اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات0%

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف: محمد مسجد جامعی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28630
ڈاؤنلوڈ: 3895

تبصرے:

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28630 / ڈاؤنلوڈ: 3895
سائز سائز سائز
اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

فہم تاریخی

صدر اسلام کی تاریخ پر ایک نظر

اہل سنت اور شیعوں کی سیاسی فکر کی تصویر کشی میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سبب، تاریخ اسلام پر ان دونوں یعنی اہل سنت اور شیعوں کے زاویۂ نگاہ کی کیفیت ہے۔ البتہ اس بحث کی اہمیت فقط اسی میں محدود نہیں ہے جس کی مدد سے ہم ان دونوں کے سیاسی افکار کے معیار کا پتہ لگا لیں بلکہ بنیادی طورپر ان دونوں مذہبوں کے دینی فہم کلی طورپر اور اس کی تمامیت کے لحاظ سے اس فکر کے زیراثر ہے۔ اگرچہ اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ ایسے نظریہ کی تاثیر ان دونوں کی سیاسی فکر کو وجود میں لانے کے لئے اس کی تاثیر دوسرے مباحث میں ہونے والی تاثیر سے زیادہ ہے۔

جیسا کہ اس سے پہلی والی فصل میں کہا جاچکا ہے کہ مسئلہ صدر اسلام کی تاریخ، خصوصاً خلفا ئے راشدین کے زمانہ کی تاریخ صحابہ و تابعین کے زمانہ کی تاریخ، اہل سنت کے درمیان بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ حالانکہ شیعوں کے نزدیک تاریخ کا یہ زمانہ دوسرے تمام زمانوں کی تاریخ سے کوئی امتیاز نہیں رکھتا ہے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ فقط نظری اعتقاد کی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اہل سنت اس کے واسطے کسی خاص دینی اہمیت کے قائل ہیں اور شیعوں کے نزدیک اس کی ایسی اہمیت نہیں ہے۔ فقط اس کی اہمیت اس بات میں ہے کہ ایسے نظریہ نے ان دونوں فرقوں کے ماننے والوں کو دین کے سمجھنے میں بہت شدت کے ساتھ متأثر کردیا ہے۔ جہاں تک کہ اہل سنت اسلام کو، کلی طورپر، اسی مخصوص زمانہ کی تاریخ کے معیار پر پرکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ اس تاریخی دور کو وہ تعلیم اسلامی اور اس کی عینیت کا مظہر سمجھتے ہیں۔ اور شیعہ لوگ تاریخ کے اس حصہ کے برخلاف اسلامی معیار کے مطابق پرکھتے اور دیکھتے ہیں؛ لہٰذا اس مخصوص زمانہ کی تاریخ کے متعلق تنقیدی موقف اپناتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس دقیق نکتہ کا سمجھنا ان دونوں گروہوں کے دینی افکار کے سمجھنے میں اور خاص طور سے ان دونوں کی سیاسی فکر کا سمجھنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ لہٰذا پہلے اسی بحث کو شروع کررہے ہیں۔

اہل سنت تاریخ کے شروعاتی دور کے واسطے اور کم سے کم خلفائے راشدین کے آخری دور تک، ایک خاص دینی شان اور حیثیت ، بلکہ خدا ایک داد تقدس کے قائل ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ عقیدہ کیوں، کس طرح اور کس زمانہ میں ظاہر ہوا اور اس نے دینی فہم پر کیا اثر چھوڑا اور خصوصاً سیاسی افکار اور معاشرتی و تاریخی تبدیلیوں پر کیا اثر ڈالا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اسلام (اس مقام پر تاریخ سے مراد رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لے کر خلفائے راشدین کے آخری دور تک ہے اور عام طورپر اہل سنت متفقہ طورپر اس (خلفائے راشدین کی خلافت کے) زمانہ کو دین کا بہت زیادہ اہمیت والا زمانہ سمجھتے ہیں) صدر اسلام کے مسلمانوں کی نظر میں یہ زمانہ خصوصیت کے ساتھ دین کے لئے بے اہمیت زمانہ تھا ۔ وہ لوگ نہ فقط یہ کہ ایسی اہمیت کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے بلکہ یہاں تک کہ وہ اس کے کسی امتیاز کے بھی قائل نہیں تھے بعد میں پیش آنے والے واقعات اور حوادث نے ایسے عقیدہ کو جنم دیا۔

دوسرے لفظوں میں اس دور کی تاریخ کچھ اس طرح وجود میں آئی اور بعد میں اس کو ایک دوسری نظر سے دیکھا جانے لگا،یہ دونوں دور بہت زیادہ مختلف تھے۔ اہل سنت کی دینی فکر اور اس طرح ان کی سیاسی فکر بھی اسی نظریہ کے تابع تھی نہ کہ اس کے وجود میں آنے کی۔ اب دیکھتے ہیں اس کی داستان کس طرح تھی اور کن کن نشیب و فراز سے گذری اور کہاں تمام ہوئی اور بنیادی طور پر ایسا کیوں ہوا۔ اس بحث کی وضاحت کے لئے ہم مجبور ہیں کہ اس کے وجود میں آنے کی کیفیت کی چھان بین اور تجزیہ کریں اور اس کے بعد اس نظریہ اور عقیدہ کے پیدا ہونے کی کیفیت کو بیان کریں۔

اس مقام پر حقیقی نکتہ، جیساکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں یہ تھا کہ اس زمانہ کے تمام مسلمانوں کی نظر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے عہدۂ نبوت کے علاوہ کسی شخص کے لئے کوئی خاصمقام و منزلت اور حیثیت کی حامل نہیں تھی کہ وہ خاص تقدس کا حامل کہا جائے۔(۱) (بعد میں ہم بتائیں گے کہ اس زمانہ کے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستور کے مطابق حضرت علیـ کے لئے ایک بلند و بالا مقام و منزلت کے قائل تھے۔) یہاں تک کہ خلافت اور خلفا بھی کسی خاص شان و حیثیت کے حامل نہیں تھے۔ اس زمانہ کے واقعات کے اجمالی مطالعات نے ہم کو اس نتیجہ تک پہنچا دیاہے۔

