احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)11%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211895 / ڈاؤنلوڈ: 4588
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سبق نمبر٢

اجتہاد وتقلید

١۔ مجتہد اوراعلم کو پہچاننے کے طریقے:

الف: خود انسان یقین پیدا کرے، جیسے، شخص اہل علم ہو اورمجتہد واعلم کو پہچانتاہو۔

ب: دو عالم وعادل افراد جو مجتہد واعلم کی تشخیص کرسکیں، کسی کے مجتہدیا اعلم ہونے کی تصدیق کردیں*

ج: اہل علم کی ایک جماعت، جو مجتہد واعلم کی تشخیص دے سکتی ہو اور ان کے کہنے پر اطمینان پیدا ہوسکتا ہو، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کرے۔(١)

٢۔ مجتہد کے فتویٰ کو حاصل کرنے کے طریقے:

* خود مجتہد سے سننا۔

* دویا ایک عادل شخص سے سننا۔

* ایک سچے اور قابل وثوق انسان سے سننا۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٨، م ١٩.

* (خوئی) ایک شخص اہل خبرہ کے کہنے پر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

۲۱

*مجتہدکے رسالہ میں دیکھنا۔(١)

٣۔ اگر مجتہد اعلم نے کسی مسئلہ میں فتویٰ نہ دیا ہو، تو اس کا مقلد دوسرے مجتہد کی طرف اس مسئلہ میں رجوع کرسکتا ہے، بشرطیکہ دوسرے مجتہد کا اس مسئلہ میں فتویٰ پایا جاتا ہو، اور احتیاط واجب کی بناء پر جس کی طرف رجوع کیا جارہا ہے وہ مجتہد دوسرے مجتہدوں سے اعلم ہو۔(٢)

٤۔ اگر مجتہد کافتویٰ بدل جائے،تو مقلد کا اس کے نئے فتویٰ پر عمل کرنا چاہئے اور اس کے پہلے فتویٰ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔(٣)

٥۔ روز مرہ کے مبتلابہ مسائل کا یاد کرنا واجب ہے۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٨، م ٢١.

(٢)تحریر الوسیلہ، ج ١، ص ٨، م ا٢

(٣)العروة الوثقیٰ، ج ا،ص ١٢،م ٣١.

۲۲

مکلف کون ہے؟

عاقل اور بالغ افرادمکلف ہیں، یعنی احکام کو انجام دینا ان پر واجب ہے، لہٰذا (نابالغ) بچے اور دیوانے (غیر عاقل) مکلف نہیں ہیں۔

سنّ بلوغ:

لڑکے، پندرہ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتے ہیں، اور لڑکیاں ٩ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتی ہیں ، اور اس سن کو پہنچنے پر انھیں تمام شرعی فرائض کو انجام دینا چاہئے ، اگر اس سن سے کمتر بچے بھی نیک کام، جیسے نماز کو صحیح طریقے پر انجام دیں، تو ثواب پائیں گے ۔ توجہ رہے کہ سن بلوغ قمری سال سے حساب ہوتا ہے، چونکہ قمری سال ٤ ٥ ٣ دن اور ٦ گھنٹے کا ہوتا ہے اس لئے شمسی سال سے دس دن اور ١٨ گھنٹے کم ہوتا ہے ، اس طرح ٩سال شمسی سے ٩٦ دن اور ١٨ گھنٹے کم کرنے پر ٩ سال قمری بن جاتے ہیں اور ١٥ سال شمسی سے ٦١ ١ دن اور ٦ گھنٹے کم کرنے پر ١٥ سال قمری بن جاتے ہیں ۔

احتیاط واجب اور احتیاط مستحب میں فرق:

احتیاط مستحب ہمیشہ فتویٰ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یعنی اپنے بیان کردہ مسئلہ میں، مجتہد اظہار نظر کے بعد احتیاط کا طریقہ بھی بیان کرتا ہے چنانچہ مقلد کو ایسے مسئلہ میں اختیارہے کہ مجتہد کے فتویٰ پر عمل کرے یا احتیاط پر اور ایسے مسئلہ میں دوسرے مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرسکتا ہے، جیسے مندرجہ ذیل مسئلہ :

''اگر مکلف نہ جانتاہو کہ بدن یا لباس نجس ہے ،اور نماز کے بعد معلوم ہوجائے کہ نجس تھاتو اس کی نماز صحیح ہے، لیکن '' احتیاط'' اس میں یہ ہے کہ وقت میں گنجائش ہونے کی صورت میں نماز کو پھرسے پڑھے۔''

''احتیاط واجب'' فتویٰ کے ساتھ ذکر نہیں کیا جاتا ہے بلکہ مقلد کو اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہئے یا پھر دوسرے مجتہد کے فتویٰ کی طرف رجوع کرے ، جیسے مندرجہ ذیل مسئلہ :

''احتیاط اس میں ہے کہ اگر انگور کی بیل کا پتا تازہ ہوتو اس پر سجدہ نہ کیا جائے۔''

۲۳

سبق نمبر ٢ کاخلاصہ

١۔ مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے طریقے حسب ذیل ہیں:

* خود انسان یقین پیداکرے۔

* دوعادل عالم گواہی دیں۔

* اہل علم کی ایک جماعت شہادت دے

٢۔حسب ذیل طریقوں سے مجتہد کا فتویٰ حاصل کیا جاسکتاہے:

* خود مجتہد سے سننا:

*دویا ایک عادل شخص سے سننا یا کم از کم ایک قابل اعتماد اور سچّے شخص سے سننا۔

* توضیح المسائل میں دیکھنا۔

٣۔ بالغ اور عاقل افراد کو احکام الٰہی پر عمل کرنا چاہئے ۔

٤۔ لڑکے ١٥ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتے ہیں اور لڑکیاں ٩ سال پورے ہونے پر بالغ ہوتی ہیں ۔

٥۔ احتیاط واجب میں دوسرے مجتہد کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن احتیاط مستحب میں دوسرے کی طرف رجوع نہیںکیا جاسکتاہے۔

۲۴

سوالات :

١۔کسی مجتہد کے اجتہاد یا اعلمیت پر کون لوگ شہادت دے سکتے ہیں؟

٢۔ کن لوگوں کو واجب اعمال انجام دینا چاہئے؟

٣۔ ایک لڑکا پہلی اپریل ١٩٨٩ء کو پیدا ہوا ہے، حساب کرکے بتائیے کہ یہ لڑکا کس تاریخ کو بالغ ہوگا؟

٤۔مندرجہ ذیل مسئلہ میں تشخیص دیجئے کہ احتیاط،واجب ہے یا مستحب:

'' احتیاط اس میں ہے کہ کسی سے نماز سکھانے کی اجرت نہ لی جائے لیکن نماز کے مستحبات سکھانے کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے''.

