احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)11%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211990 / ڈاؤنلوڈ: 4589
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

٧۔ خالہ (اپنی خالہ اور ماں اور باپ کی خالہ)۔(١)

مذکورہ افراد نسبی قرابت کی وجہ سے آپس میںمحرم ہیں اور ایک اور گروہ ازدواج کی وجہ سے لڑکوں اور مردوںپر محرم ہوتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

١۔ ساس اور اس کی ماں ۔

٢۔بیوی کی بیٹی، اگرچہ دوسرے شوہر سے ہو۔

٣۔ باپ کی بیوی (سوتیلی ماں)

٤۔ بہو(بیٹے کی بیوی)(٢)

مذکورہ عورتوں کے علاوہ تمام عورتیں نامحرم ہیں، حتی بھائی کی بیوی اور بیوی کی بہن بھی نامحرم ہیں، اگرچہ بیوی کی بہن کے ساتھ اس وقت تک ازدواج کرنا حرام ہے جب تک اس کی بہن عقد میں ہو، یعنی دوبہنوں کے ساتھ دونوں کی زندگی میں ازدواج کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر پہلی بہن مرجائے یا اسے طلاق دیدی جائے تو دوسری بہن کے ساتھ ازدواج کرسکتا ہے۔(٣)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج٢، ص ٢٦٣۔ ٢٦٤

(٢)تحریر الوسیلہ، ج٢، ص ٢٧٧، م١

(٣)تحریر الوسیلہ، ج٢، ص ٢٨٠، م١٥

۲۸۱

دوسروں پر نظر ڈالنا:

١۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے بدن کے تمام اعضاء کو دیکھ سکتے ہیں اگرچہ لذت کے لئے بھی ہو۔(١)

٢۔ میاں بیوی کے علاوہ ہر انسان کا دوسرے انسان پر لذت کی غرض سے نگاہ کرنا حرام ہے، خواہ یہ ہم جنس ہوں مرد کا مرد پر نگاہ یا غیر ہم جنس، جیسے مرد کا عورت پر نگاہ کرنا، اور خواہ محرم ہوں یا نامحرم۔ بدن کے ہر عضوپر اس طرح کی نگاہ کرنا حرام ہے۔(٢)

٣۔ عورت کے بدن پر مرد کی نظر *اگر لذت کی غرض سے نہ ہوتو اس کے حسب ذیل کچھ خاص احکام ہیں:

مرد کا عورت پر نگاہ کرنا

١۔محرم

١۔شرم گاہ ۔۔۔حرام

٢۔شرم گاہ کے علاوہ۔۔۔ جائز

٢۔نامحرم:

١۔ چہرہ اور ہاتھوں کوکلائی تک۔۔ جائز**

٢۔ بدن کے دیگر اعضائ۔۔ حرام۔(٣)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج٢، ص ٢٤٣، م ١٥۔١٩

(٢)تحریر الوسیلہ، ج٢، ص ٢٤٣، م١٥۔١٩

(٣)تحریر الوسیلہ ج٢، ص ٢٤٣ م ١٥۔ ١٩۔۔ استفتائ۔ توضیح المسائل،م ٢٤٣٣

* جو احکام مردوں کے لئے بیان کئے جاتے ہیں ان میں لڑکے شامل ہیں اور جو احکام عورتوں کے لئے بیان کئے جاتے ہیں ان میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔

٭٭ (گلپائیگانی) چہرہ اور ہاتھوںپر نگاہ کرنا حرام ہے، (خوئی) احتیاط واجب ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں پر بھی نگاہ نہ کی جائے۔(م٢٤٤٢)

۲۸۲

ازدواج

جو بیوی کے نہ ہونے کی وجہ سے حرام کا مرتکب ہوجائے، مثلا ًنامحرم پر نگاہ کرے،تو اس پر از دواج کرنا واجب ہے۔(١)

شائستہ شریک حیات :

