احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211819 / ڈاؤنلوڈ: 4586
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سبق نمبر٢

اجتہاد وتقلید

١۔ مجتہد اوراعلم کو پہچاننے کے طریقے:

الف: خود انسان یقین پیدا کرے، جیسے، شخص اہل علم ہو اورمجتہد واعلم کو پہچانتاہو۔

ب: دو عالم وعادل افراد جو مجتہد واعلم کی تشخیص کرسکیں، کسی کے مجتہدیا اعلم ہونے کی تصدیق کردیں*

ج: اہل علم کی ایک جماعت، جو مجتہد واعلم کی تشخیص دے سکتی ہو اور ان کے کہنے پر اطمینان پیدا ہوسکتا ہو، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کرے۔(١)

٢۔ مجتہد کے فتویٰ کو حاصل کرنے کے طریقے:

* خود مجتہد سے سننا۔

* دویا ایک عادل شخص سے سننا۔

* ایک سچے اور قابل وثوق انسان سے سننا۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٨، م ١٩.

* (خوئی) ایک شخص اہل خبرہ کے کہنے پر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

۲۱

*مجتہدکے رسالہ میں دیکھنا۔(١)

٣۔ اگر مجتہد اعلم نے کسی مسئلہ میں فتویٰ نہ دیا ہو، تو اس کا مقلد دوسرے مجتہد کی طرف اس مسئلہ میں رجوع کرسکتا ہے، بشرطیکہ دوسرے مجتہد کا اس مسئلہ میں فتویٰ پایا جاتا ہو، اور احتیاط واجب کی بناء پر جس کی طرف رجوع کیا جارہا ہے وہ مجتہد دوسرے مجتہدوں سے اعلم ہو۔(٢)

٤۔ اگر مجتہد کافتویٰ بدل جائے،تو مقلد کا اس کے نئے فتویٰ پر عمل کرنا چاہئے اور اس کے پہلے فتویٰ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔(٣)

٥۔ روز مرہ کے مبتلابہ مسائل کا یاد کرنا واجب ہے۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٨، م ٢١.

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٨، م ا٢

(٣)العروة الوثقیٰ، ج ا،ص ١٢،م ٣١.

۲۲

مکلف کون ہے؟

عاقل اور بالغ افرادمکلف ہیں، یعنی احکام کو انجام دینا ان پر واجب ہے، لہٰذا (نابالغ) بچے اور دیوانے (غیر عاقل) مکلف نہیں ہیں۔

سنّ بلوغ:

لڑکے، پندرہ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتے ہیں، اور لڑکیاں ٩ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتی ہیں ، اور اس سن کو پہنچنے پر انھیں تمام شرعی فرائض کو انجام دینا چاہئے ، اگر اس سن سے کمتر بچے بھی نیک کام، جیسے نماز کو صحیح طریقے پر انجام دیں، تو ثواب پائیں گے ۔ توجہ رہے کہ سن بلوغ قمری سال سے حساب ہوتا ہے، چونکہ قمری سال ٤ ٥ ٣ دن اور ٦ گھنٹے کا ہوتا ہے اس لئے شمسی سال سے دس دن اور ١٨ گھنٹے کم ہوتا ہے ، اس طرح ٩سال شمسی سے ٩٦ دن اور ١٨ گھنٹے کم کرنے پر ٩ سال قمری بن جاتے ہیں اور ١٥ سال شمسی سے ٦١ ١ دن اور ٦ گھنٹے کم کرنے پر ١٥ سال قمری بن جاتے ہیں ۔

احتیاط واجب اور احتیاط مستحب میں فرق:

احتیاط مستحب ہمیشہ فتویٰ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یعنی اپنے بیان کردہ مسئلہ میں، مجتہد اظہار نظر کے بعد احتیاط کا طریقہ بھی بیان کرتا ہے چنانچہ مقلد کو ایسے مسئلہ میں اختیارہے کہ مجتہد کے فتویٰ پر عمل کرے یا احتیاط پر اور ایسے مسئلہ میں دوسرے مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرسکتا ہے، جیسے مندرجہ ذیل مسئلہ :

