احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211861 / ڈاؤنلوڈ: 4587
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مبطلات نماز کے احکام:

بات کرنا:

١۔اگر نماز گزار عمداًکوئی لفظ کہیز اور اس کے ذریعہ کسی معنی کو پہنچاناچاہے تو اس کی نماز باطل ہے۔(١)

٢۔اگر نماز گزار عمداًکوئی لفظ کہے اور یہ لفظ دویا دوسے زائد حروف پر مشتمل ہو، اگرچہ اس کے ذریعہ کسی معنی کو پہنچانا مقصدنہ ہو، احتیاط واجب کی بناپر اسے نماز دوبارہ پڑھنی چاہئے۔(٢) ٭٭

٣۔نماز میں کسی کو سلام نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر کسی نے نماز گزار کوسلام کیا تو واجب ہے اس کا جواب دیدے اور چاہئے کہ سلام کو مقدم قراردے.مثلاً کہے:

''السلام علیک'' یا'' السلام علیکم''''علیکم السلام''نہ کہے.(٣) ٭٭٭

____________________

(١)توضیح المسائل،ص١٥٤

(٢) توضیح المسائل،م ١٥٤.

(٣) توضیح المسائل،م١١٣٧.

*(گلپائیگانی، اراکی) اگر وہ لفظ دوحرف یا اس سے زیادہ ہوتو (توضیح المسائل ص ١٩٩)

٭٭(خوئی) اس کی نماز باطل نہیں ہے لیکن نماز کے بعد سجدہ سہو بجالانا لازم ہے (مسئلہ ١١٤١)

٭٭٭(اراکی۔ گلپائیگانی) اسی صورت میں جواب دینا چاہئے جیسے اس نے سلام کیا ہو لیکن''علیکم السلام''کے جواب میں ''سلام علیکم'' کہنا چاہئے(مسئلہ١١٤٦)،(خوئی) احتیاط واجب کی بناء پر اسی صورت میں جواب دینا چاہئے کہ جیسے اس نے سلام کیا ہو لیکن'' علیکم السلام'' کے جواب میں جس طرح چاہے جواب دے سکتا ہے۔

۱۴۱

ہنسنا اور رونا :

١۔اگر نماز گزار عمداً قہقہہ لگاکر ہنسے، تو اس کی نماز باطل ہے۔

٢۔مسکرانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

٣۔اگر نماز گزار کسی دنیوی کام کے لئے عمداًآواز کے ساتھ ،روئے تو اس کی نماز باطل ہے۔

٤۔آواز کے بغیررونے، خوف خدا یا آخرت کے لئے رونے سے، اگرچہ آواز کے ساتھ ہو، نماز باطل نہیں ہوتی*(١)

قبلہ کی طرف سے رخ موڑنا:

١۔اگر عمداًاس درجہ قبلہ سے رخ موڑ لے کہ کہا جائے وہ قبلہ رخ نہیں ہے، تو نماز باطل ہے۔

٢۔ اگر بھولے سے پورے رخ کو قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف موڑلے ٭٭، تواحتیاط واجب ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے، لیکن اگر پوری طرح قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف منحرف نہ ہوا ہو تو نماز صحیح ہے۔(٢)

نماز کی حالت کو توڑنا:

١۔اگر نماز گزار نماز کے دوران کوئی ایسا کام انجام دے جس سے نماز کی اتصالی حالت (ہیئت) ٹوٹ جائے ،مثلاًمبطلات نماز کا ساتواں اور آٹھواں نمبر، تالی بجانا اور اچھل کود کرنا وغیرہ، اگرچہ سہواً بھی ایسا کام انجام دے تو نماز باطل ہے۔(٣)

٢۔اگر نماز کے دوران اس قدر خاموش ہوجائے کہ دیکھنے والے یہ کہیں کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز باطل ہے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١٥٦مبطلات نماز کا ساتواں اور آٹھواں نمبر.

