احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)11%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212005 / ڈاؤنلوڈ: 4589
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

نماز جماعت کے بعض مستحبات اور مکر وہات:

١۔مستحب ہے امام جماعت صف کے سامنے وسط میں کھڑا ہو اور اہل علم، کمال وتقویٰ پہلی صف میںکھڑے ہو ں۔

٢۔مستحب ہے نماز جماعت کی صفیں، مرتب اور منظم ہوں اور صف میں کھڑ ے افرا د کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔

٣۔نمازیوں کی صفوں میں جگہ ہونے کی صورت میں تنہا صف میں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔

٤۔ مکروہ ہے، ماموم نماز کے ذکر ایسے پڑھے کہ امام جماعت سن سکے ۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل ص ١٩٧۔ ١٩٨

۱۸۱

سبق: ٢٨ کا خلاصہ

١۔ نمازِ استسقائکے علاوہ کوئی مستحب نماز باجماعت پڑھنا صحیح نہیں ہے۔

٢۔ یومیہ نمازوں میں سے کسی بھی نماز کی امام جماعت کی دوسری نمازوں کے ساتھ اقتداکی جاسکتی ہے۔

٣۔ قضا نمازوں کو بھی جماعت سے پڑھا جاسکتا ہے۔

٤۔ نماز جمعہ، نماز عید فطر اور نماز عید قربان کے علاوہ دیگر نمازوں کو کم از کم دو افرا پر مشتمل جماعت تشکیل دی جاسکتی ہے۔

٥۔ امام جماعت کی پیروی کرنے کا طریقہ:

*(اقوال میں (پڑھنے کی چیزوں میں )

تکبیرة الا حرام: امام سے پہلے یا امام کے ساتھ نہ کہی جائے

تکبیرة الاحرام کے علاوہ: امام سے آگے یا پیچھے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

*افعال میں۔۔۔ سبقت کرنا۔۔ جائز نہیں ۔

پیچھے رہنا۔۔ اگر زیادہ فاصلہ نہ ہوتو کوئی حرج نہیں۔

٦۔ اگر ماموم رکوع میں امام سے ملحق ہوجائے، اگرچہ امام ذکر رکوع تمام کرچکا ہو تو جماعت صحیح ہے۔

٧۔ اگر غلطی سے امام سے پہلے:

*۔ماموم رکوع میں چلاجائے ۔۔ پلٹ کر دوبارہ امام جماعت کے ساتھ رکوع میں جائے۔

*رکوع سے کھڑا ہوجائے۔۔ پھرسے رکوع میں جائے۔

*سجدہ میں جائے۔۔۔۔واجب ہے سرکو بلند کرکے دوبارہ امام کے ساتھ سجدہ میں جائے۔ اگر نہ اٹھے نمازصحیح ہے۔

*سجدہ سے سر کو اٹھائے۔۔۔ دوبارہ سجدہ میں جائے ۔

٨۔ اگر ماموم کی جگہ امام سے بلند ہوتو کوئی حرج نہیں ۔

۱۸۲

سوالات:

١۔ کیا مسافر، جس کی نماز قصر ہے امام جماعت کی ظہر کی نماز کی آخری دورکعتوں میں اپنی نماز عصر کی نیت سے اقتداکرسکتاہے؟

٢۔ کیا ماموم امام جماعت سے پہلے رکوع اور سجدہ میں جاسکتا ہے؟

٣۔ اگر ماموم کو سجدہ سے سراٹھانے کے بعد معلوم ہوجائے کہ امام ابھی سجدہ میں ہے تو اس کافرض کیا ہے؟

٤۔ اگر ماموم نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں غلطی سے قنوت پڑھنے سے پہلے رکوع میں جائے تو اس کا فرض کیا ہے؟

٥۔ کون سی مستحب نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے؟

۱۸۳

سبق نمبر٢٩

نماز جمعہ ونماز عید

نماز جمعہ:(١)

مسلمانوں کے ہفتہ وار اجتماعات میں سے ایک نماز جمعہ ہے اور نماز گزار جمعہ کے دن نماز ظہر کی جگہ پر جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔(٢) *

نماز جمعہ کی اہمیت:

امام خمینی رحمة اللہ علیہ، نماز جمعہ کی اہمیت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

'' نماز جمعہ اور اس کے دو خطبے، حج اور نماز عید فطر وعید قربان کی طرح مسلمانوں کے عظیم مراسم میں سے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اس سیاسی عبادت کے فرائض سے غافل ہیں ،جبکہ ایک انسان اسلام کے بارے میں ملکی،سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے سلسلے میں معمولی مطالعہ سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلام دین سیاست ہے اور جو دین کو سیاست سے جدا جانتاہے وہ ایک ایسا نادان ہے جو نہ دین کو

____________________

(١) نماز جمعہ کی بحث آیت ...گلپائیگانی کے رسالہ اور وسیلة النجاة کے حاشیہ میں نہیں آئی ہے لیکن مجمع المسائل سے مطابقت کی گئی ہے

(٢)تحریر الوسیلہ ص ٢٣١،م١

*(گلپائیگانی)بنابر احتیاط واجب نماز ظہر کو بھی پڑھے۔ (مجمع المسائل، ج ١، ص ٢٥١)

۱۸۴

پہچان سکاہے اور نہ سیاست کو''۔(١)

نماز جمعہ کی کیفیت:

واجبات:

نماز جمعہ صبح کی نماز کی طرح دورکعت ہے، لیکن اس میں دو خطبے ہیں، جنھیں امام جمعہ نماز سے قبل بیان کرتاہے۔

مستحبات:

١۔ امام جمعہ کا حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھنا*

٢۔ امام جمعہ کا پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورہ جمعہ پڑھنا۔

٣۔ امام جمعہ کا دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورہ منافقون پڑھنا۔

٤۔ اور دوسرا قنوت دوسری رکعت میں رکوع کے بعد۔(٢)

نماز جمعہ کے شرائط:

١۔ نماز جماعت کے تمام شرائط نماز جمعہ میں بھی ہیں۔**

٢۔ نماز جمعہ باجماعت پڑھی جانی چاہئے لہٰذا فرادیٰ پڑھنا صحیح نہیں ہے۔

٣۔ نماز جمعہ کو قائم کرنے کے لئے کم ازکم پانچ افراد کا ہونا ضروری ہے، یعنی ایک امام اور چار مامومین۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ ،ج١،ص ٤ ٢٣،م٩

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ١٣٢، الثانی

*(گلپائیگانی۔ اراکی) احتیاط واجب ہے کہ نماز جمعہ میں حمد وسورہ کو بلند آوازسے پڑھے مسئلہ ١٤٨٤

٭٭نماز جماعت کے شرائط سبق نمبر٢٧ میں بیان کئے گئے ہیں۔

۱۸۵

٤۔ دونماز جمعہ کے درمیان کم از کم ایک فرسخ کا فاصلہ ہونا چاہئے۔ *(١)

