احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)23%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211786 / ڈاؤنلوڈ: 4586
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مبطلات نماز کے احکام:

بات کرنا:

١۔اگر نماز گزار عمداًکوئی لفظ کہیز اور اس کے ذریعہ کسی معنی کو پہنچاناچاہے تو اس کی نماز باطل ہے۔(١)

٢۔اگر نماز گزار عمداًکوئی لفظ کہے اور یہ لفظ دویا دوسے زائد حروف پر مشتمل ہو، اگرچہ اس کے ذریعہ کسی معنی کو پہنچانا مقصدنہ ہو، احتیاط واجب کی بناپر اسے نماز دوبارہ پڑھنی چاہئے۔(٢) ٭٭

٣۔نماز میں کسی کو سلام نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر کسی نے نماز گزار کوسلام کیا تو واجب ہے اس کا جواب دیدے اور چاہئے کہ سلام کو مقدم قراردے.مثلاً کہے:

''السلام علیک'' یا'' السلام علیکم''''علیکم السلام''نہ کہے.(٣) ٭٭٭

____________________

(١)توضیح المسائل،ص١٥٤

(٢) توضیح المسائل،م ١٥٤.

(٣) توضیح المسائل،م١١٣٧.

*(گلپائیگانی، اراکی) اگر وہ لفظ دوحرف یا اس سے زیادہ ہوتو (توضیح المسائل ص ١٩٩)

٭٭(خوئی) اس کی نماز باطل نہیں ہے لیکن نماز کے بعد سجدہ سہو بجالانا لازم ہے (مسئلہ ١١٤١)

٭٭٭(اراکی۔ گلپائیگانی) اسی صورت میں جواب دینا چاہئے جیسے اس نے سلام کیا ہو لیکن''علیکم السلام''کے جواب میں ''سلام علیکم'' کہنا چاہئے(مسئلہ١١٤٦)،(خوئی) احتیاط واجب کی بناء پر اسی صورت میں جواب دینا چاہئے کہ جیسے اس نے سلام کیا ہو لیکن'' علیکم السلام'' کے جواب میں جس طرح چاہے جواب دے سکتا ہے۔

۱۴۱

ہنسنا اور رونا :

١۔اگر نماز گزار عمداً قہقہہ لگاکر ہنسے، تو اس کی نماز باطل ہے۔

٢۔مسکرانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

٣۔اگر نماز گزار کسی دنیوی کام کے لئے عمداًآواز کے ساتھ ،روئے تو اس کی نماز باطل ہے۔

٤۔آواز کے بغیررونے، خوف خدا یا آخرت کے لئے رونے سے، اگرچہ آواز کے ساتھ ہو، نماز باطل نہیں ہوتی*(١)

قبلہ کی طرف سے رخ موڑنا:

١۔اگر عمداًاس درجہ قبلہ سے رخ موڑ لے کہ کہا جائے وہ قبلہ رخ نہیں ہے، تو نماز باطل ہے۔

٢۔ اگر بھولے سے پورے رخ کو قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف موڑلے ٭٭، تواحتیاط واجب ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے، لیکن اگر پوری طرح قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف منحرف نہ ہوا ہو تو نماز صحیح ہے۔(٢)

نماز کی حالت کو توڑنا:

١۔اگر نماز گزار نماز کے دوران کوئی ایسا کام انجام دے جس سے نماز کی اتصالی حالت (ہیئت) ٹوٹ جائے ،مثلاًمبطلات نماز کا ساتواں اور آٹھواں نمبر، تالی بجانا اور اچھل کود کرنا وغیرہ، اگرچہ سہواً بھی ایسا کام انجام دے تو نماز باطل ہے۔(٣)

٢۔اگر نماز کے دوران اس قدر خاموش ہوجائے کہ دیکھنے والے یہ کہیں کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز باطل ہے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١٥٦مبطلات نماز کا ساتواں اور آٹھواں نمبر.

(٢)توضیح المسائل،م ١١٣١ (٣) توضیح المسائل،م ١١٥٦.نویں مبطلات نماز

(٤) توضیح المسائل،م ١١٥٢.

*(تمام مراجع)احتیاط واجب ہے کہ دنیوی کام کے لئے آواز کے بغیر بھی نہ روئے، (توضیح المسائل ص ٢٠٩)

٭٭(گلپائیگانی) اگر سر کو قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف موڑلے اور عمدا ہویا سہواًنماز باطل نہیں ہوگی۔ لیکن مکروہ ہے.(م١١٤٠)

۱۴۲

٣۔واجب نماز کو توڑنا حرام ہے،مگر مجبوری کے عالم میں،جیسے درج ذیل مواقع پر:

*حفظ جان۔

*حفظ مال۔

*مالی اور جانی ضرر کو روکنے کے لئے۔

٤۔قرض کو ادا کرنے کے لئے نماز کو درج ذیل شرائط میں توڑ دے تو کوئی حرج نہیں :

*قرضدار، قرض کو لینا چاہتا ہو۔

*نماز کا وقت تنگ نہ ہو،یعنی قرض ادا کرنے کے بعد نماز کو بصورت ادا پڑھ سکے۔

*نماز کی حالت میں قرض کو ادا نہ کرسکتا ہو۔(١)

٥۔ بے اہمیت مال کے لئے نماز کو توڑنا مکروہ ہے۔(٢)

وہ چیزیں جو نماز میں مکروہ ہیں:

١۔ آنکھیں بندکرنا۔

٢۔ انگلیوں اور ہاتھوں سے کھیلنا۔

٣۔حمد یا سورہ یاذکر پڑھتے ہوئے، کسی کی بات سننے کے لئے خاموش رہنا.

٤۔ہروہ کام انجام دینا جو خضوع وخشوع کو توڑنے کا سبب بنے۔

٥۔رخ کو تھوڑاسا دائیں یا بائیں پھیرنا (چونکہ زیادہ پھیرنا نماز کو باطل کرتا ہے )۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١١٥٩ تا ١١٦١.

(٢)توضیح المسائل،م ١١٦٠.

(٣) توضیح المسائل،م ١١٥٧

۱۴۳

سبق ٢١: کا خلاصہ

١۔درج ذیل امور نماز کو باطل کردیتے ہیں:

*کھانا اور پینا.

*بات کرنا.

*ہنسنا.

*رونا.

*قبلہ سے رخ موڑنا۔

*ارکان نماز میں کمی و بیشی کرنا۔

نماز کی حالت کو توڑنا ۔

٢۔نماز میں بات کرنا، اگرچہ دوحرف والا ایک لفظ بھی ہو، نماز کو باطل کردیتا ہے.

٣۔قہقہہ لگا کر ہنسنا نماز کو باطل کردیتا ہے۔

٤۔بلند آواز میں دنیوی امور کے لئے رونا نماز کو باطل کردیتا ہے۔

٥۔اگر نماز گزار اپنے رخ کو پوری طرح دائیں یا بائیں طرف موڑلے یا پشت بہ قبلہ کرے تو نماز باطل ہوجائے گی۔

٦۔ اگر نماز گزار ایسا کام کرے جس سے نماز کی حالت (ہیئت) ٹوٹ جائے تو،نماز باطل ہے۔

٧۔حفظ جان ومال اور قرض کو ادا کرنے کے لئے، جب قرضدار قرض کا تقاضا کرے اور وقت نماز میں وسعت ہو اور نماز کی حالت میں قرض ادانہ کرسکتا ہو،نماز کو توڑنا اشکال نہیں ہے۔

۱۴۴

سوالات:

١۔ کن امور سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟

٢۔ اگر کوئی شخص نماز گزار کو نماز کی حالت میں سلام کرے تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٣۔ کس طرح کا ہنسنا اور رونا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

٤۔اگر نماز گزار متوجہ ہوجائے کہ ایک بچہ بخاری (ہیٹر سے مشابہ ایک چیز ہے) کے نزدیک جارہا ہے اور ممکن ہے اس کا بدن جل جائے، کیا نماز کو توڑ سکتا ہے؟

٥۔ایک مسافر نماز کی حالت میں متوجہ ہوتا ہے کہ ریل گاڑی حرکت کرنے کے لئے تیار ہے کیا وہ ریل کو پکڑنے کے لئے نماز کو توڑسکتا ہے؟

۱۴۵

سبق نمبر ٢٢

اذان، اقامت اور نماز کا ترجمہ

اذان واقامت کا ترجمہ:

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خدا سب سے بڑاہے۔

*اَشْهَدُاَنْ لَاْاِلٰهَ اِلاّ اللّٰه

میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔

*اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰهِ

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پیغمبر ہیں

*اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ وَلِیُّ اللّٰهِ ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ علی علیہ السلام مومنوں کے امیر اور لوگوں پر خدا کے ولی ہیں۔

*حَیَّ عَلَی الصَّلوٰةِ

نماز کی طرف جلدی کرو

*حَیَّ عَلَی الْفَلاٰحِ.