ابوبکر کا انتخاب

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعدابوبکر کی خلافت کا انتخاب کیا گیا۔ لوگوںپیغمبر کے خلیفہ اور جانشین ہونے کے عنوان سے ابوبکر کو اپنے دنیاوی امور کے لئے منتخب کرلیا گیا (صرف خلیفۂ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (نہ کہ اس سے زیادہ) یعنی معاشرہ کو ادارہ اور ان کے امور کو منظم کرنے والے کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ البتہ یہ بات نہ بھولنا چاہئے کہ اس زمانے کے مسلمانوں کے سیاسی،اورمعاشرتی اور دنیاوی امور کا مفہوم اس زمانے سے مختلف تھا۔(۲)

اسلام اس زمانے میں معاشرہ میں اسی زمانہ کے اصول و قوانین اور اپنے مقدسات کے مطابق تغییرات وجود میں لایا تھا معاشرتی (دینی، سیاسی)( دینی اور معیشتی) اداروں کی بنیاد ڈالی تھی جو فی الحال سایہ فگن تھے۔ ابوبکر خلافت کے لئے منتخب ہوئے تاکہ ایسے معاشرہ میں ادار ے کی ذمہ داری کو سنبھال لیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس کے دینی اور دنیاوی امور کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا ۔یہ سب آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے والے پیوند کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور اہمیت کا حامل یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ شروع ہی سے اس طرح وجود میں آکر پلا بڑھا اور پروان چڑاھا تھا اور اس کے دینی اور دنیاوی عناصر ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے تھے کہ اس زمانے کے مسلمانوں کی نظر میں ان عہدوں کے لئے صلاحیت کو پرکھنے کے لئے کسی خاص شرائط کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف مسلمان ہونا اور خصوصاً ان تمام امور کا ذمہ دار ہونا ہی اس کی صلاحیت کے احراز کے لئے کافی تھا۔(۳)

مثال کے طورپر نماز جماعت اور جمعہ معاشرتی اداروں میں سے ایک ایسا ادارہ ہے جو نو مسلم معاشرہ کا مذہبی سماج تھا۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں یہ دونوں نمازیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودگی میںچاہے وہ مدینہ میں ہو یا دوران سفر ہو ںیا کہ میدان جنگ میں ہوں آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کی اقتدا میں ادا کی جاتی تھیں اور جن جگہوں پر حضرت موجود نہ ہوتے تھے اس شخص کی اقتدا میں نماز ادا کی جاتی تھی جس کو آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت نے امیرا ور اپنا جانشین مقرر اورمعین فرمایا ہو مثلاً جنگ کے موقع پر نماز جماعت اور جمعہ لشکر کے سردار کی اقتدا میں ادا ہوتی تھی اور مدینہ میںآنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کی عدم موجودگی میں آپ کا وہ جانشین نمازوں میں امامت کرتا تھا جس کو خودآ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقرر فرماتے تھے۔

اسی طرح جیساکہ بیت المال بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے ہاتھوں میں تھا اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عدم موجودگی میں امیر لشکر یا اس جانشین کے ہاتھ میں ہوتا تھا جس کو آنحضرت معین فرماتے تھے۔ فیصلہ دینے اور حَکَم بننے اور سیاسی انتظامی (فوجی) امور کے ادارہ میں بھی عیناً وہی دستورالعمل تھا۔ لیکن ان منصبوں کا احراز کرنا اس وقت کے مسلمانوں کی نظر میں اس معنی میں نہیں تھا کہ جو بھی فرد ان منصبوںکا عہدہ دار ہو، اس کی کوئی خاص دینی حیثیت ہو اور وہ خاص مقام و منزلت کا حامل بھی ہو ان دنوں کے مدینہ کے مسلمانوں کا تجربہ اس مفہوم کو ذہن میں راسخ کر رہا تھا کہ حاکم اپنی جگہ حاکم ہے، چاہے اس کی ذمہ داری کا دائرہ وسیع ہو یا محدود ہو، ان عہدوں اور منصبوں کو وہ اپنے ذمہ لیتا ہے اسی وجہ سے کبھی بھی یہ فکر پیدا نہ ہوئی کہ ایسے کاموں کی ذمہ داری کا سنبھالنا حاکم کو ایک خاص دینی منزلت اور مرتبہ عطا کر کے اسے مزید ترقی دے دے گا۔

علی عبد الرزاق نے اپنی معروف کتاب کی ایک فصل میں ان واقعات کو مفصل اور تحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے جوواقعات پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد رونما ہوئے وہ اپنے تحلیل و تجزیہ کے بعض ان حوادث کے بارے میں جو ابوبکر کے انتخاب سے پیدا ہوئے اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں: ''... اس دن (یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے روز) مسلمان اس بات کے مشورہ میں مشغول ہوگئے کہ وہ لوگ ایک ایسی حکومت جس کو وجود میں لانا ضروری تھا اس کے بارے میں مشغول ہوگئے ۔ واقعاً یہی سبب تھا کہ ان کی زبان پر امارت و امرا اور وزارت و وزرا کے ایسے کلمات جاری تھے اور قدرت و شمشیر، عزت و ثروت، شان و شوکت اور عظمت اور اپنی بزرگی کی باتیں کررہے تھے۔ اور ان سب چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی مگر صرف اس لئے کہ حکومت اور ایک سلطنت کو وجود میں لانے کی تمام کوششوں میں غرق ہوجانا ہی اس کا اصلی سبب تھا، جس کا نیتجہ یہ ہوا کہ مہاجرین و انصار اور بزرگ صحابہ کے درمیان رقابت پیدا ہوگئی۔ یہاں تک کہ ابوبکر کی بیعت کرلی گئی اور وہ اسلام کے پہلے بادشاہ تھے۔

اگر ان حالات پر غورو فکر کیا جائے جن حالات کے تحت ابوبکر کی بیعت کرلی گئی اور یہ کہ وہ کس طرح مسند خلافت پر براجمان ہوگئے؛ تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ بیعت محض ایک سیاسی اور حکومتی بیعت تھی اور جدید حکومتوں کی تمام خصوصیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ وہ بھی دوسری حکومتوں کی طرح برپا کی گئی۔ یعنی قدرت اور تلوار کے زور پر قائم کی گئی۔

