احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211829 / ڈاؤنلوڈ: 4587
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

سبق نمبر ١٥

نماز گزار کی جگہ،اذان و اقامت

نماز گزار کی جگہ کے شرائط:

جس جگہ پر نماز گزار نماز پڑھتا ہے،اس کے درج ذیل شرائط ہونے چاہئے:

*مباح ہو(غصبی نہ ہو)

*بے حرکت ہو(گاڑی کی طرح حرکت کی حالت میں نہ ہو)

*تنگ اور اس کی چھت اتنی نیچی نہ ہو کہ نماز گزار آسانی کے ساتھ قیام،رکوع اور سجود کو صحیح طور پر نہ بجا لا سکے۔

*(سجدہ کی حالت میں)پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو۔

*نماز گزار کی جگہ اگر نجس ہو تو اس قدر تر نہ ہو کہ نجاست بدن یا لباس میں سرایت کر جائے۔

*(سجدہ کی حالت میں)پیشانی رکھنے کی جگہ زانو سے اور احتیاط واجب کی بناء پر پائوں کی انگلیوں سے،ملی ہوئی چار انگلیوں سے پست تر یا بلند تر نہ ہو۔(١) *

____________________

(١)توضیح المسائل مکان نماز گزار.

* تمام مراجع کے رسالوں میں چند اور شرائط کا بھی ذکر ہوا ہے۔

۱۰۱

نماز گزار کی جگہ کے احکام:

١۔غصبی جگہ پر (مثلاً ایک ایسے گھر میں،جس میں مالک مکان کی اجازت کے بغیر داخل ہوا ہے) نماز پڑھنا باطل ہے۔(١)

٢۔مجبوری کی حالت میں متحرک چیز جیسے ہوا ئی جہاز اور ریل گاڑی میں،یااس جگہ پر جس کی چھت پست ہو یا خود جگہ تنگ ہو،جیسے خندق اور ناہموارجگہ پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(٢)

٣۔انسان کو ادب واحترام کی رعایت کرتے ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امام کی قبر کے آگے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔(٣) *

٤۔مستحب ہے انسان نماز کو مسجد میں پڑھے اور اسلام میں اس مسئلہ کی بہت تاکید ہوئی ہے۔(٤)

٥۔آئندہ ذکر ہونے والے مسائل کے پیش نظر،مسجد میں جانے اور وہاں پر نماز پڑھنے کی اہمیت کو حسب ذیل بیان کرتے ہیں:

*مسجد میں زیادہ جانا مستحب ہے۔

*جس مسجد میں نماز گزار نہ ہوں،وہاں پر جانا مستحب ہے۔

*مسجد کا ہمسایہ اگر معذور نہ ہوتو اس کے لئے مسجد سے باہر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

*مستحب ہے انسان مسجد میں نہ جانے والے شخص کے ساتھ:

کھانا نہ کھائے،اس سے صلاح و مشورہ نہ کرے،اس کا ہمسایہ نہ بنے،اس سے بیٹی نہ لے اور

____________________

(١)توضیح المسائلم٨٦٦.

(٢)توضیح المسائلم٨٨٠.

(٣)توضیح المسائلم٨٨٤.

(٤)توضیح المسائلم٨٩٣.

*(گلپائیگانی )احتیاط واجب کی بناء پر پیغمبراور امام کی قبر کے برابر یا آگے نماز نہ پڑھے۔ (مسئلہ ٨٩٨)

۱۰۲

اسے بیٹی نہ دے۔(١) *

نماز کے لئے تیاری:

نماز گزار وضو،غسل،تیمم، وقت نماز ، لباس اور مکان کے بارے میں مسائل بیان کرنے کے بعد اب ہم نماز شروع کرنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔

اذان و اقامت:

١۔نماز گزار پر مستحب ہے کہ یومیہ نماز سے پہلے،ابتداء میں اذان کہے،اس کے بعد اقامت اور پھر نماز کو شروع کرے۔(٢)

اذان:

اَللّٰهُ اَکْبَر ٤ مرتبہ

اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه ٢مرتبہ

اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰه ٢مرتبہ

اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَلِیُ اللّٰه ٭٭ ٢مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلوٰةِ ٢مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفَلاٰحِ ٢مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ ٢مرتبہ

____________________

(١)توضیح المسائلم٨٩٦و ٨٩٧.

(٢)توضیح المسائلم٩٢٦و ٩١٨.

*احکام مسجد،تفصیل سے سبق ٢٤میں آئیں گے۔

٭٭ جملۂ ''اشھد ان علیا ولی اﷲ'' اذان و اقامت کا جزو نہیں ہے۔ لیکن بہتر ہے ''اشھد ان محمدا رسول اﷲ'' کے بعد قصد قربت سے پڑھا جائے۔ (توضیح المسائل م٩١٩)

۱۰۳

اَللّٰهُ اَکْبَر ٢مرتبہ

لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه ٢مرتبہ

اقامت:

اَللّٰهُ اَکْبَر ٢مرتبہ

اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه ٢مرتبہ

اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰه ٢مرتبہ

اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَلِیُ اللّٰه ٢مرتبہ

حَیَّ عَلَی الصَّلوٰةِ ٢مرتبہ

حَیَّ عَلَی الْفَلاٰحِ ٢مرتبہ

حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ ٢مرتبہ

قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰة ٢مرتبہ

اَللّٰهُ اَکْبَر ٢مرتبہ

لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه ایک مرتبہ

اذان و اقامت کے احکام:

١۔اذان و اقامت، نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد کہنی چاہئیںاور اگر قبل از وقت کہی جائیں تو باطل ہے۔(١)

____________________

(١)توضیح المسائلم٩٣٥.

۱۰۴

اقامت،اذان کے بعد کہی جا نی چاہئے اگر اذان سے پہلے کہی جائے تو صحیح نہیں ہے۔(١)

٣۔اذان اور اقامت کے جملوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہئے، اگر ان کے درمیان معمول سے زیادہ فاصلہ ڈالا جائے تو وہ جملے پھر سے پڑھنے چاہئے۔(٢)

٤۔اگر نماز جماعت کے لئے اذان اور اقامت کہی گئی ہوتو اس جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے کو اپنی نماز کے لئے الگ اذان و اقامت کہنی نہیں چاہئے۔(٣)

٥۔مستحبی نماز وںکے لئے اذان و اقامت نہیں ہے۔(٤)

٦۔جب بچہ پیدا ہو،تو مستحب ہے پہلے دن اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے۔(٥)

جس شخص کو اذان کہنے کے لئے معین کیا جائے،مستحب ہے وہ عادل،وقت شناس اور بلند آواز ہو۔(٦)

____________________

(١)توضیح المسائلم٩٣١.

(٢)توضیح المسائلم٩٢٠.

(٣)توضیح المسائلم٩٢٣.

(٤)العروة الوثقیٰج اص٦٠١.

(٥)توضیح المسائلم٩١٧.

(٦)توضیح المسائلم٩٤١.

۱۰۵

سبق:١٥ کا خلاصہ

١۔نماز گزار کی جگہ کے لئے درج ذیل شرائط ضروری ہیں:

*مباح ہو۔

*بے حرکت ہو۔

*جگہ تنگ اور اس کی چھت نیچی نہ ہو۔

*(سجدہ میں)پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو۔

*جگہ پست و بلند نہ ہو۔

*اگر نماز کی جگہ نجس ہو تو،نجاست نماز گزار کے بدن یالباس میں سرایت نہ کرے۔

٢۔غصبی جگہ پر نماز پڑھنا باطل ہے۔

٣۔مجبوری کی حالت میں متحرک،پست چھت والی اور پست و بلند جگہ پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔

٤۔مستحب ہے انسان مسجد میں نماز پڑھے۔

٥۔مستحب ہے انسان،مسجد میں نہ جانے والے شخص کے ساتھ کھا نا نہ کھا ئے،اس کا ہمسایہ نہ بنے،کاموں میں اس سے صلاح و مشورہ نہ کرے،اسے بیٹی نہ دے اور اس سے بیٹی نہ لے۔

٦۔مستحب ہے نماز شروع کرنے سے پہلے اذان کہے پھر اقامت کہے اور اس کے بعدنماز شروع کرے۔

