احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211929 / ڈاؤنلوڈ: 4588
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

امانت داری

اگر انسان اپنا مال کسی کو د یدے او رکہے: یہ تمہارے پاس امانت رہے، اور وہ بھی قبول کرلے تو اسے امانت داری کے احکام پر عمل کرنا چاہئے۔(١)

امانت داری کے احکام:

١۔جو شخص امانت کا تحفظ نہ کرسکے، اسے احتیاط واجب *کی بنا پر امانت کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔(٢)

٢۔ جو شخص کسی چیز کو امانت کے طور پر رکھتا ہے جب بھی چاہے اسے واپس لے سکتا ہے، او رجو امانت قبول کرتا ہے، وہ جب بھی چاہے اسے صاحب امانت کو واپس کرسکتا ہے۔(٣)

٣۔ جو شخص امانت قبول کرتا ہے، اگر اسے رکھنے کے لئے اس کے پاس کوئی مناسب جگہ نہ ہو، تو اسے اس امانت کے لئے مناسب جگہ مہیا کرنا چاہئے، مثلاً اگر پیسے ہیں اور گھر میں ان کی حفاظت نہیں کرسکتا تو انھیں بینک میں رکھے۔(٤)

٤۔ امانتدار کو امانت کا ایسا تحفظ کرنا چاہئے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس نے امانت میں خیانت اور اس کے تحفظ میں کوتاہی کی ہے۔(٥)

٥۔ اگر لوگوں کی امانت ضائع ہوجائے:

الف: اگر امین نے اس کی رکھوالی اور حفاظت میں کوتاہی کی ہوتو اسکی تلافی کرنا ضروری ہے۔

ب۔ اگر اس کے تحفظ میں کوتاہی نہ کی ہو اور اتفاقاًوہ مال ضائع ہوجائے، مثلا ًسیلاب آجائے تو امانت دارضامن نہیں ہے، اوراسکی تلافی بھی ضروری نہیںہے۔(٦)

____________________

(١)توضیح المسائل م٢٣٢٧ (٢)توضیح المسائل م٢٢٣٠(٣)توضیح المسائل م٢٣٣٢ (٤)توضیح المسائل، م ٢٣٣٤ (٥) توضیح المسائل،م ٢٣٣٥

(٦) توضیح المسائل،م ٢٣٣٥

*(اراکی) قبول کرنا جائز نہیں ہے( گلپائیگانی) جائز نہیں ہے قبول کرے مگریہ کہ صاحب مال سے کہہ دے کہ امانت کا تحفظ نہیں کرسکتاہے۔(م ٢٣٣٩)

۲۶۱

سبق:٤٠کا خلاصہ

١۔ اجارہ پر دیا جانے والا مال مشخص ومعین ہو اور مستاجر اسے دیکھے یا اس کی خصوصیات کو جان لے۔

٢۔ کسی ایسی چیز کو اجارہ پردینا صحیح نہیں ہے جس کو استعمال کرنے سے اصل مال نابود ہوجائے، جیسے کھانے پینے کی چیزیں۔

٣۔ اجارہ میں مال کے استفادہ کی مدت معین ہونی چاہئے۔

٤۔ جب صاحب مال اجارہ پر دینے والی چیز کو مستاجر کے حوالے کرے، تو مستاجر کو اس کی اجرت ادا کرنی چاہئے،اگرچہ اس مال سے استفادہ بھی نہ کرے۔

٥۔ اگر اجارہ میں شرط ہو کہ اس مال سے صرف خود مستاجر استفادہ کرسکتاہے تو وہ کسی دوسرے کو وہ مال اجارہ پر نہیں دے سکتا ہے۔

٦۔ مدت دار قرض میں قرض خواہ مدت تمام ہونے سے پہلے قرض دار سے طلب نہیں کرسکتا ہے۔

٧۔ اگر قرض مدت دارنہ ہو تو قرض خواہ کسی بھی وقت قرض دار سے طلب کرسکتاہے۔

٨۔ اگر قرض خواہ، اپنا قرض واپس لینا چاہے اور قرض دار اسے ادا کرسکتا ہوتو اس میں تاخیر جائز نہیں ہے۔

