احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211782 / ڈاؤنلوڈ: 4586
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

۱۹ ; آنحضرت(ص) كى امداد۷; آنحضرت(ص) كى تكذيب ۱،۲

آيات خدا : ۳

امداد :امداد كى بشارت ۷; غيبى امداد كا كردار ۱۱

انبياعليه‌السلام :انبيا اورتاريخ ۱;انبياء سے جنگ ۲; انبياء كا صبر ۴،۶،۸; انبيا كو اذيت پہنچانا ۴، ۶; انبيا كى اطاعت ۱۹; انبيا كى امداد ۱۱; انبيا كى پشت پناہى ۱۱;انبياء كى تاريخ ۱۸،۱۹ ; انبياء كى تكذيب ۱،۴،۶; انبياء كى فتح ۱۸; انبياء كى فتح كے عوامل ۶; انبيا كے اسوہ پرعمل كرنا ۸; انبياء كے اہداف كا مكمل ہونا۱۲; انبياء كے مقامات ۳

باطل :باطل كى شكست ۱۷

تاريخ :تاريخ كا تكرار ۱، ۲; تاريخ سے عبرت ۸، ۹; تاريخ كا قانون و قاعدہ كے مطابق ہونا ۱۵;تاريخ كے فوائد ۹

حق :حق دشمنى كى شكست ۱۷

خدا تعالى :خداوند عالم كى امداد كا كردار ۱۱;خداوندعالم كى بشارت ۷، ۱۰; خدا وند عالم كى جانب سے ترغيب ۵; خداوندعالم كے وعدوں كا حتمى ہونا ۱۴; سنن الہى ۱۶; سنن الہى كا يقينى ہونا ۱۳،۱۵;سنن الہى كى حاكميت ۱۵

ذكر (ياد) :تاريخ كو ياد ركھنے كا فلسفہ ۱۹

سختى :سختى برداشت كرنے كے آثار ۱۲

شناخت :شناخت كے منابع ۹

صبر :صبر كى ترغيب ۵;صبر كے آثار ۶، ۷، ۱۰، ۱۲، ۱۶

عبرت :عبرت كے عوامل ۸، ۹

فتح و كاميابى :فتح و كاميابى كا مقدمہ ۱۶

قرآن :قرآنى قصص كا فلسفہ ۱۹

كلمات خدا :كلمات خدا كا تبديل ہونا ۱۳

مؤمنين :مؤمنين كو بشارت ۱۰;مؤمنين كى امداد ۱۰; مؤمنين كى تشويق ۵

۱۰۱

آیت ۳۵

( وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقاً فِي الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِي السَّمَاء فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ )

اور اگر ان كا اعراض وانحراف آپ پر گران گذرتا ہے تو اگر اآپ كے بس ميں ہے كہ زمين ميں سرنگ بناديں يا آسمان ميں سيڑھى لگا كر كوئي نشانى لے آئيں تو لے آئيں _ بيشك اگر خدا چاہتا تو جبراً سب كوہدايت پر جمع ہى كرديتا لہذا آپ اپنا شمارنا واقف لوگوں ميں نہ ہونے ديں

۱_ لوگوں كا اسلام سے منہ موڑنا اوراسكو جھٹلانا پيغمبر(ص) كے ليے ايك ناگوار امر تھا _

باى ت الله يجعدون_ و لقد كذبت رسل من قبلك و ان كان كبر عليك اعراضهم

۲_ لوگوں كى ہدايت كے ليے پيغمبر(ص) كا تمام مروّجہ طريقوں اور ممكنہ وسائل سے استفادہ كرنا_

و ان كان كبر عليك اعراضهم فان استطعت ان فتا تيهم باية

چونكہ خداوند متعال پيغمبر(ص) سے فرمارہاہے كہ اگر تم زمين كے نيچے يا آسمانوں سے بھى آيت لاؤ تو بھى بعض لوگ ايمان نہيں لائيں گے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آنحضرت(ص) نے (ہدايت كے)تمام ممكنہ راستے طے كيے تھے_ ليكن اس سے كوئي نتيجہ حاصل نہيں ہوا_

۳_ پيغمبر اكرم(ص) كو لوگوں كے ہدايت پانے اور ايمان لانے كى بہت زيادہ تمنا تھي_

و ان كان كبر عليك اعراضهم فان استطعت فتاتيهم باية

۴_ لوگوں كى ہدايت كے ليے زيادہ سے زيادہ معجزات اور آيات الہى لانے كى طرف پيغمبر اكرم(ص) كا شديد رحجان_

و ان كان كبر عليك اعراضهم فان استطعت ان تبتغي فتاتيهم باية

۱۰۲

۵_ پيغمبر(ص) زمين كو پھاڑ كر اور آسمان پر سيڑھى لگاكر اپنے آپ سے ہرگز كوئي معجزہ نہيں لاسكيں گے_

فان استطعت ان تبتغى نفقاً فى الارض او سلما فى السماء فتاتيهم بآية

۶_ فقط خدا كے اذن اور اسكے ناقابل تغيير قوانين و سنن كے دائرے ميں ہى معجزات پيش كرنے كا امكان ہے_

فان استطعت ان تبتغى نفقا فى الارض او سلما فى السماء

''استطعت'' ميں پيغبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اور آنحضرت(ص) سے فرمانا كہ اگر تم زمين ميں سوراخ كرنے اور آسمان پر سيڑھى لگانے پر قادر ہو (تو يہ سب كچھ كركے ديكھ لو) يہ اس بات كى جانب اشارہ ہے كہ معجزات كا اس صورت ميں نازل ہونا كہ جس كى بعض لوگ خواہش كرتے ہيں ، نظام ہدايت ميں قوانين اور سنن الہى كى حدود سے باہر ہے_

۷_ بعض كفار ناقابل انعطاف اور ناقابل ہدايت ہيں _فان استطعت ان تبتغي فتاتيهم باية

''ان استطعت'' كا جواب محذوف ہے_ يعنى اگر زمين و آسمان ميں جو معجزہ بھى لاسكتے ہو لاؤ ليكن وہ لوگ ايمان لانے والے نہيں ہيں _

۸_ خداوند عالم كى مشيت نہيں ہے كہ لوگوں كى جبرى (زبردستي) ہدايت كى جائے_و لو شاء الله لجمعهم على الهدى حرف ''لو'' امتناع كے ليے ہے_ يعنى خداوند عالم اس قسم كى ہدايت نہيں چاہتا جبكہى بطور مسلم خداوند اختيارى و تشريحى (قانون و ضابطے كے مطابق) ہدايت كا خواہاں ہے تو لازما آيت ميں مذكورہ ہدايت زبردستى (جبري) ہدايت ہوگي_

۹_ خداوند عالم ، تمام لوگوں كو، اسلام و ايمان كى جانب ہدايت كرنے پر قادر ہے_و لو شاء الله لجمعهم على الهدى

۱۰_ راہ ہدايت كو انتخاب كرنے ميں انسان كى آزادى و اختيار ہى خداوند عالم كى مشيت ہے_

و لو شاء الله لجمعهم على الهدى

۱۱_ انسان، ہدايت اور گمراہى كا راستہ انتخاب كرنے ميں آزاد ہے_فان استطعت ان تبتغي و لو شاء الله لجمعهم على الهدى خدا كا يہ فرمانا كہ اگر تم ہر قسم كا معجزہ (بھي) لاتے تو بھى يہ ايمان لانے والے نہيں ہيں اور اگر خدا چاہتا تو ہدايت كر سكتا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان راستے كا انتخاب كرنے ميں آزاد ہے_

۱۲_ كفار كى خصوصيات اور نفسيات كى دقيق پہچان اور ہدايت كے مقابلے ميں انكے مؤقف اور رد عمل سے

۱۰۳

آگاہى حاصل كرنا پيغمبر(ص) كى ذمہ دارى ہے_و ان كان كبر فلا تكونن من الجهلين

بعض كفار كى ''ہدايت ناپذيري'' كى خصوصيت كا بيان كرنا اور پيغمبر(ص) كى نسبت آيت كا سرزنش آميز لہجہ، بتارہاہے كہ پيغمبر(ص) كو تمام لوگوں كى ہدايت كے بارے ميں اپنے ميلان و شوق كے برعكس، اس واقعيت كو قبول كرنا چاہيئے كہ بعض كفار ناقابل ہدايت ہيں اور يہ بات آپ(ص) كو اپنے لائحہ عمل ميں مد نظر ركھنى چاہيئے_

۱۳_ تمام لوگوں كے قابل ہدايت ہونے كى اميد، ايك بے جا اور جاہلانہ توقع ہے_

و ان كان كبر عليك فلا تكونن من الجهلين

۱۴_ انبيااور الہى رہبروں كےليے لوگوں كى نفسيات اور دين كے مخالفين و منكرين كى فطرت سے آگاہ ہونا ضرورى ہے_فلا تكونن من الجهلين

۱۵_ جاہلوں كے طور طريقے اور ان سے متاثر ہونے سے بچنے كى ضرورت_فلا تكونن من الجهلين

۱۶_ پيغمبر(ص) سے بے جا توقعات اور بہت سے انحرافات كى جڑ جہالت و نادانى تھي_

و ان كان كبر عليك فلا تكون من الجهلين

گذشتہ آيت ميں بعض كفار كى طرف سے قرطاس (كاغذ) اور ملك (فرشتے)كے نزول كى بحث كى گئي تھي_ يہ آيت گويا، ان سب لوگوں كيلئے كو جواب ہے كہ جو اس طرح كى خواہشات و تقاضے كرتے تھے يا انكى حمايت كرتے ہيں _ آيت كے آخر ميں ، خصوصي، معجزات كى درخواست كرنے والوں كو جہلا ء ميں شمار كيا گيا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) اور كفار ۱۲;آنحضرت(ص) سے بے جا توقعات ۱۶; آنحضرت(ص) كا معجزہ ۵; آنحضرت(ص) كا ہدايت كرنا ۲،۴;آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱۲;آنحضرت(ص) كى قدرت كى حدود ۵ ; آنحضرت(ص) كى مشكلات ۱; آنحضرت(ص) كے اختيارات كى حدود ۵

