احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211755 / ڈاؤنلوڈ: 4586
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

احکام کی تعلیم

(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

تنظیم و ترتیب

حجة الاسلام و المسلمین محمد حسین فلاح زادہ

ترجمہ:

سید قلبی حسین رضوی

مجمع جہانی اہل بیت (ع)

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے

۴

اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علام محمد حسین فلاح زادہ کی گرانقدر کتاب'' احکام کی تعلیم'' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

مقدمہ

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

پوری تاریخ بشریت میں مصلحین اور خیر خواہوں کی ہمیشہ یہ تلاش و کوشش رہی ہے کہ ایک ایسے معاشرے کی داغ بیل ڈالیں، جس میں انسانی قدریں حاکم ہوں اور معاشرہ برائیوں سے پاک ہو۔

اس مقصد تک پہنچنے اور ایسے سماج کی تشکیل کے لئے کہ جسے بعض اوقات ''مدینہ فاضلہ'' کے نام سے یاد کرتے ہیں کچھ قوانین و ضوابط کے بارے میں بھی توجہ کی ہے تاکہ سماج کے افراد ؛اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے اور اپنے ہم نوع سے روابط برقراررکھنے کے سلسلہ میں صحیح راستہ پر چل سکیں۔

دین اسلام جو کہ بشری سعادتوں کی تضمین کا آخری مکتب ہے، ایسے معاشرے کی تشکیل کے اعتقاد کو درست سمجھتا ہے ،اور انسان کے فکرو اندیشہ کو صحیح رخ دینے کے سلسلے میں کچھ ایسے خاص اصول وقواعد پر اعتقادرکھتاہے جو کائنات کی ابتداء وانتہا کو مشخص کرتے ہیں اور انسان کو پست افکار وبے ہودہ حالات سے نجات دلاتے ہوئے با مقصد زندگی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔

۶

البتہ اسلام صرف صحیح اعتقاد کو مفید اور کار آمد نہیں سمجھتا بلکہ لوگوں سے اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ کردار وعمل کے میدان میں بھی صحیح اور غلط راستہ کو پہچانیں اور اچھائیوں کو اپناتے ہوئے برائیوں سے پرہیز کریں۔(١)

اسلام کے جس شعبہ پر اس منصوبہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسے ''فقہ ''یا ''احکام'' کہتے ہیں جو درحقیقت میں یہ عملی قوانین کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے،نیز ان کی تفسیر وتبیین معصومین علیہم السلام نے کی ہے ، یہ وہ قوانین(احکام) ہیں جو قطعاًنا قابل تغیرہیں اور ان کے اصول پر کسی قسم کا خدشہ پڑے بغیر(٢) یہ تمام موضوعات، بیرونی مصادیق اور رونما ہونے والے حوادث(٣) کا احاطہ کرتے ہیں۔

ان قوانین کی معلومات ہمیشہ دینی مدرسوں کے بنیادی اور اساسی اسباق میںشامل رہی ہے چنانچہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی علمی معاشرہے کے تشکیل کی ایک اصلی بنیاد علم فقہ ہے، اور اسلامی علوم کے فقہاء کے عالی ترین اور قابل قدر دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا نام دینی مدارس کی تاریخ کے افق پر ہمیشہ چمکتا ہوا نظر آتاہے۔ بقول امام خمینی:

'' علمائے اسلام صدیوں سے محرومین کی پناہ گاہ بنے رہے ہیں اور مستضعفین ہمیشہ بزرگ فقہائکے شیرین اور خوشگوار چشمۂ معرفت سے سیراب ہوتے رہے ہیں ''(٤)

علمائے اسلام نے اسلامی فقہ کے تحفظ اور شریعت مقدس کے دفاع میں بہت سی تلخیاں اور سختیاںبرداشت کی ہیں ،اور حلال وحرام اوردینی مسائل کی، کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر ترویج کرتے رہے ہیں۔

____________________

(١)قال علی (علیه السلام)الایمان معرفة بالقلب، وقول باللسان وعمل بالارکان (شرح نہج البلاغہ، ج ١٩، ص٥١)

(٢)حضرت ولی عصرعلیہ السلام کے اس خط کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے ایسے حوادث کے موقع پر احادیث اہل بیت علیہم السلام کے راویوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمایا ہے (وسائل الشیعہ، ج ١٨، ص ١٠١)

(٣)عن الصادق علیه السلام ):''...حتی جاء محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فجاء بالقرآن وبشریعته ومنهاجه فحلاله حلال الیٰ یوم القیامة وحرامه حرام الیٰ یوم القیامة (اصول کافی ج ٢ ص ١٧ حدیث ٢)

(٤) صحیفہ ٔ نور،ج ٢ ،ص ٨٩.

۷

کتنی کتابیں ایسی ہیں جو تقیہ کی حالت میں اور جیلوںکی کال کو ٹھریوں میں تالیف کی گئی ہیں۔(١) اور کتنے کتب خانے،جو علماء کی سیکڑوں سالوں کی محنتوں کا نتیجہ تھے، لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کے شکار ہوچکے یا دشمنوں کے غیض و غضب اور کینہ پروری کی آگ میں جل کے خاکستر ہوچکے ہیں، اس سے بڑھ کر کتنے علمائ، دین کی حفاظت کرتے ہوئے جان کی بازی لگا کر اپنے خون سے فقہ کی کتابوں کے اور اق کو رنگین کرگئے ، یہی نہیں بلکہ بعض اوقات ان کی لاشوں کو نذر آتش کرکے ان کی راکھ ہوا میں اڑادی گئی!(٢)

لیکن ان تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود ان علماء نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تلاش وکوشش کو جاری رکھتے ہوئے فقہی مسائل کو ان کے منابع سے استنباط کرکے بہترین صورت میں ترتیب دے کر لوگوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کرتے رہے ہیں ۔

آج کل مراجع عظام کے رسالے جو ''توضیح المسائل'' کے عنوان سے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، یہ انھیں فقہاکی زحمتوںکاثمرہ ہیں،یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ان توضیح المسائل'' میں موجودہ احکام میں سے صرف ایک حکم کے استنباط کے لئے طویل وقت صرف ہواہے ۔ لیکن چونکہ موجودہ ''توضیح المسائل'' عام لوگوں کے مطالعہ اوراستفادہ کے لئے تالیف کی گئی ہیں اور گزشتہ پچاس برسوں سے اسی روش پر باقی ہیں اور اس مدت کے دوران اس کی تالیف کے طریقہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی ہے، اس لئے اس میں بعض اصطلاحیںاہل فن سے مربوط ہیں اور بعض مقامات پر ان میں پیچیدہ ، مشکل اور غیر مانوس عبارتیں بھی پائی جاتی ہیں جو عام نوجوانوںکے لئے ناقابل فہم ہیں لہٰذا اسے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کامناسب متن قرار نہیں دیا جاسکتا، اگرچہ اس قسم کی عبارتیں اپنی جگہ پر ایک خاص طبقہ کی ضرورت سے بالاتر مقصد کے لئے مرتب کی گئی ہیں اور وہ اپنی جگہ پر مفید وقابل قدر ہیں، اس کی مثال ایک دواخانہ کی ہے جس سے معاثرے کے تمام لوگ استفادہ کرتے ہیں۔

____________________

(١)جیسے کتاب '' اللمعة الدمشقیہ'' تالیف فقیہ نا مدارمحمد ابن مکی العاملی معروف بہ شہیداول.

(٢)جیسے شہیداول (اور شہید ثالث)

۸

قدیم زمانے سے آج تک دینی مدارس میں مختلف علمی مضامین، منجملہ'' فقہ'' کو مختلف درجوںمیں پڑھانے کے لئے مخصوص کتابیں معین کی جاتی رہی ہیں، یہ رسم نہ تھی اور نہ ہے کہ جدید طلاب کو '' شیخ انصاری کی مکاسب''(١) پڑھائی جائے یا علم اصول میں ابتداء سے ہی '' محقق خراسانی کی کفایہ''(٢) پڑھائی جائے، اور یا فلسفہ میں شروع سے ہی''ملا صدراکی ''ا سفار'' شروع کروائی جائے بلکہ ابتداء میں سادہ، رواں اور چھوٹی کتابیں پڑھائی جا تی ہیں، اور رفتہ رفتہ مفصل اور عمیق کتابوں کو پڑھایا جاتاہے۔

اس وقت حوزۂ علمیہ (دینی مدارس) میں فقہ کی تعلیم درج ذیل تین مرحلوں میں منقسم ہے:

١۔غیراستدلالی فقہ،جیسے: توضیح المسائل'' اور ''العروة الوثقی''(٤)

٢۔نیم استدلالی فقہ، جیسے : ''الروضة البھیة''(٥) اور '' شرائع ُالاسلام''(٦)

٣۔استدلالی فقہ، جیسے: ''جواہر الکلام''(٧) اور ''الحدائق الناضرہ''(٨)

____________________

(١)یہ کتاب معاملات (لین دین) کے احکام پر مشتمل ہے اور جلیل القدر فقیہ شیخ مرتضی انصاری کی تالیف ہے آج کل یہ کتاب حوزہ ٔعلمیہ(دینی مدارس) کی عالی درجات میں پڑھائی جاتی ہے

(٢)یہ اصول فقہ کی کتاب ہے جو گرانقدر دانشور محمدکاظم خراسانی کی تالیف ہے، یہ اس وقت حوزہ علمیہ کی عالی سطح میں پڑھائی جاتی ہے.

