احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)0%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محمد حسین فلاح زادہ
زمرہ جات:

صفحے: 326
مشاہدے: 200872
ڈاؤنلوڈ: 4187

تبصرے:

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200872 / ڈاؤنلوڈ: 4187
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

درج ذیل جگہوں پر نماز تمام ہے:

١۔ وطن میں ۔

٢۔ اس جگہ پر جہاں جانتاہے یا پہلے سے طے ہے کہ دس دن وہاں پر ٹھہرے گا۔

٣۔ اس جگہ پر جہاں پرتیس دن شک وتذبذب میں گزارے ہوں، یعنی نہیں جانتا تھا کہ ٹھہرے گا یا چلا جائے گا اور اسی حالت میں وہاں پر تیس دن رہا اور کہیں گیا بھی نہیں، اس صورت میں تیس دن گزارنے کے بعد نماز کو تمام پڑھے۔(١)

وطن کہاں پرہے؟

١۔وطن،وہ جگہ ہے جسے انسان نے اپنی رہائش اور زندگی گزارنے کے لئے انتخاب کیا ہو، خواہ وہ وہاں پر پیدا ہوا ہو اور وہ اس کے ماں باپ کا وطن ہو، یا خود اس نے اس جگہ کو زندگی گزارنے کے لئے اختیار کیا ہو۔(٢)

٢۔جب تک انسان اپنے وطن کے علاوہ کسی اور جگہ کو ہمیشہ رہنے کی غرض سے قصد نہ کرے، وہ اس کے لئے وطن شمار نہیں ہوگا۔(٣) *

٣۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی جگہ پر کچھ مدت رہائش کا قصد کرے، جو اس کا اصل وطن نہیں ہے اور اس کے بعد کسی دوسری جگہ چلاجائے، تو وہ اس کے لئے وطن شمار نہیں ہوگا، جیسے طالب علم، جو تحصیل علم کے

____________________

(١)توضیح المسائل، شرط چہارم ومسئلہ ١٣٢٨۔ ١٣٣٥۔ ١٣٥٣

(٢)توضیح المسائل م، ١٣٢٩.

(٣)توضیح المسائل، م ١٣٣١.

*(گلپائیگانی۔ خوئی)جس جگہ کو انسان اپنی رہائش قرار دے اور وہاں کے رہنے والوں کی طرح وہا ں پر زندگی بسر کرے، اگر اس کے لئے کوئی مسافرت پیش آئے اور اس کے بعد اسی جگہ واپس لوٹے، اگر چہ وہاں پر ہمیشہ رہنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو، اس کے لئے وطن حساب ہوگا. (مسئلہ ١٣٤٠)

۱۶۱

لئے کچھ مدت تک کسی شہر میں رہتا ہے ۔(١)

٤۔ اگر کوئی شخص ہمیشہ رہائش کے قصد کے بغیر ایک جگہ پر اتنی مدت تک سکونت کرے کہ لوگ اسے وہاں کا ساکن سمجھ لیں،تو وہ جگہ اس کے لئے وطن کا حکم رکھتی ہے۔(٢)

٥۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی جگہ پر پہنچ جائے جو پہلے اس کا وطن تھا لیکن اس وقت اسے نظر اندازکیا ہے، تو وہاں پر نماز کو تمام نہیں پڑھنا چاہئے، اگر چہ کوئی دوسرا وطن بھی اپنے لئے اختیار نہ کیا ہو۔(٣)

٦۔مسافر سفر سے لوٹتے وقت جب اپنے وطن کی دیوار کو دیکھ لے ز اور وہاں کی اذان سن سکے تو نماز پوری پڑھنی چاہئے۔(٤)

دس روز کا قصد:

١۔اگر کسی مسافر نے کہیں پر دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا اور دس دن سے زیادہ وہاں پر ٹھہرا، تو دو بارہ سفر نہ کرنے تک نماز کو تمام پڑھے، ضروری نہیں ہے کہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کرے۔(٥)

٢۔ اگر مسافر دس دن کے قصد سے منصرف ہو جائے:

الف: اگر چار رکعتی نماز کے پڑھنے سے پہلے منصرف ہوگیا ہو تو، اسے نماز قصر پڑھنی چاہئے

ب: اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد اپنے قصد سے منصرف ہوجائے تو جب تک وہاں رہے نماز کو تمام پڑھے۔(٦)

____________________

(١)توضح المسائل، م ٣٠ ١٣.

(٢) توضیح المسائل م ١ ١٣٣.

(٣)توضیح المسائل م١٣٣٤.

