احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)23%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212017 / ڈاؤنلوڈ: 4589
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حدیث نمبر ٧:

عن مسعدة بن صدقة، عن ابی عبد الله ، عن آبائه ، عن علیّ انّه قال له علیٰ منبر الکوفة:

اللهم انّه لا بُدّ لأرضک من حجة لک علیٰ خلقک ، یهدیهم الیٰ دینک ، ویعلّمهم علمک لئلّا تبکطُل حجتُک ، ولا یضلّ أتباعُ اولیائک بعد اذ هدایتهم به ، امّا ظاهرٌ لیس بالمطاع ،أومکُتَتَمٌ مترقّبٌ ان غاب عن النّاس شخصه فی حالٍ هدایتهم، فأنَّ علمه و آدابه فی قلب المومنین مبثبتة ، فهم بها عاملون (۱)

مسعدہ بن صدقہ کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑاپنے اجداد طاہرین حضرت امیر المؤمنین علی ؑسے نقل فرماتے ہیں :

حضرت امیرالمؤمنین علی ؑنے مسجد کوفہ کے منبر سے ارشاد فرمایا:

پروردگارا! تیری ، زمین تیری حجّت سے خالی نہیں اور امام تیری طرف سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہے تاکہ آپ کی دلیل اور برہان باطل نہ ہو جائے اور تیرے ولی کی اطاعت کرنے والے ایسے ہدایت یافتہ ہیں جو کبھی بھی گمراہ نہیں ہونگے۔

٭ معارف اور احکام کا علم دین خدا کے علوم میں سے ہے جو خدا کے فرستادہ بندوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

٭ خداوند عالم قیامت کے دن اپنے بندوں سے سوال نہیں کرے گا مگر یہ کہ ان تعلیمات کو حجت خدا کے ذریعے واضح اور روشن طریقے سے ان تک پہنچا یا ہو۔

٭ قرآن مجید اور تاریخ بشریت اس بات کی گواہ ہے کہ ہر زمانے میں لوگوں کی قلیل تعداد نے پیغمبروں اور اماموں کی اطاعت اور پیروی کی ہے۔

٭ حضرت امام عجل اللہ تعلیٰ فرجہہ الشریف( انّا هدیناه السّبیل امّا شاکراً وامّا کفوراً ) کی بنیاد پر خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مأمور ہیں اس دوران اگر کوئی ہدایت یافتہ ہو گیا تو بقول حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام'' بنا اہتدیتم '' ہمارے توسط سے ہدایت یافتہ ہوا ہے، یقیناً ہادی اور رہنما(نوراً الله الذی لا یطفؤا ) ہیں جوکہ خاتم الاوصیاء، حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کی ذات گرامی ہے۔

____________________

(۱) کمالالدین صدوق ٣٠٢

۱۰۱

حدیث نمبر ٨:

عن ابی الحسن اللّیثی قال: حدّثنی جعفر بن محمد ، عن آبائه علیهم السلام أن النّبیّ(صلی الله علیه وآله وسلّم) قال:

انّ فی کلّ خلفٍ من اُمّتی عد لاً من أهل بیتی ینفی عن هذا الذین تحریف العالمین و أنتعالَ المبطلین و تأویل المجاهلین ، وانّ أئمّتکم قادتکم الی الله عزّوجلّ ، فانظروا بهنّ تقتدون فی دینکم وصلاتکم (۱)

ابو الحسن لیثی کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑاپنے اجداد طاہرین ؑ سے فرداً فرداً نقل فرماتے ہیں :کہ پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا:

میری امت کے ہر آنے والی نسل میں ہم اہلبیتؑ میں سے ایک امام عادل ضرور ہو گا تحریف کرنے والوں نے اہل باطل اور غلط لوگوں سے مختلف غلط اقوال اور جھوٹی باتیں دین میں شامل کر لی ہیں ۔

٭ ادیان الہی ہمیشہ دنیا پرستوں کے ذریعے تحریف کا شکار ہو تے رہے ہیں دنیا پرست اپنے خیال خام میں دین کی ہر روز ایک نئی تعبیر و تشریح کرتے رہتے ہیں اور اسی عنوان کے تحت اپنے مقصد اور ہدف کے لئے آیات قرآن کی تفسیر کرتے ہیں (تفسیر بالرائے) بحر حال آیات الٰہی کا علم صرف اور صرف امام زمان ؑکے پاس ہے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٢٢١

۱۰۲

حدیث نمبر ٩:

عن غیاث بن ابراهیم ، عن الصادق جعفر بن محمد عن أبیه محمد بن علی ، عن ابیه علی بن الحسین ، عن أبیه الحسین بن علی علیهم السلام قال:

سئل امیر المؤمنین صلوٰت الله علیه ، عن معنیٰ قول رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انّی نخلّفٌ فیکم الثّقلین کتاب الله وعترتی؛ من العترة؟

فقال: أنا والحسن والحسین والأئمّة التسعة من وُلد الحسین ، تاسعهم مهدیّهم وقائمهم ، لا یُفارقون کتاب الله ، ولا یُفارقهم حتّیٰ یردُوا علیٰ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم حوضه (۱)

غیاث بن ابراہیم کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑاپنے آباء و اجداد طاہرین سے نقل فرماتے ہیں :

حضرت امیر المؤمنین ؑسے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان :

(انّی تارکم فیکم الثقلین......) میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اللہ کی کتاب اورعترت'' کے بارے میں پوچھا گیا،عترت کون لوگ ہیں ؟

حضرت امیر المؤمنین ؑنے فرمایا'' میں ،حسنؑ ، حسین ؑ نو ٩ امام معصوم علیہم السلام جو امام حسین ؑکی نسل سے ہیں کہ ان میں نویں ان کے مھدی اور قائم ہیں یہ لوگ کتاب خداسے اور کتاب خداان سے ہرگز جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم ؐ کے پاس حوض کوثر تک پہنچ جائیں ۔

٭ حضرت امام زمان مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف پیغمبر اکرم ؐ کی باقی ماندہ عترت میں سے ہیں ۔

٭ یہ عظیم شخصیت قرآن سے ہرگز جدا نہیں ہو گی اور نہ ہی قرآن ان سے جدا ہوگا۔ وہ در حقیقت قرآن ناطق ہیں ۔

٭ خداوند منان نے ہمارے لئے جو کچھ امر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی پیروی کریں حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کی امامت کے ساتھ ،تنہا قرآن کی پیروی کا حکم نہیں دیا۔

٭ قرآن ہرگز امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف سے جدا نہیں ہے پس وہ لوگ جو امام زمان ؑکے بغیر قرآن کی پیروی کرتے ہیں وہ ہدایت کے راستے سے ہٹ چکے ہیں اور ایک قسم کی گمراہی میں گرفتار ہیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٢٤٠

