شیعہ علما اور صفوی سلاطین
ایسے حالات میں فطری طورپر علما تشیع مجبور تھے کہ وہ تشیع کے واحد مرکز کے دفاع میں سلطان وقت کی خدمت میں رہیں۔
تا کہ اس کے ذریعہ ایسی قدرت کو جو مسلسل گوناگون رقیبوں اور مختلف دباؤ کا شکار تھی کا تحفظ کریں اور اس کی حفاظت اور مرکزیت اور شان و چوکت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک مانع بنیں وہ بھی عثمان کی حکومت میں ہونے والے بے رحمانہ قتل عام کے مقابل کیوں کہ ان کی طاقت روکنے والا ایک عامل تھا عثمانی شیعوں کی ہتک حرمت اور ان کے قتل و غارت ہونے کے لئے ان بحرانی ایام میں شیعوں کی سرنوشت خواہ ایران کے اندر ہو یا باہر اس درجہ صفویوں کی قدرت اور قوت سے وابستہ ہوئی کہ ان کے تحفظ کے لئے ان کی تقویت کرنے کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس بحث کو اس دور کے تاریخی حالات کی عکاسی کرنے والے نمونوں پر ختم کریں گے۔
سلطان مراد چہارم (۱۰۳۲۔ ۱۰۴۹ ق) کہ جو اس وقت صفویوں کے قبضہ میں تھا اس نے خواہش کی اور اس نے اپنے ہدف کو پانے کے لئے ایران سے جنگ کے لئے آمادہ ہوگیا، لیکن اسے یہ نکتہ خوب معلوم تھا کہ وہ اتنی آسانی سے صفویوں کو شکست نہیں دے سکتا لہذا اس نے قبائلی اور مذہبی فتنہ کو ہوا دینے کی ٹھان لی اور علما سے شیعوں کے خلاف جنگ کا فتوا طلب کیا لیکن علما اہل تسنن نے ایسا فتوا دینے سے انکار کردیا لیکن ایک نوح آفندی مقامی جوان اس کے لئے، تیار ہوگیا اور اس نے ویسا ہی فتوا دیا جیسا سلطان مراد نے چاہاتھا۔ ''جو بھی ایک شیعہ کو قتل کرے اس پر جنت واجب ہے۔
اس فتوا کا ایک دوسرا حصہ یہ ہے کہ: خدا آپ کواس گروہ کے مقابل سعادتمند بنائے جو کافر، باغی، فاجر، جنھوں نے ہر قسم کا عناد، فسق، زندقہ، الحاداور کفر و عصیان کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے اور جو بھی ان کے کافر، ملحد ہونے، وجوب قتالاور انھیں قتل کرنے جواز میں تامل کرے وہ بھی انھیں کی طرح کافر ہوگا۔ اور پھر اس طرح کہتا ہے: انھیں قتل کرنے کا جواز ان کا باغی اور کافر ہونا ہے، وہ اس لئے باغی ہیں کہ وہ خلیفہ، خلدہ اللہ تعالی ملکہ، کی اطاعت سے قیامت تک کے لئے خارج ہوگئے ہیں اور خدا فرماتا ہے: سرکشوں اور اطاعت نہ کرنے والوں سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ وہ حکم خدا کے سامنے تسلیم نہ ہوجائیں اور یہاں پر امر وجوب کے لئے ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جو صیغہ استعمال ہوا ہے اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے لہٰذا سزاوار ہے کہ جب خلیفہ ایسے باغی اور طاغی گروہ سے جنگ کرنے کی دعوت دے جسے زبان رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے کافر اور ملعون کہا گیا ہے اس کی آواز پر لبیک کہو بلکہ ان پر واجب ہے کہ اس کی نصرت کریں اور اس کے ہمراہ ان سے جنگ کرنے کے لئے قیام کریں اور آخر میں اس طرح اضافہ کرتا ہے: ''لہٰذا ایسے کافر اشرار کا قتل کرنا واجب ہے چاہے توبہ کریں یا نہ کریں نیز جزیہ لے کر یا موقت امان یا دائم امان دے ان کے قتل سے بازآنا جائز نہیں ہے نیز ان کی عورتوں کو کنیز بنانا جائز ہے کیونکہ مرتد کی بیوی کو جو دارالحرب میں ہیں جہاں کہیں بھی ہوں امام یا برحق خلیفہ کی حکومت سے باہر ہے تو انھیں کنیزی میں لینا جائز ہے، اس لئے کہ دارالحرب کے علاوہ جہاں بھی وہ ہیں وہ بھی دارالحرب کی مانند ہے۔ اسی طرح ان کے بچوں کو غلامی میں لینا ان کی ماؤں کے ہمراہ جائز ہے۔''
یہی فتوا ایک ایسی جنگ کا باعث ہوا اور سات ماہ تک طولانی جنگ ہوتی رہی اور دونوں طرف سے ہزاروں کے قتل عام کا موجب بنا یہاں تک کہ یہ جنگ ۱۷رجب ۱۰۴۸ سے ۳محرم ۱۰۴۹تک جاری رہنے کے بعد ایران اور عثمانی کے درمیان مقام شہر قصر شیرین پر معاہدۂ صلح کے ذریعہ تمام ہوئی۔
اس جنگ کے تمام ہونے کے بعد اسی فتوا کی بنیاد پر عثمانی حکومت میں رہنے والے شیعوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی، جس میں جہاں تک چاہا قتل عام کیا، ان میں بدترین اور ہولناک قتل عام شہر حلب کے شیعوں کا تھا اس لئے کہ یہ شہر حمدانیوں کے دور سے شیعہ نشین رہا ہے، یہ قتل عام اس قدر دردناک اور وسیع پیمانہ پر تھا کہ ان کی کثیر تعداد قتل کردی گئی اور جو لوگ آس پاس کے گاؤں میں فرار کرگئے صرف انھیں کی جانیں محفوظ رہ گئیں، اس جنگ میں تنہا شہر حلب میں چالیس ہزار شیعہ شہید ہوئے کہ جن میں ہزاروں کی تعداد میں سادات تھے۔ نجف کے عالم بزرگ سید شرف الدین علی ابن حجة اللہ شولستانی نے اس قتل عام کے خلاف ایرا ن میں فتوا صادر کیا تاکہ اس ہولناک قتل عام سے روکا جاسکے۔
شیعوں کی گوشہ نشینی اور اس کے نتائج
اس مقام پر اس نکتہ کی یاد دہانی ضروری ہے کہ اہل تسنن کے مقابلہ میں شیعہ ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔ اہل تسنن کے سماج میں ایک اقلیت کی صورت میں انھیں کے درمیان اپنا گذر اوقات کرتے تھے حتی وہ مقامات کہ جہاں وہ اکثریت میں تھے اور قدرت بھی انھیں کے ہاتھ میں تھی، اپنے ہمسایوں کے درمیان ایک جزیرہ کی مانند زندگی گذاری ہے۔ شیعوں کی گوشہ نشینی مخصوصا ایران میں جب شیعہ سلاطین نے قدرت سنبھالی، تو ایران سے خارج دنیائے اسلام کے مذہبی سماج سے قطع رابطہ کا باعث بنی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران کا داخلی سماج پہلے سے زیادہ دیگر سماجوں سے دور ہوتا گیا اور جب اسلامی ممالک مخصوصا شیعی حکومتوں کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی تو ایرانی معاشرہ اپنی اصالت کے تحفظ کی خاطر اپنے ہی دائرے میں محدود ہوگیا۔
اگرچہ یہی صورتحال اہل تسنن کے درمیان بھی مشاہدہ کی جاسکتی ہے لیکن اہل تسنن کی گوشہ نشینی شدت اور عمق کے لحاظ سے شیعوں کے برابر کبھی بھی نہ رہی ہیاور اس تفاوت کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے آثار ان دو گروہوں کی فرہنگی، سیاسیاور اسلامی افکار، مخصوصا علما اور دینی مفکرین جو رسالت کے دفاع کی ذمہ داری لئے ہوئے تھے اس خاص گروہ کے درمیان بخوبی قابل دید ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ شیعوں کے درمیان اسلامی تفکراہل سنت سے کہیں زیادہ محکم، اصیل اور پائدار ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سنی مفکرین کا وسیع پیمانہ پر تمدن جدید سے تعلق رکھنے کی بنا پر ہے کیونکہ ان کے درمیان ہم عصر مفکرین کی شیعوں کی نسبت تعداد زیادہ ہے لہٰذا ان کا طرزتفکر بھی زیادہ عینی غیر انتزاعی ہے سنیوں کے درمیان اصلاح طلبی اور تجدد خواہی جیسے تفکرات کی تاریخ کا طولانی ہونا احتمالا انھیں اسباب کا نتیجہ ہے، جب یہ مسلم ہوجائے کہ اپنی حقیقت و اصالت کی برقراری ماضی پر افسوس کرنے، اجنبی اور بیگانوں کو بدون چون و چرا دور کرنے کے ہم پلہ ہے تو اس صورت میں اصلاح اور تجدد کا کوئی امکان باقی نہیں رہ سکتا، ایسے تفکرات دین اور دینی اصول و مبانی سے آنے کے بجائے زیادہ تر خلوت طلب شیعوں کے تاریخی تجربہ اور شیعہ مذہبی سماج سے پیدا ہوئے ہیں۔
