اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات0%

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف: محمد مسجد جامعی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28640
ڈاؤنلوڈ: 3895

تبصرے:

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28640 / ڈاؤنلوڈ: 3895
سائز سائز سائز
اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

اہل تسنن اور تشیع کے سیاسی نظریات

مؤلف:
اردو

معاشرہ اور سماج کا درہم برہم ہونا

اس درہم و برہم حالات کو نہ صرف یہ کہ حضرت علیـ بلکہ کوئی دوسرا بھی منظم نہیں کرسکتا تھا۔ قدیم اور جدید صاحبان قلم کے قول کے بالکل برعکس اگر بالفرض پہلے دونوں خلفا بھی آنحضرت کی جگہ ہوتے تب بھی حالات میں اتنی تبدیلی نہیں آسکتی تھی۔(۵۸) ان دونوں کی کامیابی معاشرتی انسجام اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں ،اس زمانہ کے حالات کی مرہون منت تھی نہ کہ ان کی ذاتی خصوصیات یا ان کی مجموعی سیاست کا ثمرہ رہی ہوں۔ بغیر کسی شک شبہہ کے اگر امام کو گذشتہ خلفا کے دور میں مسند خلافت پر بٹھا دیا جاتا تو ان دونوں سے کہیں زیادہ وہ کامیاب ہوتے ۔یہ بات کسی حدتک عثمان کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ ان کی ناکامی فقط ان کی غلط خصوصیات کی بناپر وجود میں نہیں آئی تھی ۔احتمال قوی کی بناپر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر ان (عثمان) کے ماقبل دونوں خلفا میں سے کوئی بھی ان کی جگہ برسر اقتدار آتا، تب بھی حالات کی تبدیلی میں کوئی خاص فرق نہ پڑتااور اسے بھی کم و بیش انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جن سے عثمان دوچار ہوئے ہیں۔

وہ مؤرخین یہ بھول بیٹھے کہ پہلے ہی در جہ میں عثمان کی مشکلات انھیں مشکلات کا سلسلہ تھیں جن سے خود عمر اپنی خلافت کے آخری دور میں دست و گریباں تھے اور یہ ساری مشکلات اس نئے ماحول اور حالات ضمنی عوا ر ض کا نتیجہ تھے جو جدید فتوحات کے ذریعہ پیدا ہوئے تھے۔ عمر نے اپنی عمر کے آخری ایام میں یہ احساس کرلیا تھا کہ وہ اپنے نفوذ و اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اب خلافت کے ابتدائی سالوں کی طرح قدرت اور رعب و دبدبہ کے ساتھ حکومت نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت کا قبول کرنا ان کے واسطے بہت مشکل امر تھا جیسا کہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انھوں نے کئی مرتبہ موت کی تمنا کی۔

لیکن گویا امام علیـ پر تنقید کرنے والے یہ سب مسائل بھول گئے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تجزیہ و تحلیل میں تیز گام بنیادی انقلابات اور حالات میں تیزی کے ساتھ بدلاؤ کو نظر انداز کردیا اور خلفا میں ہر ایک کی کامیابی کی مقدار کو فقط فردی سیاستوں، خصلتوں اور خصوصیات کی بنیادپر چھان بین کی ہے۔(۵۹)

چنانچہ معاویہ بھی جو مدارات، ہوشیاری(کیاست) اور سیاست میں مشہور تھا اگر بلافاصلہ قتل عثمان کے بعد حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ، اسے بھی ایسے ہی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا جن سے حضرت علیـ دوچار تھے۔(۶۰) بیشک اصحاب جمل علیـ کی بہ نسبت معاویہ کے ساتھ زیادہ شدو مد اور سختی کے ساتھ جنگ کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے کیونکہ وہ آنحضرت کی دینی اور ذاتی لیاقت اور یہاں تک کہ اپ کی عمومی بیعت کے شرعی اور قانونی ہونے کا یقین رکھتے تھے اور صرف بہانہ تراشی کرتے تھے۔ وہ لوگ خود ان چیزوں کو جانتے تھے اسی وجہ سے عائشہ نے چند مرتبہ پلٹ جانے کا پکا ارادہ کیا لیکن ہر بار لوگوں نے جھوٹ بو لکر ان کو اس کام سے روک دیا۔(۶۱) بعد میں وہ خود اپنے اس کام سے سخت پشیمان ہوئیں۔(۶۲) زبیر بھی جنگ کے آخری لمحوں میں محاذ جنگ کو ترک کردیا اور وہ اس بات کے لئے تیار نہ ہوئے کہ حضرت علیـ سے جنگ کریں۔(۶۳) لیکن معاویہ ان لوگوں کی نظر میں نہ یہ کہ فقط ہر قسم کی لیاقت و خوبی سے عاری تھا بلکہ وہ لوگ خود کو اس سے بہتر اور برتر سمجھتے تھے۔ اس سے بھی قطع نظر، ظن غالب کی بنیاد پر سعد ابن ابی وقاص اور ان کے جیسے دوسرے لوگ جو نہ تو امام کی حمایت کے لئے اور نہ ہی آپ کی مخالفت میں کھڑے ہوئے، وہ معاویہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ان لوگوں کے لئے قابل قبول نہ تھا کہ وہ لوگ اس (معاویہ) کو عثمان کے بعد بلافاصلہ مسند خلافت پر بیٹھا دیکھیںاور وہ لوگ اس کے تابع رہیں معاویہ اپنی مطلقہ قدرت اور حکومت پانے کے ایک عرصہ کے بعد بھی ان سے ڈرتا تھا اور ان لوگوں کو یزید کی ولیعہدی کی رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ سمجھتا تھا۔(۶۴)

اور یہ کلام ایک دوسری طرح سے ان لوگوں کے بارے میں بھی صحیح ہے جنھوں نے خلافت امام کے آگے سرتسلیم خم کردیا تھا۔ قیس ابن سعد ابن عبادہ کے ایسے لوگ، قطعی طورپر اگر امام میدان خلافت و سیاست میں موجود نہ بھی ہوتے، تب بھی وہ معاویہ اور اس کے جیسے دوسرے افرادکے مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے۔ ان لوگوں کی مخالفت معاویہ کے ساتھ اس بنا پر نہ تھی کہ وہ امام کے دوستوں کی صف میں آگئے تھے اور امام معاویہ کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہو ئے تھے ان لوگوں کی معاویہ سے ایک سنجیدہ اور بنیادی مخالفت تھی۔ کیونکہ وہ لوگ امام کو خلیفہ بر حق جانتے تھے، لہٰذا آپ کے پرچم تلے اس کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اگر ایسا علم اور پرچم نہ بھی ہوتا تب بھی مسئلہ میں کوئی تبدیلی نہ آتی کیونکہ معاویہ امام کی شھادت کے بعد بھی ان لوگوں سے ڈرتا تھا۔(۶۵)

اسی طرح خوارج جیسی مشکل بھی خواہ مخواہ وجود میں آگئی۔ خوارج داستانِ حکمیت کی پیداوار نہیںہیں یہ حادثہ زخم کو تازہ کرنے کا ایک سبب تھا کہ حتی زمانۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی جس کا وجود تھا۔ وہ لوگ خشک اور تند مزاج بدّو تھے کہ بنیادی طورپر دین کے متعلق ایک دوسرا نظریہ رکھتے تھے( دین کے متعلق تنگ نظری اور سخت گیری کے شکار تھے۔ )اور اپنی اسی کج فہمی ا ور ایسے ادراک کی بنیاد پر خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات پر بھی اعتراض کربیٹھے۔ مشہور ہے کہ ایک روز قبیلہ بنی تمیم کے افراد میں سے ایک شخص جو بعد میں خوارج کے سرداروں میں سے ہوگیا اور جنگ جمل کے معرکہ میں مارا گیا(ذوالخو یصرہ) جس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کربیٹھا اور کہنے لگا ''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! عدالت کی کیوں رعایت نہیں کی؟'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غضب میں آگئے اور فرمایا: ''میں نے عدالت کی رعایت نہیں کی! تو میرے علاوہ عدالت کو کہاں پائے گا؟'' اس کے بعد فرمایا یہی لوگ وہ گروہ ہونگے جو دین سے خارج ہو جائیںگے ا س وقت ان لوگوںکے خلاف جنگ کرنے کے لئے اُٹھ جانا۔(۶۶)

ضروری تھا کہ ایک زمانہ گذرجائے اور حالات تبدیل ہو جائیں تاکہ رفتہ رفتہ یہ کج فکر بچکانہ ذہنیت رکھنے والے بدو سخت گیر افراد ایک گروہ کی شکل میں جمع ہوکر موجودہ نظام کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں ۔یہ تصور کرنا بالکل غلط ہے کہ یہ لوگ جنگ صفین اور داستانِ حکمیت کی پیداوار ہیں۔ یہ لوگ اسلامی معاشرہ کے اندر ایک سرطانی غدہ کی حیثیت رکھتے تھے کہ آخرکار ایک نہ ایک روز اس کو پھوٹنا ہی تھا البتہ حضرت علیـ کے زمانہ میں حالات کچھ اس طرح ہوگئے تھے کہ اس کا مناسب ترین موقع اس دور میں آپہونچا۔

قطعی طورپر اگر معاویہ حضرت علیـ کی جگہ قرار پاتا تو یہ لوگ زیادہ قدرت اور قوت کے ساتھ وسیع پیمانہ پر میدان میں نکل آتے، ان کا اعتراض حضرت علی ابن ابی طالب پر یہ تھا کہ کیوں تم نے حکمیت کو مان لیا اور اب اپنے اس عمل سے توبہ کرو۔ صرف یہی ایسا ایک اعتراض تھا جو وہ کرسکتے تھے، کیونکہ ان کی نظر میں حضرت علیـ کبھی بھی اسلام کے صراط مستقیم اور عدالت سے خارج نہیں ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ ان خوارج میں سے بہت سے امام اور ان کے اصحاب کی توضیحات سے اپنی راہ سے عدول کرگئے ، نہروان کی جنگ میں، جنگ سے منھ موڑ کرچلے گئے ۔لیکن کیا ان کا یہ رویہ معاویہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا؟