اسلام :اسلام سے اعراض ۱; اسلام كى تكذيب ۱

انبيا :انبياء كى ذمہ دارى ۱۴

انحراف :انحراف كے عوامل ۱۶

انسان :اختيار انسان ۸، ۱۰، ۱۱

۱۰۴

ايمان :ايمان كى اہميت ۳

بے جا توقعات : ۱۳

جبر و اختيار : ۸، ۱۰، ۱۱

جہل :آثار جہل ۱۶

جہلاء :جہلا ء كے راستے سے اعراض ۱۵

خدا تعالى :اذن خدا ۶; سنن خدا ۶; قدرت خدا ۹; مشيت خدا ۸، ۱۰; ہدايت خدا ۸، ۹

دين:دين كے دشمنوں كى نفسيات سے آگاہى ۱۴

رہبرى :رہبر كى ذمہ دارى ۱۲، ۱۴

كفار :كفار كى انعطاف ناپذيرى ۷;كفار كى نفسيات سے آگاہى كى اہميت ۱۲; ناقابل ہدايت كفار ۷

گمراہى :گمراہى ميں اختيار ۱۱

معجزہ :شرائط معجزہ، ۶; معجزے كا قانون و قاعدے كے مطابق ہونا۶

نفسيات :نفسيات سے آگاہى كى اہميت ۱۲، ۱۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۲، ۱۲;ہدايت كى اہميت۳۰ ; ہدايت ميں اختيار ۸، ۱۰، ۱۱

آیت ۳۶

( إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ )

بس بات كو وہى لوگ قبول كرتے ہيں جو سنتے اور مردوں كوتو خداہى اٹھا ئے گا اور پھر اس كى بارگاہ ميں پلٹا ئے جائيں گے

۱_ فقط وہى لوگ خدا اور رسول(ص) كى دعوت پر لبيك كہتے ہيں جو پيغمبر(ص) كے فرامين كو سنتے ہيں اور انہيں درك

۱۰۵

كرتے ہيں _انما يستجيب الذين يسمعون

۲_ ہدايت پانے كے ليے، پيغمبر(ص) كى باتوں كو سننا اور ان كا ادراك ضرورى ہے_انما يستجيب الذين يسمعون

۳_ جو لوگ آيات الہى اور دعوت پيغمبر(ص) پر كان نہيں دھرتے وہ چلتے پھرتے مردے ہيں _

انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

''الذين يسمعون''كے مقابلے ميں ''الموتى '' كا كلمہ استعمال ہونا، حكايت كرتاہے كہ جو لوگ پيغمبر(ص) كى دعوت كے سامنے اس طرح كا رويہ اپناتے ہيں كہ گويا انھوں نے كچھ سنا ہى نہيں _ يہى لوگ ايسے مردہ دل ہيں كہ جن پر ''الموتى '' كا اطلاق ہوتاہے_

۴_ دعوت پيغمبر(ص) پر لبيك كہنے والے، مؤمنين ہى زندہ ہيں _انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

۵_ وہى معاشرہ حقيقى زندگى سے بہرہ مند ہے جو انبيائعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب ديتاہے_

انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

۶_ بعض لوگ، گمراہى كے اس مرحلے تك جا پہنچتے ہيں كہ پھر ان كى ہدايت كى كوئي اميد باقى نہيں رہتي_

انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

گويا اس آيت ميں لوگوں كو دو حصوں ميں تقسيم كيا گيا ہے_ ايك گروہ پيغمبر(ص) كى دعوت پر مثبت جواب ديتاہے اور دوسرا گروہ آيت كى تعبير كے مطابق ''الموتى '' ہے (يعنى مردہ ہے) جس طرح اس دنيا ميں مردے كے زندہ ہونے كى اميد ركھنا غير معقول ، اسى طرح، اس قسم كے لوگوں كى ہدايت كى اميد ركھنا بھى خيال خام ہے _

۷_ خدا قيامت كے دن مردوں كو اٹھائے گا_والموتى يبعثهم الله

۸_ پيغمبر(ص) كو جھٹلانے والے لوگ، قيامت كے دن، آنحضرت(ص) اور آپ كى دعوت كى حقانيت كو درك كرليں گے_انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله

گذشتہ جملات كے قرينے سے، آيت ميں ''الموتى '' سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو دعوت پيغمبر(ص) پر مثبت جواب نہيں ديتے_ جملہ ''يبعثھم اللہ'' بعث قيامت كى خبر ہونے كے علاوہ اس بات كى جانب كنايہ بھى ہے كہ خدا ان مردہ دلوں كو اٹھائے گا تا كہ وہ پيغمبر(ص) كى دعوت اور آپ كے وعدوں كى حقانيت كو درك كرليں _

۹_ تمام انسانوں نے خداكى جانب لوٹنا ہے_

۱۰۶

ثم اليه يرجعون

۱۰_ قيامت، حق كو قبول كرنے والوں اور حق كو قبول نہ كرنے والوں كے حساب كتاب اور انھيں سزا و جزا دينے كا دن ہے_انما يستجيب الذين يسمعون والموتى يبعثهم الله ثم اليه يرجعون

جملہ ''ثم اليہ يرجعون'' ظاہرا پورى آيت سے مربوط ہے يعنى جواب دينے والے بھى اور مردہ دل (جواب نہ دينے والے) بھى سب كے سب قيامت كے دن اٹھائے جائيں گے اور اپنے اعمال كا نتيجہ ديكھيں گے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت اور قيامت كى تكذيب كرنے والے ۸; آنحضرت(ص) كى حقانيت ۸ ;آنحضرت(ص) كى دعوت ۸ ; آنحضرت(ص) كى دعوت سے بے اعتنايى ۳; آنحضرت كى دعوت قبول كرنا ۱،۴;آنحضرت(ص) كى كلام سننا ۱،۲; آنحضرت كى كلام سمجھنا ۱،۲; آنحضرت(ص) كے پيروكار ۴

آيات خدا :آيات خدا سے بے اعتنائي ۳

انبياعليه‌السلام :دعوت انبيا كو قبول كرنا ۵

انسان :انسان اور قيامت كا دن ۷;انسانوں كا اخروى حشر ۷; انسانوں كا انجام ۹

تشبيھات :مردوں سے تشبيہ ۳

حق :حق قبول كرنے والوں كى جزا۱۰; حق كو رد كرنے والوں كى سزا ۱۰

خدا كى جانب بازگشت : ۹

دعوت :دعوت خدا كو قبول كرنا ۱

زندہ لوگ :حقيقى اور واقعى زندگى ۴

قرآن :تشبيھات قرآن ۳

قيامت :قيامت كى خصوصيت ۱۰ قيامت كے دن حقائق كا ظہور ۸;;قيامت ميں حساب لياجانا ۱۰

گمراہ لوگ :گمراہوں كا ناقابل ہدايت ہونا ۶

گمراہى :گمراہى كے درجات و مراتب ۶

۱۰۷

لوگ :گمراہ لوگ ۶

مردے :مردوں كا زندہ كيا جانا۷

معاد :معاد كا منشا۷

معاشرہ :زندہ معاشرہ ۵; معاشرے كى حيات ۵

مؤمنين : ۴

ہدايت :مقدمات ہدايت ۲; ہدايت سے مايوسى ۶

آیت ۳۷

( وَقَالُواْ لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ آية مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللّهَ قَادِرٌ عَلَى أَن يُنَزِّلٍ آية وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور يہ كہتے ہيں كہ ان كے اوپر كوئي نشانى كيوں نہيں نازل ہوتى تو كہہ دليجئے كہ خدا تمھارى پسنديدہ نشانى بھى نازل كر سكتا ہے ليكن اكثرت اس بات كو بھى نہيں جانتى ہے

۱_ مشركين، اثبات رسالت كے ليے پيغمبر(ص) كے معجزات كى نارسائي كے مدعى ہيں

و قالوا لو لا نزل عليه آية من ربه

مشركين كى جانب سے، قرآن جيسے معجزے كے ہوتے ہوئے كسى اور معجزے كى درخواست كرنااس بات كى حكايت كرتاہے كہ وہ آنحضرت(ص) كے معجزات كو، اثبات رسالت كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے_

۲_ مشركين كے ليے خصوصى اور ان كے پسنديدہ معجزہ كا نازل نہ ہونا، رسالت پيغمبر(ص) سے ان كے انكار و كفر كا بہانہ ہے_و قالوا لو لا نزل عليه آية من ربه

آنحضرت(ص) كى طرف سے معجزات پيش كيے جانے كے باوجود، پيغمبر(ص) سے معجزے كا طلب كرنا، حكايت كرتاہے كہ وہ اپنا دل پسند اور خصوصى معجزہ چاہتے تھے_

۳_ رسالت پيغمبر(ص) كو جھٹلانے كےلئے، مشركين كا پروپينگڈا كرنا اور ماحول خراب كرنا_

۱۰۸

و قالوا لو لا نزل عليه ء آية من ربه

۴_ خداوندعالم ہر قسم كا معجزہ اور آيت (نشاني) بھيجنے پر قادر ہے_قل ان الله قادر على ان ينزل اية

