھ ہے، جب ایسی توانائیاں اپنے جائز مقامات سے خروج کے لئے محروم کردی گئیں تو اس صورت میں یہ امر فطری ہے کہ یہ توانائیاں ان مقامات سے خارج ہوں گی جو ان کی نظر میں جائز ہوں گی۔ اور بجائے اس کے کہ اسے حاکم کے نظام کو برقرار کرنے کے لئے صرف کرے مختلف بہانوں سے خود مسلمانوں کیلئے وبال جان بن جائے گی۔
یہ بات مخصوصا اسلام جیسے دین کیلئے بہت اہم ہے۔ اسلام دوسرے ادیان کے مقابلہ میں کہیں توانا ہے کہ وہ انھیں اکٹھا کرنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں قدرتمند ہے، دیگر ادیان بھی کم و بیش فردی کامیابیوں کے لئے اپنی توانائیوں کو صرف کرتے ہیں، دین کوئی بھی ہو اس کا آخری ہدف فرد کی فلاح اور کامیابی ہے، اسلام بھی ایسا ہی دین ہے، لیکن اس میں اور دیگر ادیان میں فرق یہ ہے کہ یہ انفرادی کامیابی اجتماعی کامیابی کے زیرسایہ حاصل ہوتی ہے کہ جو اس دین کی ترقی میں ہو۔
انتہائی کامیابی یہ ہے کہ یہ دین اپنیمعاشرتی ہدف کو حاصل کر لے اور انسان اسی صورت میں کامیاب ہوگا کہ جب وہ اپنے آپ کو ایسے اہداف کے حصول کی خاطر وقف کردیاور چونکہ ایسا ہی ہے لہذا یہ دین یعنی دین اسلام دوسرے ادیان کے مقابلہ میں ہر ایک سے بہتر افراد کی پوشیدہ استعداد کو آشکار کرے اور ان صلاحیتوں کو اپنے اہداف کی کامیابی کے راستہ میں صرف کرے، یہی وجہ ہے کہ ا یک مسلمان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنی استعداد کو زیادہ سے زیادہ اپنے دین کے پھیلانے میں صرف کرے اور فداکاری کی حد تک کوشش کرے، اس کا یہ عمل اس کی انتہائی کامیابی کا راز ہے۔ لیکن دوسرے ادیان میں یہ کامیابی ایک قسم کی نفسانی تمرین یا کسی فردی یا بعض اوقات اجتماعی کوششوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور یہ کوشش بھی اسلام کی طرح اجتماعی اور اسے عمومی بنانے کے لئے نہیں ہوتی۔ لیکن اس دین میں یہ کامیابی اکثر انفرادی یا اجتماعی کوشش کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ایسی اجتماعی کوشش کہ جو اس کے اہداف کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہو۔ اس درمیان اہم بس یہ ہے کہ اسلام میں اتنی توانائی ہے کہ وہ ایک مسلمان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو تجلی بخشے اور اس کی اچھی طرح پرورش کر کے انھیں استعمال کرسکتا ہے۔
یہ موضوع کی مزید وضاحت کے لئے اس سلسلہ میں بحث کی جائے۔
انسان میںفداکاری کا جذبہ
انسان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی دوسری شی کے ضمن میں یا کسی شی کے تحت الشعاع میں آنا چاہتا ہے، انسان کی یہ خصوصیت ثابت اور تغییر ناپذیر ہے اور اگر کسی شخص میں یہ خصوصیت ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں یہ خصوصیت بالکل نہیں جاتی ہے بلکہ یہ اختلال اس کے اندرونی پراکندگی کی وجہ سے ہے، ایسے لوگ مختلف اور گوناگون عوامل کے درمیان واقع ہوتے ہیں۔اور ان کی توانائیاں پراکندہ ہوچکی ہیں، نیز ان میں ایسی خصوصیات کو اظہار کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