معاویہ جیسا شخص خوارج کی نظر میں ظلم و بربریت اور کفر و بے دینی کا مظہر تھا ۔جیساکہ وہ لوگ (خوارج) اِس(معاویہ) کے قدرت میں آنے کے فوراً بعد اُس کے اور اس کے ناخلف اخلاف کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ اس راہ میں انھوں نے شجاعت اور بہادری کی یادگار قائم کردی عباسیوں کے ابتدائی دور تک ان کی جنگ اور استقامت اور صف آرائی جاری رہی اور آخرکار وہ بغیر کسی فوجی طاقت کا مقابلہ کئے ہوئے، حالات کے بدل جانے سے نابود ہوگئے اور وہ لوگ بھی جو باقی رہ گئے تھے انھوں نے اپنے باقی فکر و عمل اور اعتقاد میں اس طرح کی اصلاحات اور اعتدال پیدا کر لیا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے مانند ہوگئے۔(۶۸)

مشکلات کا سرچشمہ

نتیجہ یہ کہ علی ابن ابی طالب کی مشکلات کا سرچشمہ صرف ان کی عدالت خواہی ہی نہ تھی۔ بلکہ ان میں سے اکثر مشکلات اس زمانے کے حالات کی طرف پلٹتی ہیں۔ اگر حضرت علیـ کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تب بھی ان مشکلات سے روبرو ہوتا۔ اگر بعد میں معاویہ تک حکومت اور قدرت پہونچ گئی پھر بھی زیادہ ترمشکلات ان حالات کی بناپر ہے جو حضرت علیـ کے دور خلافت کے بعد رونما ہوئیں نہ معاویہ کی ذاتی اور شخصی خصوصیات کی بناپر۔ اور خلافت کے عموماً بڑے دعویدار اور معاویہ کے رقیب امام کے مد مقابل صف آرا ہوکر قتل ہوگئے تھے۔ اور اس زمانے کے تلخ تجربوں نے لوگوں کو خستہ و فرسودہ کردیا تھا اور اب مائل نہ تھے کہ نفوذ رکھنے والے اور خلافت کے دعویداروں کی آواز پر لبیک کہیں ۔گویا اس معاشرہ میں سکون حاکم ہوچکا تھا اور وہ خود بخود رام ہوگیا تھا اور اس کا مد و جزر تھم چکا تھا اور ایک ایسی قدرت کی جستجو میں تھا جو ان کے لئے امن و امان کا نوید لائے اور اس زمانے کے لوگوں کی نظر میں یہ فقط معاویہ ہی تھا جو اپنے اندھے و بہرے اور اندھی تقلید کرنے والے شامی اطاعت گزاروں کی مدد سے یہ کام کر نے پر قادر ہوگیا تھا۔ اگرچہ بعد میں اس نے لوگوں کو قبرستان جیسے امن و سکون کے تحفہ سے نوازا جو تمام آزادیوں اور انسانی کرامتوں کو سلب اور تمام اصول و اسلامی معیاروں کو پامال کرنے کے مترادف تھا۔(۶۹) یہ علی ابن ابی طالب کے خلافت تک پہنچنے اور آنحضرت کے ساتھ ہونے والی مخالفتوں کی اجمالی داستان تھی۔ عثمان کی بے لیاقتی، کینہ توزی، خاندان پرستی اور ان کے فوجی سرداروں کی ظلم و زیادتی اور لاپرواہی نے لوگوں کی چشم امید کو آنحضرت کی طرف مبذول کر دیا تھا اس حدتک کہ لوگوں نے بیعت کرنے کے واسطے ایسا ہجوم کیا کہ آپ کے دونوں فرزند اس ہجوم اور بھیڑ میں پِس کر زخمی ہوگئے۔ لوگ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف لپکے اور ان کی طرف دوڑے (نہ کہ حضرت نے چاہا اور ان کو اپنی طرف بلایا ہو ۔) اب اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم کہیںکہ آنحضرت لوگوں کی طرف سے قبول کر لئے گئے۔ انھوں نے بیعت سے پہلے ہی، اپنا انتخاب کرلیا تھا۔

البتہ اس کے علاوہ بھی دوسرے اسباب موجود تھے مثلاً'' مونٹ گمری واٹ'' معاویہ کی کامیابی اور حضرت علی ـ کے لئے پیش آنے والی مشکلات سے روبرو ہونے کے بارے میں اس طرح کہتا ہے: ''معاویہ کی حمایت ان شامی عربوں کے ذریعہ ہوتی تھی۔ جو کئی سال سے اس کے فرمانبردار اور اطاعت گذار تھے عام طورپر وہ صحرا سے نہیں آئے تھے بلکہ وہ ایسے خاندان سے متعلق تھے جو ایک یا دو نسل سے شام ہی میں مقیم تھے لہٰذا وہ ان بدّؤں کی بہ نسبت زیادہ پائیدار اور بھروسے مند تھے جوعلی ابن ابی طالب سے وابستہ تھے۔شامی عربوں کی بہترین کیفیت معاویہ کی کامیابی کی ایک بہت بڑی دلیل تھی۔''(۷۰)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخالفین اور معارضین (مقابلہ کرنے والے) حقیقت میں دہشت گرد اور شدت پسند تھے فقط انھیں کے ساتھ نہیں بلکہ جو بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ پرہوتا وہ لوگ اس کی بھی مخالفت کرتے۔ ان لوگوں کا اعتراض صرف یہ تھا کہ حکومت میں ان لوگوں کا کوئی خاص عہدہ یا مقام کیوں نہیں ہے۔ وہ چیز جس نے ان لوگوں کو ایک متحدہ محاذ پر لاکر کھڑا کردیا تھاوہ امام سے مخالفت تھی نہ یہ کہ ہم عقیدہ ا ور ہم مسلک ہونے کی بنیاد پر۔ یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے پروپیگنڈے ، دھمکیوں اور لالچ دینے(تطمیع) کا سہار الیکر عوام الناس کی صف اتحاد میں تفرقہ اندازی کرکے چاہے ان لوگوں کے درمیان تفرقہ اندازی کرتے جنھوں نے امام سے براہ راست بیعت کی تھی یا پھر ان کو قانونی طورپر اپنا برحق خلیفہ تسلیم کرتے تھے، ا ان لوگوں کے درمیان اختلاف کا بیج بویا اور آخر کار ایک گروہ کو اپنا پیرو بنا ہی لیااور امام ـکے مدمقابل کھڑا کردیا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ چند لوگوں کے علاوہ سب نے امام کی خلافت کو قبول کرلیا تھا اور ہم یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کا امام بعنوان خلیفہ منتخب کرلینا گذشتہ دونوں خلفا کی بہ نسبت زیادہ وسیع اور اکثریت کا حامل تھا۔(۷۱)

البتہ ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ علی ابن ابی طالب کی خلافت پر پہنچنے کی داستان پہلے تین خلفا سے مختلف تھی اگرچہ عمومی طورپر لوگوں نے آپ کی بیعت کرکے آپ کے گرد جمع ہوگئے تھے اور گذشتہ خلفا کی طرح آپ کو دیکھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ حضرت علیـ ان کے دنیاوی امور کی بھی ذمہ دار ہوں لیکن آپ کے ماننے والوں اور پیروی کرنے والوں میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جنھوں نے آپ سے بیعت اس واسطہ کی تھی آپ کو وہ پیغمراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برحق جانشین اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے منسوب اور منصوص جانتے تھے۔ (یعنی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خاص طورپر آپ کو جانشین بنایا تھا) آپ کی بیعت اس وجہ سے نہیں تھی کہ ان کا کوئی رہبر ہو جو ان کے دنیاوی امور کی دیکھ بھال کرے اور اس کے انتظام کو اپنے ہاتھوں میں لے لے، بلکہ آپ کی بیعت اس لحاظ سے کی تھی کہ وہ لوگ اپنے دنیاوی اور دینی امور میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحیح جانشین کی بیعت کئے ہوئے ہوں۔ یعنی ایسے شخص کی بیعت جو وسیع اور عمیق معنوں میں منصب امامت کی لیاقت رکھتا ہو ۔ایسی امامت جو نبوت اور رسالت ہی کا ایک سلسلہ ہو بلکہ یہ امامت، رسالت و نبوت کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ اگرچہ ایسے (مخلص) افراد کی تعداد بہت کم تھی لیکن وہ لوگ سایہ کی طرح ہمیشہ امام کے ہمراہ تھے اور لوگوں کو امام کی طرف بلاتے رہے اور آنحضرت کے ساتھ جنگوں میں بہت اساسی کردار ادا کیا اور عموماً انھیں جنگوں میں درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے۔(۷۲)

حقیقت کی بدلتی ہوئی تصویر

خلفائے راشدین کی تاریخ کی حقیقت یہ تھی جیساکہ وہ محقق ہوئی۔ اگر اس کا پہلا حصہ چین و سکون کے ساتھ اور اس میں کسی قسم کی کشیدگی نہیں پائی جاتی ہے تو وہ صرف بیرونی خطرات میں لوگوں کی توجہات کے مشغول ہوجانے کی بناپر ہے، ابتدائی زمانہ میں بیرونی خطرات کی طرف توجہ کے مرکوز ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی دھمکیاں اور معاشرہ کا فقر اور اس کی محدودیت نے اپنے میں مشغول کر رکھا تھا، اگر اس کے بعد کا زمانہ پُرآشوب اور بحرانی ہے تو بھی اس کی پیدائش کا واحد سبب وہ حالات ہیں جو اکثر بیرونی خطرات کے ختم ہوجانے اور ثروت کی بھرمار کی بنا پر پیدا ہوئے ہیں۔ خلفا کا انتخاب عام لوگوں کی نظر میں اس زمانہ میں ایک معمولی چیز تھی۔ ان لوگوں کی نظر میں یہ لوگ (خلفا) بھی معمولی افراد تھے اور ان کا منصب بھی کوئی خاص فضیلت نہیں رکھتا تھا اور خود وہ(خلفا) بھی اپنے کو کسی اور زاویۂ نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔

جس وقت ابوبکر کہتے تھے کہ '' مجھ کو چھوڑ دو(سمجھنے کی کوشش کرو) میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں'' اور یا کہ وہ کہتے تھے :'' میرے اوپر ایک شیطان مسلط ہے'' اور میں کہیں راستہ سے کج ہوگیا (راہ راست سے بھٹک گیا) تو مجھے راہ مستقیم پر لگادو تو یہ مذاق نہیں فرمارہے تھے اور نہ ہی تواضع و انکساری کررہے تھے۔ وہ واقعاً ایسا ہی سوچتے تھے اور دوسرے لوگ بھی ان کو اسی نظر سے دیکھتے تھے۔ جس وقت عمر کہتے تھے: مجھ سے ہوشیار رہو اگر میں نے کہیں غلطی کی ہو تو مجھے ٹوک دو ۔'' یہ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ کہتے تھے اور جس وقت فلاں عرب اُٹھ کر کہتا تھا :''خدا کی قسم اگر تم کج رفتاری کرو گے تو تمہیں شمشیر کے ذریعہ سیدھا کردیں گے۔'' حقیقت میں یہ چیز اس زمانہ کے لوگوں کا خلیفہ کے ساتھ برتاؤ کے طریقے اور بنیادی طورپر مقامِ خلافت کے متعلق لوگوں کے نظرئے کو بیان کرتی ہے۔(۷۳)

لیکن بعد میں ،جیساکہ ہم بیان کریں گے، ایک دوسرے طریقہ سے دیکھا گیا اور اس کی تصویر کشی کی گئی۔ رفتہ رفتہ انسانی، مادی اور دنیاوی رنگ کو کھوکر معنوی اور روحانی حاصل کرلیا یہاں تک کہ دینی تقدس کے رنگ میں رنگ گیا۔ وہ دور جو صدر اسلام کے مسلمانوں کی تاریخ کا دور تھا درحقیقت خود اسلام کی تاریخ کی تمامیت اور خالصیت کی صورت میں پیدا ہوگیا لہٰذا مختلف اسلامی ادوار کی تاریخ میں بلکہ خود دین کے مقابلہ میں اس کا ہم پلہ قرار دیاگیا یہاں تک کہ وہ تاریخیں دین کی مفسر اور مبین ہوگئیں اور دوران پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منزلت کے برابر منزلت حاصل کرلی اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ حالات میں تبدیلی کیوں اور کیسے وجود میں آئی؟ اور اس کے نتائج کیا ہوئے؟

معاویہ کے مطلق العنان ہو نے کے بعد امام حسنـ بھی خاموشی پر مجبور ہوگئے، اس کے بعد معاویہ نے کچھ ایسے اقدامات کے لئے ہاتھ پیر مارے جن کی بناپر بعد میں تاریخ اسلام میں اہم تغیرات رونما ہوئے یہاں تک کہ اسلام کے متعلق مسلمانوں کے فہم و ادراک میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ خود جانتا تھا کہ اس کے ان اقدامات کا نتیجہ کیا ہوگا۔ شاید وہ اپنے حدتک دوسرے مقاصد کی تلاش میں رہا ہو ،لیکن بہرحال اس کے اقدامات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے فہمی و کلامی اور اعتقادی ڈھانچہ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوا۔ اس طرح کہ اگر ہم کہیں کہ ان اقدامات کی طرف توجہ کئے بغیر جامع اور مکمل اسلام کی متعلق مسلمانوں کے فہم و ادراک میں تبدیلی کو سمجھا نہیں جاسکتا تو ہماری یہ بات غلط گوئی نہ ہوگی۔ (یعنی معاویہ کے اقدامات نے اہم تحولات پیدا کئے اور مسلمانوں نے انھیں اسلام سمجھا اگر ان کو نظر انداز کردیا جائے تو مسلمانوں کی فہم او ر ان کی کلامی و اعتقادی بنیاد میں کمی واقع ہوجائے گی۔)(۷۴)

معاویہ کی قدرت و طاقت کے اوج کے وقت بھی اس کے حائز اہمیت مخالفین موجود تھے البتہ وہ ان لوگوں کی کامل اور دقیق شناخت بھی رکھتا تھا۔ وہ حسب ذیل افراد تھے: عبداللہ ابن زبیر، عبدالرحمن ابن ابوبکر، عائشہ، سعد ابن ابی وقاص، عبداللہ ابن عمر، قیس ابن سعد ابن عبادہ اور تمام انصار اور علی ابن ابی طالب کے خالص شیعہ۔ لیکن بجز شیعوں اور خوارج کی مخالفت کے کہ اس میںاعتقادی پہلو تھا بقیہ تمام مخالفین اور ناسازگاریاں سیاسی پہلو رکھتی تھیں۔ وہ اتنا ہوشیار، چالاک، لوگوں کی پہچان رکھنے والا اور موقع شناس انسان تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلہ کے لئے اٹھ سکے اور ان کو لالچ دیکر یا ڈرادھمکا کر سکوت پر آمادہ کر سکے لہٰذایہ لوگ اس کے لئے قابل تحمل تھے ۔ وہ چیزجو اس کے لئے برداشت کے قابل نہ تھے یہاں تک کہ وہ ان سے ڈرتا تھا وہ علی ابن ابی طالب کا سنگین سایہ اور آپ کا قدرت مند جاذبہ تھا۔

البتہ امام اس وقت درجۂ شہادت پر فائز ہو گئے تھے وہ خود حضرت علیـ سے نہیں ڈرتا تھا بلکہ آپ کی شخصیت سے ڈرتا تھا ایسی شخصیت جو اس کی حکومت و سلطنت کی شرعی اور قانونی اور اس کے مطلق العنان ہونے میں رکاوٹ اور سنگ راہ تھی اگر وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت اور تقدس کے حریم کو نابود کر سکتا، وہ اپنا اور اپنے خاندان کا تاریخی انتقام بھی لے لیتا، اپنے اور اپنے خاندان کے غلبہ کو باقی رہنے اور اسکی مشروعیت کو حاصل کرنے کا جو سب سے بڑا مانع تھا اسے بھی درمیان سے ہٹا دیتا۔(۷۵)

حضرت علیـ سے مقابلہ آرائی

سب سے پہلا اقدام امام پر سب ولعن کا رواج دے نا تھا۔ لیکن کچھ مدت گزر جانے کے بعد میں جان لیا کہ فقط یہ کافی اور کارساز نہیں ہوسکتا لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ ایک آئین نامہ کے ذریعہ اپنے حکام سے یہ چاہے کہ جو مناقب علی ابن ابی طالب کے بارے میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کئے گئے ہیں انھیں کے مشابہ فضیلتیں دوسروں کے بارے میں گڑھ کر ان کی ترویج کریں اور ٹھیک یہیں سے تحول اور تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے۔ صدر اسلام اور اس کے افراد کو تقدس کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ مدح صحابہ، عصر صحابہ، خلفائے ثلاثہ، خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ، ازواج پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اول کی اہم اور صاحبان نفوذ شخصیتوں کے بارے میں حدیثیں گڑھی جانا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ حدیثیں عام لوگوں کے دل و دماغ اور یہاں تک کہ علما اور محدثین کے ذہن اور ان کے دماغ میں گھرکر گئیں اور کبھی بھی ان کے ذہن سے یہ بات نہیں نکلی اور نہ ہی اس میں شک و شبہہ پیدا ہوا کیونکہ اس بات کے ذہن سے نکلنے یا اس میں شک کے لئے کوئی راستہ نہ تھا اور یہاں تک کہ یہ عقاید بعد کے زمانہ میں بھی کچھ اسباب کے تحت جن کا ذکر ہم بعد میں کریں گے وہ قوی ہوگئے ۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں ایک فصل تحریر کرتے ہیں جس کو'' اہل بیت(ع) پر ڈھائے جانے والے بعض مظالم اور اذیتوں کے بیان'' کے عنوان کے تحت اس سے متعلق ایک مفصل حدیث امام محمد باقرـ سے نقل کرتے ہیں جس میں آنحضرت جو کچھ شیعوں کے ائمہ اور ان کے ماننے والوں پر گذری ہے اس کو مختصر طورپر بیان فرمایا ہے :'' ہم ہمیشہ مورد آزار واذیت اور ظلم واقع ہوئے اور قتل کئے گئے ، ہمیشہ قید و بند، تحت تعقیب اور محرومیت میں مبتلا رہے ہیں ۔میری اور میرے چاہنے والوں کی جانیں محفوظ نہ تھیں۔اسی حال میں جھوٹی حدیثیں گڑھنے والے اور حقیقت سے نبردآزما لوگ میدان میں کود پڑے ان کے جھوٹ بولنے اور حقیقت سے نبردآزمائی کی بناپر ان لوگوں نے برے امیروں، قاضیوں اور حکام کے نزدیک ہر شہر میںاپنی حیثیت بنالی۔ وہی لوگ حدیثیں گڑھ کے اس کو شائع کرتے تھے ۔ جو ہم نے انجام نہیں دیا تھا اور اس کے بارے میں نہیں کہا تھا اس کی نسبت ہماری طرف دے دی گئی یعنی ہم سے روایت کرڈالی تاکہ ہم کو لوگوں کے درمیان بدنام کریں اور ان کی دشمنی کی آگ ہمارے خلاف بھڑکائیں اور یہ ماجرا امام حسنـ کی رحلت کے بعد معاویہ کے زمانے میں شدید ہوگیا۔''(۷۶) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد مدائنی کی معتبر کتاب الاحداث سے ایک دوسری بات نقل کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ فوائد پر مشتمل ہے لہٰذا ہم اس کا ایک اہم حصہ بیان کریں گے:حضرت علیـ کی شہادت کے بعد جب معاویہ کی خلافت مستقر ہوگئی، اُس(معاویہ) نے اپنے والیوں کو اس طرح لکھا: ''میں نے اپنے ذمہ کو اس فر دسے جو ابوتراب اور ان کے خاندان کے فضائل بیان کرتا ہے بری کر لیا ہے۔ اتنا کہنا تھا کہ دور و نزدیک تمام علاقوں میں ہر منبر سے ہر خطیب نے مولائے کائنات حضرت علی ـ پر لعنت کرنا شروع کردیا اور ان سے اظہار بیزاری کرنے لگے خود ان کے اور ان کے اہل بیت کے خلاف زبان کھولنے لگے اور ان پر لعن وطعن کرنے لگے۔ اسی درمیان کوفہ تمام علاقوں سے زیادہ مصیبت میں گرفتار ہوگیا چونکہ زیادہ تر شیعہ اسی شہر میں ساکن تھے۔ معاویہ نے زیاد ابن سمیہ کو اس کا والی بنایا اور بصرہ کو بھی اسی سے متصل کردیا اس نے بھی شیعوں کو ڈھوڈنا شروع کیا اور چونکہ حضرت علیـ کے دور میں وہ خود بھی آپ کے شیعوں میں سے تھا لہٰذا ان کو اچھی طرح پہچانتا تھا ان کو جہاں بھی پاتا قتل کردیتا تھا ایک عظیم دہشت پھیل گئی تھی ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتا اور آنکھوں میں سلاخیں ڈال دیتا اور درخت خرمہ کے تنے پر ان کو سولی دے دیتااور عراق سے ان کو نکال کر ان لوگوں کو ادھر ادھر منتشر اورتتر بتر کردیا اس حدتک کہ اب کوئی معروف شخصیت وہاں باقی نہ رہ جائے۔

