احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211955 / ڈاؤنلوڈ: 4589
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

سبق نمبر١٨

واجبات نماز

رکوع

١۔ نماز گزار کو ہر رکعت میں قرأت کے بعد اس قدر خم ہونا چاہئے کہ اس کے ہاتھ زانو تک پہنچ جائیں اور اس عمل کو '' رکوع'' کہتے ہیں ۔(١)

واجبات رکوع

١۔ بیان شدہ حدتک خم ہونا۔

٢۔ ذکر ( کم ازکم تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا)

٣۔ ذکر پڑھتے وقت بدن کا قرار میں ہونا ۔

٤۔ رکوع کے بعد اٹھنا۔

٥۔ رکوع کے بعد بدن کا قرار۔(٢)

____________________

(١)توضیح المسائل،م ١٠٢٢.

(٢)العروة الوثقی، ج ١ ص ٦٦٤

۱۲۱

ذکر رکوع:

رکوع میں، جو بھی ذکرپڑھاجائے کافی ہے، لیکن احتیاط واجب زہے کہ تین مرتبہ '' سبحان اللہ'' یا ایک مرتبہ '' سبحان ربیّ العظیم وبحمدہ'' سے کم تر نہ ہو۔(١)

رکوع میں بدن کا سکون میں ہونا۔

١۔ رکوع میں واجب ذکر پڑھنے کی مقدار میں بدن سکون میں ہونا چاہئے۔(٢)

٢۔ اگر رکوع کی مقدار میں خم ہوکر بدن کے سکون پانے سے پہلے عمداً ذکر رکوع پڑھا جائے*تونماز باطل ہے۔(٣)

٣۔ اگر واجب ذکر تمام ہونے سے پہلے، رکوع سے عمداً سر اٹھایا جائے تو نماز باطل ہے۔(٤)

رکوع کے بعد بلند ہونا او رآرام پانا

ذکر رکوع ختم ہونے کے بعد بلند ہونا چاہئے اور اس کے بعد بدن آرام پائے اور پھر سجدہ میں جانا چاہئے اور اگر بلند ہونے سے پہلے یا بلند ہوکر آرام پانے سے پہلے عمدا سجدہ میںجائے تو نماز باطل ہے(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل، م١٠٢٨

(٢) توضیح المسائل م ١٠٣٠.

(٣) توضیح المسائل م ١٠٣٢.

(٤) توضیح المسائل م١٠٣٣.

(٥) توضیح المسائل م ١٠٤٠.

* (اراکی) شرط ہے کہ اسی قدر ہو (مسئلہ ١٢٠)( گلپائیگانی): تین بار سبحان اللہ کے برابر ہونا چاہئے۔(مسئلہ ١٠٣٧)

*(گلپائیگانی) بدن آرام پانے کے بعد دوبارہ ذکر رکوع پڑھاجائے، اور احتیاط لازم کے طور پر نماز کو تمام کرے دوبارہ پڑھے، اگر پہلے ذکر پر اکتفاء کرے تو نماز باطل ہے ۔(م ١٠٤١)

۱۲۲

معمول کے مطابق رکوع انجام دینے میں معذور شخص کا فریضہ:

١۔جو شخص رکوع میںخم نہیں ہوسکتا ،اسے اسی قدر خم ہونا چاہئے جتنا ممکن ہو۔*

٢۔جو بالکل خم نہیں ہوسکتا ٭٭اسے بیٹھ کر رکوع کرنا چاہئے ۔

٣۔ جو بیٹھ کر بھی رکوع نہ بجا لاسکتا ہو اسے نماز کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے اور رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے۔(١)

رکوع کے بعض مستحبات:

١۔ مستحب ہے ذکر رکوع کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ یا اس سے زیادہ پڑھے۔

٢۔مستحب ہے رکوع میں جانے سے پہلے سیدھا کھڑے ہوکر تکبیر کہے۔

٣۔مستحب ہے رکوع کی حالت میں اپنے دوپائوں کے درمیان زمین پر نگاہ کرے۔

٤۔مستحب ہے ذکر رکوع سے پہلے اور اس کے بعد درود بھیجے۔

٥۔ مستحب ہے رکوع کے بعد جب کھڑا ہو اور بدن سکون میں آجائے تو ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہے۔(٢)

سجود:

١۔ نماز گزار کو واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں، رکوع کے بعد دوسجدے بجالانے چاہئیں۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٠٣٧.

(٢) توضیح المسائل م ١٠٤٣.

(٣) توضیح المسائل م ١٠٤٥.

* (گلپائیگانی) اس صورت میںاحتیاط لازم ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور رکوع بیٹھے ہوئے انجام دے، اگر بالکل خم نہ ہوسکے تو بیٹھ جائے اور رکوع بجالائے احتیاط لازم یہ ہے کہ ایک اور نماز پڑھے اور رکوع کو اشارہ سے بجالائے۔(م ١٠٤٥)

٭٭(خوئی)رکوع کے لئے سر سے اشارہ کرے.(م ١٠٤٥)

۱۲۳

٢۔پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور پائوں کے دونوں انگوٹھوں کے سرے زمین پر رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں۔

واجبات سجدہ:

١۔بدن کے سات عضو زمین پر رکھنا۔

٢۔ ذکر۔

٣۔ذکر سجدہ کے دوران بدن کا سکون کی حالت میں ہونا۔

٤۔دوسجدوں کے درمیان سربلند کرکے آرام سے بیٹھنا۔

٥۔ذکر کے دوران سات عضو کا زمین پر ہونا۔

٦۔سجدہ کی جگہوں کا مسطح اور برابر ہونا۔

٧۔ایسی چیز پر پیشانی کو رکھنا کہ سجدہ اس پر جائز ہو۔

٨۔پیشانی رکھنے کی جگہ کا پاک ہونا۔

٩۔دونوں سجدوں کے درمیان موالات کی رعایت کرنا۔(١)

واجبات سجدہ کی تفصیلات آئندہ سبق میں بیان ہوں گی۔

____________________

(١)العروةالوثقی، ج١،ص ٦٧٣

۱۲۴

سبق: ١٨ کا خلاصہ

١۔ نماز کی ہر رکعت میں،قرأت کے بعد لازم ہے کہ ایک رکوع بجالایا جائے۔

٢۔رکوع کا مطلب یہ ہے کہ اس قدر خم ہونا کہ اس کے دونوں ہاتھ گھٹنوںتک پہنچ جائیں۔

٣۔واجبات رکوع مندرجہ ذیل ہیں:

*۔مذکورہ بالاحد تک خم ہونا۔

*۔ذکر پڑھتے وقت بدن کا سکون کی حالت میں ہونا۔

*رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا۔

٤۔احتیاط مستحب ہے کہ ذکر رکوع تین مرتبہ ''سبحان اﷲ'' یا ایک مرتبہ ''سبحان ربی العظیم وبحمدہ'' سے کم نہ ہو۔

٥۔ ذکر رکوع کو بدن کے سکون کی حالت میں پڑھنا چاہئے، رکوع میں جاتے یا رکوع سے بلند ہوتے ہوئے نہیں پڑھنا چاہئے۔