لیکن وہ عناصر جو انسان کو اپنے جاذبہ میں لے سکتے ہیں ان میں ایک دین ہے کہ جو بدون شک ہر ایک سے اہم اور توانا ہے اور یہ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ اس میں دین خواہی اور خدا پرستی کی فطرت موجود ہوتی ہے اور دوسری طرف خود دین عظیم مفاہیم کا مجموعہ اور صاف و شفاف ماہیت کا حامل ہے، یہی وہ اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے دین انسان میں اس کی تہوں تک نفوذ کرجاتا ہے اور اسکی مرئی اور غیر مرئی تمام طاقتوں کو خود استعمال کرتا ہے۔ اس مسئلہ میں اسلام اور دوسرے ادیان میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن عیسائیت ایسی خصوصیت سے سرفراز نہیں ہے قرون وسطی میں عیسائیت نے اپنے ماننے والوں کو اسی طرح استعمال کیا جس طرح اسلام نے اپنے ماننے والوں کو استعمال تھا۔ ایک عیسائی مبلغ یا جنگجو اسی جوش و ولولہ کے ساتھ جاںفشانی کرتا تھا کہ جس طرح ایک مسلمان مبلغ یا مجاہد کرتا تھا لیکن اس دور میں اسلام کے علاوہ تمام ادیان نے اپنی اس روش میں تجدید اور اس کا رخ بدل دیا ہے، بہت سی حقیقتوں، عناصر اولیہ اور اصول سے چشم پوشی کرلی ہے، موجودہ عیسائیت قرون وسطی کی عیسائیت کے مقابلہ میں درست اور ایک ایسے دین میں ڈھل چکی ہے کہ جس میںاپنی محدودیت کی وجہ سے اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ گذشتہ ایام کی طرح اپنے چاہنے والوں کی توانائیوں کو اکٹھا کرسکے اور انھیں اپنی خدمت میں لے سکے۔
اور آج جو عیسائیوں میں ایام سابق کی طرح قدرت نہیں پائی جاتی تو یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہیں بلکہ اکثراس عیسائیت کے ضعف کی وجہ سے ہے جس کے وہ معتقد ہیں اس لئے آج کی عیسائیت میں وہ قدرت اور قاطعیت نہیں ہے جو ایام سابق میں تھی بلکہ اس قدرت کی حامل نہیں ہے کہ جس کا ہر مذہب محتاج ہوتا ہے،جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دین اپنی بقا یا کسی دوسرے بہانوں کی وجہ سے تمدن جدید، اس کی ضرورتوں اور اس کے اقتضائات کی وجہ سے بلکہ اپنے مادی معیاروں اور نظام مادی کی وجہ سے قدم بہ قدم پیچھے ہٹتا جارہا ہے اور اپنی حقیقت کو کھوبیٹھا ہے اور موجودہ صورت کے مطابق ہونے کی فکر میں ہے، یہ امر جس طرح بھی واقع ہو وہ اپنی بچی کچھی توانائی بھی کھو بیٹھے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے ماننے والوں اور اپنے عاشقوں کے درمیان تبدیلی لانا چاہتا ہے گا تاکہ اس کی راہ میں جانثاری کرے، آج کے دور میں عیسائیوں کا ضعف ان کے ایمان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس عیسائیت کے ضعف کی وجہ سے ہے کہ جو آج کلیسا کے ذریعہ تبلیغ کیا جارہا ہے۔
آج کے دور میں دوسرے ادیان اور خصوصا عیسائیت میں ایک بنیادی فرق یہی ہے۔ اسلام نے ایسے مختلف اسباب جو خود اس کی ماہیت سے مربوط ہیںاور ان کی وجہ سے دور حاضر میں اس راستہ کو نہیں انتخاب کیا جسے اپنا نے کے لئے دوسرے ادیان مجبور ہوئے او ر اسلا م ایسا کر بھی نہیں سکتا تھا، قرن حاضر کے متمد ن مسلمانوں نے بہت کوشش کی اور اس کی ماہیت سے چشم پوشی کرتے ہوئے آج بھی اسی انتخاب پر اصرار کررہے ہیں جسے دوسرے ادیان نے اپنالیا ہے۔ شاید یہی وہ اسباب ہیں کہ عصر حاضر میں جوانوں کے وہ اعتقادات نہیں ہیں جو ان کے آباء واجداد کے تھے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین نے زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصالت اور حقیقت، خلوص اور صراحت و قاطعیت، یقین اور تمامیت کی حفاظت کرنے کے بجائے سابق جاذبہ کو محفوط رکھا ہے اور ابھی اسی خلوص اور جاذبوں سے سرفراز ہے جن کا ایام سابق میں حامل تھا۔ جس طرح آج نسل جوان کو سیراب کررہا ہے اسی طرح قرون گذشتہ میں ان کے اسلاف کو سیراب اور انھیں استعمال کیا ہے۔