خطبے پڑھتے وقت امام جمعہ کے فرائض:

١۔ حمدوثنائے الٰہی بجالائے۔

٢۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار علیم السلام پر درود بھیجے۔

٣۔ لوگوں کو تقوائے الٰہی اور گناہوں سے دوری کی تاکید کرے۔

٤۔ قرآن مجید کے ایک چھوٹے سورہ کو پڑھے۔

٥۔ مؤمن مردو خواتین کے لئے مغفرت کی دعا کرے۔٭٭

اور سزاوار ہے کہ درج ذیل مطالب بھی بیان کرے۔٭٭٭

مسلمانوں کی دنیوی واخروی ضرورتیں۔

*دنیا میں پیش آنے والے حالات جو مسلمانوں کے نفع ونقصان کے بارے میں ہوں،سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔

*لوگوں کو سیاسی اور اقتصادی مسائل سے آگاہ کرے،جن کا ان کی آزادی میں عمل اوردخل ہو اور دیگر ملتوں اور اقوام سے برتائو کے طریقہ کار کو بیان کرے۔

* مسلمانوں کو ستمگر اور سامراجی حکومتوں کی طرف سے ان کے سیاسی واقتصادی معالات میں اپنا الوسیدھا کرنے کے لئے دخل اندازی کے بارے میں آگاہ کرے۔(٢)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج١، ص٢٣٢، الثانی.

(٢) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص٢٣٣و٢٣٤،م ٨٠٠٧۔٩.

*ایک فرسخ۔ساڑھے پانچ کلومیڑشرعی.

٭٭ان میں سے بعض مسائل فتویٰ ہیں، بعض احتیاط واجب اور بعض دونوں خطبوں سے مربوط ہیں اور بعض ایک ہی خطبہ سے مربوط ہیں۔

٭٭٭یہ حصہ امام خمینی کی کتاب تحریر الوسیہ سے نقل کیا گیا ہے۔

۱۸۶

نماز جمعہ پڑھنے والوں کا فرض:

١۔ احتیاط واجب کے طورپرخطبے سننا۔

٢۔ احتیاط مستحب ہے کہ خطبوں کے دوران باتیں کرنے سے پرہیز کیا جائے اگر باتیںکرنا خطبوں کی افادیت ختم ہونے یا خطبے نہ سننے کا سبب بنے تو باتیں نہ کرنا واجب ہے۔

٣۔ احتیاط مستحب ہے کہ خطبہ سننے والے خطبوں کے دوران امام کی طرف رخ کرکے بیٹھیں اور خطبوںکے دوران فقط اس قدر ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں جتنی کہ نماز کے دوران اجازت ہے۔(١)

نمازعید

عید فطر اور عید قربان کے دن نماز عید پڑھنا مستحب ہے۔

نماز عید کا وقت :

١۔ سورج چڑھنے کے وقت سے ظہر تک نماز عید کا وقت ہے۔(٢)

٢۔ مستحب ہے عید قربان کی نماز سورج چڑھنے کے بعد پڑھی جائے۔

٣۔ مستحب ہے عید فطر کے دن، سورج چڑھنے کے بعد افطار کیا جائے اس کے بعد زکات فطرہ زدے ٭٭پھر نماز عید پڑھے ۔(٣)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج١ ص ٣٣٥،م ١٤

(٢)توضیح المسائل،م ١٥١٧.

(٣)توضیح المسائل، م١٨ ١٥

٭کات فطرہ ایک مالی واجب ہے اور اسے عید فطر کے دن ادا کرنا چاہئے سبق ٣٤ ملا خطہ ہو)

٭٭(گلپائیگانی) عید فطر کے دن مستحب ہے کہ سورج چڑھنے کے بعد افطار کرے نیز احتیاط لازم زکات فطرہ بھی نکالے یاجداکرکے رکھدے اس کے بعد نماز عید فطرپڑھے. (مسئلہ ١٥٢٧)

۱۸۷

نماز عید کی کیفیت:

١۔ عید فطر اور عید قربان کی نماز دورکعت ہے، اس میں نوقنوت ہیں اور حسب ذیل طریقہ سے پڑھی جاتی ہے:

* پہلی رکعت میں حمد وسورہ کے بعد پانچ تکبریں پڑھی جاتی ہیں اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھا جاتاہے اور پانچویں قنوت کے بعد ایک اور تکبیر پڑھ کے رکوع اور دوسجدے کئے جاتے ہیں۔

دوسری رکعت میں حمد وسورہ کے بعد چار تکبیریں کہی جاتی ہیں اور ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت پڑھا جاتاہے اور چوتھے قنوت کے بعد ایک اور تکبیر پڑھ کے رکوع، سجود، تشہد وسلام پڑھ کے نماز تمام کی جاتی ہے.

* نمازعید کے قنوتوں میں کوئی بھی دعا یاذکر پڑھا جائے، کافی ہے ، لیکن بہتر ہے ثواب کی امید سے مندرجہ ذیل دعا پڑھی جائے:

''اَللّٰهُمَّ اَهْلَ اْلْکِبْرِیَآئِ وَاْلْعَظَمَةِ وَاَهْلَ اْلْجُوْدِوَاْلْجَبَرُوْتِ وَاَهْلَ اْلْعَفْوِ وَاْلْرَّحْمَةِ وَ اَهْلَ اْلْتَّقْوٰی وَاْلْمَغْفِرَةِ، اَسْئَلُکَ بِحَقِّ هٰذَاْ اْلْیَوْمِ اْلَّذِیْ جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِیْنَ عِیْداً، وَّلِمُحَمَّدٍ صَلَّیْ اْﷲ ُ عَلَیْهِ وَاٰلِه وَسَلَّمَ ذُخْراً وَّشَرَفاً وَّ کَرَاْمَةً وَّمَزِیْداً، اَنْ تُصَلِّیَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُدْخِلَنی فی کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیْهِ مُحَمَّداًوَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُخْرِجَنی مِنْ کُلِّ سُوئٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَّاٰلَ مُحَمَّدِ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ، اَللّٰهُمَّ نّی اَسْئَلُکَ خَیْرَ مَاْ سَئَلَکَ بِه عِبَاْدُکَ اْلْصَّاْلِحُونَ، وَ اَعُوذُبِکَ مِمَّاْ اْسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ المُخْلَصُون''

۱۸۸

سبق ٢٩ کا خلاصہ

١۔ نماز جمعہ، جمعہ کے دن ظہر کی نماز کے بدلے میں پڑھی جاتی ہے۔

٢۔نماز جمعہ دورکعت ہے اور نماز سے پہلے دوخطبے پڑھنا واجب ہیں۔

٣۔ نماز جمعہ کے شرائط حسب ذیل ہیں:

* نماز جماعت کے تمام شرائط۔

*اسے جماعت میں ہی پڑھا جاسکتاہے۔

* نماز جمعہ قائم کرنے کیلئے کم ازکم پانچ آدمی کا ہونا ضروری ہے۔

* دونماز جمعہ کے درمیان کم از کم فاصلہ ایک فرسخ ہونا چاہئے۔

٤۔ خطیب جمعہ کو چاہئے خطبہ کے ضمن میں حمدوثنائے الٰہی اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار پر درودو سلام کے علاوہ لوگوں کو تقویٰ وپرہیز گاری کی تاکید کرے،اور قرآن مجید کے ایک چھوٹے سورہ کی تلاوت کرے۔

٥۔ احتیاط واجب کی بناپر مامومین کو خطبے سننے چاہئے اور مستحب ہے خطبوں کے دوران باتیں کرنے سے پرہیز کرے۔

٦۔ نماز عید دورکعت ہے اور اس میں نوقنوت ہیں۔

٧۔ نماز عید کی پہلی رکعت میں حمد کے بعد پانچ قنوت اور چھ تکبیریں اور دوسری رکعت میں چار قنوت اورپانچ تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔

۱۸۹

سوالات :

١۔ نماز ظہر اور نماز جمعہ میں کیا فرق ہے؟ ایک ایک کرکے بیان کیجئے؟

٢۔ نمازجمعہ میں کم از کم کتنے مأموین ہونے چاہئے؟

٣۔ گزشتہ درسوں کا مطالعہ کرکے امام جماعت کے شرائط جو درحقیقت امام جمعہ کے لئے بھی شرائط، میں بیان کیجئے؟

٤۔ امام خمینی کی نظر میں دین کو سیاست سے جدا جاننے والا شخص کیسا انسان ہے؟

٥۔ نمازعید میں کتنی تکبیریں اور کتنے قنوت ہیں؟

۱۹۰

سبق نمبر ٣٠

نماز آیات اور مستحب نمازیں

نماز آیات:

واجب نمازوں میں سے ایک ''نماز آیات'' بھی ہے جو بعض آسمانی یازمینی حوادث رونماہونے کے سبب واجب ہوتی ہے، جیسے:

* زلزلہ

*چاندگہن

* سورج گہن

*۔بجلی گرنے اور زرد وسرخ طوفان اوراس طرح کے دوسرے حوادث، اگر اکثر لوگوںمیں خوف وحشت *(١) کا سبب بنیں۔

نماز آیات کی کیفیت

١۔نمازآیات دورکعت ہے اور ہررکعت میں پانچ رکوع ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل ، م ١٤٩١.

*(گلپائیگانی) ان پر آیت (غیر عادی) صدق آنے کی صورت میں اگر کوئی خوف و وحشت بھی نہ کرے تو بھی نماز آیات واجب ہے. (مسئلہ ١٥٠٠)

۱۹۱

٢۔ نماز آیات میں ، ہر رکوع سے پہلے سورہ حمد اور قرآن مجید کا کوئی دوسرا سورہ پڑھا جاتاہے، لیکن ایک سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہر رکوع سے پہلے اس کا ایک حصہ بھی پڑھا جاسکتا ہے، اس طرح دورکعتوں میں دوحمد اور دو سورے پڑھے جاسکتے ہیں۔

ذیل میں سورہ توحید کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے پڑھنے کی صورت میں نماز آیات کی کیفیت بیان کرتے ہیں :

پہلی رکعت:

سورہ حمد کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کے ۔۔۔رکوع

قل هوالله احد ۔۔۔۔۔۔۔رکوع

الله الصمد ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔رکوع

لم یلد ولم یولد ۔۔۔۔۔۔ ۔رکوع

ولم یکن له کفواً احد ۔۔۔ ۔رکوع

اس کے بعد نماز گزار سجدے بجالاکر دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجاتاہے۔

دوسری رکعت:

دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالاکر تشہد اور سلام پڑھنے کے بعد نماز کو تمام کیا جاتاہے۔(١)

نماز آیات کے احکام:

١۔ اگر نماز آیات کے اسباب میں سے ایک سبب کسی ایک شہر میں واقع ہوجائے تو اسی شہر کے لوگوں کو نماز آیات پڑھنا چاہئے اور دوسری جگہوں کے لوگوں پر واجب نہیں ہے۔(٢)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ٠٨ ١٥ (٢) توضیح المسائل، م ١٤٩٤

۱۹۲

٢۔ اگر ایک رکعت میں پانچ حمد وپانچ سورے پڑھے جائیں اور دوسری رکعت میں ایک حمد اور سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے پڑھا جائے تو صحیح ہے۔(١)

٣۔ مستحب ہے دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھاجائے۔ اور اگر دسویں رکوع سے پہلے ایک ہی قنوت پڑھا جائے تو بھی کافی ہے۔(٢)

٤۔ نماز آیات کاہر رکوع، رکن ہے اور اگر عمداًیا سہواً کم یازیادہ ہوجائے تو نماز باطل ہے۔(٣)

٥۔ نماز آیات جماعت کے ساتھ بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اس صورت میں حمد وسورہ کو صرف امام جماعت پڑھتاہے۔(٤)

مستحب نمازیں

١۔مستحب نماز کو'' نافلہ'' کہتے ہیں ۔

٢۔ مستحب نمازیں بہت زیادہ ہیں، اس کتاب میں ان سب کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ، لہٰذا ان میں سے بعض کو ان کی اہمیت کے پیش نظر بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:(٥)

نماز شب

نماز شب ١١ رکعتیں ہیں جو حسب ذیل طریقے سے پڑھی جاتی ہیں:

دورکعتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نافلۂ شب کی نیت سے

دورکعتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نافلۂ شب کی نیت سے

دورکعتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نافلہ ٔشب کی نیت سے

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٥٠٩

(٢) توضیح المسائل م ١٥١٢

(٣)توضیح المسائل ، م١٥١٥

(٤) العروة الوثقی، ج١، ص ٣٠ ٧،م ١٣

(٥) توضیح المسائل، م ٧٦٤

۱۹۳

دورکعتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نافلہ ٔشب کی نیت سے

دو رکعتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نافلۂ شفع کی نیت سے

ایک رکعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔نافلۂ وترکی نیت سے(١)

نماز شب کا وقت :

١۔ نماز شب کا وقت نصف شب سے صبح کی اذان تک ہے، بہتر ہے صبح کے نزدیک پڑھی جائے۔(٢)

٢۔ مسافر اور جس کے لئے نصف شب کے بعد نماز شب پڑھنا مشکل ہو، وہ نصف شب سے پہلے بھی پڑھ سکتا ہے۔(٣)

روزمرہ نمازوں کے نوافل:

روزانہ پڑھی جانے والی ١٧ رکعتیں واجب نمازوں کے ساتھ ٢٣ رکعتیں نافلہ ہیں جن کا پڑھنا مستحب ہے ، ان میں صبح کی دورکعت نافلہ بھی ہے جسے نماز صبح سے پہلے پڑھا جاتاہے، اور اس کے بہت ثواب ہیں۔ *

نماز غفیلہ:

ایک اور مستجی نماز '' غفیلہ''ہے ، اسے نماز مغرب کے بعد پڑھا جاتاہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٧٦٥

(٢)توضیح المسائل، م ٧٧٣

(٣) توضیح المسائل، م ٧٧٤

*روز مرہ نافلہ نمازوں کی کیفیت اور ان کے وقت کے بارے میں توضیح المسائل کے مسئلہ نمبر ٧٦٤ اور ٨ ٦ ٧ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

۱۹۴

نماز غفیلہ کی کیفیت:

نماز غفیلہ دورکعت ہے، اس کی پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ کے بجائے درج ذیل آیت پڑھی جاتی ہے(١) :

١۔''وَذَالنُونِ اِذْذَّهَبَ مُغٰاضِباً فَظَنَّ اَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادیٰ فِی الظُّلُمٰاتِ اَنْ لٰااِلٰهٰ اِلَّااَ نْتَ سُبْحٰنَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الظَّاٰلِمِینَ فَاستَجَبْنٰا لَهُ وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنینَ''

٢۔ اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورہ کی جگہ پر درج ذیل آیت پڑھی جاتی ہے:

''وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاٰیَعْلَمُهٰااِلاَّ هُوَوَیَعْلَمُ مٰا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَمٰا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ اِلاّ یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِی ظُلُمٰاتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا یٰابِسٍ اِلَّا فِی کِتٰابٍ مُّبِینٍ''

اور اس کے قنوت میں یہ دعا پڑھی جائے:

''اَللّٰهُمَّ اِنّی اَسأَلُکَ بِمَفاتِیحِ الْغَیْبِ الّتِی لاٰ یَعْلَمُهَا اِلَّا اَنْتَ اَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مَحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَنْ تَغْفِرَلی ذُنُوبی *اَللَّهُمَّ اَنْتَ وَلِیُّ نِعْمَتِی وَالْقٰادِرُ عَلَی طَلِبَتِی تَعْلَمُ حاجَتِی فَأسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِمُ السَّلاٰمُ لَمَّا قَضَیْتَهَا لِی'' .

____________________

(١) توضیح المسائل ، ٧٧٥.

* جملہ'' ان تغفرلی ذنوبی'' کی جگہ پر کوئی دوسری حاجت بھی طلب کی جاسکتی ہے۔.

۱۹۵

سبق ٣٠ کا خلاصہ

١۔ اگر زلزلہ آئے یا چاند گہن یا سورج گہن لگ جائے، تو نماز آیات واجب ہوتی ہے۔

٢۔ اگر بجلی گرے یا زردوسرخ طوفان آئے اور اکثر لوگ خوف ووحشت کا احساس کریں، تو نماز آیات واجب ہوجاتی ہے۔

٣۔ نماز آیات دورکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں۔

٤۔ نماز آیات کی ہر رکعت میں پانچ حمد اور مکمل پانچ سور ے پڑھے جاسکتے ہیں یا کسی ایک سورہ کو پانچ حصوں میںتقسیم کرکے ہررکوع سے پہلے اس کا ایک حصہ پڑھا جاسکتا ہے۔

٥۔ اگر کسی شہر میں نماز آیات کے اسباب میںسے کوئی سبب واقع ہوجائے تو اسی شہر کے لوگوں پر نماز آیات واجب ہوتی ہے۔

٦۔ نماز آیات کا ہر ایک رکوع، رکن ہے اور کم یازیادہ ہونے سے نماز باطل ہوتی ہے۔

٧۔ نماز آیات کو باجماعت بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

٨۔ مستحبی نمازوں میںنماز شب، غفیلہ اور روز مرہ نمازوں کے نافلہ شامل ہیں۔

۱۹۶

سوالات:

١۔ کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیںکہ نماز زلزلہ اور اس جیسی نماز کو کیوں نماز آیات کہتے ہیں؟

٢۔نماز آیات میں کتنے رکوع اور کتنے قنوت ہیں؟

٣۔شاگردوں میں سے کوئی ایک شاگرد کلاس میں ایک قرآن مجید کے سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے نماز آیات کو پڑھے ۔

٤۔ نماز آیات میں اول سے آخر تک کل کتنے ارکان ہیں؟

٥۔ کیا کسی ایک رکعتی نماز کا نام لے سکتے ہو؟

٦۔ روزانہ نافلہ اور نماز شب کی رکعتوں کی تعداد کیا ہے؟ اور واجب نمازوں کی رکعتوں سے کیا مناسبت رکھتی ہیں۔

۱۹۷

سبق نمبر ٣١

روزہ

روزہ کی تعریف:

اسلام کے واجبات اور انسان کی خود سازی کے سالانہ پروگرام میں سے ایک، روزہ ہے، اذان صبح سے مغرب تک حکم خدا کو بجالانے کے لئے کچھ کام انجام دینے (جن کی وضاحت بعدمیں آئے گی)سے پرہیز کرنے کو روزہ کہتے ہیں، احکام روزہ سے آگاہ ہونے کے لئے پہلے اس کی اقسام کو جاننا ضروری ہے۔

روزہ کی قسمیں

١۔ واجب

٢۔ حرام

٣۔مستحب

٤۔مکروہ

واجب روزے:

درج ذیل روزے واجب ہیں:

* ماہ مبارک رمضان کے روزے۔

*قضا روزے

*کفار ے کے روزے*

*نذرکی بنا پر واجب ہونے والے روزے۔

۱۹۸

* باپ کے قضا روزے جو بڑے بیٹے پر واجب ہوتے ہیں۔(١) ٭٭

بعض حرام روزے:

* عید فطر( اول شوال) کو روزہ رکھنا۔

*عید قربان ( ١٠ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔

* اولاد کا مستجی روزہ والدین کے لئے اذیت کا سبب بنے ۔

* (احتیاط واجب کی بناپر)(٢) اولاد کا مستجی روزہ رکھنا جب کہ اس کے والدین نے منع کیا ہو۔

مستحب روزے:

حرام اور مکروہ روزہ کے علاوہ سال کے تمام ایام، میں روزہ رکھنا مستحب ہے، البتہ بعض مستحب روزوں کی زیادہ تاکید اور سفارش کی گئی ہے۔

جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

* ہر جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھنا۔

____________________

(١)العروہ الوثقی، ج ٢، ص ٤٠ ٢ اور توضیح المسائل،م ٩٠ ١٣

(٢) توضیح المسائل، م ٩ ٧٣ تا ١٧٤٢

*قضا اور کفارہ کے روزوں کی وضاحت آگے آئے گی۔

٭٭ (اراکی) ماں کے قضا روزے (مسئلہ ١٣٨٢) (گلپائیگانی)احتیاط واجب کی بناپر، ماں کے قضا روزے بھی اس پر واجب ہیں(مسئلہ١٣٩٩)