٩۔ قرض پر سود لینا حرام ہے۔

١٠۔ جو شخص امانت داری نہ کرسکتا ہو، احتیاط واجب کی بناپر اسے امانت کو قبول نہیں کرنا چاہیئے۔

١١۔ صاحب مال جب بھی چاہے،امانت دارسے اپنا مال لے سکتاہے۔

١٢۔ اگر امانت دار، لوگوں کے مال کے تحفظ میں کوتاہی کرے اور مال ضائع ہوجائے یا اسے نقصان پہنچے، تو وہ ضامن ہے۔

۲۶۲

سوالات:

١۔ قابل اجارہ اورنا قابل اجارہ مال کی پانچ پانچ مثالیں بیان کیجئے۔

٢۔ ایک معمار ایک مزدور کو ٢٥ روپیہ روزانہ مزدوری پر لے گیا ،اگر بلڈنگ پرپہنچنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ وہاں پر پانی نہیں ہے ،کیا مزدور کو کسی اجرت کے بغیر جواب دے سکتاہے؟

٣۔ قرض کی مختلف قسموں کی وضاحت کرکے ہر ایک کی مثال بیان کیجئے.

٤۔قرض میں سود کی صورت کی وضاحت کرتے ہوئے مثال دیجئے۔

٥۔ اگر کسی کی امانت چوری ہوجائے تو امانت دار کی ذمہ داری کیا ہے؟

٦۔ قرض اور امانت میں کیا فرق ہے؟

۲۶۳

سبق نمبر ٤١

عاریت، صدقہ، پیدا شدہ اشیائ

عاریت:

عاریت: یعنی انسان اپنا مال کسی کو دیدے تاکہ وہ اس سے استفادہ کرے اور اس کے مقابلہ میں کوئی چیزاس سے نہ لے، مثلاً کوئی شخص اپنی سائیکل کسی کودیدے تاکہ وہ گھر تک چلا جائے۔(١)

٢۔ جو شخص کسی چیز کو عاریت کے طور پر لے تو اسے اس کی رکھوالی کرنی چاہئے۔

٣۔ عاریت پر لیا گیا مال اگر ضائع ہوجائے یا عیب دار ہوجائے تو:

الف: اگر اس کے تحفظ میں کوتاہی اور استفادہ کرنے میں زیادہ روی نہ کی ہو تو ضامن نہیں ہے۔

ب۔ اگر اس کے تحفظ میں کوتاہی اوراستفادہ کرنے میں زیادہ روی کی ہوتو اس کی تلافی کرنی چاہئے۔(٢)

٤۔اگر پہلے سے شرط لگائی گئی ہوکہ مال پر ہر قسم کے نقصان کی صورت میں عاریت پر لینے والا

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٢٣٤٤

(٢)توضیح المسائل، م ٢٣٤٤

۲۶۴

ضامن ہوگا،تو اس کے نقصان کی تلافی کرنی چائیے۔(١)

صدقہ:*

صدقہ ایک مستحب کام ہے، اس کے بارے میں قرآن مجید کی آیات اور معصومین علیہم ا لسلام کی روایات میں بہت تاکید ہوئی ہے اور اس کے لئے بے شمار ثواب ہے، یہاں تک کہاگیا ہے:

''صدقہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث اور اچانک موت کے لئے رکاوٹ ہے اور آخرت میں گناہان کبیرہ سے پاک کرتاہے اور قیامت کے حساب وکتاب کو آسان بناتاہے''۔

اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ذیل میں اس سے متعلق چند احکام کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

صدقہ کے احکام:

١۔ صدقہ دیتے وقت انسان کو قصد قربت کرنا چاہئے، یعنی صرف خدا کے لئے ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی ریااور خودنمائی نہیں ہونی چاہئے.(٢)

٢۔صدقہ کو واپس لینا جائز نہیں ہے۔(٣)

٣۔ صدقہ سید پر بھی حلال ہے، اگرچہ غیر سید کی زکات سیدپر حرام ہے۔(٤)

٤۔ اس کافر کو صدقہ دینا جائز ہے جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہو اور پیغمبر یا ائمہ علیہم السلام کو برا بھلا نہ کہتا ہو۔(٥)

٥۔بہترہے صدقہ پوشیدہ صورت میں دیا جائے، مگریہ کہ اعلانیہ طریقہ سے دوسروں کی حوصلہ