بہرحال ہماری بحث اسلام کے سلسلہ میں یہ تھی کہ اس میں اتنی قدرت ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی پوشیدہ قدرتوں کو آشکار کرے اور انھیں اپنا عاشق بنالے اور انھیں اپنے اہداف کی راہ میں اکٹھا طاقتوں کو اپنے اہداف و مقاصد کی ترقی میں استعمال کرے لیکن نکتہ یہاں پر ہے کہ جب بھی طاقتیں یہ پروان چڑھیں اور آشکار ہوئیں انھیں سیاسی و اجتماعی میدان میں ظاہر ہونے کا موقع نہیں مل سکا اور انحراف اورتعصب کا شکار ہوگئیں۔ اور پھر اس شی کے مقابلہ میں آجاتی ہیں جسے بدعت کا نام دیا جاتا ہے، جب احساسات اور عواطف جوش میں آتے ہیں تو عقل و منطق بیکار ہوجاتی ہے، اس صورت میں انسان بدعتوں کا مقابلہ کرکے دین سے متعلق اپنے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے موقع پر اس کے لئے یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ جس پر وہ حملہ کر رہا ہے وہ اس کا خونی بھائی ہے یا دینی بھائی،بلکہ اس کی نظر میں مدمقابل سے مقابلہ دین سے اخلاص کا ایک وسیلہ ہے اور اس کا یہ عمل دین و حق اور قرآن و پیغمبر کی نصرت کی مانند ہے، یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ سامنے والے کو منحرف سمجھ رہاہے اگرچہ اس کا انحراف ظنی یا وہمی ہی کیوں نہ ہو، اس کی کوشش رہتی ہے کے اس سے مقابلہ کرکے اپنی ایثار و قربانی کی آگ کو خاموش کرے اور پوشیدہ فداکاری کو آشکار کرسکے۔
اسلامی تاریخ میں اہل تسنن کے درمیان خونین جنگوں کے حوادث کم نہیں ہیں۔ مقام تعجب ہے کہ حنفی، شافعی۔
اہل حدیث یا غیر اہل حدیث کے درمیان شیعوں کی بہ نسبت خونین جنگوں کی کثرت ہے۔
یہاں تشیع یا غیر تشیع کا مسئلہ نہیں تھا۔ البتہ جس نکتہ کو ہم نے بیان کیا اس کے تحت اہل تسنن کے طرف سے شیعہ مخالف حرکتیں اور شیعوں کی طرف سے اہل سنت مخالف تحریکیں کہیں زیادہ وجود،میں آئی ہیں، اس لئے کہ شیعہ ہمیشہ سے اقلیت میں رہے ہیں اور اہل تسنن کی مانند فقہی و کلامی محدودیتوں کی وجہ سے اجتماعی و سیاسی تحریکوںاور انقلابی توانائیوں کو بروئے کار لانے نیز ان تحریکوں کے سہارے تبدیلیاں پیدا کرنے کی فکر میں نہیں تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کے نزدیک فقہی و کلامی مبانی اور مذہبی طرز تفکر نیزتاریخی تجربہ اس طرح نہیں تھے کہ جو اہل سنت کو دین سے خارج ہونے کا نام دے دیتے۔
بلکہ بنیادی مشکل یہ تھی کہ دینی خلوص کو ظاہر کرنے کے لئے بدعت کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا لیکن ہم نے اس بات کو بھی ذکر کردیا ہے کہ ان بدعتوں سے مقابلہ کیا جاتا تھا کہ جو حاکم وقت سے مربوط نہ ہوں۔ گویا بدعتوں سے مقابلہ نے دینی فدا کاری کے اصل و بنیاد کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا، اس لئے کہ اس کے اظہار کرنے کے تمام راستہ مسدود ہوچکے تھے، یعنی ''اپنے آپ کو دین کے عظیم اہداف کی راہ میں قربان کردینا'' اور اس طرح یہ بدعتوں سے مقابلہ کی صورت اختیار کرگیااور یہ ایسی حرکت تھی جو اب بھی باقی ہے۔