۵_ خصوصى اور دلپسند معجزات طلب كرنا، نادانى و جہالت كا نتيجہ ہے_و لكن اكثرهم لا يعلمون

خصوصى معجزے طلب كرنے والوں سے علم كى نفى كرنا، ظاہر كرتاہے كہ نادانى و جہالت اس قسم كے تقاضوں كى پيدائش كا منشا ہے_

۶_ اكثر مشركين كا، خداوند عالم كى طرف سے ہر قسم كا معجزہ نازل كرنے كى قدرت سے لاعلم ہونا_

ان الله قادر على ان ينزل آية و لكن اكثرهم لا يعلمون

پہلے جملے كے قرينے سے''لا يعلمون'' كا مفعول، قدرت الھى ہے_ يعنىلا يعلمون ان الله قادر

۷_ بہت كم مشركين جانتے تھے كہ خداوند ان كے طلب كردہ معجزے لانے پر قادر ہے_و لكن اكثرهم لا يعلمون

۸_ اغلب مشركين، درخواستى معجزات كے نازل نہ ہونے كے فلسفے سے لاعلم تھے_

و قالوا لو لا نزل عليه آية و لكن اكثرهم لا يعلمون

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ہے كہ''لا يعلمون'' كا متعلق''حكمة عدم نزول الآيات'' جيسا كوئي جملہ ہو_

۹_ مشركين ميں سے بہت كم لوگ درخواستى معجزات كے نازل نہ ہونے كے فلسفے سے آگاہ تھے_

و قالوا لو لانزل عليه آية و لكن اكثرهم لا يعلمون

۱۰_ درخواستى معجزات كے نازل نہ ہونے كے فلسفے (سبب) اور قدرت الہى سے آگاہ ہونے كے باوجود، مشركين كا پيغمبر(ص) كے خلاف پروپيگنڈا كرنا_و قالوا لو لا نزل عليه آية من ربه قل ان الله قادر و لكن اكثرهم لا يعلمون اگر مشركين كا قدرت خدا پر عقيدہ نہ ہوتا تو جملہ ''قل ان اللہ قادر'' محض ايك دعوى تھا_ بنابرايں وہ ہر قسم كا معجزہ نازل كرنے پر خدا كى قدرت كے قائل تھے_ اس كے علاوہ آيت كى تصريح كے مطابق، ان ميں سے ايك قليل تعداد اپنے طلب كردہ معجزات كے عدم نزول كى علت سے بھى آگاہ تھي_

۱۱_ بعض مشركين ہر قسم كا معجزہ نازل كرنے پر خداوند كى قدرت اور اس كے نازل نہ ہونے كے سبب سے آگاہ ہونے كے باوجود، خصوصي، معجزات كے نازل ہونے كا تقاضا كرتے تھے_

و قالوا لو لا نزل ان الله قادر و لكن اكثرهم لا يعلمون

۱۰۹

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى تكذيب ۲ ;آنحضرت كى نبوت كے دلائل ۹

آيات خدا : ۴، ۶

جہل :جہل و نادانى كے آثار ۵

خدا تعالى :خدا تعالى كى قدرت ۴، ۶، ۷، ۱۱

قرآن :اعجاز قرآن ۱

كفر :آنحضرت(ص) سے كفر

مشركين :اكثر مشركين كى جہالت ۶، ۸; درخواستى معجزہ ۲;صدر اسلام كے مشركين كا پروپينگنڈا ۱۰; صدر اسلام كے مشركين كى اقليت ۷، ۹; مشركين اور قرآن ۱; مشركين اور محمد(ص) ۳، ۱۰; مشركين اور محمد(ص) كا معجزہ ۱ ; مشركين اور معجزہ ۱۱; مشركين كا كفر ۲; مشركين كا ماحول خراب كرنا ۳; مشركين كى بہانہ جوئي ۲; مشركين كى تبليغ ۳

معجزہ :درخواستى معجزہ ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱; معجزہ كا سرچشمہ ۴، ۶، ۷، ۱۱; معجزہ لانے كى درخواست ۵، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

آیت ۳۸

( وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائرُ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ )

اور زمين ميں كوئي بھى رينگنے والا يا دونوں پروں سے پرواز كرنے والا طائر ايسا نہيں ہے جو اپنى جگہ پر تمھارى طرح كى جماعت نہ ركھتا ہو_ ہم نے كتاب ميں كسى شے كے بيان ميں كوئي كمى نہيں كى ہے اس كے بعد سب اپنے پروردگار كى بارگاہ ميں پيش ہوں گے

۱_ زمين پر چلنے والے تمام جاندار اور آسمان كے تمام پرندے، انسانوں كى مانند، امت كى شكل ميں

۱۱۰

رہتے ہيں _و ما من دابة فى الارض و لا طائرُ يطير بجناحيه الا امم امثالكم

۲_ پرندوں كا فضا ميں دوپروں سے پرواز كرنا_و لا طئر يطير بجناحيه

۳_ خداوندعالم نے ہر چيز كے بارے ميں دقيق معلومات كو ايك معين كتاب (لوح محفوظ) ميں ثبت كر ركھا ہے_

ما فرطنا فى الكتب من شيئ ہوسكتاہے ''الكتاب'' سے مراد لوح محفوظ ہو يا ہر وہ جگہ جہاں موجودات كے بارے ميں مكمل معلومات ثبت كى جاتى ہوں _

۴_ كائنات، ہر قسم كے نقص و كمى سے پاك ہے_ما فرطنا فى الكتب من شيئ

صدر آيت كو ديكھتے ہوئے كہ جس ميں موجودات ہستى (كائنات) سے بحث كى گئي ہے كہا جا سكتاہے كہ ''الكتاب'' سے مراد كتاب تكوينى اور كائنات ہے_ اور اس ميں تفريط نہ كرنے سے مراد اس ميں ہر قسم كى كمى اور نقص كى نفى ہے_

۵_ قرآن ہدايت كرنے كے ليے ايك مكمل معجزہ اور ہدايت انسان كى تمام ضروريات كو پورا كرنے والى (كتاب) ہے_

و قالوا لو لا نزل على آية ما فرطنا فى الكتب من شيئ گذشتہ آيت كو ديكھتے ہوئے كہ جس ميں نزول معجزات كى بحث تھي_ كہا جاسكتاہے كہ ''الكتاب'' سے مراد قرآن ہے اور قرآن كتاب ہدايت اور ''من شيئ'' اسكى جا معيت كا بيان ہے_ لہذا (يہ آيت) ہدايت بنى آدم كے لحاظ سے قرآن كے ہر قسم كى كمى اور نقص سے مبرا ہونے پر دلالت كرتى ہے_

۶_ رسالت پيغمبر(ص) كے اثبات كے ليے، قرآن ہر قسم كى كمى و اور نقص سے خالى ہے_

ولو لا نزل عليه آية من ربه ما فرطنا فى الكتب من شيئ

۷_ نزول معجزات كے بے جا، تقاضے كو پورا كرنا، ہدايت كے قانون سے سازگار نہيں ہے_

و قالوا لو لا نزل عليه آية ما فرطنا فى الكتب من شيئ

ہوسكتاہے جملہ ''ما فرطنا'' اس نكتہ كى جانب اشارہ ہو كہ اگر مشركين كے طلب كردہ معجزات كا نزول بجا تھا تو اسے كتاب آفرينش ميں ثبت ہونا چاہيئے تھا اور پھر ظاہر ہوتا_ جبكہ اس قسم كى كوئي چيز وہاں ثبت نہيں ہوئي اور نہ ہى كوئي چيز قلم سے رہ گئي ہے_ بنابرايں مشركين كا يہ تقاضا، كسى قسم كى منطقى اورمعقول توجيہ كا حامل نہيں ہے _

۸_ زمين پر چلنے والے تمام جاندار اور آسمان كے

۱۱۱

پرندے بھى انسان كى مانند، قيامت كے دن اٹھائے جائيں گے_ثم الى ربهم يحشرون

۹_ حيوانات ميں بھى ايك قسم كا ارادہ، اختيار، شعور، ذمہ دارى اور قيامت كى جزا و سزا ہے_

امم امثالكم ثم الى ربهم يحشرون

۱۰_ تمام حيوانات كا اٹھايا جانا، ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے_ثم الى ربهم يحشرون

۱۱_ زمين پر چلنے والے تمام جانداروں كى غايت فقط خداوند متعال ہے_اور سب كے سب اسى كى جانب حركت كررہے ہيں _ثم الى ربهم يحشرون

حرف ''الي'' كا مفاد، انتہائے غايت كو بيان كرنا ہے_ بنابرايں ''الى ربھم'' يعنى جانداروں كے حشر و نشر كى غايت ''رب'' تك پہنچنا ہے_ اور اس كے علاوہ كوئي دوسرى غرض و غايت نہيں _ اسى ليے ''الى ربھم'' كو ''يحشرون'' پر مقدم ركھا گيا ہے تا كہ حصر كا فائدہ دے_

۱۲_ تمام موجودات كى اپنى پروردگار كى جانب، ارتقائي حركت ہے_ثم الى ربهم يحشرون

كلمہ''رب'' كہ جو تربيت كرنے كا معنى ديتاہے_ اور كلمہ ''الى '' سے ايك ہدف و مقصد كى جانب حركت كا مفہوم اخذ ہوتاہے اسى سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ كيا گيا ہے_

۱۳_ زمين پر چلنے والے تمام جاندار اور انكى زندگى گذارنے كى كيفيت قدرت خدا كى نشانيوں ميں سے ہے_