٧۔اقامت کو اذان کے بعد کہنا چاہئے۔

٨۔جو شخص نماز جماعت میں شرکت کرتاہے،اگر اس نماز کے لئے اذان و اقامت کہی گئی ہو تو اسے اپنی نماز کے لئے الگ سے اذان و اقامت کہنے کی ضرورت نہیں۔

٩۔مستحب ہے پیدائش کے دن بچے کے دائیں کان میںاذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔

۱۰۶

سوالات:

١۔نجس فرش پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

٢۔کیا اس جانماز پر نماز پڑھی جاسکتی ہے جسے کسی اور نے اپنے لئے کھول کے رکھا ہو؟ اور کیوں؟

٣۔اذان اور اقامت میں کیا فرق ہے؟

٤۔مسجد میں حاضری نہ دینے والے شخص کے ساتھ کس قسم کا برتائو کرنا مستحب ہے؟

٥۔ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

٦۔دو ایسے مواقع بیان کیجئے جہاں پر اذان و اقامت پڑھنا نہیں چاہئے۔

۱۰۷

سبق نمبر ١٦

واحبات نماز:

١۔''اﷲ اکبر''،کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے اور سلام پھیرنے سے اختتام کو پہنچتی ہے۔

٢۔جو کچھ نماز میں انجام پاتا ہے واجب ہے،یا مستحب ہے۔

٣۔واجبات نماز گیارہ ہیں،ان میں سے بعض رکن و بعض غیر رکن ہیں۔

واجبات نماز(١)

رکن:

١۔نیت۔

٢۔قیام۔

٣۔تکبیرة الاحرام۔

٤۔رکوع۔

٥۔سجود۔

غیر رکن:

١۔قرأت۔

٢۔ذکر۔

٣۔تشہد۔

٤۔سلام۔

٥۔ترتیب

٦۔موالات۔

____________________

(١)توضیح المسائل،واجبات نماز.

۱۰۸

رکن وغیر رکن میں فرق:

ارکان نماز،نماز کے بنیادی اجزاء میں شمار ہوتے ہیں، چنانچہ ان میں سے کسی ایک کو اگر نہ بجالایا گیا یا اس میں اضافہ کیا گیا،اگر چہ فراموشی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو،تو نماز باطل ہے۔

دوسرے واجبات کو اگرچہ انجام دینالازم اور ضروری ہے لیکن اگر فراموشی سے ان میں کم یا زیادہ ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہے۔(١)

واجبات نماز کے احکام:

نیت:

١۔نماز گزار کو نماز کی ابتداء سے انتہا تک یہ جاننا چاہئے کہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے اور اسے خدائے تعالیٰ کے حکم کو بجالانے کے لئے پڑھنا چاہئے۔(٢)

٢۔نیت کو زبان پر لانے کی ضرورت نہیں،لیکن اگر زبان پر لائی بھی جائے تو کوئی مشکل نہیں۔(٣)

٣۔نماز،ہر قسم کی ریا کاری اور ظاہرداری سے دور ہونی چاہئے،یعنی نماز کو صرف خد ا کے حکم کو بجالانے کی نیت سے پڑھنا چاہئے۔ اگر پوری نماز یا اس کا ایک حصہ غیر خدا کے لئے ہو تو باطل ہے۔(٤) *

____________________

(١)توضیح المسائلم٩٤٢.

(٢)توضیح المسائلم٩٤٢.

(٣)توضیح المسائلم٩٤٣.

(٤)توضیح المسائلم٩٤٦و ٩٤٧.

*(گلپائیگانی )اگر نماز کاری کے مستحبات میںریا کریں،احتیاط لازم یہ ہے کہ نماز کو تمام کر کے دوبارہ پڑھے.(مسئلہ ٩٥٦)

۱۰۹

تکبیرة الاحرام:جیسا کہ بیان ہواہے''اللہ اکبر''کہنے سے نمازشروع ہوتی ہے اور اسے ''تکبیرة الاحرام''کہتے ہیں، کیونکہ اسی تکبیر کے کہنے سے بہت سے وہ کام جو نماز سے پہلے جائز تھے،نماز گزار پر حرام ہوجاتے ہیں:

جیسے :کھانا،پینا،ہنسنا اور رونا۔

تکبیرة الاحرام کے واجبات:

١۔صحیح عربی تلفظ میں کہی جائے۔

٢۔''اﷲ اکبر'' کہتے وقت بدن سکون میں ہو۔

٣۔تکبیرة الاحرام کو ایسے کہنا چاہئے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو خودسن سکے،یعنی بہت آہستہ نہیںکہنا چاہئے۔

٤۔احتیاط واجب کی بناء پر اسے ایسی چیز سے وصل نہ کریں جو اس سے پہلے پڑھی جاتی ہو۔(١)

مستحب ہے تکبیرة الاحرام یا نماز کے درمیان پڑھی جانے والی دوسری تکبیروں کو کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے برابر بلندکریں۔(٢)

قیام:قیام یعنی کھڑا رہنا،بعض مواقع پر قیام ارکان نماز میںسے ہے اور اس کا ترک نماز کو باطل کرتا ہے،لیکن جو افراد کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے معذور ہوں ان کا حکم جدا ہے، اسکے مسائل آئندہ بیان کئے جائیں گے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م٩٤٨، ٩٤٩، ٩٥١، ٩٥٢.

(٢)توضیح المسائل م٩٥٥.

(٣)توضیح المسائل م٩٥٨.

۱۱۰

احکام قیام:

١۔واجب ہے نماز گزار تکبیرة الاحرام کہنے سے پہلے اور اس کے بعد قدرے کھڑا رہے تا کہ

اطمینان پیدا ہوجائے کہ تکبیرة الاحرام قیام کی حالت میں کہی ہے۔(١)

٢۔قیام،قبل ا* رکوع کا مفہوم یہ ہے کہ کھڑے رہنے کی حالت کے بعد رکوع میں جائے،اس بناء پر اگر قرأت کے بعد رکوع کو فراموش کرکے سیدھے سجدہ میں جائے اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آئے،تو پھر سے مکمل طور پر کھڑے ہو کر چند لمحے رکنے کے بعد رکوع کو بجالائے اور اس کے بعد سجدہ میں جائے۔(٢)

٣۔وہ امور جن سے قیام کی حالت میں پرہیز کرنا چاہئے:

*بدن کو حرکت دینا ۔

*کسی طرف جھکنا۔

*کسی جگہ یا چیز سے ٹیک لگانا۔

*پائوں کو زیادہ کھول کے رکھنا۔

*پائوں کو زمین سے بلندکرنا۔(٣)

٤۔نماز گزار کو چاہئے کہ کھڑے رہنے کی حالت میں دونوں پائوں کو زمین پر رکھے۔ *

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ بدن کاوزن دونوں پائوں پر برابر پڑے بلکہ اگر بدن کا وزن ایک پیر پر ہو تو کوئی حرج نہیں ۔(٤)

٥۔جوشخص کسی بھی صورت میں کھڑے ہوکر نماز نہیںپڑھ سکتا ،تو اسے چاہئے بیٹھ کر قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے،اور اگر بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے تو لیٹ کرنماز پڑھے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائلم٩٥٩. (٢)توضیح المسائلم٩٦٠. (٣)توضیح المسائلم٩٦١،٩٦٣ و ٩٦٤.

(٤)توضیح المسائل، م ٩٦٣. (٥)توضیح المسائلم٩٧١٩٧٠.

*(خوئی)احتیاط مستحب ہے کہ دونوں دوپائو ںکو زمین پر رکھاجائے۔(مسئلہ ٩٧٢)

۱۱۱

٦۔واجب ہے رکوع کے بعد مکمل طور پر کھڑے ہوکر رکے (قیام) اور پھر سجدہ میں جائے،اگر اس قیام کو عمداً ترک کرے تو نماز باطل ہے۔(١)

____________________

(١)تحریر الوسیلہج١ص١٦٢م١العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٦٦٥، الرابع.