حاکم نظام کا طرز تفکر
ابھی تک جو کچھ بھی بیان ہوا ہے وہ شیعوں اور سنیوں کے قرن اول و دوم سے متعلق سیاسی نظریا ت کا سلسلہ تھا اور یہ کہ کس طرح اہلسنت کی فقہ اور ان کاکلام وجود میں آیا۔ اور اس اسلوب نے اسے تحقق بخشنے میں کیا کردار پیش کیا۔ لیکن بعد والی صدیوں میں یہ بنیادیں کیونکر واضح ہوئیں اور اس میں تبدیلیاں آئیں، یہ ایک مستقل موضوع ہے کہ جس پر روشنی ڈالے بغیر موجودہ صورتحال کے سلسلہ میں تحقیق نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ بالخصوص انھیں ادوار میں اہل تسنن کے اجتماعی، مذہبی اور نفسیاتی گروہ عملی طورپر وجود میں آئیاور انھیں ایام میں خلفاء بنی عباس کا دینی اور سیاسی طریقہ کار نہایت مؤثر اور یقین آور رہا ہے اگرچہ اہل سنت کے سیاسی اور فکری اصول خلفاء راشدین، بنی امیہ اور مخصوصا معاویہ کے دورمیں بنائے گئے تھے لیکن درحقیقت یہ بنی عباس تھے جنھوں نے اسے ایک خاص شکل میں پیش کیا اور اسے قطعی بنایا، انھیں دین کی ضرورت تھی اور اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے اور اپنی حکومت کو قوی و مضبوط بنانے اور اسے دوام و استمرار عطا کرنے کے لئے ممکن حدتک اس سے استفادہ بھی کرتے تھے۔
اسلامی علوم، فقہ، حدیث، تفسیر، کلام، رجال اور تاریخ کی تدوین و نشر اشاعت کی بازگشت بھی انھیں کے دور میں ہوتی ہے لہٰذا ان کی عمومی سیاست کی وجہ سے یہ امر طبیعی تھا کہ یہ مسئلہ ان کے مصالح و منافع کے زیراثر قرار پائے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی یہاں تک کہ اہل سنت کی فقہ اور کلام اس دور کے معاشرہ پر حاکم نظام سے وابستہ ہوگئے اور انجام یہ ہوا کہ یہ ایک موجودہ نظام کی آئیڈیالوجی نے اسے توجیہ کرنے اور اسے مشروع بنانے کی شکل اختیار کر لی۔
اور جب عباسی خلافت کا قلع قمع ہوگیا اور اس کی بنیاد گرگئی تو اس کے بعد بھی یہ پیوند باقی رہا اور صاحبان قدرت کی خدمت کا مقام بنا۔
اس نکتہ کی مزید توضیح ضروری ہے۔ درحقیقت واقعیت یہ ہے کہ عباسی خلفاء اپنی خلافت اور قدرت کو مضبوط بنانے کے لئے سابق خلفاء سے کہیں زیادہ دین کے محتاج تھے، امویوں کے دور میں اسلامی معاشرہ عباسیوں کے دور سے کہیں زیادہ منسجم اور متحد تھا اس کے علاوہ جدید مسلمان امویوں کے دور میں نظام جدید سے مرعوب اور ایک ایسی قدرت کے سامنے تسلیم تھے جس نے ان شکست خوردہ ممالک کے سلاطین کے تختہ الٹ دیا تھا، وہ تازہ مسلمان یا تو ان گذشتہ حوادث کا نظارہ کررہے تھے یا عربوں کے رقیب یا عرب نسل لوگوں کی خادم بنے ہوئے تھے جو قدرت کی خاطر کھڑے ہوئے تھے، ان کے درک کرنے کے لئے سالہا سال درکار تھے پھر کہیں وہ مؤثر اور فعال انداز میں سیاسی اور اجتماعی بلکہ دینی اور ثقافتی مسائل میں شرکت کرسکتے تھے۔
یہاں تک کہ امویوں کی مدت تمام ہونے لگی یعنی غیر عرب مسلمانوں نے اسلامی معاشرہ میں قدم رکھ دیا جس کا انجام یہ ہوا کہ اموی شان و شوکت کی نابودی کے اسباب فراہم ہوگئے اس کے علاوہ متعد د گروہ اس میدان میں سامنے آگئے اور اس کے تمام جوانب کو مضبوظ بنادیا دوسرا مسئلہ جدید افواج کی موجودگی تھی جو سیاسی نعرہ لگا رہی تھیں بلکہ اسے دینی اور ثقافتی جنبہ بھی حاصل تھا جس کی بناپر کثرت سے مثبت نتائج کے باوجود سیاسی اور اجتماعی پراکندگی میں اضافہ ہوا۔