ان الله قادر على ان ينزل و ما من دابة فى الارض

۱۴_عن الرضا عليه‌السلام ان الله عزوجل انزل عليه القرآن فيه تبيان كل شي بيّن فيه الحلال و الحرام والحدود والاحكام و جميع ما يحتاج اليه الناس كملا فقال عزوجل ''ما فرطنا فى الكتاب من شيئا'' ... (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند عزوجل نے قرآن اپنے رسول(ص) پر نازل فرمايا_ قرآن ميں ہر چيز كا روشن بيان موجود ہے اس ميں حلال و حرام، حدود و احكام اور ہر اس چيز كو كہ جس كى لوگوں كو ضرورت تھي_ مكمل طور پر بيان كيا گيا ہے_ اور خداوند عزوجل كا ارشاد ہے كہ ''ہم نے اس كتاب ميں ، كسى چيز كى كمى نہيں ركھي''

____________________

۱) كافي، ج/ ۱ ص ۱۹۹ ح ۱ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۵۲۴ ح ۱_

۱۱۲

آفرينش :كمال آفرينش ۴; نظام آفرينش كى خصوصيت ۴

آنحضرت(ص) :آنحضرت كى نبوت پر دلائل ۶

آيات خدا : ۱۳

انسان :انسانوں كا اخروى حشر ۸; انسانوں كى ضروريات ۱۴;انسان كى معنوى (روحاني) ضروريات كا پورا ہونا ۵

بے جا توقعات : ۷

پرندے :پرندوں كا اخروى حشر ۸; پرندوں كى امت ۱; پرندوں كى پرواز ۲; پرندوں كى معاشرتى زندگى ۱;پرندوں كے پر ۲

چلنے والے جاندار :چلنے والے جانداروں كى اجتماعى زندگى ۱;چلنے والے جانداروں كى امت ۱

حيوانات :حيوانات كا اختيار ۹ ;حيوانات كا اخروى حشر ۵; حيوانات كا ارادہ ۹ ; حيوانات كا شعور ۹ ; حيوانات كى اخروى جزا۹;حيوانات كى اخروى سزا ۹ ; حيوانات كى ارتقائي حركت ۱۲ ; حيوانات كے فرائض ۹ ; حيوانات قيامت ميں ۹

خدا تعالي:اختصاصات خدا ۱۱; افعال خدا ۳; ربوبيت خدا كے مظاہر ۱۰; قدرت خدا كى نشانياں ۱۳

خداتعالى كى جانب پلٹنا :۱۱، ۱۲

روايت : ۱۴

قرآن :اعجاز قرآن ۵; تعليمات قرآن كى حدود ۱۴; قرآن كا ہدايت كرنا ۵; جامعيت قرآن ۵، ۶، ۱۴; قرآن كى خصوصيت ۵، ۶;كمال قرآن ۶

قيامت :قيامت كى خصوصيت ۸

معجزہ :معجزے كى درخواست ۷;درخواستى معجزہ ۷

موجودات :موجودات كا انجام ۱۱; موجودات كا اخروى حشر ۸ ; موجودات كى زندگى ۱۳; موجودات كے علم كى كتاب ۳

لوح محفوظ :كتاب لوح محفوظ ۳; لوح محفوظ كا نقش ۳

ہدايت :ہدايت كا قانون كے مطابق ہونا ۷

۱۱۳

آیت ۳۹

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَن يَشَإِ اللّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

اور جن لوگوں نے ہمارى آيات كى تكذيب كى وہ بہرے گونگے تاريكيوں كيں پڑ ے ہوئے ہيں اور خدا جسے چاہتا ہے يوں ہى گمراہى ميں ركھتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقيم پر لگا ديتا ہے

۱_ آيات الہى (قرآن )كو جھٹلانے والے، اندھيروں ميں پڑے ہوئے بہرے اور گونگے ہيں _

والذين كذبوا بآيتنا صم وبكم فى الظلمت

۲_ درك نہ كرنا اور جہالت و گمراہى كى تاريكيوں ميں ڈوبے رہنا (ہي) آيات الہى كو جھٹلانے كى اصل وجہ ہے_

والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت

''صم و بكم'' (گونگا اور بہرا ہونا) تكذيب كرنے والوں كى حقيقت حال كو بيان كرنے كے علاوہ آيات الہى كى تكذيب كى اصل وجہ بھى ہوسكتى ہے_

۳_ درك نہ كرنا اور جہالت و گمراہى كے اندھيروں ميں ڈوبے رہنے آيات الہى كو جھٹلانے كا نتيجہ ہے_

والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت من يشاء الله يضلله

جھٹلانے والوں كا بہرا گونگا ہونا، درك نہ كرنے اور انكى حيرانى و سرگردانى كى جانب كنايہ ہے_ احتمال ہے كہ يہ حالت، خداوند كى جانب سے ان كےلئے ايك قسم كى سزا ہو_ چنانچہ ''من يشاء اللہ'' اسى پر شاہد ہے_

۴_ آيات الہى كو جھٹلانے والوں كا، معرفت حاصل كرنے كے راستوں سے محروم ہونا_

والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم

۵_ جو لوگ، زمين پر چلنے والے جانداروں اور انكى زندگى كے طور طريقوں سے قدرت خدا كا ادراك نہ كرسكيں ، وہ ان بہرے گونگے افراد كى مانند ہيں كہ جو اندھيرے ميں (پڑے) ہيں _

۱۱۴

وما من دابة فى الارض الى ربهم يحشرون والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت

مذكورہ آيت اور گذشتہ آيت كے درميان ارتباط كا تقاضايہ مطلب ہوسكتاہو كہ طبيعت ميں موجود يہى آيت (نشانياں ) ہدايت كے ليے كافى ہيں _ اور جو لوگ، ان نشانيوں سے قدرت خدا (ان اللہ قادر على ان ينزل) كا ادراك نہ كرسكيں وہى اندھيرے ميں بھٹكنے والے بہرے و گونگے افراد ہيں _

۶_ ہدايت اور ضلالت، مشيت الہى سے مشروط ہے_من يشاء الله يضلله و من يشاء يجعله على صراط مستقيم

۷_ آيات الہى كو جھٹلانا، انسان كے گمراہ ہونے سے مشيت خدا كے متعلق ہونے كى راہ ہموار كرتاہے_

والذين كذبوا بآيتنا من يشاء الله يضلله

آيات الہى كو جھٹلانے اور اس كے آثار كى بات كے بعد مشيت الہى كى بحث كرنا، بعض انسانوں كو گمراہ كرنے سے مشيت الہى كے تعلق پيدا كرنے كے مقدمات فراہم كرنے كو ظاہر كررہاہے_

۸_ آيات خدا كو قبول كرنا، صراط مستقيم كى جانب انسان كى ہدايت سے مشيت الہى كے متعلق ہونے كى راہ ہموار كرتا ہے_والذين كذبوا بآيتنا ...يجعله على صراط مستقيم

۹_ بعض ہدايت يافتہ لوگوں كو صراط مستقيم پر قائم ركھ كرخداوند متعال كا ان پرخصوصى عنايت كرنا_

يجعله على صراط مستقيم

۱۰_ آيات الہى پر ايمان، فكر و ادراك كے صحيح و سالم ہونے كى علامت ہے_والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت يجعله على صراط مستقيم

۱۱_ غور و فكر كرنے اور آيات الہى سے صحيح مفہوم اخذ كرنے كى قدرت كا سلب ہونا، خدا كى جانب سے گمراہ كرنے كى ايك علامت ہے_والذين كذبوا بآيتنا صم و بكم فى الظلمت من يشاء الله يضلله

جملہء ''من يشاء اللہ'' سے يہ معنى ظاہر ہوتاہے كہ آيات الہى كو جھٹلانے والوں كا بہرا و گونگا ہونا ہى انھيں گمراہ كرنے كے بارے ميں مشيت الہى كا پورا ہونا ہے_

۱۲_ آيات الہى پر ايمان (ہي) صراط مستقيم ہے_والذين كذبوا من يشاء الله يضلله و من يشاء يجعله على صراط مستقيم

مندرجہ بالا مفہوم، قرينہ مقابل سے اخذ كياگيا ہے_ يعنى جب آيات الہى كو جھٹلانا، گمراہ كرنا ہے

۱۱۵

تو اس كے مقابلے ميں ، آيات پر ايمان لانا صراط مستقيم ہے_

۱۳_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''الذين كذبوا باياتنا صم و بكم'' يقول : ''صم'' عن الهدى و ''بكم'' لا يتكلمون بخير ''فى الظلمات'' يعنى ظلمات الكفر (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''الذين كذبوا باياتنا ...'' كے بارے ميں روايت ہے كہ : آيات الہى كو جھٹلانے والے، ہدايت (كى آيات سننے) سے بہرے ہيں اور نيك بات كہنے سے گونگے ہيں ''وہ اندھيروں ميں پڑے ہيں '' يعنى كفر كے اندھيروں ميں

۱۴_ابوحمزه قال : سالت ابا جعفر عليه‌السلام عن قول الله عزوجل : الذين كذبوا باياتنا صم و بكم فى الظلمات ...'' فقال : نزلت فى الذين كذبوا باوصياء هم (۲)

ابوحمزہ كہتے ہيں ميں نے امام باقرعليه‌السلام سے''الذين كذبوا ...'' كے بارے ميں پوچھا_ آپعليه‌السلام نے فرمايا : يہ آيت پيغمبر(ص) كے جانشينوں كو جھٹلانے والوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے

آيات خدا :آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا بہراہونا۱،۱۳; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا گونگا ہونا ۱،۱۳; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كى ظلمت ۱، آيات خدا كو جھٹلانے والوں كى محروميت ۴; آيات خدا كى تكذيب كے آثار ۳،۷; آيات خدا كى تكذيب كے عوامل ۲; آيات خدا كے درك كے موانع ۱۱