البتہ شیعوں کی کنارہ کشی اور دور رہنے کے اسباب کم از کم ایران میں متعدد ہیں۔ شیعی گروہوں اور جماعتوں کا دیگر مذہبی تشکیلات سے ارتباط نہ رکھنا، نیز موجودہ حاکم سیاسی قدرت نے اس میں ایک دوسرے عنوان سے شدت پیدا کردی اور اس گوشہ نشینی پر مجبور کیا۔ ان دونوں کے آپس میں ارتباط نہ رکھنے نے جدید تاریخ میں اجنبیوں اور جدید فرہنگ کے اثر و رسوخ کی زیادتی انھیں کے مقابل تھی کیونکہ استعماری سابقہ نہیں رکھتا تھا اور جدید فرہنگ اور تفکر کہ جو عملی طورپر اسی حاکم قدرت اور ان کے پٹھوں اور بہی خواہوں کے ذریعہ سماج میں داخل ہوگئی لہٰذا ان دونوں کا مقابلہ مذہبی سما ج اور جدید کلچر و تہذیب کے عنوان سے انجام پایا لہٰذا اس تہذیب و ثقافت نے بھی خود کو مذہبیوں کے قالب میں استعمار، فائدہ طلبی اور فساد اور بے دینی سوا کچھ ظاہر نہیں کیا لہٰذا انھوں نے اس سے کلی طورپر احتراز ہی میںعافیت سمجھی لہٰذا اپنے آپ کو سمیٹ کر شور و غل سے دوراپنے معاشرہ کو سمیٹنے کی کوشش کی تاکہ اپنی اور اپنی اولاد کی حفاظت کریںقوی احتمال کی بنیاد پر ایسے حالات اور شرائط میں کوئی قدم اٹھانا نہ مناسب تھا اور نہ ہی مفید۔
لیکن سنیوں کے مذہبی سماج کا جدید فرہنگ سے تعلق ایسا نہیں تھا چونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا اس سماج سے گہرا لگاؤ اور ان پر حاکم سیاسی قدرت نے کم و بیش انھیں افکار اور تغیرات کے روبرو کردیا تھا تاکہ جس سے حاکم نظام دوچار تھا، دوسرے یہ کہ ان کا جدید فرہنگ سے ڈائریکٹ رابطہ تھا۔ سنیوں کا تمام معاشرہ، ہند سے لے کر مشرق وسطی اور شمالی افریقا تک استعمار گروں کے زیراثر تھا، وہ لوگ تمدن جدید کی تمام خصوصیت کو اس کے تمام ابعاد و جوانب کے ہمراہ اپنی اولاد کی صورت میں مشاہدہ کرتے تھے۔ لیکن ایران میں اس کے نمونے عمومی طورپر بلکہ کلی طورپر ایک کم ظرف اور خود باختہ انسان تھے جو نہ انھیں پہچانتے تھے اور نہ ہی ایسی شناخت کی فکر میں تھے۔ ان کا اس سے تمسک کی اصلی غرض اخلاقی، اجتماعیاور دینی قیود سے فرار کرنا تھا یعنی اسے اپنے لئے ایک امتیاز اور تشخص کا ذریعہ اور لوگوں پر برتری جتانے کا وسیلہ بنالیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تاریخ معاصر میںسنی اور شیعہ سماج کادور بالکل مختلف رہا ہے، ان دونوں نے تمدن جدید اور جدید فکر و فرہنگ کو دو متفاوت صورت میں مشاہدہ کیا تھا اور ان دونوں نے فرہنگ و تمدن نیز نئے افکار کا دو طرح سے تجربہ کیا تھا لہٰذا اس فرہنگ نے بھی ان پر دو الگ عنوان سے حکومت کی اور اپنے زیراثر رکھا درحقیقت یہ دو تجربوں کے وارث اور دو تغیرات کے فرزند ہیں، ان دونوں کی دینی حالت مخصوصا موجودہ صورتحال ان کی اسلامی تحریک کے سلسلہ میں تحقیق آخری نکتہ کو مدنظر رکھے بغیر نا ممکن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب تک جو کچھ اہل سنت اور اہل تشیع کے سیاسی مبانی کے سلسلہ میں وضاحت دی گئی ہے ان میں اسلامی تحریکوں کا کیا حال تھا، ان میں کیا فرق تھا اور ان کے اسباب کیا تھے۔
دباؤ اور نئی ضرورتیں
واقعیت تو یہ ہے کہ شیعہ حکومت میں اسلامی تحریک کسی خاص نظریات مشکل سے روبرو نہیں تھی اعتقادی اصول، فقہی قواعد، تاریخی تجربہ سے حاصل شدہاور نفسیاتی اور اجتماعی ڈھانچے اس طرح نہیں تھے کہ جو تاریخ جدید کے سیاسی اور انقلابی تقاضوں کے تحت اسلامی جواب حاصل کرنے کے لئے سیاسی اور انقلابی اقدامات پر مبنی ہوں شیعوں میں اتنی طاقت تھی کہ وہ علماے دین کی رہبری اور اپنے دینی تفکرات کے سایہ میں ظالم اور وابستہ حکمرانوں کے مقابلہ میں کھڑے ہوجائیںاور اس کی نابودی تک اس کا مقابلہ کریں، یہ صورت حال ذخائر کے مالک ممالک کی نفسیاتی، فرہنگی، اخلاقی آثار اور آخری دہائیوں میں اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی تحولات و تغیرات سے موافق ہونے اور اس کے مواہب سے مالامال ہونے کی وجہ سے تھی۔ یہاں تنہا مسئلہ یہ نہ تھا کہ دین اور اس کے اقدار کی حفاظت کی خاطر ان حکام سے مقابلہ کیا جائے جو انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتے یا اس کے مخالف ہیں۔ جیساکہ ہم پچاس یا سوسال پہلے تک شاہد رہے ہیں، آخری دہائیوں میں اسلامی تحریکیں تنہا دوآخری دہائیوں کے علاوہ صرف اس وجہ سے وجود میں آئی تھیں کہ حکومت وقت جو دینی مصلحتوں کو مدنظر رکھے بغیر اقدامات انجام دیتی اور من مانی کرتی تھی کا مقابلہ کیا جاسکے، بلکہ اہم تو یہ تھا کہ ایسے مبارزہ اپنے آخری ہدف پر نظر کئے بغیر موضوع رکھتے تھے۔ یہاںیہ اہم نہ تھا کہ دین سے دفاع اور فاسد نظام کو صحیح بنانے کے لئے ان کا مقابلہ کرنا چاہئے، بلکہ مہم یہ تھا کہ مختلف تحولات و تغیرات اور سماج میں مختلف پارٹیوں کا سیاسی اور انقلابی اقدامات انجام دینا جوانوں اور مسلمانوں کے ذہن میں ایک ایسی فضا بنا رہا ہے کہ جس کے پیش نظر اسلامی اصول کے مطابق ایک روش کا انقلابی اور جہادی ہونے کے ساتھ ساتھ وجود میں آنا ضروری تھا۔ اس لئے کہ اس راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا پیاسی روحیں، دین خواہ، عدالت پسند جوان جو اپنے اندر ایک مبارزہ طلب اور عدالت خواہ نظریہ سے بُھن رہے تھے سیراب ہوجائیں نیز وہ لوگ اس درجہ پیاسے اور پریشان تھے کہ اگر خدا نخواستہ اسلام میں اپنا جواب نہیں پاتے تو کسی دوسرے مکتب کی طرف چلے جاتے تھے لہٰذا دین اپنے فرزندوں کے تحفظ کے لئے مجبور تھا کہ انقلابی اور مبارزانہ نظریہ پیش کرے۔
جیسا کہ ہم نے اس بات کو بیان کردیاہے کہ شیعی تفکر اور اسکے تاریخی تجربہ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اپنے اندر کسی تغیر و اصلاح کے بغیر اس احتیاج کا جوا ب دے یا اس احتیاج کو پورا کرنے کے لئے وہ خلاف اجماع کوئی عمل انجام دے یا اپنی ظرفیت سے بڑھ کر توجیہوں اور وسیلوں کا سہارا لے، مخصوصا واقعہ عاشورا لوگوں کے خون، احساسات اور عواطف سے خمیر ہوچکا تھا۔ جس کا ہر لحظہ کار آمد اور ایک ایسے پیغام کا حامل ہے کہ جو ظالم اور فاسد حاکم خواہ کتنا بھی قوی ہو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اسے نابود کرنے کے لئے آخری سانسوں تک ایستادگی اور مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ واقعہ نسل جدید کی راہنمائی کے لئے ایک اہم منبع ہے کہ جس کے ذریعہ اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے جدید نسل دوچار ہے۔