معاویہ نے دوسری نوبت میں اپنے کارندوں کو لکھا کہ کسی ایک بھی شیعۂ علی اور ان سے وابستہ لوگوں کی شہادت (گواہی) کو قبول نہ کرو۔ اپنی توجہ کو عثمان اور اس کے شیعوں کی طرف موڑ دو اور جو لوگ اس کے فضائل اور مناقب کو بیان کر تے ہیں انہیں اپنے سے نزدیک کرو ان کو اکرام و انعام سے نوازو۔ ان سے مروی روایات اور خود ان کے ناموں، ان کے باپ اور خاندان کے ناموں کو لکھ کر میرے پاس ان کی فہرست بھیجو۔

اس کے کارندوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ عثمان سے متعلق فضائل بہت زیادہ ہوگئے اور ہر جگہ پھیل گئے اور یہ معاویہ کے مختلف ہدیوں کی بدولت تھا عبا اور زمین سے لیکر دوسرے بہت سارے قیمتی تحفے، تحائف تک کہ جو عربوں اور دوستوں کو بخشا تھا ۔وہ دنیا کو پانے کے واسطہ ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں مشغول تھے۔ کوئی بیکار اور فضول شخص بھی ایسا نہ تھا جو معاویہ کے گورنر کے پاس گیا ہو اور کوئی روایت عثمان کی فضیلت میں نقل نہ کی ہو مگر یہ کہ اس کا نام لکھا جا ئے اور اس کی قدردانی کی جاتی تھی اور وہ شخص مقام و منزلت پا جاتا تھا اور ایک مدت اسی طرح گزر گئی۔

کچھ دنوں کے بعد معاویہ نے اپنے والیوں کو لکھا کہ عثمان کے بارے میں احادیث بہت زیادہ ہوگئی ہیں اور تمام علاقوں میں پھیل گئی ہیں۔ جس وقت میرا خط تم تک پہنچے لوگوں کو دوسرے صحابہ اور پہلے دونوں خلفا کے فضائل بیان کرنے کی دعوت دو۔ جیسی فضیلتیں مسلمانوں نے ابوتراب کے بارے میں نقل کی ہیں ویسی ہی فضیلتیں صحابہ کی شان میں جعل کر کے میرے پاس بھیج دو۔ کیونکہ اس امر کو میں بے حد پسند کرتا ہوں اور میری آنکھیں اس سے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ خلفائے راشدین کی فضیلتیں ابوتراب اور ان کے شیعوں کی دلیلوں کو بہتر طورپر باطل کرتی ہیں اور ان لوگوں پر عثمان کے فضائل بیان کرناسخت اور دشوار کام ہے۔

اس(معاویہ) کے خطوط لوگوں کے سامنے پڑھے گئے۔ بلا فاصلہ اسی کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ اخبار و احا دیث صحابہ کی فضیلت میں بیان ہونے لگیں کہ تمام کہ تمام جھوٹی اور جعلی تھیں ،لوگ اس راہ پر چلنے لگے یہاں تک کہ یہ روایتیں منبروں سے پڑھی جانے لگیں اور مدرسہ کے منتظمین اور اس میں پڑھانے والے اساتذہ کو دیدی گئیں انھوں نے ان روایات کو بچوں کو تعلیم دینا شروع دیا اور یہ احادیث اس قدر پھیل گئیں اور اہمیت کی حامل ہوگئیں کہ ان(احادیث) کو قرآن کی طرح سیکھ لیا اپنی لڑکیوں، غلاموں، کنیزوں اور عورتوں کو تعلیم دے دی گئیں۔

اس کے بعد ایک دوسرا خط لکھا اور اپنے کارندوں سے چاہا کہ جس شخص پر علی ـ کی دوستی کا الزام ہو اس کو زیرنظر اور اس پر دباؤ بنائے رہیںاس کے گھر کو خراب کرد یں۔''.. اس طرح بہت سی احادیث جعل کر کے منتشرکر دی گئیں۔ فقیہوں، قاضیوں اور امیروں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ اسی درمیان ریاکار جھوٹے راوی اور زہد فروش حقیر اور مقدس نما، افراد اس مسابقہ میں بازی جیت لے گئے اور سب سے زیادہ اپنے آپ کو اس سے آلودہ کرلیا تاکہ اس راہ سے مال و متاع اور مقام ان کے ہاتھ لگے اور وہ حکام سے نزدیک ہوجائیں ۔یہاں تک کہ یہ احادیث متدین افراد اور سچ بولنے والوں کے پاس پہو نچ گئیں جو لوگ نہ تو جھوٹ بولتے تھے اور نہ ہی فطری طورپر اس بات کا یقین کر نے پر قادر تھے کہ دوسرے لوگ بعنوان محدث و راوی جھوٹ بولیں گے۔ لہٰذا ان سب کو قبول کرکے اورسچ سمجھ کر روایت کرنے لگے ۔اگر وہ جانتے کہ یہ احادیث جھوٹ اور باطل ہیں تو نہ ان کو قبول کرتے اور نہ ہی ان کو نقل کرتے...''(۷۷)

اس کے بعد ابن ابی الحدید نے ابن نفطویہ جو کہ برزگ محدثین میں سے ہیں، ان سے ایک جملہ نقل کرتے ہیں مناسب ہے کہ ہم بھی اس کو نقل کردیں:''اکثر جعلی حدیثیں جو صحابہ کے فضائل میں گڑھی گئیں وہ بنی امیہ کے زمانہ میں گڑھی گئیں ہیں، تاکہ اس کے ذریعہ ان کا تقرب حاصل کریں یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس طرح بنی ہاشم کی ناک زمین پر رگڑ دیں گے۔(۷۸)

حقیقت یہ ہے کہ معاویہ اور اس کے بعد بنی امیہ نے، مختلف وجوہات اور دلائل کے تحت ایسے اقدام کئے۔ وہ اپنی موقعیت اور مشروعیت کو ثابت کرنے اور اپنے سب سے بڑے رقیب و مخالف، بنی ہاشم اور ان میں بھی سرفہرست ائمہ معصومین(ع) کو میدان سے ہٹانے کے لئے مجبور تھے کہ خود کو عثمان کے شرعی اور قانونی وارثوں کی حیثیت سے پہچنوائیں اور حضرت علیـ کے ہاتھ کو اس کے خون سے آلودہ بتائیں اگر ان کاموں میں وہ کامیاب ہوجاتے تو وہ اپنے مقاصد تک پہنچ جاتے ،اسی وجہ سے خاص طورپر شعرا اور ان کی مدح و سرائی کرنے والوں نے عثمان کے فضائل بیان کرنے اور ان کو بے گناہ قتل ہونے اور یہ کہ بنی امیہ اس کے خون کے حقیقی وارث ہیں اور اس کی طرف سے یہ خلافت ان تک پہنچی ہے، اس کے لئے ان لوگوں نے داد سخن دی ہیں۔(۷۹)

گولڈزیہر ( Goldziher ) اس بارے میں اس طرح کہتا ہے:''تاریخ کے نقطۂ نظر سے یہ چیز تقریباً مسلم ہے کہ بنی امیہ نے خود کو عثمان کا قانونی اور شرعی جانشین کہلوایا اور اس کے خون کا انتقام لینے کے عنوان سے حضرت علیـ اور ان کے شیعوں کے خلاف بنی امیہ دشمنی پر تل گئے ۔ اسی سبب سے عثمانی ایک ایسا عنوان ہوگیا تھا جو اموی خاندان کے سر سخت طرفداروں پر اطلاق ہوتا تھا۔(۸۰)

یہ سب اس بات کا مرہون منت ہے کہ عثمان جس قدر، منزلت پاسکتے ہوں پالیں۔ ایسی منزلتیں جو ان کو ہر اس تنقید سے بچاسکتی تھیں جو تنقید یں ان پر کی جاسکتی تھیں اور اس میں چند اہم نتیجہ پائے جاتے تھے۔ پہلا یہ کہ اس کے ذریعہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ وہ کیوں اور کن لوگوں کے ذریعہ اور کن تہمتوں کی وجہ سے قتل کئے گئے ؟ وہ فضائل جو ان(عثمان) کے لئے نقل ہوتے تھے ان کی حقیقی شخصیت اور ان کے اعمال و کردار کے اوپر ایک ضخیم پردہ کی حیثیت رکھتا تھا اورہالہ کی روشنی کے سبب ان کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیتا تھا۔ دوسرے: یہ ثابت کرتا تھا کہ ایک ایسا شخص جواپنی زندگی کے آخری لمحہ تک حق و حقیقت کے سوا کسی اور راہ پر نہ تھا لہٰذا وہ مظلومانہ طور پر شہیدکیاگیا ہے اور اس کے قاتل، بے دینوں اور بددینوں کا ایک گروہ تھاالبتہ پروپیگنڈے سے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتے تھے کہ علیـ کا اس حادثہ میں ہاتھ تھا بلکہ ان کا اہم کردار تھا۔ تیسرے : اس خون ناحق کا انتقام لیا جائے اور اس کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ اور بنی امیہ کے علاوہ کون سب سے زیادہ حق دار ہوسکتا ہے! معاویہ عثمان کے خون کا ولی اور وارث ہے اور صرف اسی کو اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اُٹھنا چاہئے اور صرف اسی کو اس کا جانشین ہونا چاہئے لہٰذا معاویہ کی خلافت اور جانشینی بھی مشروعیت پارہی تھی اور علیـ سے اس کی مخالفت اور آپ سے جنگ بھی شرعی اور قانونی قرار پارہی تھی ۔اتفاقاً اس طرح کے استدلال اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے قابل درک تھے کیونکہ وہ لوگ ابھی تک دوران جاہلیت کے میراث کے قانون سے متائثر تھے اور بنی امیہ بھی اپنی پوری طاقت و قوت کے ساتھ انھیں زندہ کرنے کے لیئے کمر بستہ تھے اور وہ لوگ اس کو درک کرتے تھے۔ کیونکہ جاہل معاشرہ میں ثار کے قانون کی بنیاد پر مقتول کے وارثوں پر لازم ہے کہ اس کا انتقام قاتلوں سے لے لیں۔ اصل (اس قانوں میں) فقط انتقام لینا ہے دوسری کسی اصل کی رعایت نہیں ہے نہ کہ کسی اور دوسری اصل (قاعدہ) اور حدود کی رعایت کرنا۔(۸۱)