۱۹۹

*عید مبعث کے دن (٢٧ ماہ رجب) کو روزہ رکھنا۔

عید غدیر(١٨ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔

*عید میلاد النبی (١٧ ربیع الاول) کو روزہ رکھنا۔

*عرفہ کے دن (٩ذی الحجہ) اس شرط پر کہ روزہ رکھنااس دن کی دعائوں سے محرومیت کا سبب نہ بنے۔

* پورے ماہ رجب اور ماہ شعبان میں روزہ رکھنا۔

* ہرماہ کی ١٣، ١٤ اور ٥ ١ تاریخ کو رورہ رکھنا۔(١)

مکروہ روزے:

*مہمان کا میزبان کی اجازت کے بغیر مستجی روزہ رکھنا۔

*مہمان کا میزبان کے منع کرنے کے باوجود مستجی روزہ رکھنا ۔

*فرزند کا باپ کی اجازت کے بغیر مستحبی روزہ رکھنا۔

*عاشورہ کے دن کا روزہ۔

*عرفہ کے دن کا روزہ اگر اس دن کی دعا کے لئے روزہ رکاوٹ بن جائے۔

*اس دن کا روزہ کہ نہیں جانتا ہو عرفہ ہے یا عید قربان۔(٢)

روزہ کی نیت :

١۔ روزہ ایک عبادت ہے اسے خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے بجالانا چاہئے۔(٣)

____________________

(١ ) توضیح المسائل، م٨ ٤ ١٧

(٢) توضیح المسائل، م ١٧٤٧

(٣) توضیح المسائل، م ١٥٥٠

۲۰۰

٢۔ انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کرسکتاہے۔ بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی رات کو پورے مہینے کے روزوں کیلئے ایک ساتھ نیت کرلے۔(١)

٣۔ واجب روزوں میں روزہ کی نیت کو کسی عذر کے بغیر صبح کی اذان سے زیادہ تاخیر میں نہیںڈالنا چاہئے۔(٢)

٤۔ واجب روزوں میں اگر کسی عذر کی وجہ سے، جیسے فراموشی یا سفر، کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہوکہ جو روزہ کو باطل کرتاہے، تو وہ ظہر تک روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔(٣)

٥۔ ضروری نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کو زبان پر جاری کیا جائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم کے حکم کی تعمیل کے لئے صبح کی اذان سے مغرب تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے ۔(٤)

سبق ٣١ کا خلاصہ

١۔ روزہ کا وقت صبح کی اذان سے، مغرب تک ہے۔

٢۔ رمضان المبارک کے روزے، قضا روزے، کفارے اور نذر کے روزے ،واجب روزے ہیں۔

٣۔ باپ کے قضا روزے، اس کی موت کے بعد بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔

٤۔ عید فطر اور عید قربان کے روزے اور فرزند کے ایسے مستجی روزے جن سے اس کے ماں باپ کو تکلیف پہنچے، حرام ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م٠ ١٥٥.

(٢) توضیح المسائل، م ١٥٥٤۔ ٦١ ١٥

(٣)توضیح المسائل م،١٥٥٤۔ ١٥٦١

(٤)توضیح المسائل م ٠ ١٥٥

۲۰۱

٥۔ پورے سال میں حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن بعض دنوں کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔منجملہ:

ہر جمعرات وجمعہ۔

عید میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عید مبعث۔

٩اور ١٨ ذی الحجہ( عرفہ اور عید غدیر)

باپ کی اجازت کے بغیر فرزند کا مستحبی روزہ مکروہ ہے۔

ماہ مبارک رمضان میں ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کی جاسکتی ہے لیکن بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی پہلی رات کو پورے ایک ماہ کے روزوں کی نیت کی جائے۔

۲۰۲

سوالات :

١۔ مندرجہ ذیل دنوں میں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے:دسویں محرم، دسویں ذی الحجہ، نویں ذی الحجہ، ٢١مارچ، پہلی شوال۔

٢۔ اگر باپ بیٹے سے کہے کہ کل روزہ نہ رکھنا، تو کیا اس صورت میں بیٹا روزہ رکھ سکتاہے؟

٣۔ اگر ایک شخص اذان صبح کے بعد نیند سے بیدا رہو تو کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟

۲۰۳

سبق نمبر ٣٢

مبطلات روزہ

روزہ دار کا صبح کی اذان سے مغرب تک بعض کام انجام دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

اوراگر ان میں سے کسی ایک کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے، ایسے کاموں کو'' مبطلات روزہ'' کہتے ہیں ۔مبطلات روزہ حسب ذیل ہیں:

١۔کھانا پینا۔

٢۔غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا۔

٣۔ قے کرنا۔

٤۔ مباشرت۔

٥۔مشت زنی (ہاتھوں کے ذریعہ منی کا باہر نکالنا)

٦۔ اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنا۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٥٧٢

۲۰۴

مبطلات روزہ کے احکام

کھانا اور پینا:

١۔ اگر روزہ دار عمداً کوئی چیز کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(١)

٢۔ اگر کوئی شخص اپنے دانتوں میں موجود کسی چیز کو نگل جائے، تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(٢)

٣۔تھوک کو نگل جانا روزہ کو باطل نہیں کرتاخواہ زیادہ کیوں نہ ہو۔(٣)

٤۔ اگر روزہ دار بھولے سے ( نہیں جانتا ہوکہ روزے سے ہے ) کوئی چیز کھائے یاپیئے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔(٤)

٥۔انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہیں توڑ سکتا ہاں اگر کمزوری اس قدر ہو کہ معمولاً قابل تحمل نہ ہو تو پھر روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(٥)

انجکشن لگوانا:

انجکشن لگوانا، اگر غذا کے بدلے نہ ہو، روزہ کو باطل نہیں کرتا زاگرچہ عضو کوبے حس بھی کردے۔(٦)

غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا:

١۔ اگر روزہ دار غلیظ غبار کو حلق تک پہنچائے، تو اس کاروزہ باطل ہو جائے گا، خواہ یہ غبار کھانے کی چیز ہو

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٥٧٣

(٢)توضیخ المسائل، م ١٥٧٤

(٣)توضیح المسائل، م ١٥٧٩

(٤)توضیح المسائل، م ٧٥ ١٥

(٥) توضیح المسائل، م١٥٨٣

(٦) توضیح المسائل، م١٥٧٦

*( گلپائیگانی) اگر ضرورت ہو اور انجکشن لگوایا روزہ باطل نہیں ہوتا نیز انجکشنوں میں کوئی فرق نہیں (مسئلہ ١٥٨٥۔( اراکی (خوئی)ا نجکشن لگوانا روزہ کو باطل نہیں کرتا ( استفاء مسئلہ ١٥٧٥)

۲۰۵

جیسے آٹا یا کھانے کی چیز نہ ہو جیسے مٹی۔

٢۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہوتا :

* غبار غلیظ نہ ہو۔

*حلق تک نہ پہنچے(صرف منہ کے اندر داخل ہوجائے)