۲۵

سبق نمبر٣

طہارت

جیسا کہ پہلے سبق میں بیان ہوا کہ اسلام کے عملی پروگرام کے مجموعہ کو '' احکام'' کہتے ہیں، ان ہی میں سے واجبات ہیں اور نماز ان میں سے ایک بنیادی اور اہم ترین واجب ہے۔

نماز سے متعلق مسائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:

١۔ مقدمات۔

٢۔ مقارنات۔

٣۔ مبطلات۔

مقدمات نماز: نماز گزار کو نماز سے قبل ان کی رعایت کرنی چاہئے۔

مقارنات نماز: وہ مسائل جو خود نماز سے متعلق ہیں، تکبیرة الاحرام سے لیکر سلام تک۔

مبطلات نماز: وہ مسائل جو ان چیزوں سے متعلق ہیں،جن سے نماز باطل ہوتی ہے۔

مقدمات نماز

اس عبادت (نماز) کو انجام دینے سے پہلے جن مسائل کی طرف نماز گزار کو توجہ دینا چاہئے ان میں سے ایک طہارت وپاک کرنا ہے۔

نماز گزار کا اپنے بدن ولباس کو ناپاک چیزوں (نجاسات ) سے پاک کرنا چاہئے اور نجاسات سے پاکی کے لئے ان کی پہچان اورنجس چیزوں کو پاک کرنے کے طریقے سے آگاہ ہونا لازمی ہے، لہٰذا پہلے اس کو بیان کرتے ہیں البتہ نجاسات کو جاننے سے پہلے اسلام کے ایک کلی قاعدہ کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے:

۲۶

دنیا میں گیارہ چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں، مگریہ کہ کوئی چیزان گیارہ چیزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہوئی ہو۔

١۔پیشاب

٢۔پاخانہ

انسان اور اُن حیوانوں کا جو حرام گوشت ہوں اور خون جہندہ رکھتے ہوںز جیسے: بلی اور چوہا وغیرہ

٣۔منی

٤۔ مردار

٥۔ خون

انسان اور ان حیوانوں کا جو خون جہنده* رکھتے ہیں،جیسے بھیڑ وغیرہ۔

٦ ۔کتّا

٧۔ سور

خشکی میں پائے جانے والے کتّے اور سور ۔ البتہ دریائی کتّا اور سور نجس نہیں ہیں۔

٨۔ شراب اور ہر مست کرنے والی سیال چیز۔

٩۔ آب جو (فقاع) غیر طبّی آب جو۔

١٠۔ کافر۔

١١۔ نجاست خور اونٹ کا پسینہ۔

____________________

* کسی حیوان کی رگ کاٹنے کے بعد جو خون اچھل کر نکلتا ہے اس خون کو ''خون جہندہ ''کہتے ہیں۔

۲۷

''طہارت'' سے مراد ''صفائی'' اور ''نجاست''سے مراد ''گندگی''نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی چیز صاف ہو لیکن اسلامی احکام کی نگاہ سے پاک نہ ہو ، اسلام؛ طہارت اور صفائی دونوں کا طالب ہے۔ یعنی انسان کو اپنے اور اپنے ماحول کے بارے میںپاک اور صفائی کی فکر کرنی چاہئے اب ہم طہارت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

١۔ انسان اور ان تمام حرام گوشت حیوانوں کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے، جو خون جہندہ رکھتے ہیں۔'' *

٢۔ حلال گوشت حیوانوں، جیسے گائے اور بھیڑ اور خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں، جیسے سانپ اور مچھلی کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہے۔(١)

٣۔ مکروہ گوشت حیوانوں، جیسے گھوڑے اور گدھے کا پیشاب وپاخانہ پاک ہے۔(٢)

٤۔ حرام گوشت پرندوں کی بیٹ جیسے: کوا، نجس ہے(٣) * *

١۔ مردار کے احکام: ٭٭٭

مردہ انسان اگر چہ تازہ مرا ہو اور اس کا جسم سرد نہ ہوا ہو( اس کے بے جان اجزاء جیسے ناخن اور دانتکے علاوہ) اس کا پورا بدن نجس ہے(٤) مگریہ کہ :

الف: شہید معرکہ ہو۔''٭٭٭*

____________________

(١) العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٥.

(٢) العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٥٥.

(٣) توضیح المسائل، م ٨٥.

(٤) العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ٥٨۔الرابع' ص ٦١،م ١٢.

*گلپائیگانی) احتیاط واجب کی بناء پر اس حرام گوشت حیوان کے پیشاب وپاخانہ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے جو خون جہندہ نہ رکھتا ہو۔(مسئلہ ٨٥)

* *(دیگر مراجع)پاک ہے (مسئلہ ٨٦)

۲۸

٭٭٭ مرداروہ حیوان ہے جو خود مرگیا ہویا اسے غیر شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہو۔

٭٭٭*وہ شہید جو میدان جہاد میں درجۂ شہادت پر فائز ہوا ہو۔

ب: اسے غسل دیاگیاہو( تین غسل * مکمل کئے گئے ہوں)

مردارحیوان:

١۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوان کا مردارپاک ہے،، جیسے: مچھلی وغیرہ

٢۔ خون جہندہ رکھنے والے حیوان کے بے روح اجزائ،جیسے: بال، سینگ وغیرہ پاک ہیں اور روح والے اجزائ، جیسے گوشت، چمڑا وغیرہ نجس ہیں۔(١)

____________________

(١) العروة الوثقیٰ ۔ج ١، ص ٥٨، الرابع۔ تحریر الوسیلہ ج ١، ص ١١٥،الرابع.

*غسل آب سدر ،آب کافور ،اور غسل آب مطلق۔(مترجم)

۲۹

خون کے احکام:

١۔ انسان اور ہر اس حیوان کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو، جیسے: مرغ اور بھیڑ وغیرہ۔

٢۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں کا خون پاک ہے، جیسے : مچھلی اور مچھر وغیرہ ۔

٣۔ بعض اوقات جو انڈے میں خون پایا جاتاہے وہ نجس نہیں ہے ، لیکن احتیاط واجب کی بناپر

اسے کھانے سے پرہیز کرنا چائیے۔

اگر یہ خون انڈے کی زردی کے ساتھ ملانے پر زائل ہوجائے تو اس زردی کو کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ *

٤۔ جوخون دانتوں کے درمیان (مسوڑوں) سے آتاہے، اگر لعاب دہن کے ساتھ مل کر زائل ہوجائے تو پاک ہے اور اس صورت میں لعاب دہن کو نگلنے میں بھی کوئی اشکال نہیںہے۔(١)

____________________

(١)توضیح المسائل۔ م ٩٦' ٩٨تا ١٠١.

* (دیگر مراجع)احتیاط واجب کی بناپر، اس انڈے کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے جس میں ذرہ برابر خون ہو، لیکن اگر خون انڈے کی زردی میں ہوتو اس پر موجود باریک جھلی جب تک پھٹ نہ جائے، سفیدی پاک ہے .(مسئلہ ٩٩)

۳۰

سبق ٣ کا خلاصہ

١۔ نماز پڑھنے کے لئے نماز گزار کا بدن اور اس کے کپڑے پاک ہونے چاہئے۔

٢۔ گیارہ چیزوں کے علاوہ دنیامیں سب چیزیں پاک ہیں۔

٣۔ مراہوا انسان اگر میدان جہاد میں شہید نہ ہوا ہو اور اسے غسل نہ دیا گیا ہو تو نجس ہے، لیکن اس کے بے روح اجزاء پاک ہیں۔

٤۔ کتے اور سور کامردار اور خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کے روح دار اجزاء نجس ہیں۔

٥۔ خون جہندہ نہ رکھنے والے حیوانوں کا مردار اور اسی طرح خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کے مردار کے بے روح اجزاء پاک ہیں۔

٦۔خون جہندہ رکھنے والے حیوانوں کا خون نجس ہے۔

٧۔ انڈے میں پایا جانے والا خون نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بناء پر اسے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے، لیکن اگر یہ خون اتنا کم ہوکہ زردی کے ساتھ ملانے پر زائل ہوجائے تو اسے کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