(٤)توضیح المسائل،م١٣١٩

(٥)توضیح المسائل،١٣٤٧.

(٦)توضیح المسائل،م١٣٤٢

*(اراکی) جب اہل وطن اسے دیکھیں اور وہ وہاں سے اذان سن سکے (خوئی ) جب اپنے اہل وطن کو دیکھ لے اور وہاں کی اذان سن سکے (١، ٢٠ ١٣)

۱۶۲

جس مسافر نے نمازتمام پڑھی ہو:

الف: اگر نہ جانتا ہو کہ مسافر کو نماز قصر پڑھنی چاہئے، تو جو نمازیں اس نے پڑھی ہیں وہ صحیح ہیں۔(١)

ب: حکم سفر کو جانتا تھا لیکن اس کے بعض جزئیات کو نہیں جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا کہ مسافر ہے تو اسے پڑھی ہوئی نمازوںکو پھرسے پڑھنا چاہئے۔(٢) *

مسافرنہ ہونے کے باوجود نماز قصر پڑھی ہو تو :

جسے نماز تمام پڑھنی چاہئے، اگرقصر پڑھے تو بہر صورت اس کی نماز باطل ہے۔(٣) ٭٭

____________________

(١)توضیح المسائل،م ١٣٥٩

(٢)توضیح المسائل، م ٣٦٠ ١۔ ٦١ ٣ ١۔١٣٦٢

(٣)توضیح المسائل، م ١٣٦٣

*(گلپائیگانی۔ خوئی) اگر وقت گزرنے کے بعد جان لے تو قضا نہیں ہے۔(مسئلہ ١٣٦٩)

٭٭(خوئی)مگریہ کہ مسافرنے کسی جگہ پر دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا ہو اور حکم مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز قصر پڑھی ہو۔(مسئلہ ١٣٧٢)

۱۶۳

سبق : ٢٥ کا خلاصہ

١۔ انسان کو سفرمیں چار رکعتی نمازوں کو دورکعتی بجالانا چاہئے بشرطیکہ اس کا سفر ٨ فرسخ سے کم نہ ہو۔

٢۔ سفر میں اس وقت نماز کو قصر پڑھنا چاہئے جب مسافر اتنا دور چلائے جائے کہ وہاں سے اس جگہ کی دیوار کو نہ دیکھ سکے اور وہاں کی اذان نہ سن سکے ۔

٣۔اگر مسافر ایک ایسے محل سے اپنا سفر شروع کرے کہ اس کی کوئی دیوار نہ ہو، تو اسے فرض کرنا چاہئے کہ اگر دیوار ہوتی تو کس مقام سے قابل دیدنہ ہوتی۔

٤۔ درج ذیل مواقع پر نماز تمام ہے:

*٨ فرسخ کا سفر طے کرنے سے پہلے اپنے وطن میں پہنچ جائے ۔

*جس سفر میں آٹھ فرسخ طے کرنے کا قصد نہ ہو۔

*جس کا مشغلہ مسافرت ہو، اس سفر میں جو اس کا شغل ہے۔

*جو حرام سفر انجام دے۔

٥۔ اپنے وطن اور اس جگہ پر، جہاں دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا جائے، نمازتمام ہے۔

٦۔ وطن اس جگہ کو کہتے ہیں جسے انسان نے اپنی رہائش اور زندگی بسر کرنے کے لئے اختیار کیا ہو۔

٧۔ جب تک انسان اپنے اصلی وطن کے علاوہ کسی اور جگہ پر ہمیشہ رہنے کا قصد نہ کرے، وہ جگہ اس کا وطن شمار نہیں ہوگی۔

٨۔ مسافر اپنے وطن لوٹتے وقت جب ایسی جگہ پر پہنچ جائے کہ وہاں سے شہر کی دیوار کو دیکھ لے اور اس جگہ کی اذان کو سن سکے، تو اسے نماز تمام پڑھنی چاہئے۔

٩۔ جو شخص نہیں جانتا کہ مسافر کی نماز قصر ہے اور نماز کو تمام بجالائے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اصل مسئلہ کو جانتا ہو اور بعض جزئیات کو نہ جاننے کی وجہ سے نماز کو تمام بجالایا ہو، تو نماز کو دوبارہ بجالائے۔

١٠۔ جسے نماز تمام پڑھنی چاہئے، اگر قصر پڑھے تو ہر حالت میں اس کی نماز باطل ہے۔

۱۶۴

سوالات:

١۔ سفر کے دوران یومیہ نمازوں میں کم ہونے والی رکعتوں کی کل تعداد کتنی ہے؟

٢۔ ایک شخص اپنے گائوں کے مشرق میں ٣٢ کلو میڑ کی دوری پر واقع ایک گاؤں کے لئے سفر کرتا ہے پھروہاں سے ٥٠کلومیڑ کی دوری پرمغرب میں واقع ایک اور گائوں کی طرف سفر کرتا ہے اور پھر اپنے وطن کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ بتائیے کہ اس کی نماز ان دوگائوں اور درمیان راہ میں تمام ہے یا قصر؟

٣۔ سرکاری ملازم اور فوجی افسر جو نوکری کی وجہ سے کئی سال ایک جگہ پر رہتے ہیں، کیا وہ جگہ ان کے لئے وطن شمار ہوتی ہے۔؟

٤۔ کسی جگہ کے وطن ہونے کا معیار کیا ہے؟

٥۔ ایک کسان جو اپنے گھر سے تین فرسخ کی دوری پر واقع کھیت پر روزانہ کھیتی باڑی کرنے جاتاہے اور شام کو واپس گھرآتاہے، اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

٦۔ ایک شخص کسی کام کے سبب گائوں سے شہر آیا ہے، واپس اپنے گائوں جاتے وقت اسے نماز تمام پڑھنی چاہئے یا قصر؟

٧۔ ایک مسافر نے بھولے سے نماز تما م پڑھی ہے، کیا اس کی نماز صحیح ہے یانہ؟

۱۶۵

سبق نمبر ٢٦

قضا نماز

تیرھویں سبق میں بیان کیا گیا کہ قضا نماز، اس نماز کو کہتے ہیں جو وقت گزرنے کے بعد پڑھی جائے.

واجب نمازیں اپنے وقت پر پڑھنی چاہئے، اگرکسی عذر کے بغیر اس سے کوئی نماز قضا ہوجائے تو وہ گناہگارہے اور اسے توبہ کرنا چاہئے اور اس کی قضا بھی بجالانا چاہئے ۔

١۔ دوصورتوں میں نماز کی قضابجالانا واجب ہے:

الف: واجب نماز وقت کے اندر نہ پڑھی گئی ہو۔

ب: وقت گزرنے کے بعد پتہ چلے کہ پڑھی گئی نماز باطل تھی۔(١)

٢۔ جس کے ذمہ قضا نماز ہو،اسے اس کے پڑھنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، لیکن اس کو فوری بجالانا واجب نہیں ہے۔(٢)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٣٧٠۔ ٧١ ١٣

(٢) توضیح المسائل، م ١٣٧٢

۱۶۶

٣۔ قضا نماز کی نسبت انسان کی مختلف حالتیں:

*انسان جانتا ہے کہ اس کی کوئی قضا نماز نہیں ہے، تو کوئی چیز اس پر واجب نہیں ہے۔

*انسان شک میں ہے کہ اس کی کوئی نماز قضا ہوئی ہے یانہیں ، تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔

*احتمال ہو کہ کوئی نماز قضا ہوئی ہے، تومستحب ہے احتیاط کے طور پر اس نمازکی قضا بجالائے ۔

جانتا ہو کہ قضا نماز اس کے ذمہ ہے لیکن ان کی تعداد نہیں جاتنا ہو، مثلاً نہیں جانتا ہوکہ چار نمازیں تھیں یا پانچ، اس صورت میں کم تر کو پڑھے تو کافی ہے۔

*قضا نمازوں کی تعداد کو جانتاہے، تو ان کو بجالانا چاہئے۔(١)

٤۔ یومیہ نمازوں کی قضا کو ترتیب سے پڑھنا ضروری نہیں ہے*مثلاً اگر کسی نے ایک دن عصر کی نماز اور دوسرے دن ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو تو ضروری نہیں ہے پہلے عصر کی قضا پڑھے پھر ظہر کی ۔(٢)

٥۔ قضا نمازجماعت کے ساتھ بھی پڑھی جاسکتی ہے، خواہ امام جماعت کی نماز ادا ہو یا قضا اور ضروری نہیں ہے کہ امام وماموم دونوں ایک ہی نماز پڑھتے ہوں، یعنی اگر صبح کی قضا نماز کو امام کی ظہر یا عصر کی نماز کے ساتھ پڑھیں تو کوئی مشکل نہیںہے۔(٣)

٦۔ اگر کسی مسافر کی ظہر، عصر یا عشا کی نماز ( جو اسے قصر پڑھنی تھی) قضا ہوجائے تو اسے اس کی قضا دورکعتی پڑھنی چاہے، اگرچہ اس قضا کو حضر میں بجالائے ۔(٤)

٧۔سفر میں روزہ نہیں رکھے جاسکتے، حتی قضا روزے بھی ،لیکن قضا نماز سفر میںپڑھی جاسکتی ہے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ١٣٧٤ و ١٣٨٣.

