ایک نئی موقعیت
عمر اپنی آخری عمر میں ایسی مشکلات سے دست و گریباں تھے ۔ ان کا نفوذ اور اثر گھٹ گیا تھا اور یہ صرف اس کی ذات سے متعلق نہیں تھا جو نئی موقعیت کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ معاشرہ بالکل بدل گیا تھا اور یہ تبدیلی اپنے ساتھ بہت سی توقعات و ناراضگیوں کو وجود میں لائی تھی اور وہ (عمر) ان سب چیزوں کا جواب بھی نہیں دے سکتا تھا اور ان کو تحمل بھی نہیں کرسکتا تھا۔ آخری مرتبہ جب وہ سفر حج سے واپس ہوا تو لوگوں کو خطاب کرکے اس طرح کہا:'' مجھ سے یہ کہا گیا ہے کہ فلاں شخص (اس سے مراد عبد الرحمن ابن عوف تھے) نے کہا ہے کہ اگر عمر مرجائے تو میں فلاں شخص کی بیعت کرلوں گا...، ہرگز کوئی شخص اس بات پر کہ (ابوبکر کی بیعت اس کے باوجود کہ ناگہانی اور بغیر سوچے سمجھے انجام پائی ، لیکن تشکیل پاگئی اور وہ کامیاب بھی ہوگیا) دھوکہ میں نہ آجائے۔ ہاں ان کی بیعت ایسی ہی تھی، لیکن خداوندعالم نے مسلمانوں کو اس کے شر سے بچالیا۔ لیکن تمہارے درمیان کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس کی اطاعت کے لئے سب لوگ اپنا سر جھکادیں...''
ہماری اس بات کا بہترین شاہد عمر کی وصیت کی وہ کیفیت ہے جس کا قیاس اپنے سلف (ابوبکر) کے مقابلہ میں کیا ہے۔ ابوبکر نے عمر کو معین کیا اور وہ قبول بھی کرلیا گیا، لیکن عمر نے ایسا نہ کیا اور وہ ایسا کربھی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ ابوبکر معاشرہ پر تنہا اور مطلق العنان حکومت کرتے تھے اور وہ بڑے ہی سکون کے ساتھ اپنی باتیں کہنے پر قادر تھے اور دوسرے لوگ بھی ان کی باتوں کو قبول کرلیتے تھے۔ اس لئے نہیں کہ اس نے یہ بات کہی ہے بلکہ وہ لوگ بھی اتنے ہی فکر مند تھے کہ وہ بھی اس کے بارے میں کچھ سوچیں۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں قدرت کا اختیار میں لینا کسی امتیاز اور مقام و منزلت کا حامل نہیں تھا۔ خلیفہ بھی دوسرے افراد کی طرح ایک فرد شمار کیا جاتا تھا۔ جو شخص بھی کوئی کام یا ذمہ داری سنبھالتا وہ بھی خلیفہ ہو جاتا۔ مزید یہ کہ فقیر اور محدود معاشرہ میں مثال کے طورپر ابوبکر کی حکومت کے زمانہ کا معاشرہ جس میں حاکم بھی کسی مادی امتیاز کا حامل نہیں تھا۔ (یعنی معاشرہ کی اقتصادی حالت بہت ہی خراب تھی) لہٰذا اقتدار کی جنگ نہیں تھی اور جنگ کے حالات بھی فراہم نہیں تھے۔
لیکن عمر کے مرنے کے وقت کی داستان کچھ اس طرح تھی کہ نہ ہی وہ خطرات تھے اورنہ ہی وہ محدودیت تھی اور نہ ہی فقرو تنگ دستی کا غلبہ۔ یہ بات فطری تھی کہ بااثر افراد اور مختلف گروہ قدرت پر قبضہ جمانے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ اگرچہ ابھی بھی خلیفہ ہونے کے اعتبار سے اس کا کوئی خاص مقام نہیں تھا، لیکن ان مقام کو حاصل کرتے ہی وہ ایسی موقعیت کا حامل ہوجاتا تھا کہ اگر وہ چاہے تو بہت سی نعمتوں کا حامل اورہو مالک جائے، لہٰذا اس کی طرف لوگ اپنی نظریں جمائے ہوئے تھے۔
اور یہ کہ عمر نے اپنے سے پہلے والے خلیفہ کے برخلاف کسی خاص فرد کے بارے میں وصیت نہیں کی غالباً یہ بھی اسی حقیقت کی پیداوار تھی۔ ورنہ نہ تو وہ ابوبکر سے کمزور تھے اور نہ ہی ان سے کلامی اعتبار سے نفوذ کم تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ حالات اس کے حق میں مساعد نہیں تھے اور اس نے اپنی ذاتی فراست اور ہوشمندی کے ذریعہ ان تبدیلیوں کا پتہ لگالیا تھا۔ لہٰذا وہ مجبور ہو گیا کہ وہ مخصوص انداز کی وصیت کریں۔ اور ایسی وصیت جس کی کسی شخص نے تقلید نہیں کی شاید ایسا ہوبھی نہیں سکتا تھا؛
اس کے باوجود کہ وہ اپنے پیرو اور طرفداروں کے نزدیک ایسی مقتدر شخصیت کے حامل تھے اسی بناپر انہوں نے مختلف مواقع پر ان کی تقلید کی کوششیں کیں۔
عمر کے فرزند، عبد اللہ اپنے باپ کی وصیت کی داستان کو اس طرح نقل کرتے ہیں: ''عمر ابن خطاب کی موت کے وقت، عثمان و علی، عبدالرحمن و زبیر اور سعد وقاص ان کے نزدیک آئے اور طلحہ اس وقت عراق میں تھے۔ اس نے کچھ دیر ان لوگوں پر نگاہ کی اور اس کے بعد کہا: میں نے تم لوگوں پر تمہاری حکومت کے بارے میں غور و فکر کیا۔ ان لوگوں میں کوئی فرق نہیںپایا جاتا ہے سوائے وہ اختلاف جو تمہارے درمیان پایا جاتا ہے۔ پس اگر کوئی رخنہ اور اختلاف تمہارے درمیان پایا جاتا ہے تو وہ تمہاری طرف سے ہے۔ حکومت چھ لوگوں کی طرف پلٹتی ہے۔ عثمان ابن عفان، علی ابن ابی طالب، عبدالرحمن ابن عوف، زبیر ابن عوام، طلحہ ا ور قوم سعد پر لازم ہے کہ تم تین لوگوں میں سے کسی ایک کو (خلافت کے لئے) چُن لیں، پس اے عثمان! اگر اقتدار تمہارے ہاتھ میں گیا، تو خاندان ابی معیط، کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا۔ اور اے عبدالرحمن! اگر حکومت تمہارے ہاتھ میں آجائے تو اپنے عزیز و اقارب کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا ۔ اگر اے علی! تمہارے ہاتھوں میں یہ اقتدار آجائے تو بنی ہاشم کو عوام پر مسلط نہ کرنا۔ اس کے بعد کہا تم لوگ اُٹھو اور آپس میں مشورہ میں مشغول ہوجاؤ اور آپس میں ایک شخص کو منتخب کرلو۔ پس سب کے سب اٹھ کھڑے ہوئے اور آپس میں مشورہ کرنا شروع کردیا...''