۱۱۲

درس:١٦ کا خلاصہ

١۔واجبات نماز ،گیارہ چیزیں ہیں اور ان میںپانچ رکن اور باقی غیر رکن ہیں۔

٢۔رکن اور غیر رکن میں فرق یہ ہے کہ اگر ارکان نماز میں سے کوئی ایک چیز،حتی بھولے سے بھی کم یا زیادہ ہوجائے،نماز باطل ہے، لیکن اگر غیر رکن بھولے سے کم یا زیادہ ہوجائے تونماز باطل نہیں ہوتی۔

٣۔نماز کی نیت ہر قسم کی ریا کاری اور ظاہرداری سے مبرا ہونی چاہئے۔

٤۔تکبیرة الاحرام کو صحیح عربی زبان میں کہنا چاہئے۔

٥۔تکبیرة الاحرام کے وقت قیام اور رکوع سے متصل قیام،رکن ہیں، لیکن قرأت اور رکوع کے بعد والے قیام رکن نہیں ہیں ۔البتہ واجب ہیں اور اگر عمداًترک ہوجائے تو نماز باطل ہے۔

۱۱۳

سوالات:

١۔ارکان نماز کو بیان کیجئے اور رکن وغیر رکن میں کیا فرق ہے؟

٢۔نماز کے پہلے''اﷲ اکبر'' کو کیوں تکبیرة الاحرام کہتے ہیں؟

٣۔نیت کی وضاحت کیجئے؟

٤۔قیام کی وضاحت کرکے اس کی قسمیں بیان کیجئے؟

٥۔رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے قیام کی وضاحت کر کے ان کے فرق کو بیان کیجئے؟

۱۱۴

سبق نمبر١٧

واجبات نماز

قرأت

پہلی اور دوسری رکعت میں سورۂ حمد اور کسی دوسرے سورے کے پڑھنے اور تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۂ حمد یا تسبیحات اربعہ کے پڑھنے کوقرأت'' کہتے ہیں۔

سورۂ حمد:

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ٭ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ ٭ مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ ٭ ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ٭ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ٭صِرَاطَ الَّذِینَ َنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ (٭)

پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن مجید سے کوئی دوسرا سورہ پڑھا جانا چاہئے، مثلاً سورہ توحید:

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَد ٭اَللّٰهُ الصَّمَدُ٭ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ٭ وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً اَحَدُ .(٭)

اور تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ حمد یا تین مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہے، تسبیحات اربعہ کو ایک مرتبہ پڑھنا بھی کافی ہے۔(١)

تسبیحات اربعہ:

''سُبْحٰانَ اللّٰه وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاٰ اِلَهَ اِلاَّ اللّٰهوَالله ُاکبر '' .

۱۱۵

قرأت کے احکام:

١۔ تیسری اور چوتھی رکعت کی قرأت کو آہستہ (اخفات کے طور پر) پڑھنا چاہئے، لیکن پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بارے میں حکم حسب ذیل ہے:(٢)

نماز-----------نماز گزار ---------------------حکم

ظہر وعصر------مرداور عورت----------------آہستہ پڑھنا چاہئے۔

مغرب، عشا و صبح -----مرد-------------------بلند پڑھناچاہئے

عورت---------------------------------------اگرنامحرم اس کی آواز کو نہ سنتا ہوتو بلند آواز میں پڑھ سکتی ہے

اور اگر کوئی نامحرم سنتا ہوتو احتیاط واجب کی بناء پر آہستہ پڑھے۔

٢۔ اگر نماز بلند پڑھنے کی جگہ عمداً آہستہ پڑھی جائے یاآہستہ پڑھی جانے کی جگہ عمداً بلند پڑھی جائے تو نماز باطل ہے، لیکن بھولے سے یا مسئلہ کو نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو نماز صحیح

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١٠٠٥

(٢) توضیح المسائل، م ٩٩٢ تا٩٩٤ و ١٠٠٧

۱۱۶

ہے۔(١)

٣۔ اگر سورۂ حمد پڑھتے ہوئے سمجھے کہ غلطی کی ہے (مثلاً بلند پڑھنے کے بجائے آہستہ پڑھاہو) تو ضروری نہیں ہے پڑھے ہوئے حصہ کو دوبارہ پڑھے۔(٢)

٤۔ انسان کو چاہئے نماز کو سیکھ لے تاکہ غلط نہ پڑھے، اگر کوئی کسی صورت میں بھی نماز کو صحیح طور پر یاد نہیں کرسکتا ہو تو اسے جس طرح بھی پڑھ سکتا ہے پڑھنا چاہئے اور احتیاط مستحب ہے زکہ نماز کو باجماعت پڑھے۔(٣)

٥۔ اگر انسان ایک لفظ کو صحیح جانتے ہوئے پڑھتا ہو، مثلاً لفظً ''عبدُہ'' کو تشہد میں ''عبدَہ'' جان کر پڑھتا ہو اور بعد میں پتہ چلے کہ غلط تھا تو ضروری نہیں ہے، نماز کو دوبارہ پڑھے۔٭٭(٤)

٦۔درج ذیل مواقع پر نماز گزار کو پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ نہیں پڑھنا چاہئے اور صرف حمد پڑھنا کافی ہے:

الف: نماز کا وقت تنگ ہو۔

ب: سورہ نہ پڑھنے پر مجبور ہو، مثلاً ڈر ہوکہ اگر سورہ پڑھے تو چور، درندہ یا کوئی اور چیز اسے نقصان پہنچائے۔(٥)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ٩٩٥

(٢) توضیح المسائل،م ٩٩٥

(٣) توضیح المسائل،م ٩٩٧

(٤) توضیح المسائل،م ١٠٠١.

(٥)توضیح المسائل،م ٩٧٩.

*(گلپائیگانی) احتیاط لازم یہ ہے کہ نماز کو با جماعت پڑھے(مسئلہ ١٠٠٦)

٭٭(گلپائیگانی) (اراکی) دوبارہ پڑھنا چاہئے۔(مسئلہ ١٠١٠)

۱۱۷

٧۔وقت کی تنگی کے موقع پر تسبیحات اربعہ کو ایک مرتبہ پڑھیں۔(١)

قرأت کے بعض مستحبات :

١۔ پہلی رکعت میں حمدسے پہلے ''اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم'' پڑھنا۔

٢۔ ظہر وعصر کی نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم'' کو بلند آواز میں پڑھنا۔

٣۔ حمد اور سورہ کو رک رک کر پڑھنا اور آیت کے آخر پر وقف کرنا، یعنی اسے بعد والی آیت سے ملاکر نہ پڑھنا۔

٤۔ حمد اور سورہ کو پڑھتے وقت ان کے معنی کی طرف توجہ رکھنا۔

٥۔ تمام نمازوں میں پہلی رکعت میں سورۂ ''انا انزلناہ''اور دوسری رکعت میں سورہ'' قل ھواللہ احد'' پڑھنا۔(٢)

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ١٠٠٦.

(٢)توضیح المسائل،م ١٠١٧و١٠١٨

۱۱۸

ذکر:

واجبات رکوع اور سجدہ میں ایک ذکر ہے، یعنی '' سبحان اﷲ'' یا ''اﷲ اکبر'' یا ان جیسا کوئی اور ذکر پڑھنا، ان کی تفصیل آگے بیان ہوگی۔

سبق ١٧ کا خلاصہ

١۔قرأت، سے مراد ہے نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں ''حمد'' اور قرآن مجید کا کوئی دوسرا سورہ اور نمازکی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھنا۔

٢۔نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت کی قرأت کو آہستہ پڑھنا چاہئے۔

٣۔ مردوں کو نماز صبح اور مغرب وعشا کی پہلی اور دوسری رکعت میں حمد وسورہ کو بلند آواز سے پڑھنا چاہئے۔

٤۔نماز ظہر وعصر میں حمدوسورہ کو آہستہ پڑھنا چاہئے۔

٥۔ وقت کی تنگی اور مجبوری کی حالت میں سورہ نہ پڑھے اور تسبیحات اربعہ کو بھی ایک ہی بار پڑھے۔

٦۔ اگر انسان کسی لفظ کو صحیح جان کر نماز کو اسی طرح پڑھے اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ لفظ غلط تھا تو ضروری نہیں کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔

٧۔ انسان کو چاہئے نماز کو صحیح طور پر سیکھ لے تاکہ غلط نہ پڑھے۔

۱۱۹

سوالات:

١۔قرأت کیا ہے؟وضاحت کیجئے۔؟

٢۔ کیا آپ نے اب تک کسی کے پاس قرأت کی ہے؟اگر جواب منفی ہے تو قرأت کو کسی استاد کے پاس جا کر اس کی اصلاح کیجئے۔؟

٣۔ کیا تسبیحات اربعہ کو بلند آواز میں پڑھا جاسکتا ہے؟

٤۔ کیا حمد اور سورہ کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے؟

٥۔ ایک مردنے صبح، مغرب اور عشا کی نماز میں اب تک حمد اور سورہ کو آہستہ پڑھاہے گزشتہ نمازوں کے بارے میں اس کی تکلیف کیا ہے؟

٦۔ کیا آپ کی نماز میں اب تک کوئی غلطی تھی جس کے بارے میں آپ اب متوجہ ہوئے ہیں؟

٧۔کس موقع پر نماز گزار کو سورہ نہیں پڑھنا چاہئے اور تسبیحات اربعہ کو بھی ایک ہی مرتبہ پڑھنا چاہئے؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

٥_ ظالم و ستمگر ہر قسم كے حامى و ناصر سے محروم ہيں _يا ايها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذي و لا تيمموا الخبيث الشيطان يعدكم الفقر و ما للظالمين من انصار _

٦_ انفاق نہ كرنا يا انفاق كو احسان، اذيت و آزار سے آلودہ كرنا يا ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق كرنا اور نذر پر عمل نہ كرنا ستم ہے_لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذى انفقوا من طيبات و ما للظالمين من انصار

٧_ خدا تعالى ، انفاق كرنے والوں اور نذر پر عمل كرنے والوں كا ياورو مددگار ہے_و ما للظالمين من انصار

يہ نكتہ '' و ما للظالمين من انصار''كے مفہوم سے اخذ ہوتاہے كيونكہ صرف انفاق نہ كرنے والے خدا تعالى كى حمايت سے محروم ہيں _

٨_ انفاق اور نذر كو پورا كرنا معاشرے ميں باہمى تعاون كے پيدا ہونے اور اسكى وسعت كا سبب ہے_*

و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر و ما للظالمين من انصار لگتاہے انصار و مددگار ميں وہ لوگ بھى شامل ہيں جو انفاق كرنے والوں كے اموال سے بہرہ مند ہوتے ہيں يعنى انفاق كرنے والوں اور نذروں كو پورا كرنے والوں كو عوامى حمايت حاصل ہے_ نيز يہ خود بھى عوام اور معاشرے كے مددگار ہيں پس انفاق باہمى اور معاشرتى تعاون كے عام ہونے كا سبب بنتاہے_

٩_ انفاقات اور نذور كے بارے ميں خدا تعالى كى آگاہى كى طرف متوجہ رہنا انسان كو انفاقات اور نذور كے پورا كرنے كى ترغيب دلاتاہے_و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر فان الله يعلمه

احسان جتانا: احسان جتانے كے اثرات ٦

اذيت: اذيت كے اثرات٦

انسان: انسان كا عمل٣

انفاق: انفاق كا پيش خيمہ ٩;انفاق كى تشويق ٤; انفاق كى جزا ٢ ، ٧; انفاق كے آداب ١; انفاق كے انفرادى اثرات ٧;انفاق كے ترك كى مذمت ٦; انفاق كے معاشرتى اثرات ٨; ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق ٦

۳۰۱

تحريك: تحريك كے عوامل ٤ ، ٩

تعاون: معاشرے ميں تعاون ٨

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١ ، ٣ ، ٩;خدا تعالى كى امداد ٧;خدا تعالى كى جزا ٢

ظالمين :٥ ظلم : ظلم كے اثرات ٥;ظلم كے موارد ٦

علم: علم كے اثرات ٩

نذر: نذر پورى كرنے كا پيش خيمہ ٩;نذر پورى كرنے كے اثرات ٧،٨;نذر پورى نہ كرنے كے اثرات ٦;نذر كى تشويق ٤; نذر كى جزا ٢; نذر كے آداب ١

إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (٢٧١)

اگر تم صدقہ كو على الاعلان دوگے تو يہ بھى ٹھيك ہے اور اگر چھپا كر فقراء كے حوالے كرد و گے تو يہ بھى بہت بہتر ہے اور اس كے ذريعہ تمھارے بہت سے گناہ معاف ہو جائيں گے او رخدا تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے _

١_ على الاعلان صدقہ دينا نيك اور قدر و قيمت والا عمل ہے_ان تبدوا الصدقات فنعما هي

٢_انفاق كرنے والے كيلئے آشكار صدقہ دينے كى

۳۰۲

بجائے مخفى طور پر صدقہ دينے كا زيادہ فائدہ ہے_ان تبدوا الصدقات فنعما هى و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

لگتاہے كلمہ '' لكم'' اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ مخفى صدقہ ، صدقہ دينے والے كيلئے زيادہ فائدہ مند ہے كيونكہ اس ميں ريا وغيرہ كا احتمال كم ہے ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ مخفى صدقہ ہر لحاظ سے آشكار صدقہ كى نسبت زيادہ فائدہ مند ہے_

٣_ پنہانى صدقہ كى قدر و قيمت آشكار صدقہ كى نسبت زيادہ ہے_ان تبدوا و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

اس بناپر كہ كلمہ '' لكم'' قرينہ كے طور پر صرف پنہان صدقہ كے صدقہ دينے والے كيلئے زيادہ مفيد ہونے كو بيان نہ كررہاہو بلكہ آيت كے اطلاق كو مدنظر ركھا جائے_

٤_ صدقات كے ذريعے حاجتمندوں كى حاجت روائي كرنا انہيں ديگر مصارف ميں خرچ كرنے سے بہتر ہے_

ان تبدوا الصدقات و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم صدقات كے يقيناً بہت سارے مصارف ہيں ليكن ان ميں سے صرف فقراء كے ذكر كرنے سے انكى اولويت ظاہر ہوتى ہے_

٥_ انسان كى شخصيت كى حفاظت كى قدر و قيمت ہے_و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء فهو خير لكم

لگتاہے پنہاں صدقہ كى برترى كا ايك فلسفہ يہ ہے كہ اس ميں حاجتمندوں كى شخصيت اور آبرو محفوظ رہتى ہے كيونكہ صدقے كا مقصد ضرورت مندوں كى حاجت روائي كرناہے اور انسان اپنى آبرو كى حفاظت كے زيادہ ضرورتمند ہيں _

٦_ قرآن كريم كا لوگوں كو نيكيوں كى طرف راغب كرنے كے لئے ان كى منفعت طلبى كى سرشت سے استفادہ كرنا _

و ان تخفوها و توتوها الفقراء فهو خير لكم

٧_ فقرا ء كو مخفى طور پر صدقہ دينا بعض گناہوں كا كفارہ ہے_و ان تخفوها و تؤتوها الفقراء و يكفر عنكم من سيّاتكم

٨_ انسان كے اعمال كا خدا تعالى كو پورا پورا علم ہے_و الله بما تعملون بصير

۳۰۳

٩_ انسان كا اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا كہ خدا تعالى اسكے اعمال سے مكمل طور پر آگاہ ہے اسے انفاق كرنے كى تشويق دلاتا ہے_ان تبدوا الصدقات ...والله بما تعملون خبير

١٠_ رياكارى ، احسان جتانے اور تكليف پہنچانے سے پرہيز ،پنہانى صدقے كى برترى كا فلسفہ ہے_

لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذى كالذى ينفق ما له رئاء الناس و ان تخفوها سابقہ آيات ميں انفاق كى پاداش كا معيار يہ قرار ديا گيا ہے كہ وہ خدا كيلئے ہو اور رياكارى اور احسان وآزار سے خالى ہو اور چونكہ پنہانى صدقہ اس معيار پر پورا اترتاہے اسلئے اسكى قدر و قيمت زيادہ ہے_

١١_واجب صدقات ( زكات) كا آشكارا ًدينا اور مستحب صدقوں كا چھپاكر دينا بہتر ہے_ان تبدوا الصدقات

امام باقر (ع) :آيت ''ان تبدوا ...''كے متعلق فرماتے ہيں : ھى يعنى الزكاة المفروضة '' اس سے مراد واجب زكات ہے''اور پھر ''و ان تخفوہا و تؤتوہا الفقرائ''كے متعلق ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں يعنى النافلة ''اس سے مراد مستحب صدقہ ہے''(١)