''اگر مکلف نہ جانتاہو کہ بدن یا لباس نجس ہے ،اور نماز کے بعد معلوم ہوجائے کہ نجس تھاتو اس کی نماز صحیح ہے، لیکن '' احتیاط'' اس میں یہ ہے کہ وقت میں گنجائش ہونے کی صورت میں نماز کو پھرسے پڑھے۔''

''احتیاط واجب'' فتویٰ کے ساتھ ذکر نہیں کیا جاتا ہے بلکہ مقلد کو اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہئے یا پھر دوسرے مجتہد کے فتویٰ کی طرف رجوع کرے ، جیسے مندرجہ ذیل مسئلہ :

''احتیاط اس میں ہے کہ اگر انگور کی بیل کا پتا تازہ ہوتو اس پر سجدہ نہ کیا جائے۔''

۲۳

سبق نمبر ٢ کاخلاصہ

١۔ مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے طریقے حسب ذیل ہیں:

* خود انسان یقین پیداکرے۔

* دوعادل عالم گواہی دیں۔

* اہل علم کی ایک جماعت شہادت دے

٢۔حسب ذیل طریقوں سے مجتہد کا فتویٰ حاصل کیا جاسکتاہے:

* خود مجتہد سے سننا:

*دویا ایک عادل شخص سے سننا یا کم از کم ایک قابل اعتماد اور سچّے شخص سے سننا۔

* توضیح المسائل میں دیکھنا۔

٣۔ بالغ اور عاقل افراد کو احکام الٰہی پر عمل کرنا چاہئے ۔

٤۔ لڑکے ١٥ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتے ہیں اور لڑکیاں ٩ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتی ہیں ۔

٥۔ احتیاط واجب میں دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن احتیاط مستحب میں دوسرے کی طرف رجوع نہیںکیا جاسکتاہے۔

۲۴

سوالات :

١۔کسی مجتہد کے اجتہاد یا اعلمیت پر کون لوگ شہادت دے سکتے ہیں؟

٢۔ کن لوگوں کو واجب اعمال انجام دینا چاہئے؟

٣۔ ایک لڑکا پہلی اپریل ١٩٨٩ء کو پیدا ہوا ہے، حساب کرکے بتائیے کہ یہ لڑکا کس تاریخ کو بالغ ہوگا؟

٤۔مندرجہ ذیل مسئلہ میں تشخیص دیجئے کہ احتیاط،واجب ہے یا مستحب:

'' احتیاط اس میں ہے کہ کسی سے نماز سکھانے کی اجرت نہ لی جائے لیکن نماز کے مستحبات سکھانے کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے''.

۲۵

سبق نمبر٣

طہارت

جیسا کہ پہلے سبق میں بیان ہوا کہ اسلام کے عملی پروگرام کے مجموعہ کو '' احکام'' کہتے ہیں، ان ہی میں سے واجبات ہیں اور نماز ان میں سے ایک بنیادی اور اہم ترین واجب ہے۔

نماز سے متعلق مسائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:

١۔ مقدمات۔

٢۔ مقارنات۔

٣۔ مبطلات۔

مقدمات نماز: نماز گزار کو نماز سے قبل ان کی رعایت کرنی چاہئے۔

مقارنات نماز: وہ مسائل جو خود نماز سے متعلق ہیں، تکبیرة الاحرام سے لیکر سلام تک۔

مبطلات نماز: وہ مسائل جو ان چیزوں سے متعلق ہیں،جن سے نماز باطل ہوتی ہے۔

مقدمات نماز

اس عبادت (نماز) کو انجام دینے سے پہلے جن مسائل کی طرف نماز گزار کو توجہ دینا چاہئے ان میں سے ایک طہارت وپاک کرنا ہے۔