٨۔ اگر دانتوں سے آنے والاخون لعاب دہن سے ملکر زائل ہوجائے تو وہ پاک ہے اور اسے نگلنے میں کوئی بھی اشکال نہیں ۔

۳۱

سوالات:

١۔سانپ، بچھو اور مینڈک کے مردار کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٢۔ گدھے کی لید اور کوے کی بیٹ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٣۔ مسواک کرتے وقت منہ میں پائے جانے والے خون کا کیا حکم ہے؟

٤۔ کس انسان کا بدن اسکی وفات کے بعد پاک ہے؟

٥۔ کیا مردہ بھیڑکی اُون سے استفادہ کیا جاسکتاہے؟

۳۲

سبق نمبر٤

پاک چیز کیسے نجس ہوجاتی ہے؟

گزشتہ سبق میں بیان ہوا کہ دنیا میں چند چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں ،لیکن ممکن ہے پاک چیزیں بھی نجس چیزوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہوجائیں، اس صورت میں کہ یہ دوچیزیں ( پاک ونجس) ترہوںاور ایک کی رطوبت دوسری چیزمیں منتقل ہوجائے۔(١)

١۔ اگر ایک پاک چیز کسی نجس چیزسے ملحق ہوجائے اور ان دو میں سے ایک اس طرح ترہوکہ رطوبت دوسری چیزمیں منتقل ہوجائے، تو اس صورت میں پاک چیز نجس ہوجاتی ہے۔

٢۔ درج ذیل مواقع پر پاکی کا حکم ہے:

*معلوم نہ ہوکہ پاک اور نجس چیز آپس میں مل گئی ہیں کہ نہیں۔

*معلوم نہ ہوکہ پاک ونجس چیز ترتھی یانہیں۔

*معلوم نہ ہوکہ ایک چیز کی رطوبت دوسری چیز میں سرایت کرگئی ہے یا نہیں ۔(٢)

____________________

(١)١۔ توضیح المسائل ۔ م١٢٥.

(٢)توضیح المسائل ) ١٢٦، والعروة الوثقیٰ ج ١، ص ٧٩، م١

۳۳

چند مسئلے:

اگر انسان نہ جانتاہوکہ ایک پاک چیزنجس ہوگئی ہے یانہیں؟ تووہ پاک ہے اور تحقیق وجستجو کرنا ضروری نہیں،اگرچہ جستجو کرنے سے اس کا نجس یاپاک ہونا معلوم ہوسکتا ہو ۔(١ )

٢۔ نجس چیز کا کھانا یا پینا حرام ہے۔(٢)

٣۔ اگر کوئی شخص کسی کو نجس چیز کھاتے ہوئے یا نجس لباس میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھے تو اس کو بتانا ضروری نہیں ہے۔(٣)

مطہرات (پاک کرنے والی چیزیں)

نجس چیز کیسے پاک ہوتی ہے؟

تمام نجس چیزیں پاک ہوجاتی ہیں اور پاک کرنے والی عمدہ چیزیں حسب ذیل میں :

١۔پانی۔

٢۔ زمین۔

٣۔ آفتاب۔

٤۔ اسلام۔

٥۔ نجاست کازائل ہونا۔(٤)

پانی، بہت سی نجس چیزوں کو پاک کرتاہے۔ لیکن پانی کی مختلف قسمیں ہیں کہ انھیں جاننے سے اس سے مربوط مسائل کو یاد کرنے میں ہمیں مدد ملتی ہے۔

پانی کی قسمیں: ١۔ مضاف

٢۔مطلق *** ١۔کنویں کا پانی ٢۔ جاری پانی ٣۔ بارش کا پانی ٤۔ٹھہرا اہوا پانی *** ١۔کُر: ٢۔قلیل:

____________________

(١)توضیح مسائل م١٢٣.

(٢) توضیح المسائل م،١ ١٤

(٣) توضیح المسائل۔م ١٤٣.

(٤)توضیح المسائل۔م ١٤٨

۳۴

مضاف پانی:

وہ پانی جو کسی چیز سے لیا گیا ہو ( جیسے: سیب اور تربوز کا پانی) یا کسی دوسری چیز کے ساتھ ایسے مخلوط ہو کہ اسے پانی نہ کہا جائے، جیسے شربت وغیرہ ۔

مطلق پانی:

وہ پانی ہے جو مضاف نہ ہو ۔

مضاف پانی کے احکام:

١۔نجس چیز کو پاک نہیں کرتا (مطہرات میں سے نہیں ہے)

٢۔ یہ نجاست ملنے پر نجس ہوتا ہے، ہر چند کہ نجاست کم ہو اور بو، رنگ یاپانی کا مزہ تبدیل نہ ہو۔

٣۔ اس سے وضو اور غسل کرنا باطل ہے۔(١)

مطلق پانی کی قسمیں:

پانی یازمین سے ابلتاہے۔

یا آسمان سے برستاہے۔

یانہ ابلتاہے اور نہ برستاہے۔

آسمان سے برسنے والے پانی کو ''بارش'' کہتے ہیں ۔

زمین سے ابلنے والا پانی اگر بہہ رہا ہو تو اسے آب جاری کہتے ہیں اور اگرٹھہرا ہوا ہو تو اسے کنویں کا پانی کہتے ہیں۔

____________________

(١) توضیح المسائل، م ٤٧ ۔ ٤٨

۳۵

وہ پانی جو زمین سے نہ ابلتا ہو اور نہ آسمان سے برستا ہو، اسے'' ٹہرا ہوا پانی'' کہتے ہیں '' ٹھہراہوا پانی'' اگر مقدار میں زیادہ ہوتو اسے''کر'' کہتے ہیں اور اگر کم ہو تو اسے '' قلیل'' کہتے ہیں۔

کرکی مقدار(١)

حجم: ٨٧٥ ٤٢ بالشت پانی ہے یہ پانی کی وہ مقدارہے جو ایک ایسے ظرف میں پُرہوجائے جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی، ہر ایک سے کم ٥ ٣ بالشت ہو تو اسے کر کہتے ہیں۔ * وزن:٤١٩ ٣٧٧ کلو گرام۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ ۔ ج ١ ص ١٤،م١٤، توضیح المسائل۔ م١٦

* (خوئی)اگر لمبائی،چوڑائی اور گہرائی ہرایک ٣ بالشت ہوتو کرہے (مسئلہ ١٦)

۳۶

آب قلیل کی مقدار:

جوپانی کرسے کم ہو، اسے قلیل کہتے ہیں۔

صرف آب مطلق، نجاسات کو پاک کرسکتاہے، اگرچہ ممکن ہے آب مضاف کسی گندی چیز کو صاف کر لے لیکن ہرگزنجس چیز کو پاک نہیں کرسکتا۔

اس کے بعد والے سبق میں ہم مطلق پانی کے احکام اور ان سے پاک کرنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہ ہوجائیں گے۔

سبق:٤ کا خلاصہ

١۔ مطہرات، تمام نجاست کو پاک کرتی ہیں، یعنی کوئی نجس چیز ایسی نہیں ہے جسے پاک نہ کیا جاسکے۔