لیکن اہل سنت کے درمیان ایسی کوئی صورت نہیں تھی۔ ان کے سامنے ایک طرف عصر جدید کا دباؤ اور جوانوں کی شیفتہ اور پیاسی روح تھی کہ جو اپنے سیاسی، دینیاور انقلابی جواب حاصل ہی کرکے تھی تو دوسری طرف ان کی فقہ اور کلام نیز تاریخ کے تجربہ عملی طورپر ایسی ضرورتوں کو پورا کرنے سے معذور و مجبور تھے کیونکہ مشکل بھی نظری اور خیالی اعتبار سے تھی اور عملی، تاریخی اور اجتماعی اعتبار سے بھی، سنی تفکر اپنے زیادہ سے زیادہ انقلابی شکل میں ہونے کے باوجود کبھی بھی زبانی امر بالمعروف اور نہی از منکر کے دائرے سے وہ بھی اسلامی قدرتوں کے زیر نظر کبھی آگے نہیں بڑھی البتہ وہاں پر جہاں بادشاہ مسلمان ہو نیز طول تاریخ میں اہل سنت کی آزاد و اور جوانمرد شخصیتوں میں ایسے لوگ تھے جنھوں نے اپنے زمانہ کے ظالم حکام کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیااور مخلوق کی رضایت کی خاطر خالق کے غضب کو نہیں خریدا ان کی دینا کی خاطر اپنا ایمان نہیں بیچا، حاکم کی شان و شوکت اور اس کا لالچ دلانا نیز دھمکی دینا آنکھوں میں نہیں سماسکا بلکہ پوری صلابت اور اقتدار کے ساتھ ان کے توقعات اور آرزؤں کے مقابلہ میں ڈٹے رہے، سلطان کی مرضی کے خلاف حق بات کہی اور تمام مشکلات اور سختیوں کو اپنی جان کے بدلہ خرید لیا۔
اہل سنت کے عظیم اور بزرگ انقلابی یہی لوگ ہیں۔ ان میں یہ اخلاقی قدرت اور روحی توانائی پائی جارہی تھی کہ وہ دنیا پرستوں اور دنیا کے مقابلہ میں اپنے ثبات قدم کا مظاہر کریں اور یہ امر دوران جدید کی ضرورتوں سے شدیداً متفاوت تھی، موجودہ دور میں یہ عوام امام حسین ـ، زید ابن علیاور دیگر امر بالعروف اور نہی از منکر کرنے والوں اور شیعی شخصیتوں کی تلاش میں ہے جو دین و ایمان کی خاطر ظالم حکام کا مقابلہ کرے اور لوگوں کو ان کے عالی اہداف کی جانب دعوت دے، نہ ابن حنبل، سعید ابن مسیب اور دیگر محدثین جیسے لوگ جنھوں نے ایام المحنہ میں بڑی سختیاں کاٹیں لیکن پھر بھی اپنے عقیدہ پر باقی رہے۔
حکام کے مقابلہ میں ان لوگوں کا انکار قلبی اور قولی تھا نہ فعلی۔ البتہ انکار قولی بھی ان مقامات پر بہت کم تھا کہ جہاں اس سے مقصود صرف حاکم پر تنقید ہو۔ اس لئے کہ وہ انکار فعلی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم نے بیان کیا کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کے لئے ان کا اقدام کرنا بھی دکھاوے کے لئے نہیں تھا بلکہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق یہ کام کرتے تھے۔ لہذا اس میں زمانہ کے تحولات و تغیرات کا کوئی دخل نہیں تھا اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا، سنیوں کے سیاسی تفکر نے اس بات کو ایک اصل کے عنوان سے قبول کرلیا تھا کہ مسلمان حاکم کے سامنے قیام اور مسلحانہ مقابلہ کرنا جائز نہیں ہے خواہ وہ ظالم جابر اور جائر و فاسق ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن دور حاضر کی ضرورت کے علاوہ کوئی دوسری چیز پوری نہ کرسکی۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکام کہ جن سے مقابلہ کے لئے سنی جوان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں گذشتہ ان کے جیسے حکام سے ظلم و ستم اور فسق و فجور میں بڑھے ہوئے ہیںاور ان اسباب کی وجہ سے وہ ایسی آرزؤں کو اپنے دل میں لئے ہوئے ہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کلی طورپر اس دور کے حالات گذشتہ ادوار کے حالات سے کہیں زیادہ متفاوت اور جدا ہیں۔ گذشتہ ادوار میں ظالم و فاسق حکام کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے تھے تاکہ سماج میں دین اور عدالت کو برقرار کرسکیں، عدل و دین کو قائم کرنے کی ضرورت کا اقتضاء یہی تھا۔ اور یہ امر اس بات کا مستلزم تھا کہ ان کے مقابلہ میں کھڑے ہوںاور اس راستہ کے علاوہ ان کے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اس لئے کہ سماج میں پیدا ہونے والے فسادات اور انحرفات حاکم کی وجہ سے تھے اور اجتماعی، سیاسی، فکری اور فرہنگی احتیاج کو پورا کرنے کے لئے ایک انقلابی اور کبھی مسلحانہ تفکر کو پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی، تاکہ اس کی روشنی میں جوانوں کو دین سے منحرف ہونے پر روکا جاسکے۔
لیکن ہمارے دور میں یہ مسئلہ ایک دوسری شکل اختیار کرچکا تھا، اس دور کے حاکم یا یک بازیچہ یا مطیع یا کم از کم بڑی حکومتوں سے متحد تھے۔ یہ حاکم دراصل نظام کو نہیں چلاتا تھا، بلکہ وہ ان دستورات کو جاری کرتا تھا کہ جو دوسروں کی طرف سے اس کے لئے صادر ہوتے تھے، لیکن گزشتہ ادوار میں حاکم ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا، جو اپنی خواہشات اور اپنی مرضی کے مطابق حکم صادر کرتا تھا اور اس دور میں حقیقی قدرت کہیں اور تھی اور اس دور کے حاکم صرف اور صرف ایک مجری کی حیثیت رکھتے تھے اور بس۔
اس کے علاوہ اس دور میں سیاسی، اجتماعی اور فرہنگی و نفسیاتی حالت بالکل بدل چکی تھی۔ اس دور کے ناگفتہ بہ حالات و شرائط کے مقابل ہر مکتب ایک راہ حل پیش کرتا تھا اور ان میں سے ہر ایک اسے حل کرنے کی صلاحیت کا دعویدار تھا۔ایسے حالات میں اسلام بھی خاموش نہیں رہ سکتا تھا، یہ راہ حل عموما موجودہ حالت کے مطابق ہونا چاہئے تھا جس میں جوانوں کی مبارزہ طلبی اور انقلاب پسندی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہوں، ایسی خصوصیات کہ جو تضاد و کشکمکش سے بھر پور صنعتی شہری معاشرہ ہی میں اکٹھا ہو سکتی تھیں اور ایک واقعی نیاز کی صورت اختیار کرسکتی تھیں۔
اگر ایسے دور میں اسلام اپنا راہ حل پیش نہ کرتا تو یہ مسلم تھا کہ یہ بھی اپنا اعتبار کھو بیٹھتا۔ اور کوئی بھی دین اسی وقت اپنے اثر و رسوخ کو محفوظ رکھ سکتا ہے کہ جب وہ واقعیتوں اور ضرورتوں کے مقابلہ میں لاپرواہ نہ ہو، یہاں تک کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دین کی شائستہ موقعیت فعال اور خلاق تبادل کی مرہوں منت تھی، جب تمام مکاتب و ادیان بطور صحیح یا ناصحیح موجودہ حالت کی اصلاح کے مدعی یا اس کی جگہ ایک مطلوب اور صحیح صورت کو قائم مقام بنانے کے لئے پیش قدم نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے جوانوں کا بے شمار طبقہ ان کی طرف جذب ہوا جارہا تھا، ایسی صورت میں اسلام خاموش رہ کر تماشائی بننا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے کہ نہ یہ صورت ممکن تھی اور نہ ہی متدین و دیندار حضرات، علما، دانشور، روشن فکر اور طالب علم کی دینی غیرت اور عہد ایسی اجازت نہیں دیتا تھا۔