ادراك :سلامتى ادراك كى علائم ۱۰;عدم ادراك كے آثار ۲; موانع ادراك ۳

انبياعليه‌السلام :اوصيائے انبيا كو جھٹلانے والے ۱۴

ايمان :آيات خدا پر ايمان ۸، ۱۰، ۱۲; ايمان كى راہيں ۵; متعلق ايمان ۸، ۱۰، ۱۲

بصيرت :صحيح بصيرت كا سلب ۱۱

تشبيھات :بہروں سے تشبيہ ۵; گونگوں سے تشبيہ ۵

جہالت :جہالت كى تاريكى ۳; جہالت كے آثار ۲; عوامل جہالت ۳

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۱۹۸، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۱۶ ح ۷_

۲) تفسير قمى ج ۱، ص ۱۹۹، نور الثقلين ج ۱ ، ص ۷۱۶ح ۷۵_

۱۱۶

خدا تعالي:خدا تعالى كا لطف ۹ ;خداتعالى كى قدرت كى نشانياں ۵ ; خدا تعالى كى مشيت ۶ ، ۷ ، ۸; خدا تعالى كے گمراہ كرنے كى نشانياں ۱۱

شناخت (معرفت):موانع شناخت ۴

صراط مستقيم : ۱۲

ظلمت :ظلمت ميں ڈوبنا ۵; ظلمت و تاريكى ميں ڈوبنے كے آثار ۲;ظلمت ميں ڈوبنے كے عوامل ۳

علم :علم سے محروم افراد ۴

قرآن :تشبيہات قرآن ۵; قرآن كو جھٹلانے والوں كا گونگا بہرا ہونا ۱; قرآن كو جھٹلانے والوں كى تاريكى ۱

كفر :ظلمت كفر ۱۳

كلام :نيك كلام سے امتناع ۱۳

گمراہ افراد : ۵گمراہى :گمراہى كى تاريكي۳; گمراہى كى راہيں ۷; گمراہى كے آثار ۲;گمراہى كے عوامل و اسباب ۳; منشائے گمراہى ۶، ۷

موجودات :موجودات كى زندگى سے عبرت ۵

ہدايت :صراط مستقيم كى ہدايت ۸، ۹;مقدمہ ہدايت ۸; منشائے ہدايت ۶، ۸

ہدايت يافتہ :ہدايت يافتہ لوگوں كے مقامات و درجات ۹

۱۱۷

آیت ۴۰

( قُلْ أَرَأَيْتُكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

آپ ان سے كہئے كہ تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر تمھارے پاس عذاب يا قيامت آجائے ثو كيا تم اپنے دعوے كى صداقت كى ميں غير خدا كو بلائو گے

۱_ تمام انسانوں كى فطرى پكار، خدا وند يكتا و يگانہ كى جانب توجہ كرنا ہے_قل ارء يتكم اغير الله تدعون

جملہ ''ارء يتكم'' ميں استفھام تقريرى ہے اور اس بات كا بيان ہے كہ انسان كے ليے خلق و امر ميں خدا وحدانيت كا اعتراف كرنے كے علاوہ كوئي چارہ نہيں _

۲_ پيغمبر(ص) لوگوں كو توحيدى فطرت كى جانب متوجہ كرنے اور ان كى سوئي ہوئي فطرت كو بيدار كرنے پر مامور ہيں _

قل ارء يتكم ان اتاكم اغير الله تدعون

۳_ عذاب الہى كا سامنا ہونے پر انسان كى توحيدى اور خدا طلب فطرت كا ظاہر اور بيدار ہوجانا_

قل ارء يتكم ان اتاكم عذاب الله

۴_ موت كا سامنا ہونے پر، انسان كى توحيدى فطرت كا بيدار ہونا_

قل ارء يتكم ان اتاكم عذاب الله اور اتتكم الساعة اغير الله تدعون

۵_ سختيوں اور مشكلات كے وقت، انسان كى توحيدى فطرت كا بيدار ہونا_

قل ارئيتكم ان اتاكم عذاب الله اغير الله تدعون

اگر چہ آيت ميں دوجگہ عذاب اور موت كا ذكر ہوا ہے_ ليكن واضح ہے كہ يہ ان سختيوں اور مشكلات كا ايك نمونہ ہے كہ جن سے انسان دوچار ہوتاہے_

۶_ رفا ہ و آسايش، توحيدى فطرت كے پوشيدہ ہونے اور دب جانے كے مقدمات فراہم كرتى ہے_

قل ارء يتكم ان اتى كم عذاب الله او اتتكم

۱۱۸

الساعة

چونكہ آيت ميں سختيوں اور مشكلات كو توحيدى فطرت كے بيدار ہونے كا سبب بتايا گيا ہے_ بنابرايں اس كے مقابلے ميں ، رفاہ و آسايش كى حالت ہے_ لہذا يہ فطرت كے دبنے اور پوشيدہ ہوجانے كا ايك سبب ہوسكتاہے_

۷_ عذاب، موت اور دوسرى سختيوں كے وقت، ہر قسم كے شرك اور غير خدا كى طرف ميلان كے بطلان كا روشن ہوجانا_قل ارء يتكم ان اتى كم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون

۸_ مشكلات كے وقت، خدا كے علاوہ دوسرے معبودوں كى طرف توجہ كا نہ جانا، تمام جھوٹے خداؤں و معبودوں كے باطل ہونے كى دليل ہے_قل ارء يتكم ان كنتم صادقين

۹_ اگر مشركين صداقت سے بہرہ مند ہوتے تو سختيوں و مشكلات كے وقت خداوند يكتا كى جانب اپنے (اندروني) ميلان و رجحان كا اقرار كرتے_قل ارء يتكم اغير الله تدعون ان كنتم صادقين

۱۰_ خداوند يكتا كے اثبات كے ليے، دينى تجربے سے استفادہ كرنا توحيد و خداپرستى كى تبليغ كے طريقوں ميں سے(ايك طريقہ) ہے_قل ارء يتكم اغير الله تدعون

اس آيت اور اس جيسى دوسرى آيات ميں ، خداوند يكتا كى جانب متوجہ كرنے كے ليے جو طريقہ اپنايا گيا ہے اسے آج كل ''تجربہ ديني'' كے نام سے ياد كيا جاتاہے_ خدا نے بھى اسى طريقے كو اپنايا ہے اور جن اوقات ميں انسان خداوند يكتا كى جانب متوجہ ہوتاہے ان كى ياد دلائي ہے_

۱۱_ اگر مشركين اپنے شرك آميز اور باطل ادعا ميں سچے ہيں تو انھں چاہيئے كہ سختى و مشكل كے وقت اپنے خداؤں كى طرف توجہ كريں اور انھيں پكاريں _اغير الله تدعون ان كنتم صادقين

آسائش :آثار آسائش ۶

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۲

احتجاج (حجت و دليل لانا) :مشركين سے احتجاج ۹، ۱۱

انسان :انسانى ميلانات ۱، ۳;فطرت انسان ۱، ۳، ۴، ۵

۱۱۹

باطل معبود :باطل معبودں كا بطلان ۱۱; باطل معبودوں كے بطلان كے دلائل ۸

بصيرت :بصيرت كے عوامل ۳، ۵، ۴

تبليغ :روش تبليغ ۱۰

تجربہ :آثار تجربہ ۱۰; تجربہ دينى سے فا دہ اٹھانا۱۰

توحيد :اثبات توحيد كا طريقہ ۱۰; توحيد كا اقرار ۹;موانع توحيد ۶

خدا تعالى :خداتعالى كے عذاب ۳

ذكر :ذكر خدا ۱

سختى :سختى ميں مبتلا ہونے كے آثار ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۱

شرك :شرك كے بطلان كا ظاہر ہونا ۷

صداقت :آثار صداقت ۹، ۱۱

عذاب :عذاب كے مشاہدے كے آثار ۳، ۷

فطرت :توحيدى فطرت ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶;فطرت كا احيا ۲; فطرت كے احيا كے عوامل ۴، ۳، ۵، ۷; فطرت كے پوشيدہ ہونے مقدمہ ۶

مشركين :مشركين كے ايمان كى شرائط ۹; مشركين كے دعوے۱۱

موت :موت كا سامنا ہونے كے آثار ۴، ۷

ميلانات :خدا كى جانب ميلان ۹

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

٢۔ اگر امرو نہی کرنے والا جان لے کہ درخواست نصیحت اور موعظہ کے بغیر امرونہی میں اثر نہیں ہے تو واجب ہے امرونہی کو نصیحت، موعظہ اور درخواست کے ساتھ انجام دے اور اگر جانتا ہو کہ صرف درخواست اور موعظہ (امرونہی کے بغیر) مؤثرہے، تو واجب ہے یہی کام انجام دے۔(١)

٣۔امرونہی کرنے والا اگر جانتا ہو یا احتمال دے کہ اس کا امر ونہی تکرار کی صورت میں مؤثرہے، تو تکرار کرنا واجب ہے۔(٢)

٤۔ گناہ پر اصرار کا مقصد انجام کار کو جاری رکھناہی نہیں ہے بلکہ اس عمل کا مرتکب ہونا ہے اگرچہ پھرسے ایک بارہی انجام دے۔ اس طرح اگر کسی نے ایک بار نماز کو ترک کیا اور دوسری بار ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتو امر بالمعروف واجب ہے۔(٣)

٥۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں گناہگار کو حاکم شرع کی اجازت کے بغیر زخمی کرنا یا قتل کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر منکر ایسے امور میں سے ہو جس کی اسلام میں بہت اہمیت ہو مثال کے طور پر ایک شخص ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنا چاہتاہے اور اسے اس کام سے روکنازخمی کئے بغیر ممکن نہ ہو ۔(٤) *

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے آداب:

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے سزاوار ہے:

* ایک رحم دل طبیب اور مہربان باپ کی طرح ہو۔

*اس کی نیت خالص ہو اور صرف خدا کی خوشنودی کے لئے قدم اٹھائے اور اپنے عمل کو ہر قسم کی بالادستی سے پاک کرے۔

* خود کو پاک ومنزہ نہ جانے، ممکن ہے جوشخص اس خطا کا مرتکب ہوا ہے، کچھ پسندیدہ صفات کا

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج١،ص ٤٧٦،م ٣.