کامیابی کی طرف جلدی کرو۔

*حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ

بہترین کام کی طرف جلدی کرو۔

*قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰة

نماز قائم ہوگئی

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خدا سب سے بڑاہے۔

*لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه

پروردگار عالم کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔

۱۴۶

نماز کا ترجمہ:

تکبیرة الاحرام:

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خداسب سے بڑاہے۔

حمد:

*بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں

*الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ٭

سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والاہے۔

* الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ ٭

وہ عظیم اور دائمی رحمتوں والا ہے۔

* مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ ٭

روز قیامت کا مالک ومختار ہے۔

* ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ٭

پروردگارا. ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں:

*اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ٭صِرَاطَ الَّذِینَ َنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ٭

ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ،جوان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں.

* غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ (٭)

ان کا راستہ نہیں، جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں:

۱۴۷

سورہ:

* بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں

* قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَد ٭

اے رسول:! کہدیجئے کہ اللہ ایک ہے۔

* اَللّٰهُ الصَّمَدُ٭

اللہ برحق اور بے نیاز ہے۔

* لَمْ یَلِدُ وَلَمْ یُوْلَدْ٭

اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد۔

* وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً اَحَدُ.

اور نہ اس کا کوئی کفووہمسر ہے۔

ذکر رکوع:

* سُبْحَانَ رَبیَّ العظیم وَبِحَمْدِه

اپنے پروردگار کی ستائس کرتاہوں اور اسے آراستہ جانتاہوں۔

ذکر سجود:

* سُبْحَانَ رَبیَّ الْاَعْلٰی وَبِحَمْدِه

اپنے پروردگار کی (جو سب سے بلند ہے)ستائش کرتا ہوں اور آراستہ جانتا ہوں

تسبیحات اربعہ:

* سُبْحٰانَ اللّٰه وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاٰ اِلَهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَر

خداوند عالم پاک اور منزہ ہے، تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں پروردگار عالم کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور خدا سب سے بڑا ہے۔

۱۴۸

تشہد:

*''أَشْهَدُ أَنْ لاٰاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰشَریْکَ لَه

میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

*وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُهُ وَرَسُوْلُهْ.

اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندہ اور خدا کا بھیجاہوا( رسول) ہے۔

* أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ''.

خداوندا!: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے خاندان پر درود بھیج۔

سلام:

* اَلْسّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّهَاْ اْلنَبِیُّ وَرَحْمَةُ اْﷲِ وَ بَرَکَاْتُه.

درود اور خدا کی رحمت وبرکات ہو آپ پراے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !

* اَلْسّلَاَمُ عَلَیْنَاْ وَ عَلٰی عِبَاْدِ اْللّٰهِ اْلصَّاْلِحِیْنَ

درود و سلام ہو ہم (نماز گزاروں)پر اور خدا کے شائستہ بندوں پر۔

* اَلسّلَاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اْللّٰهِ وَ بَرکَاْتُه.

سلام اور خدا کی رحمت و برکت آپ پر ہو۔

۱۴۹

سوالات:

١۔اس جملہ کا ترجمہ کیجئے جو اقامت میں موجود ہے لیکن اذان میں نہیں ہے؟

٢۔تسبیحات اربعہ کا ترجمہ کیجئے؟

٣۔سبق میں مذکررہ سورہ کے علاوہ قرآن مجید سے ایک چھوٹے سورہ کو انتخاب کرکے اس کا ترجمہ کیجئے؟

٤۔نماز کے پہلے اور آخری جملہ کا ترجمہ کیا ہے؟

٥۔تکراری جملوں کو حذف کرنے کے بعد نماز کے کل جملوں کی تعداد (اذان واقامت کے علاوہ) کتنی ہے؟

۱۵۰

سبق نمبر٢٣، ٢٤

شکیات نماز

بعض اوقات ممکن ہے نماز گزار، نماز کے کسی حصے کوانجام دینے کے بارے میں شک کرے، مثلاً نہیں جانتا کہ اس نے تشہد پڑھا ہے یا نہیں، ایک سجدہ بجا لایا ہے یا دو سجدے،بعض اوقات نماز کی رکعتوں میں شک کرتا ہے، مثلاً نہیں جانتا اس وقت تیسری رکعت پڑھ رہاہے یا چو تھی۔

نماز میں شک کے بارے میں کچھ خاص احکام ہیں اور ان سب کا اس مختصر کتاب میں بیان کرنا امکان سے خارج ہے، لیکن خلاصہ کے طور پر اقسام شک اور ان کے احکام بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

نماز میں شک کی قسمیں(١) :

١۔نمازکے اجزاء میں شک:

الف: اگر نمازکے اجزاء کو بجالانے میں شک کرے، یعنی نہیں جانتا ہوکہ اس جزء کو بجالایا ہے یا نہیں، اگر اس کے بعد والاجزء ابھی شروع نہ کیا ہو، یعنی ابھی فراموش شدہ جزء کی جگہ سے نہ گزرا ہوتو اسے بجالانا چاہئے۔ لیکن اگر دوسرے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک پیش آئے، یعنی محل شک جزء کی جگہ سے گزر گیا ہو ، تو ایسے شک پر اعتبار کئے بغیر نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ١٩٨و ٢٠٠

۱۵۱

ب: اگر نماز کے کسی جزء کے صحیح ہونے میں شک کرے، یعنی نہ جانتاہوکہ نماز کے جس جزء کو بجالایا ہے، صحیح بجالایاہے،یا نہیں، اس صورت میں شک کے بارے میں اعتنا نہ کرے اور اس جزء کو صحیح مان کر نماز جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

٢۔ رکعتوں میں شکز

وہ شک جو نماز کو باطل کرتے ہیں() :

١۔ اگر دورکعتی یاسہ رکعتی نماز جیسے صبج کی نماز یا مغرب کی نماز میں، رکعتوں میں شک پیش آئے تو نماز باطل ہے۔

٢۔ ایک اور ایک سے زیادہ رکعتوں میں شک کرنا، یعنی اگر شک کرے ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ،نماز باطل ہے۔

٣۔ اگر نماز کے دوران یہ نہ جانتا ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہے تو اسکی نماز باطل ہے۔

*وہ شک جن کی پروانہ کرنی چاہئے:(٢)

١۔مستحبی نمازوں میں

٢۔ نماز جماعت میں ۔ ان دونوں کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

٣۔ سلام کے بعد اگر نماز تمام کرنے کے بعد اس کی رکعتوں یا اجزاء میں شک ہوجائے تو ضروری نہیں ہے، نماز کو دوبارہ پڑھیں۔

٤۔ اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ نماز پڑھی یا نہیں؟ تو نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م١١٦٥.

(٢)توضیح المسائل م١١٦٨.

*نماز کی رکعتوں میں شک کے اور مواقع ہیں چونکہ ان کا اتفاق کم ہوتاہے لہٰذا ان کے بیان سے چشم پوشی کرتے ہیں مزید وضاحت کے لئے توضیح المسائل ١١٦٥ تا١٢٠٠ ملاحظہ کیجئے.

۱۵۲

چار رکعتی نماز میں شک(١)

شک = قیام کی حالت میں=رکوع میں =رکوع کے بعد =سجدہ میں =سجدوں کے بعد بیٹھنے کی حالت میں=نمازصحیح ہونے پر نماز گزار کا فریضہ

٢اور ٣ میں شک =باطل =باطل =باطل =باطل *=صحیح =تین پربنا رکھ کر اور ایک رکعت نماز پڑھے اور سلام پھیرنےکے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر بجالائے۔(٭٭)

٢اور ٤ میں شک=باطل =باطل =باطل =باطل =صحیح =چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

٣اور ٤ میں شک =صحیح =صحیح =صحیح=صحیح =صحیح =چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرنے کے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دور کعت بیٹھ کر بجالائے۔

٤ اور ٥ میں شک =صحیح =باطل=باطل=باطل=صحیح =اگر قیام کی حالت میں شک پیش آئے، رکوع کئے بغیر بیٹھ جائے

او ر نماز تمام کرکے ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔٭٭٭اور اگر بیٹھے ہوئے

شک پیش آئے تو چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرکے دو سجدہ سہو بجالائے۔

____________________

(١) تو ضیح المسائل ،م ١١٩٩، العروة الوثقیٰ ج٢س ٢٠ م ٣.