ان دو عاملوں کے علاوہ ایک تیسرا الزام آور عامل بھی موجود تھا اور یہ ایک عامل داخلی تھا، ان آخری دہائیوں میں اکثر مظاہر حیات تغیرات کے جال میں گرفتار ہوچکے تھے اور ایسی صورت میں یہ امر طبیعی تھا کہ اپنی شرائط کے مطابق روح و فکر اور شخصیت کی پرورش کرے۔ دوران معاصر کے جوان اپنے آباء اجداد کے ماحول اور فضا سے بالکل الگ ماحول میں پلے بڑھے تھے، اس کی روح و شخصیت، ذہنی اندیشہ، احساس، احتیاج، آرزو و ارماناور فہم و اخذ نتیجہ دوران معاصر کے سریع التاثیر اجتماعی و اقتصادی اور فکری و سیاسی تحولات و تغیرات کی ضد میں تھے یہاں تک کہ فہم دینی بھی اپنی ممکن نوع التزام میں گذشتہ افراد کی فہم دینی سے متفاوت تھی، بلکہ وہ ایک دوسرے زمانے، تجربہ اور ضرورتوں کے فرزند تھے۔
سیاسی،معاشرتی اور تاریخی اسباب کی بنیاد ہی شخصیتی، روحی اور اصلی جلوہ گاہ، دینی اور سیاسی مباحث تھے۔ دینی فہم وشعورکے تحت نسل جدید اور اس سے پہلے والی نسلوں کے درمیان فرق مباحث دینی کے سمجھنے میں ہے۔ اور چونکہ صورت حال ایسی تھی، اس سلسلہ میں اہل سنت کے تفکرات اپنے تمام ممکنہ ترقی اور جدت تفکر اس کا تعارف نہیں کراسکی، ان کے درسی طرز تفکر جس کے شرائط دیگر زمانہ میں تمام ہوچکے تھے لہٰذا اس کے بعد کارآمد نہیں رہے مخصوصا ًیہ بحث کہ جو اپنے ایک خاص مضر اثرات کی حامل تھی، اہل سنت کی سیاسی فکر کا ایک عظیم حصہ اجماع پر قائم ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ نسل جدید کے اعتراضات، اشکالات اور سوالات اور تنقیدوں کی تاب تحمل نہیں رکھتی اور نہیں لاسکتی تو عملی طورپر بہت سارے فرضی اصول اور مبانی بلکہ من گھڑت کا خانہ خراب کردیا۔
بہر حال ان عوامل و اسباب اپنے ساتھ دیگر نئے الزامات ضرورتیں پیش کیں۔ بنیادی مشکل یہ تھی کہ یہ ضرورتیں گذشتہ کی میراث اور ان کے افکار سے بالکل ٹکراؤ رکھتی تھیں ایک عظیم اور وسیع فقہی اور کلامی نیز تاریخی اور حدیثی مجموعہ کہ اگر برفرض پورے طورپر حاکم یا حاکم نظام چارہ جوئی نہیں کررہا تھا تو کم از کم اسے کمزور کیا جارہا تھا وہ چاہتے تھے کہ اس کا کوئی جواب دریافت کریں انھوں نے پہلی بار اپنی پوری تاریخ میں حاکم کے سامنے حجیت بلکہ دینی الزام کے ساتھ بیٹھیں اور گذشتہ تاریخ اور فقہا کے فتووں کے نمونے تلاش کریں تاکہ اس کی مدد سے ان کے قیام کی توجیہ کریں اور اُسے مشروعیت بخشیں اور ایسا ناممکن تھا کیونکہ واقعی ضرورت بھی ناقابل انکار تھی اور اعتقادی بنیادیں اور تاریخی تجربہ ایک دوسرے سے تضاد رکھتے تھے۔ ایسی ہی بھول بھلیاں نے اسے تھیوری اور راہ حل پر مجبور کیا کہ جس کا کوئی سابقہ بھی نہیں تھا اور اسی حدتک اعتقادی کلیت اور اہل سنت کے متفق علیہ اور اجماع سے دور بھی تھا۔سید قطب کی معالم فی الطریق نام کتاب میں ذکر شدہ تھیوریوں سے لے کر غیر معتدل گروہ کی افکار تک التکفیر و الھجرة مصطفی شکری کی کتاب نے عبدالسلام کی الفریضہ الغائبہ سے فرج حاصل کی الامارة و الطاعة و البیعة نامی تھیں کی کتاب تک سلسلہ جاری رہا ہے۔
معلوم نہیں ہے کہ آئندہ کن نظریات سے وابستہ ہونا ہے، کیوں یہ تمام نظریات کسی خاص اصول کے پابند نہیں ہیں تاکہ اسے دیکھتے ہوئے آئندہ حالات کی پیشین گوئی کی جاسکے۔ جو نکتہ اس مشکل کا راہ حل بن سکتا ہے وہ موجودہ شرائط اور جہادی راہ حل حاصل کرنے کا مبارزہ طلبوں کی جانب سے دباؤ ہے نیز ان لوگوں کی ذہنیت ہے جو اپنی مشکلات کے سلسلہ میںفکر کرتے ہیں۔ ایک روز سماج کو جاہل معاشرہ سے مشابہ قرار دیتے ہوئے اس سے مقابلہ کو واجب سمجھتے ہیں اور دوسرے روز آنحضرصلىاللهعليهوآلهوسلم
ت کی سوانح حیات میں سے بعض پہلوؤ ں کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے اس بات کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کے ذریعہ جو ایسے معاشرہ سے کنارہ کش ہوگئے ہیں ان کی مدد سے سماج کو اسلامی بنائیں۔ کبھی ابن تیمیہ کے فتوؤں کا سہارا لیتے ہیں اور ایک ایسے معاشرہ سے مقابلہ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ جس میں مسلمان رہتے ہیں اور قابل تکفیر نہیں ہیں لیکن بہر حال ظالم حکام اور ان کے طاغوتی قوانین اور نظم و نظام کے تحت زندگی گذرار ہے ہیں اور کبھی حاکم کی جانب سے بیعت کے شرائط کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے اس کی مشروعیت کو ساقط اور اس سے مقابلہ واجب قرار دیتے ہیں۔
ہم بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہر ایک کا ایک ہی ہدف ہے لیکن اسے حاصل کرنے کے لئے ہر ایک نے ایسے ایسے راستوں کا انتخاب کیا جن میں کسی قسم کی کوئی مشابہت اور موافقت نہیں ہے۔ یہ صورت خود ہی ہمارے اس مدعا کی دلیل ہے کہ ایک طرف ناقابل تحمل اور ناقابل تعدیل اور انحراف دباؤ پایا جاتا ہے جو خود ایک واضح اور قطعی جواب کا خواہاں ہے اور دوسری طرف اس کا کوئی راہ حل بھی نہیں ہے اور چونکہ صورت حال کچھ ایسی ہی ہے لہذا ہر ایک اس مشکل کی تمامیت کو مد نظر رکھے بغیر راہ حل کی تلاش میں مشغول ہے، اگر ہر ایک قرآنی آیات اور احادیث نیز تاریخی نمونہ کی روشنی میں کوئی حکم اخذ کرے تو اس صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ اسے باطل کرنے کے لئے اسی قرآن اور روایات اور تاریخ سے اس کے برخلاف تھیوری سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے سلسلہ میں تمام وہ مطالعات جو اس کے اصول، مبانی، روح اور کلیت کو نظر انداز کرے اور اس کے مجموعہ اور بے بنیادوں سے سازگار نہ ہو تو وہ نادرست، ناقابل اعتماد اور دائم نہیں رہ سکتا ایسے صاحبان نظر اور ان کے نظریات کی مشکل اسی نکتہ میں پوشیدہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے نظریہ چند جوان کو چند دنوں تک اپنی طرف جذب تو کر لیتے ہیں لیکن کچھ ہی مدتوں میں ناپید ہوجاتے ہیں۔ اس مسئلہ کو بہتر سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ان افکار کو تاریخی لحاظ سے مورد مطالعہ قرار دیں۔
اسلامی حکومت کی فکر
اہل سنت کی تاریخ میں اسلامی حکومت کی فکر اور اسے قائم کرنے کی کوششیں عثمانی خلافت کے سقوط تک پہنچتی ہیں۔ آغاز اسلام سے عثمانی خلافت کے سقوط تک برابر اسلامی سرزمینوں پر اسی کے قوانین حاکم رہے بلکہ اہم تو یہ ہے کہ پوری تاریخ میں خلیفہ کا ہونا دینی و معنوی اعتبار سے ایک عظیم پشت پناہ ہوا کرتا تھا جو مسلمانوں کی تسکین کا باعث اور اس نکتہ کی یاد دہانی کرتا رہا ہے کہ اسلام کے قوانین و ضوابط ان کی زندگی کے تمام شعبوں میں جاری و ساری رہے ہیں اور انھوں نے اس وظیفہ پر عمل بھی کیا ہے۔
عثمانی خلافت کے سقوط سے پہلے اسلام کی اپنی تاریخ میں، سیوطی کی تعبیر کے مطابق فقط تین سال مسلمان خلیفہ کے بغیر رہے ہیں۔
اس کوتاہ مدت کے علاوہ اسلامی سر زمینوں پر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خلیفہ رہا ہے۔ یہ خودہی اپنے مقام پر اسلامی نہ ہونے یا اس کے پائیدار ہونے کی فکر کو ختم کردیا تھا تاکہ اس کے بعد ایسی حکومت کی بنیاد ڈالیں، اس کے علاوہ خود خلیفہ کا ہونا اس امر کا موجب تھا کہ اسے شرعا اور وجوباً مان لیا جائے، اس کے سامنے تسلیم اور اس کے فرامین کے سامنے گردن جھکا دی جائے اور اس کی بیعت کی جائے،اس لئے کہ ان کی نطر میں ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کی گردن پر کسی امام یا خلیفہ کی بیعت ہو اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