(٣)یہ کتاب اسلامی فلسفہ کی ایک بے نظیر کتاب ہے جسے صدر الدین محمد شیرازی نے تالیف کیا ہے.

(٤)یہ کتاب علم فقہ میں ہے اور اس میں فقہ کے اہم مسائل موجود ہیں بلکہ فقہی موضوع میں فرعی مسائل کے اعتبار سے بے نظیر کتاب ہے، اسے بزرگ فقیہ سید محمدکاظم یزدی نے تالیف فرمایا ہے ۔

(٥) یہ کتاب علم فقہ میں ہے جسے قابل قدر دانشور زین الدین علی ابن احمد عاملی معروف بہ شہید ثانی''نے تالیف کیا ہے .یہ کتاب حقیقت میں شہید اول شمس الدین محمد مکی کی تالیف کردہ ''اللمعة الدمشقیة''کی شرح ہے.

(٦)یہ فقہ کی کتاب ہے،اور علامہ محقق جعفر ابن حسن یحییٰ بن سعید معروف بہ محقق حلی کی تالیف کردہ ہے، اور برسوں تک حوزہ علمیہ میں اسے پڑھایا جاتا رہا ہے.

(٧)یہ کتاب شیعہ فقہ کی ایک عظیم دائرة المعارف ہے جو شیخ محمد حسن نجفی کی تالیف کردہ ہے.

(٨)یہ فقہ کی ایک مفصل کتاب ہے جسے قابل قدر محدث اور فقیہ شیخ یوسف بحرانی نے تالیف فرمایا ہے.

۹

اس بناء پر معاشرے کے افراد کے فہم وادراک اور ضرورت کے مطابق کچھ کتابیںتالیف کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مؤمنین کسی مشکل کے بغیر اپنے شرعی فرائض کو سیکھ سکیں اور بہتر طور پر اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرسکیں۔

اگرچہ اس سلسلے میں اب تک قابل قدر کوششیں کی جاچکی ہیں اور کچھ کتابیں شائع بھی ہوچکی ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر قابل استفادہ ہے، لیکن ایسی کتابیں، جو افراد کے تعلیمی مدارج اور ان کے پیشہ کے مطابق ان کی ضروریات کو پورا کرسکیں ، تالیف نہیں کی گئی ہیں، لہٰذااس طرح کی کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت کا پوری طرح احساس کیا جارہا ہے۔

اس ضرورت نے ہمیںاس امر کی ترغیب دلائی کہ ملک میں موجودہ تعلیمی نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہی مسائل کو، فقہاکے فتاویٰ میں کسی قسم کی تبدیلی لائے بغیر اور صرف عبارتوں اوراصطلاحات کو عام فہم بناکر مثالوں کے ساتھ ، کتابی صورت میںتالیف کریں۔

ممکن ہے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہوں جنہوں نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو لیکن دینی مسائل میں یونیورسٹی سطح کے افرادسے زیادہ آگاہ ہوں لہٰذا اس کتاب کی تالیف کے دوران اکثر لوگوں کی سطح فکری کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔

بہر کیف جو کچھ اس سلسلے میں اب تک تیار کیا جاچکا ہے یا تیار ہورہا ہے وہ حسب ذیل ہے:

*تعلیم احکام: بچوں کے لئے ۔

* تعلیم احکام : سطح ایک کے لئے ۔

*تعلیم احکام : سطح عالی ۔یونیورسٹی کے طلاب کے لئے۔

* تدریس احکام کی روش: اساتذہ اور دینیعلوم کے طلاب کے لئے ۔

۱۰

چند نکات کی یاد دہانی:

١۔اس کتاب کا متن ؛ جمہوریہ اسلامی ایران کے بانی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی (قدس سرہ)کے فتاویٰ کے مطابق ہے۔

٢۔تین مراجع یعنی حضرت آیت اللہ العظمیٰ اراکی، حضرت آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی کے فتاویٰ اضافہ کئے گئے ہیں ۔اختلاف کی صورت میں اسی صفحہ پراس علامت(ز) کے ذریعہ ان کے فتاویٰ کو مشخص کردیا گیا ہے۔

٣۔ کتاب کے متن میں عام طور سے ضروری اور کلی مسائل بیان کئے گئے ہیں اور جزئی مسائل کو کم بیان کیا گیا ہے اور ان میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے ، اس کے علاوہ تمام اختلافی فتاویٰ ایسے نہیں ہیں کہ اگر مقلد متن پر عمل کرے تو اس نے اپنے مرجع تقلید کے فتویٰ کے خلاف عمل کیا ہو، یا کسی واجب کو ترک کیا ہو، مثال کے طور پر اگر متن میں موجود مسئلہ بعنوان فتوی ذکر ہوا ہو لیکن کسی دوسرے کا مرجع تقلید اس مسئلہ میں احتیاط واجب کا قائل ہو ، اور اس کا مقلد ان کے فتویٰ پر عمل کرے تو اس نے اسی احتیاط پر عمل کیا ہے اور کوئی مشکل نہیں ہے۔

٤۔مسائل کو انتخاب کرتے وقت کوشش یہ رہی ہے کہ جوانوںکی ضرورت کے پیش نظر مسائل کا انتخاب کیاجائے، اگر کہیں کوئی فرعی مسئلہ حذف ہوگیا ہے تو عنوان کچھ اس انداز سے رکھا گیا ہے تا کہ فتویٰ میں کوئی مشکل پیش نہ آئے، مثال کے طور پر مطہرات کی بحث میں، باوجود اس کے کہ مطہرات دس ہیں،اس کتاب میں صرف پانچ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے لیکن مسئلہ کو حسب ذیل صورت میں پیش کیا گیا ہے:

''تمام نجس چیزیں پاک ہوجاتی ہیں اور پاک کرنے والی عمدہ چیزیں حسب ذیل ہیں...''

۱۱

٥۔ یہ ایک تدریسی کتاب ہے جو معلم کے توسط سے پڑھائی جاتی ہے اس کے باوجود کوشش کی گئی ہے کہ اسے ایسے تالیف کیا جائے تاکہ اس کا براہ راست مطالعہ کرنا بھی مفید ہو اور مطالعہ کرنے والے بھی شرعی مسائل کو سمجھ سکیں ۔

٦۔ قارئین کرام اگر مسائل کی تفصیلات جاننا چاہیں یا مسائل کے متن کو ان کے منابع میں دیکھنا چاہیں تو اس کے لئے ہر صفحہ کے آخر پر مسائل کے حوالے تحریر کردئے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ مراجع تقلید کے حواشی بھی ان کی توضیح المسائل کے مسئلہ نمبر کے ساتھ درج کئے گئے ہیں ۔

٧۔ ہم مراجع عظام سے معذرت خواہ ہیں کہ اختصار کے پیش نظر حواشی میں ان کے اسم گرامی کے ساتھ پورے القاب نہیںلاسکے ہیں اور صرف مشہور لقب پر اکتفا کیا ہے۔

٨۔ موجود کتاب، اشاعت سے پہلے، متعدد بار پڑھائی جاچکی ہے، نیز ممکن حد تک نواقص بھی برطرف کئے جا چکے ہیں، حوزہ علمیہ کے افاضل احباب کی عنایتوںاور ان کے مطالعہ اور راہنمائی کے علاوہ، ہائی اسکول کے چند نوجوانوں نے بھی اس کا مطالعہ کیا اور طباعت سے پہلے تحقیق کی ہے، تا کہ مخاطب کی علمی سطح کے مطابق ہوںلہٰذا میںیہاں پر تمام مخلصین کا شکر گزار ہوں۔

اختصار کے پیش نظر حواشی میں مندرجہ ذیل علائم سے استفادہ کیا گیا ہے:

ج =جلد ، ص =صفحہ ، م = مسئلہ ، س =سوال

٩۔ اس کتاب کو تالیف کرتے وقت درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے :

* تحریرالوسیلہ ۔ ۔امام خمینی ۔۔ناشر: دارالانوار، بیروت ۔

*العروةالوثقیٰ۔۔(دوجلدی)۔۔مراجع تقلید کے حواشی کے ساتھ، ناشر، انتشارات علمیہ اسلامیہ۔

* وسیلتہ النجاة۔۔ حاشیہ آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی ۔۔ ناشر: دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت

* رسالۂ توضیح المسائل۔۔ امام خمینی۔۔ناشر: بنیاد ثپروھشہای اسلامی، آستان قدس رضوی

*رسالۂ توضیح المسائل۔۔ آیت اللہ الظمیٰ گلپائگانی ۔۔ ناشر:،دارالقرآن الکریم

*رسالۂ توضیح المسائل۔آیت اللہ الغظیٰ اراکی۔۔ ناشر،دفتر تبلیغات اسلامی۔ حوزہ علمیہ قم

* رسالۂ توضیح المسائل۔۔آیت اللہ العظمیٰ خوئی ۔۔ مبطع، علمی پریس

*استفتاآت امام خمینی۔۔ناشر:،دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔

۱۲

امید ہے (انشاء اللہ ) یہ تالیف، عزیز نوجوانوں کے لئے احکام کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوگی، بارگاہ الٰہی میں دست بہ دعا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کو زندگی کے تمام مراحل میں مدد فرمائے ۔

آخر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس کتاب کا مطالعہ کرکے میری راہنمائی فرمائی اور خداوند متعال کی عنایتوں کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے یہ توقیق بخشی۔

ہم دوستوں کی تعمیری تجاویز کا خیر مقدم اور استقبال کریں گے۔

رَبَّنَاتَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ (١)

موسم گرما: ١٩٩٣ئ۔

محمد حسین فلاح زادہ برقوئی

قم المقدسہ

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت ١٢٧.