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٢٣٤٤

(٢) تحریر الوسیلہ، ج ٢، ص ٩٠، م١

(٣) تحریر الوسیلہ، ج ٢، ص ٩٠، م٢

(٤) تحریر الوسیلہ، ج ٢، ص٩١ م٣

(٥) تحریر الوسیلہ ، ج ٢، ص ٩١، م ٥

*صدقہ کے احکام تحریر الوسیلہ سے نقل کئے گئے ہیں۔

۲۶۵

افزائی ہوجائے، لیکن زکات اعلانیہ طور پر دینی چاہئے۔(١)

٦۔ بھیک مانگنا اور بھکاری کوواپس کر دینا (اسے کچھ نہ دینا)مکروہ ہے۔(٢)

گم شدہ چیزوں کا اٹھانا

١۔پڑی ہو ئی کسی چیز کو اٹھانا مکروہ ہے۔

٢۔ اگرکوئی شخص کسی چیز کو پائے لیکن اسے نہ اٹھائے تو اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

٣۔ اگرکوئی شخص کسی چیز کو پائے اور اسے اٹھالے تو اس کے حسب ذیل خاص احکام ہیں:

الف: اگر صاحب مال کا کوئی پتہ معلوم نہ ہوتو احتیاط واجب ہے اسے صاحب مال کی طرف سے صدقہ دیدے۔

ب: اگر پتہ معلوم ہوتو:

١۔ اس کی قیمت چاندی کے سکوں کے ١٢٦ عدد چنوں کے دانوں سے کم ترہو:(٣)

اگر مالک مشخص ومعلوم ہوتو اسے پہنچانا چاہئے۔

اگر مالک معلوم نہ ہوتو اسے اپنے لئے اٹھاسکتا ہے۔

٢۔ اگر اس کی قیمت چاندی کے سکوں کے ١٢٦ عدد چنوں کے دانوں کے برابر ہو، تو ایک سال تک اس کے بارے میں اعلان کردے، اگر مالک مل جائے تو اسے دیدے اور اگر نہ مل سکے تو اسے :

* اپنے لئے رکھ سکتا ہے۔

*مالک کے ملنے تک اپنے پاس محفوظ رکھ سکتا ہے۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ٢، ص ،٩١ م٦

(٢) تحریر الوسیلہ، ج ٢، ص ٩٢، م٩۔١٠

(٣) ١٢٦ عدد چنے کے دانوں کے برابر چاندی کے سکے کی قیمت آجکل تقریبا ًساڑھے سات روپئے ہے۔ ( ١٩٩٣ئ)

۲۶۶

* احتیاط مستحب ہے کہ اسے مالک کی طرف سے صدقہ دیدے۔(١)

٤۔ مال کے مالک کا پتہ کرنے کے لئے،ایک ہفتہ تک روزانہ ایک بار اس کے بعد ایک سال تک ہفتہ میں ایک بار نماز جماعت یا بازار میںجہاں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اعلان کرے۔(٢) *

٥۔احتیاط واجب کی بناء پرفوراًاعلان کرے اور اس میں تاخیرنہ کرے۔(٣)

٦۔ اگر جانتا ہو کہ اعلان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے نیز اس کی تلاش کرنے سے نا امید ہوتو اعلان کرنا ضروری نہیں ہے۔(٤)

٧۔ اگر کوئی بچہ کسی مال کو پائے تو اس کے سرپرست (باپ یا دادا) کو اس کا اعلان کرنا چاہئے۔(٥) ٭٭

جوتے کا گم ہونا

اگر کسی شخص کا جوتے گم ہوجائیں لیکن اس کی جگہ پر کوئی دوسرے جوتے رہ گئے ہوں تومسئلہ کی چند صورتیں ہیں:

١۔ جانتا ہوکہ کھوئے ہوئے جوتے کی جگہ پر رکھے گئے جوتے اسی کے ہیں جس نے اس کے

____________________

(١)توضیح المسائل ،م٥٦٤ ٢ تا ٢٥٦٨.