انسان کے لئے سزاوار ہے کہ شریک حیات کے انتخاب میں ا س کی صفات کا خیال رکھے اور صرف خوبصورتی اور مال پر اکتفانہ کرے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر مبارک کے مطابق ایک شائستہ شریک حیات کی بعض خصوصیات حسب ذیل میں:

*محبت والی ہو۔

* پاک دامن اور پارسا ہو۔

*اپنے خاندان میں عزیز ہو۔

* اپنے شوہر کے تئیں متواضع ہو۔

*صرف اپنے شوہر کے لئے زینت اور سجاوٹ کرے۔

* اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔(٢)

ناشائستہ شریک حیات:

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایات میں ناشائستہ شریک حیات کی بعض صفات حسب ذیل بیان ہوئی ہیں:

* اپنے خاندان میں ذلیل ہو۔

____________________

(١)توضیح المسائل،م ٢٤٤٣

(٢)تحریر الوسیلہ،ج ٢، ص ٢٣٧

۲۸۳

* حاسد اور کینہ ورہو۔

*بے تقویٰ ہو۔

* دوسروں کے لئے سجاوٹ کرے۔

*اپنے شوہر کی فرماں بردار نہ ہو۔(١)

عقدازدواج:

١۔ ازدواج میں ایک خاص صیغہ پڑھنا ضروری ہے اور صرف لڑکی اور لڑکے کی رضا مندی کافی نہیں ہے. اس لحاظ سے صیغۂ ازدواج پڑھے جانے تک صرف منگنی محرم ہونے کا سبب نہیں بن سکتا اور صیغۂ ازدواج پڑھنے تک نامحرم ہونے میں تمام عورتوں کے ساتھ کوئی فرق نہیں ہے۔(٢)

٢۔ اگر عقدازدواج میں ایک حرف اس طرح غلط پڑھاجائے کہ اس کا معنی بدل جائے تو عقد باطل ہے۔(٣)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ، ج٢، ص ٢٣٧.

(٢)توضیح المسائل،م ٢٦٦٣

(٣)توضج المسائل، م٢٣٧١

۲۸۴

سبق ٤٣ کا خلاصہ

١۔ مندرجہ ذیل افراد رشتے کی وجہ سے مرد کے لئے محرم ہیں:

ماں، بیٹی، بہن، بہن کی بیٹی ، بھائی کی بیٹی، پھوپھی اور خالہ۔

٢۔ مندرجہ ذیل افراد ازدواج کی وجہ سے مرد پر محرم ہوتے ہیں:

بیوی، ساس، بیوی کی بیٹی، باپ کی بیوی، بہو۔

٣۔ بیوی کی بہن نامحرم ہے، اگرچہ جب تک اس کی بہن عقد میں ہے اس وقت تک اس کے ساتھ ازدواج کرنا جائز نہیں ہے ۔

٤۔میاں بیوی کے علاوہ ہر انسان کاایک دوسرے انسان کے بدن کے کسی بھی عضوپر لذت کی غرض سے نگاہ کرناحرام ہے۔

٥۔ مرد، محرم عورتوں کی شرم گاہ کے علاوہ ان کے بدن کے کسی بھی عضوپر بدون قصد لذت نگاہ کرسکتاہے۔

٦۔ مرد، نامحر م عورتوں کے چہرہ اور ہاتھوں پر بدون لذت نگاہ کرسکتا ہے۔

٧۔نامحرم عورت کے تمام اعضاء پر نگاہ کرنا حرام ہے۔

٨۔اگر انسان ازدواج نہ کرنے کے سبب گناہ کا مرتکب ہورہا ہو تو اس پر ازدواج کرنا واجب ہے۔

٩۔ ازدواج میں ایک خاص صیغہ پڑھنا ضروری ہے صرف دوطرفہ رضا مندی کافی نہیںہے۔

۲۸۵

سوالات:

١۔ ازدواج کے ذریعہ کون سے لوگ ایک دوسرے کے محرم ہوجاتے ہیں؟

٢۔ کون کو ن سی عورتیں مردوں کے لئے محرم ہیں؟

٣۔ پھوپھی اور خالہ کے بال دیکھنے کا کیا حکم ہے؟

٤۔ چچی ،ممانی کے بدن پر نگاہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

٥۔ کیا ازدواج کرنا واجب؟

۲۸۶

سبق نمبر ٤٤

مسجد، قرآن مجید اور سلام کرنے کے احکام

مسجد کے احکام:

مسجد کے سلسلے میں،درج ذیل امور حرام ہیں:

* مسجد کو سونے سے سجانا۔*

* مسجد کو بیچنا، اگرچہ خراب ہی کیوں نہ ہو۔

* مسجد کو نجس کرنااور اگر مسجد نجس ہوجائے اسے فوراً پاک کرنا چاہئے۔

* مسجد سے مٹی اور ریت اٹھالے جانا، مگریہ کہ اضافی ہو۔

*مسجد کے سلسلے میں درج ذیل امور مستحب ہیں:

*سب سے پہلے مسجدجانا اور آخر میں مسجد سے باہر آنا۔

*مسجد کے چراغ روشن کرنا۔

*مسجد کی صفائی کرنا۔

____________________

*.۔(گلپائیگانی) احتیاط واجب ہے کہ سجاوٹ نہ کرے (خوئی) احتیاط مستحب ہے(حاشیہ عروة الوثقی)

۲۸۷

*مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دائیں پائوں کو مسجد میں رکھنا۔

* مسجد سے باہر آتے وقت پہلے، بائیں پائوں کو مسجد سے باہر رکھنا۔

*تحیت مسجد کی دورکعت مستجی نماز پڑھنا۔

*خوشبو لگانا اور مسجد میں جاتے وقت بہترین لباس پہننا۔

(*)مسجد کے سلسلے میں درج ذیل امور مکروہ ہیں:

* مینار کو چھت سے بلند تر بنانا۔

* نماز پڑھے بغیر مسجد کو محل عبور قرار دینا۔

*لعاب دہن اور ناک چھڑکنا۔

* اضطرار کے بغیر مسجد میں سونا.

* اذان کے علاوہ کسی اور وجہ سے مسجد میں آواز یا فریاد بلند کرنا۔

* مسجد میں خرید وفروخت کرنا۔

* دنیوی امور پر باتیں کرنا۔

*لہسن یاپیاز کھاکر مسجد میں جاناکہ اس کی دہن کی بدبو لوگوں کی اذیت کا باعث ہو۔(١)

قرآن مجید کے احکام

١۔ قرآن مجید ہمیشہ پاک وصاف ہونا چاہئے۔ قرآن مجید کے اوراق اور اسکی تحریر کو نجس کرنا حرام ہے اور اگر نجس ہوجائے تو اسے فوراً پانی سے دھولینا چاہئے۔(٢)

____________________

(١) العروة الوثقیِ، ج١، ص ٤٥٥ و٤٥٦

(٢) توضیح المسائل، م ١٣٥

۲۸۸

٢۔ اگر قرآن مجیدکی جلد کا نجس ہونا قرآن کی بے احترامی کا سبب بنے تو اسے پانی سے دھونا چاہئے۔(١)

قرآن مجید کی تحریر کو چھونا:

١۔ بے وضو انسان کے بدن کے کسی حصے کو قرآن مجید کی تحریر سے مس کرنا حرام ہے۔(٢)

٢۔ درج ذیل موارد میں وضو کے بغیر قرآن مجید کی تحریر کو مس کرنا حرام ہے:

* قرآن مجید کی تحریر میں آیات وکلمات بلکہ حروف حتیّٰ ان کی حرکات میں کوئی فرق نہیں ہے، یعنی یہ سب تحریر میں شمار ہوتے ہیں.