٦۔جوشخص کھڑے ہو کر رکوع بجالانے سے معذورہو، اسے بیٹھ کر رکوع کرنا چاہئے اور اگر بیٹھ کر بھی رکوع نہ کرسکے تو، سرکے اشارہ سے رکوع بجالائے۔

٧۔نماز گزار کو رکوع کے بعد دوسجدے بجالانے چائیں۔

٨۔سجدہ میں پیشانی، ہاتھوں کی ہتھیلیاں، گٹھنے اور پائوں کے انگو ٹھوںکے سرے زمین پر ہونے چاہئیں۔

۱۲۵

سوالات :

١۔ رکوع اور ذکر رکوع میں کیا فرق ہے؟

٢۔حالت رکوع میں ٹھہرنے کی مقدار کتنی ہے؟

٣۔کیا رکوع کے بعد کھڑاہونا واجب ہے؟

٤۔سجدہ کی تعریف کیجئے، سجدہ واجبات نماز کا کونسا حصہ ہے؟

٥۔واجبات سجدہ کے چار مواقع بیان کیجئے۔؟

۱۲۶

سبق نمبر ١٩

واجبات سجدہ

ذکر:

ذکر سجدہ میں جو بھی ذکرپڑھا جائے کافی ہے لیکن احتیاط واجب زیہ ہے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ یا ایک مرتبہ'' سبحان ربی الاعلی وبحمدہ'' سے کم تر نہ ہو۔(١)

قرار:

١۔ سجدہ میں ذکر سجدہ پڑھنے کے بقدر بدن کا سکون میں ہونا ضروری ہے۔(٢)

٢۔اگر پیشانی زمین پر پہنچنے سے پہلے عمداًذکر پڑھاجائے تو نماز باطل ہے۔٭٭اور اگر بھولے سے ایسا کیا ہوتو دوبارہ سکون کی کی حالت میں ذکر پڑھے۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٠٤٩

(٢)توضیح المسائل،م ١٠٥٠

(٣) توضیح المسائل م ١٠١٥و ١٠٥٢.

*(اراکی) شرط ہے کہ اس سے کمتر نہ ہو (مسئلہ ١٠٤١)

٭٭پیشانی کے زمین پر پہنچنے اوربدن کے آرام پانے کے بعد دوبارہ ذکر پڑھیں اور احتیاط لازم کی بناپر نماز کو تمام کرکے اسے دوبارہ پڑھے (م١٠٦٠)

۱۲۷

سجدہ سے سرکو اٹھانا:

١۔ پہلے سجدہ کا ذکر تمام ہونے کے بعد سجدہ سے سراٹھاکر ایسے بیٹھنا چاہئے کہ بدن آرام وقرار پائے او پھر دوسرے سجدہ میں جائے۔(١)

٢۔ اگر ذکر تمام ہونے سے پہلے عمداً سرکو سجدہ سے اٹھائے تو نماز باطل ہے۔(٢)

سات عضوکا زمین پر ہونا:

١۔ اگر ذکر سجدہ پڑھتے وقت سات اعضا میں سے کسی ایک کو عمداً زمین سے بلند کرے تو نماز باطل ہوگی زلیکن ذکر میں مشغول نہ ہونے کی صورت میں اگر پیشانی کے علاوہ کسی ایک عضو کو زمین سے اٹھا کر پھر زمین پر رکھے تو کوئی حرج نہیں ۔(٣)

٢۔ اگر پائوں کے انگوٹھوں کے علاوہ دوسری انگلیاںبھی زمین پر ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔(٤)

سجدہ کی جگہ کا ہموار ہونا:

١۔ نماز گزار کی پیشانی کی جگہ اس کے گھٹنوں کی جگہ سے چارانگلیوں کے برابر بلند یا پست نہیں ہونی چاہئے.(٥)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٠٥٦.

(٢)توضیح المسائل،م١٠٥٢

(٣) توضیح المسائل م ١٠٥٤.

(٤)تحریر الوسیلہ ج ١،م٢،والعروة الوثقی، ج١،ص٦٧٦،م٧

(٥) توضیح المسائل م١٠٥٧.

*گلپائیگانی) احتیاط لازم یہ ہے کہ تمام اعضاء کے آرام پانے کے بعد ذکر واجب کو دوبارہ پڑھے اور نماز کو تمام کرکے پھرسے پڑھے (مسئلہ ١٠٦٣)

۱۲۸

٢۔ احتیاط واجب ہے زکہ نماز گزار کی پیشانی کی جگہ پائوںکی انگلیوں کی جگہ سے بھی چار انگلیوں کے برابر بلند اور پست نہ ہونی چاہئے۔(١)

پیشانی کو ایسی چیزپر رکھنا جس پر سجدہ جائز ہے:

١۔ سجدہ میں پیشانی کو زمین پر یا زمین سے اگنے والی ہر اس چیز پر رکھنا چاہئے جو کھانے پینے یا پہننے میںاستعمال نہ ہوتی ہو۔(٢)

٢۔ جن چیزوں پر سجدہ جائز ہے، ان کے نمونے حسب ذیل ہیں:

*مٹی

*پتھر

*پختہ مٹی٭٭

*چونا

*لکڑی

*گھاس

سجدہ کے احکام:

١۔ معدن سے حاصل ہونے والی چیزوں، جیسے سونا ، چاندی، عقیق اور فیروزہ وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٠٥٧.

(٢) توضیح المسائل م ١٠٧٦.

(٣) توضیح المسائل م ١٠٧٦.

*(خوئی ۔اراکی) پست تر یا بلند تر نہ ہونی چاہئے۔(مسئلہ ١٠٦٦)

٭٭(اراکی۔گلپائیگانی) چونا،گچ اور پختہ مٹی پر سجدہ جائز نہیں ہے (مسئلہ ١٠٩٠)

۱۲۹

٢۔ خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے سجدہ کرنا حرام ہے۔(١)

٣*مین سے اگنے والی ان چیزوں پر سجدہ صحیح ہے جو حیوانوں کی خوراک ہو جیسے گھاس پھوس۔(٢)

٤۔کاغذ پر سجدہ صحیح ہے اگرچہ وہ کپاس اور اس جیسی چیزوں سے بنا ہو۔(٣) *

٥۔ سجدہ کے لئے سب سے بہتر چیز تربت حضرت سیدالشہدا علیہ السلام ہے اور اس کے بعدترتیب کے ساتھ مندرجہ ذیل چیزیں ہیں:

*مٹی

*پتھر

*گھاس(٤)

٦۔ اگر پہلے سجدہ میں سجدہ گاہ پیشانی سے چپک جائے اور سجدہ گاہ کو الگ کئے بغیر دوسرے سجدہ میں جائے تو نماز باطل ہے۔(٥)

معمول کے مطابق سجدہ انجام دینے میں معذور شخص کا فریضہ:

١۔ جوشخص اپنی پیشانی کو زمین پر رکھنے سے معذور ہو، اسے اس قدر خم ہونا چاہئے جتنا وہ ہوسکے اور سجدہ گاہ کو ایک بلند جگہ، جیسے تکیہ وغیرہ پر رکھ کر سجدہ کرے، لیکن ہاتھوں کی ہتھیلیوں، گھٹنوں اور پائوں کے

____________________

(١) توضیح المسائل ،م ١٠٩٠.