انھیں اسباب و علل کی وجہ سے امویوں کے مقابلہ میں عبا سیوں کا اقتدار زیادہ پائیدار ہوا۔
یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ عباسی خلفاء امویوں کے مقابلہ میں نالائق یا شدت پسند تھے بلکہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے تھا، عباسیوں کا دور ایسا نہیں تھا کہ جس میں امویوں کی سیاست کو باقی رکھا جاتا اور اگر یہی اموی عباسیوں کے دور میں ہوتے تو اسی سیاست کو اپناتے جسے عباسیوں نے اپنایا تھا۔ اور انھیں جیسی قدرت کے مالک بھی ہوتے۔
اس مقام پر جو نکتہ قابل اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ ان شرائط نے اہل سنت کی فقہ و کلام پر خصوصاً ان ایام میں اپنا اثر چھوڑ دیا اور اسے رونق مل گئی یعنی خلیفہ کا فوجی قدرت میں ضعیف ہونا اس بات کا باعث ہوا کہ اس کی قدرت کو محکم بنانے کے لئے دین کا سہارا لیا جائے، درحقیقت دین اس قدرت کا قائم مقام بن گیا جسے تلوار کے زور پر حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیںہے کہ اہل سنت کے تمام وہ علما جنھوں نے ایسے امور انجام دیئے ہیں خلیفہ کے حکم کے تابع تھے یا کسی اور منفعت کی خاطر انجام دیا ہو، بلکہ ان لوگوں کے درمیان ایسے علما بھی تھے جنھوں نے دین کی حفاظت اور لوگوں کی سلامتی کے لئے اسی طریقہ کا انتخاب کیا تھا، اس دور میں ان لوگوں کے لئے اس بحرانی اور کشمکش کے دور میں جو مسئلہ سب سے زیادہ اہم تھا وہ اسلام کی ایک قوی مرکزیت اور دین کی حفاظت کرنے والوں اور دیگر لوگوں کی جان ومال کی محافظت تھی، جبکہ حاکم ایسی مرکزیت کو تن تنہا ایجاد نہیں کرسکتا لہٰذا دین سے مدد لینا مسلم تھا اس لئے کہ اسی کی مدد سے ایسی مرکزیت ایجاد کی جاسکتی تھی۔
اس طرح دین ایک آئیڈیالوجی کی شکل میں آگیا۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین سماج اور حکومت کو چلانے میں موجودہ نظام کے آئیڈیالوجی کی ضرورتوں کے پیش نظر جواب گو ہو بلکہ بیشتر ایک پشت پناہ کی حیثیت سے تھا جو کم و کاست اور ضعف کی تلافی کرسکے، البتہ یہ تلافی اس وقت ممکن تھی کہ جب موجودہ نظام میں ظاہری اعتبار سے سہی شرع کی رعایت کرے، یہاں اس بات کا امکان نہیں تھا کہ لوگوں کو اعتقادی اعتبار سے حاکم کے مقابلہ میں قیام کا حکم دیا جاتا اور وہ دین کا دفاع کے عنوان لے کر اُٹھ کھڑے ہوتے، جبکہ یہ نظام کلی طورپر اس کے ظواہر سے بے پرواہ تھا۔
جدید اعتراضات
اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ ہارون کے بعد عباسی خلفاء فوجی اعتبار سے کسی ضعف کے شکار نہیں تھے اہل سنت کی فقہ و کلام کی جب بازگشت سیاسی و حکومتی مسائل کی طرف ہوتی ہے تو اس کی شکل بدل جاتی تھی، یہ موضوع ہم عصر زمانے سے پہلے تک اہل سنت کی طرف سے کسی اعتراض کا باعث نہیں بنا لیکن ان آخری سالوں بالخصوص آخری دہائیوں میں بہت سارے اعتراضات کا باعث ہوا اور اب ان کے مظاہر کا سیاسی اور انقلابی گروہوں کے نوشتوں اور مصر، شمالی افریقا اور بعض عرب کے اسلامی ممالک میں موجود گروہوں میں خوا ہ اسلامی گروہ ہو یا غیر اسلامی سراغ ملتا ہے۔