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص٤٦٨ م٥.

(٣)تحریر الوسیلہ ،ج ١،ص٧٠ ٤، م ٤.

(٤)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٤٨١م ١١ و١٢.

۲۴۱

*یہ مسئلہ آیت اللہ گلپائیگانی کے توضیح المسائل میں نہیں آیا ہے.

بھی مالک ہو اور محبت الہٰی کا حقدار قرار پائے اور خود امربالمعروف کرنے والے کا عمل غضب الٰہی کا سبب بنے۔(١)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١،ص ٤٨١،م١٤.

۲۴۲

سبق : ٣٧ کا خلاصہ

١۔'' معروف'' وہی واجبات ومستحبات ہیںاور'' منکر'' وہی محرمات ومکروہات ہیں۔

٢۔ امربالمعرو ف ونہی عن المنکر واجب کفائی ہے۔

٣۔ امربالمعروف ونہی عن المنکرکے شرائط حسب ذیل ہیں:

* امرونہی کرنے والاخود معروف ومنکرکو جانتا ہو۔

*تاثیر کا احتمال دے۔

* گناہگار گناہ کی تکرار کا ارادہ رکھتا ہو۔

* امرونہی فسادکا سبب نہ ہو۔

٤۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل حسب ذیل میں:

* گناہگار کے ساتھ دوستی اور رفت وآمدنہ کی جائے۔

* زبانی امرونہی

*گناہگار کی پٹائی کرنا۔

٥۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے شرائط ،مراحل اور مواقع کو یاد کرنااور سیکھنا واجب ہے۔

٦۔ اگر گناہ کو روکنے کے لئے امر ونہی کی تکرار ضروری ہوتو، تکرار واجب ہے۔

٧۔ حاکم شرع کی اجازت کے بغیر گناہگار کوزخمی کرنا یا اسے قتل کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ منکر ایسے امور میں سے ہو کہ اسلام میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہو۔

۲۴۳

سوالات:

١۔ معروف ومنکر میں سے ہر ایک کی پانچ مثالیں بیان کیجئے؟

٢۔ کس صورت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے؟

٣۔ اگر کوئی کسی گانے کو سن رہا ہواور ہم نہیں جانتے وہ غناہے یا نہیں ؟تو کیا اس کو منع کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ اور کیوں ؟

٤۔اگر کسی کو نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا جائے تو کیا واجب ہے کہ اسے کہا جائے؟ کیوں؟

٥۔ کیا ایک ایسی دوکان سے چیزیں خرید ناجائز ہے جس کامالک نمازنہ پڑھتا ہو؟

٦۔ گناہ گارکو کس صورت میں زخمی کرنا جائز ہے، دومثال سے واضح کیجئے؟

۲۴۴

سبق نمبر ٣٨

جہاداور دفاع *

چونکہ خورشید اسلام کے طلوع ہونے کے بعد تمام مکاتب ومذاہب ؛باطل، منسوخ اور ناقابل قبول قرار پائے ہیں لہٰذا تمام انسانوں کو دین اسلام کے پروگرام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہونا چاہئے، اگر چہ وہ اسے تحقیق اور آگاہی کے ساتھ قبول کرنے میں آزاد ہیں۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے جانشینوں نے ابتداء میںاسلام کے نجات بخش پروگراموں کی لوگوں کے لئے وضاحت فرمائی اور انھیں اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی اور جو اسلام کے پروگراموں اور احکام سے روگردانی کریں، وہ غضب الٰہی اور مسلمانوں کی شمشیر قہرسے دوچار ہوں گے۔ اسلام کی ترقی کے لئے کوشش اور اس کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں سے مقابلہ کو ''جہاد'' کہتے ہیں۔اسلام کی ترقی کے لئے اس قسم کا اقدام ایک خاص ٹیکنیک اور طریقہ کار کا حامل ہے اور یہ صرف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے جانشینوں۔ (جو ہر قسم کی لغزش اور خطاء سے مبّرا ہیں)کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور معصومین علیہم السلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ا ورہمارے زمانہ میں کہ امام معصوم کی غیبت کادورہے، واجب نہیں ہے لیکن دشمنوں سے مقابلہ کی دوسری قسم کانام دفاع'' ہے۔یہ تمام مسلمانوں کا مسلم حق ہے کہ ہر زمان ومکان میں دنیا کی کسی بھی جگہ میں اگر دشمنوں کے حملہ کا نشانہ بنیں یا ان کا مذہب خطرہ میں پڑے تو اپنی جان اور دین کے تحفظ کے لئے دشمنوں سے لڑیں اورانہیں نابود کردیں۔ ہم اس سبق میں اس واجب الٰہی یعنی''دفاع'' کے احکام واقسام سے آشنا ہوںگے۔

____________________

* یہ سبق امام خمینی کے فتاویٰ سے مرتب کیا گیا ہے۔

۲۴۵

دفاع کی قسمیں :

١۔ اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع

٢۔ جان اور ذاتی حقوق کا دفاع(١)

اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع:

* اگر دشمن اسلامی ممالک پر حملہ کرے۔

* یا مسلمانوں کے اقتصادی یا عسکری ذرائع پر تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے۔

*یا اسلامی ممالک پر سیاسی تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے ۔

* تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر ممکن صورت میں ، دشمنوں کے حملہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیںاور ان کے منصوبوں کی مخالفت کریں۔

جان اور ذاتی حقوق کا دفاع :

١۔ مسلمانوں کی جان اور ان کا مال محترم ہے، اگر کسی نے ایک مسلمان، یا اس سے وابستہ افراد، جیسے، بیٹے، بیٹی، باپ ، ماں اور بھائی پر حملہ کیا تو دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے،اگرچہ یہ عمل حملہ

آورکوقتل کرنے پر تمام ہوجائے۔(٢)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٤٨٥

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٤٨٧۔ ٤٨٨

۲۴۶

٢۔ اگر چور کسی کے مال کو چرانے کے لئے حملہ کردے، دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے۔(١ )

٣۔ اگر کوئی نامحرموں پر نگاہ کرنے کے لئے دوسروں کے گھروں میں جھانکے تو اسے اس کام سے روکنا واجب ہے، اگرچہ اس کی پٹائی بھی کرنا پڑے۔(٢)

عسکری تربیت:

عصر حاضر میں دنیا نے عسکری میدان میں کافی ترقی کی ہے اور اسلام کے دشمن جدید ترین اسلحہ سے لیس ہوچکے ہیں ، اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع،جدیدعسکری طریقوں کی تربیت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے ، چونکہ فوجی تربیت حاصل کرنا واجب ہے، جو اس ٹریننگ کی قدرت وصلاحیت رکھتے ہوں اور اسلام اور اسلامی ممالک کے دفاع کے لئے محاذجنگ پر ان کے حضور کا احتمال ہوتو فوجی ٹریننگ ان کے لئے واجب ہے۔(٣)

اسلامی ممالک کا دفاع اور دشمنوںکے حملوں کے مقابلے میں ان کا تحفظ صرف جنگ کے ایام سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر حالت میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دشمن کے احتمالی حملے کو روکنے کے لئے پوری فوجی تیاری کے ساتھ ملک کی سرحدوں پر چوکس رہے اور کچھ لوگ اندرونی دشمنوں اور بدکاروں سے مقابلہ کرنے کے لئے بھی آمادہ ہوں۔ اس لئے ان تمام تواناا فراد پر لازم ہے کہ اپنی زندگی کے ایک حصہ کواس مقدس فوجی خدمات انجام دینے کیلئے وقف کریں۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج١، ص ٨٧ ٤۔ ٤٨٨

(٢) تحریر الوسیلہ ،ج ص ٤٩٢، م ٣٠

(٣)استفتائ.