(٢)توضیح المسائل، م ٥ ٧ ١٣

(٣) توضیح المسائل ، م ١٣٨٨

(٤) توضیح المسائل ،م ١٣٦٨

(٥)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٢٤، م ٥ والعر وة الوثی،ج ١، ص ٧٣٢، م١٠

*( اراکی) ترتیب سے پڑھی جائے (مسئلہ ١٣٦٨)

۱۶۷

٨۔ اگر کوئی شخص سفر میں، حضر میں قضا ہوئی نماز کو بجالانا چاہئے تو وہ ظہر، عصر اور عشاکی قضا نمازوں کو چار رکعتی بجالائے۔(١)

٩۔ قضا نماز کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہے، یعنی صبح کی قضا نماز کو ظہر یا رات میں پڑھا جاسکتا ہے۔(٢)

باپ کی قضا نماز:

١۔ جب تک انسان زندہ ہے، اگر نماز پڑھنے سے عاجز بھی ہو، کوئی دوسرا شخص اس کی نمازیں قضا کے طور پر نہیں پڑھ سکتا۔(٣)

٢۔ باپ کے مرنے کے بعد اس کی قضا نمازیں اور روزے اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہیں، اسے چاہئے اپنے باپ کی قضا نمازیں اور روزے بجالائے اور ماں کی قضا شدہ نمازیں اور روزے بجالانا احتیاط مستحب ہے۔*(٤)

٣۔ باپ کی قضا نمازوں کے بار ے میں بڑے بیٹے کی مختلف حالتیں:

الف: جانتاہے اسکے باپ کی قضا نمازیںہیں اور :

*ان کی تعداد بھی جانتا ہے: تو ان کی قضا بجالائے۔

*ان کی تعداد کو نہیں جانتا: تو کم تر تعداد کو بجالائے توکافی ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٣٦٨

(٢) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٩٣،م١، العروة الوثقی، ج ١، ص ٧٣٤،م١٠

(٣) توضیح المسائل، م ١٣٨٧

(٤)توضیح المسائل،م ١٣٩٠

*(اراکی) ماں کی قضا نماز اور روزے بھی بجا لانا چاہئے (مسئلہ ١٢٨٢) (گلپائیگانی)احتیاط واجب ہے کہ ماںکی قضا نمازیں اور روزے بھی بجالائے مسئلہ ١٣٩٩)

۱۶۸

*شک رکھتا ہے کہ بجالایا ہے یا نہیں : تو احتیاط واجب کے طور پر قضا بجالائے۔(١)

ب: شک رکھتا ہے کہ باپ کی کوئی نماز قضا تھی یا نہیں ؟: تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔(٢)

٤۔ اگر بیٹا اپنے ماں باپ کی قضا نمازیں بجالانا چاہتا ہوتو اسے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرنا چاہئے، یعنی صبح، مغرب اور عشا کی نماز کو بلند آوازے سے پڑھے۔(٣)

٥۔ اگر بڑا بیٹا، اپنے باپ کی قضا نمازو روزہ بجالانے سے پہلے فوت ہوا تو دوسرے بیٹے پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔(٤) *

____________________

(١) توضیح المسائل ،م ١٣٩٠۔ ١٣٩٢

(٢) تو ضیح المسائل ،م ١٢٩١

(٣) توضیح المسائل، م ١٣٩٥.

(٤)توضیح المسائل ، م ١٣٩٨

*(گلپائیگانی) اگر باپ اوربیٹے کی وفات کے درمیان اتنا فاصلہ گزراہو کہ بیٹا باپ کی قضا نماز اور روزہ بجالاسکتا تھا، تو دوسرے بیٹے پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، البتہ اگر یہ فاصلہ زیادہ نہ تھا تو احتیاط واجب کے طور پر دوسرے بیٹے کو باپ کی قضا نماز وروزہ بجالاناچاہئے۔(مسئلہ ١٤٠٧)

۱۶۹

سبق: ٢٦کا خلاصہ

١۔ باطل اور قضا نمازوں کی قضا واجب ہے۔

٢۔ اگر کوئی شخص نہ جانتاہو کہ اس کی کوئی نماز قضا ہوئی ہے یا نہیں، تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ۔