(٢)توضیح المسائل،م ١١٣١ (٣) توضیح المسائل،م ١١٥٦.نویں مبطلات نماز

(٤) توضیح المسائل،م ١١٥٢.

*(تمام مراجع)احتیاط واجب ہے کہ دنیوی کام کے لئے آواز کے بغیر بھی نہ روئے، (توضیح المسائل ص ٢٠٩)

٭٭(گلپائیگانی) اگر سر کو قبلہ کے دائیں یا بائیں طرف موڑلے اور عمدا ہویا سہواًنماز باطل نہیں ہوگی۔ لیکن مکروہ ہے.(م١١٤٠)

۱۴۲

٣۔واجب نماز کو توڑنا حرام ہے،مگر مجبوری کے عالم میں،جیسے درج ذیل مواقع پر:

*حفظ جان۔

*حفظ مال۔

*مالی اور جانی ضرر کو روکنے کے لئے۔

٤۔قرض کو ادا کرنے کے لئے نماز کو درج ذیل شرائط میں توڑ دے تو کوئی حرج نہیں :

*قرضدار، قرض کو لینا چاہتا ہو۔

*نماز کا وقت تنگ نہ ہو،یعنی قرض ادا کرنے کے بعد نماز کو بصورت ادا پڑھ سکے۔

*نماز کی حالت میں قرض کو ادا نہ کرسکتا ہو۔(١)

٥۔ بے اہمیت مال کے لئے نماز کو توڑنا مکروہ ہے۔(٢)

وہ چیزیں جو نماز میں مکروہ ہیں:

١۔ آنکھیں بندکرنا۔

٢۔ انگلیوں اور ہاتھوں سے کھیلنا۔

٣۔حمد یا سورہ یاذکر پڑھتے ہوئے، کسی کی بات سننے کے لئے خاموش رہنا.

٤۔ہروہ کام انجام دینا جو خضوع وخشوع کو توڑنے کا سبب بنے۔

٥۔رخ کو تھوڑاسا دائیں یا بائیں پھیرنا (چونکہ زیادہ پھیرنا نماز کو باطل کرتا ہے )۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل،م ١١٥٩ تا ١١٦١.

(٢)توضیح المسائل،م ١١٦٠.

(٣) توضیح المسائل،م ١١٥٧

۱۴۳

سبق ٢١: کا خلاصہ

١۔درج ذیل امور نماز کو باطل کردیتے ہیں:

*کھانا اور پینا.

*بات کرنا.

*ہنسنا.

*رونا.

*قبلہ سے رخ موڑنا۔

*ارکان نماز میں کمی و بیشی کرنا۔

نماز کی حالت کو توڑنا ۔

٢۔نماز میں بات کرنا، اگرچہ دوحرف والا ایک لفظ بھی ہو، نماز کو باطل کردیتا ہے.

٣۔قہقہہ لگا کر ہنسنا نماز کو باطل کردیتا ہے۔

٤۔بلند آواز میں دنیوی امور کے لئے رونا نماز کو باطل کردیتا ہے۔

٥۔اگر نماز گزار اپنے رخ کو پوری طرح دائیں یا بائیں طرف موڑلے یا پشت بہ قبلہ کرے تو نماز باطل ہوجائے گی۔

٦۔ اگر نماز گزار ایسا کام کرے جس سے نماز کی حالت (ہیئت) ٹوٹ جائے تو،نماز باطل ہے۔

٧۔حفظ جان ومال اور قرض کو ادا کرنے کے لئے، جب قرضدار قرض کا تقاضا کرے اور وقت نماز میں وسعت ہو اور نماز کی حالت میں قرض ادانہ کرسکتا ہو،نماز کو توڑنا اشکال نہیں ہے۔

۱۴۴

سوالات:

١۔ کن امور سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟

٢۔ اگر کوئی شخص نماز گزار کو نماز کی حالت میں سلام کرے تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٣۔ کس طرح کا ہنسنا اور رونا نماز کو باطل کردیتا ہے؟