یہ تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کررہی تھیں کہ حالات بہت زیادہ بدل گئے ہیں۔ مدعیان خلافت بھی بہت زیادہ تھے اور بہت زیادہ شدت کے ساتھ اس کے خواستگار تھے اور ان کے ماننے والے بھی ان کے دفاع میں اپنے منافع دیکھ رہے تھے۔ اگرچہ یہ تمام مشکلات جس وقت عمر خلیفہ بنے اس وقت بھی موجود تھیں لیکن نہ تو اس حدتک تھیںاور نہ ہی اتنی زیادہ فیصلہ کن اور خطرناک تھیں۔
منقول ہے کہ حضرت علیـ نے عبدالرحمن ابن عوف کی اس بات کو جس میں ان سے چاہا جارہا تھا کہ وہ منصب خلافت پانے کے بعد شیخین کی سیرت پر عمل کریں، اُسے رد کردیا اور فرمایا: ''زمانہ بدل گیا ہے۔''
اگر یہ روایت ضعیف اور جعلی بھی ہو تب بھی کم از کم اس زمانے کے ناگفتہ بہ اور بگڑتے ہوئے حالات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ کیونکہ ہر جعلی چیز کچھ نہ کچھ حقیقت کو اپنے اندر سموئے رہتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تا تو پھر وہ مشتبہ نہیں کہی جائے گی۔
عثمان کا اقتدار حاصل کرنا
آخرکار عثمان کو حکومت مل ہی گئی اس کی کامیابی خود اس کی ذاتی کامیابی نہیں تھی بلکہ ایسی پارٹی کی کامیابی تھی جن لوگوں نے اس کو آگے کیا تھا اس لئے کہ وہ عمر کی معین کردہ ان چھ اشخاص پر مستمل کمیٹی میں کمزور اور نہایت بے لیاقت انسان تھا ۔ عثمان کی کمزوری اور بے لیاقتی کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ بعض ان وجوہات اور دلائل کے سبب جن کو خلفا اور خود عثمان کے فضائل کے ذیل میں بعد میںگڑھ دیا گیا ہے جیساکہ ہم نے ان کو پہلے بھی ذکر کیا ہے اور بعد میں بھی ذکر کریں گے کہ یہ سب فضائل جعلی ہیں، ان میں سے ایک بھی فضیلت ان کی ذاتی صلاحیت اور لیاقت کی طرف نہیں پلٹتی وہ تمام فضیلتیں نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نسبت کی بناپر اس سے تعلق ہیں یا اس کی روحی اور نفسانی حالات سے متعلق ہیں۔
اگرچہ عثمان ایک بے لیاقت اور کمزور شخص تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات یہاں تک کہ وہ چیزیں جو ان کی قدرت اور ان کی لیاقت سے بھی متعلق نہیں تھیں، وہ بھی ان کی لیاقت میں تبدیل ہوگئیں تھیں۔ باہری خطرہ کے نہ ہونے کے سبب اور بغیر زحمت کے کثرت سے مال و دولت کا آجانا اور ایک پچھڑے معاشرہ کے عواقب اور نتائج بہت زیادہ تھے وہ بھی ایک ایسا قبیلہ جو اپنے قبیلہ کے اندر آپس میں لڑنے میں مشہور تھاس اختلاف کی بناپر غمزدہ تھا ایک ایسی پارٹی اور اس کے بڑھتے ہوئے نفود اور اثرات جس کا نمائندہ خود خلیفہ تھا بلکہ وہ اس پارٹی کا بازیچہ تھا اور وہ اپنی ذاتی مصلحتوں کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتا تھا۔ ایسی ایک طاقتور اور مقتدر مرکزیت کا فقدان اور اسی طرح سب کے لئے قبول اور قابل احترم نہ ہونا، خود غرضی، خود خواہی و خودپسندی اور ریاستوں کے حکام کے بارے میں لاپرواہی برتنے نے، مزید حالات کو پیچیدہ اور دشوار بنادیا تھا۔ خود خلیفہ کی کمزوری نے بھی پیچیدہ اور دشوار حالات پیدا کردیئے تھے اور خلیفہ کی کمزوری اس کو مزید بڑھارہی تھی یعنی آگ میں تیل کا کام کر رہی تھی۔ کیونکہ خلافت کے تمام دعویدار ایسے وقت میں اپنی لالچی نظریں جمائے ہوئے تھے، اس کے متعلق خود اپنے آپ کو بدرجہ ہا لائق و سزاوار اور حق دار جانتے تھے۔ حالات اتنے زیادہ بگڑ گئے تھے کہ عوام کی اکثریت بھی اس سے تنگ آگئی تھی اور اپنے لگاتار اور پے در پے اعتراضات کے بعد چند مرتبہ مدینہ آئے اور علانیہ طور پر خلیفہ پر اعتراض کیا جو اثر انداز نہ ہوئے یہاں تک کہ آخرکار ان کو قتل کر ڈالا گیا۔
اس مقام پر یہ مناسب ہے کہ یہاں ابن خلدون کے کچھ بیانات کا ذکر کریں جو انھیں انقلابی حالات اور اس تبدیلی سے متعلق ہیں، ۔صدر اسلام کی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اس کے نظریات سے واقفیت خاص طور سے عمر کی خلافت کا نصف آخر اور اس کے بعد کا دور بالاخص خلافت عثمان کا زمانہ اور حضرت امیرا لمؤمنین امام علی ـ کے ایام خلافت کے بارے میں جاننے میں ایک اچھی خاصی مدد کرے گا لہٰذا ہم مجبور ہیں کہ ان کے بیان کے طولانی ہونے کے باوجود اس میں سے کچھ اہم حصوں کا بیان کریں۔
عمیق اور تیز بدلاؤ