*حضرت آیت اللہ خوئی کے فتوی کے مطابق اگر ذکر سجدہ کے بعد شک پیش آئے اور حضرت آیت اللہ گلپائیگانی کے فتوی کے مطابق اگر شک ذکر واجب کے بعد پیش آئے تو شک کا حکم وہی ہے جو بیٹھنے کی حالت میں ہے.(مسئلہ ١١٩٩)

٭٭(اراکی ۔ خوئی) احتیاط واجب کی بنابر پر کھڑے ہو کر پڑھے (م١١٩١) (گلپائیگانی )ایک رکعت کھڑے ہو کر پڑھے۔ (م١٢٠٨)

٭٭٭(گلپائیگانی)اس صورت میں احتیاط لازم ہے کہ نماز کے بعد احتیاط کے طور پر دو سجدہ سہو بجالائے۔(مسئلہ ١٢٠٨)

۱۵۳

یاددہانی:

١۔ جو کچھ نماز میں پڑھا یا انجام دیا جاتاہے وہ نماز کا حصہ یاایک جزء ہے۔

٢۔ اگر نماز گزار شک کرے کہ نماز کے کسی جزء کو پڑھا ہے یا نہیں، مثلا ًشک کرے کہ دوسرا سجدہ بجالایا ہے یا نہیں، اگر دوسرے جزء میں داخل نہ ہوا ہو تو اس جزو کو بجالانا چاہئے، لیکن اگر بعد والے جزو میں داخل ہوا ہو تو شک کی پروانہ کرے، اس لحاظ سے اگر مثلاً، بیٹھے ہوئے، تشہد کو شروع کرنے سے پہلے شک کرے کہ ایک سجدہ بجالایا ہے یا دو، تو ایک اور سجدہ کو بجالانا چاہئے۔ لیکن اگر تشہد کے دوران یا کھڑے ہونے کے بعد شک کرے، تو ضروری نہیں ہے کہ سجدہ کو بجالائے بلکہ نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

٣۔ نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کو بجالانے کے بعد شک کرے، مثلاً حمد یا اس کے ایک لفظ کو پڑھنے کے بعد شک کرے کہ صحیح بجالایا ہے یا نہیں، اس شک پر توجہ نہ کرے اور ضروری نہیں اس کو دوبارہ بجالائے، بلکہ نماز کو جاری رکھے، صحیح ہے۔

٤۔اگر مستجی نمازوں کی رکعتوں میں شک کرے، تو دوپر بنا رکھنا چاہئے چونکہ نماز وتر کے علاوہ تمام مستجی نمازیں دورکعتی ہیں،اگر ان میں ایک اور دو یا دو اور بیشتر میں شک پیش آئے تو دوپر بنارکھے، نماز صحیح ہے۔

٥۔ نماز جماعت میں، اگر امام جماعت شک کرے لیکن ماموم کو شک نہ ہوتومثلاًاللہ اکبر کہہ کر

امام کو مطلع کرے ، امام جماعت کو اپنے شک پر اعتنا نہیں کرنا چاہئے، اور اسی طرح اگر ماموم نے شک کیا لیکن امام جماعت شک نہ کرے، تو جس طرح امام جماعت نماز کو انجام دے ماموم کو بھی اسی طرح عمل کرنا چاہئے اور نماز صحیح ہے۔

٦۔ اگر نماز کو باطل کرنے والے شکیات میں سے کوئی شک پیش آئے، تو تھوڑی سی فکر کرنی چائے اور اگر کچھ یاد نہ آیا اور شک باقی ر ہا تو نماز کو توڑکر دوبارہ شروع کرنا چاہئے ۔

۱۵۴

نماز احتیاط:

١۔ جن مواقع پر نماز احتیاط واجب ہوتی ہے، جیسے ٣ اور ٤ میں شک وغیرہ سلام پھیرنے کے بعد نماز کی حالت کو توڑے بغیر اور کسی مبطل نماز کو انجام دئے بغیر اٹھنا چاہئے اور اذان واقامت کہے بغیر تکبیر کہہ کر نماز احتیاط پڑھے۔

نماز احتیاط اور دیگر نمازوں میں فرق:

*اس کی نیت کو زبان پر نہیں لاناچاہئے۔

*اس میں سورہ اور قنوت نہیں ہے۔ (گرچہ دورکعتی بھی ہو)

*حمد کو آہستہ پڑھنا چاہئے۔ ( احتیاط واجب کی بنا پر )*

٢۔ اگر نما* احتیاط ایک رکعت واجب ہو، تو دونوں سجدوں کے بعد، تشہد پڑھ کر سلام پھیردے اور اگر دورکعت واجب ہو تو پہلی رکعت میں تشہد اور سلام نہ پڑھے بلکہ ایک اور رکعت ( تکبیرة الا حرام کے بغیر) پڑھے اور دوسری رکعت کے اختتام پر تشہد پڑھنے کے بعد سلام پڑھے ۔(١)

____________________

(١)توضیح المسائل م١٢١٥۔١٢١٦.

*گلپائیگانی۔ خوئی)سورہ حمد کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (مسئلہ ١٢٢٥)

۱۵۵

سجدہ سہو:

١۔ جن مواقع پر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، جیسے بیٹھنے کی حالت میں ٤ اور ٥ کے درمیان شک کی صورت میں تو نماز کا سلام پھیرنے کے بعد سجدہ میں جائے اور کہے:بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ بلکہ بہترہے اس طرح کہے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰه اَلسّٰلَاْمُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکاَتُه.*

اس کے بعد بیٹھے اور دوبارہ سجدہ میں جاکر مذکورہ ذکر وں میں سے ایک کو پڑھے اس کے بعد بیٹھے اور تشہد پڑھ کے سلام پھیردے۔(١)

٢۔ سجدۂ سہومیں تکبیرة الا حرام نہیں ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ١٢٥٠

*(خوئی) احتیاط واجب ہے دوسرا جملہ پڑھاجائے. (مسئلہ ١٣٥٩)

۱۵۶

سبق ٢٣و٤ ٢ کا خلاصہ

١۔ اگر نماز گزار نماز کے بعد والے جزء میں داخل ہونے سے قبل پہلے والے جزء کے بارے میں شک کرے تو اسے پہلا والاجزء بجالانا ضروری ہے۔

٢۔ اگر محل کے گزرنے کے بعد نماز کے کسی جزء کے بارے میں شک کرے تو اس کی پروانہ کرے۔

٣۔ اگرنماز کے کسی جزء کے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرے تو اس پر اعتنا نہ کرے۔

٤۔ اگر دورکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں کی تعداد میں شک ہوجائے تو نماز باطل ہے۔

٥۔ درج ذیل مواقع میں شک پر اعتنا نہیں کیا جاسکتا :

مستجی نمازوں میں

* نماز جماعت میں

* نماز کا سلام پھیرنے کے بعد

*نماز کا وقت گزرنے کے بعد ۔

٦۔ جن مواقع پر رکعتوں میں شک کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا، اگر شک کا بیشتر طرف چار سے زائد نہ ہوتو بیشترپر بنا رکھا جائے۔

٧۔نماز احتیاط نماز کی احتمالی کمی کی تلافی ہے، پس ٣اور ٤کے درمیان شک کی صورت میں ایک رکعت نماز احتیاط پڑھی جائے اور ٢اور ٤ کے درمیان شک کی صورت میں دورکعت نماز احتیاط پڑھی جائے۔

٨۔ نماز احتیاط اور دیگر نمازوں کے درمیان حسب ذیل فرق ہے:

*نیت کو زبان پر نہ لایا جائے۔

* سورہ اور قنوت نہیں ہے۔

*حمد کو آہستہ پڑھا جائے۔

٩۔ سجدہ سہو کو نماز کے فوراً بعد بجالانا چاہئے اور دوسجدے ایک ساتھ میں ، اس میں تکبیرة الا حرام نہیں ہے۔

۱۵۷

سوالات:

١۔ اگر نماز گزارتسبیحات اربعہ کے پڑھتے وقت شک کرے کہ تشہد کو پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا حکم کیا ہے؟

٢۔ اجزائے نماز میں شک کی چار مثالیں بیان کیجئے؟

٣۔اگر صبح یا مغرب کی نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میںشک ہوجائے تو فریضہ کیا ہے؟

٤۔ اگر چار رکعتی نماز کے رکوع میں شک کرے کہ تیسری رکعت ہے یا چوتھی تو حکم کیا ہے؟