ان حالات میں مسئلہ،سیاسی تبعیت کا نہیں تھا بلکہ اس کے سامنے تسلیم ہوجا نے اور اس کی بیعت کرنے کا مسئلہ تھا یعنی ایسا ہر گز نہیں تھا کہ وہ خلیفہ کے سیاسی نفوذ کے زیر سایہ زندگی گذاریں، اٹھارویں صدی کے اواخر کے بعد جب عثمانی خلافت میں بڑی تیزی سے انحطاط اور ضعف پیدا ہوگیا تو اکثر مسلمان استانبول میں مستقر خلیفہ کے ماتحت نہیں رہ گئی تھے اور اس کے بعد سے اس نے اپنی گذشتہ شان و شوکت، قدرت اور افتخار سے ہاتھ دھو لیا تھا۔ ان تمام نقصانات کے باوجود اس کی دینی عظمت رسمی اور قانونی حیثیت سے مانی چکی تھی اور اس کی بیعت کو ایک عظیم فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دے چکے تھے۔
خلافت کا خاتمہ
عثمانی خلافت کا سورج ۱۹۲۴ء میں ترک جوانوں کے ذریعہ غروب ہوگیا۔ مسلمانوں کے لئے خلاف توقع ایک عظیم سانحہ تھا۔ سارے مسلمان اس بات کا احساس کرنے لگے کہ ان کا عظیم پشت پناہ چل بسا ہے اور سب سے اہم فریضہ ترک ہوگیا ہے، اب ان کے لئے خلیفہ کے بغیر تدین ا ور اعزاز کے ساتھ مسلمان ہوکر زندگی گذارنا دشوار۔ اس وقت عثمانی خلافت کے زوال سے جو احساسات اور ہیجان عثمانیوں میں پیدا ہوئے بطور نمونہ ملک الشعراء ''شوقی''کے اشعار کی طرف رجوع کرنے سے بخوبی اندازہ ہوگا۔
عثمانی خلافت کے گرتے ہی عالم اسلام بالخصوص مصر میں جو تغیرات اور تبدیلیاں وجود میں آئیں، اس کی طرف ایک اشارہ کرنا ضروری ہے۔
مصر میںاس دورکے مشہور و معروف حوادث میں سے ''خلافت کی تشکیل کے لئے مجمع عام اسلامی'' کے عنوان سے ایک دائمی کمیٹی کی تشکیل تھی۔ کہ اس نے الخلافة الاسلامیة کے عنوان کے مجلہ (رسالہ) بھی نکالا۔ اس کمیٹی کا ہدف یہ تھا کہ اسلامی ممالک میں موجود حاکموں میں سے کسی ایک کو خلیفہ کے عنوان سے انتخاب کرلیں۔
اس کمیٹی اور اس کے مجلہ کے علاوہ بہت سی علمی محفلوں میں امامت و خلافت کے عنوان سے بحثیں ہوتی رہیں۔ اس بحث و گفتگو کا انجام یہ ہوا کہ اشارہ بلکہ قاطعیت کے ساتھ اس بات کا اعلان کردیا کہ اتاترک کے ہاتھوں عثمانی خلافت کا خاتمہ سے اسلامی سماج کی اسلامیت ختم ہوگئی ہے اور تمام مسلمان خطاکار ہیں یہاں تک کہ کسی دوسرے خلیفہ کی بیعت کریں، یہ گناہ اپنے اخروی عذاب کے باوجود دنیاوی عذاب میں گرفتاری کا باعث ہوگا جو بہت جلد ہی ان تک پہونچے گا۔ اور یہ کہ مسلمان منصب خلافت کے ختم ہوتے ہی جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں اور جو بھی اس دور میں مرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
اس موضوع کے تحت بے شمار مجلے مقالے اور فتوے منتشر ہوئے اور یہ بھی کہا: اس زمانہ میں بھی گذشتہ ادوار کی طرح امام کا نصب کرنا ہر ایک پر واجب ہیاور تمام مسلمان ایسے امام کو منتخب نہ کرنے پر جس سے وحدت برقرار ہوجائے، تاحد ممکن گنہگار بھی ہیں۔ اور اس دنیا میں جو کچھ اہل بصیرت جانتے ہیں عذاب میں مبتلا ہوں گے اور آخرت میں بھی جو کچھ خدا جانتا اسکی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوں گے... وہ جماعت کہ جس کی پیروی کا ہم کو حکم دیا گیا اسے اس وقت تک ہمیں مسلمان نہیں کہا جاسکتا جب تک اس کا کوئی اما م نہ ہو اور اپنے ارادہ و اختیار سے اس کی بیعت کی گئی ہو... مسلمانوں کا امام ان کی حکومت کا رئیس بھی ہے اور ان پر واجب بھی ہے کہ اس کی عزت، قدرت اور شان و شوکت بڑھانے میں لگے ہوں۔
عثمانی خلافت کے سقوط کے بعد بعض مسلمان مفکرین اور علما کو رشید رضا کی تعبیر کے مطابق ''جس حد تک اس دور میں مسلمان خلافت کا احیاء کرسکتے ہیں اسی حد تک کوشش کریں''
اس کے مطابق خلافت کو احیاء کرنے کے لئے ابھارا، لیکن بے شمار دلائل کی بنیاد پر انھیں یہ توفیق حاصل نہ ہوسکی۔ گذشتہ ادوار اور اس دور میں بہت بڑا فرق تھا، گذشتہ ادوار میں جب کسی موقع پر خلافت ختم ہوجاتی تھی تو دوسرے مقامات پر اسے احیاء کردیا جاتا تھا۔ لیکن عثمانی خلافت کے خاتمہ کے بعد حالات بدل چکے تھے۔ تنہا مسلمان نہ تھے بلکہ غیر بھی اس امر میں دخیل اور مؤثر تھے اس لئے کہ ایسے حالات میں وہ بھی خاموش تماشائی نہیں بن سکتے تھے۔
اس کے علاوہ ایک نئی نسل پڑھی لکھی اور دانشور ظہور میں آچکی تھی۔ سیاسی اور اجتماعی اہم پوسٹیں انھیں کے ہاتھ میں تھیں۔ اس مسئلہ میں ترک جوانوں کی طرح سوچتے تھے وہ صرف خلافت کی بازگشت کی جانب مایل نہیں تھے بلکہ شدت سے اس کے مخالف بھی تھے، جیساکہ مصر کا اخبار نویس اور سیاست داں محمد حسین ہیکل، بھی انھیں افراد میں سے تھا۔ اس نے عبدالرزاق کے افکار کی شدت سے حمایت کرتا تھا اور حکومت کے گرتے ہی اس کے دفاع کے عنوان سے کتاب فورا بعد ہی منظر عام پر آگئی تھی، اس پر تنقید کرنے والے کے مقابلہ میں صف آرائی کرتا اور خلافت کو احیاء کرنے والوں کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بناتا اور وہ اس طرح کہتا ہے: علماء اسلام میں سے اس عالم کے لئے کیا کہا جائے گا جو مسلمانوں کے لئے خلافت کے نہ ہونے کا خواہاں ہے ا ور وہ بھی ایک زمانہ میںکہ جس میں تمام مسلمان حکام خلیفہ بننے کی فکر میں ہوں۔
''اسمیت'' دوران معاصر میں مصر اور اسلام کے متقابل روابط کو محمد حسین ہیکل کی سوانح حیات بیان کرتے ہوئے تحقیق و بررسی کرتا ہے: اس دوران مصر میں ہر ایک سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی تبدیلیوں سے متأثر تھا۔ ان میں سے ہر فرد ایک حد تک ۱۹۲۰ء میں مدرنیست کی جانب سے ہونے والے ان اقدامات سے متأثر تھا جو اسلام اور مسلمانوں کی قدرت کو محدود کرنا چاہتے تھے ایسے اقدمات جو عبد الرزاق کی کتاب الاسلام و اصول الحکم نیز فی الشعر الجاھلی طہ حسین میں منعکس ہو چکے تھے۔
بہرحال حددرجہ کوشش اور بعض خلافت کے واجب شرعی ہونے کے سچے مقصد کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوئی، خلافت کا دور ختم ہوا اور اسے دوبارہ احیاء کرنے کے لئے تمام کوششیں بے ثمر ثابت ہوئیں۔ مسلمانوں نے خلافت کو اپنی خواہش اور چاہت کے باوجود اس امر کو قبول کر لیا کہ اب خلافت کو دوبارہ احیاء نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اس وقت بعض اسلامی ممالک کے حکام اس عنوان کے لئے خود کو نامزد کرنے کے بارے میں وسوسہ میں مبتلاء ہوئے۔ لیکن ان وسوسوں کو زیادہ حیات نہ مل سکی اور اس خواب نے واقعیت کو اپنا قائم مقام بنادیا۔ اور یہ فکر فراموشی کے حوالہ کردی گئی۔