۱۳

سبق نمبر١

اسلام میں احکام کا مقام

اسلام آخری اورکامل ترین دین ہے ،جس کے تمام پروگرام اور دستور العمل فطرت اور انسانی مصلحتوں کے مطابق ہیں، چنانچہ ان کو عملی جامہ پہنانا انسان کی سعادت وخوش بختی کی ضمانت ہے اور جس معاشرے میںیہ اسلامی قوانین نافذ ہوجائیں وہ مثالی معاشرہ ہوسکتا ہے اس سبق کا موضوع یعنی احکام،اسلام کے انسان ساز قوانین کا ایک بنیادی حصہ ہے۔

اسلام کے حیات بخش پروگرام حسب ذیل حصوں پر مشتمل ہیں:

الف : اعتقادی دستورالعمل یعنی اصول دین۔

ب: عملی احکام، یعنی فروع دین۔

ج: نفسیات وکردار سے متعلق مسائل، جسے اخلاق کہا جاتاہے۔

پہلا حصہ :

یہ وہ دستور العمل ہیں جن کے ذریعہ انسان کی فکر واعتقاد کو درست کیا جاتاہے، انسان کو عقائد کے سلسلے میں دلیل کے ذریعہ اعتقاد پیداکرنا چاہئے ( اگرچہ دلائل سادہ ہوں)۔ چونکہ اسلام کے دستور العمل کا یہ حصہ اعتقادات سے مربوط ہے اور ان میں یقین پیدا کرنے کی ضروت ہے، اس لئے ان میں دوسروں کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے ۔

دوسرا حصہ:

یہ ایک عملی دستورالعمل ہے، جس میں انسان کا فریضہ معین ہوتاہے کہ کن کاموں کو انجام دے اور کن کاموں سے اجتناب کرے ایسے دستورالعمل کو '' احکام '' کہتے ہیں اور ایسے احکام کو جاننے کے لئے تقلید اور کسی (ماہر)مجتہد کی پیروی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

۱۴

احکام کی قسمیں:

انسان جوبھی کام انجام دیتا ہے، اس سے متعلق اسلام میں ایک خاص حکم موجود ہے اور یہ احکام حسب ذیل ہیں:

١۔ واجب : وہ کام جس کا انجام دینا ضروری ہے اور اس کے ترک کرنے میں عذاب ہے، جیسے: نماز و روزہ....

٢۔حرام: وہ کام جس کا ترک کرنا ضروری ہے، اوراس کے انجام دینے میں عذاب ہے، جیسے: جھوٹ اور ظلم...

٣۔ مستحب: وہ کام جس کا انجام دینا اچھا اور باعث ثواب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے میں عذاب نہیں ، جیسے: نمازشب وصدقہ

٤۔ مکروہ: وہ کام جس کا ترک کرنا اچھا اور موجب ثواب ہے لیکن اس کے انجام دینے میں عذاب نہیں، جیسے: کھانے پر پھونک مارنا ، یا گرم کھانا کھانا...

٥۔ مباح: وہ کام جس کا انجام دینا یا ترک کرنا مساوی ہے اور نہ اس میں کوئی عذاب ہے اور نہ ثواب، جیسے : چلنا، بیٹھنا...(١)

____________________

(١) الفتاویٰ الواضحة، ج ١، ص ٨٣.

۱۵

تقلید

تقلید کے معنی پیروی کرنا اور نقش قدم پر چلنا ہے ،یہاں تقلید کے معنی ''فقیہ'' کی پیروی کرنا ہے یعنی اپنے کاموں کو مجتہد کے فتویٰ کے مطابق انجام دینا۔(١)

١۔ جوشخص خود مجتہد نہیں اوراحکام ودستورات الٰہی کو حاصل بھی نہیں کرسکتا تواُسے مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے ۔(٢)

٢۔احکام دین میں اکثر لوگوں کا فریضہ تقلید کرناہے چونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو احکام میں اجتہاد کرسکتے ہیں۔(٣)

٣۔ جس مجتہد کی دوسرے لوگ تقلید کرتے ہیں اسے ''مرجع تقلید'' کہتے ہیں۔

٤۔ جس مجتہد کی انسان تقلید کرے، اس میں مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:

* عادل ہو *شیعہ اثنا عشری ہو ۔ * زندہ ہو ۔ * احتیاط واجب کی بناپر اعلم ہو اور دنیا طلب نہ ہو۔(٤) * مرد ہو۔ *بالغ ہو۔

شرائط مرجع تقلید کی وضاحت:

١۔ عادل اسے کہتے ہیں، جو تقویٰ وپرہیز گاری کی ایسی منزل پر فائز ہو،جہاں واجبات کو انجام دیتا ہو اور گناہوں سے پرہیز کرتا ہو،نیز گناہان کبیرہ ( * )سے پرہیز اور گناہان صغیرہ کی تکرار سے

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ،ج ١،ص ٥.

(٢) تحریر الوسیلہ ،ج ١، ص ٥.

(٣) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص٥.

(٤) ۔ توضیح المسائل ،م٢.

* گناہ کبیرہ،ایسا گناہ جس کے ارتکاب پر عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے، جیسے : جھوٹ، تہمت وغیرہ

۱۶

اجتناب، عدالت کی علامت ہے۔ *(١)

٢۔ تازہ بالغ ہونے والے نے اگر تقلید نہ کی ہو تو اسے چاہئے کسی ایسے مجتہد کو اپنا مرجع تقلید قرار دے جو زندہ ہو ، مردہ مجتہد کی تقلید نہیں کی جاسکتی ہے۔(٢)

٣۔ جو کسی مجتہد کی تقلیدکرتا ہو، اگر اس کا مرجع تقلید مرجائے تو وہ زندہ مجتہد کی اجازت سے اپنے مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہ سکتاہے۔(٣)

٤۔ جن مسائل کے بارے میں مردہ مجتہد نے کوئی فتویٰ نہ دیا ہو اور اسی طرح جنگ وصلح وغیرہ جیسے نئے مسائل کے بارے میں، میت کی تقلید پر باقی رہنے والے شخص کو زندہ مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے۔(٤)

٥۔جس مجتہد کی انسان تقلید کرے، وہ مذہب جعفری کا پیرو؛یعنی شیعہ اثنا عشری ہو۔ لہٰذاشیعہ، احکام میں کسی غیر اثناء عشری مجتہد کی تقلید نہیں کرسکتے ۔(٥)

٦۔ اسلام نے مرد اور عورت کا فریضہ ان کی فطری حالت اور تخلیقی کیفیت کے لحاظ سے معین کیا ہے۔ مرجعیت کی انتہائی زبردست اور بھاری ذمہ داری کو عورتوں کے کندھوں سے اٹھالینا، ہرگز ان کی آزادی سے محرومیت نہیں ہے چونکہ اسلام میں، عورتوں کو بھی حق ہے کہ اسلامی علوم میں اجتہاد تک تعلیم حاصل کریں اور احکام الٰہی کو ان کے منابع (قرآن وروایات) سے استخراج کریں اور کسی کی تقلید نہ کریں۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١١، ص ١٠، م ٢٨

(٢)تحریرالوسیلہ ،ج ١، ص ٧ ،م ١٣

(٣) تحریر الوسیلہ، ج ١ ، ص ٧، م ١٣.

(٤) استفتا آت، ج ١،ص ١٢، س ٢٠.

(٥)توضیح المسائل،م٢.