* بے اختیار حلق تک پہنچ جائے۔

*یاد نہ ہو کہ روزہ سے ہے۔

*شک کرے کہ غلیظ غبار حلق تک پہنچایا نہیں۔(١)

پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونا۔

١۔ اگر روزہ دار عمداً اپنے پورے سر کو خالص زپانی میںڈبودے، اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

٢۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہے:

* بھولے سے سر کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* سرکے ایک حصہ کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

*نصف سرکو ایک دفعہ اور دوسرے نصف کو دوسری دفعہ پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* اچانک پانی میں گرجائے۔

* دوسرا کوئی شخص زبردستی اس کے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* شک کرے کہ آیا پورا سر پانی کے نیچے گیا ہے کہ نہیں ۔(٢)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ ج ١، ص ٢٨٦، الثامن۔ توضیح المسائل م ٠٨ ١٦تا ١٦١٨

(٢) توصیح المسائل، م ١٦٠٩۔٠ ١٩١۔ ١٩١٣۔١٩١٥۔ العروة الوثقی، ج٢ ص ١٨٧ م ٤٨

*(اراکی۔ گلپائیگانی) احتیاط واجب ہے سرکو مضاف پانی میں بھی نہ ڈبوئے (مسئلہ ٤٧ ١٦)

۲۰۶

قے کرنا:

١۔ اگر روزہ دار عمداً قے کرے،اگرچہ بیماری کی وجہ سے ہو توبھی اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔(١)

٢۔ اگر روزہ دار کو یاد نہیں ہے کہ روزہ سے ہے یا بے اختیار قے کرے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔(٢)

استمناء:

١۔ اگر روزہ دار ایسا کام کرے جس سے منی نکل آئے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔(٣)

٢۔اگر بے اختیار منی نکل آئے مثلاً احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا ۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٦٤٦

(٢)توضیح المسائل، م ١٦٤٦

(٣) توضیح المسائل، م ٨٨ ١٥

(٤)توضیح المسائل، م١٥٨٩

۲۰۷

سبق: ٣٢ کا خلاصہ

١۔ کھانے پینے، غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانے، پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونے،قے کرنے، مباشرت کرنے، استمناء کرنے اور صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

٢۔ لعاب دہن کو نگل لینے سے روزہ باطل نہیں ہوتاہے۔

٣۔ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چیز کھالے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٤۔ اگر انجکشن لگوانا، بجائے غذانہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا۔

٥۔ اگر غبار غلیظ نہ ہو یا غلیظ غبار حلق تک نہ پہنچے یا روزہ دار شک کرے کہ حلق تک پہنچایا نہیں اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔

٦۔ اگر کوئی بھولے سے اپنے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے، یا بے اختیار پانی میں گرجائے، یا زبردستی اسے پانی میں گرادیا جائے، تو ایسی صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٧۔ اگر روزہ داربے اختیارقے کرے یا نہ جانتاہو روزہ سے ہے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٨۔ اگر روزہ دارکو احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

۲۰۸

سوالات:

١۔ روزہ کی حالت میں خلال کرنے اور مسواک کرنے کا کیا حکم ہے؟

٢۔ کیا روزے کی حالت میںچنگم چبانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے؟

٣۔ کسی شخص کو پانی پیتے وقت یاد آئے کہ روزہ سے ہے، اس کی تکلیف کیا ہے اور اس کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

٤۔ سگریٹ پینا مبطلات روزہ کی کون سی قسم ہے؟

٥۔ روزہ کی حالت میں تیرنا کیا حکم رکھتاہے؟

۲۰۹

سبق نمبر ٣٣

مبطلات روزہ

اذان صبح تک جنابت پر باقی رہنا:

اگرکوئی شخص حالت جنابت میں اذان صبح تک باقی رہے اور غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم تھا اور تیمم نہ کرے تو بعض اوقات اس کا روزہ باطل ہوگا اس سلسلہ کے بعض مسائل حسب ذیل ہیں:

١۔ اگر عمداً صبح کی اذان تک غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم تھا اور تیمم نہ کرے:

رمضان کے روزوں کے دوران اس کا روزہ باطل ہے

۔قضا روزوں کے دوران

* دیگر روزوں کے دوران ۔۔ اس کا روزہ صحیح ہے۔

٢۔ اگر غسل یا تیمم کرنا فراموش کرجائے اور ایک یا چند روزکے بعد معلوم ہو

*رمضان کے روزوں کے دوران ۔۔ وہ روزے قضا کے طور پر رکھے۔

*ماہ رمضان کے قضا روزوں کے دوران۔۔ احتیاط واجب کی بناپر وہ روزے قضا کر لے زصحیح ہے۔

۲۱۰

*رمضان کے علاوہ روزوں کے قضا کے دوران ،جیسے نذر یا کفارہ کے روزے ۔روزہ صحیح ہے(١)

٣۔ اگر روزہ دار کو احتلام ہوجائے، واجب نہیں ہے فوراًغسل کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔(٢)

٤۔ اگر روزہ دار حالت جنابت میں ماہ رمضان کی شب کوجانتا ہوکہ نماز صبح سے پہلے بیدار نہیں ہوگا،تواسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوجائے اور اذان صبح سے پہلے بیدار نہ ہوسکا تو اس کا روزہ باطل ہے۔(٣)

وہ کام جو روزہ دار پر مکروہ ہیں

١۔ ہر وہ کام جو ضعف وسستی کا سبب بنے،جیسے خون دینا وغیرہ۔

٢۔ معطرنباتات کو سونگھنا (عطر لگانا مکروہ نہیں ہے)

٣۔ بدن کے لباس کو ترکرنا۔

٤۔ تر لکڑی سے مسواک کرنا۔(٤)

روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ

قضا روزہ:

اگر کوئی شخص روزہ کو اس کے وقت میں نہ رکھ سکے، اسے کسی دوسرے دن وہ روزہ رکھنا چاہئے، لہٰذا جو روزہ اس کے اصل وقت کے بعد رکھا جاتاہے '' قضا روزہ'' کہتے ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٦٢٢۔ ١٦٣٤۔ ١٦٣٦

(٢) توضیح المسائل ، م١٦٣٢

(٣)توضیح المسائل ، م ١٦٢٥

(٤)توضیح المسائل ، م ١٦٥٧

*( خوئی) اس کا روزہ باطل ہے مسئلہ ١٦٤٣( گلپائیگانی) اگر وقت میں وسعت ہوتو روزہ باطل ہے اور اگر وقت تنگ ہو تو اس دن کے روزہ کو مکمل کرے اور اس کے بدلے میں رمضان کے بعد روزہ رکھے۔ (١٦٤٣)

۲۱۱

روزہ کا کفارہ

کفارہ وہی جرمانہ ہے جو روزہ باطل کرنے کے جرم میں معین ہوا ہے جو یہ ہے:

* ایک غلام آزاد کرنا۔

*اس طرح دو مہینے روزہ رکھناکہ ٣١ روز مسلسل روزہ رکھے۔

*٦٠ فقیروںکو پیٹ بھر کے کھاناکھلانا یاہر ایک کو ایک مد *طعام دینا۔

جس پر روزہ کا کفارہ واجب ہوجائے''اسے چاہئے مندرجہ بالا تین چیزوں میں سے کسی ایک کو انجام دے۔ چونکہ آجکل'' غلام'' فقہی معنی میںنہیں پایا جاتا،لہٰذا دوسرے یا تیسرے امور انجام دیئے جائیں اگر ان میں سے کوئی ایک اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہوسکے فقیر کو کھانا کھلائے اور اگر کھانا نہیں کھلا سکتا ہو تو اس کے لئے استغفار کرنا چاہئے۔(١)

جہاں قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں

درج ذیل مواردمیں روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے:

عمداً قے کرے۔٭٭ ٢۔ماہ رمضان میں غسل جنابت کو بجالانا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک یا چند روز روزہ رکھے۔

٣۔ ماہ رمضان میں تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو، مثلاً پانی پی لے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

٤۔ کوئی یہ کہے کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے اور روزہ دار اس پر یقین کرکے ایسا کوئی کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٦٦٠۔ ١٦٦١

* یعنی ١٠سیر ( ایک سیر = ٧٥ گرام) گندم، چاول یا اس کے مانند کوئی دوسری چیز فقیر کو دیدے (توضح المسائل م ٣ ٠ ٧ ١ )

٭٭(اراکی) احتیاط واجب کی بناپر کفارہ بھی دیدے (مسئلہ ١٦٩١) (خوئی وگلپائیگانی ) کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ١٦٦٧.

۲۱۲

اگر عمداً رمضان المبارک کے روزہ نہ رکھے یا عمداً روزہ کو باطل کرے، تو قضا وکفار دونوں واجب ہیں*

* قے کرنا اور مجنب کا غسل کے لئے بیدار نہ ہونا دوسرا حکم رکھتا ہے( توضیح المسائل مسئلہ ١٦٥٨) رجوع کریں)

سبق:٣٣ کا خلاصہ

١۔ اگر روزہ دار ماہ رمضان یا رمضان کے روزوں کی قضا کے دوران صبح کی اذان تک غسل کئے بغیر جنابت کی حالت میں باقی رہے یا اس کا فریضہ تیمم ہونے کی صورت میں تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔

٢۔ اگر ماہ رمضان کے روزوں کے دوران غسل یا تیمم کو فراموش کرے اور ایک یا چند روز کے بعد یاد آئے، تو ان دنوں کے روزے قضا کرے۔

٣۔اگر روزہ دار کو دن کے دوران احتلام ہوجائے، تو فوراًغسل کرنا واجب نہیں ہے، نیز اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔

٤۔اگر ماہ رمضان کی ر ات میںمجنب یا محتلم کو معلوم ہو کہ اگر سو گیا توغسل کرنے کیلئے اذان سے پہلے بیدار نہیں ہوسکتا تو اسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوگیا اور بیدار نہ ہوا تو اس کا روزہ باطل ہے۔

٥۔معطر نباتات کو سونگھنا اور ترلباس زیب تن کرنا مکروہ ہے۔

٦۔ وقت گزرنے کے بعد رکھے جانے والے روزہ کو ''روزہ قضا'' اور عمداً روزہ نہ رکھنے کے تاوان (ہرجانہ)کو''کفارہ'' کہتے ہیں۔

٧۔ جس پر کفارہ واجب ہو، اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہئے، یا دو مہینے روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔

٨۔اگر روزہ دار عمداً قے کرے یا ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور ایک دودن روزہ رکھنے کے بعد یاد آئے تو ان دنوں کی قضا بجالائے لیکن کفارہ نہیں ہے۔

٩۔اگر تحقیق کے بغیر کھانا کھائے اس کے بعد معلوم ہوجائے کہ اذان صبح کے بعد کھایاہے، تو اس کا روزہ باطل ہے اس کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے۔

١٠۔ اگر عمداً رمضان کا روزہ نہ رکھے، تو قضا کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہے۔

۲۱۳

سوالات:

١۔ روزہ کی قضا اور اس کے کفارہ میں کیا فرق ہے۔؟

٢۔ اگر مستحبی روزہ میں صبح کی اذان تک غسل نہ کرے، تو روزہ کا کیا حکم ہے؟

٣۔ اگر ایسے وقت میں بیدار ہوجائے کہ غسل جنابت کے لئے وقت نہ ہو تو اسکی تکلیف کیا ہے۔؟

٤۔ روزہ کی حالت میں عطر لگانے کا کیا حکم ہے؟

٥۔ ایک آدمی کی گھڑی پیچھے تھی، اس کے مطابق سحری کھانے کے بعد متوجہ ہوا کہ اذان صبح کے بعد کھانا کھایا ہے، تو قضا وکفارہ کے بارے میں اس کا فرض کیا ہے؟

۲۱۴

سبق نمبر ٣٤

روزہ کی قضا اور کفارہ کے احکام

١۔ روزہ کی قضاکو فورا انجام دینا ضروری نہیں ہے، لیکن احتیاط واجب *کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالائے۔(١)

٢۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں تو انسان کسی بھی ماہ رمضان کے قضا روزے پہلے رکھ سکتا ہے ۔

البتہ اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا ًآخری ماہ رمضان کے ١٠ روزے قضا ہوں اور اگلے ماہ رمضان تک دس ہی دن باقی رہ چکے ہوں٭٭تو پہلے اسی آخری رمضان کے قضا روزے رکھے۔(٢)

٣۔ انسان کو کفارہ بجالانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اسے فورا ً

____________________

(١) العروة الوثقی، ج ٢، ص ٢٣٣ ، م١٨، تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٩٨،م ٤.

(٢)توضیح المسائل، م١٦٩٨.

* ( خوئی ۔گلپایگانی)احتیاط کے طور پر مستحب ہے العروة الوثقیٰ،ج ٢، ص ٢٣٣ م ١٨

٭٭(خوئی ۔گلپائیگانی)بہتر ہے۔ احتیاط مستحب ہے (م ١٧٠٧) (اراکی) احتیاط واجب ہے (م ١٧٣١)

۲۱۵

انجام دے۔(١)

٤۔ اگر کسی پر کفارہ واجب ہوا ہو، اسے چند برسوں تک بجانہ لائے تو اس پر کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔(٢)

٥۔ اگر کسی عذر کے سبب جیسے سفر میں روزہ نہ رکھے ہوں۔اور رمضان المبارک کے بعد عذر برطرف ہوا ہونیز اگلے رمضان تک عمدا قضا نہ کرے، تو قضا کے علاوہ، ہر دن کے عوض، فقیر کو ایک مد طعام بھی دے۔(٣)

٦۔ اگر کوئی شخص اپنے روزہ کو کسی حرام کام کے ذریعہ، جیسے استمنائسے باطل کرے، تو احتیاط واجبزکی بناپر اسے مجموعی طورپر کفارہ دینا ہے، یعنی اسے ایک بندہ آزاد کرنا، دو مہینے روزہ رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلاناہے۔ اگر تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ ہو ںتو ان تینوں میں سے جس کسی کو بھی بجالاسکے کافی ہے۔(٤)

درج ذیل موارد میں نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ:

١۔ بالغ ہونے سے پہلے نہ رکھے ہوئے روزے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٦٨٤

(٢)توضیح المسائل، م١٦٨٥

(٣) توضیح المسائل، م١٧٠٥.