* جس چیز پر قرآن مجید لکھا گیا ہو، جیسے کاغذ، زمین ، دیوار، کپڑا وغیرہ، میں کوئی فرق نہیں ہے۔

* قرآن مجید کی تحریر میں فرق نہیں ہے کہ یہ قلم سے یا چھپائی، چاک یاکسی اور چیزسے لکھی گئی ہو۔(٣)

* قرآن مجید کی تحریر اگر قرآن مجید کے علاوہ کسی اور جگہ پر بھی لکھی گئی ہو، اس کووضو کے بغیر چھونا حرام ہے، بلکہ اس کا ایک کلمہ کسی کاغذ پر ہو یا نصف کلمہ قرآن مجید کے ورق یا کسی کتاب سے جدا ہوا ہو، پھر بھی وضو کے بغیر اسے چھونا حرام ہے.

٣۔ درج ذیل صورت میں چھونا، قرآن مجید کو چھونے میں شمار نہیں ہوتا ہے:

* شیشہ یا پلاسٹک کے اوپر سے چھونا۔

*قرآن مجید کے اوراق، جلد اور تحریر کے اطراف کو چھونا۔(اگر چہ مکروہ ہے)

* قرآن مجید کے ترجمہ کو چھونا جس زبان میں بھی ہو، لیکن خدا کے نام کو جس زبان میں بھی

____________________

(١) توضیح المسائل، م ١٣٦

(٢) توضیح المسائل، م ٣١٧

(٣) العروة الوثقی ج ١، ص ١٩٠۔ ١٩١

۲۸۹

ہو،حرام ہے، جیسے ''خدا'' ۔(١)

٤۔ وہ کلمات جو قرآن اور غیر قرآن میں مشترک ہیں،جیسے ''مؤمن''''الذین''کو اگر لکھنے والے نے قرآن کے قصد سے لکھا ہوتو بغیر وضو چھونا حرام ہے۔(٢)

٥۔ جنابت کی حالت میں قرآن کی تحریر کو چھونا حرام ہے۔

٦۔ جنابت کی حالت میںقرآن مجید کے اُن سوروں کو نہیں پڑھنا چاہئے جن میں سجدے کی آیات ہیں(اس مسئلہ کی تفصیل سبق ١٠ میں بیان ہوئی ہے)(٣)

٧۔ انسان مجنب کے لئے قرآن مجید کے سلسلے میں درج ذیل کام مکروہ ہیں:

*ان سوروں میں سے سات آیات سے زیادہ تلاوت کرنا جن میں آیہ سجدہ نہ ہو۔

*اپنے بدن کے کسی حصہ سے قرآن مجید کے جلد، حاشیہ اور خطوط کے درمیانی جگہوں کو چھونا۔

قرآن مجید کو اپنے ساتھ رکھنا۔

٨۔ قرآن مجید کو اپنے ساتھ رکھنے، پڑھنے ،لکھنے اور اس کے حاشیہ کو لمس کرنے کے لئے وضو کرنا مستحب ہے۔(٤)

سلام کرنے کے احکام

١۔ دوسروں کو سلام کرنا مستحب ہے، لیکن اس کا جواب دینا واجب ہے۔(٥)

٢۔ حالت نماز میں کسی کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(٦)

____________________

(١) العروة الوثقی ج ١، ص ١٨٩۔ ١٩٠

(٢) العروة الوثقی ج ١، ص ١٩٠

(٣)توضیح المسائل،م ٣٥٥.

(٤)توضیح المسائل،م ٣٢٢.