*(گلپائیگا نی۔ خوئی)عدالت یہ ہے کہ اگر کسی کے بارے میں اس کے ہمسایوں یا اس کے جاننے والوں سے اس کا حال واحوال پوچھا جائے تو اس کی اچھائی اور نیکی کو بیان کریں ۔

۱۷

٧۔ اعلم وہ ہے جو(قرآن وروایات سے)احکام کے استخراج میں دوسرے مجتہدوں سے ماہر تر ہو۔(١)

٨۔ مکلف پر واجب ہے کہ مجتہداعلم کو پہنچاننے میں جستجو کرے۔(٢)

٩۔انسان تقلید کرنے میں آزاد ہے اور کسی کے تابع نہیں ہے ۔ مثلاًاس سلسلے میں عورت مردکی تابع نہیں ہے ، وہ جس کسی کو واجدشرائط پائے اس کی تقلید کرسکتی ہے،اگرچہ اس کا شوہر کسی اور مجتہد کا مقلد ہو۔(٣)

____________________

(١)العروة الوثقیٰ، ج اص٧، م١٧.

(٢)تحریر الوسیلہ ،ج ١، ص ٦، م ٥.

(٣) استفتاآت، ج ١، ص ١٣، س ٢٥.

۱۸

سبق نمبرایک کا خلاصہ

١۔ اسلام کے مجموعی پروگرام سے مراد : عقائد، احکام اوراخلاق ہے۔

٢۔ احکام تکلیفی سے مراد : واجب، حرام ، مستحب، مکروہ اور مباح ہے۔

٣۔ تقلید، یعنی مجتہد کے قتویٰ پر عمل کرنا۔

٤*ندہ مجتہد کی اجازت سے میت کی تقلید پر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں ۔

٥۔جو شخص تقلید میت پر باقی ہو، اسے نئے مسائل میں زندہ مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے ۔

٦۔ ہر شخص تقلید کرنے میں آزاد ہے اور کسی کے تابع نہیں ۔

۱۹

سوالات:

١۔ اصول دین کتنے ہیں؟

٢۔ اصول اور فروع دین کے سلسلے میں مکلف کا فریضہ بیان کیجئے۔

٣۔ اسلامی دستوار العمل کے پانچ نمونے بیان کیجئے۔

٤۔ اگر کوئی عورت درجہ اجتہاد پر پہنچ جائے تو کیا وہ اپنے فتویٰ کے مطابق عمل کرسکتی ہے،یا اسے دوسروں کی تقلید کرنا چاہئے؟

٥۔ عادل کون ہے اور اسے کیسے پہچانا جائے گا ؟

٦۔ تقلید میت پر باقی رہنے والے شخص کے لئے، زمانے کے حالات کے مطابق پیش آنے والے نئے مسائل، جیسے :جنگ وجہاد میں، فریضہ کیا ہے؟

۲۰

آیت ۵

( وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم لوگ اللہ كى اس نعمت كو ياد كرو كہ اس نے تمھيں فرعون والوں سے نجات دلائي جب كہ وہ بدترين عذاب ميں مبتلا كررہے تھے كہ تمھارے لڑكوں كو ذبح كررہے تھے اور تمھارى لڑكيوں كو(كنيزي)كے لئے زندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے پروردگار كى طرف سے بڑا سخت امتحان تھا_

۱_موسىعليه‌السلام اوران كى قوم كے واقعات كى ياداورى كرانا اوراسے ذہن نشين كرنا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى تھي_

واذ قال موسى لقومه

مذكورہ مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ ''اذ''سے پہلے فعل ''اذكر''مقدر ہو اس بناء پر ايت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوكر انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى بيان كررہى ہے_

۲_موسىعليه‌السلام اوران كى قوم كے واقعات كا سبق اموز اورياد ركھنے كے قابل ہونا_واذ قال موسى لقومه

خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حضرت موسىعليه‌السلام كے قصے كو ياد كرنے كا حكم ديا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ قصہ بہت ہى اہميت اورفوائد كاحامل ہے اور انسانوں كے لئے بہتر ہے كہ وہ اسے ياد ركھيں _

۳_حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے ان نعمتوں كو ياد ركھنے كا تقاضا كرنا كہ جو خداوند متعال نے انھيں عطا كى ہيں _

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم

۴_بنى اسرائيل ،عظيم نعمت سے بہرہ مند تھے_واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم

ياد اورى كا حكم دينا ،اس بات كا قرينہ ہے كہ ''نعمة الله ''سے مراد ايك خاص اوراہم نعمت ہے_

۵_حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے ہميشہ اس با ت كو ذہن نشين كرنے كى تاكيد كرنا كہ ال فرعون كى قتل و غارت اوراذيت سے ان كى نجات كا سب سے بڑا سبب خداوند متعال ہے_

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون

۲۱

۶_ال فرعون كے قتل وغارت اوراذيت سے بنى اسرائيل كا نجات پانا، خداوند متعال كى طرف سے ان پر ايك واضح نعمت تھى كہ جو ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ہے_واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون

۷_ظالمانہ اجتماعى نظام سے نجات حاصل كرنا ،ايك ايسى الہى نعمت ہے كہ جسے ہميشہ ياد ركھنا چاہئے_

اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم

۸_ال فرعون كے ظالمانہ نظام سے بنى اسرائيل كى نجات كادن ''ايام الله '' ميں سے ہے_

و ذكّرهم با يّام الله ...واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

اس ايت ميں '' اذكروا ''كا كلمہ ہو سكتا ہے ''ايام الله '' كى ياد دہانى كرانے كے مصاديق ميں سے ہو كہ جسے بيان كرنے كا حضرت موسىعليه‌السلام كو حكم ديا گيا تھا_

۹_فرعون كا خاندان اور اسكے ساتھى سب كے سب ظالم اور اذيت وازار پہنچانے والے لوگ تھے_

اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

۱۰_لوگوں كو ظلم وستم سے نجات دلانے اور انسانى تاريخ كے انقلاب ميں خداوند متعال كا اہم ترين كردار _

اذ ا نجكم من آل فرعون

۱۱_حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم (بنى اسرائيل ) پر بدترين اذيت وازار مسلط كرنا، ال فرعون كا ہميشہ كا وتيرہ تھا_

يسومونكم سوء عذابكم

''يسومون ''، '' سوم '' سے ہے جس كا معنى اذيت اور عذاب مسلط كرنا ہے اسے فعل مضارع كے ساتھ لانااسكے دوام اور استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۲_ال فرعون ،قوم موسىعليه‌السلام (بنى اسرائيل ) كے بيٹوں كا تو وسيع پيمانے پر قتل عام كرتے تھے ليكن ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے_ويذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم

باب تفعيل سے '' يذبّحون'' كا استعمال كہ جس كا معنى تكثير بھى ہے شايد مذكورہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہو_

۲۲

۱۳_بنى اسرائيل كے لڑكوں كو قتل كرنا اوران كى عورتوں كو زندہ ركھنا ان پر ال فرعون كى طرف سے اذيت وازار كو مسلط كرنے كى بدترين مثال ہے_يسومونكم سوء العذاب ويذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم

'' يسومونكم ''كے بعد''يذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم ''كو لانا ہوسكتا ہے اس كے لئے تفسيرى جملہ ہو اس صورت ميں يہى دو مورد ال فرعون كى ظالمانہ اذيتوں كى تفسير اورتوضيح ہيں _

۱۴_معاشرے ميں مردوں كى نسبت عورتوں كى تعداد ميں اضافے اورابادى كے غيرمعتدل ہوجانے كى وجہ سے عورتوں كے لئے تكليف دہ اجتماعى مشكلات كا پيدا ہوجانا_يستحيون نساء كم

خداوندمتعال نے ال فرعون كى طرف سے اذيت وازار كى وضاحت كے لئے لڑكوں كو قتل كرنے اورعورتوں كو زندہ ركھنے كى مثال دى ہے ممكن ہے يہ مثال اس لئے دى گئي ہو كہ اس طرح كے كام ابادى كو غيرمعتدل بنا ديتے ہيں جس كے نتيجے ميں عورتوں كى ابادى بڑھ جاتى ہے جو لوگوں كے لئے اذيت و ازار كا باعث بنتى ہے_

۱۵_فرعون كے استبدادى نظام جيسا اجتماعى ظالمانہ نظام تاريكيوں ميں سے ايك تاريكى شمار ہوتا ہے_

ا خرج قومك من الظلمت الى النور ...اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

۱۶_ال فرعون كى طرف سے لڑكوں كو قتل كرنے اورعورتوں كو زندہ ركھنے جيسے بدترين اذيت وازار كا مسلط كيا جانا، بنى اسرائيل كے لئے خداوند متعال كى جانب سے ايك بڑا امتحان تھا_

يسومونكم سوء العذاب وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ جب ''ذلكم '' كا مشارٌ اليہ ال فرعون كى طرف سے ديئے جانے والا اذيت وازار ہو_

۱۷_بنى اسرائيل كا ال فرعون كے اذيت وازار اور قتل سے نجات حاصل كرنا، ان كے لئے خداوند متعال كا عظيم امتحان تھا_اذ ا نجكم من آل فرعون ...وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ جب

۲۳

''ذلكم ''كا مشاراليہ بنى اسرائيل كا خداوند متعال كے ذريعے ال فرعون كے ظالمانہ رويئے سے نجات پانا ہو_

۱۸_بندوں كى ازمائش، ان پر ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

۱۹_ظالمانہ اجتماعى نظاموں سے نجات كى نعمت كا الہى ازمائش كے وسيلوں ميں سے ہونا_

اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون ...وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