احكام: احكام كا فلسفہ ١٠

اقدار:١،٣،٥

انسان : انسان كا عمل ٨;انسان كى منفعت طلبى ٦

انفاق:انفاق كا پيش خيمہ ٩;انفاق كى پاداش ٧; انفاق كى فضيلت ٣;انفاقكےآداب ١ ، ٢ ، ٣ ، ١٠;انفاق ميں اولويت ٤

تحريك: تحريك كے عوامل ٦،٩

تربيت : تربيت كى روش ٦

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ٨ ،٩

روايت:١١

زكات: زكات كى ادائيگى ١١

شخصيت : شخصيت كى قدر و قيمت ٥

____________________

١) كافى ج٤ ص٦٠ ح١ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٨٩ ح ١١٤٥_

۳۰۴

صدقہ : صدقہ پنہانى ٢ ، ٣ ، ٧ ، ١٠ ، ١١; صدقہ كى فضيلت ١ ، ٣ ، ١٠; صدقہ كے آداب ١١;صدقہ كے مصارف ٤;صدقہ واجب ١١

علم : علم كے اثرات ٩

عمل: عمل صالح ١

فقير : فقير كى حاجت روائي ٤ ، ٧;فقير كى حاجت مندى ٤

گناہ : گناہ كا كفارہ ٧

نيكى : نيكى كا سرچشمہ ٦

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلأنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (٢٧٢)

اے پيغمبر ان كى ہدايت پا جانے كى ذمہ دارى آپ پر نہيں ہے بلكہ خدا جس كو چاہتا ہے ہدايت ديديتا ہے او رلوگو جو مال بھى تم راہ خدا ميں خرچ كرو گے وہ در اصل اپنے ہى لئے ہو گا او رتم تو صرف خوشنودى خدا كے لئے خرچ كرتے ہو او رجو كچھ بھى خرچ كر و گے وہ پورا پورا تمھارى طرف واپس آئے گا اور تم پر كسى طرح كا ظلم نہ ہو گا _

١_ پيغمبر (ص) اسلام كى يہ ذمہ دارى نہيں ہے كہ وہ مسلمانوں كو تكليف دہى ، رياكارى اور احسان جتانے سے پاك انفاق پر مجبور كريں _ليس عليك هديهم چونكہ اس آيت كا گذشتہ آيات كے ساتھ ارتباط ہے اسلئے '' ليس عليك ہداہم '' كا مطلب يہ نكلتاہے كہ تيرے لئے ضرورى نہيں ہے كہ تو مسلمانوں سے زبردستى ايسا

۳۰۵

انفاق كرائے جو رياكارى ، تكليف دہى اور احسان جتانے سے خالى ہو_

٢_ انسانوں كا ہدايت پانا پيغمبر (ص) اسلام كى ذمہ دارى كے دائرے سے باہر ہے اور صرف مشيت الہى كا مرہون منت ہے_ليس عليك هديهم و لكن الله يهدى من يشاء

٣_ بعض مسلمانوں كے احسان، اذيت و آزار اور رياپر مبنى انفاق كى وجہ سے پيغمبر (ص) اسلام كى پريشانى اور اضطراب كو دور كرنے كيلئے خدا تعالى كا ان كى دل جوئي كرنا _ليس عليك هديهم

٤ _ پيغمبر (ص) اسلام كى انتہائي خواہش كہ لوگ ہدايت پاجائيں اور اس كے لئے آپ(ص) كى بھر پور كوششيں _

ليس عليك هديهم

٥_ خدا تعالى جسے چاہتاہے ہدايت كرتاہے_و لكن الله يهدى من يشاء

٦_ ہر اچھى چيز سے انفاق كرنا خود انفاق كرنے والے كے فائدے ميں ہے_و ما تنفقوا من خير فلانفسكم

اس نكتے ميں '' من''كو ابتدائيہ فرض كيا گيا ہے_

٧_ مال، خير ہے_و ما تنفقوا من خير اگر '' من'' '' ما تنفقوا''كے '' ما''كے لئے بيان ہو_

٨_ غير مسلموں پرانفاق كرنا جائز ہے_ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير فلانفسكم يہ تب ہے كہ '' ہديہم'' كى ضمير سے مراد كفار اور مشركين ہوں اور اسكى تائيد بعض مفسرين كے اس قول سے بھى ہوتى ہے كہ اس آيت مباركہ كے نزول كا سبب مسلمانوں كا غير مسلموں پر انفاق كرنے سے پرہيز تھا_ ( مجمع البيان)

٩_ دين و مذہب كو مدنظرركھے بغير بينواؤں كى حاجت روائي كرنا اسلام كا بنيادى اصول ہے_

ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير يہ نكتہ اس آيت مباركہ كے شان نزول كے متعلق بعض مفسرين كے اس قول كى بناپر ہے كہ اسكے نزول كا سبب مسلمانوں كا غير مسلموں كو صدقہ دينے سے پرہيز كرنا تھا_

١٠_ اسلامى معاشرے ميں غير مسلموں كى حالت زار

۳۰۶

كا خيال ركھنا قابل تحسين عمل ہے_ليس عليك هديهم و ما تنفقوا من خير

١١_انفاق صرف خدا تعالى كى رضا اور خوشنودى كيلئے جائز ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

''و ما تنفقون'' بظاہر جملہ خبريہ ہے ليكن در حقيقت جملہ انشائيہ ہے_ يعنى ''و لا تنفقوا الا ''اور يا جملہ خبريہ ہے اس معنى ميں كہ مسلمان رضائے الہى كے بغير انفاق نہيں كرتے كيونكہ يہ انكى شان كے لائق نہيں ہے_

١٢_ رضائے الہى كے بغير انفاق كرنا مومنين كے ايمان كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

اگر ''و ما تنفقون'' جملہ خبريہ ہو يعنى مومنين جب تك با ايمان ہيں رضائے الہى كے بغير انفاق نہيں كريں گے اور اگر غير خدا كو مدنظر ركھيں گے تو روح ايمان سے خالى ہوں گے _

١٣_ انفاق، خدا كى خوشنودى حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله

١٤_ خدا وند متعال كى بارگاہ ميں انفاق كى قبوليت اور ثمر آور ہونا انفاق كرنے والے كى خالص نيت ميں منحصر ہے_

و ما تنفقون من خير فلانفسكم و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله اگر ''و ما تنفقون'' كا جملہ ''و ما تنفقوا فلانفسكم''كيلئے حال ہو يعنى انفاق كا تمہيں اس وقت فائدہ ہے جب خدا تعالى كى خوشنودى كيلئے ہو _

١٥_ خداوند متعال كى خوشنودى تب حاصل ہوتى ہے جب اس كے لئے كوشش اور جد و جہد كى جائے_

و ما تنفقون الا ابتغاء وجه الله كلمہ '' ابتغائ'' كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں سعى و كوشش ملحوظ ہے_

١٦_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والا اپنے حق ميں كسى قسم كى ناانصافى كے بغير انفاق كى پورى جزاو پاداش سے بہرہ مند ہوگا_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم و انتم لا تظلمون

١٧_ خدا وند متعال كى خوشنودى كيلئے كئے جانے والے انفاق كى پاداش ميں كوئي كمى نہيں ہوگى اگرچہ وہ غير مسلم بے نواؤں كيلئے ہى ہو_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم و انتم لا تظلمون

۳۰۷

آيت كے اس شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ جو غير مسلموں پر انفاق كرنے كے بارے ميں ہے_

١٨ _ قرآن كريم كا لوگوں كو نيك اعمال كى طرف راغب كرنے كيلئے انكى منفعت طلبى كى خصلت سے استفادہ كرنا _

و ما تنفقوا من خير فلانفسكم و ما تنفقوا من خير يوف اليكم

١٩_ نيك اعمال كا فائدہ خود عمل كرنے والے كو ہے_و ما تنفقوا من خير فلانفسكم يوف اليكم

٢٠_ روز قيامت انسان كے اعمال كا مجسم ہونا *_و ما تنفقوا من خير يوف اليكم

''يوف''كى ضمير كا ''و ما تنفقوا''كى طرف پلٹنا ظاہراً اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ وہى انفاق كردہ چيز روز قيامت انفاق كرنے والے كو بطور كامل ادا كردى جائيگي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى خواہش ٤; آنحضرت(ص) كى دلجوئي ٣; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ١; آنحضرت (ص) كى سيرت ٤