۱۰۳

حدیث نمبر ١٠:

عن أبی بصیر ، عن الصّادق جعفر بن محمد آبائه علیهم السلام قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: المهدیُّ من وُلدی ، اسمه اسمی ، وکنیته کنیتی ، أشبه النّاس بی خلقاً ، وخلقاً ، تکون له غیبة و حیرة حتّیٰ تضلّ الخلق عن أدیانهم ، فعن ذٰ لک یقبل کالشّهابِ الثّاقب فیملأها قسطاً وعد لاً کما ملئت ظلماً وجوراً ۔(۱)

ابو بصیر کہتے ہیں :حضرت امام جعفر صادق ؑنے اپنے والد گرامی سے نقل کیا ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مہدی منتظر میرے فرزندوں میں سے ہیں ان کا نام میرا نام اور انکی کنیت میری کنیت ہو گی وہ خَلق وخُلق میں تمام لوگوں کی نسبت مجھ سے زیادہ مشابہ ہيں۔ اس کی غیبت اس قدر حیرت آور ہو گی کہ لوگ دین سے باہر نکل جائیں گے اس وقت مہدیؑ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ظہور فرمائیں گے ، پھر وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق

۱۰۴

حدیث نمبر ١١:

عن اسحاق بن عمّار قال: قال ابو عبدالله علیهم السلام: للقائم غیبتان: احدهما قصیرة الأخریٰ طویلة:الغیبة

الأولیٰ لا یعلمُ بمکانه فیها الّا خاصّة شیعته،

ولأخریٰ لا یعلم بمکانه فیها الّا خاصّة موالیه (۱)

اسحاق بن عمّار نے کہا: حضرت امام جعفر صادق ؑنے فرمایا:

حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کے لئے دو غیبتیں ہیں ١۔ غیبت صغریٰ

٢۔ غیبت کبریٰ

ایک مختصر،دوسری طولانی ۔پہلی غیبت میں ان کے خاص شیعوں کے علاوہ لوگ ان کی جگہ اور قیام گاہ کو نہیں جانتے تھے، اور دوسری غیبت میں ان کی قیام گاہ کو کوئی نہیں جانتا ہے۔

٭ خوش قسمت ہیں وہ حضرات جو حضرت قائم امام زمان ؑکی قیام گاہ ،وحی کے نزول کی جگہ اور فرشتوں کے آمدورفت کے مقام سے آگاہ ہیں ۔

این سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائ بخشندہ

____________________

(۱) اصول کافی ج١ ، ص ٣٤٠

۱۰۵

حدیث نمبر ١٢:

عن أبی هاشم داؤد بن القاسم الجعفری قال: سمعت أبا الحسن صاحب العسکری یقول:الخلف من بعدی ، أبنیّ الحسن ، فکیف لکم بالخلف من بعد الخلف؟

فقلت: ولِمَ ، جعلنی الله فداک؟

فقال: لأنّکم لا ترون شخصه ولا یحلُّ لکم ذکرُه باسمه ،

قلت: فکیف تذکره؟

قال: قولوا: الحجّة من آل محمد صلی الله علیه وآله وسلم(۱)

داؤد بن قاسم کہتے ہیں : حضرت ابو الحسن الہادی ؑسے سنا کہ آپ ؑ نے فرمایا میرا جانشین میرے بعد میرے بیٹے حسنؑ ہیں میرے جانشین کے جانشین کے ساتھ کیا کریں گے؟

میں نے عرض کیا ! میری جان آپؑ پر قربان ہو جائے ! یہ کیسا سوال ہے؟

آپؑ نے فرمایا ! تم ان کو نہیں دیکھ سکو گے اور تمہارے لئے ان کے خاص نام لیکر یاد کرنا جائز نہیں !

عرض کی! مولا ! پھر کیسے ان کو یاد کریں ؟

آپؑ نے فرمایا: کہو ! حجّت آل محمدؐ۔

٭ ہم آج حضرت امام زمان ، حجت ابن الحسن المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھیں ، جبکہ ہم آپؑ کو نہیں دیکھتے اور ہمیں حق حاصل نہیں ہے کہ ہم انہیں ان کے مقدس نام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمنام ہیں سےپکاریں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٣٨١

۱۰۶

حدیث نمبر ١٣:

عن عبد السلام بن صالح هروی قال:سمعت دعبل بن علی الخزاعی یقول: أنشدت مولای الرضا علی بن موسیٰ قصیدتی الّتی أوّلها:

مدارس آیاتٍ خلّت من تلاوة

ومنزل و حیٍ مقفر العرصات

فلمّا انتهیت الیٰ قولی !

خروج امام لا محالة خارجٌ

یقوم علی اسم الله ولبرکات

یمیّز فینا کلّ حقٍّ و باطلٌ

ویجزی علی النّعماء ولنّقمات

بکی الرّضا بُکائً شدیداً، ثمّ رفع رأسه الیّ فقال لی:

یا خزاعیُّ نطق روح القدس علیٰ لسانک بهذین البیتین ، فهل تدری من هذا الأمام ومتیٰ یقوم ؟ فقلت:لا یا مولای الّا انّی سمعت بخروجٍ امامٍ منکم یطهر الأرض من الفساد و یملأها عدلاً(کما ملئت جوراً)

فقال: یا دعبل الأمام بعدی محمدٌ ابن ، وبعد محمدٍ ابنه علیّ ٌ ، وبعد علیٌّ ابنه الحسن ، وبعدالحسن ابنه الحجة القائم المنتظر فی غیبته ، المطاع فی ظهوره ، لو لم یبق من الدّنیا الّا یومٌ واحدٌ لطوّ ل الله عزّوجل ذٰالک الیوم حتّیٰ یخرج فیملأ الأرض عدلاًکما ملئت جوراً (۱)

عبد اللہ بن صالح ہروی کہتے ہیں : میں نے دعبل خزاعی سے سنا کہ انہوں نے کہا :میں نے مولا و آقا حضرت ابولحسن الرضا علیہ آلاف التحیة والثنا کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے جس کا پہلا مصرع یہ تھا:۔

____________________

(۱) کمال الدین باب ٣٥ حدیث ٦

۱۰۷

مدارس آیاتٍ خلَت من تلاوة

ومنزل و حیٍ مقفر العرصات

'' اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر جو محل تدریس آیات الٰہی تھا۔ ابھی تلاوت سے خالی پڑا ہوا ہے۔ جہاں پر مرکز وحی تھا ابھی وہ عبادت و ہدایت سے خالی ہے۔