٥۔ اگر کوئی شخص ٤ بجے بعد از ظہر شک کرے کہ نماز ظہر وعصر پڑھی ہے یا نہیں تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٦۔جو شخص تکبیرةالاحرام کہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح کہا ہے یا نہیں تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٧۔اگر قیام کی حالت میں ٤ اور ٥ کے درمیان شک ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

٨۔کیا آپ جانتے ہیں کہ نماز احتیاط میں کیوں حمد کو آہستہ پڑھنا چا ہئے؟

٩۔ کیا آپ کو آج تک کبھی نماز میں کوئی شک پیش آیا ہے؟ اگر جواب مثبت ہوتو وضاحت کیجئے کہ پھر کیسے عمل کیا ہے؟

١٠۔ سجدۂ سہو کو بجالانے کی کیفیت بیان کیجئے؟

۱۵۸

سبق نمبر ٢٥

مسافر کی نماز

انسان کو سفر میں چار رکعتی نمازوں کو دورکعتی( قصر) بجالانا چاہئے،بشرطیکہ اس کا سفر ٨ فرسخ یعنی تقریباً ٤٥کیلو میڑسے کم نہ ہو۔(١)

چند مسائل:

١۔ اگر مسافر ایسی جگہ سے سفر پر نکلے، جہاں پر اس کی نماز تمام ہو، *جیسے وطن اور کم از کم چار فرسخ جاکر چار فر سخ واپس آجائے تو اس سفر میں بھی اس کی نماز قصرہے۔(٢)

٢۔ مسافرت پر جانے والے شخص کو اس وقت نماز قصر پڑھنی چاہئے جب کم از کم وہ اتنادور پہنچے کہ اس جگہ کی دیوار کو نہ دیکھ سکے ٭٭اور وہاں کی اذان کو بھی نہ سن سکے۔٭٭٭اگر اتنی مقدار دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو تمام پڑھے۔(٣)

____________________

(١)تو ضیح المسائل، ص ٣ ١٧، نماز مسافر

(٢)توضیح المسائل،م ١٢٧٢و ٧٣ ١٢.

(٣)توضیح المسائل،نماز مسافر آٹھویں شرط.

* چاررکعتی نماز کو دو رکعتی کے مقابلہ میں نماز کو تمام کہتے ہیں.

٭٭اس فاصلہ کو '' حد ترخص'' کہتے ہیں

٭٭٭ (خوئی ۔اراکی) اس قدر دورچلاجائے کہ وہاں کی اذان نہ سن سکے اور دہاں کے باشندے اس کو نہ دیکھ سکیں ۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کو نہ دیکھ سکے۔(م١٢٩٢)

۱۵۹

٣۔اگر مسافر ایک جگہ سے سفر شروع کرے،ز جہاں نہ مکان ہو اور نہ کوئی دیوار،جب وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ اگر اس کی دیوار ہوتی تو وہاں سے نہ دیکھی جاسکتی، تو نماز کو قصر پڑھے۔(١)

٤۔ اگر مسافر ایک ایسی جگہ جانا چاہتا ہو، جہاں تک پہنچنے کے دوراستے ہوں، ان میں سے ایک راستہ٨ فرسخ سے کم اور دوسرا راستہ ٨ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو، تو ٨ فرسخ یا اس سے زیادہ والے راستے سے جانے کی صورت میں نماز قصر پڑھے اور اگر اس راستے سے جائے جو ٨ فرسخ سے کم ہے، تو نماز تمام یعنی چاررکعتی پڑھے۔(٢)

سفر میں نماز پوری پڑھنے کے مواقع

درج ذیل مواقع پر سفر میں نماز پوری پڑھنی چاہیئے

١۔آٹھ فرسخ طے کرنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے یا ایک جگہ پر دس دن ٹھہرے ۔

٢۔پہلے سے قصد وارادہ نہ کیا ہو کہ آٹھ فرسخ تک سفر کرے اور اس سفر کو قصد کے بغیر طے کیا ہو، جیسے کوئی کسی گم شدہ کو ڈھونڈنے نکلتاہے۔

٣۔ درمیان راہ ،سفر کے قصد کو توڑدے، یعنی چار فر سخ تک پہنچنے سے پہلے آگے بڑھنے سے منصرف ہوجائے اور واپس لوٹے۔

٤۔جس کا مشغلہ مسافرت ہو، جیسے ریل اور شہرسے باہر جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور، ہوائی جہاز کے پائیلٹ اور کشتی کے نا خدا (اگر سفر ان کا مشغلہ ہو)۔

٥۔ جس کا سفر حرام ہو، جیسے، وہ سفر جو ماں باپ کے لئے اذیت وآزارکا باعث بنے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٣٢١

(٢)توضیح المسائل م ٩ ١٢٧

(٣)توضیح المسائل ، نمازمسافر.

*(اراکی ۔ خوئی) جہاں کوئی سکونت نہیں کرتا، اگر ایسی جگہ پر پہنچے جہاں اگر سکونت کرنے والے ہوتے تو انھیں نہ دیکھ سکتے.

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مراد حضرت يعقوب كے پوتے و نواسے ہيں _ البتہ بعض مفسرين كے مطابق اسباط سے مراد اسحاقعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _ واضح ر ہے كہ ''يعقوب'' كے بعد كلمہ ''الاسباط'' لانے سے پہلے نكتہ كى تائيد ہوتى ہے_

۶_ وحى اور انبياءعليه‌السلام كا مبعوث كياجانا تاريخ ميں مداوم اور مسلسل رہا ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و آتينا داود زبوراً

۷_ وحي، پيغمبرى كے دعوے ميں حقانيت انبياءعليه‌السلام كى ضامن ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح والنبينمن بعده

۸_ ديگر انبيائے خداعليه‌السلام پر ايمان لانے كا لازمہ يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لايا جائے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح و النبين خداوند متعال يہ نكتہ بيان كركے كہ وحى كے لحاظ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبياء ميں كوئي فرق نہيں ، انبياءعليه‌السلام پر ايمان كے دعويداروں كو يہ ياد دہانى كرا دينا چاہتا ہے كہ اگر ان كى نبوت پر ايمان ركھتے ہو تو پھر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھى ايمان لانا پڑے گا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرو گے تو در حقيقت تمام انبياءعليه‌السلام كا انكار كرر ہے ہو_

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كے نزول كا انكار در اصل ديگر انبياءعليه‌السلام پر وحى كے نزول كا انكار ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و اوحينا

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ان تمام خصوصيات كى حامل ہے جو گذشتہ انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و النبين من بعده

چونكہ وحى كو گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى سے تشبيہ دى گئي ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى ميں گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام كى وحى والى خصوصيات پائي جاتى تھيں _

۱۱_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے پيغمبر ہيں جنہيں كتاب اور شريعت سے نوازا گيا_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے بھى پيغمبر موجود تھے لہذا ان سے پہلے كسى پيغمبرعليه‌السلام كا نام لئے بغير ان كا ذكر كرنے كى وجہ يہ ہوسكتى ہے كہ وہ پہلے پيغمبر تھے جنہيں شريعت عطا كى گئي_

۱۲_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر خدا نے وحى نازل فرمائي_

۲۰۱

كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ مورد بحث آيت نے نہ تفصيلى اور نہ اجمالى كسى بھى لحاظ سے حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كسى پيغمبر پر وحى كے نزول كے بارے ميں كچھ نہيں كہا لہذا كہا جا سكتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كوئي ايسا نبى موجود نہيں تھا جس پر وحى نازل ہوئي ہو_ بنابريں حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر وحى نازل ہوئي_

۱۳_ خدا وند عالم كى بارگاہ ميں حضرت عيسيعليه‌السلام كو خاص عظمت و احترام حاصل ہے_و اوحينا الى عيسي و ايوب و يونس و هارون و سليمان حضرت عيسيعليه‌السلام كے بعد ذكر شدہ انبياء زمانےعليه‌السلام كے لحاظ سے ان پر مقدم ہيں اور ان سے پہلے گذرے ہيں ليكن خدا وند متعال نے انہيں سب سے پہلے ذكر كيا ہے تا كہ ان كى خاص عظمت كى طرف اشارہ كرے_

۱۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد آنے والے انبياءعليه‌السلام ميں سے ايك حضرت داؤدعليه‌السلام ہيں _ جنہيں خدا وند عالم كى جانب سے زبور نامى كتاب عطا كى گئي_و آتينا داود زبوراً