نماز گزار کا اپنے بدن ولباس کو ناپاک چیزوں (نجاسات ) سے پاک کرنا چاہئے اور نجاسات سے پاکی کے لئے ان کی پہچان اورنجس چیزوں کو پاک کرنے کے طریقے سے آگاہ ہونا لازمی ہے، لہٰذا پہلے اس کو بیان کرتے ہیں البتہ نجاسات کو جاننے سے پہلے اسلام کے ایک کلی قاعدہ کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے:

۲۶

دنیا میں گیارہ چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں، مگریہ کہ کوئی چیزان گیارہ چیزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہوئی ہو۔

١۔پیشاب

٢۔پاخانہ

انسان اور اُن حیوانوں کا جو حرام گوشت ہوں اور خون جہندہ رکھتے ہوںز جیسے: بلی اور چوہا وغیرہ

٣۔منی

٤۔ مردار

٥۔ خون

انسان اور ان حیوانوں کا جو خون جہنده* رکھتے ہیں،جیسے بھیڑ وغیرہ۔

٦ ۔کتّا

٧۔ سور

خشکی میں پائے جانے والے کتّے اور سور ۔ البتہ دریائی کتّا اور سور نجس نہیں ہیں۔

٨۔ شراب اور ہر مست کرنے والی سیال چیز۔

٩۔ آب جو (فقاع) غیر طبّی آب جو۔

١٠۔ کافر۔

١١۔ نجاست خور اونٹ کا پسینہ۔

____________________

* کسی حیوان کی رگ کاٹنے کے بعد جو خون اچھل کر نکلتا ہے اس خون کو ''خون جہندہ ''کہتے ہیں۔

۲۷

''طہارت'' سے مراد ''صفائی'' اور ''نجاست''سے مراد ''گندگی''نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی چیز صاف ہو لیکن اسلامی احکام کی نگاہ سے پاک نہ ہو ، اسلام؛ طہارت اور صفائی دونوں کا طالب ہے۔ یعنی انسان کو اپنے اور اپنے ماحول کے بارے میںپاک اور صفائی کی فکر کرنی چاہئے اب ہم طہارت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

١۔ انسان اور ان تمام حرام گوشت حیوانوں کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے، جو خون جہندہ رکھتے ہیں۔'' *

٢۔ حلال گوشت حیوانوں، جیسے گائے اور بھیڑ اور خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں، جیسے سانپ اور مچھلی کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہے۔(١)

٣۔ مکروہ گوشت حیوانوں، جیسے گھوڑے اور گدھے کا پیشاب وپاخانہ پاک ہے۔(٢)

٤۔ حرام گوشت پرندوں کی بیٹ جیسے: کوا، نجس ہے(٣) * *

١۔ مردار کے احکام: ٭٭٭

مردہ انسان اگر چہ تازہ مرا ہو اور اس کا جسم سرد نہ ہوا ہو( اس کے بے جان اجزاء جیسے ناخن اور دانتکے علاوہ) اس کا پورا بدن نجس ہے(٤) مگریہ کہ :

الف: شہید معرکہ ہو۔''٭٭٭*

____________________

(١) العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٥.

(٢) العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٥٥.

(٣) توضیح المسائل، م ٨٥.

(٤) العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٥٨۔الرابع' ص ٦١،م ١٢.