لیکن شیعہ طرزفکر نے شروع ہی سے ایسی کوئی راہ طے نہیں کی، اس لئے کہ اس کے اصول اس طرح نہیں تھے کہ جو موجودہ حاکم نظام حتیٰ جہاں پر شیعی حکومتیں برقرار تھیں، بدل جاتے۔ جب موجودہ نظام کی مشروعیت ان اصول وقوائد کی بنیاد پر ہو جو اس کے شرائط کے مطابق تھے، ایسی صورت میں یہ آئیڈیالوجی موجودہ نظام کی آئیڈیالوجی سے تبدیل نہیں ہوسکتی اور اپنے آپ کو اسکی توجیہ میں استعمال کرے۔ اہل سنت کے دینی نظریات کے نظری اصول و مبانی کچھ اس طرح تھے کہ جو موجودہ صورتحال کو مشروع دکھانے اور اس کی توجیہ کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں رکھتے تھے۔
یہ اس وجہ سے تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان نظری اور اعتقادی اصول و مبانی تاریخی اور سیاسی واقعیتوں کے تحت تاثیر واقع ہوئے ہیں بالخصوص اس جگہ جہاں صدرا سلام کی طرف بازگشت ہورہی ہو تشکیل پائی اور پروان چڑھی ہو یا بعبارت دیگر یہاں پر ایڈیولوجی اس سے ماخوذ واقعیت کی فرع تھی۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ا شارہ کیا ہے کہ اہل سنت مسئلہ امامت اور رہبری میں شیعوں کے بر خلاف کہ جو پہلے ہی مرحلہ میں شان نہیں بلکہ ذی شان کی دریافت کرتے اور اس کے بعد اس کی تفسیر کرتے ہیں، ان لوگوں کی نظر میں مخصوصا وہ مسائل جو صدراسلام میں واقع ہوئے ہیں وہ مشروعیت اور حقانیت رکھتے تھے، لہذا یہ ایک حقیقت تھی کہ وہ ان کی تعریفیں بھی انھیں کے دائرے میں کریںاور دوسرے یہ کہ وہ لوگ دین کی حفاظت حکومت اور اس کے حکومتی نظام کے سایہ میں ممکن سمجھتے تھے۔
اور چونکہ انھوں نے اس مسئلہ کو ایک اصل کے عنوان سے قبول کیا تھا لہذا اسے توجیہ کرنے اور اس کی مشروعیت کو ثابت کرنے کی کوشش میںلگے رہتے تھے۔ ان کے افکار و اذہان ابتدا ہی سے اسی قالب میں ڈھلے اور رچے بسے تھے نیز انکی نظر میں اصحاب، تابعین اور ان کے بعد آنے والے علما کاا جماع، قرآنی نصوص اور سیرہ نبوی بھی اسی کی تائید کرتی تھی۔
یہاں اہم یہ نہیں تھا کہ انھوں نے ایسی اصل کو قبول کرلیا ہے اور اس طرح ان کے اذہان سوچنے لگے ہیں۔ بلکہ قابل اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اسے اسلامی تعلیمات اور دینی دستورات کے عنوان سے ایک جزو سمجھ لیا تھا، لہٰذا وہ لوگ اس کی اس طرح تفسیر کرتے تھے۔ اور یہ مسلم ہے کہ ان کے درمیان ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو دنیا دوستی، سوئے استفادہاور حکام سے نزدیک ہونے کے لئے اسے قبول کرتے اور اس کی ترویج کرتے تھے لیکن انھیں کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے مخصوص دلائل کی بنیاد پر جس کا ذکر آئے گا قبول کرلیا تھا۔
بہر حال یہ مبانی شیعوں کے نزدیک ایک دوسری شکل میں تھے جو اپنے ضوابط، معیار اور اپنی اقدار کے علاوہ کسی دوسرے اعتبار سے فکر نہیںکیا اور تسلیم نہیں ہوئے یعنی دین کی حفاظت کا تنہا راستہ موجودہ صورت حال کو بدل دینے اور حاکم کی قدرت کو کمزور بنانے نیز جس طرح اہل سنت حاکم کی قدرت بڑھانے کے قائل تھے نہیں سمجھتے تھے، بلکہ تاریخی ادوار کے بعض دور میں اس کے برخلاف عمل کیا اور اعتقاد رکھا ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ صورت کو اسی صورت میں قبول کرتے تھے جب وہ ان کے اصول و قواعد کی بنیاد پر ہوں یا اس کے شرائط اس طرح ہوں کہ جب دین کی حفاظت اور حراست موجودہ نظام کی عدم مخالفت پر منحصر ہو، ایسی صورت میں نہ تو اسے رسمی طورپر قبول کرتے تھے اور نہ ہی اس کے مقابل قیام کرتے تھے۔