احسان جتانا : احسان جتانے كى مذمت ٣

احكام: ٨

اذيت: اذيت كى مذمت ٣

اقتصادى نظام :٩

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى ذمہ دارى كى حدود ١ ، ٢;انبياء (ع) كے اہداف ٤

انسان: انسان كى منفعت طلبى ١٨;انسان كى ہدايت ٢ ، ٤

انفاق: انفاق غير مسلموں پر ٨، ١٧;انفاق كى جزا ٦ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧;انفاق كے آداب ١ ، ٣ ، ١١ ، ١٢;انفاق كے اثرات ٣;انفاق كے احكام ٨;انفاق كے انفرادى اثرات ٦، ١٤;انفاق كے مصارف ٨; راہ خدا ميں انفاق ١٦ ، ١٧;

۳۰۸

ايمان: ايمان كے اثرات ١٢

تحريك : تحريك عوامل ١٨

تربيت: تربيت كى روش ١٨

جزا و سزا كانظام :١٦

خدا تعالى: خدا تعالى كاعدل ١٦;خدا تعالى كى خوشنودى ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ١٥ ، ١٧;خدا تعالى كى مشيت ٢ ، ٥;خدا تعالى كى ہدايت٥

رشد و تكامل: رشد و تكامل كا پيش خيمہ ١٣

عمل: عمل صالح ١٩; عمل صالح كا پيش خيمہ ١٨;عمل صالح كى تشويق ١٨;عمل كا تجسم ٢٠;عمل كى جزا و سزا ١٥ ، ١٩;عمل كى قبوليت ١٤;عمل كے اثرات ١٩

غير مسلم: غير مسلم كے حقوق ١٠

فقير: فقير كى حاجت روائي ٩

قصد قربت :١٤

كوشش : كوشش كے اثرات ١٥

مال: مال كا خير ہونا ٧;مال كى قدر و قيمت ٧

معاشرتى نظام : ١٠ معاشرہ : اسلامى معاشرہ ١٠

نيت : نيت كى تاثير ١٤

وجہ اللہ:١٣،١٥

۳۰۹

لِلْفُقَرَاء الَّذِينَ أُحصِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ (٢٧٣)

يہ صدقہ ان فقراء كے لئے ہے جو راہ خدا ميں گرفتار ہو گئے ہيں اور كسى طرف جانے كے قابل بھى نہيں ہيں _ نا واقف افراد انھيں ان كى حيا و عفت كى بنا پر مالدا ر سمجھتے ہيں حالانكہ تم آثار سے ان كى غربت كا اندازہ كرسكتے ہو اگر چہ يہ لوگوں سے چمٹ كر سوا ل نہيں كرتے ہيں اور تم لوگ جو كچھ بھى انفاق كرو گے خدا اسے خوب جانتا ہے _

١_ وہ لوگ جو راہ خدا ميں گھرے ہوئے اور روزى كمانے سے عاجز ہيں ليكن آبرومند ہيں اورانكى تنگدستى ان كے چہروں سے عياں ہے ہرگز دوسروں سے كچھ نہيں مانگتے ايسے لوگ انفاق كا بہترين مصرف ہيں _للفقرائ لا يسئلون الناس الحافا

٢_ جو لوگ الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى ميں مصروف ہونے كى وجہ سے روزى كمانے سے عاجز ہيں انكى زندگى كے اخراجات اسلامى معاشرہ كے ذمے ہيں _للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لايستطيعون ضربا فى الارض

٣_ انفاق ان بے نواؤں اور تنگدستوں كيلئے ہے جو زندگى كے اخراجات پورے كرنے سے عاجز ہيں نہ ان كيلئے جو اسكى توان ركھتے ہيں _للفقراء الذين احصروا فى سبيل الله لا يستطيعون ضربا فى الارض

٤_ ضروريات زندگى كا پورا كرنا ضرورى ہے اگر چہ

۳۱۰

اس كيلئے كوشش كرنى پڑے اور سختياں جھيلنى پڑيں _لا يستطيعون ضربا فى الارض

'' ضربا فى الارض ''سعى و كوشش سے كنايہ ہے كہ جس ميں طبعى طور پر سختياں برداشت كرنى پڑتى ہيں اور چونكہ '' لا يستطيعون ...''كا تقاضا يہ ہے كہ كمانے كى توان ركھنے والے پر انفاق نہيں كيا جاسكتا اسلئے اسے اپنى زندگى كى گاڑى كو چلانے كيلئے سعى و كوشش كرنا ہوگى اگر چہ اس ميں تكليفيں ہى برداشت كرنى پڑيں _

٥_ جو لوگ روزى كمانے كى توان ركھتے ہيں ان پر انفاق كرنے سے پرہيز ضرورى ہے_للفقراء لا يستطيعون ضرباً فى الارض كيونكہ '' لا يستطيعون''كے ذريعے انفا ق كا مصرف صرف ان فقرا كو قرار ديا گيا ہے جو ضروريات زندگى كے حاصل كرنے كى توان نہيں ركھتے_

٦_ سخت نيازمندى كے باوجود بے نيازى اور آبرومندى كا اظہار كرنا اور عفت نفس كا خيال ركھنا قابل قدر ہے_

يحسبهم الجاهل اغنياء من التعفف لا يسئلون الناس الحافا چونكہ آيت ميں افراد كى مدح كى جارہى ہے اسلئے اس ميں ذكر كى گئي صفات كو صفات حسنہ شمار كيا جائيگا، قابل ذكر ہے كہ الحاف ''اصرار''كے معنى ميں ہے ليكن جملہ ''يحسبہم الجاہل اغنيائ'' اور ''تعفف'' كے قرائن كو مدنظر ركھتے ہوئے جملہ '' لا يسألون'' كا معنى يوں بنتا ہے كہ يہ لوگ سوال ہى نہيں كرتے تا كہ اس پر اصرار كرنا پڑے نہ يہ كہ سوال كرتے ہيں ليكن اس پر اصرار نہيں كرتے_

٧_ فقراء اور تنگ دستوں كى ظاہرى حالت ان كے نامناسب اقتصادى حالات كى منہ بولتى تصوير ہوتى ہے اگر چہ وہ اپنى آبرومندى كى خاطر اپنے فقر كا اظہار نہ ہى كريں _يحسبهم الجاهل اغنياء من التعفف تعرفهم بسيماهم

٨_ آبرومند تنگ دست افراد ہرگز كسى سے اصرار كے ساتھ سوال نہيں كرتے_لا يسئلون الناس الحافا

اس نكتے ميں جملہ''لا يسئلون الناس الحافا ''كا وہى ظاہرى معنى مراد ليا گياہے يعنى اپنے سوال پر اصرارنہيں كرتے _ اس بناپر جملہ''يحسبهم الجاهل ''كا معنى يہ ہوگا كہ انكے سوال كرنے كے انداز سے انكے تہى دست ہونے كا پتہ چل جاتاہے_

۳۱۱

٩_ فقرا اپنى اقتصادى ضروريات كيلئے اصرار اور لجاجت كے بغيرسوال كرسكتے ہيں _لا يسئلون الناس الحافا

اس جملے كے مفہوم سے يہ نكتہ سمجھ ميں آتاہے_

١٠_ گدا گرى ميں اصرار اور لچرين ناپسنديدہ عمل ہے_لا يسئلون الناس الحافا

١١_ خير و نيكى كے انفاق سے خدا تعالى آگاہ ہے_و ما تنفقوا من خير فان الله به عليم

١٢_ مال و دولت خير ہے_و ما تنفقوا من خير كيونكہ مال كو خير كہا گيا ہے_

١٣_ انفاق اور نيك اعمال كے بارے ميں خدا تعالى كے آگاہ ہونے كى طرف متوجہ رہنا انسان كو انكى انجام دہى كى ترغيب دلاتا ہے_و ما تنفقوا من خير فان الله به عليم

١٤ _ اصحاب صفہ ايسے فقرا تھے جو راہ خدا ميں گھر ے ہوئے مگر آبرومند تھے_للفقراء الذين احصروا