(٢) توضیح المسائل، م ١٠٧٨.

(٣) توضیح المسائل ،م ١٠٨٢.

(٤)توصیح المسائل،م ١٠٨٣

(٥)توصیح المسائل،م ١٠٨٦.

*(گلپائیگانی) کپاس سے بنے کاغذ یا اس کے مانند نیز کاغذ پربھی سجدہ کرنے میں اشکال ہے جس کے بارے معلوم نہ ہوکہ سجدہ کے صحیح ہونے کی چیزسے بنا ہے یا نہ۔

۱۳۰

انگوٹھوں کو معمول کے مطابق زمین پر رکھنا چاہئے۔(١)

٢۔ اگر خم نہ ہوسکتا ہو تو سجدہ کے لئے بیٹھ جائے اور سرسے اشارہ کرے،(٢) لیکن احتیاط واجب ہے کہ سجدہ گاہ کو اوپر اٹھا کر پیشانی کو اس پر رکھے۔

بعض مستحبات سجدہ:

١۔ درج ذیل مواقع پر مستحب ہے تکبیر کہی جائے:

*رکوع کے بعد اور سجدۂ اول سے پہلے ۔

*پہلے سجدہ کے بعد بیٹھ کر جب بدن سکون کی حالت میں ہو۔

*دوسرے سجدے کے پہلے، جبکہ بیٹھا ہو اور بدن سکون میں ہو

*دوسرے سجدے کے بعد۔

٢۔ طولانی سجدے بجالانا مستحب ہے۔

٣۔پہلے سجدہ کے بعد بیٹھ کر بدن کے سکون میںآنے کے بعد ''استغفراللہ ربی واتوب الیہ'' پڑھنا مستحب ہے۔

٤۔ سجدوں میں درود بھیجنا مستحب ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،م ١٠٦٨.

(٢) توضیح المسائل،م ١٠٦٩

(٣) توضیح المسائل،م ٩١ ١٠.

۱۳۱

سبق:١٩کا خلاصہ

١۔ احتیاط واجب کی بناپر، ذکر رکوع ''سبحان ربی الاعلی وبحمدہ ''ایک مرتبہیا تین ''سبحان اللہ''تین مرتبہ سے کم نہ ہو۔

٢۔ پورے ذکر رکوع کواس حالت میں پڑھنا چاہئے جب بدن سکون میں ہو۔

٣۔ سجدہ میں پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں پائوں کے انگوٹھوں کے سرے زمین پر ہونا ضروری ہے۔

٤۔سجدہ کی جگہ مسطح اور ہموار ہونا ضروری ہے اور ملی ہوئی چار انگلیوں سے بلند یاپست نہیں ہونی چاہئے۔

٥۔لکڑی، مٹی،پتھر،ڈھیلے اورپختہ مٹی پر سجدہ صحیح ہے۔

٦۔ زمین سے اگنے والی ان چیزوں پر، جنھیں انسان،خوراک اور پوشاک میں استعمال کرتا ہے سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے۔

٧۔سجدہ کے لئے سب سے بہتر چیز تربت حضرت سیدالشہداء علیہ السلام ہے۔

۱۳۲

سوالات:

١۔سجدہ کی وضاحت کیجئے اور تبائیے کہ یہ کن واجبات نماز میں سے ہے؟

٢۔ذکر سجدہ کی واجب مقدار بیان کیجئے؟

٣۔ دوسجدوں کے درمیان موالات کیا ہے؟وضاحت کیجئے۔

٤۔لکڑی، بادام کے چھلکے، سیب کے جھلکے اور سنگترے کے چھلکے پر سجدہ کا کیا حکم ہے؟

٥۔کاغذ اور ماچس کی ڈبی پر سجدہ کا کیاحکم ہے؟

٦۔جو شخص معمول کے مطابق سجدہ انجام نہ دے سکتا ہو، اس کا کیا فریضہ ہے؟

۱۳۳

سبق نمبر٢٠

واجبات نماز کے احکام

قرآن مجید کا واجب سجدہ:

١۔ قرآن مجید کے چار سوروں میں آیۂ سجدہ ہے۔اگر انسان اس آیت کی تلاوت کرے یا کوئی اور اس کی تلاوت کرتا ہو، اس کو سنے، تو اس آیت کے تمام ہونے کے فوراًبعد سجدہ انجام دینا چاہئے.(١)

٢۔ وہ سورے جن میں آیۂ سجدہ ہے ۔

١۔سورہ نمبر ٣٢۔ سورۂ حم سجدہ

٢۔ سورہ نمبر ٤١۔ فصلت

٣۔ سورہ نمبر ٥٣۔نجم ٤۔ سورہ نمبر ٩٦۔ علق(٢)

٣۔ اگر سجدہ کرنا بھول جائے تو جب یاد آئے سجدہ کرنا چاہئے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،م ١٠٩٣.

(٢)توضیح المسائل،م ١٠٩٣.

(٣)توضیح المسائل،م ١٠٩٣

۱۳۴

٤۔ اگر آیہ سجدہ کو ٹیپ ریکارڈ سے سنیں تو سجدہ کرنا لازم نہیں ہے۔(١) *

٥۔اگر آیۂ سجدہ کو لائوڈ اسپیکر یاریڈیو یا ٹیلی ویژن سے، چنانچہ خود انسان کی آواز ہو اور ٹیپ سے استفادہ نہ ہو رہاہو، یعنی آواز نشر ہونے کے وقت کوئی شخص اس آیت کو پڑھ رہا ہو اور یہ وسیلہ صرف اس کی آواز کو پہنچاتا ہو تو سجدہ کرنا واجب ہے۔(٢)

٦۔ان آیات کے لئے سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی کو ایسی چیز پر رکھنا چاہئے جس پر سجدہ کرنا جائزہے،البتہ سجدہ کے دیگر شرائط کی رعایت کرنا ضروری نہیںہے۔(٣) ٭٭

٧۔اس سجدہ میں ذکر پڑھنا واجب نہیں ہے، لیکن مستحب ہے۔(٤)

تشہد:

دوسری رکعت اور واجب نمازوں کی آخری رکعت میں، نماز گزار کو دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنا چاہئے اوربدن کے سکون میں آنے کے بعد تشہد پڑھنا چاہئے، یعنی کہے:

''أَشْهَدُ أَنْ لاٰاِلَهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰشَریْکَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ'' .(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل،م ١٠٩٦

(٢) توضیح المسائل،م ١٠٩٦

(٣) توضیح المسائل،م ١٠٩٧

(٤)توضیح المسائل ١٠٩٩

(٥) توضیح المسائل،م٠٠ ١١

*(گلپائیگانی)اگر آیہ سجدہ ریڈیویا لاؤڈاسپیکر سے پڑھی جائے اور اسے سنے تو سجدہ کرنا چاہئے۔(مسئلہ ١١٠٢)

(اراکی)اگر ٹیپ رکارڈ جیسی چیزسے آیت کو سنے،تو احتیاط واجب کی بناپرسجدہ کرنا چاہئے۔ لیکن اگر لاوڈاسپیکر جس سے انسان کی آواز پہنچائی جاتی ہے، سنے تو واجب ہے سجدہ بجالائے۔(مسئلہ١٠٨٨)

٭٭(تمام مراجع)سجدہ کے بعض شرائط کی رعایت کرنا لازم ہے، تفصیلات کے لئے مسئلہ ١٠٨٩ملاحظہ فرمائیں۔

۱۳۵

سلام

١۔ہر نمازکی آخری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھنا چاہئے اور نماز کو تمام کرنا چاہئے۔

٢۔سلام کی واجب مقدار ان دو میں سے ایک سلام ہے:

السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحینز

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ(١)

٣۔ان دوسلاموں سے پہلے یہ کہنا مستحب ہے:

السلام علیک ایھا النبی ورحمة اﷲ وبرکاتہ.