اب تک جو کچھ بھی بیان ہوا اس کا بہترین ثبوت جنگ صفین میں عمرو ابن عاص اور ابو موسیٰ اشعری کے ذریعہ حکمیت کے بارے میں موافقت نامہ کا تحریر کرنا ہے۔ ایک ایسا نمونہ جس کی بعد میں معاویہ اور سارے خلفائے بنی امیہ اس کی پیروی کرتے تھے۔ ان دونوں کی بہت سی بحث و گفتگو کے بعد عمرو عاص نے اپنے ساتھی سے چاہا جس چیز پر ہم توافق کرتے جائیں وہ کاتب کے ذریعہ لکھوایا جائے۔ کاتب اسی عمرو کا بیٹا تھا، خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت اور پہلے دو خلفا(ابو بکر وعمر) کی حقانیت کی گواہی لکھنے کے بعد عمرو ابن عاص نے اپنے بیٹے سے کہا لکھو: کہ عثمان، عمر کے بعد تمام مسلمانوں کے اجماع اور صحابہ کی مشورت اور ان کی مرضی سے خلافت کے عہدہ پر فائز ہوئے اور وہ مومن تھے۔'' ابوموسیٰ اشعری نے اعتراض کیا اور کہا: یہاں اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے نہیں بیٹھے ہیں، عمرو نے کہا:'' خدا کی قسم یا وہ مومن تھے یا کافر تھے۔

ابوموسیٰ نے کہا :''مومن تھے۔''

عمرو نے کہا ''ظالم قتل ہوئے یا مظلوم؟''

ابوموسیٰ نے کہا ''مظلوم قتل ہوئے ہیں۔''

عمرو نے کہا :''آیا خداوندعالم نے مظلوم کے ولی کو یہ اختیار نہیں دیا کہ اس کے خون کا بدلہ لے؟ ''

ابوموسیٰ نے کہا: ''کیوں نہیں''

عمرو نے کہا: ''آیا عثمان کے واسطے معاویہ سے بہتر کوئی ولی جانتے ہو؟'' ابوموسیٰ نے کہا ''نہیں''

عمرو نے کہا:''آیا معاویہ کو اتنا بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ عثمان کے قاتل کو جہاں بھی ہوں اپنے پاس طلب کرے تاکہ یا تو اس کو قتل کردے یا اس کے مقابلہ سے وہ عاجز ہوجائے؟ ''

ابوموسیٰ نے کہا :''کیوں نہیں، ایسا ہی ہے''

عمرو نے کہا:'' ہم ثبوت پیش کرتے ہیں کہ علی نے عثمان کو قتل کیا ہے۔(۸۲)

اور ان تمام باتوں کو اس عہد نامہ کا جز قرار دیا

مقام صحابہ کا اتنا اہم ہوجانا

یہ ان حالات کا ایک گوشہ ہے جس میں عثمان اور گذشتہ خلفا اور صحابۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفع میں حدیث کا گڑھے جانے کا کام انجام پایا۔ معاویہ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے مجبور تھا کہ عثمان کی حیثیت اور شخصیت کو بڑھائے لہٰذا مدائنی کے نقل کے مطابق کہ (معاویہ نے) بلا فاصلہ خلافت پر پہنچنے کے بعد حدیثیں گڑھنے کا حکم صادر کردیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ اقدام فقط شخص عثمان تک محدود نہیں رہ سکتا تھا۔ کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے، جن میں سے بعض نے عثمان اور ان کے پہلے والے خلفا کو دیکھا تھا یہ ان لوگوں کے لئے قابل درک وہضم نہیں تھا کہ اس (عثمان) کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہو اور اس کے پہلے والے خلفا اور دوسرے صحابۂ نامدار کی یہ منزلت نہ ہو۔ یہ مسئلہ عثمان کے فضائل کے بارے میں مختلف قسم کے سوالات اور شک وشبہہ ایجاد کرسکتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ (معاویہ) مجبور ہوگیا کہ عثمان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی شان و شوکت اور مقام و منزلت بلند کریں اور ایسا ہی کیا۔

اس ضرورت کے علاوہ اس عمل کے دوسرے نتائج بھی تھے۔ ان میںسے اہم ترین نتیجہ یہ تھا کہ ایک ایک صحابہ کی قدر و منزلت کو آشکار کرنے کے ذریعہ بلند ترین قدر ومنزلت رکھنے والے صحابی کی معروف ترین شخصیت اور حیثیت کو دبانے اور کم کرنے میں مدد کررہے تھے۔(۸۳) یہ کہ جو معاویہ نے کہا:'' ابوتراب کی کسی بھی فضیلت کو جو کسی مسلمان نے نقل کی ہو اسے ہرگز نہ چھوڑنا مگر یہ کہ اس کے خلاف صحابہ کی شان میں حدیث میرے پاس لاؤ۔'' درحقیقت اس کا مقصد حضرت علیـ کی حیثیت اور شخصیت کو کم کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے صراحت کے ساتھ کہا:'' اس بات کو میں دوست رکھتا ہوں اور وہ میری آنکھوں کو روشن کرتا ہے جو ابوتراب اور ان کے چاہنے والوں (شیعوں)اور ان کی دلیلوں کو بہتر طورپر باطل کرتا ہے۔'' البتہ ان دلیلوں کے تحت جن کا ہم بعد میں تذکرہ کریں گے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا۔

بہرحال نتیجہ یہ ہوا کہ دوسروں کی سطح بھی اوپر آگئی اس حد تک کہ بسا اوقات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سطح کے نزدیک قرار پاگئی اور صدر اول کی تاریخ ایک شان او ر قدر منزلت اور تقدس کی حامل ہوگئی اور اس کی قدر و منزلت خود اسلام کے ہم پلہ ہوگئی اور اس طرح اسلام کی ہمزاد ہوگئی کہ بغیر اس کی طرف توجہ دیئے اسلام کا سمجھنا ممکن نہ تھا۔

دین فہمی میں بدلاؤ

اس طرح سے دین فہمی میں سیاسی رقابتیں ایک بہت بڑی تبدیلی کا سرچشمہ بن گئیں۔ یعنی صدر اسلام کی روشنی میں دین کا سمجھنا، یعنی خلفائے راشدین، صحابہ اور تابعین خصوصاً خلفا ئے راشدین اور صحابہ کے دور میں دین کا سمجھنا۔ اگرچہ دوسرے بہت سے اسباب اور عوامل بھی مؤثر تھے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے اہم ترین اور مؤثر ترین اسباب علی ابن ابی طالب کی شخصیت کو داغدار کرنے کے لئے معاویہ کے اقدامات تھے۔ حضرت علیـ کی مذمت میں اس کی جعلیات اور من گڑھت روایات باقی نہ رہ پائیں اور نہ ہی باقی رہ سکتی تھیں اگرچہ حضرت پر وہ جھوٹی تہمتیں بالکل بے اثر بھی نہیں تھیں۔ خاص طورپر ابتدائی صدیوں میں،( لیکن اس کی جعلیات اور من گڑھت فضیلتیں) دوسروں کو امام کے برابر کرنے کے لئے باقی رہ گئیں اور مورد اعتقاد اور اتفاق قرار پائیں۔ جیساکہ ہم نے اس سے قبل بھی اشارہ کیا کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دین اسلام کو سمجھنے میں یہ ایک بنیادی فرق تھا اور واقعاً ایسا ہی ہے۔ اہل سنت نے شیعوں کے بالکل برعکس معاویہ کے اقدامات کو چاہے جان بوجھ کر یاانجانے میں صحیح سمجھ بیٹھے اور آخرکار اُسے قبول کرلیا۔ لہٰذا اسلام کو صدر اسلام کی تاریخ کی عینک سے دیکھنے لگے اور شیعہ صدر اسلام کی تاریخ کو اسلامی اصول و معیار پر پرکھتے ہیں۔(۸۵)

اگرچہ بعد میں تجزیہ و تحقیق اور تاریخی تنقید کے ترقی پر پہونچنے کی وجہ سے جس کا زیادہ تر حصہ معتزلہ کے اقدامات کا مرہون منت تھا صدر اسلام کی غیر متنازعہ ہیبت ایک طرح سے ٹوٹ گئی، لیکن یہ امر وقتی اور جلد ی ہی گذر جانے والا تھا اور اس میں دوام و بقا نہیں تھی۔ اس کی چند وجوہات ہیں سب سے اہم یہ ہے کہ انھوں نے ایسے زمانہ میں میدان میں قدم رکھا تھا کہ عام لوگوں کے دین و عقائد و افکار مستحکم ہوچکے تھے۔ وہ ایسے عقاید کی اصلاح کرنا چاہتے تھے جو لوگوں کی رگ وپے میں سرایت کرچکے تھے اور ان کی شخصیت نے بھی اسی بنیاد پر قوام حاصل کیا تھا اور ان کا ناکام ہونا بھی ایک فطری امر تھا۔ اور احتمال قوی کی بناپر جس زمانے میں وہ میدان میں آئے تھے اگر اس زمانہ سے پہلے وہ میدان میں آگئے ہوتے تو وہ زیادہ کامیاب ہوتے۔(۸۶)