(٤) توضیح المسائل، م ١٦٦٥

(٥) توضیح المسائل، م ١٦٩٤

*(اراکی۔ گلپائیگانی) کفارۂ جمع واجب ہے، (مسئلہ ١٦٩٨۔ ١٦٧٤)

۲۱۶

٢۔ایک نومسلمان کے ایام کفر کے روزے، یعنی اگر ایک کا فرمسلمان ہوجائے، تو اس کے گزشتہ روزوں کی قضا واجب نہیں ہے۔(١)

٣۔ اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو اور ماہ رمضان کے بعد بھی اس کی قضا نہ بجالاسکتا ہو*

لیکن اگر روزہ رکھنا اس کے لئے مشکل ہو تو ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دیدے۔(٢)

ماں باپ کے قضا روزے:

باپ کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ اس کے روزے اور نماز کی قضا کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کے قضا روزے اور نماز بھی بجالائے۔ ٭٭(٣)

مسافر کے روزے:

جو مسافرسفر میں چار رکعتی نماز کو دورکعتی پڑھتا ہے، اسے اس سفر میں روزے نہیں رکھنے چاہئے، لیکن ان روزوں کی قضا بجالانا چاہئے جو مسافر، سفرمیں نماز پوری پڑھتا ہے، جیسے وہ مسافرجس کا شغل(کام) سفر ہو، اسے سفر میں روزہ رکھنا چاہئے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٦٩٥

(٢)توضیح المسائل١٧٢٥،١٧٢٦.

(٣)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٢٧ م٦ ١۔ توضیح المسائل، م ١٧١٢و ٩٠ ١٣

(٤)توضیح المسائل، م ١٧١٤۔

*(گلپائیگانی) اس صورت میں بھی احتیاط لازم کے طور پر ایک مد طعام فقیر کو دیدے (م١٧٣٤)

٭٭(اراکی)ماں کے قضا روزے اور نمازیں بھی اس پر واجب ہیں. (مسئلہ ١٧٤٦) (گلپائیگانی )بنا بر احتیاط واجب،ماں کے قضا روزے اور نماز بھی بجالائے (م١٧٢١)

۲۱۷

مسافر کے روزہ کا حکم

سفر پرگیاہے:

١۔ ظہر سے پہلے مسافرت پر نکلاہے۔جیسے حد تر خص زپر پہنچ جائے اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے اگر اس سے پہلے روزہ کو باطل کرے احتیاط واجب کے طور پر کفارہ دینا چاہئے۔ **

٢۔ ظہر کے بعد مسافرت پر نکلاہے، اس کا روزہ صحیح ہے اور اسے باطل نہیں کرنا چاہئے۔

سفرسے واپس آیاہے :

١۔ قبل از ظہر اپنے وطن یا اس جگہ پہنچے جہاں دس دن رہنا چاہتا ہے:

١۔روزہ کو باطل کرنے والا کو ئی کام انجام نہیں دیا ہے اس دن کے روزہ کو آخرتک پہونچائے اور صحیح ہے۔

٢۔روزہ کو توڑ دیا ہے۔اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے لیکن اس کی قضا کرے۔

٢۔ بعد ازظہر پہنچے ۔

ا س کا روزہ باطل ہے اور اس دن کی قضا بجالائے۔(١)

نوٹ: ماہ رمضان میں سفرکرنا جائز ہے لیکن اگر روزہ سے فرار کے لئے ہو تو مکردہ ہے۔(٢)

زکات فطرہ

رمضان المبارک کے اختتام پر، یعنی عید فطر کے دن، اپنے مال کا ایک حصہ زکات فطرہ کے عنوان سے فقیرکو دیدے۔

زکات فطرہ کی مقدار:

اپنے اور ان افراد کے لئے جو اس کی کفالت میں ہیں، جیسے بیوی اوربچے، ہر فرد کے لئے ایک صاع زکات فطرہ ہے، ایک صاع: تقریباً تین کلو کے برابر ہوتا ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل م١٧١٥۔١٧٢١۔١٧٢٢۔ ١٧٢٣. (٢)توضیح المسائل، م ١٧١٥. (٣)توضیح المسائل م١٩٩١.*وضاحت : حدترحض کی بحث سبق ٢٥ میں بیان ہو ئی ہے

٭٭(خوئی : کفارہ واجب ہے ) (م، ٣٠ ١٧)

۲۱۸

زکات فطرہ کی جنس:

زکات فطرہ کی جنس، گندم، جو، خرما، کشمش، چاول، مکئی اور اس کے مانند ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی قیمت ادا کی جائے تو بھی کافی ہے۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٩٩١

۲۱۹

سبق ٣٤ کا خلاصہ

١۔ رمضان المبارک کے قضا روزے احتیاط واجب کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالانے چاہئے۔

٢۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضاہوئے ہوں تو جسے چاہئے اول بجالاسکتا ہے لیکن اگر آخری رمضان کے روزوں کا وقت تنگ ہوچکا ہوتو پہلے انہیںکو بجالائے۔

٣۔ اگر کفارہ ادا کرنے میں چندسال تاخیر ہوجائے تو اس میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔

٤۔ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوںکو اگلے رمضان تک عمداً نہ بجا لائے توقضا کے علاوہ، ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دیدے۔

٥۔اگر کوئی اپنے روزہ کو فعل حرام سے باطل کرے تو اس پر ایک ساتھ سارے کفارے واجب ہوجاتے ہیں۔

٦۔ بالغ ہونے سے پہلے کے روزوںاور ایام کفر (تازہ مسلمان) کے روزوں کی قضا نہیں ہے۔

٧۔ بڑے بیٹے کو اپنے باپ کے قضا روزے اس کی وفات کے بعد بجالانے چاہئے ۔

٨۔ جس سفر میں نماز قصر ہے، روزہ بھی باطل ہے۔

٩۔ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر پر جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔

١٠۔ اگر مسافر ظہر سے پہلے وطن یا ایسی جگہ پر پہنچے جہاں دس دن ٹھہرنا ہو تو اگر اس وقت تک کوئی ایسا کا م انجام نہ دیا ہوجس سے روزہ باطل ہوتا ہے تو اس دن کے روزہ کو آخر تک پہنچائے اور وہ صحیح ہے۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326