(٥)العروة الوثقی، ج١، ص٧١٥،م٣٠

(٦) العروة الوثقی،ج١، ص١٥ ٧،م٢٩

۲۹۰

٣۔ اگر کوئی نماز گزار کو سلام کرے، تو اسے جواب دینا چاہئے،لیکن جواب میں''سلام''کو مقدم قرار دینا چاہئے، مثلا کہے: سلام علیک یا سلام علیکم۔(١) *

٤۔ نماز کی حالت میں کسی کو سلام کرنا جائز نہیں ہے۔(٢)

٥۔ سلام کا جواب فورا ًدینا چاہئے،اگر اس میں تأخیرکرے تو گناہ کا مرتکب ہوجائے گا۔(٣)

٦۔ اگر دو آدمی ایک ساتھ ایک دوسرے کو سلام کریںتو ہر ایک پر واجب ہے جواب سلام دیدے۔(٤)

٧۔ کافرکو سلام کرنا مکروہ ہے۔ اگراس نے مسلمان کو سلام کیا تو احتیاط واجب ہے کہ اس کے جواب میں کہے'' علیک''یاصرف کہے:'' سلام''٧(٥)

سلام کے آداب:

١۔مستحب ہے:

*سوار پیادہ کو سلام کرے۔

*کھڑا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔

* چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔

____________________

(١) العروة الوثقی،ج١، ص١١ ٧،م١٧

(٢) العروة الوثقی،ج١، ص١٥ ٧،م١٥

(٣) العروة الوثقی،ج١، ص٥٥٧،م٢٥

(٤) العروة الوثقی،ج١، ص١٦ ٧،م٣٦.

(٥) العروة الوثقی،ج١، ص٥١٦ ،م٣٣

*(تمام مراجع) جس طرح سلام کرے اسی طرح جواب دیا جائے یعنی اگر کہے:'' سلام علیک'' تو وہ بھی جواب میں کہے ''سلام علیک'' (حاشیہ عروة الوثقیٰ)

۲۹۱

* چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔(١)

٢۔ مستحب ہے نمازکی حالت کے علاوہ سلام کا بہتر جواب دیا جائے لہٰذا اگر کوئی کہے:'' سلام علیکم''مستحب ہے جواب میں کہاجائے: ''سلام علیکم ورحمة اللہ''(٢)

٣۔ مرد کا عورت کو سلام کرنا مکروہ ہے خاص کرجوان عورت کو۔(٣)

____________________

(١) العروة الوثقی،ج١، ص١٦ ٧،م٣٣

(٢) العروة الوثقی،ج٢، ص٨٠٤،م٤١

(٣) العروة الوثقی،ج١، ص١٧ ٧،م٣٨

۲۹۲

درس: ٤٤ کاخلاصہ

١۔ مسجد کوبیچنا اور سونے سے اس کی سجاوٹ کرنا حرام ہے۔

٢۔ مسجد کو نجس کرنا حرام ہے اوراس کی تطہیر کرنا واجب ہے۔

٣۔ مسجد سے مٹی اور ریت لے جاناجائزنہیں ہے مگریہ کہ اضافی ہوں۔

٤۔ قرآن مجید کی لکھائی اوراوراق کو نجس کرناحرام ہے اور اسے پانی سے دھونا واجب ہے۔

٥۔بے وضوانسان کے لئے اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن مجید کی لکھائی سے مس کرناحرام ہے۔

٦۔ قرآن مجید کی لکھائی کے درج ذیل موارد میں کوئی فرق نہیں ہے:

* قرآن میں ہو یا غیر قرآن میں ۔

* پوری آیت ہویا ایک کلمہ حتی ایک حرف۔

* قلم سے لکھا گیا ہو یا کسی اور چیزسے۔

٧۔شیشہ یالاستیک کے اوپرسے قرآن کو لمس کرنے میں حرج نہیں ہے۔

٨۔ قرآن مجید کے ترجمہ کو بجز ترجمہ اللہ لمس کرنا حرج نہیں ہے۔

٩۔ دوسروں کو سلام کرنا مستحب ہے لیکن جواب دینا واجب ہے۔

١٠۔ نماز گزار اور سلام: * نماز کی حالت میں کسی کو سلام نہیں کرنا چاہئے۔

* اگر نماز گزار کو کوئی سلام کرے تو اس کا جواب واجب ہے لیکن جواب میں لفظ'' سلام''کو مقدم قرار دینا چاہئے۔