*گلپائیگانی) احتیاط واجب کی بناء پر اس حرام گوشت حیوان کے پیشاب وپاخانہ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے جو خون جہندہ نہ رکھتا ہو۔(مسئلہ ٨٥)

* *(دیگر مراجع)پاک ہے (مسئلہ ٨٦)

۲۸

٭٭٭ مرداروہ حیوان ہے جو خود مرگیا ہویا اسے غیر شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہو۔

٭٭٭*وہ شہید جو میدان جہاد میں درجۂ شہادت پر فائز ہوا ہو۔

ب: اسے غسل دیاگیاہو( تین غسل * مکمل کئے گئے ہوں)

مردارحیوان:

١۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان کا مردارپاک ہے،، جیسے: مچھلی وغیرہ

٢۔ خون جہندہ رکھنے والے حیوان کے بے روح اجزائ،جیسے: بال، سینگ وغیرہ پاک ہیں اور روح والے اجزائ، جیسے گوشت، چمڑا وغیرہ نجس ہیں۔(١)

____________________

(١) العروة الوثقیٰ ۔ج ١، ص ٥٨، الرابع۔ تحریر الوسیلہ ج ١، ص ١١٥،الرابع.

*غسل آب سدر ،آب کافور ،اور غسل آب مطلق۔(مترجم)

۲۹

خون کے احکام:

١۔ انسان اور ہر اس حیوان کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو، جیسے: مرغ اور بھیڑ وغیرہ۔

٢۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں کا خون پاک ہے، جیسے : مچھلی اور مچھر وغیرہ ۔

٣۔ بعض اوقات جو انڈے میں خون پایا جاتاہے وہ نجس نہیں ہے ، لیکن احتیاط واجب کی بناپر

اسے کھانے سے پرہیز کرنا چائیے۔

اگر یہ خون انڈے کی زردی کے ساتھ ملانے پر زائل ہوجائے تو اس زردی کو کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ *

٤۔ جوخون دانتوں کے درمیان (مسوڑوں) سے آتاہے، اگر لعاب دہن کے ساتھ مل کر زائل ہوجائے تو پاک ہے اور اس صورت میں لعاب دہن کو نگلنے میں بھی کوئی اشکال نہیںہے۔(١)

____________________

(١)توضیح المسائل۔ م ٩٦' ٩٨تا ١٠١.

* (دیگر مراجع)احتیاط واجب کی بناپر، اس انڈے کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے جس میں ذرہ برابر خون ہو، لیکن اگر خون انڈے کی زردی میں ہوتو اس پر موجود باریک جھلی جب تک پھٹ نہ جائے، سفیدی پاک ہے .(مسئلہ ٩٩)

۳۰

سبق ٣ کا خلاصہ

١۔ نماز پڑھنے کے لئے نماز گزار کا بدن اور اس کے کپڑے پاک ہونے چاہئے۔

٢۔ گیارہ چیزوں کے علاوہ دنیامیں سب چیزیں پاک ہیں۔

٣۔ مراہوا انسان اگر میدان جہاد میں شہید نہ ہوا ہو اور اسے غسل نہ دیا گیا ہو تو نجس ہے، لیکن اس کے بے روح اجزاء پاک ہیں۔

٤۔ کتے اور سور کامردار اور خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کے روح دار اجزاء نجس ہیں۔

٥۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں کا مردار اور اسی طرح خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کے مردار کے بے روح اجزاء پاک ہیں۔

٦۔خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کا خون نجس ہے۔

٧۔ انڈے میں پایا جانے والا خون نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بناء پر اسے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے، لیکن اگر یہ خون اتنا کم ہوکہ زردی کے ساتھ ملانے پر زائل ہوجائے تو اسے کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

٨۔ اگر دانتوں سے آنے والاخون لعاب دہن سے ملکر زائل ہوجائے تو وہ پاک ہے اور اسے نگلنے میں کوئی بھی اشکال نہیں ۔

۳۱

سوالات:

١۔سانپ، بچھو اور مینڈک کے مردار کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٢۔ گدھے کی لید اور کوے کی بیٹ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٣۔ مسواک کرتے وقت منہ میں پائے جانے والے خون کا کیا حکم ہے؟