٢۔ اہم مطہرات سے مراد یہ ہیں: پانی، زمین آفتاب، اسلام اور نجاست کا زائل ہونا۔

٣۔ پانی مطہرات میں سے ہے اور یہ مطلق پانی ہے نہ مضاف ۔

٤۔ جو پانی زمین سے ابل کر بہتا ہے اسے'' جاری پانی'' کہتے ہیں اور جو پانی زمین سے ابلنے کے بعد نہیں بہتا، اسے کنویں کاپانی کہتے ہیں۔

جو پانی نہ ابلتا ہواور نہ برستاہو، اسے ٹھہرا پانی کہتے ہیں، ٹھہرا پانی اگر زیادہ ہو تو اسے'' کر'' کہتے ہیں اور اگر کم ہوتو اسے ''قلیل'' کہتے ہیں۔

٥۔ اگر پانی کا وزن ٧٧٤١٦ ٣کیلو گرام تک پہونچ جائے تو وہ ''کر'' ہے۔

۳۷

سوالات:

١۔مطلق اور مضاف پانی میں کیا فرق ہے؟

٢۔ جاری اور کنویں کے پانی میں کیا فرق ہے ؟

٣۔ جس پانی کے حوض کی لمبائی ٢٥ بالشت، چوڑائی ٥بالشت اور گہرائی ایک بالشت ہو، حساب کرکے بتائے کہ کیا یہ کرہے یا نہیں؟

٤۔ ایک شخص کا ترپائوں نجس فرش سے لگ گیا ہے، لیکن نہیں جانتاکہ اس کے پائوں کی رطوبت نے فرش پر سرایت کی ہے یانہیں، آیااس کا پائوں نجس ہوا یا نہیں؟

۳۸

سبق نمبر٥

پانی کے احکام

آب قلیل:

١۔ آب قلیل، نجاست ملنے سے نجس ہوجاتا ہے۔ (چاہے کسی نجس چیز پر ڈالا جائے یا کوئی نجس چیز اس میں گر جائے)(١)

٢۔ اگر کر یاجاری پانی، نجس آب قلیل سے متصل اور مخلوط ہوجائے، تو پاک ہوجاتاہے۔ (مثال کے طور پر ایک برتن میں نجس آب قلیل کسی ایسے ٹوٹی کے نیچے رکھ کر اوپرسے پانی جاری کیا جائے کہ وہ کرکے منبع سے متصل ہو)(٢) *

کر، جاری اور کنویں کا پانی :

١۔ آب قلیل کے علاوہ آب مطلق کی تمام قسمیں جب تک نجاست ملنے کی وجہ سے نجاست کی بو

____________________

(١)توضیح المسائل ،م ٢٦.

* پانی سے تطہیر کرنے میں شرط ہے کہ پانی نجاست کی بو، رنگ یامزہ نہ رکھتاہو ،اگر بو، رنگ یامزہ لے لیا ہو تو اس قدر آب کر یا جاری سے مخلوط کیا جائے کہ نجاست کی بو، رنگ ومزہ زائل ہو جائے ۔

(٢)۔ تحریر الوسیلہ ۔ ج ا،ص ١٤، م ١١

۳۹

یا رنگ یا مزہ نہ لے،پاک ہیں اور اگر نجاست ملنے کی وجہ سے نجاست کی بویا رنگ یا مزہ سرایت کرجائے تو نجس ہیں (اس لحاظ سے آب جاری، کنویں کا پانی، کروحتی بارش کاپانی بھی اس حکم میں مشترک ہیں)(١)

٢۔ عمارتوں کے نلکوں کا پانی، چونکہ کرکے منبع سے متصل ہوتا ہے، اس لئے آب کرکے حکم میں ہے۔(٢)

بارش کے پانی کی بعض حضوصیات:

١۔ ایک ایسی نجس چیز جس میں عین نجاست نہ ہوز، اس پر اگر ایک بار بارش ہوجائے تو پاک ہوجائیگی۔

٢۔ اگرنجس فرش اور لباس پر بارش ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتے ہیں اور انھیں نچوڑنے کی ضرورت نہیں۔٭٭

٣۔ اگر نجس زمین پر بارش ہوجائے، تو پاک ہوجاتی ہے۔

٤۔ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہوجائے، اور وہ کرسے کم بھی ہو، جب تک بارش ہوئی رہے، اس میں نجس چیز کو دھویا جائے تو پاک ہے، بشرطیکہ اس پانی میں نجاست کی بو، رنگ یا مزہ سرایت نہ کرے(٣)

(٢) پانی میں شک کے احکام:

١۔ پانی کی وہ مقدار جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ کرہے یا نہیں ؟ نجاست ملنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوتا ، لیکن آب کرکے دیگر احکام اس پر جاری نہیں ہوں گے۔

____________________

(١) تحریر الوسیلہ، ج ا،ص ١٣،م.

(٢)توضیح المسائل ) ٣٥.

(٣)توصیح المسائل۔م ٣٧،. ٤، ٤١، ٤٢

*عین نجس وہ چیز ہے کہ خود نجس ہو، جیسے پیشاب وخون

٭٭ صفحہ ٣٩ پر آئے گا کہ (چھوٹا) فرش ولباس وغیرہ کو دھوتے وقت ہر مرتبہ دھونے کے بعد اسے نچوڑنا چاہئے تاکہ اندرکا پانی باہرآئے.

۴۰

٢۔ پانی کی وہ مقدار جو پہلے کرتھی اب اس میں شک ہو کہ یہ پانی قلیل ہوگیا ہے یا نہیں؟ تو وہ کر کے حکم میں ہے ۔

٣۔ جس پانی کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ پاک ہے یا نہیں ؟پاک ہے۔

٤۔ پاک پانی کے بارے میں اگر شک ہوجائے کہ نجس ہوگیا یا نہیں ؟ تو وہ پاک پانی کے حکم میں ہے ۔

٥۔نجس پانی کے بارے میں اگر شک ہوجائے کہ پاک ہوایا نہیں، تو وہ نجس ہے۔

٦۔ مطلق پانی کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ مضاف ہوا ہے یا نہ، تووہ مطلق کے حکم میں ہے۔(١)

پانی سے نجس چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ:

پانی زندگی کی بنیاد اور اکثر نجاسات کو پاک کرنے والا ہے، یہ ان مطہرات میں سے ہے جس سے تمام لوگوں کوروزانہ سروکار رہتاہے ،اب ہم اس سے چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ سیکھتے ہیں:

____________________

(١)العروة الوثقی۔ ج اص ٩ ٤، تحریر الوسیلہ۔ ج ١ص١٥،م١٥.

(٢)توضیح المسائل ، م ١٥٠،١٥٩ ١٦٠.