جب ان دو مصرعوں پر پہنچا۔

خروج امام لا محالة خارجٌ

یقوم علی اسم الله ولبرکات

یمیّز فینا کلّ حقٍّ و باطل

ویجزی علی النّعماء ولنّقمات

جو کچھ میرے لئے سرمایہ امیدہے وہ اس امام کا قیام ہے جو حتماً قیام کریں گے۔ خدا کے نام کے ساتھ بہت سی خیر وبرکت لائیں گے۔ لوگوں کے درمیان سے حق کو باطل سے جدا کریں گے اورلوگوں کو نعمت و نقمت کے تحت جزا و سزا دیں گے۔

حضرت امام رضا ؑشدت سے گریہ کرنے لگے اس کے بعد آپؑ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر فرمایا:

اے دعبل خزاعی ان دو ابیات کو روح قدس نے تمہاری زبان پر جاری کیاہے۔ کیا جس امام کے بارے میں شعر کہاگیاہے اسے جانتے ہووہ کون ہیں اور کس وقت قیام فرمائیں گے؟

عرض کیا: نہیں مولا! میں نے آپ لوگوں کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ وہ قیام کریں گے، زمین کو تباہی و بربادی سے بچائیں گے اور اسے یوں عدل وانصاف سے بھر دیں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

حضرت امام رضا ؑنے فرمایا:

اے دعبل! میرے بعد میرے فرزند محمد ؑ امام ہیں اور محمدؑ کے بعد ان کے فرزند علیؑ، علیؑ کے بعد ان کے فرزند حسنؑ اور حسنؑ کے بعد ان کے فرزند حجت قائمؑ ہیں کہ ان کی غیبت کے دوران لوگ ان کا انتظار کریں گے اور انکے ظہور پر ان کی اطاعت کریں گے۔

اگر دنیا کی عمر ایک دن کے برابر باقی رہے تو اس دن کو خداوند عالم اس قدر طولانی کرے گا کہ حضرت حجتؑ ظہور فرمائیں گے، زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پُر کریں گے جس طرح سے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

٭ قیام قائم آل محمد خداوند عالم کے حتمی وعدوں میں سے ہے اور خداوند رب العزت کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

۱۰۸

حدیث نمبر١٤:

عن محمد بن عثمان العمری قال:سمعته یقول:والله انّ صاحب هذا اأمر لیحضر الموسم کلّ سنة فیر ی النّاس ویعرفهم ویرونه ۔(۱)

محمد بن عثمان عمری کہتے ہیں : میں نے امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نائب خاص محمد بن عثمان عمری سے سنا کہ فرمایا:

خدا کی قسم! یہ صاحب الامر ہر سال حج کے موسم میں حج کے مراسم میں شریک ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر لوگ آپؑ کو نہیں دیکھتے ہیں اور نہیں پہچانتے ہیں ۔

٭ وجود نازنین امام زمان ؑحجت خدا ہیں اور روئے زمین پر خلق خدا کے درمیان موجود ہیں لیکن لوگ ان کی شناخت و پہچان کی قدرت نہیں رکھتے ۔ البتہ جو نشانیاں اور علامات کتابوں میں درج ہیں ان کے مطابق وہ امام کو اپنے نزدیک حس کریں گے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٤٤٠

۱۰۹

حدیث نمبر١٥:

عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا عبد اللهیقول:انّ بلغکم عن صاحب هذا الأمر غیبة فلا تنکروها ۔(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑسے سنا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر صاحب الامر کی غیبت پہنچ جائے تو تم لوگ اس کاانکار مت کرنا.

٭ ابھی وہی زمانہ ہے اور ہم غیبت امام زمان حضرت مہدی ؑمیں زندگی گزار رہے ہیں آپؑ کی طولانی غیبت سے ہمارے عقیدوں میں کوئی لغزش پیدا نہ ہوجائے۔

٭ غیبت کے زمانے میں کسی کو اجاذت نہیں ہے کہ وہ آپؑ کی امامت اور ولایت سے انکار کر بیٹھے۔

____________________

(۱) اصول کافی ج ١ ،ص ٣٣٨

۱۱۰

حدیث نمبر١٦:

عن ابان بن تغلب قال:قال ابو عبد الله: اذا قام القائملم یقم بین یدیه احدٌ من خلق الرّحمٰن الّا عرفه صالحٌ هو أم طالحٌ ؟ لأنّ فیه آیة للمتوسّمین وهی بسبیلٍ مقیمٌ ۔(۱)

ابان بن تغلب کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑفرماتے ہیں :

جب قائم قیام فرمائیں گے تو مخلوقات خدا میں سے کوئی بھی ایسا آپ کے سامنے نہ ہوگا جس کو آپ نہ پہچانتے ہونگے کہ ان میں سے کون اچھے ہیں اور کون بُرے؟ کیونکہ خداوند متعال فرماتاہے:

یہ علامتیں ہوشیار لوگوں کے لئے ہیں اور وہ سیدھے راستے پر ثابت اور استوار ہیں ۔

٭ حضرت امام زمانؑ خدا کے خلیفہ اور تمام مخلوقات کے درمیان امین اللہ ہیں وہ خدا کے علاوہ تمام چیزوں پر احاطہ رکھتے ہيں اور تمام مخلوقات کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہيں ۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ وہ دوسرے حکمرانوں کے طرح ایک حکمران ہيں جو اپنے اطرافیوں کو پہچاننے سے عاجز ہيں ۔ وہ کسی سے فریب نہیں کھائیں گے۔ وہ خداوند عالم کے عطا کردہ علم پر عمل کریں گے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٦٧١(قرآن سورہ حجر آیۃ ، ٧٥ ، ٧٦)

۱۱۱

حدیث نمبر١٧:

عن ابان بن تغلب قال: قال ابوعبد الله علیه السلام:

أوّل من یبایع القائمجبرئیل ، ینزل فی صورة الطیر أبیض فیبایعه ، ثمّ یضع رجلاً علیٰ بیت الله الحرام ورجلاً علیٰ بیت المقدس ثّم ینادی بصوت طلقٍ تسمعه الخلائق: أتیٰ امر الله فلا تستعجلوه (۱)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں :

سب سے پہلے قائم آل محمد کے مبارک ہاتھوں میں بیعت کرنے والا جبریلؑ امین ہو گا جو سفید پرندے کی شکل میں آسمان سے نازل ہو کر حضرت کے دست مبارک پر بیعت کریں گے اس کے بعد جبریلؑ اپنا ایک پاؤں بیت اللہ پر اور دوسرا پاؤں بیت المقدس پر رکھتے ہوئے آواز دیں گے جو تمام مخلوق خداوندی سن لے گی۔اللہ کا حکم آیا ہے پس اس کی طرف دوڑیں ۔