٤۔ کس انسان کا بدن اسکی وفات کے بعد پاک ہے؟

٥۔ کیا مردہ بھیڑکی اُون سے استفادہ کیا جاسکتاہے؟

۳۲

سبق نمبر٤

پاک چیز کیسے نجس ہوجاتی ہے؟

گزشتہ سبق میں بیان ہوا کہ دنیا میں چند چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں ،لیکن ممکن ہے پاک چیزیں بھی نجس چیزوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہوجائیں، اس صورت میں کہ یہ دوچیزیں ( پاک ونجس) ترہوںاور ایک کی رطوبت دوسری چیزمیں منتقل ہوجائے۔(١)

١۔ اگر ایک پاک چیز کسی نجس چیزسے ملحق ہوجائے اور ان دو میں سے ایک اس طرح ترہوکہ رطوبت دوسری چیزمیں منتقل ہوجائے، تو اس صورت میں پاک چیز نجس ہوجاتی ہے۔

٢۔ درج ذیل مواقع پر پاکی کا حکم ہے:

*معلوم نہ ہوکہ پاک اور نجس چیز آپس میں مل گئی ہیں کہ نہیں۔

*معلوم نہ ہوکہ پاک ونجس چیز ترتھی یانہیں۔

*معلوم نہ ہوکہ ایک چیز کی رطوبت دوسری چیز میں سرایت کرگئی ہے یا نہیں ۔(٢)

____________________

(١)١۔ توضیح المسائل ۔ م١٢٥.

(٢)توضیح المسائل ) ١٢٦، والعروة الوثقیٰ ج ١، ص ٧٩، م١

۳۳

چند مسئلے:

اگر انسان نہ جانتاہوکہ ایک پاک چیزنجس ہوگئی ہے یانہیں؟ تووہ پاک ہے اور تحقیق وجستجو کرنا ضروری نہیں،اگرچہ جستجو کرنے سے اس کا نجس یاپاک ہونا معلوم ہوسکتا ہو ۔(١ )

٢۔ نجس چیز کا کھانا یا پینا حرام ہے۔(٢)

٣۔ اگر کوئی شخص کسی کو نجس چیز کھاتے ہوئے یا نجس لباس میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھے تو اس کو بتانا ضروری نہیں ہے۔(٣)

مطہرات (پاک کرنے والی چیزیں)

نجس چیز کیسے پاک ہوتی ہے؟

تمام نجس چیزیں پاک ہوجاتی ہیں اور پاک کرنے والی عمدہ چیزیں حسب ذیل میں :

١۔پانی۔

٢۔ زمین۔

٣۔ آفتاب۔

٤۔ اسلام۔

٥۔ نجاست کازائل ہونا۔(٤)

پانی، بہت سی نجس چیزوں کو پاک کرتاہے۔ لیکن پانی کی مختلف قسمیں ہیں کہ انھیں جاننے سے اس سے مربوط مسائل کو یاد کرنے میں ہمیں مدد ملتی ہے۔

پانی کی قسمیں: ١۔ مضاف

٢۔مطلق *** ١۔کنویں کا پانی ٢۔ جاری پانی ٣۔ بارش کا پانی ٤۔ٹھہرا اہوا پانی *** ١۔کُر: ٢۔قلیل:

____________________

(١)توضیح مسائل م١٢٣.

(٢) توضیح المسائل م،١ ١٤

(٣) توضیح المسائل۔م ١٤٣.

(٤)توضیح المسائل۔م ١٤٨

۳۴

مضاف پانی:

وہ پانی جو کسی چیز سے لیا گیا ہو ( جیسے: سیب اور تربوز کا پانی) یا کسی دوسری چیز کے ساتھ ایسے مخلوط ہو کہ اسے پانی نہ کہا جائے، جیسے شربت وغیرہ ۔

مطلق پانی:

وہ پانی ہے جو مضاف نہ ہو ۔

مضاف پانی کے احکام:

١۔نجس چیز کو پاک نہیں کرتا (مطہرات میں سے نہیں ہے)

٢۔ یہ نجاست ملنے پر نجس ہوتا ہے، ہر چند کہ نجاست کم ہو اور بو، رنگ یاپانی کا مزہ تبدیل نہ ہو۔