٣۔ اگر جانتا ہوکہ نماز قضا ہوئی ہے لیکن اس کی مقدار نہ جانتا ہو تو کم تر مقدار کو بجالائے، کافی ہے۔

٤۔ قضا نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔

٥۔ قضا نماز کو ہر وقت بجالایا جاسکتاہے، خواہ شب ہو یادن، سفر میں ہو یاحضر میں ۔

٦۔ باپ کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر اس کی قضا نمازیں اور روزے واجب ہیں ۔

٧۔ اگر بیٹا نہ جانتا ہوکہ باپ کی کوئی نماز قضا ہوئی ہے یا نہیں، تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔

٨۔ اگر کسی کا کوئی بیٹا نہ ہویا بڑا بیٹا باپ کی قضا نمازیں اور روزے بجالانے سے پہلے مرگیاہو تو اس کی قضا نمازیںاور روزے کسی دوسرے بیٹے پرواجب نہیں ہیں۔

۱۷۰

سوالات:

١۔ ادا اور قضا نماز میں کیا فرق ہے؟

٢۔ جسے یہ معلوم ہوکہ اس کی کچھ نمازیں قضا ہوئی ہیں، لیکن ان کی تعداد نہ جانتا ہوتو اس کا فرض کیاہے؟

٣۔ اگر کوئی شخض نماز ظہر وعصر کے بعد صبح کی قضا نماز بجالانا چاہے تو کیا اسے قرأت بلند پڑھنی چاہئے یا آہستہ؟

٤۔ ایک بیٹا یہ نہیں جانتا کہ اس کے باپ کی کوئی قضا نماز ہے کہ نہیں اور اس کے باپ نے بھی اسے کچھ نہیں کہا ہے، اس کا فرض کیا ہے؟

۱۷۱

سبق نمبر ٢٧

نماز جماعت

ملت اسلامیہ کا اتحاد، ان مسائل میںسے ہے جن کی اسلام میں انتہائی اہمیت ہے اور اس کے تحفظ اور جاری رہنے کے لئے خاص منصوبے مرتب کئے گئے ہیں، انھیں میں سے ایک نماز جماعت ہے۔

نماز جماعت میں خاص شرائط کا حامل ایک شخص، آگے کھڑا ہوتا ہے اور باقی لوگ صفوں میں منظم ہوکر اس کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیںاور اس کے ساتھ ہم آہنگ نمازبجالاتے ہیں۔

نماز جماعت کی اہمیت :

نماز جماعت کی اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کے سلسلے میں بہت سی احادیث اور روایات موجود ہیں۔ یہاں پر ہم اس عبادت کی اہمیت کے پیش نظر چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

١۔ نماز جماعت میں شرکت کرنا ہر ایک کے لئے مستحب ہے، خاص کر مسجد کے ہمسایوں کے لئے۔(١)

٢۔مستحب ہے انسان انتظار کرے، تاکہ نماز باجماعت بجالائے۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٣٩٩

۱۷۲

٣۔ تاخیرسے پڑھی جانے والی نماز جماعت اول وقت کی فرادیٰ نماز سے بہترہے۔

٤۔ طولانی فرادیٰ نماز مختصر نماز جماعت سے بہتر ہے۔(١)

٥۔ کسی عذر کے بغیر نماز جماعت کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔

٦۔لاپروائی کی وجہ سے نماز جماعت میںشریک نہ ہونا جائز نہیں ہے۔(٢)

نماز جماعت کے شرائط:

نماز جماعت کے سلسلے میںدرج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

١ ماموم کو امام سے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ احتیاط واجب کی بناء پر تھوڑاسا پیچھے کھڑا ہونا چاہئے

جماعت کے بغیر انفرادی طور پر پڑھی جانے والی نماز کو فرادیٰ کہتے ہیں ۔

٢۔ امام جماعت کی جگہ مامومین کی جگہ سے اونچی نہیں ہونی چاہئے ۔

٣۔ امام اور مامومین کے درمیان اور خود نمازیوں کی صفوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہئے۔

٤۔ امام ،مامومین اور نمازیوں کی صفوں کے درمیان دیواریا پردہ جیسی چیز مانع نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن مرداور عورتوں کے درمیان پردہ نصب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(٣)

امام جماعت کو بانع وعادل ہونا چاہئے اور نماز کو صحیح طور پر پڑھنا چاہئے ۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٤٠٢.

(٢)توضیح المسائل، م ١ ١٤٠.

(٣)العروة الوثقی، ج١، ص ٧٧٧.