۲۴۷

سبق ٣٨ :کا خلاصہ

١۔ اسلام کی ترقی اور اسلامی ممالک کو وسعت بخشنے کے لئے جہاد معصوم علیہ السلام کے دور سے مخصوص ہے۔

٢۔ ہر زمانے میں دفاع واجب ہے اور یہ عصرِ معصوم سے مخصوص نہیں ہے۔

٣۔ دفاع کی دوقسمیں ہیں:

*اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع۔

*جان اورذاتی حقوق کا دفاع۔

٤۔ اگر دشمن اسلامی ملک پر حملہ کرے یا اس پر حملہ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہو، تو تمام مسلمانوں پر دفاع کرنا واجب ہے۔

٥۔اگر کوئی کسی انسان یا اس کے اعزہ پر حملہ آور ہوجائے تو، دفاع کرنا واجب ہے۔

٦۔ مال کا دفاع بھی واجب ہے۔

٧۔ اگر کوئی شخص نامحرم کو دیکھنے کے لئے کسی کے گھر میں جھانکے تو اسے اس کام سے روکنا واجب ہے۔

٨۔جو افراد فوجی ٹریننگ کی توانائی رکھتے ہوں اور محاذ جنگ پر ان کے وجود کا احتمال بھی ہوتو ایسے افراد کے لئے اسلامی ممالک کے دفاع کیلئے فوجی ٹرنینگ لازم ہے۔

۲۴۸

سوالات:

١۔''جہاد'' اور'' دفاع'' میں کیا فرق ہے۔؟

٢۔ دفاع کی قسمیں بیان کیجئے اور ہر ایک کے لئے ایک مثال بیان کیجئے؟

٣۔ کس صورت میں چور کے ساتھ مقابلہ واجب ہے؟

٤۔ فوجی ٹریننگ کن لوگوں پر واجب ہے؟

۲۴۹

سبق نمبر ٣٩

خرید و فروخت

خرید وفروخت کی قسمیں:

١۔ واجب

٢۔حرام

٣۔مستحب

٤۔مکروہ

٥۔مباح

واجب خرید وفروخت:

چونکہ اسلام میں بے کاری اور کاہلی کی مذمت ہوئی ہے،لہٰذا زندگی کے اخراجات کو حاصل کرنے کے لئے تلاش وکوشش کرنا واجب ہے۔جو لوگ خرید وفروخت کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے اپنے اخراجات پورے نہ کرسکیں، یعنی ان کی آمدنی اسی ایک طریقہ پر منحصرہو اور کوئی دوسرا طریقہ ان کے لئے ممکن نہ ہو، تو ان پر واجب ہے خریدوفروخت سے ہی اپنی زندگی کے اخراجات پورا کریں تاکہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، مسئلہ ٢٠٥٣

۲۵۰

مستحب خریدوفروخت:

اپنے اہل وعیال کے اخراجات کو وسعت بخشنے اور دیگر مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے خرید وفروخت کرنا مستحب ہے۔ مثلاً جو کسان کھیتی باڑی کرکے اپنا خرچہ پورا کرتا ہے، اگر فراغت اور فرصت کے وقت خریدوفروخت کا کام بھی انجام دے تاکہ اس طریقے سے محتاجوں کی مدد کرسکے،تو ثواب ہے۔(١)

حرام خرید و فروخت:

١۔ نجاسات کی خریدوفروخت،جیسے مردار۔

٢۔ ایسی چیزوں کی خرید وفروخت، جن کے معمولی منافع حرام ہیں، جیسے قمار بازی کے آلات ۔

٣۔ قماربازی یا چوری سے حاصل شدہ چیزوں کی خریدوفروخت۔

٤۔ گمراہ کنندہ کتابوں کی خریدو فروخت

٥۔کھوٹے سکوں کی خریدوفروخت۔

٦۔ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ ایسی چیزیں فروخت کرنا جو مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی تقویت کا سبب بنیں۔

٧۔ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ اسلحہ بیچناجو دشمنوں کے لئے مسلمانوں کے خلاف تقویت کا سبب بنیں*۔(٢)

حرام ۔خریدوفروخت کے اور بھی موارد ہیں لیکن مبتلابہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بیان سے چشم پوشی کرتے ہیں۔

____________________

(١) توصیح المسائل، مسئلہ ٢٠٥٣

(٢) تحریر الوسیلہ، ج١ ص ٤٩٢ تا٤٩٨ توضیح المسائل، م٥٥ ٢٠

*نمبر٤ سے ٧ تک تمام مراجع کے رسالوں میں موجود نہیں ہے۔

۲۵۱

مکروہ خریدوفروخت:

١۔ذلیل لوگوں سے لین دین کرنا ۔

٢۔ صبح کی اذان اور سورج چڑھنے کے درمیان لین دین کرنا۔

٣۔ ایک ایسی چیزخریدنے کے لئے اقدام کرنا جسے کوئی دوسرا شخص خریدنا چاہتا تھا۔(١)

خرید و فروختکے آداب

مستحبات : *خریداروں کے درمیان قیمت میں فرق نہ کیا جائے۔

*اجناس کی قیمت میں سختی نہ کی جائے۔

*جب لین دین کرنے والوں میں سے ایک طرف پشیمان ہوکر معاملہ کو توڑنا چاہئے تو اس کی درخواست منظور کی جائے۔(٢)

مکروہات:

*مال کی تعریف کرنا۔

*خریدار کو برا بھلا کہنا۔

*لین دین میں سچی قسم کھانا (جھوٹی قسم کھانا حرام ہے)

*لین دین کے لئے سب سے پہلے بازار میں داخل ہونا اور سب سے آخرمیں بازار سے باہر نکلنا۔

* تولنے اورنا پنے سے بخوبی آگاہ نہ ہونے کے باوجود مال کو تولنایاناپنا۔

____________________

(١) توضیح المسائل، مسئلہ ٢٠٥٤

(٢) توضیح المسائل، مسئلہ ٥١ ٢٠

۲۵۲

*معاملہ طے پانے کے بعد قیمت میں کمی کی درخواست کرنا۔(١)

خریدوفروخت کے احکام :

١۔ گھر یا کسی اور چیز کو حرام کاموں کے استعمال کے لئے بیچنا یا کرایہ پر دینا حرام ہے۔(٢)

٢۔ گمراہ کرنے والی کتابوں کالین دین،تحفظ، لکھنا، اور پڑھانا حرام ہے۔ زلیکن اگریہ کام ایک صحیح مقصد کے پیش نظر، جیسے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے انجام پائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(٣)

٣۔بیچنے والی چیز کو کسی گھٹیایا کم قیمت والی چیزکے ساتھ ملانا، حرام ہے۔جیسے عمدہ میوے ڈبہ کی اوپروالی تہہ میں رکھنا اوراس کی نچلی تہہ میں گھٹیا میوے رکھنا اسے اچھے میووں کے عنوان سے بیچنایا دودھ میں پانی ملاکر بیچنا۔(٤)

٤۔ وقف کیا گیا مال نہیں بیچاجاسکتاہے، مگریہ کہ یہ مال خراب ہو رہا ہو اور استعمال کے قابل نہ رہاہو، جیسے مسجد کا فرش مسجد میں استعمال کے قابل نہ رہاہو۔(٥) ٭٭

٥۔کرایہ پر دئے گئے مکان یا کسی اور چیز کو بیچنے میں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن کرایہ پر دی گئی مدت

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٥٠١

(٢) تحریر الوسیلہ، ج١،ص ٩٦ ٠٤م ١٠۔ توضیح المسائل ٢٠٦٩.

(٣)تحریر الوسیلہ، ج١،ص ٣٩٨ م ١٥

(٤) تحریر الوسیلہ، ج١،ص٤٩٩، توضیح المسائل،٢٠٥٥.

(٥) تحریر الوسیلہ، ج١، ص٥١٦، الرابع، توضیح المسائل،م ٩٤ ٢٠

*(گلپائیگانی )اگرگمراہ کرنے کا سبب بنے تو حرام ہے (حاشیہ وسیلہ نجات)تمام مراجع کے رسالوں میںیہ مسئلہ موجود نہیں ہے.

٭٭ (اراکی) متولی اور حاکم کی اجازت سے اسے بیچنے میںکوئی حرج نہیںہے۔(مسئلہ ٢١٢٠)

۲۵۳

کے دوران اس سے استفادہ کرنا اسی کا حق ہے جس نے اسے کرایہ پرلیا ہے۔(١)

٦۔ لین دین میں خریدوفروخت ہونے والے مال کی خصوصیات معلوم ہونی چاہئے، لیکن ان خصوصیات کا جاننا ضروری نہیں ہے جن کے کہنے یا نہ کہنے سے اس مال کے بارے میں لوگوں کی رغبت پر کوئی اثر نہ پڑے۔(٢)

٧۔ دوہم جنس چیزوں کی خریدوفروخت جو وزن کرکے یا پیمانے سے بیچی جاتی ہوں، اس سے زیادہ لینا''سود'' اور حرام ہے۔

مثلاً ایک ٹن گندم دیکر ایک ٹن اور ٢٠٠ کیلو گرام واپس لے لیا جائے۔ اسی طرح کوئی چیز یا پیسے کسی کو قرض دیئے جائیں اور ایک مدت کے بعد اس سے زیادہ لے لیں، مثلاً دس ہزار روپیہ بعنوان قرض دیدیں اور ایک سال کے بعد اس سے بارہ ہزار روپیہ لے لیں۔(٣)

معاملہ کو توڑنا:

بعض مواقع پر بیچنے والایاخریدار معاملہ کو ختم کرسکتاہے، ان میں سے بعض موارد حسب ذیل ہیں:

*خریدار یا بیچنے والے میں سے کسی ایک نے دھوکہ کھایا ہو۔

*معاملہ طے کرتے وقت آپس میں توافق کیا ہوکہ طرفین میں سے ہر کسی کو حق ہوگا کہ ایک خاص مدت تک معاملہ کو توڑ دیں ،مثلا یہ طے کیا ہو کہ طرفین میں سے جو بھی اس معاملہ پر پشیمان ہوجائے تین دن تک معاملہ کو توڑسکتا ہے ۔

*خریدا ہوا مال عیب دار ہو اور معاملہ کے بعد عیب کے بارے میں پتہ چلے۔

*بیچنے والے نے مال بیچتے وقت اس کی کچھ خصوصیات بیان کی ہوں لیکن بعد میںاس کے

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٠٩٦ ٤.