یعنی تینوں سلاموں کو پڑھے(٢)

ترتیب:

نماز کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے: تکبیرة الاحرام ، قرأت، رکوع، سجود اور دوسری رکعت میں سجدوں کے بعد، تشہد پڑھے اور آخری رکعت میںسجدوں کے بعد، تشہد پڑھے اور آخری رکعت میں ، تشہد کے بعد، سلام پھیرنا۔

موالات:

١۔ موالات، یعنی نماز کے اجزاء کو یکے بعد دیگر ے انجام دینا اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ڈالنا۔

٢۔اگر اجزائے نماز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ کہا جائے یہ شخص نماز نہیں پڑھتا ہے، تو اس کی نماز باطل ہے۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١١٠٥

(٢) توضیح المسائل،م ١١٠٥

(٣)توضیح المسائل،م١١١٤

*(گلپائیگانی) اگر اس سلام کو کہے، تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس سلام کے بعد السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کو بھی پڑھے۔(مسئلہ١١١٤)

۱۳۶

٣۔رکوع وسجود میں طول دینا اور لمبے سورے پڑھنا موالات کو نہیں توڑتا۔(١)

قنوت:

١۔نماز کی دوسری رکعت میں حمد وسورہ پڑھنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے،قنوت پڑھنا مستحب ہے۔ یعنی ہاتھوں کو بلند کرکے اپنے چہرہ کے مقابل لائے اور کوئی دعا یا ذکر پڑھے۔(٢)

٢۔قنوت میں کوئی بھی ذکر پڑھ سکتے ہیں، حتی ایک بار '' سبحان اﷲ ''کہنا کافی ہے اور درج ذیل دعا بھی پڑھ سکتا ہے:

رَبَّنَا آتِنَافِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الٰآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (٣)

تعقیب نماز:

١۔ نماز کی بحث میں تعقیب کے معنی نماز کے اختتام پر سلام پھیرنے کے بعد ذکر، دعا اور قرآن مجیدپڑھنے میں مشغول ہونا ہے۔

٢۔ضروری نہیں ہے تعقیب عربی میں ہو،لیکن بہتر ہے دعا کی کتابوں میں ذکر شدہ چیزوں کو پڑھاجائے۔

٣۔تسبیح حضرت زہراسلام اللہ علیہا یعنی : ٣٤ ''مرتبہ اللہ اکبر''،٣٣ مرتبہ الحمد للہ'' اور ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ'' پڑھنا مستحب ہے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١١١٦

(٢) توضیح المسائل،م ١١١٧

(٣) توضیح المسائل،م ١١١٨

(٤)توضیح المسائل، م ١١٢٢.

۱۳۷

سبق: ٢٠ کا خلاصہ

١۔ سورۂ حمٰ سجدہ، فصّلت، نجم اور علق میں سجدے کی آیات ہیں، ان آیات کو پڑھنے یا سننے پر سجدہ واجب ہوتا ہے۔

٢۔ٹیپ ریکارڈ سے سجدہ کی آیت سننے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا ہے۔لیکن اگر لائوڈاسپیکر،ریڈیو یاٹیلی ویژن سے براہ راست (ریکارڈ شدہ آواز کے بغیر) کسی انسان کی آواز نشر ہوتی ہو تو سجدہ واجب ہے۔

٣۔ دوسری رکعت اور نماز کے اختتام پر تشہد پڑھنا واجب ہے۔

٤۔سلام،نماز کا خاتمہ ہے اور آخری رکعت میں تشہد کے بعد پڑھاجاتا ہے۔

٥۔اجزائے نماز کی ترتیب کی رعایت کرنا واجب ہے۔

٦۔نماز کے بنیادی اجزاء کی ترتیب درج ذیل ہے:

تکبیرة الاحرام،قرأت، رکوع ،سجود اور دوسری رکعت میں دوسجدوں کے بعد تشہد پڑھنا اور نماز کی آخری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پھیرنا۔

٧۔اجزائے نماز کو یکے بعد دیگرے انجام دینا چاہئے اگر ان کے درمیان زیادہ فاصلہ ہوجائے تو نماز باطل ہے:

۱۳۸

سوالات:

١۔قرآن مجید سے واجب سجدہ والی آیات کو لکھئے؟

٢۔نماز میں تشہد کی جگہ کو بیان کیجئے؟

٣۔نماز کی واجب اور مستحب مقدار کو بیان کیجئے؟

٤۔ترتیب وموالات کے درمیان فرق کو بیان کیجئے؟

٥۔قنوت کے بارے میں سبق میں ذکر شدہ دعا کے علاوہ کسی اور دعا کو لکھئے؟

۱۳۹

سبق نمبر٢١

مبطلات نماز

جب نماز گزار تکبیرةالاحرام کہتا ہے اور نماز کو شروع کرتا ہے تو اس کے خاتمہ تک بعض کام اس پر حرام ہوجاتے ہیں، چنانچہ اگر نماز میں ان میںسے کوئی کام انجام دے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی ،ان میں سے اہم امور حسب ذیل ہیں:

*کھانا اور پینا۔

*بات کرنا۔

*ہنسنا۔

*رونا۔

*قبلہ کی طرف سے رخ موڑنا۔

* ارکان نماز میں کمی وبیشی کرنا۔

*نماز کی حالت کو توڑنا۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١١٢٦.

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔(1)

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُهُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد '' (2)

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمد(ص) پر ہے۔

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت (ص) کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:311

[2]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

۲۰۱

 جھوٹی محبتیں

کچھ لوگ خاندان وحی ونبوت علیھم السلام سے محبت و دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بارے میں خود کو اتنا سچا پیش کرتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا شائہ تک نہیں پایا جاتا۔اور ان کا وجود محبت اہلبیت علیھم السلام سے سرشار ہے؛ لیکن جب ہم ان کے رفتار و کردار کے بارے میںسوچتے ہیں اور ان کے کردار کی خاندان  نبوت ورسالت علیھم السلام کے دستورات سیملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اہلبیت علیھم السلام سے دوستی و محبت کا اظہار خالصانہ اور سچانہیں ہے۔

بہت سے لوگ خود کو امام زمانہ عجل  اللہ فرجہ الشریف کا عاشق اور جاںنثار سمجھتے ہیں لیکن عملاً ان کا سہم (یعنی خمس ،جوکہ ان کے اپنے لئے خدا کی نعمتوں  کے نزول کاذریعہ ہے) ان کی آل کو ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں!