٤۔اگر نماز گزار متوجہ ہوجائے کہ ایک بچہ بخاری (ہیٹر سے مشابہ ایک چیز ہے) کے نزدیک جارہا ہے اور ممکن ہے اس کا بدن جل جائے، کیا نماز کو توڑ سکتا ہے؟

٥۔ایک مسافر نماز کی حالت میں متوجہ ہوتا ہے کہ ریل گاڑی حرکت کرنے کے لئے تیار ہے کیا وہ ریل کو پکڑنے کے لئے نماز کو توڑسکتا ہے؟

۱۴۵

سبق نمبر ٢٢

اذان، اقامت اور نماز کا ترجمہ

اذان واقامت کا ترجمہ:

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خدا سب سے بڑاہے۔

*اَشْهَدُاَنْ لَاْاِلٰهَ اِلاّ اللّٰه

میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔

*اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰهِ

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پیغمبر ہیں

*اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ وَلِیُّ اللّٰهِ ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ علی علیہ السلام مومنوں کے امیر اور لوگوں پر خدا کے ولی ہیں۔

*حَیَّ عَلَی الصَّلوٰةِ

نماز کی طرف جلدی کرو

*حَیَّ عَلَی الْفَلاٰحِ.

کامیابی کی طرف جلدی کرو۔

*حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ

بہترین کام کی طرف جلدی کرو۔

*قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰة

نماز قائم ہوگئی

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خدا سب سے بڑاہے۔

*لَا اِلٰهٰ اِلَّا اللّٰه

پروردگار عالم کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔

۱۴۶

نماز کا ترجمہ:

تکبیرة الاحرام:

*اَللّٰهُ اَکْبَر

خداسب سے بڑاہے۔

حمد:

*بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں

*الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ٭

سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والاہے۔

* الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ ٭

وہ عظیم اور دائمی رحمتوں والا ہے۔

* مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ ٭

روز قیامت کا مالک ومختار ہے۔

* ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ٭

پروردگارا. ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں:

*اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ٭صِرَاطَ الَّذِینَ َنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ٭

ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ،جوان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں.

* غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلاَالضَّالِّینَ (٭)

ان کا راستہ نہیں، جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں:

۱۴۷

سورہ:

* بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خداوند رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں

* قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَد ٭

اے رسول:! کہدیجئے کہ اللہ ایک ہے۔

* اَللّٰهُ الصَّمَدُ٭

اللہ برحق اور بے نیاز ہے۔

* لَمْ یَلِدُ وَلَمْ یُوْلَدْ٭

اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد۔

* وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً اَحَدُ.

اور نہ اس کا کوئی کفووہمسر ہے۔

ذکر رکوع:

* سُبْحَانَ رَبیَّ العظیم وَبِحَمْدِه

اپنے پروردگار کی ستائس کرتاہوں اور اسے آراستہ جانتاہوں۔

ذکر سجود:

* سُبْحَانَ رَبیَّ الْاَعْلٰی وَبِحَمْدِه

اپنے پروردگار کی (جو سب سے بلند ہے)ستائش کرتا ہوں اور آراستہ جانتا ہوں

تسبیحات اربعہ:

* سُبْحٰانَ اللّٰه وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاٰ اِلَهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَر

خداوند عالم پاک اور منزہ ہے، تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں پروردگار عالم کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور خدا سب سے بڑا ہے۔

۱۴۸

تشہد:

*''أَشْهَدُ أَنْ لاٰاِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰشَریْکَ لَه

میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

*وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُهُ وَرَسُوْلُهْ.

اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندہ اور خدا کا بھیجاہوا( رسول) ہے۔

* أَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ''.

خداوندا!: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے خاندان پر درود بھیج۔

سلام:

* اَلْسّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّهَاْ اْلنَبِیُّ وَرَحْمَةُ اْﷲِ وَ بَرَکَاْتُه.

درود اور خدا کی رحمت وبرکات ہو آپ پراے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !

* اَلْسّلَاَمُ عَلَیْنَاْ وَ عَلٰی عِبَاْدِ اْللّٰهِ اْلصَّاْلِحِیْنَ

درود و سلام ہو ہم (نماز گزاروں)پر اور خدا کے شائستہ بندوں پر۔

* اَلسّلَاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اْللّٰهِ وَ بَرکَاْتُه.

سلام اور خدا کی رحمت و برکت آپ پر ہو۔

۱۴۹

سوالات:

١۔اس جملہ کا ترجمہ کیجئے جو اقامت میں موجود ہے لیکن اذان میں نہیں ہے؟

٢۔تسبیحات اربعہ کا ترجمہ کیجئے؟

٣۔سبق میں مذکررہ سورہ کے علاوہ قرآن مجید سے ایک چھوٹے سورہ کو انتخاب کرکے اس کا ترجمہ کیجئے؟

٤۔نماز کے پہلے اور آخری جملہ کا ترجمہ کیا ہے؟

٥۔تکراری جملوں کو حذف کرنے کے بعد نماز کے کل جملوں کی تعداد (اذان واقامت کے علاوہ) کتنی ہے؟

۱۵۰

سبق نمبر٢٣، ٢٤

شکیات نماز

بعض اوقات ممکن ہے نماز گزار، نماز کے کسی حصے کوانجام دینے کے بارے میں شک کرے، مثلاً نہیں جانتا کہ اس نے تشہد پڑھا ہے یا نہیں، ایک سجدہ بجا لایا ہے یا دو سجدے،بعض اوقات نماز کی رکعتوں میں شک کرتا ہے، مثلاً نہیں جانتا اس وقت تیسری رکعت پڑھ رہاہے یا چو تھی۔

نماز میں شک کے بارے میں کچھ خاص احکام ہیں اور ان سب کا اس مختصر کتاب میں بیان کرنا امکان سے خارج ہے، لیکن خلاصہ کے طور پر اقسام شک اور ان کے احکام بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

نماز میں شک کی قسمیں(١) :

١۔نمازکے اجزاء میں شک:

الف: اگر نمازکے اجزاء کو بجالانے میں شک کرے، یعنی نہیں جانتا ہوکہ اس جزء کو بجالایا ہے یا نہیں، اگر اس کے بعد والاجزء ابھی شروع نہ کیا ہو، یعنی ابھی فراموش شدہ جزء کی جگہ سے نہ گزرا ہوتو اسے بجالانا چاہئے۔ لیکن اگر دوسرے جزء میں داخل ہونے کے بعد شک پیش آئے، یعنی محل شک جزء کی جگہ سے گزر گیا ہو ، تو ایسے شک پر اعتبار کئے بغیر نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ١٩٨و ٢٠٠

۱۵۱

ب: اگر نماز کے کسی جزء کے صحیح ہونے میں شک کرے، یعنی نہ جانتاہوکہ نماز کے جس جزء کو بجالایا ہے، صحیح بجالایاہے،یا نہیں، اس صورت میں شک کے بارے میں اعتنا نہ کرے اور اس جزء کو صحیح مان کر نماز جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

٢۔ رکعتوں میں شکز

وہ شک جو نماز کو باطل کرتے ہیں() :

١۔ اگر دورکعتی یاسہ رکعتی نماز جیسے صبج کی نماز یا مغرب کی نماز میں، رکعتوں میں شک پیش آئے تو نماز باطل ہے۔

٢۔ ایک اور ایک سے زیادہ رکعتوں میں شک کرنا، یعنی اگر شک کرے ایک رکعت پڑھی ہے یا زیادہ،نماز باطل ہے۔

٣۔ اگر نماز کے دوران یہ نہ جانتا ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہے تو اسکی نماز باطل ہے۔

*وہ شک جن کی پروانہ کرنی چاہئے:(٢)

١۔مستحبی نمازوں میں

٢۔ نماز جماعت میں ۔ ان دونوں کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

٣۔ سلام کے بعد اگر نماز تمام کرنے کے بعد اس کی رکعتوں یا اجزاء میں شک ہوجائے تو ضروری نہیں ہے، نماز کو دوبارہ پڑھیں۔

٤۔ اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے کہ نماز پڑھی یا نہیں؟ تو نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م١١٦٥.