* نماز گزار کو نماز کی حالت میں سلام کرنا مکروہ ہے۔

١١ ۔اگر کسی نے سلام کیا تو فوراً اس کا جواب دینا چاہئے۔

١٢۔کافر کو سلام کرنا مکروہ ہے۔

۲۹۳

سوالات:

١۔ گھر میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد سے سجدہ گاہ اٹھالے جانے کا کیا حکم ہے؟

٢۔ مسجد کی صفائی کے سلسلے میں کون سے امور واجب، مستحب اور مکروہ ہیں؟

٣۔ مسجد میں سونا اور مسجد سے عبور کرنے کا کیا حکم ہے؟

٤۔قرآن مجید کی آیات کو بدن پر لکھنے(گودنے)کا کیا حکم ہے؟

٥۔قبر کے پتھر پر لکھی ہوئی قرآنی آیات وضو کے بغیر مس کرنے کا کیا حکم ہے؟

٦۔قرآن مجید کے سلسلے میں کون سے امور حرام ہیں؟

٧۔نماز کی حالت میں سلام کے جواب کا کیا حکم ہے؟

٨۔کیا آپ جانتے ہیںکہ نماز کی حالت میںدوسروں کو کیوں سلام نہیں کرنا چاہئے لیکن دوسروں کے سلام کا جواب دینا چاہئے؟

۲۹۴

سبق نمبر ٤٥

غصب، قسم، جھوٹ، غیبت

غصب کی تعریف:*

غصب سے مراد یہ ہے کہ انسان، ناحق اور ظلم وستم کے ذریعہ دوسروں کے اموال یا حقوق پر قابض ہو جائے.

غصب گناہان کبیرہ میں سے ہے اور اس کامرتکب شخص قیامت کے دن سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔

غصب کی قسمیں:

اموا ل :

شخصی:

جیسے دوسروں کا قلم یا کاپی اٹھالینا یا کسی کے گھر کے شیشے توڑنا۔

عمومی:

جیسے کسی مدرسہ کے اشیاء کو نابود کرنا، گلیوں کے بلب توڑنا یا خمس وزکات ادانہ کرنا۔

حقوق:

شخصی:

جیسے، مدرسہ میں دوسروں کی کرسی پر بیٹھنا یا مسجد میں ایسی جگہ پر نماز پڑھنا جسے کسی اور نے اپنے لئے معین کی ہو ۔

عمومی:

مسجد، یا پل ، سڑک یا پکڈنڈی کے استعمال میں رکاوٹ پیدا کرنا۔(١)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ،ج٢، ص١٧٣،م

* جو مسائل تحریر الوسیلہ اور استفتاآت سے لئے گئے ہیں حضرت امام خمینیکے فتوی کے مطابق ہیں۔

۲۹۵

غصب کے احکام:

١۔ غصب کی تمام قسمیں حرام ہیں اور گناہان کبیرہ میں شمار ہوتی ہیں۔(١)

٢۔ اگر انسان نے کوئی چیز غصب کی ہو، تو علاوہ اس کے کہ اس نے فعل حرام انجام دیا ہے اسے وہ چیز مالک کو واپس کرنی چاہئے اور اگر وہ چیز نابود ہوگئی ہو تو اس کا بدلہ مالک کو دینا چاہئے۔(٢)

٣۔ اگر غصب کی گئی چیز کو خراب کردے تو اس کی مرمت کی قیمت کے ساتھ، اصل چیزمالک کو واپس کرنا چاہئے اور اگر مرمت کے بعد اس چیز کی قیمت گھٹ جائے تو قیمت کا تفاوت بھی ادا کرنا چاہئے۔(٣)