۲۰_خداوند كى طرف سے بندوں كى ازمائش كا مراتب و درجات كے مطابق ہونا_وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

ال فرعون:ال فرعون كى تكاليف اوراذيتيں ،۹;ال فرعون كے ظلم،۹

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوربنى اسرائيل كى تاريخ،۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورحضرت موسىعليه‌السلام كا قصہ،۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري،۱

الله تعالى :الله تعالى كے امتحانات ۱۶،۱۹،۲۰;الله تعالى كا نجات دينا ۱۰;الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۱۸;الله تعالى كى نعمتيں ۶،۷;الله تعالى كا كردار۱۰

امتحان -:امتحان كے وسائل ۱۹;اذيت كے ذريعے امتحان ۱۶ ; قتل كے ذريعے امتحان ۱۶;نجات كے ذريعے امتحان۱۷،۱۹;عظيم امتحانات۱۶،۱۷ ; امتحان كے مراتب ۲۰

انسان :انسانوں كا امتحان ۱۸

ايام الله : ۸

بنى اسرائيل :بنى اسرائيل كا امتحان ۱۶; بنى اسرائيل كى اذيت ۱۱ ; بنى اسرائيل كى عورتوں كا زندہ رہنا۱۲، ۱۳، ۱۶ ; بنى اسرائيل كا امتحان۱۷، بنى اسرائيل كى تاريخ ۱۲، ۱۳، ۱۶، ۱۷; بنى اسرائيل كا اذيت و ازار ۱۱،۱۳;بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۵; بنى اسرائيل كے بيٹوں كا قتل۱۲، ۱۳، ۱۶; بنى اسرائيل كى نجات۶،۸، ۱۷; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳، ۴، ۶

تاريخ:تاريخى تحولات كا سرچشمہ۱۰

۲۴

حكومت:ظالمانہ حكومت۱۵، ۱۹

ذكر:ذكر نعمت كے اثرات۱۵; ذكر نعمت كى اہميت۳; بنى اسرائيل كى تاريخ كا ذكر۱،۲; حضرت موسىعليه‌السلام كے قصے كا ذكر ۱،۲; بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر۵;نعمت كا ذكر۶، ۷

ظالمين:۹ظلم:ظلم سے نجات كاسبب ۱۰

عورت:عورتوں كے زيادہ ہونے كے اثرات ۱۴; عورتوں كى اذيت كا پيش خيمہ۱۴

فرعون:فرعون كى استبدادى حكومت ۱۵; فرعون كاظلم ۱۵; فرعون كا سياسى نظام۱۵

فرعونى گروہ:فرعونى گروہ كى اذيتيں ۱۱; فرعونى گروہ كا بدترين ظلم وستم ۱۳; فرعونى گروہ كا اذيت وازار دينا ۹; فرعونى گروہ كے اذيت و ازار ۱۱، ۱۳، ۱۶;فرعونى گروہ كا ظلم ۹، ۱۱; فرعونى گروہ كے قتل ۱۲، ۱۳; فرعونى گروہ كے اذيت وازار سے نجات ۸، ۱۷; فرعونى گروہ كى خصوصيات ۱۱

گمراہي:گمراہى كے موارد ۱۵

مشكلات:اجتماعى مشكلات كا پيش خيمہ ۱۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۳،۵; قصہ موسىعليه‌السلام سے عبرت ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اوربنى اسرائيل ۵

نعمت:ظالموں سے نجات كى نعمت ۷، ۱۹

ياددہاني:تاريخ بنى اسرائيل كى ياددہانى ۱; قصہ موسىعليه‌السلام كى ياددہانى ۱

۲۵

آیت ۷

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ )

اور جب تمھارے پروردگار نے ا علان كيا كہ اگر تم ہمارا شكريہ ادا كرو گے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ كر ديں گے اور اگر كفران نعمت كروگے تو ہمارا عذاب بھى بہت سخت ہے_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كو اس بات كى ياد دہانى كرانے كے پابند تھے كہ جو بھى شخص شكرگذار ہوگا يقينا اس كى نعمت ميں اضافہ ہو گا اورجو بھى كفران نعمت كرے گا وہ شديد عذاب سے دوچار ہوگا_

و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

''و اذ تا ذّن '' ،''اذ قال'' پر عطف ہے كہ جس ميں '' اذكر''مقدر ہے جس كے مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۲_حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو خداوند متعال كے فرمان اورہدايات كو ياد ركھنے كى تاكيد كى كہ جو بھى شكرگذار رہے گا خداوند عالم اس كى نعمتوں ميں اضافہ فرمائے گا اورجو بھى كفران نعمت كرے گا وہ شديد عذاب ميں گرفتار ہوجائے گا_

اذكروانعمة الله عليكم ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

يہ مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ جب'' اذ تا ذّن''قول موسىعليه‌السلام ہو اور'' اذكروانعمة الله ''پر'' عطف ہو_

۳_ربوبيت الہى كا تقاضا يہ ہے كہ شكر كرنے كى صورت ميں نعمت ميں اضافہ كيا جائے اوركفران نعمت كى صورت ميں عذاب سے ڈرايا جائے_و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۴_خداوند متعال كى نعمتوں كا شكر بجالانا ايك ضرورى امر اورخاص اہميت ومنزلت كا حامل ہے_

و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم

شكر بجالانے كے بارے ميں خداوندمتعال نے خاص فرمان صادر كيا ہے جس سے شكر كى اہميت اورمنزلت كا پتہ چلتا ہے_

۵_ظالمانہ نظام سے نجات پانے كى نعمت پر شكر بجالانا اس نعمت ميں اضافے اوراس كے دوام كا باعث بنتا ہے اوراس كا كفران اس نعمت كے زائل ہوجانے كاانديشہ ہوتا ہے_

اذ ا نجكم من آل فرعون ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۲۶

۶_نعمت ميں اضافہ كرنا ،خداوند متعال كا كام ہے_لئن شكرتم لا زيدنّكم

۷_فرعونى گروہ كے ظلم وستم سے بنى اسرائيل كا نجات پانا ان كے لئے ايك بڑى نعمت تھى جس پر انھيں شكر بجالانا چاہئے تھا_اذ ا نجكم من آل فرعون ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم

''اذ تا ذّن ربّكم '' كاجملہ كلام موسىعليه‌السلام كا دوام ہے كہ جس كے ذريعے وہ بنى اسرائيل كو فرعونى گروہ كے چنگل سے نجات پانے كى ياددہانى كرا رہے ہيں حضرت موسىعليه‌السلام نے اس كلام كے ذريعے اشارتاً بنى اسرائيل كو ياد دہانى كرائي ہے كہ ان كا نجات پانا، نعمت خداوندى ہے جس پر انھيں شكر بجالانا چاہئے_

۸_قران كے تربيتى طريقوں ميں سے ايك نيك اورپسنديدہ عمل پراجرو ثواب عطا كرنے كى بشارت دينا اوربرے اعمال پر سزا وعذاب سے ڈراناہے_لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۹_نعمتوں كے كم يا زيادہ ہونے ميں انسان خود بنيادى كردار ادا كرتے ہيں _

لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۱۰_خداوند متعال كا عذاب بہت ہى شديد ہے_ان عذابى لشديد

۱۱_''قال ا بو عبدالله عليه‌السلام :ا يّما عبد ا نعم الله عليه بنعمة فعرفها بقلبه وحمدالله عليها بلسانه لم تنفد حتى يا مرالله له بالزيادة وهوقوله:'' لئن شكرتم لا زيدنّكم'' ;(۱) حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جس بندے كو بھى خداوند عالم كوئي نعمت عطا كرے تو اگر وہ اسے اپنے دل سے پہچانے اوراس نعمت پر خدا كى زبان سے ستائش كرے تو ابھى اس كى حمدو ستائش ختم بھى نہيں ہوگى كہ خداوند اس كى نعمت ميں اضافہ كرنے كاحكم فرمائے گا اوريہ قول خداوند ہے كہ :'' لئن شكرتم لا زيدنّكم'' _

____________________

۱)تفسيرقمى ،ج۱،ص۳۶۸_ نورالثقلين، ج۲،ص۶ ۵۲، ح۱۲، ۱۵_

۲۷

۱۲_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام قال:فيماا وحى الله عزّوجلّ الى موسى عليه‌السلام يا موسى اشكرنى حق شكرى فقال: ياربّ وكيف ا شكرك حق شكرك وليس من شكر: ا شكرك به الّا وا نت ا نعمت به عليّ؟ قال:يا موسى الان شكرتنى حين علمت ا ن ذلك منّي ;(۱) حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كو وحى كى كہ اے موسىعليه‌السلام جس طرح شكر ادا كرنے كا حق ہے اس طرح ميرا شكر بجا لاو _ حضرت موسىعليه‌السلام نے عرض كي:ميں تيرا شكر كس طرح بجا لاو ں كہ حق شكر ادا ہوجائے اوركوئي بھى ايسا شكر نہيں كہ جس كے ساتھ ميں تيرا شكر كروں سوائے اس كے كہ وہ شكر خود ايك نعمت ہے جو تونے مجھے عطا فرمائي ہے_ خداوند متعال نے فرمايا:اب جبكہ تم نے جان ليا ہے كہ (شكر گذارى كي) يہ نعمت ميرى طرف سے ہے تو پھر ميرا شكر بجا لاو _