''...اس اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ دنیاوی امور اور اس کے نازو نعمت سے دور تھے۔ چاہے ان کے دین کی رو سے ہو کہ ان کو دنیاوی نعمتوں سے پرہیز کی دعوت دیا کرتا تھا اور چاہے بادیہ نشینی اور ان کے رہنے کی جگہ کے اعتبار سے ہو اور معیشت کی سختی، دشواری اور تنگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے اوراسی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے کی وجہ سے ہو۔ جیساکہ قبیلۂ مضر کھانے پینے کے اعتبار سے دنیا کی تمام قوموں سے زیادہ معیشت کی تنگی اور غذاکے اعتبار سے سب سے زیادہ پریشان حال تھے چاہے وہ لوگ جو حجاز میں رہتے تھے کہ وہ سرزمین کھیتی باڑی اور حیوانات کے پالنے کے اعتبار سے بالکل خالی تھی اور آباد اور کھیتی باڑی والے علاقے اور اس کی زمین کے دوسرے محصولات گھروں اور جائے وقوع کے دور ہونے کے سبب ا ن تمام نعمتوں تک ان رسائی نہیں تھی۔ ان موارد کے علاوہ ایسے علا قوں کے محصولات ان قبیلوں سے مخصوص تھے جو کورہ علا قوں کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے، مثال کے طورپر ربیعہ اور یمن کے قبیلہ۔ اسی وجہ سے کبھی بھی ان آباد سرزمینوں کی فراوان نعمتوں کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ۔اور عموماً ان نعمتوں کو بچھو اور خبزدوک (یعنی گندے اور بدبودار جانور )کھا جایا کرتے تھیاور عِلْہَز کے کھانے پر فخر کیا کرتے تھے اور وہ اونٹ کا بال ہے جس کو پتھر کے اوپر خون میں لت پت کرکے پکاتے ہیں۔ قریش کی بھی حالت مکان اور کھانے کے اعتبار سے قبیلہ مضر، سے ایک طر ح سے نزدیک تھا یہاں تک کہ عرب کی عصبیت متحد ہوکر ایک دین کے پرچم تلے آگئی ۔کیونکہ خداوندعالم نے ان لوگوں (عربوں) کو حضرت محمد مصطفیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نبوت سے سرفراز کیا۔ اسی وجہ سے ایران اور روم پر لشکر کشی کی اور ان سرزمینوں کو جسے خداوندعالم نے اپنے سچے وعدہ کے مطابق ان کے لئے مہیا کردیا تھا، انہوں نے اس کا مطالبہ کیا اور سلطنت کو بزور بازو حاصل کرلیا اور اپنے دنیاوی امور کے لئے اقدام کردیا۔ نتیجہ خوشحالی اور توانگری کے ایک وسیع و عریض ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو حاصل کرلیا؛ اس قدر کہ بعض جنگوں میں ایک گھڑ سوار کا حصہ تیس ہزار سونے کے دینار یا اس کے قریب تھا، اسی سبب وہ ایک ایسی دولت کے مالک ہوگئے جس کی کوئی حد نہ تھی۔ لیکن وہ (عرب) لوگ ان تمام چیزوں کے باوجود اپنی اسی سخت زندگی پر باقی رہے، جیساکہ عمر اپنے لباس کو حیوانات کی کھال سے پیوند لگاتا تھا اور اسی مقام پر مولائے کائنات حضرت علیـ کہا کرتے تھے اے زرد اور سفید سکو! (سیم و زر) کسی دوسرے کو دھوکہ دینا۔ ابوموسیٰ مرغ کھانے سے پرہیز کیا کرتے تھے ۔کیونکہ عربوں کے درمیان مرغ کی کمی کی بناپر اس کے کھانے کا رواج نہیں تھا۔ ان (عربوں) کے یہاں مطلق کسی قسم کی آٹا چھاننے کی چھلنی بھی نہیں ملتی تھی اسی لئے وہ لوگ گندم کے آٹے کو اس کی بھوسی سمیت کھایا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ لوگ اس ثروت کے سبب جو ان کے ہاتھ لگی تھی دنیا کے مالدار ترین افراد شمار ہوتے تھے۔
اس بارے میں'' مسعودی کا بیان ہے: ''عثمان کے زمانے میں پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اصحاب نے بہت ساری دولت و املاک کو حاصل کرلیا تھا۔ جیساکہ جس روز عثمان قتل کئے گئے، اس دن ان کے خازن کے پاس ایک لاکھ پچاس ہزار دینار اور دس لاکھ درہم آپ کے خزانہ میں موجود تھے اور وادی القریٰ (مدینہ سے قریب ایک جگہ) اور حنین (مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ ہے) میں اور دوسرے علاقوں میں ان کی جائداد کی قیمت دولاکھ دینار کے برابر تھی اس کے علاوہ بہت سے اونٹ اور گھوڑے بھی موجود تھے ۔زبیر کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ کا آٹھواں حصہ پچاس ہزار دینار تھا اور اس نے اپنے مرنے کے بعد ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار کنیزیں چھوڑی تھیں۔ طلحہ کو عراق کے محصولات میں سے ہرروز ہزار دینار کا محصول اور شراة کے علاقہ سے اس سے زیادہ مقدار میں پیسہ اس کے پاس آتا تھا۔اسی طرح عبدالرحمن ابن عوف کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار بھیڑیں موجود تھیں۔ اور اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ چوراسی ہزار دینار سے بھی زیادہ تھا۔ زید ابن ثابت نے سونے چاندی کی اتنی زیادہ مقدار میں اینٹیں چھوڑیں تھیں جن کو کلہاڑی سے کاٹ کر الگ کیا جاتا تھا اور یہ ان اموال و املاک کے علاوہ تھا جن کی قیمت ایک لاکھ دینار کے آس پاس پہونچ تی تھی۔ زبیر نے ایک ایک گھر بصرہ اور مصر و کوفہ میں اور اسکندریہ میں بہت سے، گھر اپنے لئے بنوائے تھے۔ اسی طرح طلحہ نے ایک گھر کوفہ میں اور دوسرا گھر مدینہ میں بنوایا اور ان کو چونے کے مصالح اور ساکھو کی لکڑی سے پختہ کروایا (ساج ایک درخت ہے جو صرف ہندوستان میں پایا جاتا ہے (اس کو وہاں ساکھو کے نام سے جانا جاتا ہے)اس کی لکڑی سیاہ اور سیدھی ہوتی ہے اور مٹی میں سڑتی گلتی نہیں) سعد ابن وقاص نے اپنے واسطے ایک گھر عقیق میں بنوایا (عقیق چند جگہوں کا نام ہے جو مدینہ، یمامہ، تہامہ، طائف اور نجد وغیرہ) اس کی چھت بلند تھی اور اس میں ایک وسیع و عریض صحن بھی تھا اور اس کی دیواروں پر کنگورے بنوائے جس کے اندرونی اور بیرونی حصہ کو گچکاری (چونے سے پلاسٹر) کی گئی تھی۔ یعلی ابن منبہ نے پچاس ہزار دینار اور کچھ زمین و پانی اور ان کے علاوہ بھی دوسری کچھ چیزیں چھوڑیں اور ان کی جائداد اور دوسرے ترکہ کی قیمت تین لاکھ درہم تھی اور یہ مسعودی کے بیان کا آخر تھا۔''
پس جیساکہ ہم نے دیکھا جس مال و دولت کو قوم عرب نے حاصل کیا تھا وہ بھی اسی طرح کی تھی اور ان کی اس روش پر ہم مذمت نہیں کرسکتے ۔کیونکہ ان کی ثروت حلال کی کمائی تھی جسے انھوں نے مال غنیمت اور فیٔ کے طورپر حاصل کیا تھا اور اس ثروت کا استعمال کرنے میں انہوں نے فضول خرچی سے کام نہیں لیا تھا، بلکہ جیساکہ ہم نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کے رسوم و آداب میں اقتصاد اورمیانہ روی کی رعایت کرتے تھے۔ اس وجہ سے زیادہ ثروت کے رکھنے پر ان کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے ۔اگر زیادہ ثروت کا حصول برا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ثروت کا رکھنے والا فضول خرچی کی طرف مائل ہوتا ہے حداعتدال اور میانہ روی سے خارج ہوجاتا ہے ۔ لیکن ایسی صورت میں کہ مالدار لوگ میانہ روی کو اختیار کریں اور اپنی ثروت کو راہ حق اور امور خیر میں خرچ کریں اس وقت مال و دولت اور ثروت کی زیادتی اور مالداری، ان کو نیک کاموں اور حق کے راستے کو اختیار کرلے اس دنیا کے مراتب کو حاصل کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔ جب اس قوم کی سادگی اور بادیہ نشینی رفتہ رفتہ ختم ہوگئی، جیساکہ ہم نے کہا کہ تعصبات کے تقاضے کی بنیاد پر جب حکومت و سیاست اور جاہ طلبی کی فطرت نے سر اُٹھایاتو انھوں نے قہرو غلبہ حاصل کرلیا، لہٰذا ان کی ملک گیری بھی خوشحالی اور مالی آسائش اور زیادہ ثروت کے حاصل کرنے کے حکم میں ہے یعنی اس غلبہ اور دنیا کو حاصل کرنے کے لئے باطل طریقہ اور راستہ کو اختیار نہیں کیا اور اپنے قدم کو دیانت، اصول و مذاہب حق و حقیقت کی راہ سے ایک قدم بھی زیادہ نہیں رکھا۔
ایک عظیم بحران
یہ وہ حالات تھے جوعثمان کے دور خلافت میں موجود تھے اور بعد میں امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب کو میراث میں ملے۔ جیساکہ ہم نے بیان کیا کہ اکثر یہ حالات عموماً اس زمانہ کے متمدن اور ثروت مند لوگ تیزی کے ساتھ اور پے در پے فتح کی وجہ سے وجود میں آئے ۔لیکن بغیر کسی شک و تردید کے اس شدید، عظیم بحران کو ہوا دینے اور مزید کاری بنا نے میں خود عثمان کا بھی ایک مؤثر حصہ تھا۔ شہرستانی صاحب جو کہ عثمان کے بہت ہی دفاع کرنے والوں میں سے ایک ہیں، ان کے مسند خلافت پر پہنچنے کی داستان اور ان کی بہت سی غلطیا ںاور لوگوں کا ان سے روگردانی کر لینا اور آخرکار ان کے قتل ہوجانے کے بارے میں اجمالاً اس طرح نقل اور تجزیہ کرتے ہیں: ''سبھی لوگوں نے عثمان کی بیعت پر اتفاق کرلیا۔ معاشرہ کے امور منظم ہوگئے اسلام کی دعوت ان کے زمانہ میں بھی ویسی ہی جاری رہی۔ بہت سی فتوحات بھی حاصل ہوئیں اور بیت المال میں مال غنیمت کے ڈھیر لگ گئے۔ وہ لوگوں کے ساتھ اچھائی اور سخاوت مندی کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے قریبی رشتہ داروں یعنی بنی امیہ نے ان کو بربادی کے دہانہ پر کھڑا کردیا۔ لوگوں پر ظلم و ستم کیا وہ خود بھی ظلم و ستم کی چکی میں پِس گئے۔ ان کے زمانے میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہوئے کہ وہ سب کے سب نبی امیہ کی وجہ سے تھے۔ ان میں سے ایک حَکم ابن امیہ کو مدینہ واپس بلانا تھا جس کو رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مدینہ سے نکلوادیا تھا اور وہ طرید رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے معروف تھا۔ عثمان نے ابوبکر کے ایام خلافت اور عمر کے ایام خلافت میں ہی اس کے مدینہ واپس بلانے کی سفارش کی تھی مگر قبول نہیں ہوئی اور عمر نے اس کو اس کے محل سکونت سے چالیس فرسخ اور دور چلے جانے کا حکم دے دیا۔ ابوذر کو ربذہ کی طرف شہربدر کردیا (مدینہ سے نکال دیا) اور اپنی بیٹی کا عقد مروان ابن حکم سے کردیا اور افریقہ کے مال غنیمت کا خمس اس (مروان) کو بخش دیا جو دولاکھ دینار سے زیادہ تھااور اس میں سے اپنے رضاعی بھائی، عبداللہ ابن سعد ابن سرح کو واپس بلایا اور پناہ دیا جس کے خون کو پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے بے اہمیت اور مباح قرار دیا تھا (اس کے خون کا نہ کوئی قصاص ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دیت ہے) مصر کی مملکت کو اسے بخش دیااور عبداللہ ابن عامر کو بصرہ کی ولایت دیدی تھی۔ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی ایسے تھے جن کی بناپر یہ ان میں پھنس گئے۔ مثلاً اپنی مسلح افواج کے سرداروں میں سے معاویہ کو شام کا امیراور عبداللہ ابن عامر کو بصرہ کا والیاور مصر کا والی عبداللہ ابن ابی سرح کو بنایا تھا یہ تمام کے تمام ان (عثمان) کو ذلیل و حقیر سمجھتے تھے اور ان کو چھوڑ کر چلے گئے یہاں تک کہ جو کچھ تقدیر میں تھا وہ ہوکے رہا اور آخرکار اپنے ہی گھر میں قتل کردیئے گئے۔''
اگر عثمان کے انتخاب اور ان کے قتل کے معاملہ کا گذشتہ دونوں خلفا سے تقابل کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نہ تو خلفا کا انتخاب یہ بیان کرتا ہے کہ خلفا لوگوں کے نزدیک دینی شائستگی رکھتے تھے اور نہ ہی یہ بیان کرتا ہے کہ یہ عہدۂ خلافت اس زمانہ میں کسی خاص دینی اہمیت کا حامل تھا۔ وہ اس لئے خلیفہ منتخب ہوگئے چونکہ ان کو چھ افراد پر مشتمل کمیٹی کا حاکم عبد الرحمن ابن عوف نے چُنا تھا اور وہ اس لئے قتل کئے گئے کہ انھوں نے معترضین کے اعتراض اور شکایات کو نظر انداز کردیا اور ان کی ایک نہ سنی اور اپنی طرف سے عوام کو دیئے گئے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا۔
ایک عمومی نظریہ
اب دیکھتے ہیں کہ یہ اعتراض کرنے والے کون تھے اور کیوں اعتراض کیا؟
وہ مختلف علاقوں کے مسلمان تھے جو اپنے حکام کی بے دینی، لاپرواہی اور ظلم سے تنگ آگئے تھے اور خلیفہ کے پاس شکایت لے کر آئے تھے لیکن وہ (خلیفہ) ان حقیقتوں سے لاپرواہی برت رہے تھے۔ وہ لوگ خلیفہ کو دین اور دین کے اصول و قوانین کی حفاظت کی دعوت دے رہے تھے کیونکہ وہ معتقد تھے کہ خلیفہ نے اپنے تمام بدکردار اور لاپرواہ رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کو مسلمانوں پر حاکم بنادیا ہے اور کی مسئلہ حقیقت بھی یہی تھی۔
دوسری طرف سے مسلمانوں کا یہ اعتراض اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس زمانہ کے مسلمانوں کا نظریہ خلیفہ بلکہ خلافت کی بہ نسبت کیا تھا ان کے اعتراضات کے معنی پہلے ہی مرحلہ میںیہ تھے کہ خلیفہ راہ راست سے منحرف ہوگیا ہے اور اس کو اس کی یاددہانی کرانی چاہئے۔ اس کے بعد ان کا اصرار اس معنی میں تھا کہ خلیفہ اپنی غلط روش پر اڑا ہوا ہے لہٰذا اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس کے مقابلہ میں قیام کرتے ہوئے اس کا جم کر مقابلہ کیا جائے۔ یہ قیام اور پائیداری اس حد تک پہونچ گئی کہ اس کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا اور آخرکار اس کو قتل کردیا گیا۔ لیکن ابھی یہ ماجرا کی انتہا نہیں تھی۔ عثمان نے اپنے شخصیت کو اتنا گرادیا تھا کہ لوگ انھیں مسلمان کہنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے یہاں تک کہ ان کو تین روز تک دفن نہیں کیا اور ایک مدت کے بعد ان کو ایک نامناسب مقام پر سپرد خاک کیا گیا۔
اگر ان کے بارے میں یہ طے پاجائے کہ ان کے زمانہ کے مسلمانوں کا ان کے ساتھ برتاؤ سے بعد والی نسلوں کو فیصلہ کی بنیاد قرار دیکر اس سے متاثر ہوں تو ان کا مرتبہ ایک عام مسلمان سے بھی کہیں زیادہ کم ارزش قرار پائے گا، لیکن بعد میں معاویہ کا بعد کا کار نامہ یہ کہ ان کو بری کرنے اور ان کے چہرہ کو تقدس بخشنے کے واسطے ان کو پہلے دونوں خلفاء کے ہم پلہ اور خلیفہ برحق قرار دیا۔ یہ نقطہ ہمیشہ اہل سنت کے کلامی اور اعتقادی نظام میں ضرر رساں نقاط میں سے ایک ہے۔ وہ چیز جس نے اہل سنت کے نزدیک عثمان کو عملی طورپر تمام خلفائے راشدین کے ہم پلہ بنادیا، تو یہ معاویہ اور اس کی نسل کا ایک وسیع پروپیگنڈہ تھا۔ اور جو لوگ صدر اسلام کی تاریخ کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ لوگ اس پروپیگنڈہ اورروایات کے گڑھے جانے نیز عثمان کے غیر شرعی ا قدامات سے، باخبر ہیں، انھوں نے اپنی زبان کو اس کے طعنہ و مذمت میں کھولی ہے۔ (یعنی عثمان و معاویہ وغیرہ کی مذمت اور لعن طعن کیا ہے) گذشتہ لوگوں کے درمیان، عام طورپر معتزلہ اسی طرح کی رائے کے حامل ہیں اور موجودہ دورمیں عام طورپر مذہبی روشن فکر لوگ نیز دوسرے وہ لوگ ہیںجو انقلابی رجحان رکھتے ہیں اور خاص طورپر جو لوگ مسلحانہ فعالیت رکھتے ہیں، انہیں نظریات کے حامل ہیں۔ آئندہ ہم اس کے متعلق تفصیل سے تحریر کریں گے۔