۱۵_ زبور گراں بہا اور خاص اہميت كى حامل كتاب ہے_و آتينا داود زبوراً

۱۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ميں وہ تمام خصوصيات موجود تھيں جو دوسرے انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں جدا طور پر پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح حضرت امام باقرعليه‌السلام اور امام صادقعليه‌السلام مذكورہ آيت كے مضمون كى طرف اشارہ كرنے كے بعد فرماتے ہيں ( فجمع لہ كل وحي)(۱) يعنى اس ميں تمام وحى كى خصوصيات اكٹھى كى گئي تھيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كا نزول ۱، ۹، ۱۰، ۱۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا برگزيدہ ہونا ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۱

ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نبوت ۴

اديان: اديان كى تاريخ ۳، ۱۱، ۱۴

اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كى نبوت ۴

اسماعيل: حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نبوت ۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح ۳۰۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۳ ح ۶۷۰_

۲۰۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۳، ۴، ۵، ۹، ۱۰، ۱۶;انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۳; انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا تداوم ۶; انبياءعليه‌السلام كى حقانيت ۷;انبياءعليه‌السلام كى ہم آہنگى ۱۰;انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸ ;انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۸ ; ايمان كا متعلق ۸

ايوبعليه‌السلام : حضرت ايوبعليه‌السلام كى نبوت ۴ برگزيدہ لوگ: ۱، ۲، ۵

عيسيعليه‌السلام : حضرت عيسيعليه‌السلام كا احترام ۱۳;حضرت عيسيعليه‌السلام كى عظمت ۳; حضرت عيسي كى نبوت ۴;حضرت عيسيعليه‌السلام كے فضائل ۱۳

داؤدعليه‌السلام : حضرت داؤدعليه‌السلام كى كتاب ۱۴;حضرت داؤدعليه‌السلام كى نبوت ۱۴

دين: پہلا دين ۱۱

روايت: ۱۶

زبور: زبور كاآسمانى كتاب ہونا ۱۴ ;زبور كى اہميت ۱۵;زبور كى قدر و قيمت ۱۵

سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۴

مقربين: ۱۳

نوحعليه‌السلام : حضرت نوحعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۲، ۱۲ ;حضرت نوحعليه‌السلام كا چنا جانا ۲;حضرت نوحعليه‌السلام كا دين ۱۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كى كتاب ۱۱;حضرت نوحعليه‌السلام كى نبوت ۲، ۴

وحي: وحى كا تداوم ۶; وحى كا كردار ۷;وحى كو جھٹلانا ۹;وحى كى تاريخ ۱۲

وحى كے مخاطبين: ۴

ہارونعليه‌السلام : حضرت ہارونعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام كى اولاد: حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كا چنا جانا ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كى نبوت ۵

يونسعليه‌السلام : حضرت يونس كى نبوت ۴

۲۰۳

آیت ۱۶۴

( وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيماً )

كچھ رسول ہيں جن كے قصے ہم آپ سے بيان كرچكے ہيں او ركچھ رسول ہيں جن كا تذكرہ ہم نے نہيں كيا ہے او رالله نے موسي سے باقاعدہ گفتگو كى ہے _

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ديگر انبياءعليه‌السلام اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبروں كى مانند رسول اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر ہيں _

و رسلاً قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلا لم نقصصهم عليك ''رسلاً'' فعل محذوف ''ارسلنا'' كيلئے مفعول ہے يعنى و ارسلنا رسلا اور يہ جملہ ''اوحينا الى ...'' پر عطف ہے_ بنابرايں يہ بھى تشبيہ ميں اس كے ساتھ شريك ہے_ البتہ اس فرق كے ساتھ كہ مشبہ (انا اوحينا اليك)كے معنى كا لازمہ رسالت ہے اور اسى كا ارادہ كيا گيا ہے_ يعنى اے پيغمبر آپ ہمارے رسول ہيں جيسا كہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام بھى ہمارے رسول تھے_

۲_ پيغمبر اكرمعليه‌السلام كى رسالت كا انكار دوسرے تمام انبياءعليه‌السلام كى رسالت كا انكار ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و رسلا قد قصصناهم عليك مذكورہ بالا مطلب ميں گذشتہ مطلب كے بارے ميں دى گئي توضيح سے استفادہ كيا گيا ہے_

۳_ خداوند متعال نے صرف اپنے چند انبياءعليه‌السلام كے حالات كوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے بيان كيا ہے_

رسلا قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلاً لم نقصصهم عليك

۴_ خداوند متعال نے قرآن كريم ميں بعض انبياء كے حالات بيان نہيں كئے_و رسلا لم نقصصهم عليك

۵_ خداوند متعال نے كسى واسطے كے بغير حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_و كلم الله موسي تكليماً

گذشتہ جملات ميں خدا وند عالم نے اپنے اسم ''الله '' كا ذكر نہيں فرمايابلكہ صرف (اوحينا)

۲۰۴

جيسے افعال استعمال كيے ہيں _ جبكہ اس جملہ ''كلم اللہ موسي'' ميں اسم جلالہ ''اللہ'' استعمال كيا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے بذات خود حضرت موسيعليه‌السلام سے بات كى اور ان كے درميان كوئي واسطہ نہيں تھا_

۶_ خداوند متعال كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام كرنا وحى كى ايك قسم ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و كلم الله موسي تكليماً اگر ''كلم اللہ'' ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو تو جملہ يوں ہوگا ''اوحينا اليك كما كلم اللہ موسي تكليماً'' يعنى پيغمبر پر نازل ہونے والى وحى الہى كى مثال اس كلام كى سى ہے جو خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام سے كيا_ بنابريں خدا كا كلام كرنا بھى ايك قسم كى وحى ہے_

۷_ بارگاہ خداوندى ميں حضرت موسيعليه‌السلام كو خاص عظمت حاصل ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت موسيعليه‌السلام كا دوسرے انبياءعليه‌السلام سے جدا طور پر نام لينا اور انہيں ''كليم اللہ'' كہنا ان كے بلند و بالا مقام پر دلالت كرتا ہے_

۸_ حضرت موسيعليه‌السلام پر حقيقى ايمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے كا باعث بنتا ہے_اوحينا اليك كما كلم الله موسي تكليماً مذكورہ مطلب اس مبنى پر استوار ہے كہ جب جملہ ''كلم اللہ ...'' گذشتہ آيت ميں جملہ ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو_ يعنى اے رسول جس طرح ہم نے آپ پر وحى نازل كى اور موسي سے كلام كيا اور چونكہ يہ ان لوگوں سے خطاب كيا جارہا ہے جو حضرت موسيعليه‌السلام كى نبوت كا اقرار كرتے ہيں لہذا انہيں اس مشابہت كو مدنظر ركھتے ہوئے رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا بھى اقرار كرنا چاہيئے_

۹_ حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والى مدت ميں گذرنے والے بعض انبياءعليه‌السلام كا نام قرآن كريم ميں ذكر نہ كرنے كى وجہ ان كى رسالت كا مخفى ہونا ہے_و رسلا لم نقصصهم عليك

حضرت امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :كان ما بين آدم و بين نوح من الانبياء مستخفين و مستعلنين و لذلك خفى ذكرهم فى القرآن فلم يسموا كما سمى من استعلن من الانبياء و هو قول الله_ ''رسلا لم نقصصهم عليك'' يعنى لم اسم المستخفين كما سميت المستعلنين من الانبياء (۱) يعنى حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والے زمانے ميں بعض انبياءعليه‌السلام ايسے

__________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح۳۰۶; تفسير برھان ج۱ ص ۴۲۷ ح۴_

۲۰۵

بھى ہيں جنہيں پنہاں ركھا گيا اور اسى وجہ سے قرآن كريم ميں بھى ان كا ذكر نہيں آيا_ چنانچہ جس طرح بعض انبياءعليه‌السلام كا على الاعلان نام ليا گيا ہے اسى طرح بعض كا نام نہيں ليا گيا اور خدا وند عالم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے: ''اے رسول: ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بعض انبياءعليه‌السلام كے حالاتنہيں سنائے'' يعنى جس طرح بعض ظاہر شدہ انبياءعليه‌السلام كا نام ليا ہے اسى طرح بعض پنہاں انبياءعليه‌السلام كا نام نہيں ليا_

۱۰_ خداوند متعال نے حضرت موسي سے تين دن اور رات ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں كلام كيا_

و كلم الله موسي تكليماً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہيں :ان الله ناجي موسي بن عمران بمائة الف كلمة و اربعة و عشرين الف كلمة فى ثلاثة ايام و لياليهن .(۱) يعنى خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام بن عمران كے ساتھ تين شب و روز ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں گفتگو كي_