____________________

(۱) قرآن :سورۃ نمل، آیۃ ١(کمال الدین صدوق ؛ ص ٦٧١)

۱۱۲

حدیث نمبر١٨:

عن هشام بن سالم ، عن أبی عبد الله قال:یقوم القائم ولیس لأحدٍ فی عنقه أحدٌ ولا عقدٌ ولا بیعة (۱)

ہشام بن سالم کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں :

قائم قیام فرمائیں گے جبکہ اس کے گردن پر نہ کوئی قرارداد ہوگی ، نہ عہد و پیمان اور نہ ہی کوئی بیعت ہوگی۔

٭ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ ظہورہ کے ظہور کے موقع پر کوئی بھی عدل وانصاف کو لاگو کرنے میں رکاوٹ نہیں ہوگا وہ مشرکوں ،کافروں ،منافقوں اور ستم گروں کو مکمل طور پر سرکوب اور نابود کریں گے۔

____________________

(۱) اصول کافی، ج ١ ، ص ٣٤٢

۱۱۳

حدیث نمبر١٩:

عن أبی بصیر ، عن أبی عبد الله قال:

تنکسف الشمس لخمسٍ مضَین من شهر رمضان قبل قیام القائم (۱)

ابو بصیر کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں :

قائم آل محمد کے قیام سے پہلے ماہ رمضان کی پانچ تاریخ کو سورج گرہن ہوگا۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق٦٥٥

۱۱۴

حدیث نمبر٢٠:

عن غیاث بن ابراهیم ، عن الصادق جعفر بن محمد ، عن أبیه ، عن آبائه علیهم السلام قال: مَن انکر القائمَ مِن وُلدی فقد انکرنی ۔(۱)

غیاث بن ابراہیم کہتے ہیں : حضرت امام جعفر صادق ؑاپنے آباء واجداد سے یکے بعد دیگرے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ:حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جو کوئی میرے فرزند قائم کا انکار کرے گا گویا اس نے میرا انکار کیا ہے۔

٭ امام زمان ؑکا انکار کرنا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرنے کے برابر ہے۔ امامت اور ولایت کے منکر درحقیقت اسلام و قرآن و نبوت کے منکر ہیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق، ص٤١٢

۱۱۵

امام مہدی ؑکے بارے میں کچھ اشعار

خورشیدو زہرہ

مرھم بر زخم ھجران ، بین کہ دل ویرانہ شد

از غم ہجر تو ای لیلای من دیوانہ شد

باد ہ ی حزن فراحت، بند بندم را گرفت

آتشم بر دل زد ودل ، شعلہ ی مستانہ شد

بہترین معنی ی عشق ای سراپا سرو ناز

ناز تو دُردِ ہلاک ِ پیر ہر میخانہ شد

زہرہ در آغوش خورشید آمدای جان جہان!

نقطہ ای خال ِ رخ مہ پارہ ی افسانہ شد

ذرہ ای ھستم و تو سراپا جام نور

دل اسیر نرگسِ خورشید آن یک دانہ شد

خاطرات تو دُرون لحظہ لحظہ بودنم

لعل دروؔیشم ربود و شہد در پیمانہ شد(۱)

____________________

(۱) حضرت آیت اللہ سید ناصر حسین درویش میبدی کرمان شاہی (اسیر عشق)

۱۱۶

آثار انقلاب

ہے کون جس کی دونوں جہان کو ہے جستجو

ہے کس کا نام مہر ِ نبوّ ت کی آبرو

کس کے وجود سے ہے دو عالم میں ھا و ھو

بہتی ہے کس کے اذن سے سانسوں آب جو

غیبت کسے ملی ہے خدا سے قریب کی ؟

خیرات کون بانٹ رہا ہے نصیب کی؟

یہ رات ہے نجات ِ بشر کی نوید بھی

یہ رات ہے بہشت بریں کی کلید بھی

یہ رات سعد بھی ہے ، سراج سعید بھی

یہ رات رات بھی ہےمگر'' صبح عید بھی''

اس رات میں رواں ہے سمندر خیال کا

آ تذکرہ کریں ذرا نرگس کے لعل کا

اے فخر ابن مریم و سلطان فقر خو

تیرے کرم کا اَبر بھرستا ہے چار سو

تیرے لئے ہوائیں بھٹکتی ہیں کو بہ کو

تیرے لئے ہی چاند اترتا ہے جو بہ جو

پانی تیرے لئے ہے صدا ارتعاش میں

سورج ہے تیرے نقش قدم کی تلاش میں

۱۱۷

اے آسمان فکر بشر ، وجہ ذو الجلال

اے منزل خرد کا نشان ، سرحد خیال

اے حسن لا یزال کی تزئین لا زوال

رکھتا ہے مضطرب مجھے اکثر یہی سوال

جب تو زمین و اہل زمین کا نکھار ہے

عیسٰیؑ کو کیوں فلک پہ تیرا انتظار ہے

تو مرکز جہاں بھی شہہ جبرئیل بھی

دنیا کا محتسب بھی ہمارا وکیل بھی

تو عقل بھی ، جنوں بھی ، جمال و جمیل بھی

پردے میں ہے وجودِ خدا کی دلیل بھی

دنیا تیری مزاجِ سماعت کا نام ہے

محشر تیرے ظہور کی ساعت کا نام ہے

۱۱۸

اے باغ عسکری کےمقدس ترین پھول

اے کعبۀ فروع ِ نظر ، قبلۀ اصول

آ ہم سے کر خراجِ دل و جاں کبھی وصول

تیرے بغیر ہم کو قیامت نہیں قبول

دنیا ، نہ مال و زر ، نہ وزارت کے واسطے!

ہم جی رہےہیں،تیری زیارت کے واسطے!

اے آفتاب مطلع ہستی اُبھر کبھی

اے چہرۀ مزاجِ دو عالم نکھر کبھی

اے عکس حق ، فلک سے ادھر بھی اتر کبھی

اے رونق ِ نمو ، لے ہماری خبر کبھی

قسمت کی سر نوش کو ٹوکے ہوئے ہیں ہم

تیرے لئے تو موت کو روکے ہوئے ہیں ہم

۱۱۹

اب بڑھ چلاہےذہن ودل وجان میں اضطراب

پیدا ہیں شش جہات میں آثارِ انقلاب

اب ماند پڑ رہی ہے زمانے کی آب و تاب

اپنے رخ ِ حسین سے اٹھا تو بھی اب نقاب

ہر سو یزیدیت کی کدورت ہے ان دنوں

مولاؑ تیری شدید ضرورت ہے ان دنوں

نسل ستم ہے در پہ آزار ، اب تو آ

پھر رہیں ہیں ظلم کے دربار ، اب تو آ

پھر آگ پھر وہی در و دیوار ، اب تو آ

کعبے پہ پھر ہے ظلم کی یلغار ، اب تو آ

دن ڈھل رہا ہے ، وقت کو تازہ اڑان دے

آ ، ''اے امام عصر '' حرم میں ''آذان'' دے(۱)