اس حادثہ کے ختم ہوتے ہی ایک دوسرا حادثہ وجود میں آیا اور پروان چڑھنے لگا اور وہ اسلامی حکومت کی فکر تھی کہ جو اکثر مذہبی علما اور دانشوروں کی نظر میں اسلامی خلافت اور اس کے استمرار کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔
خلافت کے سقوط سے پہلے اس فکر کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا۔ گذشتہ خلفاء اور سلاطین اگرچہ فاسق و فاجر تھے لیکن دین کے مقابلہ میں جس طرح وہ لوگوں کے درمیان رائج تھا نہیں آئے، حتیٰ کہ بہت سے موارد میں ان کے منافع کا اقتضاء یہی تھا کہ اس کی ترویج کریں۔ جس طرح سے کہ معاشرہ کی دینی واقعیت کے مقابلہ میں خارجی یا داخلی اہم اسباب بھی واقع نہیں ہوئے۔ ہر شی ایک حد تک دین اور دینی میراث کے مطابق موافق تھی۔
لیکن زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیا تھا۔ صنعتی، علمی اور فکری تغیرات اور مذہبی محدودیتوں کا وسیع ہوجانا، پورے طورپر بیگانوں کا تسلط، بالواسطہ یا بلاواسطہ استعمار سے حکام یا صاحبان قدرت کا وابستہ ہونا، ان تمام اسباب و علل نے ایک جدید تغیر ایجاد کردیا تھا گویا دین ہر طرف سے حملوں کا شکار ہے، یہاں اہم مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہعثمانی خلافت اسلامی معاشرہ کی سیساسی، اجتماعی اور نظامی اسلامیت کا آخری مظہر درہم برہم ہوچکا تھا، بلکہ سب سے اہم تو یہ تھا کہ بنیادی اعتبار سے حالات بالکل بدل چکے تھے اور واقعا ًاس وقت کے مسلمان اس بات کا احساس کر رہے تھے کہ ان کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔
ایسے حالات میں ایک دوسرے جدید مفہوم کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں اور وہ حکومت کا موضوع تھا۔ لیکن یہ کوئی نیا مفہوم نہ تھا۔ ہاں! اس کا اسی شکل میں محقق ہونا جیساکہ قرن حاضر کے وسط میں واقع ہوا اور ایک دینی و سیاسی ہدف کی شکل میں ظاہر ہونا یقینا ایک جدید مسئلہ تھا۔ اس مفہوم نے بڑی تیزی سے کثیر تعداد میں حامیوں کو اکٹھا کرلیا نیز اصلی اور قابل قبول اور متفقہ طورپر ایک سیاسی ارمان کا خلا اسلامی معاشرے کے سیاسی ارمان سے پُر ہوگیا اس کے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے جو اسے عمومیت بخشنے اور محبوب بنانے میں نہایت مددگار ثابت ہوئے۔
مغربی قوانین کا نفوذ
انھیں حالات کے ساتھ ساتھ تیزی سے غربی قوانین اسلامی ممالک میں نفوذ کرگئے البتہ خلافت کے خاتمہ سے اس کا کوئی ربط نہیں تھا اس لئے کہ اگر عثمانی خلافت باقی بھی رہتی تو بھی غربی قوانین تمام اسلامی ممالک بلکہ خود ترکی میں نفوذ کرجاتے، بلکہ اس دور میں بھی ایک حد تک نفوذ کرچکے تھے۔ یہ اس دور کے مجموعی حالات کی وجہ سے تھا اور اس میں عثمانی خلافت کاکو ئی کردار نہیں تھا اگرچہ بعض نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔
اس دور میں اسلامی ممالک میں رہنے والے تمام مسلمان اپنے محدود معاشرہ میں بیدار ہوچکے تھے۔ بدلتے حالات، حد سے زیادہ دباؤ، غربیوں کے مقابلہ میں ناتوانی جیسے عوامل نے انھیں متأثر ہونے اور عکس العمل دکھانے پر مجبور کردیا تھا، منکرین اور دین کے مخالفین، مغربی نظام اور اس کے قوانین اور فرہنگ و تمدن کے مدعی کھلم کھلا تنہا اس میدان کے شہسوار تھیاور کوئی نہ تھا جو انھیں روکتا ا ور ان کی من مانیوں کے سامنے قیام کرتا، بلکہ کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو اس طغیانی موج کا سامنا کرتا اور انھیں روکتا۔
ایسے حالات میں یہ فطری بات تھی کہ اسلامی ممالک کے اساسی قوانین مغربی قوانین کے پرتو میں بنائے جائیں اور ان پر نظر ثانی کی جائے اور چونکہ تمام اسلامی ممالک آزادی خواہی کی اٹھنے والی موج کے ہمراہ تھی ایک جدید تاریخ میں قدم رکھ رہے تھے لہذا اس دور میں کوئی بھی ہوتا تو اس کی نظر سب سے پہلے قانون اساسی پر جاتی، اب ایسے حالات میں مغربی قوانین کے علاوہ اور کون سے قوانین تھے کہ جس سے جدید قوانین اقتباس کئے جاتے۔
یہ موضوع چونکہ توضیح طلب ہے لہذا ہم اسے جاری رکھتے ہیں، اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمان جہان سوم میں جینے والے انسانوں کی طرح ہمیشہ اپنے حکام کے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں ظلم و ستم اور استبداد کی سب سے بڑی خصوصیت قانون اور مخالفت ہے، جو کسی قانون کا نہ تو پابند ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قانون کے سامنے تسلیم ہوتا اور اسے قانونی حیثیت بھی نہیں دیتا ہے۔ اب ایسے حالات میں انقلابات آتے گئے اور لوگوں کی آنکھیں کھلنے لگیں کان متوجہ ہوئے اور جب ان کی آنکھیںکھلیں تو انھوں نے دیکھا کہ وہ نہایت بچھڑے ہوئے، سیاسی و اجتماعی اعتبار سے بد ترین شرائط میں جی رہے ہیں۔ البتہ ان احساسات کو ہوا دینے میں دانشمندوں کی نئی نسل نے بڑی کوششیں کی ہیں، اس وقت کے مسلمان ظاہری اعتبار سے اپنے سماج کا اس وقت کے مغربی ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہونچے کہ اور اپنی اس بدبختی کا سبب سیاسی استبداد ہیاور اس کا اصلی سبب حقوقی اور قانونی نظام کا فقدان ہے لہذا جس حد تک آزادی خواہی کی فکر کو ہوا دے سکتے تھے دیا اور اپنے ہدف تک رسائی کے لئے قانون اساسی اور دیگر قوانین کی تنظیم و تدوین پر زور دیا۔
ان کی نظر میں پورے طورپر مشکل آزادی کے نہ ہونے اور استبداد کی حاکمیت کی وجہ سے تھی کہ جس سے چھٹکارا اساسی قانون کا وجود تھا، ایسے حالات میں فطری طورپر تشفی بخش قانون وہی مغربی قانون تھے۔
شاید یہ ان کے انتخابوں میں ایک بدترین انتخاب تھا جسے اسلامی سماج انجام دے سکتا تھا کہ جس کے بعد بے شمار ناگفتہ بہ حالات کا سامنا تھا، ہم اس مقام پر اس انتخاب کے صحیح نہ ہونے کے سلسلہ میں گفتگو نہیں کرنا چاہتے بلکہ اہم تو یہ ہے کہ اس انتخاب کے بعد لاتعداد قوانین کسی احتیاج کے بغیر اسلامی ممالک میں پھیل گئے جبکہ اسلامی ممالک کو ان قوانین کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اگرچہ یہ مسلم ہے کہ اس دور میں کوئی قانون تدوین کرنے والا نہیں تھا لیکن کم از کم یہ ہے کہ اس کے منابع فقہ اور اسلامی قوانین ہیں ان کے پاس ضرور تھے۔ جن کی مدد اور سہارے اپنی مختلف مشکلات کو حل کرسکتے تھے جیساکہ بعض اسلامی ممالک میں ایسا ہی ہوا۔
بہر حال اسلامی ممالک میں نظام کو موجودہ صورت حال کے مطابق حقوقی اور قانونی نظام کو مارڈن انداز میں سنوار نے کا پہلا موقع تھااور جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ یہ تجربہ مومن اور متدین حضرات کی عدم موجودگی میں انجام پایا اس لئے کہ وہ وحشت رعب و اور دبدبہ میں زندگی گذار رہے تھے اور دشمن کے لئے میدان کو خالی کر چکے تھے لیکن جب انھیں ہوش آیا تو دیکھا کہ بہت سے قانون اسلامی اصول و مبانی کے برخلاف اس کے باوجود اور اس کے مقابل جدید قوانین کے سامنے تسلیم ہیں۔