۱۱_ خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام سے طور سينا ميں درخت سے ايسى آواز پيدا كركے گفتگو كى جسے ہر طرف سے ان كے تمام ہمراہى سن سكتے تھے_و كلم الله موسي تكليماً امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا وند عالم كى گفتگو كے بارے ميں فرماتے ہيں :فخرج بهم الى طور سيناء فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه لان الله عزوجل احدثه فى الشجرة ثم جعله منبعثاً منها حتى سمعوه من جميع الوجوه (۲) يعنى وہ اپنے تمام ساتھيوں كے ہمراہ طور سينا كى طرف روانہ ہوئے ...پھر خداوند متعال نے ان سے كلام كيا جسے ان كے تمام ساتھيوں نے سنا كيونكہ خدائے عزوجل نے درخت ميں آواز ايجاد كى اور اسے چاروں طرف پھيلا ديا جس كى وجہ سے وہ تمام ساتھيوں كو سنائي دي_

۱۲_ خداوند متعال نے زبان اور دہن سے استفادہ كيے بغير كلام ايجاد كركے حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_

و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا كے كلام كے بارے ميں فرماتے ہيں :... كلام الخالق للمخلوق ليس ككلام المخلوق لمخلوق و لا يلفظ بشق فم و لسان و لكن يقول له ''كن'' فكان بمشيته ما خاطب به موسي من الامر والنهى من غير تردد فى نفس (۳) يعنى خالق كى مخلوق

_________________

۱) خصال صدوق ص ۶۴۱ ح۲۰ باب ما بعد الالف: نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۵_

۲) توحيد صدوق ص ۱۲۱ ح ۲۴ ب ۸:نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۶_

۳) احتجاج طبرسى ج۲ ص ۱۸۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵، ح۶۸۱_

۲۰۶

كے ساتھ كلام كى كيفيت ايسى نہيں ہے جيسے مخلوق كے كلام كى مخلوق كے ساتھ اور نہ ہى خالق كا كلام مخلوق كے كلام كى مانند منہ كے كھلنے اور زبان كے مخصوص انداز ميں ہلنے كى وجہ سے الفاظ كى صورت ميں ايجاد ہوتا ہے بلكہ وہ اسے ہوجانے كا حكم ديتا ہے تو وہ اس كى مشيئت سے ہوجاتا ہے

۱۳_ خداوند متعال كا كلام حادث ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام صادقعليه‌السلام كلام خدا كے حادث يا قديم ہونے كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :ان الكلام صفة محدثة ليس بازلية كان الله عزوجل و لا متكلم (۱) يعنى كلام ايك ازلى نہيں بلكہ محدث صفت ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱، ۱۲; اللہ تعالى كے كلام كا حادث ہونا ۱۳; اللہ تعالى كے كلام كى كيفيت ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى مخفى رسالت ۹;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كو جھٹلانا ۲; انبياءعليه‌السلام كے درميان ہم آہنگى ۸ ; انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳، ۴، ۹

ايك لاكھ چوبيس ہزار كا عدد: ۱۰

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸;ايمان كا متعلق ۸;حضرت موسيعليه‌السلام پر ايمان ۸

درخت: درخت كا كلام كرنا ۱۱

روايت: ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳

قرآن كريم: قرآن كريم كے قصے ۴

كوہ سينا: ۱۱

مقربين: ۷ موسيعليه‌السلام : حضرت موسيعليه‌السلام كا قصہ ۱۰، ۱۱;حضرت موسيعليه‌السلام كا مقام و مرتبہ۵، ۷، ۱۰;حضرت موسيعليه‌السلام كى عظمت ۷

وحي: وحى كى اقسام ۶

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۱۰۷ ح۱; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵ ح ۶۸۲_

۲۰۷

آیت ۱۶۵

( رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزاً حَكِيماً )

يہ سارے رسول بشارت دينے والے اورڈرا نے والے اس لئے بھيجے گئے تا كہ رسولوں كے آنے كے بعد انسانوں كى حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے او رخدا سب پر غالب او رصاحب حكمت ہے _

۱_ انبياءعليه‌السلام رسالت كى تبليغ اور انسانوں كى تربيت كيلئے بشارت اور انذار جيسى روشوں سے استفادہ كرتے تھے_

رسلا مبشرين و منذرين

۲_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے تشويق كو تہديدپر مقدم كرناضرورى ہے_رسلا مبشرين و منذرين

۳_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے بشارت كى روش انذار سے زيادہ مؤثر ہوتى ہے_رسلاً مبشرين و منذرين

بشارت كو انذار پر مقدم كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ بشارت كانقش انسانوں كى ہدايت ميں زيادہ مؤثر ہوتا ہے_

۴_ ا نبياءعليه‌السلام روش ہدايت كے انتخاب ميں انسان ميں موجود منفعت طلبى اور خطرات سے بچنے كى خصلت كو مد نظر ركھتے تھے_رسلاً مبشرين و منذرين

۵_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا مقصد لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۶_ انبياءعليه‌السلام لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنے كا وسيلہ ہيں _رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۷_ انسان كو ہدايت اور ہدف تك پہنچنے كيلئے ہميشہ انبياءعليه‌السلام كى ضرورت ہوتى ہے_

۲۰۸

رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۸_ خداوند عالم كسى كو اتمام حجت كے بغير عذاب نہيں ديتا_رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۹_ خداوند متعال ہميشہ عزيز (ناقابل شكست فاتح) اور حكيم (دانا) ہے_و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كا بھيجا جانا، خداوند عالم كى عزت و حكمت كا تقاضا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۱_ خداوندعالم، دليل و استدلال ميں قاہر اور غالب ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً

اللہ تعالى كى عزت اور ناقابل شكست ہونے كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق وہى ہے جو جملہ ''لئلا يكون ...'' ميں بيان ہوا ہے_

۱۲_ خداوند عالم كے دليل و استدلال پر غلبہ اور تسلط كا منبع اس كى بے كراں حكمت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۳_ خدا وند عالم كے سامنے لوگوں كے پاس كسى حجت كا نہ ہونا اس كى عزت كا ايك مصداق ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل و كان الله عزيزاً حكيماً عزيز اور اتمام حجت ميں پائے جانے والے ارتباط كو سامنے ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداوند عالم اتمام حجت نہ كرتا تو لوگ اس كے سامنے دليل پيش كرتے اور يہ اس كى عزت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

اتمام حجت: ۵، ۶، ۸، ۱۳

اسماء و صفات: حكيم ۹;عزيز ۹

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا استدلال ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى حكمت ۱۰، ۱۲;اللہ تعالى كى عزت ۱۰، ۱۳;اللہ تعالى كى قدرت ۱۱، ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا انذار ۱; انبياءعليه‌السلام كا كردار ۶، ۷;انبياءعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۴; انبياءعليه‌السلام كى بشارت ۱;انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا

۲۰۹

فلسفہ ۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱۰

انذار : انذار كى اہميت ۲

انسان: انسان كى معنوى ضروريات ۷;انسان كى منفعت طلبى ۴

تبليغ: تبليغ كى روش۱

تربيت: تربيت كى روش ۱، ۲، ۳; تربيت ميں انذار ۱، ۲، ۳; تربيت ميں بشارت ۳; تربيت ميں تشويق ۲

تشويق: تشويق كى اہميت ۲

سزا: بيانكيے بغير سزا دينا ۸

فقہى قواعد: ۸

نبوت: نبوت كى اہميت ۷

ہدايت: ہدايت كا طريقہ ۴;ہدايت ميں انذار ۲; ہدايت ميں تشويق ۲

آیت ۱۶۶

( لَّـكِنِ اللّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلآئِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً )

(يہ مانيں يانہ مانيں ) ليكن خدا نے جو كچھ آپ پر نازل كيا ہے وہ خود اس كى گواہى ديتا ہے كہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل كيا ہے او رملائكہ بھى گواہى ديتے ہيں او رخدا خود بھى شہادت كے لئے كافى ہے _

۱_ خدا وند متعال اور اس كے فرشتے قرآن كى حقانيت اور رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر گواہ ہيں _

لكن الله يشهد بما انزل اليك و الملائكة يشهدون

۲۱۰

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و الملائكة يشهدون'' كو''الله يشهد'' پر عطف كيا گيا ہے اور اس كا نتيجہ يہ ہے كہ ''يشھدون'' كا متعلق بھى''بما انزل اليك'' ہوگا_

۲_ قرآن كريم كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر خداوند عالم نے نازل كيا ہے_يشهد بما انزل اليك انزله