ان دو اصول و مبانی کے درمیان موجود تفاوت شاید پہلی نظر میں چنداں اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن دور جدید کے بدلتے حالات نے اپنی اہمیت کو آشکار کردیا ہے اہل سنت کی حکومت میں دور حاضر کی اسلامی تحریک کی نظری مشکلات اور ان مشکلا ت کا شیعوں میں نہ ہونا اسی تفاوت کا نتیجہ ہے جس طرح سے نئی نسل کی تنقیدوں کے مقابل اہلسنت کی محفلوں کا معنی دار سکوت اسلام کی حمایت کے پیش نظر تھا اور ان کے توسط سے کی گئی تفسیر کے کیوں گذشتہ اور حال میں فاسق و فاجر حکام کی حمایت کرتا رہا ہے اور آج بھی کرتا ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
اگرچہ بعض روشن فکر شیعہ حضرات وہ خواہ ایران میں ہوں یا دوسرے ممالک میں انھوں نے تقریبا ایسے ہی اعتراضات شیعہ علما پر وارد کئے ہیں، لیکن یہاں پر معاملہ اور اس کے اسباب و علل کچھ اور تھے لہٰذاقابل حل تھا۔ اگرچہ ایام سابق میں شیعہ علما شیعہ حکام کے درباروں میں حاضر ہوئے ہیں، جس کی ایک خاص اور بعنوان ثانوی علت تھی کہ اس زمانے میں شیعیت کے علاوہ قدرت کو مضبوط کرنے کے لئے صرف شیعی ہی مرکزیت تھی نہ اس لئے کہ وہ انھیں مشروع یا اسے واجب الاطاعہ فرض کرتے ہوں، اس لئے کہ مذہب حقہ کے دفاع اور ضروری مصلحتوں نے انھیں وقتی طور پر ایسی موقعیت کو اپنانے کے لئے مجبور کردیا تھا۔ اس کے علاوہ دورحاضر میں ایسے کوئی شرائط مہیا نہیں تھے لہذا دین کی حمایت میں حکام کے مقابلہ پر مجبور ہوگئے لہٰذاان کے خلاف قیام کیا، خواہ وہ حکام شیعہ ہی کیوں نہ ہوں انھوں نے دین کی مصلحت کے مطابق وہی کیا جو کرنا چاہئے تھا۔
شیعہ کا موقف
بہر حال طول تاریخ میںبادشاہوں کے دربار میں شیعہ اور سنی علما کا حضور مکمل طورپر علل و اسباب کی تبعیت میں متفاوت ہے۔ ایک شیعہ عالم کسی بھی حال میں ایسے حاکم اور اس کے حاکمانہ نظام کو قبول نہیں کرسکتا تھا کہ جس نے ناجائز طریقہ سے قدرت حاصل کی ہو اور دین و شرع کے مخالف طرز عمل ہو۔ اور اگر کبھی اس کی حمایت اور تائید کیلئے مجبور ہوجاتا تھا تو وہ بھی ایک خاص دلیل اور ایک امر ثانوی کی وجہ سے تھا۔
لیکن ایک سنی عالم دین کے لئے ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں تھی، اس کی نظر میں حاکم چونکہ ایک حاکم ہے اور قدرت و حکومت اسی کے ہاتھ میں ہے لہذا مشروع اور اس کی اطاعت واجب ہے یا کم از کم اس کی نظر میں اس کے خلاف قیام کرنا یا اس کی مخالفت کرنا حرام ہے اور اگر ادوار گذشتہ میں بعض علما نے حاکم کو ایک حاکم ہونے کی وجہ سے اس کے واجب الاطاعت ہونے میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے تو اسی کے بالمقابل ان کے نزدیک یہ بھی مسلم ہے کہ ایک حاکم کے مقابلہ میں قیام کرنا حرام قرار دیا گیا۔