(٢)توضیح المسائل م١١٦٨.

*نماز کی رکعتوں میں شک کے اور مواقع ہیں چونکہ ان کا اتفاق کم ہوتاہے لہٰذا ان کے بیان سے چشم پوشی کرتے ہیں مزید وضاحت کے لئے توضیح المسائل ١١٦٥ تا١٢٠٠ ملاحظہ کیجئے.

۱۵۲

چار رکعتی نماز میں شک(١)

شک = قیام کی حالت میں=رکوع میں =رکوع کے بعد =سجدہ میں =سجدوں کے بعد بیٹھنے کی حالت میں=نمازصحیح ہونے پر نماز گزار کا فریضہ

٢اور ٣ میں شک =باطل =باطل =باطل =باطل *=صحیح =تین پربنا رکھ کر اور ایک رکعت نماز پڑھے اور سلام پھیرنےکے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر بجالائے۔(٭٭)

٢اور ٤ میں شک=باطل =باطل =باطل =باطل =صحیح =چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

٣اور ٤ میں شک =صحیح =صحیح =صحیح=صحیح =صحیح =چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرنے کے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دور کعت بیٹھ کر بجالائے۔

٤ اور ٥ میں شک =صحیح =باطل=باطل=باطل=صحیح =اگر قیام کی حالت میں شک پیش آئے، رکوع کئے بغیر بیٹھ جائے

او ر نماز تمام کرکے ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہوکر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔٭٭٭اور اگر بیٹھے ہوئے

شک پیش آئے تو چار پر بنا رکھ کر نماز تمام کرکے دو سجدہ سہو بجالائے۔

____________________

(١) تو ضیح المسائل ،م ١١٩٩، العروة الوثقیٰ ج٢س ٢٠ م ٣.

*حضرت آیت اللہ خوئی کے فتوی کے مطابق اگر ذکر سجدہ کے بعد شک پیش آئے اور حضرت آیت اللہ گلپائیگانی کے فتوی کے مطابق اگر شک ذکر واجب کے بعد پیش آئے تو شک کا حکم وہی ہے جو بیٹھنے کی حالت میں ہے.(مسئلہ ١١٩٩)

٭٭(اراکی ۔ خوئی) احتیاط واجب کی بنابر پر کھڑے ہو کر پڑھے (م١١٩١) (گلپائیگانی )ایک رکعت کھڑے ہو کر پڑھے۔ (م١٢٠٨)

٭٭٭(گلپائیگانی)اس صورت میں احتیاط لازم ہے کہ نماز کے بعد احتیاط کے طور پر دو سجدہ سہو بجالائے۔(مسئلہ ١٢٠٨)

۱۵۳

یاددہانی:

١۔ جو کچھ نماز میں پڑھا یا انجام دیا جاتاہے وہ نماز کا حصہ یاایک جزء ہے۔

٢۔ اگر نماز گزار شک کرے کہ نماز کے کسی جزء کو پڑھا ہے یا نہیں، مثلا ًشک کرے کہ دوسرا سجدہ بجالایا ہے یا نہیں، اگر دوسرے جزء میں داخل نہ ہوا ہو تو اس جزو کو بجالانا چاہئے، لیکن اگر بعد والے جزو میں داخل ہوا ہو تو شک کی پروانہ کرے، اس لحاظ سے اگر مثلاً، بیٹھے ہوئے، تشہد کو شروع کرنے سے پہلے شک کرے کہ ایک سجدہ بجالایا ہے یا دو، تو ایک اور سجدہ کو بجالانا چاہئے۔ لیکن اگر تشہد کے دوران یا کھڑے ہونے کے بعد شک کرے، تو ضروری نہیں ہے کہ سجدہ کو بجالائے بلکہ نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