یہ ایک نئی حکومت اور سلطنت تھی جس کو عربوں نے قائم کیا۔ لہٰذا یہ سلطنت ایک عربی سلطنت اور حکومت تھی۔ لیکن اسلام، جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ تمام بشریت سے متعلق ہے۔ نہ عربی حکومت ہے اور نہ ہی عجمی ہے۔ لیکن یہ حکومت ایک ایسی عربی حکومت تھی جو دینی دعوت کے نام پر برپا کی گئی تھی۔ اس کا نعرہ اس دعوت کی حمایت اور اس کا قیام تھا۔ شاید اس دینی دعوت کی ترقی میں بھی واقعاً ایک بڑا اثر موجود تھا؛ بلا شک وشبہہ اسلام میں تبدیلی لانے میں کلیدی حیثیت کا حامل رہی ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود، پھر بھی ایک ایسی عربی حکومت تھی کہ عربوں کی قدرت کو مستحکم کررہی تھی اور ان کے مصالح کی تلاش میں مصروف تھی۔ زمین کے کونے کونے کوان لوگوں(اعراب) کے قبضہ میں دے دیا اور اس کو اپنی خدمت میں لے لیا۔ بالکل دوسری طاقتور اور فاتح قوموں کی طرح... اس زمانہ کے مسلمانوں کی فہم یہ تھی کہ اس کے انتخاب کے ذریعہ مہذب اور دنیاوی حکومت قائم کرلیں گے اورا سی وجہ سے خلافت کے خلاف مخالفت اور علم بغاوت بلند کرنے اور اس کے خلاف خروج کو جائز جانا۔ وہ لوگ یہ جانتے تھے کہ اس بارے میں ان کا اختلاف صرف دنیاوی امور میں سے ایک امر میں ہے اور دینی امور سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ان لوگوں نے ایک سیاسی مسئلہ پر اختلاف کیا تھا جس کا ان کے دین سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ اختلاف ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کررہا تھا۔ نہ ابوبکر اور نہ ہی اس کے خاص لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اس فکر میں نہیں تھے کہ مسلمانوں کی رہبری کا حاصل کرنا ایک دینی مقام ہے اور نہ ہی ان کے خلاف بغاوت دین کے خلاف بغاوت اور خروج کے مترادف ہے۔ ابوبکر صریح انداز میں یوں کہا کرتے۔تھے:'' اے لوگو! میں بالکل تمہاری ہی طرح ایک شخص ہوں اور نہیں معلوم شاید تم لوگ مجھ کو ان کاموں کی ذمہ داری میرے سر عائد کر دو جن کے انجام دینے کی طاقت صرف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھتے تھے۔ خداوندعالم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دنیا والوں پر منتخب کیا اور ان کو ہر بلا و آفات سے محفوظ کر دیا اور ان کوعصمت بخشی اور میں تو صرف ان کا تابع ہوں اور کسی نئی چیز کا وجود میں لانے والا نہیں ہوں۔

نیا رنگ اختیار کرنا

لیکن بعد میں آہستہ آہستہ بہت سارے اسباب کی بناپر ابوبکر کے انتخاب کو دینی رنگ دے دیا گیا اور لوگوں پریہ پیش کیا کہ وہ دینی عہدہ پر فائز تھے اور وہ اپنے اس منصب پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نمائندہ تھے۔ اس طرح سے مسلمانوں کے درمیان یہ فکر پیدا ہوگئی کہ ان کی حکومت کا مفہوم دینی مقام ومنزلت اور حیثیت کا حامل ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نیابت ہے۔ اہم ترین دلیلوں میں سے ایک دلیل، جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان یہ فکر پیدا ہوئی وہ ایک لقب تھا جس کو ابوبکر پر چسپاں کر دیا گیا اور اس کو خلیفۂ رسول اللہ کا نام دے دیا گیا۔''(۴)

چنانچہ اسی فکر کی بنیاد پر جو ایک حاکم کے متعلق موجود تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے ابوبکر کی خلافت کے لئے اقدام کیا۔ ان کی نظر میں وہ (ابوبکر) دوسرے لوگوں کی طرح ایک عام انسان تھا اور ایسے منصب پر لایا گیا تھا جو ہر طرح کی دینی شان اور مقام و منزلت سے عاری تھا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ منصب اور اس کے فرائض اور قاعدتاً اسلامی نوخیز سماج کی تشکیل نو اور اس کے وہ ادارے جن کی تعیین اور حدبندی دین کے ذریعہ ہوچکی تھی، لیکن یہ واقعہ اس زمانہ کے مسلمانوں کی نظر میں اس سے زیادہ مفہوم نہیں رکھتا تھا کہ خداوندعالم کا منشا یہ ہے کہ مسلمان لوگ ایسے معاشرہ اور حالات میں زندگی بسر کریں اور ہرگز اس معنی میں نہیں تھا کہ ایسے عہدوں کو حاصل کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ خاص دینی حیثیت کے حامل ہوں۔ البتہ یہاں پر گفتگواس طرح کے طرزفکر اور تصور سے ہے جو اس کے بارے میں مسلمانوں کے افکار تھے، نہ یہ کہ مثلاً پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی تاکید اور بیان فرمایا تھا۔ اس زمانہ کی تبدیلیوں کو جاننے کے لئے خاص طور سے لازم ہے کہ اس فہم اور اس فکر کے وجود میں آنے کی کیفیت اور اس کی تاثیر کے بارے میں تحقیق اور اس کی چھان بین کی جائے۔(۵)

