احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)17%

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 326

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 326 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 211818 / ڈاؤنلوڈ: 4586
سائز سائز سائز
احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

احکام کی تعلیم(مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق)

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

٢۔ پانی کی وہ مقدار جو پہلے کرتھی اب اس میں شک ہو کہ یہ پانی قلیل ہوگیا ہے یا نہیں؟ تو وہ کر کے حکم میں ہے ۔

٣۔ جس پانی کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ پاک ہے یا نہیں ؟پاک ہے۔

٤۔ پاک پانی کے بارے میں اگر شک ہوجائے کہ نجس ہوگیا یا نہیں ؟ تو وہ پاک پانی کے حکم میں ہے ۔

٥۔نجس پانی کے بارے میں اگر شک ہوجائے کہ پاک ہوایا نہیں، تو وہ نجس ہے۔

٦۔ مطلق پانی کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ مضاف ہوا ہے یا نہ، تووہ مطلق کے حکم میں ہے۔(١)

پانی سے نجس چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ:

پانی زندگی کی بنیاد اور اکثر نجاسات کو پاک کرنے والا ہے، یہ ان مطہرات میں سے ہے جس سے تمام لوگوں کوروزانہ سروکار رہتاہے ،اب ہم اس سے چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ سیکھتے ہیں:

____________________

(١)العروة الوثقی۔ ج اص ٩ ٤، تحریر الوسیلہ۔ ج ١ص١٥،م١٥.

(٢)توضیح المسائل ، م ١٥٠،١٥٩ ١٦٠.

*مرحوم خوئی :اگر لباس اور اس کے مانند کوئی چیز پیشاب سے نجس ہوئی ہو تو آب کُر سے بھی دو بار دھونا لازم ہے۔(مسئلہ ١٦٠)

۴۱

وضاحت:

الف: چیزوں کو پاک کرنے کے سلسلے میں پہلے عین نجاست کا دور کرنا چاہئے اور اس کے بعد مندرجہ بالا تعداد میں دھونا چاہئے۔مثلاً نجس برتن کو اس کی عین نجاست، دورکرنے کے بعد اگرآب کرسے ایک مرتبہ دھویا جائے تو کافی ہے۔

ب۔ فرش اور لباس اور ان جیسی دوسری چیزیں جو اپنے اندر پانی کو جذب کرتی ہیں اور نچوڑنے کے قابل ہوں تو انھیںقلیل پانی سے دھونے کی صورت میں ہربار دھونے کے بعد اس حد تک نچوڑناچاہئے کہ جذب شدہ پانی باہر آجائے یا کسی اور طریقے سے پانی کو باہر نکالنا چاہئے، کر اور جاری پانی سے دھونے کی صورت میں بھی احتیاط واجب ہے کہ جذب شدہ پانی کو باہر نکالا جائے۔(*)

جاری اورکنویں کا پانی بھی نجس چیزوں کو پاک کرنے کے سلسلے میں بیان شدہ احکام کے مطابق آب کرکے مانند ہے۔

مسئلہ:

ایک نجس برتن کو حسب ذیل طریقے سے دھویا جاسکتاہے:

کر پانی سے: پانی میں ایک بار ڈبو کر باہر نکالا جائے۔

آب قلیل سے: تین بار اس میں پانی بھر کر خالی کیا جائے، یا اس میں تین بار پانی ڈال کر ہر مرتبہ پانی کو اس طرح گھمایا جائے کہ پانی نجس جگہوں تک پہنچ جائے اور اس کے بعد اسے پھینک دیا جائے۔

____________________

*(خوئی)اسے نچوڑنا لازم ہے (اراکی، گلپائیگانی) آب کر میں نچوڑنا لازم نہیں ہے (مسئلہ ١٦١)

۴۲

سبق ٥ کا خلاصہ

١۔ آب قلیل، نجاست ملنے سے نجس ہوتاہے۔

٢۔ کر، جاری، کنویں اور بارش کا پانی اگر نجاست ملنے سے نجاست کی بو، رنگ یا مزہ اس میں سرایت کرے تو نجس ہوجاتاہے۔