جیساکہ ہم نے کہا کہ اہل سنت کے دینی عقائد کا مرکزی نقطہ، اس زمانہ اور اس کے بعد کے زمانے میں بھی صدر اول کے تقدس کی فکر حاکم تھی۔(۸۷) اگر ان کی اس فکر کا شیرازہ بکھرجاتا تو ان کا اعتقادی ڈھانچہ درہم برہم ہوجاتا، اس بناپر نہ تو معتزلہ اور نہ ہی کوئی دوسرا گروہ اس سے مقابلہ کے لئے نہیں اُٹھ سکتا تھا۔ بات یہ نہیں تھی کہ کونسی نظر صحیح ہے اور کونسی غلط ہے؟ عام لوگوں اور بعض فقہا اور محدثین کا قابل اعتنا گروہ جو عوامی ذہنیت کے حامل تھے، اس طرح سے صورت اختیار کرلی تھی جو ایسے زاویۂ نگاہ کی محتاج تھی اور اس کے علاوہ نہ صرف یہ کہ ان کا ایمان خطرہ میں تھا بلکہ داخلی اعتبار سے ان کی شخصیت بھی درہم برہم ہوجاتی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے مقابلہ میں دوسرے عقائد نہیں تھے تاکہ اس فکر کا قائم مقام ہوجائے۔ معتزلہ کے نظریات کے قبول کرنے کے یہ معنی تھے کہ اہل سنت کے اعتقادات کی عمارت بالکل سے مسمار ہوجائے اور معتزلہ بھی اس قدر مورد و ثوق اور اعتماد نہ تھے اور نہ ہی ان کے بیانات اس قدر صریح قابل فہم تھے کہ وہ لوگ اس کو آنکھیں بند کرکے قبول کر لیں۔ خاص طورپر یہ کہ معتزلہ کا کوئی ثابت اور مدون مکتب فکر بھی نہیں تھا اور ان میں ہر ایک آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نظریات کے حامل تھے۔(۸۸)

اور آخر کا ایک دوسری اہم بات کا بھی اضافہ کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہر مومن اور صاحب عقیدہ انسان، چاہے مسلمان ہو یا مسلمان نہ ہو عقیدہ کی روسے وہ اپنے عقائد کی طرف دفاعی میلان رکھتا ہے۔ یہ اس کی دین داری کا لازمہ اور اس کا نتیجہ ہے۔ وہ دین کو قبول کیا اور اس کی تمام مشکلات اور رکاوٹوں کو تحمل کیا ہے تاکہ آخرت کی کامیابی کو حاصل کرلے۔ درحقیقت نجات اور فلاح ہی مطلوب ہے اور چونکہ ایسا ہے لہٰذا وہ ایمان و عقل کے انتخاب میں، ایمان کو اختیار کرے گا۔ پھر بھی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ دو نوں باہم ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں یا ایک دوسرے کے مقابل نہیں ہیں، یہاں پر مسئلہ ایک مومن انسان کے ذہن کی خصوصیات کو کشف کرنا، اس کی افکار، اس کی کیفیت اور اس کے موقف کو معلوم کرنا ہے۔ وہ ان دونوں عقیدوں کے انتخاب کے وقت ایک کو مختلف اسباب کے تحت شرعی میزان کے مطابق جانتا ہے اور دوسرے کو عقل کے معیار کے مطابق جانتا ہے۔ آخرکار وہ پہلے والے کا انتخاب کرلیتا ہے۔ ایسے موارد اور مواقع پر کبھی بھی احتیاط شرعی ،عقلی غور و خوض کے مد مقابل مغلوب نہیں ہوگی۔(۸۹)

معتزلہ بالکل انھیں مشکلات سے روبرو تھے (اور یہ وہ مشکل ہے جس سے آج بھی بہت سے اصلاح طلب لوگ روبرو ہیں اور اس کا اہم ترین سبب دینی اصلاح طلب تحریکوں کی ترقی کے لئے اس کی حفاظت کا رجحان اور اس کی لگاؤ ہے) اگرچہ عقلی اور منطقی طورپر ان کے عقائد ان کے مخالفین پر برتری رکھتے تھے اور ظاہری او ر شرعی اصولوں اور موازین سے ان کے نظریات بہت مطابقت رکھتے تھے، لیکن ان سے بدگمانی، ان کے بعض لوگوں کی بے پروائی اور لاابالی پن کی بناپر وجود میں آئی تھی، جو چیزیں پرانے زمانہ سے چلی آرہی میراث اور ان کے نظریات کے خلاف تھیں اورجن چیزوں کو عوام الناس نے ان لوگوں سے لیا تھا جن کو وہ لوگ اپنا سلف صالح سمجھتے تھے آخرکار ان کو ان کے مدار اور گردش سے باہر نکال کر ان کے مخالفین کو قوت بخشی۔ یہاں پر مناسب یہ ہے کہ ان کے کچھ نظریات جو صحابہ کے بارے میں ہیں ابن ابی الحدید کی زبانی نقل کریں:

''معتزلہ لوگ صحابۂ کرام اور تابعین کو دوسرے تمام لوگوں کی طرح دیکھتے تھے۔ وہ لوگ جو کبھی خطا کرتے اور کبھی صراط مستقیم پر چلتے اور ایسے اعمال میں لگ گئے کہ ان میں سے کچھ قابل تعریف اور کچھ قابل مذمت قرار پاتے ہیں۔ وہ لوگ اس طرح موقف اختیار کرنے سے یکسر خوف ناک نہیں تھے۔ لیکن دوسرے لوگ (مخالفین) ایسے نہیں تھے اس لئے کہ انہوں نے صحابہ اور تابعین میں سے بزرگوں کو ایسی شخصیت دے دی تھی کہ ان پر تنقید کرنا ممکن تھا۔''

''معتزلہ کہتے تھے: ہم دیکھتے ہیں کہ بعض صحابہ آپس میں ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں اور ہیں تک کہ بعض صحابہ بعض دوسرے صحابہ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اگر صحابہ کی منزلت ایسی ہوتی کہ ان پر تنقید کرنا اور لعنت بھیجنا صحیح نہ تھا تو اس کا لازمہ یہ تھا کہ ان کے رفتار و کردار سے معلوم ہوجاتا کہ وہ ایک دوسرے کو ہمارے زمانہ کے لوگوں سے اچھا سمجھتے تھے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں طلحہ و زبیر وعائشہ اور ان کا اتباع کرنے والوں نے علی ـ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا یہاں تک کہ ان سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے معاویہ وعمرو ابن عاص بھی حضرت علیـ سے جنگ اور مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ عمر نے ابوہریرہ کی نقل کی ہوئی روایت پر طعنہ دیا اور خالد بن ولید کو برا بھلا کہا اور اس کو فاسق گردانا، عمرو ابن عاص اور معاویہ پر بیت المال میں خیانت اور چوری کا الزام لگایا۔ قا عد تاً صحابہ میں سے بہت کم ایسے لوگ تھے جو ان کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہ گئے ہوں اس طرح کے بہت سے نمونوں کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح تابعین بھی صحابہ ہی کی طرح ایک دوسرے سے آپس میں مخالف رویہ اختیار کئے ہوئے تھے اور وہ اپنے مخالفین کے مقابلہ میں اسی طرح کی باتیں کرتے تھے۔ لیکن بعد میں عوام الناس نے ان کو ایک بلند مقام و منزلت پر لاکر کھڑا کردیا۔ کے ہم سے لوگ کرتے ان میں سے اچھے ہیں ان کی تعریف کر تے ہیں۔ صحابہ لوگ بھی عوام الناس کی طرح ہیں ان میں کے خطا کار لائق مذمت ہیں اور اچھے لوگ قابل تعریف ہیں دوسروں کے مقابلہ میں ان کی برتری اور ان کا امتیاز صرف رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو (درک کرنے) دیکھنے کی بناپر ہے نہ یہ کہ کسی اور چیز کی بناپر، یہاں تک کہ شاید ان لوگوں کے گناہ دوسروں کے گناہوں سے زیادہ سنگین ہوں کیونکہ انھوں نے دین کے معجزات اور سچی نشانیوں کو نزدیک سے دیکھا ہے، لہٰذا ہمارے گناہ ان کے گناہ کے مقابلہ میں زیادہ ہلکے ہیں اس لئے کہ ہم ان کے مقابلہ میں زیادہ معذور ہیں۔(۹۰)

احمد امین مذکورہ بالا مطلب کے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں معتزلہ صحابہ اور تابعین کی رفتار و گفتار پر پوری آزادی کے ساتھ تنقید کرتے تھے اور ان میں پائے جانے والے باہمی تضاد کو بھی آشکار کرتے تھے یہاں تک کہ شیخین کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکے اور اس وقت ابوبکر و عمر پر جو انھوں نے تنقیدیں کی ہیں ان کے چند نمونوں کو بیان کیا ہے۔(۹۱)

صحابہ اور تابعین کے متعلق ان کا ایسے نظریہ کا انتخاب غالباً بلکہ بطور کامل ا عقلی رجحانات کا نتیجہ ہے وہ کسی بھی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرنے پر تیار نہیں تھے یا کسی اصل اور قاعدہ کو عقل پر مقدم کریں۔ ٹھیک یہی سبب تھا کہ انکے اور انکے مخالفین کے بارے میں اس طرح کہتے تھے: ا شعری'' نرد''( ایک قسم کا کھیل) ہے اور معتزلی شطرنج چونکہ نرد کا کھیلنے والا قضا و قدر پر بھروسہ کرتا ہے اور شطرنج کا کھیلنے والااپنی ذاتی کوشش اور فکر پر اعتماد کرتا ہے۔(۹۲)

دوسرے تنقید کرنے والے

معتزلہ کے علاوہ دوسرے لوگ بھی جو فکری آزادی کی طرف مائل تھے انھوں نے صدر اسلام اور صحابہ و تابعین کے زمانہ کو تنقیدی زاویہ سے دیکھا ہے۔ ان (تنقید کرنے والے لوگوں) میں سے ایک ابن خلدون ہیں۔ وہ جب علم فقہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس طرح کہتے ہیں:''. اس سے قطع نظر صحابہ اہل نظر اور اہل فتویٰ نہیں تھے اور ان تمام لوگوں کے لئے دینی فرائض کا جاننا ممکن بھی نہیں تھا۔ بلکہ یہ امر صرف حافظان قرآن اور ان لوگوں سے مختص تھا جو لوگ ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ اور قرآن کی دوسری ہدایات سے واقف تھے۔ چاہے انہوں نے یہ معلومات براہ راست خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کی ہوں اور یا پھر ایسے بزرگوں سے حاصل کی ہوں جنہوں نے خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی تعلیمات کو سنا تھا،اور اسی سبب ایسے لوگوں کو قرّا کہا جاتا تھا۔ یعنی وہ لوگ جو قرآن کو پڑھتے تھے۔ کیونکہ عرب عموماً امی قوم تھیاور اسی بناپر جو لوگ قاریان قرآن تھے اسی نام سے مشہور ہوگئے۔ کیونکہ یہ امر اس زمانہ میں ان کی نظر میں حیرت انگیز سمجھا جاتا تھا۔ صدر اسلام کی یہی صورتحال تھی پس کچھ دنوں بعد اسلامی شہروں میں وسعت پیدا ہوگئی اور عروج اور ترقی حاصل کرلیا اور جہالت نے قرآن اور کتاب کے باربار دہرانے کے نتیجہ میں عربوں سے اپنا بوریا بسترا لپیٹ لیا اور خود ان عربوں میں اجتہاد اور استنباط کی قوت پیدا ہوگئی اور فقہ منزل کمال پر پہونچ گئی اور یہی عرب صاحبان علوم و فنون کے زمرے میں شمار ہونے لگے۔ اور اس وقت حافظان قرآن کے نام میں تبدیلی ہوئی اور ان کو قاری کی جگہ فقیہ یا عالم کے نام سے پکارا جانے لگا...''(۹۳)