امام باقر (ع) فرماتے ہيں '' نزلت الآية فى اصحاب الصفہ ''يہ آيت اصحاب صفہ كے بارے ميں نازل ہوئي (١) قابل ذكر ہے كہ اصحاب صفہ ايسے تنگدست ليكن پاكدامن اور آبرومند لوگ تھے جو خدائي ذمہ داريوں ( جہاد و غيرہ ) كى ادائيگى ميں مصروف ہونے كى وجہ سے كسب معاش سے عاجز تھے ليكن انكے رہنے سہنے كا اندازہ ايسا تھا كہ نا آشنا لوگ نہ صرف انہيں فقير نہيں سمجھتے تھے بلكہ انہيں تونگر اور مالدار شمار كرتے تھے_

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ١٤

اصحاب صفہ: ١٤

انفاق: انفاق كاپيش خيمہ ١٣;انفاق كے مصارف ١ ، ٢، ٣ ، ٥; پسنديدہ چيزوں سے انفاق ١١

بے نيازي: بے نيازى كى قدر و قيمت ٦

پاكدامن : پاكدامنى كى فضيلت ٦

تحريك : تحريك كے عوامل ١٣

____________________

١) مجمع البيان ح ٢ ص ٦٦٦_

۳۱۲

خدا تعال: خدا تعالى كا علم ١١ ، ١٣

راہ و روش : اسكى بنياديں ٧

علم: علم كى فضيلت ١٣

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ١٣

فقير: پاكدامن فقير ١،٧ ، ١٤;فقير كا چہرہ ١ ، ٧; فقير كى حاجت روائي ١ ، ٣ ، ٩ قدر و قيمت ٦

گھر جانا : راہ خدا ميں گھر جانا ١ ، ١٤

لجاجت : لجاجت كا جواز ٩ ;لجاجت كى مذمت ١٠

مال: مال كى كا خير ہونا ١٢;مال كى قدر و قيمت ١٢

معاش: كسب معاش كى اہميت ٤

معاشرہ : معاشرے كى ذمہ دارى ٢

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٢٧٤)

جو لوگ اپنے اموال كو راہ خدا ميں رات ميں _ دن ميں خاموشى سے او رعلى الاعلان خرچ كرتے ہيں ان كے لئے پيش پروردگار اجر بھى ہے او رانھيں نہ كوئي خوف ہوگا او رنہ حزن _

١_ شب و روز پنہاں اور آشكار انفاق كرنے والے (سب حالات اور اوقات ميں ) خدا تعالى كى خاص پاداش سے بہرہ مند ہيں _الذين ينفقون اموالهم فلهم اجرهم عند ربهم

٢_ رات كے وقت اور پنہاں طور پر انفاق كرنا ، دن

۳۱۳

كے وقت اور ظاہر طور پر انفاق سے زيادہ بہتر ہے*الذين ينفقون سرا و علانية

اگر ذكر ميں تقدم ،رتبے اور فضيلت ميں تقدم سمجھا جائے تو وقت اور حالت كے لحاظ سے انفاق كى چار صورتيں بنتى ہيں كيونكہ ايك طرف سے وقت (شب و روز) حالت ( پنہاں و آشكار) پر مقدم ہے اور دوسرى طرف سے رات ، دن پر مقدم ہے اور پنہانى حالت، آشكار حالت پر مقدم ہے لہذا فضيلت كى ترتيب كے لحاظ سے يہ چار قسميں يوں ہوں گى ١_ رات كے وقت اور پنہاں طور پر ٢_ دن كے وقت اور پنہاں طور پر ٣_ رات كے وقت ليكن آشكارا ٤ _ دن كے وقت اور آشكارا_

٣_انفاق كرنے والوں كو خدا كى پاداش، ان كے نيك عمل كا نتيجہ ہے_فلهم اجرهم عند ربهم

٤_ انفاق كرنے والوں كو خدا تعالى كى طرف سے اجر كا وعدہ انسان كو اس كى تشويق دلاتاہے_فلهم اجرهم عند ربهم

٥_ عمل خير كى طرف راغب كرنے ميں اجر كے وعدے اور ضمانت كا كردار _فلهم اجرهم عند ربهم

٦_ خدا تعالى كى بارگا ہ ميں انفاق كرنے والوں كا بلند مرتبہ _اجرهم عند ربهم

٧_ باطنى سكون، راہ خدا ميں انفاق كرنے كا ايك ثمر_الذين ينفقون و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

٨_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو روز قيامت كسى قسم كا خوف اور غم نہيں ہوگا_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

اگر يہ عدم خوف و حزن صرف آخرت سے متعلق ہو_

٩_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو نہ تو ( مستقبل ميں نادار ہونے كا ) خوف ہوتاہے اور نہ (گذشتہ زمانے ميں ديئے ہوئے مال پر) غم و اندوہ ہوتاہے_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون يہ اس بناپر ہے كہ دنياوى خوف و حزن كى نفى مقصود ہو _ خوف آئندہ كا اور حزن گذشتہ پر يعنى خدا تعالى انكى زندگى كا اس طريقے سے بند و بست كرديتاہے كہ نہ تو اپنے ديئے پر غمگين ہوتے ہيں اور نہ ہى آئندہ كسى فقر و نادارى كا انہيں احساس ہوتاہے_

۳۱۴

١٠_ خدا تعالى كى طرف سے مومنوں كو غير واجب انفاقات كى ترغيب_الذين ينفقون

امام صادق (ع) اس آيت كے متعلق فرماتے ہيں''ليس من الزكوة '' ''يہ زكات نہيں ہے''(١)

اطمينان: اطمينان كے عوامل ٧

اقدار: ٢

انفاق: انفاق پنہاں ٢;انفاق راہ خدا ميں ٧ ، ٨ ،٩; انفاق كى تشويق ١٠;انفاق كى جزا ١ ، ٣ ، ٤;انفاق كى فضيلت ٢;انفاق كے آداب ١ ، ٢ ; انفاق كے انفرادى اثرات ٧ ، ٨ ،٩

انفاق كرنے والے : انكى فضيلت ٦

تربيت : تربيت كى روش ٥

جذبہ پيدا كرنا : جذبہ پيدا كرنے كے عوامل ٤ ،٥

جزا: جزا كا وعدہ ٥

خدا تعالى : خدا تعالى كى جزا ١ ، ٣;خدا تعالى كے وعدے ٤

خوف: خوف كا مقابلہ ٩

روايت: ١٠

علم : علم كے اثرات ٤

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ٥;عمل صالح كے اثرات ٣ ، ٧

غم و اندوہ : غم و اندوہ كا مقابلہ ٩

قيامت : قيامت كے دن خوف ٨;قيامت كے دن غم و اندوہ ٨

مومنين : مومنين كى تشويق ١٠

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٤٩٩ ح ٩، نورالثقلين ج ١ ص ٢٩٠ ح ١١٥٤_

۳۱۵

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىَ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (٢٧٥)

جو لوگ سود كھا تے ہيں و ہ روز قيامت اس شخص كى طرح اٹھيں گے جسے شيطان نے چھو كر مخبوط الحواس بنا ديا ہو _ اس لئے كہ انھوں نے يہ كہہ ديا ہے كہ تجارت بھى سود جيسى ہے جب كہ خدا نے تجارت كو حلال قرار ديا ہے اور سود كو حرام _ اب جس كے پاس خدا كى طرف سے نصيحت آگئي اور اس نے سود كو ترك كرديا تو گذشتہ كا روبار كا معاملہ خدا كے حوالے ہے او رجو اس كے بعد بھى سود لے تو وہ لوگ سب جہنمى ہيں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں _

١_ سودخورشيطان زدہ لوگوں كى طرح بدحال، ديوانے اور اضطراب كا شكار ہوتے ہيں _الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس كيونكہ '' تخبط'' كا لغوى معنى ديوانگى اور اضطراب ہے (التخبط المس بالجنون والتخيل) _

٢_ سود ى اقتصادى نظام معاشرے كے توازن كو بگاڑ ديتاہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان

٣_ سودخورى معاشرے كے اقتصادى نظام كے بگاڑ

۳۱۶

اور درہم برہم ہونے كا سبب بنتى ہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان

٤_ حقائق اور احكام دين كو بيان كرنے كيلئے تمثيلات سے استفادہ كرنا قرآن كريم كى ايك روش ہے_الذين ياكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذي

٥_ نفسياتى اور روحى اضطراب ميں شيطان كى دخل اندازي_كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس

٦_ سودخور اپنى سعادت اور خوشبختى كے مقابلے ميں غلط راستے كا انتخاب كرتاہے_الذين كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس جس طرح شيطان زدہ شخص اپنے مصالح و منافع كے مقابلے ميں صحيح راستہ اختيار كرنے سے عاجز ہوتاہے ايسے ہى سود خور بھى عاجز ہوتاہے_

٧_ سود خوروں كى نظر ميں خريد و فروش اور سود كے ايك جيسا ہونے كا غلط تصور ان كے سود خور ہونے كى وجہ ہے_

الذين ياكلون الربا ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا اس بناپر كہ ''ذلك'' كا اشارہ ''اكل ربا'' كى طرف ہو كہ جو '' ياكلون الربوا''سے سمجھ ميں آتاہے_

٨_ سودخوروں كا خريد و فروش اور سود كے ايك جيسا ہونے كا غلط تصور انكى شخصيت كے غير متوازن ہونے كى علامت ہے_الذين ياكلون ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا كلمہ ''ذلك'' ، '' اكل ربا'' كى طرف اشارہ ہونے كے علاوہ خبطى ہونے اور جنون زدگى كى طرف بھى اشارہ ہوسكتاہے البتہ اس صورت ميں جملہ ''ذلك بانہم'' يعنى علت مقام اثبات ميں ہوگى كہ جسے ہم نے مذكورہ نكتے ميں علامت سے تعبير كيا ہے_

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بيع ( غير سودى لين دين) كى حليت اور ربا ( سودى لين دين ) كى حرمت كا حكم_

و احل الله البيع و حرم الربا

١٠_ سودخوروں كيلئے اس وقت تك سود كھانا حلال تھا جب تك ان كے پاس اسكى حرمت كا حكم نہيں پہنچا تھا_

۳۱۷

فمن جائه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف

جملہ'' فلہ ما سلف ''سے مراد يہ ہے كہ گذشتہ منفعت جسے سود كى حرمت كا حكم تم تك پہنچنے سے پہلے تم لوگوں نے سودى معاملات سے حاصل كيا ہے تمہارے لئے ہے اور حلال ہے جيسے كہ طبرى نے كہا ہے '' فلہ ما اخذ و اكل من الربوا قبل النہي''_

١١_ اس وقت تك بندوں كيلئے شرعى فريضہ نہيں ہوتا جب تك كہ حكم الہى ان تك پہنچ نہجائے_

فمن جائه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف

١٢_ اپنے كئے پر توبہ كرلينے والے سود خوروں كا انجام خدا كے حوالے ہے_فمن جاء ه فانتهى و امره الى الله

١٣_ خدا تعالى كى موعظ و نصيحتيں انسان كى تربيت كرتى ہيں _فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهي

كلمہ '' رب''جو تدبير و تربيت كرنے والے كے معنى ميں ہے اس نكتے كو بيان كررہاہے كہ خدا تعالى كى نصيحتيں انسان كى تربيت اور اسكے معاملات كى تدبير كيلئے ہيں _

١٤_ خدا تعالى سودخوروں كى ان كے ناپسنديدہ عمل سے توبہ كو قبول كرليتاہے_

فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف و امره الى الله

١٥_ الہى احكام خدا تعالى كى طرف سے اپنے بندوں كو وعظ و نصيحت ہيں _فمن جآء ه موعظة من ربه فانتهي

خدا تعالى كا اپنے حكم ( سود كى حرمت ) كو موعظت سے تعبير كرنے كا مطلب يہ ہے كہ اسكے احكام بھى مواعظ ہيں _

١٦_ حرمت كو جان لينے كے بعد بھى سودخورى كى طرف پلٹنا ہميشہ ہميشہ كيلئے، آتش جہنم ميں رہنے كا سبب ہے_

فمن جاء ه موعظة و من عاد فاولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

'' فمن جآء ہ موعظة''سے مراد يہ ہے كہ اس تك حكم الہى پہنچ جائے يعنى حكم كے بيان كئے جانے كے بعد اسے اس كا علم بھى ہوجائے_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ نكتے ميں ''و من عاد''كو سود خورى كى طرف پلٹنے كے معنى ميں ليا گيا ہے_

١٧_ سوداور اسكے حكم كے بيان كئے جانے كے بعد بھى سوداور خريد و فروش كے ايك جيسا ہو٢نے كا نظريہ ركھنا ٢ہميشہ كيلئے آتش جہنم ميں رہنے كا موجب ہے_

۳۱۸

قالوا انما البيع و من عاد فاولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

مذكورہ نكتے ميں '' عاد'' كا متعلق بيع اور سود كے ايك جيسا ہونے والا غلط تصور ليا گيا ہے_ پس '' و من عاد ...''كے جملے كا معنى يہ ہوگا كہ جو شخص خدا كى طرف سے سود كے حكم كے بيان ہونے كے بعد بھى اس تصور پر باقى رہے كہ سود اور خريد و فروش ايك جيسے ہيں وہ ہميشہ كيلئے آتش جہنم ميں رہے گا كيونكہ وہ در حقيقت كافر ہے_

١٨_ سود صرف ناپى جانے والى ( برتن جيسے پيمانے سے نہ گز و غيرہ سے) اور وزن كى جانے والى چيزوں ميں ہے_

احل الله البيع و حرم الربوا امام صادق (ع) فرماتے ہيں''لا يكون الربا الا فيما يكال اويوزن'' سود صرف اس چيز ميں ہوتاہے جسے ناپا جائے يا وزن كيا جائے (١)

١٩_ روز قيامت سود خور ديوانوں كى طرح محشور ہوگا_الذين ياكلون الربوا پيغمبر (ص) اسلام نے فرمايا ''ياتى آكل الربا يوم القيامة مختبلاً ...''قيامت كے دن سودخورجنون كى حالت ميں آئے گا ...(٢)

احكام ٩ ، ١٠ ، ١٨

اقتصاد: اقتصادى جمود٣

اقتصادى نظام: ٢ ، ٣

تبليغ: تبليغ كى روش ٤

تربيت: تربيت ميں مؤثر عوامل ١٣

توبہ: توبہ كى قبوليت ١٤

جہنم: جہنم ميں ہميشہ رہنا ١٦ ، ١٧

خدا تعالى: خدا تعالى كى نصيحتيں ١٣ ، ١٥

دين: دين كى تعليمات ١٥

رشد و ترقي: رشد و ترقى كے موانع ٦

____________________

١) كافى ج٥ ص ١٤٦ ح ١٠ نورالثقلين ج١ ص ٢٩١ ح ١١٥٩_

٢) الدرالمنثور ج٢ ص ١٠٢_

۳۱۹

رفتار و كردار: رفتار و كردار كى بنياديں ٨

روايت : ١٨،١٩

سماجى نظام: ٢

سود: سود كى حرمت ٩;سود كے احكام ٧ ، ٩، ١٠ ، ١٧ ، ١٨

سودخور: سود خور كا انجام ١٢;سود خور كا قياس ٧ ، ٨، ١٧;سود خور كا نظريہ ٧ ، ٨;سود خور كا نفسياتى اضطراب ١٩;سود خور كى توبہ ١٢ ، ١٤

سودخوري: سود خورى كى سزا; ١٦ ، ١٧;سود خورى كے اثرات ١ ، ٢ ، ٣ ، ٦

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ كے شرائط ١١

شيطان: شيطان كا كردار ١ ، ٥

عذاب: عذاب كے اسباب ١٦ ، ١٧

عقيدہ : باطل عقيدہ ٧،٨

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات ١ ، ٤

قيامت: قيامت ميں سود خور ١٩

گمراہي: گمراہى كے عوامل ٣ ، ٧

محرمات: ٩

معاشرتى نظام : ٢

معاشرہ : معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٣

معاملہ : سودى معاملہ ٩،١٠;معاملہ كى حليت ٩

نظريہ: باطل نظريہ ٧،٨

نفسياتى اضطراب: ٨ اسكے عوامل ١ ، ٥

۳۲۰

321

322

323

324

325

326