ہماری اس بات کی تصدیق کے لئے سب سے بہتر دلیل ابوبکر کا انتخاب اور اس کا مسند خلافت پر مستقر ہونے کی کیفیت ہے۔ اگرچہ اس کا انتخاب ایک مدت کے بعد خصوصاً حضرت علی ابن ابی طالب کے بیعت کرنے کے بعد عام طورپر مقبولیت پاگیا، لیکن شروعاتی دنوں میں اس کے انتخاب نے بہت بڑا جنجال کھڑا کردیا تھا۔ اس کے مخالفین ایک طرف انصار تھے جو مہاجروں کی حکومت کے آگے اپنی گردنیں جھکانے کے لئے تیار نہیں تھے(۶) اور دوسری طرف قریش تھے، ان میں سے سر فہرست ابوسفیان تھا، جو ابوبکر کے خاندان کو اس سے پست تر سمجھتے تھے کہ قریش کے اعلیٰ خاندانوں پر حکومت کرے لہٰذا وہ لوگ حضرت علی ـ اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا عباس کی تلاش میں تھے کہ ان کو اپنا حاکم اور خلیفہ بنائیں ۔(۷) دوسرا گر بنی ہاشم اور حضرت علیـ کے ماننے والوں کا تھا جو آپ کے سچے دوست اور اپنی جانیں قربان کردینے والے تھے وہ البتہ یہ لوگ چند خالص دینی وجوہات کی بناپر اس کے انتخاب (سقیفہ بنی ساعدہ) کے مخالف تھے(۸) اور یہ ایک ایسا نیا واقعہ تھا جو مدینہ میں موجود تھا۔ مسلمانوں کے بہت سے خاندان جو مدینہ کے باہر رہتے تھے (مدینہ کے اندر کے) اس انتخاب کے مخالف تھے اور بعد میں ''اہل ردہ'' کے نام سے مشہور ہوگئے۔ اگرچہ ان قبائل میں سے بعض واقعاً مرتد ہوگئے اور اسلام سے اپنا منھ موڑ لیا تھا، لیکن ان میں سے بعض گروہ صرف ابوبکر کے منصب خلافت پر پہنچنے کے طریقہ، کیفیت اور اس کے انداز پر اعتراض کررہے تھے اور اس سے زیادہ مخالف نہیں تھے۔ اگرچہ بعد میں زمانہ اور تاریخ کی مصلحت اس بات کی متقاضی تھی کہ یہ لوگ بھی ارتداد سے متہم ہوجائیں۔(۹)

اس میں جو چیز بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ ابوبکر کے مخالفین اور موافقین کی ہنگامہ ساز اور جنجالی بحثیں ہیں۔ بجز ایک مختصر اقلیت کے جو حضرت علیـ کے ماننے والے تھے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سفارشوں اور خود حضرت علی ـ کی دینی شخصیت اور اس عہدہ کی لیاقت اور شائستگی اور اس عہدہ کے احراز کی خاطر اساساً اس عہدہ (امامت) کی اہمیت کی وجہ سے اس کے لئے زور دے رہے تھے، دوسروں کی گفتگو اس مدار کے علاوہ کسی دوسرے مدار کے اردگرد چکر کاٹ رہی تھی۔ بحث یہ نہیں تھی کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کس معنی اور کن خصوصیات اور حالات کی محتاج ہے اور کون اس کا حق دار ہے اور اس کے حصول کی لیاقت رکھتا ہے۔ ہر گروہ اپنے دلخواہ امیدوار ( Candidate ) کی طرفداری کررہا تھا۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ مسئلہ فقط سیاسی اور قبیلہ ای رقابت کی حدتک باقی رہ گیا تھا جس کی کوئی دینی حیثیت نہیں تھی، اتنی زیادہ پست ہوگئی تھی۔(۱۰)

جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ صرف حضرت علی ابن ابی طالب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کے چاہنے والوں کی مخالفت تھی جو دینی رنگ لئے ہوئے تھی، ان کی باتیں بعد میں آنے والے زمانہ میں خود آنحضرت کے ذریعہ بطور مبسوط و مفصل اور مزید صراحت کے ساتھ بیان ہو ئیں (خصوصاً آنحضرت کی خلافت کے زمانہ میں خطبۂ شقشقیہ ان نمونوں میں سے ایک ہے) وہ یہ تھا کہ اولاً تم لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تاکیدی دستورات اور فرامین کو کیوں نظر انداز کردیا، دوسرے یہ کہ اس شائستہ مقام کی کچھ خصوصیات ہیں جو آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت( حضرت علی ـ) کے علاوہ کسی دوسرے شخص میں نہیں پائی جاتیں جو اس عہدہ کے لئے اولیٰ ہو۔ لہٰذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی اور میں اس منصب کو اپنے اختیار میں لینے کی کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔(۱۱)

آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت نے ابوبکر کے طرفداروں سے خطاب کرکے فرمایا: جو آپ سے اس لئے بیعت لینا چاہتے تھے فرمایا: ''خدا کے لئے! خدا کے لئے! اے مہاجرو!پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قدرت و سلطنت کو ان کے گھر سے باہرمت لے جاؤ اور اسے اپنے گھروں میں مت لے جائو۔ اس کے اہل کو خلافت سے اور ہر وہ چیز جس کا وہ حق دار ہے، اس سے منع مت کرو۔ اے مہاجرو!خدا کی قسم ہم اہل بیت لوگوں کے مقابلہ میں اس (خلافت) کے زیادہ حقدار ہیں۔ ہم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں اور ہم اس کے لئے تم سے زیادہ سزاوار ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ کتاب کی تلاوت کرنے والا (قرآن) اور خداوندعالم کے دین کا فقیہ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کا عالم اور رعایا کے امور سے آگاہ، برائیوں کا ختم کرنے والا اور ان کے درمیان برابر کا تقسیم کرنے والا ہمارے درمیان ہے؟ خدا کی قسم وہ شخص ہمارے درمیان ہے۔ اپنے خواہشات نفس کی پیروی نہ کرو کہ گمراہ ہوجاؤگے اور اس طرح حق سے دور ہوجاؤ گے''۔(۱۲)