۳_ خداوند متعال نے اہل كتاب كے انكار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دل ميں پيدا ہونے والى رنجيدگى اور افسردگى دور كرنے كيلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دى ہے_فلا يؤمنون الا قليلا لكن الله يشهد بما انزل اليك اكثر اہل كتاب كى جانب سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار كا ذكر كرنے كے بعد خداوند متعال كا استدراك كے ساتھ حقانيت قرآن پر گواہى دينے كا مقصد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا ہے_

۴_ قرآن كريم ;خدا وند عالم كے علم و دانش كا جلوہ ہے_انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ضمير مفعولى كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور اس ميں موجود ''بائ'' معيت كے معنى ميں ہے: يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والے قرآن كريم كے ہمراہ علم الہى بھى تھا_

۵_ قرآن كريم ميں علم الہى كى تجلي، قرآن و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خداوند متعال كى گواہى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه جملہ ''انزلہ بعلمہ'' ''يشھد'' كيلئے تفسير ہوسكتا ہے_ يعنى خود نزول قرآن جو علم الہى كا ايك مظہر ہے قرآن كريم كى اور اس كے نتيجے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خدا وند متعال كى گواہى ہے_

۶_ قرآن كا نزول خدا وند متعال كى نظارت ميں ہے اور شياطين كى دخالت سے محفوظ ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ چونكہ يہاں پر علم خدا ، حفاظت و نگہبانى سے كنايہ ہے، لہذا جملہ ''انزلہ بعلمہ'' كا معنى يہ بنتا ہے كہ خداوند متعال نے قرآن كريم اس طرح سے نازل كيا كہ خود اس كى حفاظت اور نگہبانى فرمائي ہے تا كہ شياطين دخالت اور كمى بيشى نہ كرسكيں _

۷_ حقانيت قرآن كريم پر خداوند متعال كى گواہى كا منبع اس كا علم و آگاہى ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه

۸_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت سے آگاہ

۲۱۱

ہونے كى وجہ سے قرآن كريم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمايا ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ''انزلہ'' كے فاعل كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور علم كا متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت ہے_ جس كى وجہ سے قرآن كريم ان پر نازل ہوا يعنى''انزله عالماً بانك اهل لذلك'' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرقرآن كريم نازل فرمايا كيونكہ وہ جانتا تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كى اہليت ركھتے ہيں _

۹_ ضرورى ہے كہ علم و آگاہى كى اساس پر گواہى دى جائے_و لكن الله يشهد انزله بعلمه

۱۰_ رسالت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر يقين كرنے كيلئے قرآن كريم بحيثيت دليل كافى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمہ ممكن ہے ''بما انزل اليك'' ميں موجود ''بائ'' سببيت كيلئے ہو_ اس صورت ميں گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر شہادت و گواہى كا متعلق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہوگي_ اس مبنا كے مطابق جملہ ''يشھد بما انزل ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت پر خدا كى گواہى كا سبب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن كا نزول ہے يعنى جو بھى قرآن كريم كو ملاحظہ كرے وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى حقانيت پر گواہى ديگا_

۱۱_ خدا كے فرشتے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول قرآن كے شاہد اور ناظر تھے_والملائكة يشهدون

جملہ ''و الملائكة يشھدون'' ميں ''واو'' حاليہ ہے اور ''يشھدون'' كا معنى ''وہ نظارت كرتے ہيں ''كيا گيا ہے_

۱۲_ مختلف امور كے اثبات و نفى پر خدا وند عالم كى شہادت كافى و مكمل ہے_و كفى بالله شهيداً

۱۳_ حقانيت قرآن كريم كے اثبات كيلئے خدا وند عالم كى گواہى كافى ہے_لكن الله يشهد بما انزل و كفي بالله شهيداً

۱۴_ قرآن كريم لوگوں پر خدا وند عالم كى طرف سے اتمام حجت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل لكن الله يشهد بما انزل اليك

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم و اندوہ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كى حقاينت ۱، ۱۰; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۸

اتمام حجت: ۱۴

۲۱۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ۷، ۸; اللہ تعالى كى گواہى ۱، ۵، ۷، ۱۲، ۱۳;اللہ تعالى كے افعال ۲; اللہ تعالى كے علم كى تجلى ۴، ۵

اہل كتاب: اہل كتاب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

قرآن كريم: قرآن كريم كا كردار ۱۰، ۱۴ ;قرآن كريم كا محفوظ

ہونا۶;قرآن كريم كا نزول ۲، ۶، ۸، ۱۱;قرآن كريم كى حقانيت ۱، ۵، ۷، ۱۳;قرآن كريم كى فضيلت ۴

گواہي: گواہى كى شرائط ۹; گواہى ميں علم ۹

ملائكہ: ملائكہ كى گواہى ۱،۱۱

آیت ۱۶۷

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ ضَلاَلاً بَعِيداً )

بيشك جن لوگوں نے كفراختيار كيا او رراہ خداسے منع كرديا وہ گمراہى ميں بہت دور تك چلے گئے ہيں _

۱_ راہ خدا سے روكنے والے كفار ، ايسے بھٹكے ہوئے لوگ ہيں جو سخت گمراہ ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً كلمہ ''الذين'' كے تكرار كے بغير ''صدوا ...'' كو ''كفروا'' پر عطف كرنا اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفر اختيار كرنا اور راہ خدا سے روكنا دونوں صفات مجموعى طور پر ضلالت بعيد ہے_

۲_ اہل كتاب; قرآن كريم اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار اور لوگوں كو اسلام كى طرف آنے سے روكنے كى وجہ سے ايسے منحرف لوگ ہيں جو سخت بھٹكے ہوئے ہيں _ان الذين كفروا و صد وا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً گذشتہ (۱۵۳ سے بعد والي) آيات كے قرينہ كى بناپر''الذين كفروا ...'' كے مورد نظر

۲۱۳

مصاديق ميں سے اہل كتاب كا وہ گروہ ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور قرآن كريم كو وحى كے طور پر قبول نہيں كرتا تھا اور گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''سبيل اللہ'' سے مراد دين اسلام ہے_

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور قرآن كريم كے بارے ميں كفراور دوسروں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا بہت بڑى گمراہى ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً

گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۴_ لوگوں كو راہ خدا كى طرف آنے سے روكنا كفر كى علامت ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و صد وا'' كو جملہ ''كفروا'' كيلئے مفسر و مبين كے طور پر اخذ كيا گيا ہے يعنى راہ خدا سے روكنا كفر ہے_

۵_ انسان كے طرز عمل كا سرچشمہ اس كى آراء و افكار اور اعتقادات ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''صدوا'' كا ''كفروا'' پر عطف از باب عطف سبب بر مسبب ہو _

۶_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان راہ خدا ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

اس چيز كو سامنے ركھتے ہوئے كہ ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں يہ كہا جا سكتا ہے كہ ''سبيل اللہ'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان لانا ہے_

۷_ گمراہى كے متعدد مراتب ہيں _قد ضلوا ضلالاً بعيداً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۳

اہل كتاب: اہل كتاب كى گمراہى ۲

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۶;ايمان كا متعلق ۶;ايمان كے اثرات ۵;قرآن كريم پر ايمان ۶

راہ خدا: ۶

راہ خدا سے روكنا ۱، ۲، ۳، ۴

طرز عمل:

۲۱۴

طرز عمل كى بنياديں ۵

علم: علم كے اثرات ۵

كفار: كفار كى گمراہى ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲،۳;كفر كي

علامت ۴;كفر كے اثرات ۲

گمراہ لوگ: ۱

گمراہي: گمراہى كے مراتب ۱، ۲، ۳، ۷;گمراہى كے موارد ۳

منحرف لوگ: ۱، ۲

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيا لوجى ۵

آیت ۱۶۸

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَظَلَمُواْ لَمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقاً )

او رجن لوگوں نے كفراختيار كرنے كے بعد ظلم كيا ہے خدا انہيں ہرگز معاف نہيں كرسكتا او رنہ انہيں كسى راستہ كى ہدايت كرسكتا ہے _

۱_ ظالم كفار; خدا وند متعال كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً جملہ ''و ظلموا'' ميں ''الذين'' كا تكرار نہ ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ''كفر اور ظلم'' دونوں صفات مجموعاً خدا وند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنتى ہيں _

۲_ رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور دوسروں كو راہ خدا وند عالم سے روكنا خداوند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا سبب بنتا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''كفر'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۲۱۵