ابن حزم بھی اسی گروہ کی ایک فرد ہیں۔ البتہ انھوں نے ایک دوسری جگہ سے معتزلہ اور ابن خلدون سے ملتا جلتا موقف اختیار کرلیا۔ وہ مکتب ظاہری کے علما اور فقہا میں سے ایک ہیں جوکہ شرع اور شریعت کے مصادر اور مآخذ کو نصوص قرآن و سنت اور اجماع میں منحصر جانتے تھے اور قیاس کو قابل قبول نہیں جانتے تھے وہ صحابہ کے قول و فعل کے قطعی طور پر صحیح ہونے کے نظریہ کو جس پر اہل سنت کا اتفاق ہے قابل قبول نہیں جانتے ہیں اسی بناپر ایسے نقطۂ نظر کے حامل ہوگئے ہیں۔

محمد ابوزہرہ اس سلسلہ میںکہتا ہے: ''ابن حزم کا عقیدہ یہ تھا کہ چاہے صحابہ ہوں یا غیر صحابہ، زندہ ہوں یا مردہ، کسی کی بھی تقلید جائز نہیں ہے اور وہ اس بات کے معتقد تھے کہ قول صحابی کو جب تک اس کی نسبت پیغمبر کی طرف معلوم نہ ہو اخذ کرنا ایسی تقلید ہے جو دین خدا میں جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس (حکم خدا) کو صرف کتاب و سنت اور ایسے اجماع سے لینا چاہئے جو ان دونوں کی حکایت کرتا ہو یا کسی ایسی دلیل سے جو ان تینوں سے مشتق ہو۔ لہٰذا صرف صحابی کے قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس کے ذریعہ دلیل قائم نہیں کی جاسکتی، اس لئے کہ وہ بھی ایک عام انسان کی طرح ہے۔ اسی نظریہ کی طرح شافعی کا بھی قول نقل کیا گیا ہے۔ وہ اس بارے میں کہا کرتے تھے: میں اس شخص کے قول کو کیسے اختیار کروں کہ اگر میں اس کا ہم عصر ہوتا تو اس کے خلاف دلیلیں قائم کرتا۔لیکن صحیح یہ ہے کہ شافعی اقوال صحابہ کو اگر وہ لوگ سب کے سب کسی مسئلہ پرمتحد ہوتے تھے اختیار کرتے تھے اور اگر کسی مسئلہ پر ان میں اختلاف ہو تا تھا تو ان اقوال میں سے کسی ایک کے قول کو اختیار کرلیتے تھے... بلا شک و شبہہ فقط صحابی کا قول ہونا اتباع کے واسطے کافی نہیں ہے، اس لئے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کے سامنے کسی کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جس طرح کہ مالک ابن انس نے کہا: ہر انسان کی کچھ باتیں قبول کرلی جاتی ہیں اور بعض رد کردی جاتی ہیں مگر اس روضہ کے صاحب (یعنی اس کتاب کے مؤلف) کے اقوال بالعموم اوربلا استثناء قبول کئے جاتے ہیں۔(۹۴)

فکری اوراعتقادی نتائج

لیکن حائز اہمیت مسئلہ فقط یہی نہیں تھا کہ اسلام کو تنہا صدر اسلام کی تاریخ کی روشنی میں دیکھ کر اس کی صحیح پہچان کی جائے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل بات یہ تھی کہ خود یہ زمانہ اپنے اندر بہت سے تناقضات کو سموئے ہوئے تھا۔ یہ زمانہ باہمی رقابت، کشمکش اور اختلافات سے بھرا ہوا تھا، یہاں تک کہ اس زمانہ کے بزرگ لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے اور ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ کو رنگین کر رہے تھے۔ اگر یہ زمانہ بہترین اور مقدس ترین زمانہ تھا اور بجز حقیقی اسلام کے تحقق کے اور کچھ نہ تھا اور اس زمانہ کے مسلمان بہترین اور شریف ترین مسلمان تھے تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوکر تلوار کھینچ لیں؟ آپس میں دو حق کس طرح ٹکرا سکتے ہیں؟ ایسے مسائل کا اہل سنت کے کلامی و فقہی و نیز دینی ثقافت کی تشکیل میں بہت زیادہ ہاتھ رہا ہے، اس اصل کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کی تفہیم و تفسیر صدر اول کی تاریخ کے ماورا ہو۔(۹۵)

اس مشکل کو حل کرنے کے واسطے مجبور ہوئے کہ وہ مختلف راستوں کو اختیار کریں۔ وہ اس بات پر مجبور ہوئے کہ کہیں دونوں برحق ہیں، اختلافات اور نزاع کے باوجود دونوں نے اپنے اپنے فریضہ اور اجتہاد کے مطابق عمل کیا ہے لہٰذا و ہ لوگ ماجور اور بہشتی ہیں۔ البتہ ممکن ہے انسان ایک، دو یا چند مواقع پر اس فرضیہ کے تحت اس کو مان لیاور یہ کہے کہ مصداق میں اشتباہ اور غلطی پیش آگئی ہے۔ لیکن موضوع بحث یہ ہے کہ صدر اسلام کی تاریخ ایسے حوادث، واقعات اور ایسے برتاؤ سے بھری پڑی ہے اور ایک اعتبار سے رقابتوں اور ٹکراؤ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ وہ بھی ان لوگوں کے درمیان جن کے بارے میں مصداق میں شک و شبہہ پیدا ہونا ممکن نہیں ہے اور یہ ایک ایسی مشکل ہے کہ نہ فقط اہل سنت کی اس زمانہ کی تاریخ کو وجود میں آنے میں زیادہ مؤثر ہوئی ہے، (یعنی ان پر یہ تاریخ زیادہ اثر انداز ہوئی ہے) بلکہ وہ تمام چیزیں جو کسی نہ کسی طرح اسلام سے متعلق ہیں ،وہ اس سے سخت متأثر ہوئی ہیں۔(۹۶)

اس زاویۂ نظر سے اس زمانے کی تاریخ اور اس کی پیروی میں تمام تاریخ اسلام نہ بالکل سیاہ اور تاریک ہے اور نہ ہی بالکل بے داغ (سفید) بلکہ ملی جلی( خاکستری )ہے۔ گویاحق و باطل کی شناخت کا کوئی مشخص ضابطہ اور معیار نہیں پایا جاتا ہے۔ یا تمام کے تمام مطلق حق ہیں اوریا نسبی اعتبار سے کم وپیش حقانیت کے حامل اور حق و باطل کے درمیان غوطہ زن ہیں آپس میں بغیر کسی طرح کی ترجیح ر کھتے ہوئے۔ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ افراد کے درمیان امتیاز دینے کی ہر طرح کی کوشش اور ان کے اعمال و رفتار اور واقعات و حوادث کے بارے میں بھی یک سرتنقید ممنوع قرار پاگئی۔ بنا اس پر تھی کہ سبھی لوگ اچھے ہیں اور ان میں جو اختلاف پایاجاتا ہے وہ صرف ان کے ا جتھاد کی وجہ سے ہے نہ کہ ایمان تمام ذاتی خصوصیات اور صفاتجو ان کے ایمان کی وجہ سے ان میں پیدا ہوئی ہیں اور چونکہ ایسا ہے تو ہم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ان کے اعمال کے بارے میں تحقیق کرکے چوں چرا کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں اور ان کے اعمال کو ان کی حقانیت کی پرکھ کا معیار قرار دیں۔ اس طرح سے ذہنیت اور فکری اور نفسانی اعتبار سے متضاد مسائل کے سمجھنے کے بارے میں ان لوگوں کے حق و با طل ہونے کے اعتبار سے چھان بین کرنے کے حالات ختم ہوگئے۔ سیاسی مباحث کے فقہی اور کلامی معیار اور ان کی بنیادکو، چاہے وہ امامت اور خلافت کے بارے میں ہواور چاہے (دوسرے دینی مسائل) سیاسی مسائل کے بارے میں ہو، بہت ہی شدت سے متأثر کردیا۔(۹۷)

اہل سنت کا فقہی اور کلامی ڈھا نچہ اور اس کے اتباع میں ان کی دینی اور نفسیاتی بناوٹ اس فکر پر بھروسہ کئے ہوئے ہے کہ دو مسلمانوں کے درمیان رقابت میں ایک مطلق حق اور دوسرے کو باطل محض، قرار نہیں دیا جاسکتااور یہ پہلے درجہ میں اس دور کو جو آشفتہ اور پُر کشمکش رہا ہے اور اس کے افراد اور شخصیتوں کو مقدس مان لینے کی وجہ سے متأثر ہے۔ یہ نفسیاتی ڈھانچہ فی الحال اہل سنت کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے۔، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نئی اور ایسی مشکل ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے اس لئے کہ گذشتہ دور میں یا اصولی طورپر ایسی مشکل سے روبرو نہیں ہوئے تھے یا کم از کم یہ مشکل آج کل کی طرح شدید اور سخت پریشان کن نہ تھی۔ دور حاضر کی زندگی، نیا معاشرہ اور نئی تاریخ نے ایسی سخت اور شدید مشکل کھڑی کردی ہے۔(۹۸)