(٢)توضیح المسائل، م ٢٠٩٠

(٣) توضیح المسائل، م ٢٠٧٢ و٢٢٨٣ وتحریر الوسیلہ،ج ١، ص ٥٣٦

۲۵۴

برعکس ثابت ہوجائے ،مثلا کہے کہ یہ کاپی ٢٠٠ صفحات کی ہے بعد میں معلوم ہو جائے کہ اس سے کم تھی(١)

اگر معاملہ طے ہونے کے بعد مال کا عیب معلوم ہوجائے تو فوراً معاملہ توڑنا چاہئے اگر ایسا نہ کرے تو بعد میں معاملہ کو توڑنے کا حق نہیں رکھتا(٢) *

____________________

(١)توضیح المسائل م ٢١٢٤

(٢)توضیح المسائل م ٢١٣٢

۲۵۵

سبق ٣٩ کا خلاصہ

١۔اگر زندگی کے اخراجات حاصل کرنے کے لئے خرید وفرخت کے علاوہ کوئی اور امکان نہ ہو تو خرید فروخت واجب ہے۔

٢۔بعض مواقع پر خرید و فروخت حرام ہے،ایسے چند مواقع حسب ذیل ہیں:

نجاسات کا لین دین ،جیسے مردار ۔

گمراہ کنندہ کتابوں کا لین دین ۔

دشمنان اسلام کو ایسی چیز بیچنا جو ان کی تقویت کا سبب بنے ۔

دشمنان اسلام کے ہاتھ اسلحہ بیچنا ۔

٣۔ بعض مواقع پر خرید وفروخت مستحب ہے اور بعض مواقع پر مکرو ہ ہے ۔

٤۔مستحب ہے کہ بیچنے والا قیمت کے بارے میں گاہکوں کے درمیان فرق نہ کرے ،مال کی قیمت پر سختی نہ کرے اور معاملہ توڑنے کی درخواست کو قبول کرے ۔

٥۔مال کی تعریفیں کرنا ،معاملہ میں سچی قسم کھانا اور اسی طرح معاملہ کے بعد قیمت کم کرنے کی درخواست کرنا مکروہ ہے ۔

*(گلپائیگانی)اگر مسئلہ کو نہیں جانتا ، تو جب بھی آگاہ ہوجائے معاملہ کو توڑسکتا ہے ۔(خوئی)ضروری نہیں ہے کہ معاملہ کو فورا توڑدے بلکہ بعد میں بھی معاملہ کو توڑنے کا حق رکھتا ہے ۔

٦۔حرام کام کے استفادہ کے لئے گھر کو بیچنا یا کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے ۔

٧۔گمراہ کن کتابوں کی خرید وفروخت ،تالیف ،تحفظ ،تدریس اور مطالعہ حرام ہے ،مگریہ کہ مقصد صحیح ہو۔

٨۔موقوفہ مال کو بیچنا جائز نہیں ہے۔

٩۔بیچنے والی چیز کو کم قیمت یا گھٹیا چیز سے ملانا جائز نہیں ہے ۔

١٠۔معاملہ میں مال کی خصوصیات معلوم ہونی چا ہئے ۔

١١۔معاملہ اور قرض کے لین دین میں سود حرام ہے ۔

١٢۔اگر بیچنے والے یا خریدار نے معاملہ میں دھوکہ کھایا ہو تو وہ معاملہ کو توڑسکتے ہیں ۔

١٣۔اگر بیچا ہوا مال عیب دار ہو اور خریدار معاملہ انجام پانے کے بعد متوجہ ہوجائے تو معاملہ کو توڑسکتا ہے ۔

۲۵۶

سوالات:

١۔ خرید و خروخت کس حالت میں مستحب ہے۔؟

٢۔شطرنج،تاش اور سنتور کی خریدو فروخت کا کیا حکم ہے؟

٣۔ حرام خریدوفروخت کے پانچ موارد بیان کیجئے.

٤۔ معاملہ میں قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟

٥۔ مکان کو ایسے انقلاب مخالفین کے ہاتھ کرایہ پر دینے کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوری کے خلاف سرگرم عمل رہتے ہیں ؟

٦۔سود کی وضاحت کرکے اس کی تین مثالیں بیان کیجئے؟

۲۵۷

سبق نمبر ٤٠

کرایہ، قرض اور امانتداری

کرایہ:

اگر اجارہ پر دینے والا، مستأجر سے کہے : '' میں نے اپنی ملکیت تجھے کرایہ پر دیدی'' اور وہ جواب میں کہے:''میں نے قبول کیا'' تو اجارہ صحیح ہے، حتی اگر کچھ نہ کہے اور صاحب مال اجارہ پر دینے کی نیت سے مال کومستاجر کے حوالے کردے اور وہ بھی اجارہ کے قصد سے اسے لے لے، تو اجارہ صحیح ہے، مثلا ًگھر کی چابی اسے دیدے اور وہ اسے لے لے ۔(١)

اجارہ پر دئیے جانے والے مال کے شرائط:

اجارہ پر دی جانیوالی چیزکے کچھ شرائط ہونے چاہئے، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

*وہ مال معین اور مشخص ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص (مشخص کرنے کے بغیر) کہے :'' اس گھر کے کمروں میں سے ایک کمرہ کو تجھے اجارہ پر دیتا ہوں ''تو اجارہ صحیح نہیں ہے۔

*مستاجر کو مال دیکھنا چاہئے یا اس مال کی خصوصیات کو اس کے لئے ایسے بیان کیا جائے کہ پوری طرح معلوم ہوجائے۔

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٢١٧٧

۲۵۸

*مال ان چیزوں میں سے نہ ہوکہ استعمال کرنے سے اصل مال نابود ہوجائے، لہٰذا روٹی، میوہ اور دیگر کھانے پینے کی چیزوں کو اجارہ پر دینا صحیح نہیں ہے۔(١)

کرایہ کے احکام:

١۔ اجارہ میں مال کے استفادہ کی مدت معین ہونی چاہئے،مثلاًکہا جائے:''ایک سال'' یا '' ایک ماہ''(٢)

٢۔ اگر مال کا مالک، اجارہ پر دی جانیوالی چیز کو مستاجر کے حوالے کرے، اگر چہ مستاجر اسے اپنے قبضے میں نہ لے یا قبضے میں لے لے مگر اجارہ کی مدت تمام ہونے تک اس سے استفادہ نہ کرے تو بھی اسے اجارہ کی رقم ادا کرنی ہوگی۔(٣)

٣۔ اگر کوئی شخص کسی مزدور کو ایک خاص دن کے لئے کام پرمعین کرے،مثال کے طور پر اس مزدور کی ذمہ داری یہ ہوکہ انیٹوں یا چونے وغیرہ کو باہر سے اٹھا کر بلڈنگ کے اندر لے جائے، اور یہ مزدور کام پر حاضر ہوجائے، اگر اس کے بعد اس کو کوئی کام نہ دیا جائے، مثلاً بلڈنگ کے اندرلے جانے کیلئے اینٹیںنہ ہوں، تو بھی اس کی مزدوری اسے دینی چاہئے۔(٤)

٤۔ اگر کوئی صنعت گر کسی چیز کو لینے کے بعد اسے ضائع کردے ،تو اسے اس نقصان کی تلافی کرنی چاہیئے، مثال کے طور پر ایک مکینک گاڑی کو کوئی نقصان پہنچائے۔(٥) *

٥۔ اگر کوئی شخص کسی گھر، دکان یا کمرہ کو اجارہ پر لے اور اس کا مالک یہ شرط لگائے کہ صرف وہ

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٢١٨٤

(٢) توضیح المسائل ، م ٢١٨٧

(٣)توضیح المسائل،م ٢١٩٦

(٤)توضیح المسائل،م ٢١٩٧

(٥)توضیح المسائل،م ٢٢٠٠

*یہ مسئلہ حضرت آیت ١اللہ اراکی کے رسالہ میں نہیں ہے۔

۲۵۹

خود اس سے استفادہ کرسکتا ہے تو مستاجر کو حق نہیں ہے کسی اور کو اسے اجارہ پر دیدے۔(١)

قرض

قرض دینا مستحب ہے جس کے بارے میں قرآن واحادیث میں بہت تاکید کی گئی ہے اور قرض دینے والے کو قیامت کے دن اس کا بہت زیادہ صلہ ملے گا۔

قرض کی قسمیں :

١۔ مدت دار: یعنی قرض دیتے وقت معین ہو کہ قرض لینے والا کس وقت قرض کو ادا کرے گا۔

٢۔ بغیر مدت: وہ ہے جس میں قرض ادا کرنے کی تاریخ معین نہ ہو۔

قرض کے احکام :

١۔ اگر قرض معین مدت والاہو توقرض خواہ مدت تمام ہونے سے پہلے طلب نہیں کرسکتا ہے *(٢)

٢۔ اگر قرض معین مدت والا نہ ہو تو قرض خواہ کسی بھی وقت طلب کرسکتا ہے۔(٣)

٣۔قرض خواہ کے طلب کرنے پر اگر قرض دار اسے اداکرنے کی طاقت رکھتاہوتو۔فوراً ادا کرنا چاہئے، تاخیر کی صورت میں گناہ گارہے۔(٤)

٤۔ اگر کوئی شخص کسی کو کچھ پیسے دے اور شرط کرے کہ ایک مدت کے بعد، مثلاً ایک سال کے بعد اس سے بیشتر پیسے وصول کرے گا تو وہ سود اور حرام ہے، مثلاً ایک لاکھ روپیہ دے کر یہ شرط کرے کہ ایک سال کے بعد اس سے ایک لاکھ بیس ہزار وپیہ وصول کرے گا۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل،م ٢١٨٠ (٢)توضیح المسائل، م٢٢٧٥ (٣) توضیح المسائل،م ٢٢٧٥ (٤)توضیح المسائل م٢٢٧٦(٥)توضیح المسائل م٢٢٨٨

* (تمام مراجع)احتیاط واجب کے طور پر مسئلہ ٢٢٨٩)

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326