٤۔ اگر غصبی چیز میں ایسی تبدیلی کر دی جائے کہ اس کی قیمت پہلے سے بڑھ جائے جیسے سائیکل کی تعمیر کی گئی ہو اگر مال کا مالک اسی صورت میں اسے واپس کرنے کو کہے تو اسے اسی صورت میں واپس کرنا چاہئے، اور وہ اس کی تعمیر کی اجرت کا تقاضا نہیں کرسکتا ہے اور یہ بھی حق نہیں رکھتا کہ اسے بدل کر مثل سابق بنادے۔(٤)

قسم کھانا

١۔ اگر کوئی شخص خدا کے ناموں میں سے ایک جیسے''خدا'' یا ''اللہ'' کی قسم کھائے کہ کسی کام کو انجام دے گا یا کسی کام کو ترک کرے گا، مثلاً قسم کھائے روزہ رکھے یا سگریٹ پینا ترک کردے گا، تو اس پر عمل کرنا واجب ہے۔(٥)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج٢ص ١٧٣م،١.

(٢)تحریر الوسیلہ ج٢ص ١٧٣،م٣

(٣)توضیح المسائل،م ٢٥٥٣

(٤)توضیح المسائل،م ٢٥٥٤

(٥)توضیح المسائل، م٢٦٧٠و٢٦٧١

۲۹۶

٢۔ اگر کوئی کھائی گئی قسم پر عمداً عمل نہ کرے، اس کے لئے کفارہ دینا چاہئے اور اس کا کفارہ درج ذیل چیزوں میں سے ایک ہے:

* ایک غلام کو آزاد کرنا۔

* دس فقیروں کو پیٹ بھرکے کھانا کھلانا۔

* دس فقیروں کولباس پہنانا۔

اگر ان میں سے کوئی بھی چیز انجام نہ دے سکے تو تین دن روزہ رکھے۔(١) *

٣۔ قسم کھانے والے کی بات اگر صحیح ہوتو،قسم کھانا مکروہ ہے اوراگر جھوٹ ہو تو حرام ہے اور گناہان کبیرہ میں سے ہے۔(٢)

جھوٹ بولنا

١۔جھوٹ بولنا حرام اور گناہان کبیرہ میں سے ہے۔(٣)

٢۔ اگر کوئی مسئلہ انتہائی اہم ہو، جیسے کسی کا قتل ہونا یا خاندان کے نظام کا درہم برہم ہونا تو اس

صورت میں ان چیزوں کو روکنے کے لئے جھوٹ بولنے میں اشکال نہیں ہے۔(٤)

غیبت

غیبت کی تعریف:

اگر کسی شخص میں کوئی نامناسب صفت پائی جاتی ہو،یا کوئی برا کام انجام دیا ہو اور دوسرے لوگ اس

____________________

(١)توضیح المسائل، م٢٦٧٠و٢٦٧١

(٢)توضیح المسائل، م،٢٦٧٥

(٣)استقاآت،ج ٢، ص ٦١٦،س٤

(٤)استفتاآت ج٢،ص٦١٦،س١

* گلپائیگانی :تین دن تک مسلسل روزے رکھنا چاہئے.

۲۹۷

سے بے خبرہوں اور یہ شخص راضی نہ ہوکہ کوئی اس سے آگاہ ہوجائے، تو اس کو اس کی عدم موجود گی میں دوسروں کے سامنے بیان کرنا غیبت ہے۔(١)

غیبت کے احکام :

غیبت ، کرنے اور سننے والے دونوں کے لئے حرام ہے۔(٢)

٢۔ اگر کسی نے کسی شخص کی غیبت کی ہوتو اسے اپنے گناہوں کی توبہ کرناچاہئے اور ضروری نہیںہے اسے کہے۔(٣)

٣۔اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا لیکن اپنے گناہ کو آشکار نہیں کرتاہے تو اس کی غیبت کرنا جائز نہیں ہے، (اگرچہ اسے امربالمعروف کرنا چاہئے)(٤)