۱۳_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام قال:شكرالنعمة اجتناب المحارم وتمام الشكر قول الرجل الحمدلله ربّ العالمين ;(۲) اما م جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمايا:گناہوں سے پرہيز كرنا نعمت كا شكر ہے اورشكر كامل انسان كا ''الحمدلله ربّ العالمين''كہنا ہے_

۱۴_''عن الصادق عليه‌السلام : ...ان الكبائر كفران النعمة ''ولئن كفرتم ان عذابى لشديد'' ...;(۳) حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے گناہان كبيرہ كے بارے ميں فرمايا ...بتحقيق كفران نعمت گناہان كبيرہ ميں سے ہے(جيسا كہ خداوند كا فرمان ہے) :''ولئن كفرتم ان عذابى لشديد'' _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كا كردار ۶; الله تعالى كى ربوبيت كے اثرات ۳; الله تعالى كے عذاب كى خصوصيات ۱۰

انذار:انذار سزا كى ايم قسم ہے۸

انسان:انسان كا كردار ۹

بشارت:

____________________

۱) كافي،ج۲،ص۹۸،ح۲۷_بحارا لانوار، ج۶۸ ،ص۳۶، ح۲۲ _

۲)اصول كافي،ج۲،ص۹۵،ح۱۰_نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۵۲۹ ،ح۲۴_

۳)مناقب ابن شھراشوب،ج۴،ص۲۵۱، بحار الانوار ج۴۷ ، ص ۲۱۷ ،ح۴_

۲۸

بشارت كا اجروثواب ہونا ۸

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كو نصيحت ۲; بنى اسرائيل كى نجات ۷; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۷

تربيت:تربيت كا طريقہ ۸

حكومت:ظالمانہ حكومت ۵

حمد:حمد خدا كے اثرات ۱۱

ذكر:خدا كى نصيحتوں كا ذكر۲

روايت: ۱۱،۱۲، ۱۳، ۱۴

شاكرين:شاكرين كى نعمت كا زيادہ ہونا ۲۱

شكر:شكر نعمت كے اثرات۱،۲،۳،۵; شكر نعمت كى اہميت ۴; شكر كى حقيقت ۱۲; نعمت كا شكر ۱۲; شكر نعمت كى ضرورت ۴; شكر نعمت كا مطلب ۱۳

عذاب:اھل عذاب۱،۲; شديد عذاب ۱،۲، ۱۰; عذاب كے مراتب ۱، ۲، ۱۰; عذاب كے اسباب۱،۲،۳

عمل:پسنديدہ عمل كااجر ۸; ناپسنديدہ عمل كى سزا ۸

فرعونى گروہ:فرعونى گروہ سے نجات ۷

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱،۲،۳، ۵; كفران نعمت كے موارد ۱۴

گناھان كبيرہ:گناہان كبيرہ كے اثرات ۱۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى ارزوئيں ۲

نعمت:نعمت كے زيادہ ہونے كے اسباب ۱، ۲، ۵، ۹، ۱۱; سلب نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے كم ہونے كے اسباب ۹; مراتب نعمت ۷; نعمت كا شكر بجا لانا ۱۲;

ظالموں سے نجات كى نعمت ۵; عظيم نعمتيں

۲۹

آیت ۸

( وَقَالَ مُوسَى إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعاً فَإِنَّ اللّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ )

اور موسىعليه‌السلام نے يہ بھى كہہ ديا كہ اگر تم سب اور روئے زمين كے تمام بسنے والے بھى كافر ہوجائيں تو ہمارا اللہ سب سے بے نياز ہے اور وہ قابل حمدو ستايش ہے _

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى رسالت كافريضہ ادا كرتے ہوئے بنى اسرائيل سے كہا كہ ان كا اورپورى زمين پر بسنے والے انسانوں كا كفرخداوند متعال كو كسى قسم كا نقصان نہيں پہنچا سكتا_

وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

'' ان تكفروا'' ميں '' ان''شرطيہ ہے اوراس كا جواب''لم يتضررھو''ہے كہ جو محذوف ہے اورجملہ'' فانَّ الله يَغَني'' محذوف جزائے شرط كى علت بيان كررہا ہے_

۲_بنى اسرائيل كا خيال تھا كہ خداوند متعال كو ان كے ايمان لانے يا كفر اختيار كرنے سے فائدہ ياضرر حاصل ہوتا ہے_

وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

۳_خداوند متعال كى نعمتوں كا كفران، اس كى ذات كو كسى قسم كاضرر ونقصان نہيں پہنچاتا_

ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعا

''ولئن كفرتم''كہ جس كا مطلب كفران (نعمت) تھا ،كے قرينے سے ''ان تكفروا '' سے مراد نعمات خدا كے مقابلے ميں ناشكرى ہوسكتى ہے_

۴_حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائيل كو نعمات الہى كے كفران سے منع كيا_

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم ...وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعا

۵_نعمت كے شكر بجالانے كا فائدہ اوراس كے كفران كا نقصان ،خود انسان كو پہنچتاہے_

۳۰

لئن شكرتم لا زيدنّكم و ...ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

۶_خداوندعالم غني(بے نياز)اورحميد(قابل ستائش) ہے_فان الله لغنى حميد

۷_خداوندمتعال كا بے نياز اورقابل ستائش ہونا اس بات كى دليل ہے كہ لوگوں كے كفر اختيار كرنے سے اس كا كوئي نقصان اورضرر نہيں ہوتا_ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

''فان الله لغنى حميد ''محذوف جزائے شرط كى تعليل ہے اس صورت ميں اس كا معنى يہ ہوجاتا ہے:خداوند عالم كے بے نياز ہونے كى وجہ سے تمہاراكفر اسے كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا_

اسماء وصفات:حميد ۶; غنى ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بے نيازى كے اثرات ۷; الله تعالى اورانسانوں كا ايمان ۲; الله تعالى اورانسانوں كا كفر ۲،۷; الله تعالى كونقصان نہ پہنچنے كے دلائل ۷;الله تعالى ضرر سے محفوظ ہونا۱، ۳

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى غلط سوچ ۲; بنى اسرائيل كا كفر ۱; بنى اسرائيل كونہى ۴

حمد :الله تعالى كى حمد ۷

خود:خود كو ضرر پہنچانا ۵

شكر:شكر نعمت كے فوائد ۵

عمل:عمل كے اثرات ۵

كفر:كفر كے اثرات ۱

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۳; كفران نعمت كا نقصان ۵; كفران نعمت سے نہى ۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كے نواہى ۴

۳۱

آیت ۹

( أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ لاَ يَعْلَمُهُمْ إِلاَّ اللّهُ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّواْ أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُواْ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ )

كيا تمھارے پاس اپنے سے پہلے والوں قوم نوح اور قوم عاد و ثمود اور جوان كے بعد گذرے ہيں اور جنھيں خدا كے علاوہ كوئي نہيں جانتاہے كى خبر نہيں آئي ہے كہ ان كے پاس اللہ كے رسول معجزات لے كر آئے اور انھوں نے ان كے ہاتھوں كو انھيں كے منھ كى طرف پلٹاديا اور صاف كہہ ديا كہ ہم تمھارے لائے ہوئے پيغام كے منكر ہيں اور ہميں اس بات كے بارے ميں واضح شك ہے جس كى طرف تم ہميں دعوت دے رہے ہو_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوموں اوران كے بعد انے والى اقوام كے واقعات سے اگاہ كيا_الم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پرموقوف ہے كہ جب''ا لم يا تكم''كلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى كا دوام ہوجس ميں خداوند متعال نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمايا:''ا نزلناه اليك ...واذ قال موسى ''

۳۲

۲_زمانہ بعثت كے لوگوں كاحضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى قوم اوران كے بعد انے والى اقوام كى سرگذشت سے اگاہ ہونا_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

''ا لم يا تكم '' ميں استفھام ،استفھام تقريرى ہے بنابرايں اس جملے ''كيا ان لوگوں كى خبر اپ تك نہيں پہنچي''كا معنى يہ ہوگا:يقينا ان كى خبراپ تك پہنچى ہے_

۳_نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوم كے بارے ميں خبر ايك انتہائي اہم اورسبق اموز خبر تھي_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

''نبا ''لغت ميں قابل اعتنا، مفيد اوراہم خبر كو كہا جاتا ہے مذكورہ بالا مطلب اس لئے اخذ كيا گيا ہے چونكہ گذشتہ اقوام كے عمومى ذكر''الذين من قبلكم'' كے بعد مذكورہ(تين)اقوام كو ذكر (ياددہاني)سے مختص كيا گيا ہے اوران كے بارے ميں كلمہ'' نبا '' كى تعبير اختيار كى گئي ہے_

۴_حضرت موسى نے اپنى قوم كو حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد و ثمود كى قوم اوران كے بعد والى اقوام كى سرگذشت كى طرف متوجہ كيا_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پرہے كہ جب ''ا لم يا تكم ''اس كلام موسىعليه‌السلام كے بعد ہوكہ جس ميں انھوں نے فرماياتھا:'' وقال موسى ان تكفروا ...''