____________________

(۱) شہید محسن نقویؔ فرات فکر؛ ص، ۱۱۲تا۱۲۰

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

٢۔ انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کرسکتاہے۔ بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی رات کو پورے مہینے کے روزوں کیلئے ایک ساتھ نیت کرلے۔(١)

٣۔ واجب روزوں میں روزہ کی نیت کو کسی عذر کے بغیر صبح کی اذان سے زیادہ تاخیر میں نہیںڈالنا چاہئے۔(٢)

٤۔ واجب روزوں میں اگر کسی عذر کی وجہ سے، جیسے فراموشی یا سفر، کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہوکہ جو روزہ کو باطل کرتاہے، تو وہ ظہر تک روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔(٣)

٥۔ ضروری نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کو زبان پر جاری کیا جائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم کے حکم کی تعمیل کے لئے صبح کی اذان سے مغرب تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے ۔(٤)

سبق ٣١ کا خلاصہ

١۔ روزہ کا وقت صبح کی اذان سے، مغرب تک ہے۔

٢۔ رمضان المبارک کے روزے، قضا روزے، کفارے اور نذر کے روزے ،واجب روزے ہیں۔

٣۔ باپ کے قضا روزے، اس کی موت کے بعد بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔

٤۔ عید فطر اور عید قربان کے روزے اور فرزند کے ایسے مستجی روزے جن سے اس کے ماں باپ کو تکلیف پہنچے، حرام ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م٠ ١٥٥.

(٢) توضیح المسائل، م ١٥٥٤۔ ٦١ ١٥

(٣)توضیح المسائل م،١٥٥٤۔ ١٥٦١

(٤)توضیح المسائل م ٠ ١٥٥

۲۰۱

٥۔ پورے سال میں حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن بعض دنوں کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔منجملہ:

ہر جمعرات وجمعہ۔

عید میلاد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عید مبعث۔

٩اور ١٨ ذی الحجہ( عرفہ اور عید غدیر)

باپ کی اجازت کے بغیر فرزند کا مستحبی روزہ مکروہ ہے۔

ماہ مبارک رمضان میں ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کی جاسکتی ہے لیکن بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی پہلی رات کو پورے ایک ماہ کے روزوں کی نیت کی جائے۔

۲۰۲

سوالات :

١۔ مندرجہ ذیل دنوں میں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے:دسویں محرم، دسویں ذی الحجہ، نویں ذی الحجہ، ٢١مارچ، پہلی شوال۔

٢۔ اگر باپ بیٹے سے کہے کہ کل روزہ نہ رکھنا، تو کیا اس صورت میں بیٹا روزہ رکھ سکتاہے؟

٣۔ اگر ایک شخص اذان صبح کے بعد نیند سے بیدا رہو تو کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟

۲۰۳

سبق نمبر ٣٢

مبطلات روزہ

روزہ دار کا صبح کی اذان سے مغرب تک بعض کام انجام دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

اوراگر ان میں سے کسی ایک کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے، ایسے کاموں کو'' مبطلات روزہ'' کہتے ہیں ۔مبطلات روزہ حسب ذیل ہیں:

١۔کھانا پینا۔

٢۔غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا۔

٣۔ قے کرنا۔

٤۔ مباشرت۔

٥۔مشت زنی (ہاتھوں کے ذریعہ منی کا باہر نکالنا)

٦۔ اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنا۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٥٧٢

۲۰۴

مبطلات روزہ کے احکام

کھانا اور پینا:

١۔ اگر روزہ دار عمداً کوئی چیز کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(١)

٢۔ اگر کوئی شخص اپنے دانتوں میں موجود کسی چیز کو نگل جائے، تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔(٢)

٣۔تھوک کو نگل جانا روزہ کو باطل نہیں کرتاخواہ زیادہ کیوں نہ ہو۔(٣)

٤۔ اگر روزہ دار بھولے سے ( نہیں جانتا ہوکہ روزے سے ہے ) کوئی چیز کھائے یاپیئے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔(٤)

٥۔انسان کمزوری کی وجہ سے روزہ نہیں توڑ سکتا ہاں اگر کمزوری اس قدر ہو کہ معمولاً قابل تحمل نہ ہو تو پھر روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(٥)

انجکشن لگوانا:

انجکشن لگوانا، اگر غذا کے بدلے نہ ہو، روزہ کو باطل نہیں کرتا زاگرچہ عضو کوبے حس بھی کردے۔(٦)

غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا:

١۔ اگر روزہ دار غلیظ غبار کو حلق تک پہنچائے، تو اس کاروزہ باطل ہو جائے گا، خواہ یہ غبار کھانے کی چیز ہو

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٥٧٣

(٢)توضیخ المسائل، م ١٥٧٤

(٣)توضیح المسائل، م ١٥٧٩

(٤)توضیح المسائل، م ٧٥ ١٥

(٥) توضیح المسائل، م١٥٨٣

(٦) توضیح المسائل، م١٥٧٦

*( گلپائیگانی) اگر ضرورت ہو اور انجکشن لگوایا روزہ باطل نہیں ہوتا نیز انجکشنوں میں کوئی فرق نہیں (مسئلہ ١٥٨٥۔( اراکی (خوئی)ا نجکشن لگوانا روزہ کو باطل نہیں کرتا ( استفاء مسئلہ ١٥٧٥)

۲۰۵

جیسے آٹا یا کھانے کی چیز نہ ہو جیسے مٹی۔

٢۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہوتا :

* غبار غلیظ نہ ہو۔

*حلق تک نہ پہنچے(صرف منہ کے اندر داخل ہوجائے)

* بے اختیار حلق تک پہنچ جائے۔

*یاد نہ ہو کہ روزہ سے ہے۔

*شک کرے کہ غلیظ غبار حلق تک پہنچایا نہیں۔(١)

پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونا۔

١۔ اگر روزہ دار عمداً اپنے پورے سر کو خالص زپانی میںڈبودے، اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

٢۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہے:

* بھولے سے سر کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* سرکے ایک حصہ کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

*نصف سرکو ایک دفعہ اور دوسرے نصف کو دوسری دفعہ پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* اچانک پانی میں گرجائے۔

* دوسرا کوئی شخص زبردستی اس کے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

* شک کرے کہ آیا پورا سر پانی کے نیچے گیا ہے کہ نہیں ۔(٢)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ ج ١، ص ٢٨٦، الثامن۔ توضیح المسائل م ٠٨ ١٦تا ١٦١٨