بہرحال مسلمانوں کا عثمان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ اس بات کا بہترین نمونہ ہے کہ ان کا منصب خلافت اور خلیفہ کے متعلق کیا نظریہ ہے۔ اور وہ شخص جو اس مقام کو حاصل کررہا ہے وہ کیسا تھا جس وقت ان کو اس عہدہ پر فائز کیا گیا،کسی نے بھی اعتراض کے لیے اپنی زبان نہیں کھولی۔ انھوں نے عملی طورپر عام مقبولیت حاصل کرلی مقبولیت کے لحاظ سے عمر کی مقبولیت کے برابر مقبولیت حاصل کرلی۔
لہٰذا بعد کے اعتراضات پہلی مقبولیت کے نہ ہونے کی بناپر نہ تھے کہ اعتراضات (عثمان) کی ان غلطیوں کا نتیجہ تھے، جس نے اس (عثمان) کو اتنا گرادیا کہ ان کے تمام کے تمام دوست اور ان کے کل کے ساتھی اور متحدین ان کے مد مقابل کھڑے ہوگئے۔
اس سلسلہ میں بہترین دلیل زہری نے بیان کی ہے جن کا شمار پہلی صدی کے علما اور فقہا میں ہوتا ہے کہ سیوطی ان کے بارے اس طرح نقل کرتے ہیں: ''عثمان نے بارہ سال خلافت کی۔ پہلے چھ سالوں میں کسی نے ان پر اعتراض نہ کیا ۔قرشی(خاندان قریش کی طرف منسوب) ان کو عمر سے زیادہ دوست رکھتے۔ تھے کیونکہ عمر سخت مزاج تھے لیکن یہ (عثمان) ان سے نرمی کے ساتھ پیش آتے تھے، اس کے بعد اپنے امور میں سست ہو گئے اور دوسرے چھ سالوں میں کاموں کو اپنے قریبی رشتہ داروں اور متعلقین کے حوالے کردیا۔اور بہت سارا مال و دولت بھی ان لوگوں کو بخش دیا اور لوگوں کو ان کا یہ اقدام برا لگا لہٰذا ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔''
اگر اس زمانہ کے مسلمانوں کی نظر میں خلافت اور خلیفہ کی کوئی شان یا وہ کسی مقام کا حامل ہوتا بعد میں لوگوں نے اس کی توصیف بیان کر ڈالی، پھر اس کے مقابلہ میں کم از کم اس کیفیت سے قیام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جبکہ خاص طورپر عثمان کا شمار خلفائے راشدین میں ہوتا تھا۔ یعنی عثمان ان لوگوں میں سے تھے کہ بعد میں لوگ جن کے لئے بلند ترین معنوی اور دینی فضیلت اور منزلت کے قائل ہوگئے۔عثمان کا ماجرا اس بات پر بہترین گواہ ہے کہ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں نے خلیفہ اور خلافت بالخصوص خلفائے راشدین کی قدر و منزلت کے متعلق ایک دوسرے تصور کے قائل ہوگئے اور ان کو صدر اول کے مسلمانوں کے عقاید بلکہ اسے اسلامی عقیدہ قرار دیا اور اس طرح اس کو پیش کیا ، جس کے بارے میں شک و شبہہ پیدا ہونے کا امکان بہت کم ہوجائے۔
حضرت علیـ اور قبولِ خلافت
ایسے مشکل حالات میں لوگوں کی ناراض اکثریت نے علی ابن ابی طالب کی خدمت میں پناہ لی اور آنحضرت علیہ اسلام کے انکار کے باوجود آپ کو مسندخلافت پر بٹھادیا۔ درحقیقت یہ پہلی بار تھا کہ لوگوں کی اکثریت نے خود جوش طور پر داعیٔ بیعت کے عنوان سے ایک لائق ترین فرد ، ایسے شخص کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ عمر اور عثمان نے اپنے پہلے والے خلفا کی وصیت کے مطابق خلافت حاصل کی۔ اور ابوبکر کے بارے میں بھی مسئلہ علی ابن ابی طالب کی طرح نہیں تھا۔ شروع میں چند گنے چنے افراد نے ان کی بیعت کی اور بعد میں تیزی کے ساتھ کچھ حوادث کا پیش آ نا( جس کا سبب مہاجرین و انصار اور اوس و خزرج کے درمیان پوشیدہ و آشکار رقابتیں نیز بیرونی دھمکیاں بھی تھیں) جو اس بات کا سبب بنا کہ ان کی شخصیت اور موقعیت مستحکم ا ور پائیدار ہو جائے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عمر بعد میں مختلف مواقع پر کہا کرتے تھے :'' ابوبکر کی بیعت ناگہانی اور بغیر سوچے سمجھے ہوگئی کہ خداوندعالم نے مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ پس قتل کردو اس شخص کو جو اس شر کی طرف پلٹنا چاہتا ہے (یعنی جو ابوبکر کی طرح بیعت کروانا چاہتا ہے)
حضرت علی ـ نے بدترین حالات میں قدرت اور منصب خلافت کو سنبھالا اور ان مشکلات کو تحمل کرنے پر مجبورہوئے جن مشکلات کو پیدا کرنے میں آپ کا ذرا سا بھی ہاتھ نہ تھا۔ بنیادی طور پر آنحضرت کی بیعت کے لئے لوگوں کا ہجوم صرف اس لئے تھا کہ یہ مشکلات حل ہوجائیں۔ ان لوگوں کی نظر میں ان مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا واحد شخص صرف اور صرف آنحضرت کی ذات والا صکات تھی، تقریباً تمام بیعت کرنے والوں کی چاہت بھی یہی تھی۔
ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی کہ جنھوں نے ذاتی صلاحیت کی بنا پر آپ کو خلافت کے لائق سمجھتے ہوئے اور وصیت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پیروی کرتے ہوئے آنحضرت کی بیعت کی تھی۔ اگرچہ بعد میں اُنہیں کم افراد کے چھوٹے سے گروہ کی مدد سے آنحضرت بڑی بڑی مشکلوں پر فائق آگئے۔
حقیقت یہ ہے کہ سابق خلفا میں سے کسی ایک نے بھی ایسے مشکل حالات میں منصب خلافت کو نہیں سنبھالا۔ کچھ مدت کے بعد جو لوگ عمر کی خلافت کے آخری ایام سے اس عہدۂ خلافت پر قبضہ کرنے کی فکر میں پڑ گئے تھے اور عثمان کے دور ہی سے اپنے آپ کو آمادہ کررکھا تھا۔ مخالفت کا پرچم بلند کردیا۔ اس مخالفت کی تاخیر کی وجہ لوگوں کی وسیع اور قاطع اکثریت کا خوف تھا جو حضرت علیـ کے گرد جمع ہوگئے تھے ا ور اگر آپ کے علاوہ کوئی اور شخص بھی ہوتا اور منصب خلافت کو سنبھالتا ، تب بھی یہ افراد مخالفت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ کیونکہ معاشرہ ہی غیر منظم اور بکھرا ہوا تھا۔ گویا تمام کے تمام، یا کم از کم معاشرہ میں نفوذ رکھنے والے، خود کو اس معاشرہ میں گم کئے ہوئے تھے۔ نہ تووہ خود ہی کو اور نہ ہی اپنی حیثیت کو ہی پہچانتے تھے اور نہ تو اپنی حیثیت کے مطابق اپنے آپ سے اور اپنے معاشرے سے ہی کوئی توقع رکھتے تھے۔
بہ عنوان نمونہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے مخالفین کے سرداروں کو مدنظر رکھئے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی لیاقت اور قابلیت سے اونچی یہاں تک کہ اپنی ذاتی شخصیت سے بھی زایادہ توقع رکھتے تھے اور اگر حضرت علیـ سے ان کی مشترک مخالفت حاکم اور خلیفہ کے عنوان سے نہ ہوتی تو پھر وہ ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے ہوجاتے۔ کیا یہی طلحہ و زبیر نہیں تھے جنھوں نے جنگ جمل میں لشکر کے امام جماعت بننے کے لئے ایک دوسرے کی عبا کو کھینچ ڈالا ۔اور اپنے گھوڑوں کے چہرے پر تازیانے مارے ؟
اور کیا اصحاب جمل میں سے مروان ابن حکم نہیں تھا جو طلحہ کے قتل اور اس سے انتقام لینے پر متہم تھا اور کم از کم یہ تھا کہ ُاس کے مرنے پر اس نے خوشیاں منائی تھیں؟
آیا معاویہ ان لوگوں کو اور وہ لوگ معاویہ کو برداشت کرسکتے تھے؟ اس کے علاوہ آیا یہ احتمال موجود نہیں تھا کہ بااثر لوگ غیر جانب دار افراد جن لوگوں نے نہ حضرت علیـ کی بیعت کی اور نہ حضرت کے مقابل صف آراء ہوئے اگر کوئی دوسرا شخص منصب خلافت پر فائز ہوتا تو ایسی صورت میں یہ بے طرف اور معاشرہ میں نفوذ رکھنے والے افراد اس کے مدمقابل شمشیر بکف نظر آتے؟ لیکن یہ حضرت علیـ کی شخصیت اور آ پ کا بے نظیر سابقہ تھا جو ایسے قیام سے مانع ہوا چاہے جتنا وہ لوگ حضرت کے ساتھ اور ان کے حامی نہ رہے ہوں۔
جیساکہ ہم بیان کر چکے ہیں کیا کہ مسئلہ معاشرتی ، اخلاقی اور روحی انتظام کے بکھر جانے کا تھا۔ خود کو اپنے آپ کے گُم کردینے کا مسئلہ اورقابلیتوں اور صلاحیتوں کے مشتبہ ہوجانے سے متعلق تھا حتی خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حضرت علیـ اس وقت کے ا ن نامناسب اور بکھرے ہوے حالات کو منظم نہ کرسکے۔ دوسرا کوئی بھی شخص اس نامنظم اور بکھرے ہوئے اور خود پرچم بغاوت بلند کیئے ہوئے معاشرے کو منظم نہیں کرسکتا تھا۔ بلکہ اس کے لئے مسلسل سعی و کوشش اور ناکوں چنے چبانے کی ضرورت تھی تب جاکر وہ بے نظم معاشرہ نظم اور حکومت کو برداشت کرپاتا۔ البتہ افسوس کی بات ہے کہ اس نشیب و فراز کے بعد معاویہ کے ذریعہ معاشرہ میں یہ نظم و نسق برقرار ہوگیا۔
حضرت اس زمانہ کے حالات اور معاشرہ میں بے شمار تبدیلیوں کو اپنے ایک مختصر اور پُرمعنی جملہ میں یوں بیان فرماتے ہیں:''حضرت علیـ کے دورخلافت میں ایک روز کسی نے آپ کو طعنہ دیتے ہوئے کہا۔ آخر اتنے سارے لوگوں نے آپ کے متعلق اختلاف کیا حالانکہ پہلے دو خلفا پر ان کا اتفاق تھا؟ حضرت نے جواب میں ارشاد فرمایا:'' چونکہ وہ لوگ مجھ جیسے افراد پر حکومت کرتے تھے اور میں تجھ جیسے افراد پر حکومت کرتا ہوں۔''
روحی پریشانیاں