(٤)توضیح المسائل ، م ١٤٥٣

۱۷۳

نماز جماعت میں شرکت کرنا (اقتدا کرنا)

ہر رکعت میں قرأت زاوررکوع کے دوران امام جماعت کی اقتداء کی جاسکتی ہے،لہٰذا اگر رکوع میں امام جماعت کی اقتداء نہ کرسکے تو دوسری رکعت میں اقتداء کرنا چاہئے اور اگر صرف رکوع میں امام جماعت کی اقتداء کرسکے تو ایک رکعت شمار ہوگی۔

نماز جماعت میںشامل ہونے کی مختلف حالتیں:

پہلی رکعت:

١۔ قرأت کے دوران۔۔۔ ماموم حمدو سورہ کو پڑھے بغیر باقی اعمال کو امام جماعت کے ساتھ انجام دے۔

٢۔ رکوع میں:۔۔۔ رکوع اور باقی اعمال کو امام جماعت کے ساتھ انجام دے(١)

دوسری رکعت :

١۔ قرأت کے دوران ۔۔۔۔ماموم حمداور سورہ کو پڑھے بغیر امام کے ساتھ قنوت، رکوع اور سجدہ بجالائے اور جب امام جماعت تشہد پڑھنے لگے تو ماموم احتیاط وا جب کے طورپرذرا جھک کر بیٹھے اور امام کی نمازدو رکعتی ہونے کی صورت میں ایک رکعت کو فرادیٰ انجام دے اور نماز کو مکمل کرے اور اگر امام کی نماز تین یا چار رکعتی ہوتو اس کی دوسری رکعت میں جب کہ امام جماعت کی تیسری رکعت ہے، حمد وسورہ پڑھے (اگر چہ امام جماعت تسبیحات اربعہ پڑھ رہا ہو ) اور جب امام جماعت تیسری رکعت کو ختم کر کے چوتھی رکعت کے لئے کھڑ ا ہو جائے تو ماموم کو دو سجدوں کے بعد تشہد پڑھنا چاہئے اور اس کے بعد کھڑا ہو کر تیسری رکعت

____________________

(١)توضیح المسائل م ٢٧ ١٤.

*قنوت کی حالت میں بھی اقتدا کی جاسکتی ہے اور قنوت کو امام کے ساتھ پڑھے اور یہاں پر بھی قرأت کے دوران اقتدا کرنے کی صورت میں اقتدا کرے۔

۱۷۴

کی قرأت (تسبیحات اربعہ )کو بجالائے اور نمازکی آخری رکعت میںجب امام جماعت تشہد و سلام پھیر نے کے بعد نماز کو ختم کرے تو ماموم مزیدایک رکعت پڑھے ۔(١)

٢۔ رکوع میں۔۔ رکوع امام کے ساتھ بجالائے اور باقی نماز بیان شدہ صورت میں انجام دے۔

تیسری رکعت :

١۔قرأت کے دوران ۔۔۔چنانچہ جانتا ہو کہ اقتدا کرنے کی صورت میں حمد و سورہ یا حمد پڑھنے کاوقت ہے تو اسے حمد و سورہ یا صرف حمد پڑھنا چاہئے اور اگر یہ جانتا ہو کہ کہ اتنی فرصت نہیں ہے کہ حمد وسورہ یا صرف حمد پڑھ سکے تو احتیاط واجب کی بنا پر انتظار کرے تاکہ امام جماعت رکوع میں جائے اور رکوع میں ہی اس کی اقتداء کرے۔

٢۔ رکوع میں ۔۔۔۔ رکوع میں امام کی اقتدا کرنے کی صورت میں رکوع کو بجالائے اور حمد وسورہ اس رکعت کے لئے معاف ہے اور باقی نماز کو بیان شدہ صورت میں انجام دے۔(٢)

چوتھی رکعت :

١۔ قرأت کے دوران

یہاں پر تیسری رکعت میں اقتدا کی صورت کا حکم ہے۔ جب امام جماعت آخری رکعت میں تشہد وسلام کے لئے بیٹھے، ماموم اٹھ کے نماز کو فرادیٰ صورت میں انجام دے سکتا ہے، اور امام جماعت کے تشہد اور سلام پھیرنے تک جھکے رہ سکتا ہے اور اس کے بعد اٹھ کر نماز کو جاری رکھ سکتاہے۔

٢۔ رکوع ۔۔۔۔۔ رکوع میں اقتدا کرنے والا رکوع وسجدوں کو امام کے ساتھ بجالائے (یہ امام کی چوتھی اور ماموم کی پہلی رکعت ہے) باقی نماز کوبیان شدہ صورت میں انجام دے سکتا ہے۔(٣)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٤٣٩۔١٤٤٠.