(٢) توصیح المسائل، م ١٦٠٩۔٠ ١٩١۔ ١٩١٣۔١٩١٥۔ العروة الوثقی، ج٢ ص ١٨٧ م ٤٨

*(اراکی۔ گلپائیگانی) احتیاط واجب ہے سرکو مضاف پانی میں بھی نہ ڈبوئے (مسئلہ ٤٧ ١٦)

۲۰۶

قے کرنا:

١۔ اگر روزہ دار عمداً قے کرے،اگرچہ بیماری کی وجہ سے ہو توبھی اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔(١)

٢۔ اگر روزہ دار کو یاد نہیں ہے کہ روزہ سے ہے یا بے اختیار قے کرے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔(٢)

استمناء:

١۔ اگر روزہ دار ایسا کام کرے جس سے منی نکل آئے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔(٣)

٢۔اگر بے اختیار منی نکل آئے مثلاً احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا ۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٦٤٦

(٢)توضیح المسائل، م ١٦٤٦

(٣) توضیح المسائل، م ٨٨ ١٥

(٤)توضیح المسائل، م١٥٨٩

۲۰۷

سبق: ٣٢ کا خلاصہ

١۔ کھانے پینے، غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانے، پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونے،قے کرنے، مباشرت کرنے، استمناء کرنے اور صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

٢۔ لعاب دہن کو نگل لینے سے روزہ باطل نہیں ہوتاہے۔

٣۔ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چیز کھالے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٤۔ اگر انجکشن لگوانا، بجائے غذانہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا۔

٥۔ اگر غبار غلیظ نہ ہو یا غلیظ غبار حلق تک نہ پہنچے یا روزہ دار شک کرے کہ حلق تک پہنچایا نہیں اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔

٦۔ اگر کوئی بھولے سے اپنے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے، یا بے اختیار پانی میں گرجائے، یا زبردستی اسے پانی میں گرادیا جائے، تو ایسی صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٧۔ اگر روزہ داربے اختیارقے کرے یا نہ جانتاہو روزہ سے ہے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

٨۔ اگر روزہ دارکو احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

۲۰۸

سوالات:

١۔ روزہ کی حالت میں خلال کرنے اور مسواک کرنے کا کیا حکم ہے؟

٢۔ کیا روزے کی حالت میںچنگم چبانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے؟

٣۔ کسی شخص کو پانی پیتے وقت یاد آئے کہ روزہ سے ہے، اس کی تکلیف کیا ہے اور اس کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

٤۔ سگریٹ پینا مبطلات روزہ کی کون سی قسم ہے؟

٥۔ روزہ کی حالت میں تیرنا کیا حکم رکھتاہے؟

۲۰۹

سبق نمبر ٣٣

مبطلات روزہ

اذان صبح تک جنابت پر باقی رہنا:

اگرکوئی شخص حالت جنابت میں اذان صبح تک باقی رہے اور غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم تھا اور تیمم نہ کرے تو بعض اوقات اس کا روزہ باطل ہوگا اس سلسلہ کے بعض مسائل حسب ذیل ہیں:

١۔ اگر عمداً صبح کی اذان تک غسل نہ کرے یا اگر اس کا فریضہ تیمم تھا اور تیمم نہ کرے:

رمضان کے روزوں کے دوران اس کا روزہ باطل ہے

۔قضا روزوں کے دوران

* دیگر روزوں کے دوران ۔۔ اس کا روزہ صحیح ہے۔

٢۔ اگر غسل یا تیمم کرنا فراموش کرجائے اور ایک یا چند روزکے بعد معلوم ہو

*رمضان کے روزوں کے دوران ۔۔ وہ روزے قضا کے طور پر رکھے۔

*ماہ رمضان کے قضا روزوں کے دوران۔۔ احتیاط واجب کی بناپر وہ روزے قضا کر لے زصحیح ہے۔

۲۱۰

*رمضان کے علاوہ روزوں کے قضا کے دوران ،جیسے نذر یا کفارہ کے روزے ۔روزہ صحیح ہے(١)

٣۔ اگر روزہ دار کو احتلام ہوجائے، واجب نہیں ہے فوراًغسل کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔(٢)

٤۔ اگر روزہ دار حالت جنابت میں ماہ رمضان کی شب کوجانتا ہوکہ نماز صبح سے پہلے بیدار نہیں ہوگا،تواسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوجائے اور اذان صبح سے پہلے بیدار نہ ہوسکا تو اس کا روزہ باطل ہے۔(٣)

وہ کام جو روزہ دار پر مکروہ ہیں

١۔ ہر وہ کام جو ضعف وسستی کا سبب بنے،جیسے خون دینا وغیرہ۔

٢۔ معطرنباتات کو سونگھنا (عطر لگانا مکروہ نہیں ہے)

٣۔ بدن کے لباس کو ترکرنا۔

٤۔ تر لکڑی سے مسواک کرنا۔(٤)

روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ

قضا روزہ:

اگر کوئی شخص روزہ کو اس کے وقت میں نہ رکھ سکے، اسے کسی دوسرے دن وہ روزہ رکھنا چاہئے، لہٰذا جو روزہ اس کے اصل وقت کے بعد رکھا جاتاہے '' قضا روزہ'' کہتے ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٦٢٢۔ ١٦٣٤۔ ١٦٣٦

(٢) توضیح المسائل ، م١٦٣٢

(٣)توضیح المسائل ، م ١٦٢٥

(٤)توضیح المسائل ، م ١٦٥٧

*( خوئی) اس کا روزہ باطل ہے مسئلہ ١٦٤٣( گلپائیگانی) اگر وقت میں وسعت ہوتو روزہ باطل ہے اور اگر وقت تنگ ہو تو اس دن کے روزہ کو مکمل کرے اور اس کے بدلے میں رمضان کے بعد روزہ رکھے۔ (١٦٤٣)

۲۱۱

روزہ کا کفارہ

کفارہ وہی جرمانہ ہے جو روزہ باطل کرنے کے جرم میں معین ہوا ہے جو یہ ہے:

* ایک غلام آزاد کرنا۔

*اس طرح دو مہینے روزہ رکھناکہ ٣١ روز مسلسل روزہ رکھے۔

*٦٠ فقیروںکو پیٹ بھر کے کھاناکھلانا یاہر ایک کو ایک مد *طعام دینا۔

جس پر روزہ کا کفارہ واجب ہوجائے''اسے چاہئے مندرجہ بالا تین چیزوں میں سے کسی ایک کو انجام دے۔ چونکہ آجکل'' غلام'' فقہی معنی میںنہیں پایا جاتا،لہٰذا دوسرے یا تیسرے امور انجام دیئے جائیں اگر ان میں سے کوئی ایک اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہوسکے فقیر کو کھانا کھلائے اور اگر کھانا نہیں کھلا سکتا ہو تو اس کے لئے استغفار کرنا چاہئے۔(١)