جو شخص امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف مقدس اہداف کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرے کیاوہ امام کے ظہور کے زمانے میں آپ پر اپنی جان نثار کرسکتا ہے؟

لیکن کیا حضرت امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی توقیع میں یہ نہیں فرمایا:

''لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلاٰئِکَةِ وَالنّٰاسِ أَجْمَعِیْنَ لِیْ مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ أَمْوٰالِنٰا دِرْهَماً'' (1)

اس شخص پر خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو ہمارے مال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال جانے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۱۸۳، کمال الدین: ج۲ص۲۰۱، الصحیفة المبارکة المہدیة:282

۲۰۲

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں جابر سے فرمایا:

''یٰا جٰابِرُ، أَ یَکْتَفِْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُوْلَ بِحُبِّنٰا أَهْلِ الْبَیْتِ ؟فَوَاللّٰهِ مٰا شِیْعَتُنٰا اِلاّٰ مَنِ اتَّقَی اللّٰهَ وَ أَطٰاعَهُ''(2)

اے جابر!کیا خود کو شیعہ کے طور پر دکھانا کافی ہے اور کہے کہ میں اہلبیت علیھم السلام سے محبت کرتا ہوں ۔خدا کی قسم !ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقویٰ الٰہی رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔

اس فرمان سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ:جو کوئی با تقویٰ نہیں اور خداکا مطیع نہیںاسے صرف محبت کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔

--------------

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۹۷

۲۰۳

 نتیجۂ بحث

 محبت آپ کے دردو غم کے لئے اکسیر ہے ۔محبت کی کشش و جاذبہ انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور اس کے صفات و حالات محب میں ایجاد کرتی ہے اور اسے تقویت دیتی ہے۔محبت جتنی زیادہ ہو ،محب میں محبوب کے روحانی حالات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جس سے اسے  محبوب کا تقرب حاصل ہو جائے۔یہی مودت کا معنی ہیجوہر انسان کو خاندان وحی علیھم ا لسلام سے ہونی چاہئے۔کیونکہ اجر رسالت ، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت  ہے۔

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام سے محبت و مودت کے ذریعے اپنی روح کو پروان چڑھائیں اور اس خاندان کے آستانۂ ولایت سے تقرب حاصل کریں تا کہ آپ کا وجود ولایت کے تابناک انوار سے سرشار ہو جائے اور آپ کے وجود سے برائیاں پاک ہو جائیں۔

 ان ہستیوں کے تقرب کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ان کے دشمنوں سے  برات اور دوری کی جائے۔

 یہ ہے سچی محبت جسے آپ اپنے اور اپنے نزدیکی افراد کے دل کی گہرائیوں میں ایجاد کریں۔

جمعی کہ دم از مھر و ارادت دارند

در بام شرف ،کوس سیادت دارند

چون دست بہ دامان سعادت زدہ اند

پا بر سر نام و ننگِ عادت زدہ اند

۲۰۴

آٹھواں  باب

انتظار

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ  ''

مومن کی سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے (سختی اورغم سے)  نجات کے انتظار میں رہے۔

    انتظار کی اہمیت    انتظار کے عوامل    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

    انتظار کے آثارسے واقفیت

    1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

    2۔ روحانی تکامل

    مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر    کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

    3۔ مقام ولایت کی معرفت    4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

    اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

    ظہور کے زمانے کی معرفت

    1۔ باطنی تطہیر

    2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

    3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

    نتیجۂ بحث

۲۰۵

 انتظار کی اہمیت

انتظار ان با عظمت افراد کا خاصہ ہے جو کامیابی اور کامرانی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہیں۔چونکہ غیبت کے دوران خاندان عصمت علیھم السلام کے دامن اطہر سے جاری عظیم شخصیتوں سے متعلق روایتیں نیز مستحکم اور مظبوط اقوال زریں ہو ئے ہیں ۔آنحضرت  کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہر زمانے کے انسان سے افضل ہیں ۔

اسی لئے ایک گروہ انتظار کی  سختیوں کو دنیا میں کامیابی کی اہم کلید سمجھتا ہے ۔  ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان انتظار کے اسباب اور اس کے کمال کی معرفت اور وسیلہ سے حقیقت کے بحر سے کامیابی کے جواہر حاصل کر سکتا ہے نیز سماجی مشکلوں اور مادی رکاوٹوں سے بھی نجات پا سکتا ہے ۔انتظار صحیح معنی میں دشوار گزار حالت ہوتی ہے گویا کہ اسرار کے بھنور نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے حسب دلخواہ اس کے کمال کی راہ نکالی ہے اور دشمن کی مکاریوں کی مخالفت کی ہے چونکہ انتظار اپنے آخری اور بلند ترین مرحلہ میں امام زمان  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی ملکوتی حکومت میں آسمانی نظام کے رائج کرنے اور اس کی خدمت کرنے میں آمادگی اور مدد کے معنوں میں آتا ہے کہ جسے غیر عادی اور غیر معمولی قدرت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا انتظار امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف کے خاص اصحاب میں موجود ہے ۔[1]

--------------

[1] ۔ ہ لوگ جو امام زمانہ کی یاد اور توسل کے ساتھ انتظار کے مراسم برپا کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس قسم کی مجالس و محافل الحمد للہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہی ہیں اور ہماری مراد اس طرح کی مجالس کی نفی اور اس طرح کے افراد کے اندر حالت انتظار کی عدم موجودگی نہیں ہے ۔ کیونکہ انتظار میں درجات و مراتب پائے جاتے ہیں ۔ اور وہ افراد جو اس کے کمال اور عالی ترین مراتب تک پہنچے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن انھیں افراد میں سے اٹھے ہیں ۔ اور سخت جاں فشانی اور جد و جہد اور سختیوں اور مشکلات کے تحمل کرنے کے ساتھ اس عظیم مقام کہ جس پر وہ فائز ہوئے ہیں کو حاصل کیا ہے ۔

۲۰۶

 انتظار جس مرحلے میں بھی ہو یہ عالم غیب سے غیبی مدد اور خدا سے تقرب کا راستہ  ہے  اور اگراس میں دوام ہو اوراگر یہ تکامل حاصل کرلے تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں نفس اور ضمیر سے نا آگاہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور کھنچائو کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور  انسان کے باطن میںنور اور آشنائی کے دریچے کھول دیتاہے اور اسی طرح سے انسان کے لئے تکامل کی راہ کھول دیتاہے کیونکہ انتظار تمام تر ضروری اور لازم مدارج میں آمادگی کی حالت کو کہتے ہیں ۔