(٢) توضیح المسائل م ١٤٤٣۔۔١٤٤٢ وتحریر الوسیلہ،ج ١، ص ٢٧١۔ ٢٧٢۔م٥، ٦۔٨.

(٣) توضیح المسائل م ١٤٤٣۔۔١٤٤٢ وتحریر الوسیلہ،ج ١، ص ٢٧١۔ م٥، ٦۔٨.

۱۷۵

سبق ٢٧ کا خلاصہ

١۔ تمام واجب نمازیں خاص کر نماز پنجگانہ کو با جماعت پڑھنا مستحب ہے۔

٢۔ اولِ وقت میں نماز فرادیٰ پڑھنے سے تاخیر سے باجماعت نماز پڑھنا افضل ہے۔

٣۔ مختصر نماز جماعت ،طولانی فرادیٰ نماز سے بہتر ہے۔

٤۔ لاپروائی کی وجہ سے نماز جماعت میں شرکت نہ کرنا جائز نہیں ہے ۔

٥۔ کسی عذر کے بغیر نماز جماعت کو ترک کرنا سزاوار نہیں ہے۔

٦۔ امام جماعت کوبالغ وعادل ہونا چاہئے اور نماز کو صحیح طور پر پڑھنا چاہئے۔

٧۔ماموم کو امام سے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے اور امام کو ماموم سے بلند تر جگہ پر کھڑانہ ہونا چاہئے ۔

٨۔ امام اور اماموم اورنمازیوں کی صفوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔

٩۔ ہررکعت میں صرف قرأت اور رکوع میں اقتدا کی جاسکتی ہے، لہٰذا اگر رکوع میں کوئی اقتداء نہ کرسکے تو اسے بعد والی رکعت میں اقتداء کرنا چاہئے۔

۱۷۶

سوالات:

١۔ مندرجہ ذیل جملہ کی وضاحت کیجئے:

''لاپروائی کی وجہ سے نماز جماعت میں شرکت نہ کرنا جائز نہیں ہے۔''

٢۔ کس صورت میں چاررکعتی نماز میں چار بار تشہد پڑھا جاسکتا ہے؟

٣۔ نماز جماعت میں واجبات نماز میں سے کس واجب کو ماموم نہیں پڑھتا؟

٤۔ نماز مغرب کی دوسری رکعت میں امام کا اقتدا کرنے کی صورت میں ماموم باقی نماز کو کیسے جاری رکھے گا؟

٥۔ عدالت کی وضاحت کیجئے؟

۱۷۷

سبق نمبر٢٨

نماز جماعت کے احکام

١۔ اگر امام جماعت نماز یومیہ میں سے کسی ایک کے پڑھنے میں مشغول ہوتو ماموم نماز یومیہ کی کسی دوسری نماز کی نیت سے اقتدا کرسکتا ہے، چنانچہ اگر امام، عصر کی نماز پڑھنے میں مشغول ہوتو ماموم ظہر کی نماز کے لئے اقتدا کرسکتاہے، یا اگر ماموم نے ظہر کی نماز پڑھی ہو اور اس کے بعد جماعت شروع ہوجائے تو امام کی ظہر کے ساتھ ماموم نماز عصر کے لئے اقتداء کرسکتاہے۔(١)

٢۔ ماموم اپنی قضا نمازوں کو امام کی ادا نمازوں کے ساتھ اقتدا کرسکتا ہے، اگرچہ یہ قضا نمازیں دوسری ہوں، مثلاً امام جماعت ظہر کی نماز میں مشغول ہے تو ماموم اپنی صبح کی قضا نماز کیلئے اقتداکرسکتا ہے۔(٢)

٣۔ نماز جمعہ اور نماز عید فطرو عید قربان کے علاوہ نماز جماعت ایک آدمی کے امام اوردوسرے کے ماموم بننے کی صورت میں کم از کم دو افراد سے قائم ہوسکتی ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل ،م١٤٠٨

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٦٥،م١، العروة الوثقیٰ، ج ١ ص ٧٦٥، م٣.