خاندانی چپلقش

صرف یہ ایک ایسا کلام تھا جس کا انداز کچھ اور ہی تھا۔ دوسرے لوگ بھی اپنے دفاع کے لئے منصب خلافت کے بارے میں، صلاحیت اور لیاقت کے علاوہ دوسری چیزوں کی نشان دہی کررہے تھے اور ان لوگوں میں خاندانی مقابلہ آرائی کا جذبہ بیدار ہوگیا تھا اور سبھی لوگ خاندانی برتری کا راگ الاپ رہے تھے اور اسی پر سارا زور صرف کررہے تھے۔ ایک طرف مہاجرین و انصار کے درمیان شدید رسہ کشی تھی اور دوسری طرف مہاجرین کے درمیان داخلی رسہ کشی موجود تھی ان میں کا ہر ایک کسی نہ کسی پرچم تلے چلا گیا تھا۔ بنی امیہ عثمان کے اردگرد اور بنی زہرہ عبدالرحمٰن ابن عوف کے اردگرد اور بنی ہاشم بھی حضرت علی ابن ابی طالب کے اردگرد جمع ہوگئے تھے۔(۱۳) ابوسفیان ابوبکر کی خلافت سے راضی نہیں تھا، ایک مختصرجملہ کے ذیل میں اس زمانہ کے حالات و واقعات کی بخوبی تصویر کشی کرتا ہے: ''خدا کی قسم، میں گرد و خاک دیکھ رہا ہوں (گرد و خاک سے اشارہ یہ ہے کہ جنگ اور حملہ کے وقت گھوڑوں کی ٹاپوں سے جو گرد و خاک بلند ہوتی ہے) جس کو خون کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں بٹھا سکتی ہے۔ اے عبد مناف کی اولادو! ابوبکر کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تمہارے مقدر کو اپنے ہاتھوں میں لے؟ کہاں ہیں وہ دو شخص جن کو مستضعف ذلیل بنا دیا گیا ہے؟ کہاں ہیں علیـ و عباس؟''(۱۴) بہرحال اس زمانہ میں ایسے حالات تھے کہ حضرت علیـ کی مخالفت حضرت زہرا کی مخالفت کے تحت الشعاع قرار پاگئی تھی۔ کیونکہ حضرت علی ابن ابی طالب اگر مخالفت پر زیادہ اصرار کرتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردیا جاتا(جیساکہ صراحت کے ساتھ مخالفین نے آپ سے کہا کہ اگر مخالفت کرو گے تو قتل کردیئے جاؤ گے) لیکن حضرت فاطمہ زہرا کو خصوصی موقعیت حاصل تھی، آپ کا تعلق صنف نسواں سے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تنہا یادگار تھیں یہ موقعیت حضرت امیرا لمؤمنین علی بن ابی طالب کی ایک طرح سے حفاظت کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت زہرا کی شہادت کے بعد حضرت علی ـ نے ظاہراً اپنے ہاتھ ان کے ہاتھوں میں دے دیئے اور آپ کی اتباع میں بنی ہاشم اور آپ کے خاص اصحاب نے بھی آنحضرت کی تأسّی کی۔(۱۵)

یہ وہ حالات تھے کہ اسی دوران میں ا بوبکر کی خلافت مستقر ہوگئی۔ اس انتخاب کی کیفیت اور ان بیانات کی حقیقت جو اس (بیعت) کی تائید اور تکذیب میں دیئے گئے وہ خلافت کے بارے میں اس زمانہ کے مسلمانوں کی ذہنیت کا پتہ دیتے ہیں۔ اگرچہ ابوبکر کی شخصیت جانی پہچانی ہوئی تھی، لیکن وہ چیز جس نے اس کی موقعیت کو اس کی برقراری تک پہونچادیا، وہ ان کی ذاتی خصوصیات اور دینی حیثیت اور مقام و منزلت نہیںتھی، جس کے متعلق بعد میں مختلف افکار کی بناپر بہت زیادہ شاخسانے ان کے بارے میں بیان کر دیئے گئے اور ان صفات اور مقام و منزلت کو اس کے لئے جعل کر دیا گیا، بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کے بارے میں مسلمانوں کا بہت ہی سادہ اور معمولی تصور تھا۔ مسلمانوں کی نظر میں یہ منصب ہر قسم کی دینی حیثیت اور اس کی بلند مرتبہ برتری و بزرگی سے خالی تھا۔(۱۶)

البتہ اس میں دوسرے اسباب و عوامل بھی دخیل تھے جو شاید ان میں سے سب سے اہمیت کے حامل تھے وہ ایسے خطرات تھے جو مدینہ کے باہر سے اپنے دانت تیز کرہے تھے۔ ان میں سے اہل ردہ کی طرف سے بغاوتیں اور عربستان کے مرکزی و جنوبی علاقوں میں رہنے والے قبائل کے درمیان ایک حدتک دھمکی محسوب ہوتی تھیں یہاں تک کہ باہمی کشمکش نے خود مدینہ کو بھی حتمی طورپر سنجیدہ دھمکیوں کی زد پر لئے ہوئے تھا (یہاں پر اہل ردہ سے مراد وہ لوگ ہیںجن لوگوں نے واقعاً اسلام سے منھ موڑ لیا تھا اور یہاں تک کہ مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان لوگوں کو ابوبکر کی خلافت قبول نہ کرنے کی بناپر وہ لوگ اس نام سے مشہور ہوگئے۔) اور دوسرا خطرہ روم اور ایران کا خطرہ تھا ان میں سے پہلا یعنی ''روم'' کا خطرہ ہولناک ،بہت زیادہ سنجیدہ اور حتمی تھا مجموعی طور پر یہ تمام امور اس بات کا باعث ہوئے لوگوں کی عام کہ نگاہیں مدینہ کے باہر کی طرف مرکوز ہوجائیں اور اندرونی اختلافات کو کم از کم' وقتی طور'پر بھلا دیا جائے اور ایسی صورت میں مسلمانوں کا تمام ہم و غم اور ذکر و فکر فقط اپنی موجودیت کا دفاع باقی رہ جائے۔ اس زمانہ کے آشفتہ اور بیم و ہراس سے بھرے ہوئے اس زمانہ کے حالات کو واضح کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ فقط مرتدین (مرتد ہوجانے والوں) کو پسپاکرنے کے لئے بارہ سو مسلمان جن میں زیادہ تر تعداد قاریان قرآن اور حفاظ کی تھی وہ سب کے سب قتل کردیئے گئے۔(۱۷) اس وقت کے مدینہ کی محدود آبادی اور تمام مسلمانوں کی آبادی کا لحاظ کرتے ہوئے قتل ہونے والوں کی اس تعداد سے اس زمانہ کے کشیدہ اور پریشان کُن حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔(۱۹)

ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں اہل ردہ کی بغاوت کو کچل دیا گیا اور حجاز (سعودی عر بیہ) کے حالات میں بہتری ہونے لگی۔ لیکن بیرونی خطرات اسی طرح اپنی شدت کے ساتھ باقی رہے اور مسلمانوں کو فکرمند اور پریشان کئے ہوئے تھے خصوصاً وہ لوگ جو علاقہ میں اس زمانہ کی دو بڑی طاقتوں کے مزدور شاہی نوکر جو مسلمانوں کے ہمسایہ تھے اور ہر لمحہ ان کے حملہ کا امکان تھا۔(۲۰)

ان سب باتوں کے قطع نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی آخری ایام میں لشکر کو رومیوں کے خلاف جنگ کے لئے اسامہ ابن زید کی سرداری میں مستعد کردیا تھا۔ اگرچہ ظن غالب کے طور پر، اس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اصلی مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کو مدینہ سے دور رکھا جائے جن کے بارے میں اس بات کا امکان تھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خلافت و امامت کے بارے میں آپ کی وصیت سے منحرف کرنے کے لئے میدان کو ہموار کریں گے، لیکن بہرحال رومیوں کی جانب سے خطرہ حتیٰ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں بھی مسلمانوں کو د ھمکی دے رہا تھا ابوبکر نے 'اہل ردہ' سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اسامہ کی سرداری میں ایک لشکر کو رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے بھیج دیا۔ البتہ یہ واقعہ، جس کا خود انھوں نے اظہار کیا ہے، زیادہ تر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی اورتأسّی میں تھا نہ کہ خطرہ کو برطرف کرنے کے سبب ا ایسا کیا۔اگرچہ ایسا خطرہ بھی لاحق تھا جس نے مسلمانوں کو فکرمند کر رکھا تھا۔(۲۱)

عمر کی سیاسی جد و جہد

ابھی ایسے ہی حالات تھے کہ ابوبکر کا انتقال ہوگیا۔ ان کی وصیت کے مطابق عمر خلیفہ بن گیا۔ بالکل انھیں وجوہات کی بنیاد پر جیسے ان کے پہلے والوں نے خلافت حاصل کی تھی ویسے ہی انھوں نے بھی خلافت حاصل کرلی۔ لوگوں کی توقع یہ تھی کہ وہ ان کے دنیاوی امور کو اپنے ذمہ لے لیگا، اس سے زیادہ اور کوئی توقع نہ تھی اور عمر اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے کے لئے میدان میں اُتر آئے اور اس طرح وہ (خلافت کے لئے) قبول کر لئے گئے۔ ان کی پر سکون اندازاور بڑی ہی خاموشی سے اس کے قبول کرلیئے جانے کے متعدد اسباب تھے۔ ان میں سے بعض اسباب اس زمانہ کے حالات اور ابوبکر کی جانشینی کے تجربہ کی طرف اور بعض اسباب اس کی شخصیت اور ذاتی خصوصیات سے وابستہ ہیں۔(۲۲) پھر بھی اس مقام پر بھی (خلیفہ اور خلافت کی) اس کی دینی شان اور حیثیت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اگرچہ بعد میں اس (دینی فضیلت)کے بارے میں بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کی گئیں۔ نہ تو وہ اپنے واسطے کسی دینی مقام اور حیثیت کے قائل تھے اور نہ ہی اس کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کا سہارا لیا۔ نہ ہی اس زمانہ کے عام لوگ اس کے لیئے کسی دینی حیثیت اور شان کے قائل تھے اور نہ ہی اس کا مسند خلافت پر آنا ان خصوصیات کے سبب وجود میں آیا تھا۔ اگرچہ عمر زیادہ تر دینی اور دنیاوی امتیازات جو اس کے حکومت کے لئے ضروری تھے ان سے (ایسی دنیا کہ ایک حاکم ہونے کی حیثیت سے حاصل بناپر حاصل کرسکتا ہے) بہرہ مند تھا۔ لیکن پھر بھی اس کا دینی فضیلت اور شان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ امتیازات جو اسے حاصل تھے وہ حکومتی منصب پر ہونے کی بناپر وجود میں آئے تھے اور نہ یہ کہ وہ خود حاکم کی ذاتی دینی صلاحیتوں سے متعلق تھے۔ بیشک اقتدار حاصل کرنے میں خود عمر کی ذاتی خصوصیات اور اس کی بقا کے لئے قدرت مندانہ کردار دینی مقام و منزلت سے کہیں زیادہ مؤثر تھا۔(۲۳)

حقیقتاً عمر کے خلافت قبول کرنے کا وہی انداز تھا جو ابوبکر کی خلافت کے قبول کرنے میں اختیار کیا کیا تھا اور اس کو بھی قانونی حیثیت دینے میں بھی ابوبکر کی ہی روش کا نتیجہ تھا چاہے جتنا ابوبکر کا خلافت کے لئے انتخاب کیا گیا ہو اور عمر کی خلافت ان کی وصیت کا ہی نتیجہ تھی۔ لیکن اہمیت کا حامل یہ ہے کہ جس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کے لئے ابوبکر کے انتخاب کا موضوع اس طرح پیش کیا گیاکہ عمر کی خلافت کا راستہ کھلا چھوڑ دیا۔ اس سے قطع نظر ابوبکر کا خلیفہ بننا حقیقت میں تین آدمیوں کا خلافت تک پہونچنا تھا جن میں ابوبکر سرفہرست قرار پائے۔اور بقیہ دو افراد میں ایک عمر تھے اور دوسرے ابوعبیدہ جراح تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر اپنے عمر کے آخری وقت میں چاہ رہے تھے کہ وہ اپنا جانشین مقرر کریں، اس مقام پر کف افسوس مل رہے تھے کہ ابوعبیدہ کیوں زندہ نہیں رہ گئے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو میں انھیں کو یہ منصب سونپ دیتا۔(۲۴)