یہاں مناسب ہوگا کہ ویلیم شیفرڈ کے نظریا ت کو بیان کریں، کہ کس طرح مسلمان تاریخ جدید میں وارد ہوئے اور ان کے ساتھ کیا ہوا وہ کہتا ہے: یہ فوجی طاقت تھی کہ جس کی مدد سے پہلی مرتبہ اسلامی حکام تک تغییرات کو راستہ ملا، جسے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی ابتدا میں ہند میں انگلینڈ کی فتوحات، روس کے ہاتھوں، ۷۴۔۱۷۶۸، کی جنگوں میں عثمانیوں کی شکست، اگرچہ عثمانی دارالحکومت والے اسی صدی کے آغاز ہی میں مغربی نظام کی فوقیت و برتری کے پیش نظر اپنے سماج کو ایک حد تک مغربی شکل و صورت میں ڈھالنے کے لئے قدم اٹھاچکے تھے۔ لہذا سب سے پہلے جنگیں اصلاحات موجب بنیںکہ جس کی وجہ سے عثمانی اصلاح طلب جد و جہد پر مجبور ہوگئے، لیکن جب یہ اصلاحات شروع ہوگئیں تو پھر جو حدود ان کے رہبروں نے معین کئے تھے اس میں محدود نہیں رہ سکتی تھیں۔
اس کے بعد اپنے بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: اگر عیسائی الہیات اس دنیا میں خدا اور اس کے افعال کی ماہیت کو معلوم کرنے کی تلاش میں تھی تو مسلمان فقہا خداوندعالم کے ارادہ، قوانین اور شریعت الٰہیہ کو سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ جس میں تمام انسانوں کے وظائف کوبیان کردیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نئے حالات کے مطابق قوانین کو مخصوصا اجتماعی و سیاسی اعتبار سے ڈھالنے کیلئے تمام کوششیں ہورہی تھیں لیکن الہیات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی،وہ شک و شبہات کہ جسے غرب میں داروین نے ابھارا تھا اسلام میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا، جب کہ قرآ ن نے خلقت کے سلسلہ میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ کتاب مقدس کے مطابق ہے۔
یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اہل سنت کی حکومت میں اسلامی تحریکوں کی فکری آغاز کا سدباب ہوجاتا ہے اور جیساکہ اس سے پہلے بھی ہم نے وضاحت کی ہے کہ ان کے نزدیک فقہ و کلام اور تاریخی تجربوں کی عمارت ایسی نہیں تھی جو ظاہری مسلمان حاکم کے سامنے قیام کی اجازت بس اتنا تھا کہ قلبی اعتبار سے ان کے سامنے تسلیم نہیں تھے، اس سے دور ہوئے اور اس کی خدمت میں نہ رہیاور یہ حددرجہ گستاخی تھی کہ اس کے سامنے زبان اعتراض کھولیںاور اس کی جانب سے ہونے والے مظالم اور بدعتوں اور زیادتیوں کے خلاف اقدام کریں، لیکن حاکم اور اس کے نظام کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی مختلف دلائل سے اجازت نہیں دیتے تھے کہ سیاسی اور نظامی اعتبار سے کوئی قدم اٹھائیں۔ اس زاویہ سے نظام حاکم کے خلاف اعتراض کرنا درست نہیں تھا اور نہ ہی اس کا کوئی راہ حل تھا لیکن دور حاضر میں غیر اسلامی قوانین کے ظہور کرتے اسے حاکمیت عطا کرتے ہی حاکم پر اعتراض کا ایک نیا باب کھول دیا کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام سنی ہم عصر تحریکوں کو موقع مل گیا کیونکہ یہ ایک نئی راہ حل تھی کہ جس نے انھیں حیات و فعالیت کا موقع فراہم کیا۔
شریعت کی مطابقت
ان کی نظر میں اسلامی معاشرے میں غیر اسلامی قوانین کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سب کو اسلامی قانون تسلیم کرنا ہوگا اس لئے کہ تنہا یہ قانون ہے کہ جسے حاکمیت حاصل ہے، اس راہ میں جد و جہد ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جس میں چون و چرا اور تغییر و تبدیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ وہی مفہوم ہے جسے بعد میں ''تطبیق شریعت'' کانام دے دیا گیا۔ جس نے اپنی طرف انقلابی اور متدین اہل سنت کے افکار کو متوجہ کرلیا تھا اور جو تحریکیں اس غرض سے وجود میں آئی تھیں ان کی توجیہ کا موقع مل گیا۔
موجودہ صدی کے اواخر میں اہل سنت کی طرف سے جتنی تحریکیں اور قیام وغیرہ وجود میں آئے ہیں وہ سب اسی ہدف کے پیش نظر تھے۔ ان کے نزدیک اسلامی حکومت یعنی وہ حکومت کہ جس میں اسلام کے تمام احکامات جاری و ساری ہوں۔ لہذا حکومت کو اساسی بنانا یعنی اسلامی قوانین کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام مراحل اور شعبوں میں جاری کرنا اور انھیں حاکمیت عطا کرنا پس یہ ایک ایسی فکر ہے کہ جو خود ہی اصلاحی ہے نہ کہ انقلابی۔ جو موجودہ نظام کی ضد نہیں ہے بلکہ موجودہ قوانین کے خلاف ہے۔ اس کا ہدف صرف قوانین کو بدل دینا ہے نہ کہ حاکم کو بدلنا مقصود ہے اور اگر حاکمِ وقت قوانین کے بدلنے پر راضی ہوجائے تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے اور اس کی بقا کے ساتھ قوانین کی تغییر قابل قبول ہے۔اور اگر موجودہ قوانین کے دفاع میں عوام کے سامنے کھڑا ہوجائے اور کسی بھی صورت میں اس کی تغییر کو قبول نہ کرے تو اس صورت میںاس بات کا امکان ہے کہ اسکے خلاف قیام کا فتوا دے دیا جائے۔
اس تحریک کااصلی ہدف اور مقصد سماج کے حقوقی اور قانونی نظام کے ذریعہ اسے اسلامی بنانا ہے۔ نہ کہ سیاسی حاکمیت کی تبدیلی کی آڑ میں اسے اسلامی بنانا مقصود ہے۔ یہاں اصل مشکل اس تغییر کے لئے حاکم کی رضایت ہے اور اگر وہ خود ان تغیرات کو انجام دے تو اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے، اسی نظریہ کے مطابق سعودی حکام اور دوسرے حکام ۸۰ء میںکہ جس میں اسلام خواہی اپنے اوج پہ تھی، اپنی شریعت کی تطبیق کرنے لگے، پاکستان میں ضیاء الحق نے، سوڈان میں نمیری نے اور مصر میں سادات نے اور دیگر خلیج فارس کے شیوخ نشین مقامات مطلوب ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ طرز تفکر چالیس پچاس سال پہلے کہ جب غیر اسلامی قوانین رائج اور غالب تھے، اگرچہ وہ ایک اصلاحی تفکر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا لیکن اس دور میں اسے ایک انقلابی تفکر مانا جاتا تھا۔ لیکن یہی تفکر آج کے دور میں کہ جس میں حالات پوری طرح بدل چکے ہیں اور جوانوں کی نفسیاتی اور مذہبی آرزوئیں اور رجحانات دگرگوں ہوچکے ہیں، ایسے حالات میں ان کی جہادی اور انقلابی روح کو سیراب نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ لوگ اس دور میں اس اس تفکر کی ظرفیت سے کہیں زیادہ متوقع اور عظیم اہداف کو حاصل کرنے کی تلاش میں ہیں، یہ لوگ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی قوانین اور اقدار کے جاری ہونے کے خواہاں ہیں۔ اور تنہا حیات اجتماعی میں قوانین اسلامی کی حاکمیت کے قائل نہیں ہیں کہ شریعت اپنے قوانین کو اجتماعی امور سے مطابقت دے، اہل سنت کی حکومت میں موجودہ تحریکوں کی اصل مشکل اسی ایک نکتہ میں پوشیدہ ہے۔ دورحاضر میں ان لوگوں کے لئے فقہ و کلام میں جو چھوٹ ملی ہے وہ موجودہ نسل کی قطعی اور شدید ضرورتوں کو برطرف کرنے اور اس کا جواب دینے سے معذور ہے۔