٣۔ اس سے وضو اور غسل کرنا باطل ہے۔(١)

مطلق پانی کی قسمیں:

پانی یازمین سے ابلتاہے۔

یا آسمان سے برستاہے۔

یانہ ابلتاہے اور نہ برستاہے۔

آسمان سے برسنے والے پانی کو ''بارش'' کہتے ہیں ۔

زمین سے ابلنے والا پانی اگر بہہ رہا ہو تو اسے آب جاری کہتے ہیں اور اگرٹھہرا ہوا ہو تو اسے کنویں کا پانی کہتے ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م ٤٧ ۔ ٤٨

۳۵

وہ پانی جو زمین سے نہ ابلتا ہو اور نہ آسمان سے برستا ہو، اسے'' ٹہرا ہوا پانی'' کہتے ہیں '' ٹھہراہوا پانی'' اگر مقدار میں زیادہ ہوتو اسے''کر'' کہتے ہیں اور اگر کم ہو تو اسے '' قلیل'' کہتے ہیں۔

کرکی مقدار(١)

حجم: ٨٧٥ ٤٢ بالشت پانی ہے یہ پانی کی وہ مقدارہے جو ایک ایسے ظرف میں پُرہوجائے جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی، ہر ایک سے کم ٥ ٣ بالشت ہو تو اسے کر کہتے ہیں۔ * وزن:٤١٩ ٣٧٧ کلو گرام۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ ۔ ج ١ ص ١٤،م١٤، توضیح المسائل۔ م١٦

* (خوئی)اگر لمبائی،چوڑائی اور گہرائی ہرایک ٣ بالشت ہوتو کرہے (مسئلہ ١٦)

۳۶

آب قلیل کی مقدار:

جوپانی کرسے کم ہو، اسے قلیل کہتے ہیں۔

صرف آب مطلق، نجاسات کو پاک کرسکتاہے، اگرچہ ممکن ہے آب مضاف کسی گندی چیز کو صاف کر لے لیکن ہرگزنجس چیز کو پاک نہیں کرسکتا۔

اس کے بعد والے سبق میں ہم مطلق پانی کے احکام اور ان سے پاک کرنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہ ہوجائیں گے۔

سبق:٤ کا خلاصہ

١۔ مطہرات، تمام نجاست کو پاک کرتی ہیں، یعنی کوئی نجس چیز ایسی نہیں ہے جسے پاک نہ کیا جاسکے۔

٢۔ اہم مطہرات سے مراد یہ ہیں: پانی، زمین آفتاب، اسلام اور نجاست کا زائل ہونا۔

٣۔ پانی مطہرات میں سے ہے اور یہ مطلق پانی ہے نہ مضاف ۔

٤۔ جو پانی زمین سے ابل کر بہتا ہے اسے'' جاری پانی'' کہتے ہیں اور جو پانی زمین سے ابلنے کے بعد نہیں بہتا، اسے کنویں کاپانی کہتے ہیں۔

جو پانی نہ ابلتا ہواور نہ برستاہو، اسے ٹھہرا پانی کہتے ہیں، ٹھہرا پانی اگر زیادہ ہو تو اسے'' کر'' کہتے ہیں اور اگر کم ہوتو اسے ''قلیل'' کہتے ہیں۔

٥۔ اگر پانی کا وزن ٧٧٤١٦ ٣کیلو گرام تک پہونچ جائے تو وہ ''کر'' ہے۔

۳۷

سوالات:

١۔مطلق اور مضاف پانی میں کیا فرق ہے؟

٢۔ جاری اور کنویں کے پانی میں کیا فرق ہے ؟

٣۔ جس پانی کے حوض کی لمبائی ٢٥ بالشت، چوڑائی ٥بالشت اور گہرائی ایک بالشت ہو، حساب کرکے بتائے کہ کیا یہ کرہے یا نہیں؟