*مرحوم خوئی :اگر لباس اور اس کے مانند کوئی چیز پیشاب سے نجس ہوئی ہو تو آب کُر سے بھی دو بار دھونا لازم ہے۔(مسئلہ ١٦٠)

۴۱

وضاحت:

الف: چیزوں کو پاک کرنے کے سلسلے میں پہلے عین نجاست کا دور کرنا چاہئے اور اس کے بعد مندرجہ بالا تعداد میں دھونا چاہئے۔مثلاً نجس برتن کو اس کی عین نجاست، دورکرنے کے بعد اگرآب کرسے ایک مرتبہ دھویا جائے تو کافی ہے۔

ب۔ فرش اور لباس اور ان جیسی دوسری چیزیں جو اپنے اندر پانی کو جذب کرتی ہیں اور نچوڑنے کے قابل ہوں تو انھیںقلیل پانی سے دھونے کی صورت میں ہربار دھونے کے بعد اس حد تک نچوڑناچاہئے کہ جذب شدہ پانی باہر آجائے یا کسی اور طریقے سے پانی کو باہر نکالنا چاہئے، کر اور جاری پانی سے دھونے کی صورت میں بھی احتیاط واجب ہے کہ جذب شدہ پانی کو باہر نکالا جائے۔(*)

جاری اورکنویں کا پانی بھی نجس چیزوں کو پاک کرنے کے سلسلے میں بیان شدہ احکام کے مطابق آب کرکے مانند ہے۔

مسئلہ:

ایک نجس برتن کو حسب ذیل طریقے سے دھویا جاسکتاہے:

کر پانی سے: پانی میں ایک بار ڈبو کر باہر نکالا جائے۔

آب قلیل سے: تین بار اس میں پانی بھر کر خالی کیا جائے، یا اس میں تین بار پانی ڈال کر ہر مرتبہ پانی کو اس طرح گھمایا جائے کہ پانی نجس جگہوں تک پہنچ جائے اور اس کے بعد اسے پھینک دیا جائے۔

____________________

*(خوئی)اسے نچوڑنا لازم ہے (اراکی، گلپائیگانی) آب کر میں نچوڑنا لازم نہیں ہے (مسئلہ ١٦١)

۴۲

سبق ٥ کا خلاصہ

١۔ آب قلیل، نجاست ملنے سے نجس ہوتاہے۔

٢۔ کر، جاری، کنویں اور بارش کا پانی اگر نجاست ملنے سے نجاست کی بو، رنگ یا مزہ اس میں سرایت کرے تو نجس ہوجاتاہے۔

٣۔ وہ پانی جو کرکے حکم میں ہے اس وقت تک پاک ہے جب تک نجاست کی بو، رنگ یا مزہ اس میں سرایت نہ کرجائے۔

٤۔ بارش کا پانی پاک کرنے والاہے اور فرش اور لباس میں انہیں نچوڑنا ضروری نہیں ہے اور جب تک نجاست کی بو، رنگ یا مزہ اس میں سرایت نہ کرے، پاک ہے۔

٥۔ وہ پانی جس کے بارے میں معلوم نہیں، کرہے یا نہ؟ نجاست ملنے سے نجس نہیں ہوتا ۔

٦۔ جس پانی کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ پاک ہے یا نہیں؟ پاک پانی کے حکم میں ہے۔

٧۔جس پانی کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضاف، تو مطلق پانی کے حکم میں ہے ۔

٨۔برتن کے علاوہ تمام نجس چیزیں ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوجا تی ہیں، البتہ اگر پیشاب سے نجس ہوئی ہوں تو آب قلیل سے دوبار دھونا چاہئے۔

٩۔ فرش اور لباس اور ان جیسی چیزوں کو پاک کرتے وقت ہر بار دھونے کے بعد انھیں نچوڑا جائے یا کسی اور طریقے سے جذب شدہ پانی کو باہر نکالا جائے۔

۴۳

سوالات:

١۔ آب کر کیسے نجس ہوتا ہے؟

٢۔ کیا بارش کا پانی جو ایک جگہ جمع ہوا ہو اور بارش تھم گئی ہو، بارش کے پانی کا حکم رکھتا ہے؟

٣۔ اگر پانی کا ایک منبع جو کرسے زیادہ تھا، شک کیا جائے کہ اس میں موجود پانی کرہے یا نہ ؟ تو اس کا کیا حکم ہے؟

٤۔ خون سے نجس شدہ لباس کو آب قلیل اور نہر کے پانی سے کیسے دھویا جائے؟

۴۴

سبق نمبر ٦

نجس زمین کو پاک کرنے کا طریقہ

زمین کو پاک کرنا۔(۱)

١۔ آب کرسے: پہلے نجاست کو دور کریں، اس کے بعد کریا جاری پانی اس پر اس قدر ڈالیں کہ پانی تمام نجس جگہوں تک پہنچ جائے۔

٢۔ آب قلیل سے:

١۔اگر زمین پر پانی جاری نہیں ہوتا ( یعنی زمین پانی کو اپنے اندر جذب کرتی ہے تو وہ) قلیل پانی سے پاک نہیں ہوگی *

٢.پانی زمین پرجاری ہوتاہے:جہاں پانی جاری ہوگیا، وہ جگہ پاک ہوجائے گی ۔

مسئلہ ١: نجس دیوار بھی، نجس زمین کی طرح پاک کی جاسکتی ہے۔(٣)

مسئلہ ٢: زمین کو پاک کرتے وقت اگر پانی جاری ہوکر کنویں میں جائے یااس جگہ سے باہرجائے تو وہ تمام جگہیں پاک ہوجاتی ہیں جہاں سے پانی جاری ہوا ہے۔

____________________

(۱)توضیح المسائل، م ١٧٩۔ ١٨٠.

*(اراکی) زمین کا اوپر والا حصہ پاک ہوگا،( مسئلہ ١٧٨ )(خوئی) پاک ہوجائے گی (مسئلہ ١٨٠)

(٣)توضیح المسائل، م ١٧٩۔ ١٨٠.

۴۵

زمین:

١۔ اگر پائوں کے تلوے یا جوتے کا تلا راہ چلتے نجس ہوجائیں اور زمین کے ساتھ چھونے کی وجہ سے نجاست دور ہوجائے، تو پاک ہوجاتے ہیں۔پس زمین صرف پائوں کے تلوے اور جوتے کے تلے کو پاک کرنے والی ہے، وہ بھی حسب ذیل شرائط کی بناپر:

*زمین پاک ہو۔

*زمین خشک ہو۔

*زمین اس صورت میں پاک کرنے والی ہے جب مٹی، ریت، پتھر، اینٹ اور ان جیسی چیزکی ہو۔(١)

مسئلہ: اگر زمین سے چھونے کی وجہ سے پائوں کے تلوے یا جوتے کی تہ میں موجود نجاست زائل ہوجائے تو یہ پاک ہوجاتے ہیں، لیکن بہتر ہے کم ازکم پندرہ قدم راہ چلیں۔(٢)

آفتاب :

آفتاب بھی آئندہ بیان ہونے والی شرائط کے ساتھ درج ذیل چیزوں کو پاک کرتاہے :

*زمین

*عمارت اور وہ چیزیں جو عمارت میں نصب کی جاتی ہیں، جیسے دروازہ اور کھڑکی وغیرہ.

*درخت اور نباتات۔(٣)

آفتاب کے مطہر ہونے کی شرائط:

*نجس چیز اتنی ترہوکہ کسی چیزکے اس سے چھونے کی صورت میں وہ چیز بھی تر ہوجائے۔

*نجس چیز آفتاب کی گرمی سے خشک ہوجائے، اگر رطوبت باقی رہے تو پاک نہیں ہوگی۔

____________________

(١) توضیح المسائل، مسئلہ ١٨٣، ١٩٢. (٢) العروة الوثقیٰ، ج١، ٢ص ١٢٥.

(٣)العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ١٢٩، وتحریر الوسیلہ، ج ١، ص ١٣٠.