اسی محدودیت کی بناپر اکثر اسلامی تحریکوں کے سربراہ خواہ وہ سید قطب ہوں یا عتیبی یا عبدالسلام فرج، ہر ایک نے اپنے لئے توجیہ کا باب کھول لیا ہے جو اہل سنت کے نزدیک کلی طورپر ان کے اصول اعتقادات اور اجماع سے اجنبی ہیں۔ ان سربراہوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے اعمال کی توجیہ میں قرآنی شواہد اور سنت نبوی کے علاوہ گذشتہ علما کے فتاوی مخصوصا ابن تیمیہ اور ابن قیم کے نظریات کا سہارا لے کر ایک ایسے تفکر کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو موجودہ حاکم کے خلاف قدم اٹھانے کو مشروع قرار دیتا ہے بلکہ اسے واجب بھی سمجھتا ہے۔ اگر سنی علما ایسے تفکرات کو شک و شبہہ کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دعویداروں، وضع کرنے والوں اور سربراہوں کو اعلانیہ طورپر خوارج کا لقب دیتے ہیں۔ تو یہ سنیوں کا طرزعمل اپنے تحفظ اور عافیت طلبی کے عنوان سے نہیں ہے بلکہ ان کے کلام و فقہ میں متفق علیہ اصول و مبانی پر اعتماد کے پیش نظر ہے اور انکا سہارا لے کر انہیں خوارج کہتے ہیں۔
وہ لوگ کو جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے اس لئے کہ قرآن و سنت، سلف صالح اور سیرہ صحابہ کہ جس پر تمام سنیوں نے زمان دراز تک عمل کیا ہے اور اسے درک کیا ہے انہیں مدنظر رکھتے ہوئے ایسے نظریات کو قبول نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ یہ نظریات قرآن و سنت اور سیرۂ صحابہ سے نہایت مفرط ترین نتیجہ تھا جسے ان لوگوں نے حاصل کیا تھا۔ اگرچہ اس بات کا امکان ہے کہ ان لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی رہے ہوں گے کہ جن کی نیتوں میں کھوٹ یا ان میں کسی قسم کی کوئی وابستگی ہوگی جب ہی ایسی بات کہتے ہیں حتیٰ کہ اس کا سہارا لیا بلکہ ایسا ہوا بھی ہے، اس دور میں سعودی اور وہابی علما اسی فکر کے طرفدار ہیں، بہرحال حقیقت جو بھی ہے، اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اس کا قائل کون ہے یہ بات اپنی جگہ پر صحیح اور درست ہے۔
یہ تھے چند نظری مسائل لیکن انکے علاوہ کچھ اور بھی مسائل ہیں۔ جیساکہ ہم نے اس سے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ تاریخ معاصر میں سنی اور شیعی تحریکوں میں فرق صرف ان کے افکار و نظریات میں نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور نفسیاتی فکرمیں بھی ہے۔ ہر ایک نے اپنے اصول اور خصوصیات کے مطابق نفسیاتی اور اجتماعی عمارت بنا رکھی ہے۔ اور یہ فرق صدیوں کے دو متفاوت نظریہ تجربوں کا نتیجہ ہے۔ لہذا جتنی عظیم اور وسیع تحریکیں بھی ان دو گروہوں میں اٹھیں گیں وہ سب انھیں دو متفاوت مجموعہ سے متأثر ہوں گیں اور حقیقت بھی یہی ہے اور جب کہ ایسا ہے تو پھر یہ توقع بیجا ہے کہ ان تحریکوںکے اسلامی ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے مظاہر اور ان کے اثرات یکساں ہونا چاہئے۔یہ بات درست ہے کہ یہ دونوں تحریکیں اسلامی ہیں اور اسلام کو حاکمیت عطاکرنے کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں لیکن مسئلہ تویہ ہے کہ یہ دونوںنظریات اسلام کی مختلف تفسیریں ہیں جو اب تک چلی آرہی ہیں اور ابھی بھی واقعیت وہی ہے جو پہلے تھی۔
اہل سنت کی انقلابی اوراسلامی تفکر کی پہلی مشکل فقہی و کلامی محدودیت ہے کہ جو اس بات کی اجازت نہیںدیتی کہ ظالم حکام کے مقابلہ میں قیام کیا جاسکے اور دوسری طرف سرعت سے بدلتے ہوئے حالات ہیں بعض اسلامی ممالک میں جوان نسلوں کی اسلام خواہی نے انھیں جہاد اور مبارزہ کی دعوت دی ہے۔ یہی دو اسباب موجب بنے کہ جس کی وجہ سے اہل سنت کے علما اور دین کے دلدادہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی ہمراہی نہ کرسکے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حکام کا علمی و دینی مراکز پر قبضہ کرنا اور انکے استقلال کو سلب کرلینا نیز انھیں اپنی خدمت کے لئے مجبور کرنا بھی ایسے حالات کو وجود بخشنے میں مؤثر رہے ہیں۔ سنی ممالک میں صاحبان قدرت مخصوصا عربی ممالک جو اسلامی تحریکوں کے عظیم مراکز ہیں وہ خواہ تونس ہو یا مراکش، مصر ہو یا سوریہ یا سعودی عرب (عربستان) اور یمن، ان آخری دہائیوں میں ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ علمی و دینی مراکز اور تعلیم کو جدید اصول و قوانین کے تحت قرار دینے کے بہانے سے انھیں اپنے قبضہ میں لے لیں اور وہ اپنے اس ہدف میں ایک حد تک کامیاب بھی رہے ہیں، اہم یہ نہیں تھا کہ یہ تغیرات ان مراکز پر تسلط کا باعث بنے بلکہ اہم تو یہ تھا کہ وہ اپنی پایداری دینی اصالت اور علمی شمول کھو بیٹھے اور یہ روش ضرورت روزگار کے خلاف تھی جب کہ دینی ضرورتوں اور علمی و اخلاقی ضرورتوں کو اسی حد تک پورا کرنا واجب تھا کہ جتنا جینے اور اس کے درک کرنے کا محتاج ہیاور یہ بات مسلم ہے کہ وہ لوگ جو مختلف میدانوں میں اسلام کی عظیم میراث سے بے خبر ہیں وہ اس دور کی مختلف ضرورتوں کا شائستہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔
یہ مشکلات ۱۹۶۰ء کے درمیان وجود میں آئیں اور ۱۹۷۰ء کے حالات نے انھیں عروج بخشا اور پھر انقلاب اسلامی ایران نے اسے کمال تک پہونچایا، اصل مشکل اسلام کی ایک جدید تفسیر کی تلاش تھی جو انھیں انکے جہادی تفکر میں مددگار ثابت ہوسکے۔ انھیں اسلامی معاشرہ کی برقراری میں رہنمائی کرے اور ان سے کہے کہ اسلامی معاشرہ تک رسائی کے لئے کیا کرنا چاہئے اور کس طرح ان سے مبارزہ کریں، انھیں حالات میں ایک علمی و دینی، آگاہ اور قابل اعتماد شخصیت کی مدد سے قیام کربیٹھے، لیکن اصل مشکل یہ تھی کہ انھیں قلت کا احساس تھا اور جو کچھ انھیں انجام دینا تھا اسے پوراکرنے کا ارادہ بنا چکے تھے کہ انھیں کیا کرنا ہے اور کیا حاصل کرنا ہے۔ ان کی مختصر معلومات ان سوالوںکا جواب بن گئی کہ جس کا جواب پہلے دیا جاچکا تھا اور ہدف یہ تھا کہ ان کے جواب کے لئے تائید حاصل کریں۔
ایسے حالات میں یہ جوابات پورے طورپر اسلامی نہیں ہوسکتے تھے۔ ہاں انھیں ایک اسلامی رنگ مل سکتا تھا اور چونکہ یہ جوابات جوانوں اور طالب علموں کے اعتقادات و افکار اور نفسیات کے مطابق تھے لہذا انھیں تیزی سے اپنے طرف جذب کرلیا اور انھوں نے اسے ایک اسلامی راہ حل سمجھ کر قبول بھی کرلیا۔ لیکن اس میں دو ایسی بنیادی مشکلیں تھیں کہ جس کی وجہ سے بدلتے حالات کا مقابلہ کرنے اور اسے دوام بخشنے سے عاجز تھا۔ ایک نظریہ کی میزان مقاومت بالخصوص انقلابی اور جنگجو افراد کے نظریات، زمانہ کے حوادثات کے مقابلہ میں اسی وقت ٹھہر سکتا ہے جب دور حاضر میں پیش آنے والی مشکلات کا جواب دینے پر قادر، منسجم اور اصول و قوانین پر قائم ہو، لیکن یہ فکر ایسی خصوصیات سے عاری اور خالی تھی۔