 باطنی توجہ کو دنیا سے خلوص ، حقیقت اور نورانیت کی طرف جذب کرتیہے ۔ وہ جہان جس  سے تمام تر شیطانی اور طاغوتی قوتیں اور طاقتیں نابود ہو جائیں اس دنیائے انسانیت کی جان میں انوار الٰہی کی چمک جگمگا اٹھتی ہے ۔

اس حقیقت کی  طرف غور کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراحل کو طے کر سکتا ہے کہ جو غیر معمولی طاقت اور قوت کا حامل ہو ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف  کی حکومت ایکغیر معمولی حکومت ہوگی جس کا درک کرنا ہماری ہمت ، طاقت اور سوچ سے کہیں بالا تر ہے ۔ اور سب کے لئے ضروری ہے کہ مدد گار افراد حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پہلی صف میں آپ کی مدد کریں تاکہ اللہ کے نیک لوگوں میں شمار ہوں اور آپ کے فرمان اور حکم کی اطاعت کرنے کی طاقت کو حاصل کریں جس کو حاصل کرنے کے لئے غیر عادی قدرت کا ہونا ضروری ہے ۔(1)

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے اوصاف اور خواص کو بیان کرنے   والی روایات ان کے بارے میں روحانی اور غیر عادی طاقتوں کے موجود ہونے کا پتا دیتی ہیں یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں بھی ۔

--------------

[1] ۔ بے شمار روایت میں امام عصر  کی حکومت کے اندر غیر معمولی طاقتوں سے استفادہ کی تصریح کی گئی ہے ۔

۲۰۷

 انتظار کے عوامل

 ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور  اپنے اور دوسروں کے اندر بھییہ حالت پیدا کریں ۔

 حالت انتظار کو حاصل کرنے ، سیکھنے اور اسے دوسروں تک آگے پہنچانے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے ہم معاشرے میں انتظار کی حالت پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں انتظار کے بیچ کوبا ثمر بنا سکتے ہیں اور درج ذیل بعض مہم ترین راہوں کے ذریعہ سے معاشرہ ، مسئلہ انتظار کی طرف مائل ہو سکتا ہے ۔

 1۔ ولایت کے عظیم مقام سے آشنائی اور عظمت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شناخت ۔

2 ۔ انتظار کے حیران کن آثار کے ساتھ اس کے صحیح اور کامل معنی اور اس کے عظیم مراحل سے  آشنائی ۔

3۔ امام عصر کے اصحاب کے اوصاف و خصوصیات سے آشنائی جو انتظار کے عالی ترین مرتبہ تک پہنچے اور عظیم روحانی قوت سے ہمکنار ہوئے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  کے فرمان کو انجام دیتے ہیں ۔

4۔ انسان اور آئندہ زمانے کے لوگوں کی زندگی میںظہور کے زمانے میں واقع ہونے والے عظیم تحولات اور اہم ترین تغیرات سے آشنائی  ۔(1)

--------------

[1] ۔ ان کے علاوہ دوسرے راستے بھی موجود ہیں جو انسان کو انتظار کی طرف بلاتے ہیں ان میں سے بعض کی وضاحت ہم نے کتاب اسرار موفقیت میں ذکر کی ہے جیسے ۔ اخلاص ، معارف سے آشنائی محبت اہل بیت  خود سازی اور .......۔

۲۰۸

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مرتبہ کی معرفت، آپ کے محبین اور ساتھیوں کی شناخت اور عقل    اورفہم و ادراک کی تکمیل ، غیبت اور عالم نا مرئی سے ربطہ ، ناشناختہ موجودات کی شناخت ، دور دراز فضائوں اور آسمانوں کے سفر اور اسی قسم کے دوسرے مسائل لوگوں کو مسئلہ ظہور امام کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

 نیزجو آنحضرت  کی عظیم الشان ار آفاقیحکومت کے لئے آمادگی پیدا کرتے ہیں یہ تمام حقائق ، پاک طینت افراد میں علم و آگہی اور جنون و عشق کا سرور پیدا کرتے ہیں اوراس طرح یہ افراد اس عظیم الشان زمانے کے دلدادہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے اور سماج میں انتظار اور ظہور کی حالت پیدا کریں جو ہر انسان کی مسلم ذمہ داری ہے۔ اب اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

امام کا باعظمت وجود اپنی نورانی خصوصیتوں کے سبب انتظار کی کیفیت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں آپ  کے علاوہ کو ئی بھی رہبری ،امامت اور کائنات کی اصلاح کے لا ئق نہیں ہے یہ اسباب انسان کو آپ کی طرف جذب کرتے ہیں نیز آپ  خداکی آخری نشانی ہیں آپ ہی آخری راہنما اور ہادی ہیں جیسا کہ آپ سے متعلق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فر ماتے ہیں :

 ''عِلْمُ الْاَنْبِیٰاء فِی عِلْمِهِمْ وَسِرُّ الْاَوْصِیٰاء فِیْ سِرِّهِمْ وَ عَزُّالْاَوْلِیٰاءِ فِیْ عِزِّهِمْ ، کَالْقَطْرَةِ فِی الْبَحْرِ وَ الذَّرَّةِ فِی الْقَفْرِ'' (1)

--------------

[1]۔ بحار الانوار ،: ج۲۵ص۱۷۳

۲۰۹

  تمام نبیوں کا علم ،تمام اوصیاء کے راز،تمام اولیاء کی عزتیں آپ کے علم ،راز اور عزت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں ایک قطرہ یا ریگستان میں ایک ذرہ ۔

 چونکہ ہم خاندان عصمت و طہارت  علیھم السلام کے آخری فرد کے دور میںزندگی گزار  رہے ہیں اسی لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے زریں فرامین واقوال کے سائے میں رہتے ہو ئے تباہی اور بربادی کے طوفان سے بچیں اور آنحضرت  کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں نیز آپ  کی حکومت کے   انتظار میں ہرایک لمحہ شمار کرتے رہیں تا کہ آپ پرچم ہدایت وعدالت افلاک عدل و انصاف پر نصب فرما دیں ۔

 اگر کو ئی اس زمانے میں امام علیہ السلام کو پہچان لے اور زمانہ ٔغیبت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اس امداد سے آگاہی رکھتا ہو اور آپ کے ذریعے  زمانہ ٔ  ظہور میں دنیا اور انسانوں میں ایجاد ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہو تو وہ ہمیشہ آپ  کی یاد میں رہے گا اور اس طرح جیسا کہ حکم ہوا ہے(1) آفتاب ولایت کے طلوع کے انتظار میں زندگی بسر کرے گا ۔

 معرفت ؛ایسے انسان کے دل سے غلاظت اور زنگ کو پاک اور صاف کرکے اس کی جگہ پا کیزگی خلوص اور نورانیت کو جایگزین کرے گی۔ اب ایک نہا یت ہی پر کشش روایت کی طرف توجہ کریںجس سے امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔغیبت میں آپ  کی طرف سے غیبی امداد کا پتہ چلتاہے جابر جعفی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ حضور اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فر مایا :