حقیقت کچھ ایسی ہی تھی۔ حالات بالکل بدل گئے تھے۔ حضرت علیـ کی اکثر مشکلات بھی انھیں حالات کی تبدیلیوں کی پیدا وار تھیں۔ ایک فقیر و محدود اور مسدود معاشرہ پر، جدید آفاق کا کھل جانا اور ایک مقامی ا ور محدود حکومت کا ایک وسیع و عریض مملکت و سلطنت میںتبدیل ہو جانا جو ایران کی شہنشاہیت کو مکمل طورپر اور روم کی بادشاہت کے ایک وسیع حصے کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی، نہ فقط نئی مشکلات اور سخت وسنگین حالات اپنے ہمراہ لائی تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ تھا کہ اس نے ابتدائی دور کے مسلمانوں کے اخلاق و افکار اور معنویات و توقعات اور آرزؤں اور تمناوؤں کو بھی اپنے زیراثر قرار دیا تھا۔ اب اس کے بعد وہ لوگ نہیں چاہتے تھے اور شاید ان خصوصیات کی بناپر جس کو انہوں نے حاصل کیا تھا وہ لوگ دینی قوانین، احکام اور معیار کے آگے اپنا سر جھکا دیں۔ بلکہ وہ لوگ اس دین کو چاہتے تھے جس کی ان لوگوں نے خود تفسیر کی ہو۔ ایک ایسے دین کو چاہتے تھے جو ان کے مقاصد اور ان کی تمناؤں کو پورا کرسکے نہ کہ اس کے برعکس اور چونکہ ایسا ہی تھا یعنی ان کی آرزوؤں اور چاہتوں کے بر خلاف تھا۔ لہٰذا وہ علی ابن ابی طالب جیسی شخصیت کو برداشت نہیں کرسکتے تھے حسب ذیل نمونہ اس مسئلہ کو پوری طرح بیان کررہا ہے۔
جنگ صفین کے وقت، امام اور آپ کے برجستہ اصحاب اس کوشش میں تھے کہ کسی بھی طرح جنگ کو روک دیں۔ان میں سے جس نے اس بات کی سب سے زیادہ کوشش کی تھی وہ عمار تھے انھوں نے کوشش کی تاکہ مغیرہ ابن شعبہ کو وعظ و نصیحت کریں اور امام کی حقانیت کو اس پر واضح کردیں ۔لیکن وہ انجان بن رہا تھا اور حقیقت کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا (مغیرہ امام کو اور آپ کے تمام سابقہ حالات کو بخوبی جانتا تھا یہاں تک کہ آپ کی خلافت کے شروع میں ہی اس نے حضرت سے کہا کہ طلحہ و زبیر اور معاویہ کو ان کے عہدوں پر باقی رکھئے تاکہ لوگ آپ کی بیعت پر متفق ہوجائیں اور اتحاد و اتفاق بر قرار اور محفوظ رہ جائے اور پھر آکا جیسے جی چاہے حکومت کیجئے۔ اور جب یہ دیکھا کہ امام نے اس کی بات اور اس کے مشورہ کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو وہ دوسرے روز آکر اس طرح کہنے لگا: ''میں نے غورو فکر کے بعد یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا اس میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اور حق وہی ہے جو آپ نے سوچا ہے۔''
امام نے عمار کو مخاطب کرکے فرمایا:'' اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دو! کیونکہ وہ دین سے کچھ نہیں لیتا مگر وہی چیز جو اس کو دنیا سے نزدیک کردے۔ وہ مسئلہ کو عملی طورپر اپنے اوپر مشتبہ کرلیتا ہے تاکہ ان شبہوں کو اپنی خطا کے واسطے عذر قرار دے''۔
البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ لوگ نہ صرف یہ امام کو تحمل نہیں کرسکتے تھے ،بلکہ کسی دوسرے شخص کو بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ان کی مشترک مخالفت صرف اس بناپر تھی کہ قدرت اورمنصب امام کے ہاتھ میں تھا اور ان کی زیادہ تر ناجائز خواہشات کے پوری اور عملی نہ ہونے سے امام بالکل بے توجہ تھے ، اسی سبب نے ان کے اندر اتحاد پیدا کردیا تھا اور کم از کم ان میں آپس کے اختلا ف کو آشکار ہونے سے مانع تھا۔ البتہ خاص حساس مواقع پر اس اتحاد کا شیرازہ بکھر جاتا تھا۔ یہ وحدت ٹوٹ جاتی اور اختلاف و کشمکش نمایاں ہوجاتا تھا۔
بہرحال آنحضرت اپنے پورے دورخلافت میں اس بات پر مجبور ہوگئے کہ وہ اپنے مخالفین سے مقابلہ کریں اور وہ لوگ جو جنگ کے لئے آمادہ ہیں، ان سے مقابلہ کے واسطے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہ جنگیں ان نقصانات کے ظاہر ہونے کا فطری نتیجہ تھیں کہ اپنی گذشتہ تاریخی سابقہ جو اسلام سے ماقبل ہے اس تک پہونچتی تھی اور یہ مسئلہ عمر کے دورخلافت کے درمیانی ایام میں پیدا ہوا۔ اور آہستہ آہستہ (اندر اندر) پکتا رہا اور یہ دور بھی امام کی شہادت
اور معاویہ کے حکومت حاصل کرنے پر ختم ہوگیا۔
وہ افراد بہت زیادہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ امام کی یہ مشکلات آپ کے ایام خلافت میں دین و عدالت کی بنیادپر مبنی دقیق اور سخت رویہ کی وجہ سے وجود میں آئی تھیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام مشکلات کی بنیاد یہ نہیں تھی۔ بلکہ ان میں سے بہت سے مشکلات کی بنیاد کو اس زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور ماحول میں تلاش کرنا چاہئے۔ ایک ایسا ہمہ گیر اور گہرا بدلاؤ پیدا ہوا تھا جس نے اپنے اندر ہر چیز اور ہر شخص کو غرق کردیا تھا۔ فقط چند باایمان ا ور بااخلاص مسلمان تھے جو ان حالات کے بہاؤ میں غرق نہیں ہوئے تھے۔ وہی لوگ جو حضرت علی ـ سے متحد اور ہم آہنگ اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک آپ کی ہمراہی میں اور آپ کے ہم رکاب رہے اور ان میں سے بہت سیافراد تینوں جنگوں میں درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے۔