البتہ اس کی شخصی خصوصیات کو بھی اس بارے میں کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو عربوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا اور اُسے یہ معلوم تھا کہ ان کی کس طرح رہبری کرے۔ جیساکہ وہ ضرورتوں اور اضطرار کی اچھی طرح تشخیص دے لیتا تھا۔ جبکہ وہ خلافت پر بٹھائے گئے تو لوگوں سے اس طرح خطاب کرکے کہا: '' عرب کی مثال اس سدھائے ہوئے اونٹ اور گھوڑے کی ہے جو اپنے راہنما کا اتباع کرتی ہے۔ اور راہنما اس کو جس طرف لے جانا چاہے وہ اس طرف چلا جاتا ہے۔ لیکن مجھے کعبہ کے رب کی قسم میں جس طرف لیجانا چاہوں گا، اس طرف تم کو لے جاؤں گا۔''(۲۵)

اہم ترین بات یہ کہ وہ ٹھیک اسی زمانے میں میدان (خلافت) میں آئے کہ اس زمانہ کا معاشرہ اس کے جیسے خصوصیات کے مالک شخص کا ضرورت مند تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ اس زمانے سے پہلے یا بعد میں جب انھوں نے خلافت کو سنبھالا، اقتدار کو حاصل کیا ہوتا تو، یا تو شکست کھا جاتے یا پھر کم از کم ایسے مقام و منزلت کو حاصل نہ کرپاتے۔ ان کی خوش قسمتی اس میں تھی کہ بہت ہی مناسب وقت میں بروئے کار آئے اور ایسے زمانہ میں زمام حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا کہ اس(عمر) کے زمانہ کی طبیعت اس کی فکری اور اخلاقی خصوصیات، نفسیات اس کے مطابق اور اس سے ہماہنگ تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جس طرز کی حکومت اس نے کی تھی، اس کے علاوہ کسی اور طرز پر حکومت کرتے۔ حضرت عمر کی حکومت ان کی خصلتوں اور خصوصیات کے تحقق پانے کا فطری نتیجہ تھا۔ یہ ان کی طبیعت تھی جواپنے زمانہ کی روح کے ساتھ سازگار اور ہماہنگ تھی اس لحاظ سے کہ ان کی سیاست اسی طبیعت کی مخلوق تھی لہٰذا زمانہ کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتی تھی۔ ان کی تند خوئی اور سخت گیری کی روح نے سیاسی مظاہرہ کے واسطے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی اور حقیقتاً اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ نہ اس زمانہ کے مسلمانوں کامعاشرہ اس بات کا ضرورت مند تھااور نہ ہی اس زمانہ کے عربوں کو ایسی روش اچھی لگتی تھی۔ خلیفہ بھی اخلاقی اور نفسیاتی لحاظ سے اس زمانہ کے عام لوگوں کی طرح ایک عام انسان تھا اور یہی ان کی کامیابی کی کنجی (کلید) تھی۔(۲۶)

بیرونی دھمکیاں

البتہ اس مقام پر بھی ابھی باہری دھمکیوں کے خطرات کے بادل پہلے ہی کی طرح منڈلا رہے تھے اور شاید ایک طرح سے اس سے زیادہ سخت اور زیادہ دھمکی آمیز تھے۔ اگرچہ حجاز کے اندر کوئی اس سے ٹکر لینے والا موجود نہ تھا مگر اس زمانے میں روم اور ایران دونوں ہی دین اور نظام نو کی روزافزوں قدرت بڑھنے کے متعلق زیادہ حساس ہوگئے تھے اور اس درمیان ایران کچھ زیادہ ہی حساسیت دکھا رہا تھا اور مسلمان لوگ واقعاً ان دھمکیوں سے متأثر ہوگئے تھے۔

فطری طورپر ایسے حالات میں ان خطرات کو اپنے سے دفع کرنے کے علاوہ عمومی افکار کسی اور چیز پر مرکوز نہیں تھی۔ پھر بھی نگاہیں اندرون ملک سے سرحد سے باہر کی طرف مرکوز ہوگئی تھیں اور اندرونی کشمکش و اختلافات سے نپٹنے اور اس کے تعاقب کی بھی فرصت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ یہ خطرات اس قدر قطعی اور حتمی تھے کہ عمر نے متعدد بار مصمم ارادہ کیا کہ اپنے سپاہیوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے ایران کے جنگی محاذ پر جائے کہ ہر بار حضرت علیـ نے ان کو اس اقدام سے روک دیا۔ ان سب سے قطع نظر ایران اور روم سے مسلمانوں کی جنگ صرف خطرہ کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لئے تھی جو خطرے ایرانیوں اور رومیوں کی طرف سے مسلمانوں کو لاحق تھے جن کو اس زمانہ میں عموماً اُن کی جانب سے محسوس کئے جارہے تھے نہ کہ فتح اور ملک گیری کے لئے اور یہ احساس وہمی اور خیالی نہیں تھا بلکہ حقیقی تھا۔ وہ لوگ اپنے آپ کو اس سے کہیں زیادہ کمزور محسوس کررہے تھے کہ اتنی بڑی طاقتوں کے مدمقابل اُٹھ کھڑے ہوں، چہ جائیکہ ان پر فتح اور کامیابی حاصل کرلیں۔ خاص طورپر ایرانی اور رومی بادشاہوں کی گوش مالی کی داستان خاص طورپر ساسانی بادشاہوں اور ان کے داخلی کٹھ پتلی حکام (کی گوشمالیوں کی داستان) ابھی تک ان کے دل و دماغ پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی شان و شوکت پر مسلمان لوگ اپنی نظریں جمائے ہوئے تھے۔ اس زمانہ کی تاریخی سندوں کی جانچ پڑتال اور گہرے مطالعہ اور شک و تردیدجو ایسے اقدام کے لئے موجود وہ سب باتیں اس آخری نکتہ کو بخوبی بیان کرتی ہیں۔(۲۷)

ان لوگوں اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان پہلا فوجی مقابلہ محدود پیمانہ پر تھا۔ لیکن یہ اس خاصیت کا حامل تھا کہ اس فوجی مقابلہ کے ذریعہ انھوں (مسلمانوں) نے اپنے مخالفین کے اندرونی نظام کی سستی اور کمزوری کو محسوس کرلیا اور جو چیزیں اس واقعہ میں مدد کرتی تھیں، وہ بعض مقامی فوجی سرداروں کی جنگ طلبی تھی جولوگ اس جنگ کو جاری رکھنے پر مائل تھے اور درحقیقت خلیفہ دوم کو بھی انھوں نے ہی ایران و روم کے خلاف پوری آمادگی کے ساتھ جنگ کے لئے اکسایا، روم کو بھی تشویق کیابلکہ اس کام کے لئے انھیں بھڑکایا۔ لیکن ان (عمر) کو اور بہت سے مسلمانوں کو فتح و کامرانی کے آخری لمحات تک شکست فاش کا اندیشہ لاحق تھا۔(۲۸)