٣۔ نماز کے اجزاء میں سے کسی جزء کو بجالانے کے بعد شک کرے، مثلاً حمد یا اس کے ایک لفظ کو پڑھنے کے بعد شک کرے کہ صحیح بجالایا ہے یا نہیں، اس شک پر توجہ نہ کرے اور ضروری نہیں اس کو دوبارہ بجالائے، بلکہ نماز کو جاری رکھے، صحیح ہے۔

٤۔اگر مستجی نمازوں کی رکعتوں میں شک کرے، تو دوپر بنا رکھنا چاہئے چونکہ نماز وتر کے علاوہ تمام مستجی نمازیں دورکعتی ہیں،اگر ان میں ایک اور دو یا دو اور بیشتر میں شک پیش آئے تو دوپر بنارکھے، نماز صحیح ہے۔

٥۔ نماز جماعت میں، اگر امام جماعت شک کرے لیکن ماموم کو شک نہ ہوتومثلاًاللہ اکبر کہہ کر

امام کو مطلع کرے ، امام جماعت کو اپنے شک پر اعتنا نہیں کرنا چاہئے، اور اسی طرح اگر ماموم نے شک کیا لیکن امام جماعت شک نہ کرے، تو جس طرح امام جماعت نماز کو انجام دے ماموم کو بھی اسی طرح عمل کرنا چاہئے اور نماز صحیح ہے۔

٦۔ اگر نماز کو باطل کرنے والے شکیات میں سے کوئی شک پیش آئے، تو تھوڑی سی فکر کرنی چائے اور اگر کچھ یاد نہ آیا اور شک باقی ر ہا تو نماز کو توڑکر دوبارہ شروع کرنا چاہئے ۔

۱۵۴

نماز احتیاط:

١۔ جن مواقع پر نماز احتیاط واجب ہوتی ہے، جیسے ٣ اور ٤ میں شک وغیرہ سلام پھیرنے کے بعد نماز کی حالت کو توڑے بغیر اور کسی مبطل نماز کو انجام دئے بغیر اٹھنا چاہئے اور اذان واقامت کہے بغیر تکبیر کہہ کر نماز احتیاط پڑھے۔

نماز احتیاط اور دیگر نمازوں میں فرق:

*اس کی نیت کو زبان پر نہیں لاناچاہئے۔

*اس میں سورہ اور قنوت نہیں ہے۔ (گرچہ دورکعتی بھی ہو)

*حمد کو آہستہ پڑھنا چاہئے۔ ( احتیاط واجب کی بنا پر )*

٢۔ اگر نما* احتیاط ایک رکعت واجب ہو، تو دونوں سجدوں کے بعد، تشہد پڑھ کر سلام پھیردے اور اگر دورکعت واجب ہو تو پہلی رکعت میں تشہد اور سلام نہ پڑھے بلکہ ایک اور رکعت ( تکبیرة الا حرام کے بغیر) پڑھے اور دوسری رکعت کے اختتام پر تشہد پڑھنے کے بعد سلام پڑھے ۔(١)

____________________

(١)توضیح المسائل م١٢١٥۔١٢١٦.

*گلپائیگانی۔ خوئی)سورہ حمد کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (مسئلہ ١٢٢٥)

۱۵۵

سجدہ سہو:

١۔ جن مواقع پر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، جیسے بیٹھنے کی حالت میں ٤ اور ٥ کے درمیان شک کی صورت میں تو نماز کا سلام پھیرنے کے بعد سجدہ میں جائے اور کہے:بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ بلکہ بہترہے اس طرح کہے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰه اَلسّٰلَاْمُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکاَتُه.*

اس کے بعد بیٹھے اور دوبارہ سجدہ میں جاکر مذکورہ ذکر وں میں سے ایک کو پڑھے اس کے بعد بیٹھے اور تشہد پڑھ کے سلام پھیردے۔(١)