۴۶

*بادل یا پردہ جیسی کوئی چیز آفتاب کی گرمی کے لئے مانع نہ ہو، البتہ اگر یہ چیز رقیق اور اتنی نازک ہوکہ آفتاب کی گرمی کو نہ روک سکے تو کوئی حرج نہیں ۔

*صرف آفتاب اسے خشک کرے، مثال کے طور پر ہوا کی مددسے خشک نہ ہوجائے۔

*آفتاب پڑنے کے وقت عین نجاست زاس میں موجود نہ ہو، پس اگر عین نجاست موجود ہوتو آفتاب پڑنے سے پہلے اسے برطرف کیا جائے۔

*دیوار یازمین کے باہر اور اندر والے حصہ ایک ہی دفعہ خشک کرے پس اگر اس کے باہر والے حصہ کو آج خشک کرے اور اس کے اندروالے حصہ کو کل تو اس صورت میں صرف اس کا باہروالاحصہ پاک ہوگا۔

مسئلہ: اگر زمین اور اس کے مانند کوئی اور چیز نجس ہو، لیکن ترنہ ہوتو اس پر تھوڑا ساپانی یا کوئی اور چیز ڈال کر اسے ترکیا جائے اور اس کے بعد آفتاب پڑنے سے وہ پاک ہوسکتاہے۔(١)

اسلام :

کافر، شہادتین پڑھنے کے بعد مسلمان ہوجاتاہے اور اسلام لانے سے، اس کا تمام بدن پاک ہوجاتاہے، یعنی کہے:''اشهدان لااله الا اﷲ واشهدان محمداً رسول اﷲ''. (٢)

____________________

* جیسے خون عین نجاست ہے۔

(١) العروة الوثقیٰ، ج١، ص ١٢٩ تا ١٣١ 'تحریر الوسیلہ'ج ١، ص ١٣٠.

(٢)تحریر الوسیلہ،ج١،ص١٣١توضیح المسائلم ٢٠٧.

۴۷

عین نجاست کا برطرف ہونا:

دومواقع پر عین نجاست کے برطرف ہونے سے نجس چیز پاک ہوجاتی ہے اور پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں:

الف: حیوان کا بدن، مثلا ایک پرندہ کی چونچ نجاست کھانے کی وجہ سے نجس ہوگئی ہوتو نجاست برطرف ہونے پر پاک ہوجاتی ہے۔

ب۔ انسان کے بدن کا اندرونی حصہ، جیسے منھ، ناک اور کان کا اندرونی حصہ ۔مثلاً اگر مسواک کرتے وقت مسوڑوں سے خون آئے، جب آب دہن میں خون کا رنگ نہ ہوتو پاک ہے اور منھ کے اندر پانی ڈالنے کی ضروت نہیں(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ٢١٦، ٢١٧

۴۸

سبق: ٦ کا خلاصہ

١۔ جس زمین پر پانی جاری نہ ہوتا ہو، وہ آب قلیل سے پاک نہیں ہوتی ۔

٢۔ اگر کسی زمین کو آب قلیل سے پاک کیا جائے، جہاں سے پانی جاری ہوجائے وہ جگہ پاک ہوگی اور وہ جگہ جہاں پانی جمع ہوجائے، نجس ہے۔

٣۔ اگر پائوں کے تلوے اور جوتے کی تہ نجس ہوں اور زمین پر چلنے سے ، نجاست برطرف ہوجائے، توپاک ہوتے ہیں۔

٤۔ آفتاب چند شرائط کے ساتھ، زمین، عمارت، درخت اور نباتات کو پاک کرتا ہے۔

٥۔ اگر کافر، مسلمان ہوجائے ،تو پاک ہوجاتاہے۔

٦۔ منہ اور ناک کے اندر نجاست برطرف ہونے سے یہ دونوں پاک ہوجاتے ہیں اور پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔

۴۹

سوالات:

١۔ دیوار کا ایک حصہ نجس ہوا ہے، وضاحت کیجئے کہ اسے کس طرح پاک کیا جائے؟

٢۔ جوتے کی تہ اگر نجس کیچڑسے ناپاک ہوئی ہو تو راہ چلنے سے کب پاک ہوگی؟

٣۔ کیا آفتاب، لکڑی، گندم اور چاول کو پاک کرتا ہے؟

٤۔ کافر اگر شہادتین کو انگریزی یا اردو میں پڑھے تو کیا وہ پاک ہوگا؟

۵۰

سبق نمبر٧

وضو

نماز کے پہلے مقدمہ، یعنی بدن اور لباس نجاست سے پاک کرنے کے بعد ہم دوسرے مقدمہ یعنی ''وضو''کو بیان کرتے ہیں۔

نماز گزار کے لئے نماز پڑھنے سے پہلے ، وضو کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس عظیم عبادت کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔

بعض مواقع پر''غسل'' بھی کرنا چاہئے، یعنی پورے بدن کو دھونا اور اگر وضو یا غسل کرنے سے معذور ہوتو، ان کی جگہ پر ایک دوسرا کام بنام''تیمم'' بجالائے کہ اس سبق اور آئندہ چند درسوں میں ان میں سے ہر ایک کے احکام بیان کئے جائیں گے ۔

وضو کا طریقہ:

وضو میں سب سے پہلے چہرے کو دھونا چاہئے اور اس کے بعد دائیں ہاتھ کو پھر بائیں ہاتھ کو، ان اعضاء کو دھونے کے بعد، ہتھیلی میں بچی رطوبت سے سرکا مسح کریں یعنی بائیں ہاتھ کو سرپر کھینچ لیں اور اس کے بعد دائیں پائوں اور پھر بائیں پائوں کا مسح کریں۔ اب وضو کے اعمال کے بارے میں بیشتر آشنائی حاصل کرنے کے لئے درج ذیل خاکہ ملا حظہ فرمائیں:

۵۱

اعمال ِوضو(١)

١۔دھونا:

١۔ چہرہ

٢۔ دایاں ہاتھ

٣۔بایاں ہاتھ

لمبائی میں بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کی انتہا تک، اور چوڑائی میں انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے فاصلہ کے برابر ،چہرہ کو دھویا جائے۔ کہنی سے انگلیوں کے سرے تک

٢۔مسح :

١۔سر سرکے اگلے حصہ کا جو پیشانی کے اوپر واقع ہوتا ہے

٢۔ دایاں پائوں

٣۔بایاں پائوں

انگلیوں کے سرے سے پیرکے اوپر والے حصے کے آخر تک *

اعمال وضوکی وضاحت:

دھونا:

١۔چہرے اور ہاتھ دھونے کی واجب مقدار وہی ہے جو بیان ہوئی لیکن یہ یقین حاصل کرنے کے لئے کہ واجب مقدار کو دھولیا ہے، تھوڑا سا چہرے کے اطراف کو بھی دھونے میں شامل کرلیں۔(٢)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ،ج١،ص٢١.م١.

(٢)تحریر الوسیلہ ،ج١،ص٢١م١،٢.