۳_ ظالم كفار اور راہ خدا سے روكنے والوں كو ايمان لانے اور توبہ كرنے كى توفيق نہيں ہوگي_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم بديہى ہے كہ كفار، كفر كے جس مرتبہ پر بھى ہوں اگر ايمان لے آئيں تو وہ مغفرت و ہدايت الہى كے حقدار و مستحق ہوتے ہيں : بنابريں جملہ ''لم يكن ...'' سے مراد يہ ہے كہ انہيں ايمان لانے كى توفيق نصيب نہيں ہوگى جس كے نتيجے ميں وہ بخشے نہيں جائيں گے_

۴_ لوگوں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا ظلم ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله ان الذين كفروا و ظلموا گذشتہ آيت شريفہ كے قرينہ كى بناپر ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۵_ سعادت و خوشبختى كى تمام راہيں ظالم كفار پر بند ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً

۶_ بعض اہل كتاب كا كفر اور ظلم ان كيلئے خدا كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنا_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''الذين كفروا و ظلموا'' كا مورد نظر مصداق بعض اہل كتاب ہيں _

۷_ بعض اہل كتاب كافر اور ستمگر لوگ ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۸_ ستمگر كفار كا مغفرت و ہدايت سے محروم ہونا، خدا وند عالم كى سنتوں ميں سے ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۹_ انسان كى مغفرت اور ہدايت خدا كے ہاتھ ميں ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۱۰_ انسان كے گناہوں كى بخشش اس كيلئے ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى سے مختص امور ۹; اللہ تعالى كى بخشش ۹;اللہ تعالى كى سنتيں ۸; اللہ تعالى كى مغفرت سے

۲۱۶

محروم ہونا ۲;اللہ تعالى كى ہدايت ۹، ۱۰; اللہ تعالى كى ہدايت سے محروم ہونا۲

انسان: انسان كى مغفرت ۹;انسان كى ہدايت ۹

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۶ ،۸; اہل كتاب كے گروہ ۷; كافر اہل كتاب ۶، ۷

ايمان: ايمان سے محروميت۳

توبہ: توبہ سے محروميت۳

راہ خدا: راہ خدا سے روكنا ۲، ۳;راہ خدا سے روكنے كا ظلم ۴

سعادت: سعادت سے محروم ہونا ۵

ظلم: ظلم كے اثرات ۶;ظلم كے موارد ۴

كفار: ظالم كفار كا محروم ہونا ۳، ۸; كفار كا ظلم۱، ۵;كفار كى شقاوت۵; كفار كى محروميت ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲;كفر كے اثرات ۶

گناہ: گناہ كى بخشش كے اثرات۱۰

مغفرت: مغفرت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸

ہدايت: ہدايت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸;ہدايت كا پيش خيمہ۱۰

آیت ۱۶۹

( إِلاَّ طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيراً ) .

سوائے جہنم كے راستے كے جہاں ان كو ہميشہ ہميشہ رہنا ہے او ريہ خدا كے لئے بہت آسان ہے _

۱_ خداوند متعال، قيامت كے دن ظالم كفار كو صرف راہ جہنم كى طرف ہدايت كرے گا_

۲۱۷

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

مذكورہ بالامطلب ميں جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمانہ اور وقت قيامت كو قرار ديا گيا ہے يعنى خداوند عالم اس دن كفار كو صرف جہنم كى طرف راہنمائي كرے گا_

۲_ كفر، باطل اديان كى طرف رجحان اور ناروا اعمال دوزخ كى جانب جانے والا راستہ ہے_

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمان اور وقت دنيا كى زندگى ہو اس مبني كے مطابق كفار كو راہ جہنم كى طرف ہدايت كرنے سے مراد ان كيلئے كفر كے ارتكاب اور ناروا اعمال كا پيش خيمہ فراہم كرنا ہے كہ جس كا انجام دوزخ ہوگا_

۳_ خداوندمتعال نے ظالم كفار كا تمسخر اڑايا ہے_و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

ممكن ہے كہ كفار كو جہنم كى طرف لے جانےكيلئے ہدايت كا كلمہ ان كا تمسخر اڑانے كيلئے استعمال كيا گيا ہو_

۴_ بعض اہل كتاب اپنے كفر اور ظلم كى وجہ سے ہميشہ جہنم ميں رہيں گے_ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم خالدين فيها گذشتہ آيات كى روشنى ميں مذكورہ آيت كا مورد نظر مصداق كافر اہل كتاب ہيں _

۵_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور لوگوں كو دائرہ اسلام ميں آنے سے روكنا ہميشہ جہنم ميں رہنے كا سبب بنے گا_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۶_ ہميشہ جہنم ميں رہنا ظالم كفار كى سزا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۷_ جہنم ابدى اور ہميشگى ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً

۸_ خداوند متعال كيلئے دوزخ اور دوزخيوں كو جاويدان اور ابدى بنانا بہت آسان كام ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً_ و كان ذلك على الله يسيراً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۵

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى جانب سے تمسخر اڑانا۳;اللہ تعالى

۲۱۸

كے افعال ۱، ۸

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۴;اہل كتاب كا كفر ۴

جہنم: جہنم كا ہميشگى و ابدى ہونا ۷، ۸;جہنم كے موجبات ۲ ، ۴،۵; جہنم ميں ہميشہ كيلئے رہنا ۴، ۵، ۶

جہنمي: جہنميوں كا ہميشہ جہنم ميں رہنا ۸

رجحان: ناپسنديدہ رجحان۲

ظالمين: ۶

ظلم: ظلم كے اثرات ۴

عمل: ناپسنديدہ عمل ۲;

كفار: ظالم كفار ۳، ۶;كفار جہنم ميں ۱،۶; كفار قيامت ميں ۱;كفار كا مذاق اڑانا ۳;كفار كى سزا ۶

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۵;كفر كے اثرات ۲، ۴،۵

آیت ۱۷۰

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْراً لَّكُمْ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً )

اے انسانو تمہارے پاس پروردگار كى طرف سے حق لے كر رسول آگيا ہے لہذا اس پر ايمان لے آؤ اسى ميں تمہارى بھلائي ہے اور اگر تم نے كفراختيار كيا تو ياد ركھو كہ زمين و آسمان كى كل كائنات خداكے لئے ہے او روہى علم والا بھى ہے اور حكمت والابھى ہے _

۱_ پيغمبر اكرم، رسالت اور سراسر حق پر مبنى معارف كے ساتھ خدا وند عالم كى جانب سے بھيجے گئے _

۲۱۹

قد جاء كم الرسول بالحق مذكورہ بالا مطلب ميں ''بالحق'' ميں موجود ''بائ'' كو معيت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ہو سكتا ہے كہ اس سے مراد تعليمات اور معارف الہى ہوں كہ يہ وہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہے_

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت سے پہلے اہل كتاب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے منتظر تھے_

يايها الناس قد جاء كم الرسول ''قد جاء كم'' ميں ''قد'' توقع كے معنى ميں اور ''الرسول'' ميں ال عہد ذہنى كيلئے ہے جو يہ مطلب ادا كررہا ہے كہ مخاطبين آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے منتظر تھے_

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت عالمگير اور سب لوگوں كيلئے ہے_يا ايها الناس قد جاء كم الرسول

۴_ قرآن كريم خدا وند متعال كى جانب سے بھيجى گئي اور سراسر حق پر مبنى كتاب ہے_

قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم مذكورہ بالا مطلب ميں كلمہ ''الحق'' سے مراد قرآن كريم اور ''من ربكم'' كو اس كيلئے حال قرار ديا گيا ہے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت اور قرآن كريم كا نزول ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۶_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت اور آسمانى كتب كے نزول كا مقصد تمام انسانوں كى ہدايت اور تربيت ہے_

يا ايها الناس قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان بشريت كيلئے خير و سعادت كا باعث ہے_

يا ايها الناس قد جائكم الرسول بالحق فامنوا خيراً لكم مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''خيرا'' محذوف فعل ''يكن'' كيلئے خبر ہو_ يعنى پورا كلام يوں ہے ''فامنوا ان تؤمنوا يكن خيراً لكم''_

۸_ انسان ايك ايسى مخلوق ہے جو خير كى طالب اور كمال كى متلاشى ہے_يا ايها الناس فامنوا خيراً لكم

جملہ ''خيراً لكم'' انسان ميں خير طلبى اور سعادت كى جستجو كى صفت كو طبيعى اور فطرى امر بتلارہا ہے اور اسے صرف حقيقى خيرو سعادت كے مصداق يعنى قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كى طرف ہدايت و راہنمائي كررہا ہے_

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326