۵_بنى اسرائيل قوم نوحعليه‌السلام ،عاد وثمود كے واقعات سے اگاہ تھے_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

۶_حضرت موسىعليه‌السلام نے گذشتہ اقوام كى سرگذشت سے عبرت حاصل نہ كرنے پر اپنى قوم كى سرزنش كي_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود

۷_اہم تاريخى واقعات سے استفادہ كرنا، لوگوں كى تربيت كرنے كاايك طريقہ اورانھيں تاريكيوں سے نجات دلانے كاايك وسيلہ شمار ہوتا ہے_ا خرج قومك من الظلمت الى النور ...ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود

۸_گذشتہ اقوام كى تاريخى جزئيات سے مكمل اگاہى ركھنا فقط خداوند متعال ہى كا كام ہے_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم ...لا يعلمهم الّا الله

۹_سابقہ اقوام اورملل كى تاريخ كاكچھ حصہ ابہام كا شكار ہوچكا ہے جس تك رسائي فقط وحى كے ذريعے ہى ممكن ہے_

۳۳

والذين من بعدهم لا يعلمهم الّا الله

۱۰_حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوموں كے بعد كچھ ايسى اورملتيں بھى موجود تھيں كہ جن كے بارے ميں كسى قسم كى اطلاعات نہيں ملتيں _قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم لا يعلمهم الّا الله

۱۱_انبياءے الہى مختلف قوموں منجملہ قوم نوح وعاد وثمود كے درميان روشن اورواضح دلائل و براھين لے كر مبعوث ہوئے تھے_جاء تهم رسلهم بالبيّنات

۱۲_قوم حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود اوران كے بعد انے والى اقوام كے لئے اپنے مخصوص نبى تھے_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح ...جاء تهم رسلهم

۱۳_كافر اقوام ،انبياءے كرام كى طرف سے روشن دلائل ديكھنے كے بعد ان كا استہزا اوران كے سامنے واضح طور پراپنے كفر كا اظہار كرتى تھيں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

'' ا يديھم فى ا فوھھم''ميں موجودضمير كا مرجع ايت ميں مذكورہ ''اقوام ''ہے اوريہ عبارت كنايہ كے طور پر اس مطلب كى طرف اشارہ كررہى ہے كہ كافر قوميں اپنے منہ پر ہاتھ ركھ كر يا سيٹياں بجا كر اپنے انبياء كا استہزا كرتى تھيں _

۱۴_كافر قوميں جب انبياءے كرام كى طرف سے روشن دلائل ديكھتيں تو شدت سے غضبناك اورناراض ہو كراپنے كفراميز مو قف كا اظہار كرنے لگتيں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

'' ردّوا ا يديھم فى ا فوھھم ''سے مراد ،ان كے غضب وخشم كى طرف اشارہ ہے كہ جس كا دوسرى ايات ميں بھى ذكر كيا گيا ہے:(عضّوا عليكم الا نامل من الغيظ )_

۱۵_كافر قوموں نے انبياءے كرامعليه‌السلام كے روشن دلائل ديكھنے كے بعد انھيں خاموش ركھنے اوران كى تبليغ كو روكنے كے لئے وسيع پيمانے پر كوششيں شروع كرديں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

يہ مفہوم اس احتمال پر مبنى ہے كہ ''ردّوا ''كا فاعل مذكورہ اقوام ہوں اور'' ا يديھم '' كا مرجع ضمير انبياء يا اقوام ہوں اور''ا فوھھم '' كى ضمير كا مرجع انبياءعليه‌السلام ہوں اس صورت ميں اس كا مطلب يہ ہوگا كہ ان اقوام نے انبياء كے ہاتھوں يا اپنے ہاتھوں كو انبياءے كرامعليه‌السلام كے منہ پر ركھ ديا_

۱۶_كافر قوموں نے نہ فقط انبياءے كرامعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب نہيں ديا اوراس پر خاموش نہيں رہے بلكہ ان كے پيغام كے بارے ميں واضح طور پر اپنے كفر كا اعلان بھى كرديا_جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم

۳۴

فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

روح المعاني(ج۱۳،ص۱۹۴) ميں منقول ابوعبيدہ اوراخفش كے قول كے مطابق ''فردّوا ا يديھم فى ا فوھھم ''كى عبارت ان لوگوں كے لئے ضرب المثل كے طور پر استعمال ہوتى ہے جو كسى تقاضاكامثبت جواب نہيں ديتے اورخاموشى اختيار كرليتے ہيں _

۱۷_حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد وثمود كى قوموں اوران كے بعد انے والى اقوام نے اپنے اپنے انبياءعليه‌السلام كى دعوت كے جواب ميں اعلان كيا كہ وہ ان كى تعليمات كے بارے ميں شك وترديد ركھتى ہيں _قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم بالبيّنات ...وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به و انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۱۸_قوم حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى اپنے انبياء كى دعوت كے بارے ميں ترديد ، بدبينى پر مبنى تھي_

انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

'' شك'' كے بعد '' مريب'' كا ذكر كرنا اگرچہ تاكيد كے لئے ہے ليكن ان دونوں كے درميان ايك قسم كا فرق بھى موجود ہے وہ يہ كہ ''ريب'' ميں شك بدبينى پرمشتمل ہوتا ہے_

۱۹_انبياءے كرامعليه‌السلام كى تعليمات كے بارے ميں كفر پيشہ اقوام كے شك وترديد كاسرچشمہ ان كا كفر(ہي) تھا_

قالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به و انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۲۰_حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كے زمانے كى كافر اقوام كے پاس اپنے انبياءعليه‌السلام كے روشن دلائل كے مقابلے ميں كوئي بھى دليل اوربرھان موجود نہيں تھي_قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم بالبيّنات ...وقالوا انا كفرنا ...انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۲۱_لوگوں كو ظلمت وتاريكى سے نور كى طرف لے جانے كے لئے قرانى تربيت وہدايت ايك طريقہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام اوران كى قوموں كى سرگذشت و تاريخ بيان كرنا ہے_اخرج قومك من الظلمت الى النور ...ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمودوالذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ياد دہانياں ۱

الله تعالى :الله تعالى اورتاريخ ۸;الله تعالى كے اختصاصات ۸; الله تعالى كا علم ۸

۳۵

الله تعالى كے رسول: ۱۲

انبياء :انبياء كى تعليمات كے بارے ميں بدبينى كے برے اثرات ۱۹; تعليمات انبياء كے بارے ميں شك كے اثرات ۱۹; انبياء كا استہزاء ۱۳; تاريخ انبياء كى اہميت ۲۱;انبياء كى بعثت ۱۱; انبياء كى روشن دليليں ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۲۰; انبياء كى تاريخ ۱۱; انبياء كے دشمن ۱۵; انبياء كى دعوتيں ۱۶; تعليمات انبياء كے بارے ميں بدبينى ۱۸;تعليمات انبياء ميں شك ۱۷، ۱۸; انبياء سے كفر اختيار كرنے والے ۱۳، ۱۴، ۱۶; انبياء كى تبليغ كو روكنا ۱۵

بنى اسرائيل:تاريخ بنى اسرائيل سے اشنائي ۵; بنى اسرائيل اورقوم ثمود كى تاريخ۵; بنى اسرائيل اورقوم عاد ۵; بنى اسرائيل اورقوم نوح ۵; بنى اسرائيل كو ياددہانى ۴;بنى اسرائيل كى سرزنش ۶; بنى اسرائيل كا عبرت قبول نہ كرنا ۶

تاريخ:تاريخ كے فوائد ۷; تاريخ كے نامعلوم ادوار ۹، ۱۰

تربيت:تربيت كا طريقہ۷،۲۱

دين:دينى افات سے اگاہى ۱۹

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كى روشن دليليں ۱۱

عبرت:عبرت كے عوامل ۳

قران:قران كا ہدايت كرنا ۲۱

قوم ثمود:قوم ثمود كا بے منطق ہونا ۲۰; قوم ثمود كا پيغمبر۱۲; قوم ثمود كى بدبينى ۱۸; قوم ثمود كا شك ۱۷، ۱۸; قوم ثمود كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم ثمود كا كفر ۲۰

قوم عاد:قوم عاد كى بے منطقى ۲۰; قوم عاد كا نبى ۱۲; قوم عاد كى بدبينى ۱۸; قوم عاد كا شك ۱۷، ۱۸; قوم عاد كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم عاد كا كفر ۲۰