* ( تمام مراجع) احتیاط واجب اس میں ہے کہ جوڑ تک بھی مسح کریں (مسئلہ ٢٥٨)

۵۲

٢۔ احتیاط واجب کی بناپر ز چہرے اور ہاتھوں کو ،اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے، اور اگر نیچے سے اوپرکی طرف دھویا جائے ،تو وضو باطل ہے۔(١)

سرکا مسح:

١۔ مسح کی جگہ: سرکا اگلا ایک چوتھائی حصہ جو پیشانی کے اوپر واقع ہے۔

٢۔ مسح کی واجب مقدار: جس قدر بھی ہوکافی ہے(اس قدر کہ دیکھنے والا یہ کہے کہ مسح کیاہے)۔

٣۔ مسح کی مستحب مقدار: چوڑائی میں جڑی ہوئی تین انگلیوں کے برابر اور لمبائی میں ایک انگلی کی لمبائی کے برابر۔

٤۔ مسح بائیں ہاتھ سے بھی جائز ہے ٭٭

٥۔ ضروری نہیں ہے کہ مسح، سرکی کھال پر کیا جائے بلکہ سرکے اگلے حصے کے بالوں پر بھی صحیح ہے۔ اگر سرکے بال اتنے لمبے ہوں کہ کنگھی کرنے سے بال چہرے پر گرجائیں تو سرکی کھال پر یا بالوں کی جڑ پر مسح کیا جائے گا ۔

٦۔ سرکے دیگر حصوں کے بالوں پر مسح جائز نہیں ہے اگرچہ وہ بال سرکے اگلے حصے یعنی مسح کی جگہ پر ہی کیوں نہ جمے ہوئے ہوں۔(٢)

پا ؤں کا مسح:

١۔مسح کی جگہ: پائوں کا اوپر والاحصہ۔

____________________

(١)توضیح المسائل م٢٤٣.

(٢)توضیح المسائل ۔م ٢٤٩و ٥٠ ٢ و ٢٥١و ٢٥٧ وتحریر الوسیلہ ج ١ ص ٢٣ م١٤.

٭ (تمام مراجع) اوپرسے نیچے کی طرف دھویا جائے۔(مسئلہ ٢٤٩)

٭٭ ( تمام مراجع ) احتیاط واجب کی بناپر دائیں ہاتھ سے مسح کرنا چاہئے (مسئلہ ٢٥٥)

۵۳

٢۔ مسح کی واجب مقدار: لمبائی میں انگلیوں کے سرے سے پائوں کے اوپر والے حصے کی ابھار تک زاور چوڑائی میں جس قدر بھی ہو کافی ہے اگر چہ ایک انگلی کے برابر ہو۔

٣۔ مسح کی مستحب مقدار: پائوں کا اوپر والا پورا حصہ۔

٤۔دائیں پائوں کا بائیں پائوں سے پہلے مسح کرنا چاہئے۔ ٭٭ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ دائیں پائوں کو دائیں ہاتھ سے اور بائیں پائوں کو بائیں ہاتھ سے مسح کریں۔(١)

سراور پاؤں کے مسح کے مشترک مسائل:

١۔ مسح میں ہاتھ کو سراور پائوںپر کھینچنا چاہئے اور اگر ہاتھ کو ایک جگہ قرار دے کر سریاپائوں کو اس پرکھنچ لیا جائے تو وضو باطل ہے، لیکن اگر ہاتھ کو کھینچتے وقت سریا پائوں میں تھوڑی سی حرکت پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(٢)

٢۔ اگر مسح کے لئے ہتھیلی میں کوئی رطوبت باقی نہ رہی ہو تو ہاتھ کو باہر کے کسی پانی سے تر نہیں کرسکتے ،بلکہ وضو کے دیگر اعضاء سے رطوبت کو لے کر اس سے مسح کیا جائے گا۔(٣)

٣۔ ہاتھ کی رطوبت اس قدر ہونا چاہئے کہ سراور پائوں پر اثر کرے۔(٤)

٤۔مسح کی جگہ (سر اور پائوں کا اوپر والا حصہ)خشک ہونا چاہئے،اس لحاظ سے اگر مسح کی جگہ تر ہو تو اسے پہلے خشک کرلینا چاہئے، لیکن اگر رطوبت اتنی کم ہو کہ ہاتھ کی رطوبت کے اثر کے لئے مانع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔(٥)

____________________

(١) توضیح المسائل م٢٥٢ ٢٥٣ والعروة الوثقی، ج ١ص ٩ ٢٠ (٢)توضیح المسائل م ٢٥٥.

(٣)توضیح المسائل م٢٥٧. (٤)العروة الوثقیٰ ج١ ص٢١٢،م٢٦.

(٥)العروة الوثقیٰ ج١ص٢١٢م٢٦.

*تمام مراجع)احتیاط واجب یہ ہے کہ جوڑ تک بھی مسح کیا جائے.(مسئلہ ٣٤٩)

٭٭گلپائیگانی، اراکی،) بائیں پائوں کا دائیں پائوں سے پہلے مسح نہ کرے(خوئی) احتیاط کی بنا پر بائیں پائوں پر دائیں پائوں کے بعد مسح کرے۔(شرائط وضو شرط ٩)

۵۴

٥۔ہاتھ اور سریا پائوں کے درمیان کپڑا یا ٹوپی یا موزہ اورجوتا جیسی کسی چیز کا فاصلہ نہیں ہوناچاہئے،اگر چہ یہ چیزیں رقیق اور نازک ہی کیوںنہ ہوں ،اور رطوبت کھال تک پہنچ بھی جائے، (مگر یہ کہ مجبوری ہو)(١)

٦۔مسح کی جگہ پاک ہونی چاہئے،پس اگر نجس ہو اور اس پر پانی نہ ڈال سکتا ہوتو تیمم کرنا چاہئے۔(٤)

سبق:٧ کا خلاصہ

١۔وضو،یعنی چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھونا اور سر اور پائوں کا (آئندہ بیان ہونے والے شرائط کے ساتھ ) مسح کرنا۔

٢۔احتیاط واحب کی بنا پر چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے۔

٣۔وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے اور پائوں کے اوپر والے حصہ پر مسح کرناچاہئے۔

٤۔سر کے مسح کی واجب مقدار اس قدر ہے کہ دیکھنے والا کہے کہ مسح کیا۔

٥۔سر کا مسح سر کے اگلے حصے پر کرنا چاہئے جو پیشانی کے اوپر واقع ہوتا ہے۔

٦۔پائوں کا مسح جس قدر ہو کافی ہے،اگر چہ ایک انگلی کے برابر بھی ہو، لیکن لمبائی میں انگلی کے سرے سے پائوں کے اوپر والے حصے کے ابھار تک ہونا چاہئے۔

٧۔مسح میں:

*ہاتھ کو مسح کی جگہ پر کھینچنا چاہئے۔

*مسح کی جگہ پاک ہو ۔

____________________

(١)العروة الوثقیٰ ج١ ص٢١٢،م٢٧.

(٢)توضیح المسائل ۔م۔٢٦٠.

*مسح کی جگہ اور ہاتھ کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔

۵۵

سوالات:

١۔وضو کے احکام بیان کیجئے؟

٢۔جس شخص نے اپنے سر کے ایک طرف کے بال کو کنگھی سے آگے کرلیا ہو تو مسح کے وقت اس کا کیا فریضہ ہے؟

٣۔ایسے چار مسائل بیان کیجئے جو سر اور پائوں کے مسح میں مشترک ہوں؟

٤۔کیا راہ چلتے ہوئے سر کا مسح کیا جاسکتا ہے؟

٥۔کیا سخت سردیوں میں موزہ پر مسح کیا جاسکتا ہے؟

٦۔سر اور پائوں کے مسح کی واجب او رمستحب مقدار کو بیان کیجئے؟

۵۶

سبق نمبر٨

وضو کے شرائط

بیان ہونے والے شرائط کے ساتھ وضو صحیح ہے،اور ان میں سے کسی ایک کے نہ ہونے پر وضو باطل ہے۔

وضوکے شرائط:

١ ۔وضو کے پانی اور برتن کے شرائط

١۔وضو کا پانی پاک ہو (نجس نہ ہو )۔

٢۔وضو کا پانی مباح ہو (غصبی نہ ہو)۔*

٣۔ وضو کا پانی مطلق ہو(مضاف نہ ہو)۔

٤۔وضو کے پانی کا برتن مباح ہو۔

٥۔وضو کے پانی کا بر تن سونے اور چاندی کانہ ہو ۔

٢۔ اعضائے وضو کے شرائط:

١۔ پاک ہو ں۔

٢۔ ان تک پانی پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہ ہو۔

٣۔ کیفیت وضوکے شرائط :

١ ۔ترتیب کی رعایت(اعمال وضو میں بیان ہوئی ترتیب کے مطابق)

٢۔موالات کی رعایت (اعمال وضو کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔

٣۔ خودانجام دے ( کسی اور سے مدد نہ لے)۔

٤۔وضو کرنے والے کے شرائط :

١۔اس کے لئے پانی کا استعمال باعث حرج نہ ہو ۔

٢۔ قصد قربت سے وضو کرے ( ریاکاری نہ کرے)۔

____________________

*(تمام مراجع)وضو کاپانی اورو ہ فضا جس میں وضو کیا جاتا ہے، وہ بھی مباح ہو(مسئلہ ٢٧٢کے بعد ،تیسری شرط)

۵۷

وضو کے پانی اور اس کے برتن کے شرائط

١۔نجس او رمضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے،خواہ جانتا ہو کہ پانی نجس یامضاف ہے یا نہ جانتا ہو، یا بھول گیا ہو۔(١)

٢۔وضو کا پانی مباح ہونا چاہئے،اس لحاظ سے درج ذیل مواقع پر وضو باطل ہے:

*اس پانی سے وضو کرنا،جس کا مالک راضی نہ ہو(اس کا راضی نہ ہونا معلوم ہو)

*اس پانی سے وضو کرنا،جس کے مالک کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ راضی ہے یا نہیں۔

*اس پانی سے وضو کرنا جوخاص افراد کے لئے وقف کیا گیا ہو،جیسے:بعض مدرسوں کے حوض اور بعض ہوٹلوں اور مسافر خانوں کے وضو خانے...(٢)

٣۔بڑی نہروں کے پانی سے وضو کرنا،اگر چہ انسان نہ جانتا ہو کہ اس کا مالک راضی ہے یا نہیں، کوئی حرج نہیں ،اگر اس کا مالک وضو کرنے سے منع کرے،تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وضو نہ کیا جائے۔(٣)

٤۔اگر وضو کا پانی غصبی برتن میں ہو اور اس سے وضو کر لیا جائے تو وضو باطل ہے۔(٤)

اعضائے وضو کے شرائط

١۔دھونے اور مسح کرنے کے وقت ،اعضاء وضو کا پاک ہونا ضروری ہے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل٢٦٥.

(٢)العروة الوثقیٰ ج١ ص٢٢٥م٦،٧،٨، توضیح المسائل م ٢٦٧ تا ٢٧٢.

(٣)توضیح المسائل ،مسئلہ٢٧١.

(٤)توضیح المسائل ۔شرائط وضو۔شرط چہارم.

(٥)توضیح المسائل ص٣٥،شرط ششم.

۵۸

٢۔اگر اعضائے وضو پر کوئی چیز ہو جو پانی کے اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہو یا مسح کے اعضاء پر ہو،اگر چہ پانی پہنچنے میں مانع بھی نہ ہو،وضو کے لئے اس چیز کو پہلے ہٹانا چاہئے۔(١)

٣۔ بال پین کی لکیریں،رنگ ،چربی اور کریم کے دھبے،جب رنگ جسم کے بغیر ہوں،تو وضو ء کے لئے مانع نہیںہیں،لیکن اگر جسم رکھتا ہو تو (کھال پر جسم حائل ہو نے کی صورت میں )اول اسے برطرف کرنا چاہئے۔(٢)

(٥) کیفیت وضو کے شرائط

ترتیب(٣)

:وضو کے اعمال ا س ترتیب سے انجام دئے جائیں:

*چہرہ کا دھونا

*دائیںہاتھ کا دھونا

*بائیںہاتھ کا دھونا

*سر کا مسح

*دائیں پیر کا مسح

*بائیں پیر کامسح

اگر اعمال وضو میں ترتیب کی رعایت نہ کی جائے تو وضو باطل ہے،حتیٰ اگر بائیں اور دائیں پائوں کا ایک ساتھ مسح کیا جائے*

____________________

(١)توضیح المسائل ص٣٧شرط ١٣و مسئلہ ٢٥٩.

(٢)استفتا آت ۔ج١ص٣٦و ٣٧س ٤٠تا ٤٥

(٣)تحریر الوسیلہ ج١ص٢٨.

*(گلپائیگانی ۔اراکی۔)بائیں پیر کو دائیں پیر سے پہلے مسح نہ کیا جائے۔(خوئی)احتیاط کی بناء پر بائیں پائوں پر دائیں پائوںکے بعد مسح کرنا چاہئے۔(شرائط وضو،شرط نہم)

۵۹

موالات

١۔موالات،یعنی اعمال وضو کا پے در پے بجالانا تا کہ ایک دیگر اعمال میں فاصلہ نہ ہو ۔

٢۔اگر وضو کے اعمال کے درمیان اتنا وقفہ کیا جائے کہ جب کسی عضو کو دھونا یا مسح کرنا چاہے تو اس سے پہلے والے وضو یا مسح کئے ہوئے عضو کی رطوبت خشک ہوچکی ہو،تو وضو باطل ہے۔(١)

دوسروں سے مدد حاصل نہ کرنا

١۔جو شخص وضو کو خود انجام دے سکتا ہو،اسے دوسروں سے مدد حاصل نہیں کرنی چاہئے، لہٰذا اگر کوئی دوسرا شخص اس کے ہاتھ اور منھ دھوئے یا اس کا مسح انجام دے ، تو وضو باطل ہے۔(٢)

٢۔جو خود وضو نہ کر سکتا ہو،اسے نائب مقرر کرنا چاہئے جو اس کا وضو انجام دے سکے، اگر چہ اس طرح اجرت بھی طلب کرے،تو استطاعت کی صورت میں دینا چاہئے، لیکن وضو کی نیت کو خود انجام دے۔(٣)

وضو کرنے والے کے شرائط

١۔جو جانتا ہو کہ وضو کرنے کی صورت میں بیمار ہو جائے گا یا بیمار ہونے کا خوف ہو،اسے تیمم کرنا چاہئے اور اگر وضو کرے،اس کا وضو باطل ہے، لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرنے کے بعدپتہ چلے کہ پانی مضر تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔(٤) *

____________________

(١)تحریر الوسیلہ۔ج١ ص٢٨و توضیح المسائل م٢٨٣.

(٢)العروة الوثقیٰ۔ج١ص٢٣٤.

(٣)توضیح المسائل۔م ٢٨٦.

(٤)العروة الوثقیٰ۔ج١ص٢٣٢۔توضیح المسائل ۔م ٢٨٨ و ٦٧٢.

*(خوئی )اگر وضو کے بعد پتہ چلے کہ پانی مضر تھا اور ضرر اس حد میں ہو کہ شرعاً حرام نہیں ہے تو اس کا وضو صحیح ہے. (گلپائیگانی)اگر وضو کے بعد معلوم ہوجائے کہ پانی مضر تھاتو احتیاط واجب ہے کہ وضو کے علاوہ تیمم بھی کرے (مسئلہ٢٩٤).

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326