--------------

[1]۔ بحار لانوار:ج52ص145

۲۱۰

 ''....ذٰاکَ الَّذِی یَفْتَحُ اللّٰهُ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ عَلٰی یَدَیْهِ مَشٰارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغٰارِبَهٰا ، ذٰاکَ الَّذِیْ یَغِیْبُ عَنْ شِیْعَتِهِ وَ اَوْلِیٰا ئِهِ غَیْبَةً لاٰ یَثْبُتُ فِیْهٰا عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِهِ اِلاّٰ مَنْ اِمْتَحَنَ اللّٰهُ قَلْبَهُ بِالْاِیْمٰانِ ''''قٰالَ :فَقٰالَ جٰابِرُ :یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَهَلْ یَنْتَفِعُ الشِّیْعَةُ بِهِ فِیْ غَیْبَتِهِ ؟

فَقٰالَ : ای وَالَّذِیْ بَعْثَنِیْ بِالنُّبُوَّةِ أَنَّهُمْ لَیَنْتَفِعُوْنَ بِهِ وَ یَسْتَضِیْئُونَ بِنُوْرِ وِلاٰیَتِهِ فِی غَیْبَتِهِ کَانْتِفٰاعِ النّٰاسِ بِالشَّمْسِ ،وَاِنْ جَلَّلَهَا السِّحٰابُ ، یٰا جٰابِرُ ،هٰذٰا مَکْنُوْنُ سِرِّ اللّٰهِ وَ مَخْزُوْنُ عِلْمِهِ فَاکْتُمْهُ اِلاّٰ عَنْ أَهْلِهِ ''(1)

 وہ (امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف) جن کے ذکر کو خداوند کریم زمین کے تمام گوشہ و کنار میں آپ  ہی کے ذریعہ پہنچائے گا وہ اپنے شیعوں اور محبوں  سے غائب رہیں گے اس طرح کہ بعض آپ  کی امامت کے منکر ہو جا ئیں گے سوائے ان افراد کے جن کے ایمان کا خداوند کریم نے امتحان لے رکھا ہو ۔

 جابر جعفی کہتے ہیں :جابر بن عباللہ انصاری نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسو ل(ص) اللہ! کیا شیعہ ان کی غیبت کے زمانے میں ان سے بہرہ مند ہو سکیں گے ؟

 پیغمبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا :

'' اس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا وہ افراد آپ  کے وسیلہ سے بہرہ مند ہوں گے ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ،جس طرح لوگ سورج سے بہرہ مند ہو تے ہیں اگر چہ بادل اسے ڈھانکے ہوئے ہوں۔اے جابر!وہ خدا کے مخفی رازوں اور اس کے علم کے خزانو ں میں سے ہے ۔لہٰذا اسے مخفی رکھو مگر اس کے اہل سے''.

--------------

[1]۔ کمال الدین :146اور 147، بحارالانوار:ج36ص250

۲۱۱

جیسا کہ آپ  نے ملا حظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں تاکید کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ شیعہ امام عصر ارواحناہ فداہ کے زمانہ غیبت میں آپ  کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ۔

کیست بی پردہ بہ خور شید ،نظر باز کند      چشم پوشیدۂ ما،علت پیدائی توست

از لطافت نتوان یافت ،کجا می باشی               جای رحم است بر آن کس کہ تماشایی تست

 اگر چہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس زمانے میں غائب ہیں مگر حقیقت میں پردۂ غیبت ہمارے دلوں پر ہے ور نہ امام اس شخص کے لئے چمکتا ہوا نور ہیں جس کا دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو خواہ ظاہراً نابینا ہو ۔(1)

 اس حقیقت کی طرف توجہ انسان کی منزل ولایت اور آپ  کے علم اور قدرت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوردلوں کو امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریفکی محبت سے سرشار اور آنحضرت  کی آئندہ آنے والی حکومت   کے انتظار کو ایجاد کرتی ہے ۔

--------------

[1] ۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے کتاب اسرار موفقیت ج  2 کے صفحہ نمبر 50سے ابو بصیر کی روایت میں امام باقر  علیہ السلام  کے غائب  ہونے کے واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۱۲

  انتظار کے آثارسے واقفیت

 1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

 ایسے معاشرے میں جہاںدین کا نام و نشان بھینہ ہو اور لوگ بہتر مستقبل کی فکر میں نہ ہوں تو ویاںقتل وغارت ، خوں ریزی ، خود کشی اور اسی طرح کی دوسری برائیاںوجود میں آتی ہیں ۔ چونکہ لوگ '' منفی عوامل '' جیسے فقر ، تنگدستی ، ظلم و ستم ، تجاوز ، قانون شکنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بے اعتنائی جیسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزمائی کے حربوں سے ناواقفیت کی وجہ سے گھر ، سماج اور معاشرے کی تباہی دیکھتے ہی مایوسی و ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

 چونکہ اس کی غیبی طاقت سے مایوس ہو جاتے ہیں لہٰذا ان مشکلوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔ پھر اس ظلم اور بربریت کو اختیار کرکے صرف اپنی دنیا و آخرت ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال نیز رشتہ داروں تک کوبھی اس بھیانک تباہی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

 وہ شخص جس کے دل میں انظار کی کیفیت موجزن ہے اور ہمہ وقت دنیا کے اندر نورولایت کے چمکنے کی امید میں ہے ، کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا جو ا اپنے ساتھ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے ۔

۲۱۳

 چونکہ وہ انتظار کے مسائل سے واقف ہے اور نا امیدی ومایوسی سے کنارہ کش ہے ۔یہ روایت اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے ۔

'' عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قٰالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْفَرَجِ ، فَقٰالَ : اَوَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اِنْتِظٰارِ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ ؟ قُلْتُ لاٰ اَدْرِیْ اِلاّٰ اَنْ تُعَلِّمَنِیْ  فَقٰالَ نَعَمْ ، اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ '' (1)

حسین بن جہم کہتے ہیں :  میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے فرج کے بارے میں دریافت کیا تو امام نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ فرج کا انتظار کشادگی اور وسعت میں ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ نے جتنا مجھے بتایا ہے مجھے اس کے سوا نہیں معلوم ۔ امام نے فرمایا: ہاں! فرج کا انتظار کشادگی اور آسائش سے ہے ۔

2۔ روحانی تکامل

 انسان اپنے اندر انتظار کامل کے ایجاد کرنے کے ساتھ کچھ حد تک ظہور امام  کے زمانے کے لوگوں کے جیسے حالات ( تطہیر قلب) پیدا کر کے ،امید وانتظار کے وسیلہ سے اپنے آپ کو نا امیدی و تباہی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۱۳۰

۲۱۴

 اسی سے متعلق امام صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے اور اسی طرح  حضرت امیر المومنین  علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فر مایا :

 ''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ ''  (1)

''مومن کی سب سے بہترین عبادت یہ ہے کہ وہ خدا سے فرج کا انتظار رکھتا ہو ''

اسی بنا پر انتظار کےذریعہ انسان ظہور امام عجل اللہ فرجہ الشریف  کے بعض آثار تکامل کو اپنے اندر ایجاد کرسکتا ہے ۔ ابوخالد کی اس بات کی وضاحت امام سجاد علیہ السلام کے اس فر مان سے ہو تی ہے :