جہاں قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں

درج ذیل مواردمیں روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے:

عمداً قے کرے۔٭٭ ٢۔ماہ رمضان میں غسل جنابت کو بجالانا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک یا چند روز روزہ رکھے۔

٣۔ ماہ رمضان میں تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو، مثلاً پانی پی لے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

٤۔ کوئی یہ کہے کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے اور روزہ دار اس پر یقین کرکے ایسا کوئی کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٦٦٠۔ ١٦٦١

* یعنی ١٠سیر ( ایک سیر = ٧٥ گرام) گندم، چاول یا اس کے مانند کوئی دوسری چیز فقیر کو دیدے (توضح المسائل م ٣ ٠ ٧ ١ )

٭٭(اراکی) احتیاط واجب کی بناپر کفارہ بھی دیدے (مسئلہ ١٦٩١) (خوئی وگلپائیگانی ) کفارہ بھی واجب ہے مسئلہ١٦٦٧.

۲۱۲

اگر عمداً رمضان المبارک کے روزہ نہ رکھے یا عمداً روزہ کو باطل کرے، تو قضا وکفار دونوں واجب ہیں*

* قے کرنا اور مجنب کا غسل کے لئے بیدار نہ ہونا دوسرا حکم رکھتا ہے( توضیح المسائل مسئلہ ١٦٥٨) رجوع کریں)

سبق:٣٣ کا خلاصہ

١۔ اگر روزہ دار ماہ رمضان یا رمضان کے روزوں کی قضا کے دوران صبح کی اذان تک غسل کئے بغیر جنابت کی حالت میں باقی رہے یا اس کا فریضہ تیمم ہونے کی صورت میں تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔

٢۔ اگر ماہ رمضان کے روزوں کے دوران غسل یا تیمم کو فراموش کرے اور ایک یا چند روز کے بعد یاد آئے، تو ان دنوں کے روزے قضا کرے۔

٣۔اگر روزہ دار کو دن کے دوران احتلام ہوجائے، تو فوراًغسل کرنا واجب نہیں ہے، نیز اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔

٤۔اگر ماہ رمضان کی ر ات میںمجنب یا محتلم کو معلوم ہو کہ اگر سو گیا توغسل کرنے کیلئے اذان سے پہلے بیدار نہیں ہوسکتا تو اسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوگیا اور بیدار نہ ہوا تو اس کا روزہ باطل ہے۔

٥۔معطر نباتات کو سونگھنا اور ترلباس زیب تن کرنا مکروہ ہے۔

٦۔ وقت گزرنے کے بعد رکھے جانے والے روزہ کو ''روزہ قضا'' اور عمداً روزہ نہ رکھنے کے تاوان (ہرجانہ)کو''کفارہ'' کہتے ہیں۔

٧۔ جس پر کفارہ واجب ہو، اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہئے، یا دو مہینے روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔

٨۔اگر روزہ دار عمداً قے کرے یا ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور ایک دودن روزہ رکھنے کے بعد یاد آئے تو ان دنوں کی قضا بجالائے لیکن کفارہ نہیں ہے۔

٩۔اگر تحقیق کے بغیر کھانا کھائے اس کے بعد معلوم ہوجائے کہ اذان صبح کے بعد کھایاہے، تو اس کا روزہ باطل ہے اس کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے۔

١٠۔ اگر عمداً رمضان کا روزہ نہ رکھے، تو قضا کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہے۔

۲۱۳

سوالات:

١۔ روزہ کی قضا اور اس کے کفارہ میں کیا فرق ہے۔؟

٢۔ اگر مستحبی روزہ میں صبح کی اذان تک غسل نہ کرے، تو روزہ کا کیا حکم ہے؟

٣۔ اگر ایسے وقت میں بیدار ہوجائے کہ غسل جنابت کے لئے وقت نہ ہو تو اسکی تکلیف کیا ہے۔؟

٤۔ روزہ کی حالت میں عطر لگانے کا کیا حکم ہے؟

٥۔ ایک آدمی کی گھڑی پیچھے تھی، اس کے مطابق سحری کھانے کے بعد متوجہ ہوا کہ اذان صبح کے بعد کھانا کھایا ہے، تو قضا وکفارہ کے بارے میں اس کا فرض کیا ہے؟

۲۱۴

سبق نمبر ٣٤

روزہ کی قضا اور کفارہ کے احکام

١۔ روزہ کی قضاکو فورا انجام دینا ضروری نہیں ہے، لیکن احتیاط واجب *کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالائے۔(١)

٢۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں تو انسان کسی بھی ماہ رمضان کے قضا روزے پہلے رکھ سکتا ہے ۔

البتہ اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا ًآخری ماہ رمضان کے ١٠ روزے قضا ہوں اور اگلے ماہ رمضان تک دس ہی دن باقی رہ چکے ہوں٭٭تو پہلے اسی آخری رمضان کے قضا روزے رکھے۔(٢)

٣۔ انسان کو کفارہ بجالانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اسے فورا ً

____________________

(١) العروة الوثقی، ج ٢، ص ٢٣٣ ، م١٨، تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٩٨،م ٤.

(٢)توضیح المسائل، م١٦٩٨.

* ( خوئی ۔گلپایگانی)احتیاط کے طور پر مستحب ہے العروة الوثقیٰ،ج ٢، ص ٢٣٣ م ١٨

٭٭(خوئی ۔گلپائیگانی)بہتر ہے۔ احتیاط مستحب ہے (م ١٧٠٧) (اراکی) احتیاط واجب ہے (م ١٧٣١)

۲۱۵

انجام دے۔(١)

٤۔ اگر کسی پر کفارہ واجب ہوا ہو، اسے چند برسوں تک بجانہ لائے تو اس پر کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔(٢)

٥۔ اگر کسی عذر کے سبب جیسے سفر میں روزہ نہ رکھے ہوں۔اور رمضان المبارک کے بعد عذر برطرف ہوا ہونیز اگلے رمضان تک عمدا قضا نہ کرے، تو قضا کے علاوہ، ہر دن کے عوض، فقیر کو ایک مد طعام بھی دے۔(٣)

٦۔ اگر کوئی شخص اپنے روزہ کو کسی حرام کام کے ذریعہ، جیسے استمنائسے باطل کرے، تو احتیاط واجبزکی بناپر اسے مجموعی طورپر کفارہ دینا ہے، یعنی اسے ایک بندہ آزاد کرنا، دو مہینے روزہ رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلاناہے۔ اگر تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ ہو ںتو ان تینوں میں سے جس کسی کو بھی بجالاسکے کافی ہے۔(٤)

درج ذیل موارد میں نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ:

١۔ بالغ ہونے سے پہلے نہ رکھے ہوئے روزے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ١٦٨٤

(٢)توضیح المسائل، م١٦٨٥

(٣) توضیح المسائل، م١٧٠٥.