یہ حقیقت عمر کے زمانۂ خلافت کے نصف اول تک برقرار تھی، جو کچھ بعض لوگوں نے ان (عمر) کے مستحکم ارادہ اور ایران و روم سے جنگ و جہاد سے متعلق تمام مسلمانوں کے بارے میں تحریر کیا ہے اکثر اپنے فاتح افراد کی شان و شوکت اور قدرت اور دلیری کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حالات بدل گئے تھے اگرچہ مدائن اور بیت المقدس کی فتح کے بعد ورق پلٹ گیا یعنی حالات تبدیل ہوگئے اور شک و شبہہ اور اندیشہ ختم ہوگیا اور اس کے بعد ان دونوں طاقتوں سے بے خوف و خطر ترقی کے راستہ پر لگ گئے۔ البتہ عمر کی خلافت کے نصف دوم میں حالات بالکل بدل گئے، اس لئے کہ مدائن اور بیت المقدس کو فتح کیا جاچکا تھا اور ایران اور مشرقی روم کی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ دینی جوش و جذبہ اور امنگیں اور سماجی جوش و ولولہ روبزوال تھا۔

اس مقام پر لازم ہے کثیر مال غنیمت کا تذکرہ کیا جائے جس کو عربوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ کثیر مال و دولت اور بہت سارے اسیروں کی کثرت عین اس عالم میں کہ وہ لوگ مترقی تہذیب و تمدن کے مالک تھے، ناگاہ سعودی عرب کے وسیع اور بدوی معاشرہ میں وارد ہوئے اور انہوں نے تمام چیزوں کو اپنے اندر سمو لیا۔ اگرچہ اتنی کثرت سے مال غنیمت کے ورود کے آثار بعد میں زمانۂ عثمان میں اس کے اثرات ظاہر ہوئے لیکن عمر کے زمانہ خلافت کا آخری نصف حصہ بھی ان دھماکوں کے نتائج سے محفوظ نہ رہ سکا۔ عمر کی سختی اور اس کی ہیبت کے باوجود، بہت سے حوادث کو عمر کی خلافت کے آخری دور میں پتہ لگایا جاسکتا ہے جو ان ناراضگیوں کی حکایت کررہا تھا ان انقلابات اور تبدیلیوں کے سبب وجود میں آئے تھے اور اس نے ان کے مقابلہ میں سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔(۲۹)

وہ اپنے اقتدار کے بہترین زمانے میں قتل کردیئے گئے ۔اگر ان کی خلافت زیادہ مدت تک رہتی تو سریع اور تیز تبدیلی پر توجہ کرتے ہوئے جو رونما ہوئے تو ان کا نفوذ اور ان کی قدرت کم ہوجاتی تو پھر ایسی ممتاز اور شجاعانہ موقعیت جس کے کئے بعد میں اہل سنت قائل ہوگئے ہیں، اسے حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

عمر نے جن بہت زیادہ مختلف حالات میں قدرت کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا ان حالات میں انہوں نے اس کو خیرباد کہہ دیا۔ ان حالات میں معاشرہ بسیط، مسد ود اور آنکھیں بند تھیں بیرونی دھمکیوں نے آپسی چپلقش، رسہ کشی اور مخالفتوں کو بروئے کار لانے کے لئے مجال باقی نہیں رہ گئی تھی، لیکن اس زمانہ میں نہ وہ معاشرہ ایسا معاشرہ تھا اور نہ ہی ویسی دھمکیاں تھیں۔ مسلمان لوگ بھی مالدار ہوگئے تھے اور اسی طرح قدرت بھی ایک بڑی شہنشاہیت میں تبدیل ہوگئی تھی اور ایک دوسری دنیا کا تجربہ کررہے تھے۔(۳۰)

یہ تبدیلیاں اور انقلابات بہت زیادہ مئوثر واقع ہوئے تھے اس دوران خاص طورپر معاشرہ کی شخصیات جو اکثر خاندان قریش سے تعلق رکھتے تھے، ان پر اس کا زیادہ اثر پڑا۔ عمر اپنی خلافت کے آخری ایام میں ان کا شکوہ کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کی وجہ سے خداوندعالم سے اپنی موت کی دعا کرتے تھے۔ ایک بار قریش کے کچھ لوگوں سے انہوں نے یوں خطاب کیا: ''میں نے یہ سنا ہے کہ تم لوگوں نے اپنے آپ کو دوسروں سے جدا کرلیا ہے اور اپنی خاص نشستیں برپا کرتے ہو یہاں تک کہ یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص فلاں کے اصحاب میں اور ان کے ہم نشینوں میں سے ہے۔ خدا کی قسم یہ نہ تو تمہارے ذاتی فائدہ میں ہے اور نہ ہی تمہارے دین و عزت و شرف کے فائدہ میں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں آنے والی نسلیں یہ کہتی دکھائی دیں گی کہ یہ فلاں شخص کی رائے ہے اور اس طرح اسلام کو تقسیم کرکے متفرق کردیں گے۔ تم لوگ جمع ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر بیٹھو جو تمہاری الفت اور دوستی کے لئے مفید ہے اور تم لوگوں کو لوگوں کے درمیان مزید مقتدر اور با شکوہ بنادے گی۔ اے خدا!انہوں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے اور میں نے بھی ان کو مضطرب کردیا ہے۔ وہ مجھ سے عاجز آگئے ہیں اور میں ان سے عاجز ہوں اور مجھے یہ نہیں معلوم کہ ہم میں سے کون پہلے خاک کی نقاب اوڑھ لے گا یعنی اس دنیا سے اٹھ جائے گا۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ ان میں سے کوئی ایک شخص زمام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے گا۔ اے میرے خدا! تو مجھے اپنے پاس بلالے۔''(۳۱)