٢۔ سجدۂ سہومیں تکبیرة الا حرام نہیں ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ١٢٥٠

*(خوئی) احتیاط واجب ہے دوسرا جملہ پڑھاجائے. (مسئلہ ١٣٥٩)

۱۵۶

سبق ٢٣و٤ ٢ کا خلاصہ

١۔ اگر نماز گزار نماز کے بعد والے جزء میں داخل ہونے سے قبل پہلے والے جزء کے بارے میں شک کرے تو اسے پہلا والاجزء بجالانا ضروری ہے۔

٢۔ اگر محل کے گزرنے کے بعد نماز کے کسی جزء کے بارے میں شک کرے تو اس کی پروانہ کرے۔

٣۔ اگرنماز کے کسی جزء کے صحیح ہونے کے بارے میں شک کرے تو اس پر اعتنا نہ کرے۔

٤۔ اگر دورکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں کی تعداد میں شک ہوجائے تو نماز باطل ہے۔

٥۔ درج ذیل مواقع میں شک پر اعتنا نہیں کیا جاسکتا :

مستجی نمازوں میں

* نماز جماعت میں

* نماز کا سلام پھیرنے کے بعد

*نماز کا وقت گزرنے کے بعد ۔

٦۔ جن مواقع پر رکعتوں میں شک کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا، اگر شک کا بیشتر طرف چار سے زائد نہ ہوتو بیشترپر بنا رکھا جائے۔

٧۔نماز احتیاط نماز کی احتمالی کمی کی تلافی ہے، پس ٣اور ٤کے درمیان شک کی صورت میں ایک رکعت نماز احتیاط پڑھی جائے اور ٢اور ٤ کے درمیان شک کی صورت میں دورکعت نماز احتیاط پڑھی جائے۔

٨۔ نماز احتیاط اور دیگر نمازوں کے درمیان حسب ذیل فرق ہے:

*نیت کو زبان پر نہ لایا جائے۔

* سورہ اور قنوت نہیں ہے۔

*حمد کو آہستہ پڑھا جائے۔

٩۔ سجدہ سہو کو نماز کے فوراً بعد بجالانا چاہئے اور دوسجدے ایک ساتھ میں ، اس میں تکبیرة الا حرام نہیں ہے۔

۱۵۷

سوالات:

١۔ اگر نماز گزارتسبیحات اربعہ کے پڑھتے وقت شک کرے کہ تشہد کو پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا حکم کیا ہے؟

٢۔ اجزائے نماز میں شک کی چار مثالیں بیان کیجئے؟

٣۔اگر صبح یا مغرب کی نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میںشک ہوجائے تو فریضہ کیا ہے؟

٤۔ اگر چار رکعتی نماز کے رکوع میں شک کرے کہ تیسری رکعت ہے یا چوتھی تو حکم کیا ہے؟

٥۔ اگر کوئی شخص ٤ بجے بعد از ظہر شک کرے کہ نماز ظہر وعصر پڑھی ہے یا نہیں تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٦۔جو شخص تکبیرةالاحرام کہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح کہا ہے یا نہیں تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٧۔اگر قیام کی حالت میں ٤ اور ٥ کے درمیان شک ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

٨۔کیا آپ جانتے ہیں کہ نماز احتیاط میں کیوں حمد کو آہستہ پڑھنا چا ہئے؟

٩۔ کیا آپ کو آج تک کبھی نماز میں کوئی شک پیش آیا ہے؟ اگر جواب مثبت ہوتو وضاحت کیجئے کہ پھر کیسے عمل کیا ہے؟

١٠۔ سجدۂ سہو کو بجالانے کی کیفیت بیان کیجئے؟

۱۵۸

سبق نمبر ٢٥

مسافر کی نماز

انسان کو سفر میں چار رکعتی نمازوں کو دورکعتی( قصر) بجالانا چاہئے،بشرطیکہ اس کا سفر ٨ فرسخ یعنی تقریباً ٤٥کیلو میڑسے کم نہ ہو۔(١)