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ٢،ص٢٢٨، م١٩و ٣١

(٣)تحریر الوسیلہ،ج ٢،ص ٢٢٦،م٩

(٤)تحریر الوسیلہ،ج ٢،ص ٢٢٦،م١٣

(٥)توضیح المسائل، م ٢٥٧١۔

*(گلپا یگانی) ضروری نہیں ہے ہر روز اعلان کرے بلکہ اگر ایک سال تک ایسے کہے کہ لوگ کہیں اعلان کیا گیا ہے تو کافی ہے.

٭٭(خوئی) اس کا ولی اعلان کرسکتااس کے بعد اسے اٹھا لے اور مالک کی طرف سے صدقہ دیدے (اراکی)احتیاط واجب کی بنا پر اس کا سرپرست اعلان کرے مسئلہ ٢٥٨٥

۲۶۷

جوتے لئے ہیں،تو اس صورت میں مالک کی تلاش سے ناامیدہویااس کی تلاش مشکل ہو تو اسے اپنے جوتے کے بدلے میں اٹھا سکتا ہے البتہ اگر اس جوتے کی قیمت اپنے جوتے سے زیادہ ہو اور مالک کوتلاش کرنے سے ناامید ہوجائے تو حاکم شرع کی اجازت سے اسے صدقہ دیدے۔

٢۔ احتمال دے کہ رکھا ہوا جوتا اس شخص کا نہیں ہے جس نے اس کا جوتا لیا ہے، اگر اس جوتے کو اٹھالے تو جوتے کے مالک کو تلاش کرنا ضروری ہے *اور اگر اس کو تلاش کرنے میں نا امید ہوجائے تو اس کی طرف سے کسی فقیر کو صدقہ دیدے( لیکن بہتر ہے اسے نہ اٹھائے)(١)

____________________

(١)توضیح المسائل، م ٢٥٨١

*مل جانے والے مال کا حکم رکھتا ہے۔

۲۶۸

درس: ٤١ کا خلاصہ

١۔عاریت پر لینے والی چیز کا تحفظ کرنا چاہئے

٢۔ اگر عاریت پر لئے گئے مال کی رکھوالی میں لینے والا کوتاہی کرے اور مال کو نقصان پہنچے یا ضائع ہوجائے تو وہ ضامن ہے۔

٣۔ مستحب صدقہ سید پر بھی حلال ہے، اگرچہ غیر سید کی زکات سید پر حرام ہے۔

٤۔ صدقہ کو پوشیدہ دینا بہتر ہے، مگریہ کہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا مقصود ہو۔

٥۔ بھیک مانگنا اور بھکاری کو جواب دینا، دونوں چیزیں مکروہ ہیں

٦۔کسی پائی گئی چیز کو اٹھانا مکروہ ہے۔

٧۔ اگرکوئی شخص کسی چیز کو پانے کے بعد اٹھالے تو اسے مالک تک پہنچانا چاہئے۔

٨۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو پا نے کے بعد اٹھالے اور اس کی قیمت ایک درہم سے کم ہوتو اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔

٩۔ اگر پائی گئی چیز کی قیمت ایک درہم سے زیادہ ہو اور کوئی ایسی علامت موجود ہوکہ اس کے مطابق مالک مل سکتا ہے تو ایک سال تک اس کا اعلان کرے۔

١٠۔ اگر جانتا ہو کہ اعلان کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے یا مالک کو تلاش کرنے سے ناامید ہو، تو اس صورت میں اعلان کرنا لازم نہیںہے۔

١١۔ اگر نالغ بچہ کسی چیز کو پا ئے تو اس کے سرپرست کو اس کا اعلان کرنا چاہئے۔

١٢۔ اگر کسی کا جوتا کسی نے لے لیا ہو اور وہ جان لے کہ اس کی جگہ پر چھوڑا گیا جوتا اُسی کا ہے جس نے اس کا جوتا لے لیا ہے، تو اس جوتے کو اپنے جوتے کی جگہ پراستعمال کرسکتاہے۔

۲۶۹

سوالات:

١۔عاریہ کی وضاحت کریں اور بتائیں کے امانت اور عاریہ میں کیا فرق ہے؟

٢۔ اگر عاریہ پر لی ہو ئی چیز میں نقصان ہو جائے چاہے عاریہ لینے والے نے اس کی حفاظت میں کوتاہی بھی نہ کی ہو تو کس صورت میں عاریہ لینے والا ضامن ہے؟