داڑھی منڈوانا

١۔ بلیڈ یا مشین سے داڑھی منڈوانا، احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے۔(٥)

سوال: کیا ایک جوان جس کی عمر ١٨ یا ١٩ سال ہو داڑھی اُگنے یابہتر داڑھی اُگنے کے لئے دو تین بار داڑھی منڈوا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: احتیاط واجب کی بناپر داڑھی کو نہیں منڈوانا چاہئے لیکن جب تک داڑھی نہ نکلنے، چہرہ پر بلیڈ چلانا ممنوع نہیں ہے۔(٦)

____________________

(١) استفاآت، ج ٢،ص ٦١٨س٩.

(٢) استفاآت، ج٢ص ٦١٨،س٩.

(٣) استفاآت، ج٢ص ٦٢٠،س١٥،١٦

(٤) استفاآت، ج٢ص ٦٢٠، س١٨

(٥) استفاآت، ج٢ص ٣٠،س٧٩

(٦) استفاآت، ج٢ص ٣٠،س٨٠

۲۹۸

سبق ٤٥ کا خلاصہ

١۔ غصب گناہان کبیرہ میں شمار ہوتا ہے اور اس کا مرتکب قیامت کے دن سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔

٢۔ شخصی اور عمومی اموال وحقوق کو غصب کرنا حرام ہے۔

٣۔ جس نے کوئی چیز غصب کی ہو، اسے مالک کو واپس کرنا چاہئے۔

٤۔ اگر غصب کی گئی چیز کو خراب کرے تو اس سے دوبارہ مرمت کرنے کی اجرت کے ساتھ مالک کو واپس کرنا چاہئے۔

٥۔ اگر کوئی شخص کسی کام کو انجام دینے یا ترک کرنے کے لئے خدا کے ناموں میں سے کسی ایک نام کے ساتھ قسم کھائے تو اس پر عمل کرنا واجب ہے۔

٦۔ اگر قسم کھانے والا اپنی قسم پر عمل نہ کرے ، تو اسے ایک غلام آزاد کرنا یا دس فقیروں کو کھانا کھلانا یا ان کو لباس پہنانا چاہئے اور اگر ان میں سے کسی ایک کو انجام دینے کی قدرت نہ رکھتا ہوتو تین دن روزہ رکھے۔

٧۔ سچی قسم کھانا مکروہ ہے اور جھوٹی قسم کھانا حرام ہے۔

٨۔ جھوٹ بولنا حرام اور گناہان کبیرہ میں سے ہے۔

٩۔غیبت کرنا کہنے اور سننے والے دونوں کے لئے گناہ ہے۔

١٠۔ گناہگار اگر گناہ کو آشکار انجام نہ دیتا ہوتو اس کی غیبت کرنا جائز نہیںہے۔

١١۔ احتیاط واجب کی بناپر داڑھی منڈوانا حرام ہے۔

۲۹۹

سوالات:

١۔ غصب کی وضاحت کرکے حقوق کے غصب کی دومثالیں بیان کیجئے۔

٢۔جزئی کام کے لئے کسی کی کوئی چیز اٹھانے، جیسے کسی کا قلم ایک ٹیلفون نمبر لکھنے کے لئے اٹھانے کا کیا حکم ہے؟

٣۔ چاک اور مدرسہ کے تختہ سیاہ کو خطاطی کی مشق کے لئے استعمال کرنا غصب کی کونسی قسم ہے؟

٤۔ غیبت کی تعریف کیجئے۔

٥۔ کیا کسی کے امتحانات کے نمبر کسی اور کو بتانا غیبت شمارہوتا ہے؟

٦۔غیبت کرنے والے کی ذمہ داری کیا ہے؟

٧۔ کیا ایک جوان کے چہرے پر تھوڑی سی داڑھی نکلی ہوتو شرم کی وجہ سے اسے منڈواسکتا ہے یا نہیں ؟

تمت بالخیر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326