زمانۂ ماضی میں جوانوں کی انقلابی ضروریات کی فی الفور جوابدہی ضروری، بلکہ اتنی زیادہ سخت اور قطعی اور سنجیدہ نہیں تھی۔ یا بالکل سے اس طرح کی ضرورت ہی نہیں تھی ، یا اگر موجود بھی تھی تو آج کل کی طرح مختلف گوشوں میں پھیلی اور قدرت کی حامل نہیں تھی۔ آج یہ ضرورت پوری تیسری دنیا اور اسلامی ممالک میں موجود ہے اور اسلام اس سے بے اعتنابھی نہیں رہ سکتا۔ خصوصاً یہ کہ عمومی طورپر مسلمان جوان لوگ کم سے کم ان آخری ایک د ودہائیوں میں اس بات کے جواب کو اسلام سے چاہتے ہیں۔ وہ اپنی نئی ضرورتوں کے اسلامی جواب کی تلاش میں ہیں۔ چونکہ پہلے تو وہ اس جواب کو اپنی ضرورت کے ساتھ بہت ہی ہماہنگ اور مناسب پاتے ہیں اور دوسری دینی ضرورت جو ان کو ہر غیر اسلامی چیز سے روک دیتا ہے۔

آج کے وہ سنی جوان جو انقلاب سے لگاؤ اور مسلحانہ رحجان رکھتے ہیں دوسروں سے زیادہ اس مشکل سے جوجھ رہے ہیں۔ وہ اپنی معاشرتی اور ثقافتی اور سیاسی سرنوشت کے اعتبار سے ایک عظیم تبدیلی (انقلاب) کے خواہاں ہیں۔ ان کے ایسے ارمان اور دبی تمنائیں ان کو انقلابی اقدامات کے لئے آگے بڑھا تے ہیں۔ لیکن وہ لوگ عین اسی عالم میں ایک اسلامی راہ حل کی تلاش میں ہیں۔ ایک ایسا راہ حل جو اسلامی بھی ہو اور انقلابی بھی۔ بہت بڑی مشکل اس سوال کے جواب کا حاصل کرنا ہے، اس لئے کہ اس سوال کا جواب حاصل نہیں ہوگا مگر یہ کہ کلی طورپر فقہی، کلامی دینی اور تاریخی فہم میں بنیادی طور سے تجدید نظر کی جائے اور عام لوگ کے نفسیات کی شناخت اس عظیم تحول اور انقلاب کے ساتھ ہماہنگ ہوکر پورے طورپر بدل جائیں۔(۹۹)

قطعی طورپر یہی سبب ہے کہ بہت سے اسلامی دانشوروں، انقلابی سنی لوگوں نے، اپنے ضروری اور سخت ضرورتوں کا جواب پانے کے لئے اپنی تاریخی افکار میں ایک قسم کی تجدید نظر کی ہے۔ یہ اس کے سبب تھا کہ انہوں نے اپنی تجزیہ و تحلیل اور ارزیابی کے واسطے بہت صریح و قاطع اور کشادہ راہ پالی ہے کہ باطل کو باطل دیکھیں اگرچہ باطل نے اسلام کی نقاب اپنے چہرہ پر ڈال رکھی ہو، حق کو حق کہنا چاہئے اگرچہ دوسرے لوگوں یا تاریخ نے اس کے ظاہری چہرہ کو مشتبہ کردیا ہو بغیر کسی خوف و ہراس کے باطل سے ڈٹ کر مقابلہ کریں اور حق کی مدد کے لئے ہمہ تن اٹھ کھڑے ہوں۔ اس قاعدہ اور ضابطہ کی قبولیت کہ اسلام کی نقاب صریح فیصلہ اور پختہ تصمیم کے لئے مانع ہو یہ ہر اس اقدام کے غلط ہونے کے مساوی ہے جو کسی ایسے حاکم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو جو ظواہر اسلام سے تمسک کرکے ہر طرح کے جرم و جنایت اور خیانت کو انجام دینے میں کامیاب ہوجائے ۔تاکہ یہ اصل جو صدر اول کی تاریخ کو غیر قابل تنقید ہونے اور قانونی (شرعی) ماننے کا نتیجہ ہے، یہ ممار نہ ہو جائے جب تک یہ مسلم قضیہ ختم نہ ہوگا (یعنی صدر اول کی تاریخ پر نقد و تبصرہ غیر قانونی اور غیر شرعی جانا جاتا رہے گا) یہ مشکل ویسے ہی استوار و برقرار رہے گی، یہ ٹھیک اسی سبب کی بناپر ہے کہ اہل سنت کی فقہی و کلامی کتابوں کے مختلف موضوعات جیسے: بیعت، اجماع، اجتہاد، تخطئہ و تصویب، اجماع حل و عقد، مقام خلافت اور خلفا کی حیثیت منزلت، اولی الامر اور اس کی اطاعت کا ضروری ہونا اور ایسے ہی دوسرے موضوعات کی اس طرح سے دوسرے مختلف انداز میں تعریف اور اس کی چوحدی بیان کی ہے۔(۱۰۰)

وہ انقلابی اور مفکرین لوگ جنھوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس اصل کو محفوظ رکھتے ہوئے مقابلہ کے لائحہ کی تدوین کریں ان لوگوں کو عملی طورپر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ لوگ چاہتے تھے کہ اپنی ذاتی فداکاری ، استقامت اور اپنے ایمان پر تکیہ کرتے ہوئے جو ان کے نظریاتی اعتقادات میں کمزوری اور کمی واقع ہوئی ہے اس کی بھرپائی کریں۔ اور کم از کم یہ ہمارے زمانہ میں میسر نہیں ہے۔ اگر معاشرتی اور سیاسی مقاصد تک پہنچنے کے لئے انقلابی لوگوں کے لئے ضروری شرط ان کی پائے مردی اور استقامت پر موقوف ہے، بیشک اعتقادی نظریہ اور اس کی حساسیت کے لئے یہ شرط کافی ہے جو اس کے مقاصد اور اس زمانہ کی روح سے سازگار ہو عین اس عالم میں کہ قدرت میں استمرار و بقا، پائے مردی و استقامت اور اس کی جواب دہی پر قادر ہو۔(۱۰۱)

البتہ وہ مسئلہ جس کے متعلق اوپر اشارہ کیا گیا ہے صرف اسی میں محدود نہیں ہو گا۔ صدر اسلام کے حوادث پر نقد و تبصرہ کو غیر قابل قبول ہونے کو قانونی حیثیت دینا فکری، علمی اور دینی اعتبار سے مطلوب اور ضروری تبدیلی لانے سے مانع ہے کہ دور حاضر میں مسلمان لوگ جس کے نیازمند ہیں۔ فقط اس ضرورت کا ایک حصہ انقلابی پہلو اور مبارزہ جوئی کا پہلو ہے جیساکہ ہم نے بیان کیا حتیٰ اس ضرورت کا جواب دینے اور اس کو صحیح راستہ پر لگانے کے لئے ان کے عقائدمیں بھی تبدیلی پیدا کرنا لازم اور ضروری ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ جن مختلف موضوعات کی تنقیدا نہ جانچ پڑتال ہونی چاہئے انھیں میں سے دین اور اس کی تاریخ بھی ہے جو اس جدید زمانہ کی اہم ترین ضروریات میں سے ہے، اس کے بارے میں کوئی مناسب راہ حل نکالنا چاہئے۔ عصر نو کی تنقیدوں کے مقابل میں لوگوں کے ایمان کا کچھ خاص یقینیات کی بنا پر اصرار نہیں کیا جا سکتا جو نہ تو دین کے بنیادی اصول میں سے ہیں بلکہ زمانہ کے ایک خاص حصہ کے مسلمانوں کے اجماع کا نتیجہ ہے اس کا دفاع کیا جا ئے ۔

ہر دین میں کچھ ایسے مقدسات اور یقینیات پائے جاتے ہیں جو قابل تنقید و تبصرہ بھی نہیں ہیںاور ان میں کوئی اندیشہ اور خدشہ بھی نہیں ہے۔ یہ دین کی حقیقت کی طرف پلٹتی ہے اور زمانہ کے تحولات اور تبدیلیوں کو اس میں بالکل دخالت نہیں رہا اور نہیں ہے۔ لیکن یہ مسئلہ عقیدہ کے اس جز سے متعلق ہے جس کی بنیاد اصل دین میں نہیں ہے بلکہ مومنین کے اجماع میں پا ئی جاتی ہے، یہ صحیح نہیں ہے اور اس سے علمی اور تاریخی تنقیدوں اور تبصروں کا ہمیشہ کے لئے دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ کسی چیز کے بارے میں اس تنقیدی رجحان کے مقابلہ میں اُٹھ کھڑے ہونا دین سے فرار یا دین کے پاسداروں پر ہی معصیت اور اعتقادی ہرج و مرج کے علاوہ کچھ اور عاید ہونے والا نہیں ہے(۱۰۲)

اس سے قطع نظرچونکہ دین کی اصل اس پر تھی کہ اس مدت میں جو بھی اتفاقات پیش آئے ہیں وہ حقیقی اسلام کے وجود میں آنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ لہٰذا مجبوراً ہر اس میدان جس میں اسلام کے مصادیق اور نظریات کو معلوم کرنا جس کے اس زمانہ میںکوئی نمونہ پایا جاتا ہو اس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں کبھی ایک ہی مسئلہ کے مختلف جواب دیئے گئے ہیںبغیر اس کے حالاتم میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ اب ایسی صورت میں کون سے جواب کو اختیار کیا جائے؟

مثلاً انتخاب خلیفہ کی کیفیت کے باب میں مختلف نمونے موجود تھے۔ ابوبکر نے عمر کو وصیت کی لیکن عمر نے چھ آدمیوں کو وصیت کی اور انتخاب خلیفہ کے کیفیت کی تعیین کیفیت کو ان لوگوں میں سے ہی معین کردیا۔ اس کے باوجود کہ شروع میں خود ابوبکر کی خلافت کو چند لوگوں نے جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا ان کے ذریعہ اس کی بیعت منعقد ہو گئی ۔یہ نمونہ اس کے علاوہ دوسرے بہت سے نمو نے، خصوصاً فقہی اور کلامی مسائل میں کہ کبھی ایک ہی مسئلہ کے بارے میں مختلف جوابات اور کبھی ایک دوسرے کے متضاد جواب دیئے گئے تھے، بعد میں اہل سنت کے متکلمین و فقہا کو صحیح معیار کو معین کرنے کے لئے متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو تمام کے تمام صدر اسلام کی تاریخ کو قانونی حیثیت دینے کی بناپر تھا۔(۱۰۳)