٣۔ صدقہ واپس لینے کا کیا حکم ہے؟

٤۔ زلزلہ سے متاثر غیر مسلم کو صدقہ دینے کا کیا حکم ہے؟

٥۔ اگر مدرسہ میںکوئی کتاب پڑی مل جائے تو وظیفہ کیا ہے؟

۲۷۰

سبق نمبر ٤٢

کھانا اور پینا

خداوندکریم نے انسان کے اختیار میں حسین فطرت، تمام حیوانات، میوے اور مختلف سبزیاں وغیرہ قرار دی ہیں تاکہ وہ ان سے کھانے، پینے، پوشاک، رہائش اور اپنی دیگر تمام ضروریات میں استفادہ کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی خداوند متعال نے انسان کے جان کے تحفظ، جسم وروح کی سلامتی، نسل کی بقا اور دیگر لوگوں کے حقوق کے احترام کے لئے قوانین وضو ابط مقرر فرمائے ہیں کہ اس سبق میں کھانے پینے سے متعلق حسب ذیل چند کی وضاحت کرتے ہیں:

کھانے کی چیزوں کی اقسام :

١۔ نباتات :

میوے

سبزیاں

٣۔ حیوانات

چوپائے

پرندے

سمندری

۲۷۱

پالتو

جنگلی

خوراک کے احکام(١)

نباتاتی غذائیں:

تمام میوے اور سبزیاں حلال ہیں، مگر یہ کہ ان میں سے کوئی چیزبدن کے لئے مضرہو۔

حیوانی عذائیں:

چوپائے:

پالتو:

١۔حلال گوشت:

بھیڑکی تمام قسمیںز

گائے **

اونٹ

٢۔ مکروہ:

گھوڑا

خچر

گدھا

۲۷۲

٣۔ حرام گوشت :

کُتَّا

بلّی

باقی حیوانات

جنگلی:

ا۔حلال گوشت:

ہرن

گائے

جنگلی بکری

جنگلی گدھا

٢۔ حرام گوشت:

تمام درندے حیوانات جیسے: بھیڑیئے اور شیر حرام ہیں۔(١)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج١، ص،٦ ١٥ ،م٥

*بکری بھی ایک قسم کی بھیڑشمار ہوتی ہے.

٭٭بھینس بھی ایک قسم کی گائے ہے اور حلال گوشت ہے.

۲۷۳

چند مسائل:

١۔ تمام درندے حیوانات، حرام گوشت ہیں، اگرچہ قدرت ودرندگی کے لحاظ سے لومڑی کی طرح کمزور ہوں۔

٢۔ خرگوش کا گوشت کھانا حرام ہے۔

٣۔ تمام قسم کے کیڑے حرام ہیں۔(١)

پرندے:

* درج ذیل پرندے حلال گوشت ہیں:

* کبوتروں کی تمام قسمیں (فاختہ بھی کبوتر کی ایک قسم ہے)

*چڑیوں کی تمام قسمیں (بلبل بھی ایک قسم کی چڑیاہے)

* مرغی اور مرغا

*درج ذیل پرندے حرام گوشت ہیں:

* چمگادڑ

* مور

* کوا (زاغ بھی ایک قسم کا کواہے)

* عقاب جیسے چنگل رکھنے والے تمام پرندے۔(٢)

چند مسائل:

١۔ہدہد*اور ابابیل کا گوشت کھانا مکروہ ہے(٣)

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١،ص ١٥٧،م٦

(٢) تحریر الوسیلہ، ج١، ص ١٥٦، م٦

(٣)توضیح المسائل،م ٢٦٢٤

*(گلپائیگانی) احتیاط واجب ہے کہ ہد ہد کا گوشت کھانے سے اجتناب کیا جائے (مسئلہ ٣٣ ٢٦)

۲۷۴

٢۔ حلال گوشت پرندوں کے انڈے حلال اور حرام گوشت پرندوں کے انڈے حرام ہیں۔(١)

٣۔ ٹڈی حلال گوشتپرندوں میں سے ہے۔(٢)