(٣)العروة الوثقیٰ، ص ٧٦٦،م٨

۱۷۸

٤۔ نمازاستسقاء کے علاوہ کوئی بھی مستحب نماز ؛جماعت کے صورت میں نہیں پڑھی جاسکتی ۔(١)

نماز جماعت میں ماموم کا فریضہ:

١۔ ماموم کو امام سے پہلے تکبیرة الاحرام نہیں کہنا چاہئے، بلکہ احتیاط واجب ہے کہ جب تک امام تکبیر کو تمام نہ کرے ماموم تکبیرنہ کہے۔(٢)

٢۔ ماموم کو حمد وسورہ کے علاوہ نماز کی تمام چیزیں خود پڑھنی چاہئے لیکن اگر ماموم کی پہلی یا دوسری رکعت اور امام کی تیسری یا چوتھی رکعت ہوتو ماموم کو حمدو سورہ پڑھنا چاہئے۔(٣)

امام جماعت کی پیروی کرنے کا طریقہ:

الف: تکبیرة الاحرام کے علاوہ نماز میں پڑھی جانے والی چیزوں، جیسے حمد، سورہ، ذکر اور تشہد کو امام سے آگے یا پیچھے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ب: اعمال ، جیسے رکوع، رکوع اور سجدہ سے سراٹھانے میں امام پر سبقت کرنا جائز نہیں ہے، یعنی امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں نہیں جانا چاہئے یا امام سے پہلے رکوع یا سجدہ سے سر نہیں اٹھانا چاہئے لیکن امام سے پیچھے رہنے میں اگر زیادہ تاخیر نہ ہوتو کوئی حرج نہیں۔(٤)

____________________

(١) العرتہ الوثقیٰ، ج١، ص٧٦٤م٢

(٢) توضیح المسائل، م ١٣٦٧

(٣) توضیح المسائل،م ١٤٦١

(٤) توضیح المسائل، م ١٤٦٧ ۔ ٦٩ ١٤۔ ٧٠ ١٤ العروة الوثقیٰ ج،١ ص ٧٨٥.

۱۷۹

مسئلہ: امام جماعت کے رکوع میںہونے کی صورت میں ماموم کے اقتدا کرنے کی درج ذیل صورتیں ممکن ہیں:

*امام کے ذکر رکوع کو ختم کرنے سے پہلے ماموم رکوع میں پہنچتاہے۔اس کی باجماعت نماز صحیح ہے۔

*امام کے ذکر رکوع کو تمام کرنے لیکن رکوع سے بلند ہونے سے پہلے ماموم رکوع میں پہنچتاہے۔۔۔ اس کی باجماعت نماز صحیح ہے۔

*ماموم رکوع میں جاتاہے لیکن امام کے ساتھ رکوع نہیں بجا لاسکتا ہے۔۔ اس کی نماز فرادیٰ صحیح ہے، اسے تمام کرے۔*

اگر ماموم،بھولے سے قبل از امام:

١۔ رکوع میں جائے ۔

واجب ہے پلٹ کرامام کے ساتھ دوبارہ رکوع میں جائے **

٢۔ رکوع سے اٹھے۔

دوبارہ رکوع میں جائے اور امام کے ساتھ رکوع سے سر اٹھائے۔ یہاں پر رکوع کا زیادہ ہونااگرچہ رکن ہے،لیکن نماز کو باطل نہیں کرتا۔

٣۔سجدہ میں جائے۔

واجب ہے سجدہ سے سر اٹھا کر دوبارہ امام کے ساتھ سجدہ بجالائے ۔

٤۔ سجدہ سے سر اٹھائے ۔

دوبارہ سجدہ میں جائے۔(١)

اگر ماموم کی جگہ امام سے بلند ہو البتہ قدیم زمانہ کی متعارف حدمیں بلند ہو، مثال کے طور پر امام مسجد کے صحن میں ہواور ماموم مسجد کی چھت پر، تو کوئی حرج نہیں ،لیکن اگر آج کل کی چند منزلہ عمارتوں کی چھت پر ہو تو اشکال ہے۔(٢) ٭٭٭

____________________

(١)العروةالوثقیٰ، ج ١، ص ٧٨٦،م١٢.(٢) توضیح المسائل، م ١٤١٦

*(خوئی اراکی)اس کی نمازباطل ہے( مسئلہ ٤٣٦) (گلپائیگانی) جماعت باطل ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے(مسئلہ ١٤٣٦)

٭٭(گلپائیگانی)احتیاط کے طور پر کھڑے ہوکر امام جماعت کے ساتھ رکوع میںجائے(العروة الوثقیٰ، ج ١،ص ٧٨٦)

٭٭٭(گلپائیگانی وخوئی) اگرما موم کی جگہ امام سے بلند تر ہوتو حرج نہیں ہے لیکن اگر اس قدر بلند ہوکہ جماعت نہ کہاجائے تو جماعت صحیح نہیں ہے۔ (مسئلہ ٢٥ ١٤)

۱۸۰