(٤) توضیح المسائل، م ١٦٦٥

(٥) توضیح المسائل، م ١٦٩٤

*(اراکی۔ گلپائیگانی) کفارۂ جمع واجب ہے، (مسئلہ ١٦٩٨۔ ١٦٧٤)

۲۱۶

٢۔ایک نومسلمان کے ایام کفر کے روزے، یعنی اگر ایک کا فرمسلمان ہوجائے، تو اس کے گزشتہ روزوں کی قضا واجب نہیں ہے۔(١)

٣۔ اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو اور ماہ رمضان کے بعد بھی اس کی قضا نہ بجالاسکتا ہو*

لیکن اگر روزہ رکھنا اس کے لئے مشکل ہو تو ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دیدے۔(٢)

ماں باپ کے قضا روزے:

باپ کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ اس کے روزے اور نماز کی قضا کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کے قضا روزے اور نماز بھی بجالائے۔ ٭٭(٣)

مسافر کے روزے:

جو مسافرسفر میں چار رکعتی نماز کو دورکعتی پڑھتا ہے، اسے اس سفر میں روزے نہیں رکھنے چاہئے، لیکن ان روزوں کی قضا بجالانا چاہئے جو مسافر، سفرمیں نماز پوری پڑھتا ہے، جیسے وہ مسافرجس کا شغل(کام) سفر ہو، اسے سفر میں روزہ رکھنا چاہئے۔(٤)

____________________

(١) توضیح المسائل م ١٦٩٥

(٢)توضیح المسائل١٧٢٥،١٧٢٦.

(٣)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٢٢٧ م٦ ١۔ توضیح المسائل، م ١٧١٢و ٩٠ ١٣

(٤)توضیح المسائل، م ١٧١٤۔

*(گلپائیگانی) اس صورت میں بھی احتیاط لازم کے طور پر ایک مد طعام فقیر کو دیدے (م١٧٣٤)

٭٭(اراکی)ماں کے قضا روزے اور نمازیں بھی اس پر واجب ہیں. (مسئلہ ١٧٤٦) (گلپائیگانی )بنا بر احتیاط واجب،ماں کے قضا روزے اور نماز بھی بجالائے (م١٧٢١)

۲۱۷

مسافر کے روزہ کا حکم

سفر پرگیاہے:

١۔ ظہر سے پہلے مسافرت پر نکلاہے۔جیسے حد تر خص زپر پہنچ جائے اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے اگر اس سے پہلے روزہ کو باطل کرے احتیاط واجب کے طور پر کفارہ دینا چاہئے۔ **

٢۔ ظہر کے بعد مسافرت پر نکلاہے، اس کا روزہ صحیح ہے اور اسے باطل نہیں کرنا چاہئے۔

سفرسے واپس آیاہے :

١۔ قبل از ظہر اپنے وطن یا اس جگہ پہنچے جہاں دس دن رہنا چاہتا ہے:

١۔روزہ کو باطل کرنے والا کو ئی کام انجام نہیں دیا ہے اس دن کے روزہ کو آخرتک پہونچائے اور صحیح ہے۔

٢۔روزہ کو توڑ دیا ہے۔اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے لیکن اس کی قضا کرے۔

٢۔ بعد ازظہر پہنچے ۔

ا س کا روزہ باطل ہے اور اس دن کی قضا بجالائے۔(١)

نوٹ: ماہ رمضان میں سفرکرنا جائز ہے لیکن اگر روزہ سے فرار کے لئے ہو تو مکردہ ہے۔(٢)

زکات فطرہ

رمضان المبارک کے اختتام پر، یعنی عید فطر کے دن، اپنے مال کا ایک حصہ زکات فطرہ کے عنوان سے فقیرکو دیدے۔

زکات فطرہ کی مقدار:

اپنے اور ان افراد کے لئے جو اس کی کفالت میں ہیں، جیسے بیوی اوربچے، ہر فرد کے لئے ایک صاع زکات فطرہ ہے، ایک صاع: تقریباً تین کلو کے برابر ہوتا ہے۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل م١٧١٥۔١٧٢١۔١٧٢٢۔ ١٧٢٣. (٢)توضیح المسائل، م ١٧١٥. (٣)توضیح المسائل م١٩٩١.*وضاحت : حدترحض کی بحث سبق ٢٥ میں بیان ہو ئی ہے

٭٭(خوئی : کفارہ واجب ہے ) (م، ٣٠ ١٧)

۲۱۸

زکات فطرہ کی جنس:

زکات فطرہ کی جنس، گندم، جو، خرما، کشمش، چاول، مکئی اور اس کے مانند ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی قیمت ادا کی جائے تو بھی کافی ہے۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٩٩١

۲۱۹

سبق ٣٤ کا خلاصہ

١۔ رمضان المبارک کے قضا روزے احتیاط واجب کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالانے چاہئے۔

٢۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضاہوئے ہوں تو جسے چاہئے اول بجالاسکتا ہے لیکن اگر آخری رمضان کے روزوں کا وقت تنگ ہوچکا ہوتو پہلے انہیںکو بجالائے۔

٣۔ اگر کفارہ ادا کرنے میں چندسال تاخیر ہوجائے تو اس میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔

٤۔ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوںکو اگلے رمضان تک عمداً نہ بجا لائے توقضا کے علاوہ، ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دیدے۔

٥۔اگر کوئی اپنے روزہ کو فعل حرام سے باطل کرے تو اس پر ایک ساتھ سارے کفارے واجب ہوجاتے ہیں۔

٦۔ بالغ ہونے سے پہلے کے روزوںاور ایام کفر (تازہ مسلمان) کے روزوں کی قضا نہیں ہے۔

٧۔ بڑے بیٹے کو اپنے باپ کے قضا روزے اس کی وفات کے بعد بجالانے چاہئے ۔

٨۔ جس سفر میں نماز قصر ہے، روزہ بھی باطل ہے۔

٩۔ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر پر جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔

١٠۔ اگر مسافر ظہر سے پہلے وطن یا ایسی جگہ پر پہنچے جہاں دس دن ٹھہرنا ہو تو اگر اس وقت تک کوئی ایسا کا م انجام نہ دیا ہوجس سے روزہ باطل ہوتا ہے تو اس دن کے روزہ کو آخر تک پہنچائے اور وہ صحیح ہے۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326