 ''عَنْ اَبِیْ خٰالِدِ الْکٰابُلِی عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسِیْنِ تَمْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّهِ الثّٰانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیٰائِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدِهِ ،یٰا أَبٰاخٰالِدٍ ،اِنَّ أَهْلِ زَمٰانِ غَیْبَتِهِ ،اَلْقٰائِلُوْنَ بِاِمٰامَتِهِ ،اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُهُوْرِهِ ،أَفْضَلُ أَهْلِ کُلِّ زَمٰانٍ ،لِاَنَّ اللّٰهَ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ أَعْطٰاهُمْ مِنَ الْعُقُوْلِ وَالْاَفْهٰامِ وَالْمَعْرِفَةِ مٰا صٰارَت بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَ هُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشٰاهَدَ ِة ،وَ جَعَلَهُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمٰانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجٰاهِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِالسَّیْفِ ،اُوْلٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً،وَ شِیْعَتُنٰا صِدْقاً ،وَالدُّعٰاةُ اِلٰی دِیْنِ اللّٰهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَٰقالَ  : اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ '' (2)

ابو خالد کابلی حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فرمایا :

ولی خدا جو پیغمبر اکرم (ص) کے اوصیاء میں سے بارہویں (خلیفہ ) اور آپ  کے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے ہیں کی غیبت طولانی ہو گی اے ابو خالد!بے شک ان کے زمانۂ غیبت  کے لوگ ، ان کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے اور ان ظہور کے منتظر لوگ ہر زمانے کے لو گوں سے افضل ہیں ۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج53 ص131

[2]۔ بحار الانوار: ج ۵۲ص۱۲۲

۲۱۵

 کیونکہ خداوند کریم عقلوں کوان کا ذکراس قدر عطا کرے گا کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہد ے کی طرح ہو گی اور ان کو اس زمانے میں ان مجاہدین کی طرح قرار دیا جائے گا کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کے دور میں تلوار سے جہاد کیا ہو حقیقت میں وہی با اخلاص ہیں اور وہ ہمارے سچے شیعہ ہیں اور لوگوں کو ظاہری اور مخفی طور سے بھی دین خدا کی طرف بلاتے ہیں ۔

اس کے بعد امام سجاد  علیہ السلام نے فر مایا : ''ظہور کا  انتظار عظیم ترین فرج میں  سے ہے ۔''

دوست نزدیک تر از من ،بہ من است

وین عجیبتر کہ من از وی دورم

این سخن با کہ توان گفت کہ دوست

در کنار من و من مہجورم

 انتظار کی راہ تکامل تک پہنچنے والیسچے منتظرین اپنے آپ کو حکومت خدا کی غیبی قدرت سے پوری دنیا پر حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے اثر سے غیبت کے زمانے میں بعض زمانۂ ظہور کے فردی خواص اور خصوصیات جیسے تطہیر قلب وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اس حد تک کہ غیبت کا زمانہ ان کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے اگران کے اندر اس طرح کے اثرات نہ ہو ں تو کس طرح فرج اعظم کا انتظار فرج ہے ؟وہ حالت انتظار کے ساتھ غیبت اور زمانۂ ظہور کے در میان رابطہ قائم کرتے ہیںاور اس زمانے کے بعض حالات کوغیبت کے زمانے میں پا لیتے ہیں ۔(1)

--------------

 [1] ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ  مرحوم بحر العلوم اور مرتضی ٰ شیخ انصاری  جیسے بہت کم افراد  ایسے حالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

۲۱۶

 مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر

 دلوں کو منور کرنے والا واقعہ دنیا ئے تشیع کی اس عظیم شخصیت کا ذکر ہے جس نے ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں  پر غیبی امداد اور قوت سے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 شیخ انصار ی کے ایک شاگرد ، آپ کے امام  علیہ السلام سے تعلق اور امام  علیہ السلام کے شریعت کدہ پر شرفیابی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے کربلا پہنچا۔ انہی ایام میں ایک بار میں آدھی رات کے وقت حمام جا نے کے لئے گھر سے باہر آیا ، چونکہ گلیوں میں کیچڑ و غیرہ زیادہ تھا لہذا میں نے اپنے ساتھ ایک شمع بھی لے لی اور میں  اس کی مدہم روشنی میں چلنے لگا ۔ کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا میں نے محسوس کیا جیسے شیخ انصاری ہو ں ۔  راستہ طے کرکے جیسے ہی قریب ہوا تو یقین ہو گیا آپ ہی ہیں ۔میں نے سو چا یہ حضور اس تاریکی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں جب کہ آپ کی بینا ئی بھی کمزور ہے ۔میں نے سو چا کہیں کو ئی آپ کا تعاقب نہ کر رہا ہو کہ جو آپ کو نقصان پہنچا ئے لہٰذا خاموشی سے آپ کے پیچھے چلنے لگا ۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک پرا نی ساخت کے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو ئے اور خلو ص نیت کے ساتھ زیارت جامعہ پڑھنے لگے ۔

زیارت سے فارغ ہو تے ہی اس مکان میں داخل ہو ئے ۔پھر میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف آپ کی آواز آرہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی سے ہم کلام ہیں ۔میں وہاں سے پلٹا پھر حمام گیا اور اس کے بعد حرم مطہر گیا وہاں میں نے شیخ  کو دیکھا ۔

۲۱۷

 اس سفر سے واپس آکر میں نجف اشرف میں شیخ کی خدمت میں پہنچا اور اس رات والے واقعہ کو دہرایا اور اس کی تفصیل پو چھی ،پہلے تو شیخ نے انکار کیا لیکن مزید اصرار پر آپ  نے فر مایا :

جب امام  سے ملاقات کی خواہش ہوتی ہے تو میں اس گھر کے دروازے پر چلا جاتا ہوں ،جسے تم اب کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ،زیارت جامعہ پڑھنے کے بعد اذن طلب کرتا ہوں ۔اگر اجازت مل جاتی ہے تو آنحضرت  کی خدمت میں فیضیاب ہو تا ہوں ۔جو مسائل میری سمجھ سے بالا ہوتے ہیں آپ  اسے بطور احسن حل فر ماتے ہیں ۔

پھر شیخ  نے فرمایا:اور سنو جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کو چھپا ئے رکھنا ۔ہرگز کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ۔(1)

 اسی طرح اور دوسری بزرگ شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے امام  سے بارہا ملاقات کی ہے اور اپنے آپ کو حضرت  کے ظہور کے لئے ہمہ وقت آمادہ رکھتے تھے ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جو قرآنی آیتوں کی تأ ویل اور توجیہ کریں گے نیز آنحضرت  کے ساتھ جنگ بھی کریں گے ۔

کلید گنج سعادت فتد بہ دست کسی

کہ نخل ہستی اورا بود بَرِ ہنری

چو مستعد نظر نیستی ،وصال مجوی

کہ جام جم ندہد سود ،وقت بی بصری

--------------

[1] ۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری  : 106

۲۱۸

  کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

۲۱۹

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاهَدُوْا فِیْنٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلُنٰا ) (1)

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: 69

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326