چند مسائل:

١۔ اگر مسافر ایسی جگہ سے سفر پر نکلے، جہاں پر اس کی نماز تمام ہو، *جیسے وطن اور کم از کم چار فرسخ جاکر چار فر سخ واپس آجائے تو اس سفر میں بھی اس کی نماز قصرہے۔(٢)

٢۔ مسافرت پر جانے والے شخص کو اس وقت نماز قصر پڑھنی چاہئے جب کم از کم وہ اتنادور پہنچے کہ اس جگہ کی دیوار کو نہ دیکھ سکے ٭٭اور وہاں کی اذان کو بھی نہ سن سکے۔٭٭٭اگر اتنی مقدار دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو تمام پڑھے۔(٣)

____________________

(١)تو ضیح المسائل، ص ٣ ١٧، نماز مسافر

(٢)توضیح المسائل،م ١٢٧٢و ٧٣ ١٢.

(٣)توضیح المسائل،نماز مسافر آٹھویں شرط.

* چاررکعتی نماز کو دو رکعتی کے مقابلہ میں نماز کو تمام کہتے ہیں.

٭٭اس فاصلہ کو '' حد ترخص'' کہتے ہیں

٭٭٭ (خوئی ۔اراکی) اس قدر دورچلاجائے کہ وہاں کی اذان نہ سن سکے اور دہاں کے باشندے اس کو نہ دیکھ سکیں ۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کو نہ دیکھ سکے۔(م١٢٩٢)

۱۵۹

٣۔اگر مسافر ایک جگہ سے سفر شروع کرے،ز جہاں نہ مکان ہو اور نہ کوئی دیوار،جب وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ اگر اس کی دیوار ہوتی تو وہاں سے نہ دیکھی جاسکتی، تو نماز کو قصر پڑھے۔(١)

٤۔ اگر مسافر ایک ایسی جگہ جانا چاہتا ہو، جہاں تک پہنچنے کے دوراستے ہوں، ان میں سے ایک راستہ٨ فرسخ سے کم اور دوسرا راستہ ٨ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو، تو ٨ فرسخ یا اس سے زیادہ والے راستے سے جانے کی صورت میں نماز قصر پڑھے اور اگر اس راستے سے جائے جو ٨ فرسخ سے کم ہے، تو نماز تمام یعنی چاررکعتی پڑھے۔(٢)

سفر میں نماز پوری پڑھنے کے مواقع

درج ذیل مواقع پر سفر میں نماز پوری پڑھنی چاہیئے

١۔آٹھ فرسخ طے کرنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے یا ایک جگہ پر دس دن ٹھہرے ۔

٢۔پہلے سے قصد وارادہ نہ کیا ہو کہ آٹھ فرسخ تک سفر کرے اور اس سفر کو قصد کے بغیر طے کیا ہو، جیسے کوئی کسی گم شدہ کو ڈھونڈنے نکلتاہے۔

٣۔ درمیان راہ ،سفر کے قصد کو توڑدے، یعنی چار فر سخ تک پہنچنے سے پہلے آگے بڑھنے سے منصرف ہوجائے اور واپس لوٹے۔

٤۔جس کا مشغلہ مسافرت ہو، جیسے ریل اور شہرسے باہر جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور، ہوائی جہاز کے پائیلٹ اور کشتی کے نا خدا (اگر سفر ان کا مشغلہ ہو)۔

٥۔ جس کا سفر حرام ہو، جیسے، وہ سفر جو ماں باپ کے لئے اذیت وآزارکا باعث بنے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٣٢١

(٢)توضیح المسائل م ٩ ١٢٧

(٣)توضیح المسائل ، نمازمسافر.

*(اراکی ۔ خوئی) جہاں کوئی سکونت نہیں کرتا، اگر ایسی جگہ پر پہنچے جہاں اگر سکونت کرنے والے ہوتے تو انھیں نہ دیکھ سکتے.

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326