٤۔ ایک شخص کا ترپائوں نجس فرش سے لگ گیا ہے، لیکن نہیں جانتاکہ اس کے پائوں کی رطوبت نے فرش پر سرایت کی ہے یانہیں، آیااس کا پائوں نجس ہوا یا نہیں؟

۳۸

سبق نمبر٥

پانی کے احکام

آب قلیل:

١۔ آب قلیل، نجاست ملنے سے نجس ہوجاتا ہے۔ (چاہے کسی نجس چیز پر ڈالا جائے یا کوئی نجس چیز اس میں گر جائے)(١)

٢۔ اگر کر یاجاری پانی، نجس آب قلیل سے متصل اور مخلوط ہوجائے، تو پاک ہوجاتاہے۔ (مثال کے طور پر ایک برتن میں نجس آب قلیل کسی ایسے ٹوٹی کے نیچے رکھ کر اوپرسے پانی جاری کیا جائے کہ وہ کرکے منبع سے متصل ہو)(٢) *

کر، جاری اور کنویں کا پانی :

١۔ آب قلیل کے علاوہ آب مطلق کی تمام قسمیں جب تک نجاست ملنے کی وجہ سے نجاست کی بو

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ٢٦.

* پانی سے تطہیر کرنے میں شرط ہے کہ پانی نجاست کی بو، رنگ یامزہ نہ رکھتاہو ،اگر بو، رنگ یامزہ لے لیا ہو تو اس قدر آب کر یا جاری سے مخلوط کیا جائے کہ نجاست کی بو، رنگ ومزہ زائل ہو جائے ۔

(٢)۔ تحریر الوسیلہ ۔ ج ا،ص ١٤، م ١١

۳۹

یا رنگ یا مزہ نہ لے،پاک ہیں اور اگر نجاست ملنے کی وجہ سے نجاست کی بویا رنگ یا مزہ سرایت کرجائے تو نجس ہیں (اس لحاظ سے آب جاری، کنویں کا پانی، کروحتی بارش کاپانی بھی اس حکم میں مشترک ہیں)(١)

٢۔ عمارتوں کے نلکوں کا پانی، چونکہ کرکے منبع سے متصل ہوتا ہے، اس لئے آب کرکے حکم میں ہے۔(٢)

بارش کے پانی کی بعض حضوصیات:

١۔ ایک ایسی نجس چیز جس میں عین نجاست نہ ہوز، اس پر اگر ایک بار بارش ہوجائے تو پاک ہوجائیگی۔

٢۔ اگرنجس فرش اور لباس پر بارش ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتے ہیں اور انھیں نچوڑنے کی ضرورت نہیں۔٭٭

٣۔ اگر نجس زمین پر بارش ہوجائے، تو پاک ہوجاتی ہے۔

٤۔ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہوجائے، اور وہ کرسے کم بھی ہو، جب تک بارش ہوئی رہے، اس میں نجس چیز کو دھویا جائے تو پاک ہے، بشرطیکہ اس پانی میں نجاست کی بو، رنگ یا مزہ سرایت نہ کرے(٣)

(٢) پانی میں شک کے احکام:

١۔ پانی کی وہ مقدار جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ کرہے یا نہیں ؟ نجاست ملنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوتا ، لیکن آب کرکے دیگر احکام اس پر جاری نہیں ہوں گے۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ا،ص ١٣،م.

(٢)توضیح المسائل ) ٣٥.

(٣)توصیح المسائل۔م ٣٧،. ٤، ٤١، ٤٢

*عین نجس وہ چیز ہے کہ خود نجس ہو، جیسے پیشاب وخون

٭٭ صفحہ ٣٩ پر آئے گا کہ (چھوٹا) فرش ولباس وغیرہ کو دھوتے وقت ہر مرتبہ دھونے کے بعد اسے نچوڑنا چاہئے تاکہ اندرکا پانی باہرآئے.

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326