البتہ یہ بھی مسلم ہے کہ اخلاقی عوامل بھی اہل سنت کے علما اور متقی و پرہیزگار فقہا کے لئے بادشاہ کے تقرب میں مانع ہوئے ہیں، چونکہ حکومت و سلطنت عموما دنیا پرستی، عیش ونوش، ظلم و تعدی اور آخرت و قیامت سے غفلت کے ہمراہ ہوتی ہے لہٰذا اس سے دوری اختیار کی۔ چنانچہ وہ لوگ بھی جو اس طرح کی زندگی گذاررہے تھے وہ بھی ان سے دوری اختیار کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ یہ روش کسی اعتقاد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی پہلو ہے۔ درحقیقت ان سے دوری اختیار کرنا دنیا اور دنیا پرستی سے پرہیز علما اہلسنت کے نزدیک ممدوح اور مطلوب تھا۔ ان لوگوں نے اس مسئلہ میں اسی موضوع کے تحت احادیث یعنی سلاطین سے دوری کو اپنے لئے نصب العین قرار دیا تھا۔
مذکورہ بالا نکات کے مدنظر اب اس مسئلہ کے تحت بحث کریں گے کہ کیوں بعض علما اہل تشیع اپنے دور بلکہ آئندہ ادوار میں ممتاز موقعیت کے مالک ہوتے ہوئے بھی سلاطین کے دربار میں حاضر ہوئے۔ اور عملی طورپر صفویوں کے دور میں اکثر علما ایسے ہی تھے۔
اس مسئلہ کی دلیل اس دور میں سیاسی حالات اور نیز عثمانیوں اور صفویوں کے درمیان دائمی کشمکش ہے۔ عثمانیوں یعنی صفویوں کے دشمن شیعہ تھے۔ لہٰذا یہ ان کے فائدہ میں تھا کہ تشیع کو اسلام سے خارج اور اسلام سے ناآشنا اور اس کے مخالف ہونے کے عنوان سے متعارف کرائیں، وہ لوگ اس کے ذریعہ عوام کی حمایتوں اور انھیں ان کے خلاف بھڑکانے کے مالک ہوئے۔ انھیںدین کا دفاع کرنے اور اخروی درجات سے بہر ہ مند ہونے کے لئے میدان جنگ میں کھینچا اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔
لیکن اہم تو یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے دشمنوںکے خلاف ابھارنا تنہا صفویوں کے خلاف نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا بلکہ ان کی مملکت میں رہنے والے شیعوں کو بھی شامل تھااور یہی وہ علت تھی کہ ان کی سلطنت میں رہنے والے شیعہ ہمیشہ قتل وغارت گری ذہنی دباؤ اور اذیت کا شکار رہے بلکہ بعض اوقات یہ قتل عام اس قدر وسیع تھا کہ بعض مناطق سے شیعوں کا نام و نشان تک مٹ گیا بطور مثال جب سلطان سلیم اول نے اپنے باپ سلطان بایزید ثانی کی بادشاہت چھین لی اور اس کے بھائیوں کو قتل کرکے تخت سلطنت پر بیٹھ گیا تو اس نے سب سے پہلے چالیس ہزار شیعوں کے قتل عام کا حکم جاری کیا۔
درحقیقت ان دونوں کے درمیان سیاسی رقابت دینی رقابت اور دشمنی کا موجب ہوگئی۔ اور واقعیت تو یہ ہے کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ ان دونوں نے سیاسی رقابت بڑھانے میں ایک جیسا کردار اد اکیا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین کے نام پر جنگ و جدال کی آگ بھڑکانے میں صفویوں سے کہیں زیادہ عثمانی پیش پیش رہے ہیں اس لئے کہ صفوی شیعہ تھیاور شیعوں نے کبھی بھی اہل سنت کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جس کی وجہ سے ان کے مقابلہ میں کبھی قیام بھی نہیں کیا۔
لیکن اس کے برخلاف متعدد دلائل کی وجہ سے صحیح ہے کہ جس کی یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نہیںہے۔ اہل سنت اکثر و بیشتر ہوا ہے کہ خود فروش، دنیا پرستاور مزدور علما یا ظالم و سفاک حاکم کے بھڑکانے پر شیعوں کے خلاف اقدام کیا ہے، یہاں بھی مسئلہ یہی تھا عثمانی سلاطین اسی ذہنیت اور سوابق کے پیش نظر بآسانی ان کی حکومت میں رہنے والے شیعوں کے خلاف انھیں ابھار دیا لیکن اس کے نتیجہ میں سامنے آنے والے نقصانات ان کی توقع سے کہیں زیادہ اور طولانی تھے جس کی تمام محرکین اور سلطان کو امید تھی۔