سمندری جانور

١۔سمندری جانوروں میں صرف فلسدار(چھلکے والی) مچھلی اور بعض پرندے حلال گوشت ہیں۔

٢۔ جھینگا، جو در اصل ایک سمندری ٹڈی ہے اور پرندوں میں شمار ہوتا ہے، حلال گوشت ہے.(٣)

چند مسائل:

١۔ مٹی کھاناحرام ہے(٤)

٢۔ بیماری سے شفاپانے کے لئے تھوڑی سی خاک شفاکھانا مشکل نہیں ہے۔(٥)

٣۔ نجس چیز کا کھانا اور پینا حرام۔(٦)

٤۔ جو چیز انسان کے لئے مضر ہواس کا کھانا حرام ہے،*مثلا ًایک بیمار کے لئے اگر چربی دار غذا کھانا مضر ہوتو اس کے لئے اس کا کھانا حرام ہے۔(٧)

٥۔ چوپائے حیوانات کے خصیے کھانا حرام ہے۔(٨)

٦۔ شراب اورہر مست کرنے والی سیّال چیز کا پینا حرام ہے۔(٩)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ،ج ٢، ص ٥٨ ١،م٢ ١ (٢) توضیح المسائل،م ٢٦٢٢(٣) تحریر الوسیلہ ج ٢،ص ١٥٥،م ١

(٤) تحریر الوسیلہ ج ٢،ص ١٦٤،م٧(٥) توضیح المسائل،م٢١٢٨(٦)توضیح المسائل، م ١٤١

(٧)توضیح المسائل،م ٢٦٣٠ (٨)توضیح المسائل،م٢٦٢٦(٩)توضیح المسائل،م ١١١ و ٢٦٣٢

* (خوئی) ایک ایسی چیز کا کھانا جو موت کا سبب ہو یا کلی طور پر انسان کے لئے مضر ہو حرام ہے .(مسئلہ ٢٦٣٩)

۲۷۵

بھوک یا پیاس سے جان بہ لب مسلمان کو کھانا اور پانی دے کر موت سے نجات دلاناہر مسلمان پر واجب ہے(١)

کھانا کھانے کے آداب

مستحبات :

١۔کھانا کھانے سے پہلے اور اس کے بعدہاتھ دھونا ۔

٢۔کھانا کھانے کی ابتداء میں''بسم اللہ ''اور آخر پر ''الحمد للہ ''کہنا ۔

٣۔دائیں ہاتھ سے کھانا ۔

٤۔چھوٹے چھوٹے لقمے اٹھانا۔

٥۔ کھانے کو اچھی طرح چبانا ۔

٦۔پھلوں کو کھانے سے پہلے دھونا۔

٧۔ اگر چند لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو ہر ایک اپنے سامنے سے غذا اٹھاکے کھائے۔

٨۔ میزبان سب سے پہلے کھانا کھانا شروع کرے اور سب سے آخر میں کھانے سے ہاتھ کھینچے۔(٢)

مکروہات:

١۔ سیر ہونے کے باوجود کھاناکھانا۔

٢۔ پیٹ بھر کے کھانا (زیادہ کھانا)

٣۔ کھانا کھاتے وقت دوسروں کے چہرے پرنگاہ ڈالنا۔

____________________

(١)توضیح المسائل،م٢٦٣٥

(٢)توضیح المسائل، م ٢٦٣٦

۲۷۶

٤۔ گرم کھانا کھانا۔

٥۔ کھاناکھاتے وقت اس پر پھونک مارنا۔

٦۔ روٹی کو چاقو سے ٹکڑے کرنا۔

٧۔کھانا کھانے کے برتن کے نیچے روٹی رکھنا۔

٨۔پھل کو پوری طرح کھانے سے پہلے پھینک دینا۔(١)

پانی پینے کے آداب

مستحبات:

١۔ دن کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

٢۔پانی پینے کی ابتداء میں'' بسم اﷲ''اور آخر پر ''الحمد ﷲ ''کہنا۔

٣۔پانی کو تین بارر ک رک کے پینا۔

٤۔ پانی پینے کے بعد امام حسین علیہ السلام اورآپ کے خاندان واصحاب پر درددبھیجنا اور آپ کے قاتلوںپر لعنت کرنا۔(٢)

مکروہات:

١۔ زیادہ پینا۔

٢۔ چربی دار غذا کے بعد پانی پینا۔

٣۔ بائیں ہاتھ سے پانی پینا۔

٤۔ رات کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

____________________

(١)توضیح المسائل،م ٢٦٣٧

(٢)توضیح المسائل ،م٢٦٣٨

(٢)توضیح المسائل ،م٢٦٣٩

۲۷۷

درس: ٤٢ کاخلاصہ

١۔ پالتوں حیوانوں میں بھیڑ، گائے اور اونٹ کا گوشت حلال ہے اور گھوڑے، خچر اور گدھے کا گوشت مکروہ ہے اور کتے، بلی اور دیگر تمام حرام گوشت حیوانوں کا گوشت حرام ہے ۔

٢۔ جنگلی حیوانوں میں ہرن، گائے، کوہستانی بکری اور جنگلی گدھے کا گوشت حلال ہے۔

٣۔ بھیڑیئے اور شیر جیسے تمام درندے حرام گوشت ہیں۔

٤۔خر گوش کا گوشت کھانا حرام ہے۔

٥۔ ہر قسم کے کیڑے حرام ہیں۔

٦۔ پرندوں میں کبوتر، چڑیوں کی تمام قسمیں اور مرغی ومرغے حلال گوشت ہیں۔

٧۔ چمگادڑ،مور، کوے اور چنگل دار پرندے حرام گوشت ہیں۔

٨۔ سمندری جانوروں میں صرف فلس دار مچھلی اور چند آبی پرندے حلال گوشت ہیں۔

٩۔ جھینگا حلال گوشت ہے۔

١٠۔ مٹی کھانا حرام ہے۔

١١۔ نجس غذا کھانا حرام ہے۔

١٢۔ جوچیز انسان کے لئے مضرہواس کا کھانا حرام ہے۔

١٣۔ بھوک یا پیاس کی وجہ سے جاں بلب مسلمان کو کھانا اور پانی دے کر موت سے نجات دلانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

١٤۔ کھانے اور پینے کے کچھ آداب ہیں ان کی رعایت کرنا بدن کی تندرستی اور اُخروی ثواب کا سبب بنتا ہے۔

۲۷۸

سوالات :

١۔ پالتوچار پائوںمیں کون سے حیوانات حرام گوشت ہیں؟

٢۔ خرگوش کا گوشت کھانا کیسا ہے؟

٣۔ درج ذیل حیوانات حلال گوشت ہیں یا حرام گوشت؟

کوا، گدھا، سانپ،چیونٹی، گائے ، بلی،چوہا ،بھینس۔

٤۔ کبوتر، کوے اور چڑیا کے انڈے اور بھیڑکے خصیوں کا کیا حکم ہے؟

٥۔ سیگریٹ پینے کا کیا حکم ہے؟

٦۔ کھانا کھانے کے مستحبات اورمکروہات کے پانچ مورد بیان کیجئے؟

۲۷۹

سبق نمبر ٤٣

نظر اور ازدواج کرن

نظر:

خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت بینائی ہے، انسان کو چاہئے کہ اس عظیم نعمت سے اپنے اور اپنے ہم جنسوں کی ترقی وکمال کی راہ میں استفادہ کرے اور نامحرموں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرے۔ نظام قدرت اور اس کی خوبصورتی کو دیکھنے میں اگر دوسروں کی حق تلفی نہ ہوتو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن دوسروں پر نظر ڈالنے اور اپنے آپ کو نامحرموں کی نگاہ سے بچانے کے سلسلے میں کچھ خاص احکام ہیں کہ ان میں بعض کے بارے میں ہم اس سبق میں ذکر کریں گے۔

محرم ونامحرم:

محرم وہ ہے جس کے ساتھ ازدواج کرنا حرام ہے اور دوسروں پر نظر ڈالنے میں جوپابندیاںہیں وہ محرم کے بارے میں نہیں ہیں:

وہ افراد جو لڑکوں اور مردوں کے لئے محرم ہیں:

١۔ ماں، دادی اور نانی۔

٢۔بیٹی اور اولاد کی بیٹی۔

٣۔ بہن ۔

٤۔ بہن کی بیٹی۔

٥۔بھائی کی بیٹی۔

٦۔ پھوپھی( اپنی پھوپھی اور ماں اور باپ کی پھوپھیاں)

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326