قوم نوح:قوم نوح كى بے منطقي۲۰; قوم نوح كا نبى ۱۲; قوم نوح كا بدبين ہونا ۱۸; قوم نوح كا شك ۱۷،۱۸; قوم نوح كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم نوح كا كفر ۲۰

۳۶

كفر:كفر پر اصرار ۱۶

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كى بدبينى ۱۹;گذشتہ اقوام كے اثرات ۱۹; گذشتہ اقوام كا استہزاء كرنا ۱۳; گذشتہ اقوام كى تاريخ كى اہميت ۳، ۲۱; گذشتہ اقوام كى تاريخ ۱۰; گذشتہ اقوام كى سازش ۱۰; گذشتہ اقوام كى دشمنى ۱۵; گذشتہ اقوام كو دعوت ۱۶; گذشتہ اقوام كا شك ۱۷; گذشتہ اقوام كا غضب ۱۴; گذشتہ اقوام كا كفر ۱۳; گذشتہ اقوام كى ہٹ دھرمى ۱۳، ۱۴، ۱۶; گذشتہ اقوام كے كفر كا سرچشمہ ۱۹

گمراہي:گمراہى سے نجات كا طريقہ ۲۱; گمراہى سے نجات كا پيش خيمہ ۷

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كا تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا گذشتہ اقوام كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا قوم ثمود كى تاريخ سے اگاہ ہونا۲;زمانہ بعثت كے لوگوں

كا قوم عاد كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا قوم نوح كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كى ياددہانياں ۴; موسىعليه‌السلام كى سرزنشيں ۶

نوحعليه‌السلام :نوحعليه‌السلام كى واضح دليليں ۱۱

وحى :وحى كا كردار ۹

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۲۱

ھودعليه‌السلام :ھودعليه‌السلام كى واضح دليليں ۱۱

ياد دہاني:گذشتہ اقوام كى تاريخ كى ياددہانى ۱،۴; قوم ثمود كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴; قوم عاد كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴; قوم نوح كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴

۳۷

آیت ۱۰

( قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَـمًّى قَالُواْ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ )

تو رسولوں نے كہا كہ كيا تمھيں اللہ كے بارے ميں بھى شك ہے جو زمين و آسمان كا پيدا كرنے والا ہے اور تمھيں اس لئے بلاتا ہے كہ تمھارے گناہوں كو معاف كردے اور ايك معينّہ مدّت تك زمين ميں چين سے رہنے دے تو ان لوگوں نے جواب ديا كہ تم سب بھى ہمارے ہى جيسے بشر ہواور چاہتے ہو كہ ہميں ان چيزوں سے روك دوجنكى ہمارے باپ دادا عبادت كيا كرتے تھے تو اب كوئي كھلى ہوئي دليل لے آئو_

۱_جب انبياءے الہى كو اپنى دعوت كے بارے ميں اپنى قوموں كى طرف سے شك وترديد كا سامنا كرنا پڑا تو وہ انھيں ايك ناقابل ترديد برھان سے قانع كرنے لگے_انا لّفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب _قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۲_ گذ_شتہ اقوام كے انبياءعليه‌السلام نے، خداوند متعال كے بارے ميں اپنى اقوام كے شك وترديد كا جواب دينے كے لئے ايك منفرد طريقہ اپنايا_انا لفى شكّ ممّا تدعوننا ...قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۳_روش سؤال قرآن كريم كے تعليمى طريقوں ميں سے ايك طريقہ ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۴_موجودات كائنات كے مخلوق ہونے كى طرف توجہ كرنے سے ، وجود خداوند كے بارے ميں كسى قوم كا شك وشبہ باقى نہيں رہتا_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

ايت ميں استفہام، انكار كے لئے ہے لہذا ايت كا معنى اس طرح ہوگا:''خداوند عالم كے اسمانوں اورزمين كے خالق ہونے كے بارے ميں كسى قسم كا شك نہيں چونكہ يہ مخلوق ہيں لہذا كسى خالق كے محتاج ہيں پس عقلى طور پر خداوند متعال كے وجود كے بارے ميں كوئي شك وشبہ باقى نہيں رہتا_

۳۸

۵_مخلوقات كا اپنى علت اورخالق كا محتاج ہوناايك بديہى اورناقابل ترديد چيز ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

خداوند متعال كا آسمان و زمين كے موجودات كى نسبت اپنى خالقيت سے ہر قسم كے شك كى نفى كرنا ايك (منطقي)قضيے پر مشتمل ہے كہ جس كے كبرى كو واضح اوربديہى ہونے كى وجہ سے (يہاں ) ذكر كرنے كى ضرورت نہيں ہے اور وہ يہ كہ ہر مخلوق (معلول)كو خالق(علت)كى ضرورت ہوتى ہے يہ ايك ايسى بات ہے كہ جس ميں كوئي بھى عاقل خواہ وہ كافر ہى كيوں نہ ہو،شك وترديد نہيں كرسكتا_

۶_ مخلوقات (معلول)كے ذريعے خالق(علت) كا پتہ چلانا(برہان انّ)انبياءے الہىعليه‌السلام كے ان براہين ميں سے ايك ہے كہ جس سے وہ خداوند متعال كے وجود كو ثابت كرتے تھے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

اسمانوں اورزمين كى نسبت خداوند كى خالقيت ميں شك وترديد كى نفى درحقيقت اس لئے كى جاتى ہے تاكہ لوگوں كو اسمانوں اورزمين كے مخلوق ہونے كى طرف متوجہ كيا جائے اوراس طرح وہ خالق كى طرف اپنے محتاج ہونے سے اگاہ ہوجائيں گے اوريہى '' برہان انّ'' سے استفادہ ہے_

۷_خداوند متعال اسمانوں اور زمين( كائنات) كاخالق ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۸_ زمين كا پھٹنا اوراس ميں سے زمينى موجودات كا نكلنا اوراسمان كا پھٹنا اوراس ميں سے اسمانى موجودات كا ظاہر ہونا، ايات خداوندى ميں شمار ہوتا ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

لغت ميں ''فاطر'' كا معنى پھاڑنے والے كے ہيں لہذا احتمال ہے كہ '' ّ فاطرالسموت والا رض'' سے مراد اس كا لغوى معنى ہو يعنى اسمان وزمين كا پھاڑنا اور ان ميں سے اسمانى وزمينى موجودات كو ظاہر كرناہے _

۹_ كائنات ميں متعدد اسمانوں كا موجود ہونا_فاطرالسموت

۱۰_خداوند متعال كا لوگوں كے بعض گناہوں كو بخشنے

۳۹

اوران كى اجل (موت) كو ايك معين مدت تك ٹالنے كى خاطر انھيں ايمان كى طرف دعوت دينا_

يدعوكم ليغفرلكم من ذنوبكم ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۱_ ايمان كا فائدہ خود انسان كو ہوتا ہے_يدعوكم ليغفرلكم من ذنوبكم ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۲_ انبياءے الہى كى دعوت، خداوند عالم ہى كى دعوت ہے_ممّا تدعوننااليه يدعوكم ليغفرلكم

۱۳_ خداوند عالم پرايمان، بعض گناہوں كى مغفرت اورطبيعى موت تك زندگى كے جارى رہنے كا سبب بنتا ہے_

يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۴_ انسانوں كى دنيوى زندگى كے دوام ميں معنويات كا مو ثر كردار ادا كرنا_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

'' يدعوكم '' سے مراد ايمان كى طرف دعوت بھى ہوسكتى ہے كہ جومعنويات ميں سے ہے اور اس كے نتائج ميں سے ايك ا جل (موت) كا اجل مسمّى تك ٹلنا ہے اس سے دنيوى زندگى پر معنويت كے مو ثر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

۱۵_ انسان كى طبيعى موت سے پہلے اس كى موت كے واقع ہونے كاامكان_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

خداوند متعال كا يہ فرمانا كہ وہ تمہيں دعوت ديتا ہے تاكہ تمہارى زندگى '' اجل مسمّى '' تك باقى رہے اس كا مطلب يہ ہے كہ طبيعى موت سے پہلے بھى موت اسكتى ہے_

۱۶_ ھدايت كرنے كے سلسلے ميں انبياءے الہى كے طريقوں ميں سے ايك مادى و معنوى اجر كے وعدے كے ذريعےلوگوں كى تشويق كرنا تها_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

طولانى عمر سے مادى اورمغفرت سے معنوى اجر مراد ہے_

۱۷_ گذشتہ اقوام كے كفار اپنے انبياءعليه‌السلام كى منطقى دعوت كا مثبت جواب دينے كى بجائے ان كے بشر ہونے كے بہانے ،ان كى دعوت كو ردّ كر ديتى تھيں _قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض ...قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

۱۸_كفار كا اعتقاد تھا كہ انسان مقام رسالت پر فائز نہيں ہوسكتاہے_قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

كفار، انبياء كى طرف سے ايمان كى دعوت كے جواب ميں كہتے تھے:' 'ان ا نتم الّا بشر

مثلنا'' اس جواب سے پتہ چلتا ہے كہ ان كے اعتقاد كے مطابق بشر، نبى نہيں ہوسكتا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326