٣۔ وہ پانی جو کرکے حکم میں ہے اس وقت تک پاک ہے جب تک نجاست کی بو، رنگ یا مزہ اس میں سرایت نہ کرجائے۔

٤۔ بارش کا پانی پاک کرنے والاہے اور فرش اور لباس میں انہیں نچوڑنا ضروری نہیں ہے اور جب تک نجاست کی بو، رنگ یا مزہ اس میں سرایت نہ کرے، پاک ہے۔

٥۔ وہ پانی جس کے بارے میں معلوم نہیں، کرہے یا نہ؟ نجاست ملنے سے نجس نہیں ہوتا ۔

٦۔ جس پانی کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ پاک ہے یا نہیں؟ پاک پانی کے حکم میں ہے۔

٧۔جس پانی کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضاف، تو مطلق پانی کے حکم میں ہے ۔

٨۔برتن کے علاوہ تمام نجس چیزیں ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوجا تی ہیں، البتہ اگر پیشاب سے نجس ہوئی ہوں تو آب قلیل سے دوبار دھونا چاہئے۔

٩۔ فرش اور لباس اور ان جیسی چیزوں کو پاک کرتے وقت ہر بار دھونے کے بعد انھیں نچوڑا جائے یا کسی اور طریقے سے جذب شدہ پانی کو باہر نکالا جائے۔

۴۳

سوالات:

١۔ آب کر کیسے نجس ہوتا ہے؟

٢۔ کیا بارش کا پانی جو ایک جگہ جمع ہوا ہو اور بارش تھم گئی ہو، بارش کے پانی کا حکم رکھتا ہے؟

٣۔ اگر پانی کا ایک منبع جو کرسے زیادہ تھا، شک کیا جائے کہ اس میں موجود پانی کرہے یا نہ ؟ تو اس کا کیا حکم ہے؟

٤۔ خون سے نجس شدہ لباس کو آب قلیل اور نہر کے پانی سے کیسے دھویا جائے؟

۴۴

سبق نمبر ٦

نجس زمین کو پاک کرنے کا طریقہ

زمین کو پاک کرنا۔(۱)

١۔ آب کرسے: پہلے نجاست کو دور کریں، اس کے بعد کریا جاری پانی اس پر اس قدر ڈالیں کہ پانی تمام نجس جگہوں تک پہنچ جائے۔

٢۔ آب قلیل سے:

١۔اگر زمین پر پانی جاری نہیں ہوتا ( یعنی زمین پانی کو اپنے اندر جذب کرتی ہے تو وہ) قلیل پانی سے پاک نہیں ہوگی *

٢.پانی زمین پرجاری ہوتاہے:جہاں پانی جاری ہوگیا، وہ جگہ پاک ہوجائے گی ۔

مسئلہ ١: نجس دیوار بھی، نجس زمین کی طرح پاک کی جاسکتی ہے۔(٣)

مسئلہ ٢: زمین کو پاک کرتے وقت اگر پانی جاری ہوکر کنویں میں جائے یااس جگہ سے باہرجائے تو وہ تمام جگہیں پاک ہوجاتی ہیں جہاں سے پانی جاری ہوا ہے۔

____________________

(۱)توضیح المسائل، م ١٧٩۔ ١٨٠.

*(اراکی) زمین کا اوپر والا حصہ پاک ہوگا،( مسئلہ ١٧٨ )(خوئی) پاک ہوجائے گی (مسئلہ ١٨٠)

(٣)توضیح المسائل، م ١٧٩۔ ١٨٠.

۴۵

زمین:

١۔ اگر پائوں کے تلوے یا جوتے کا تلا راہ چلتے نجس ہوجائیں اور زمین کے ساتھ چھونے کی وجہ سے نجاست دور ہوجائے، تو پاک ہوجاتے ہیں۔پس زمین صرف پائوں کے تلوے اور جوتے کے تلے کو پاک کرنے والی ہے، وہ بھی حسب ذیل شرائط کی بناپر:

*زمین پاک ہو۔

*زمین خشک ہو۔

*زمین اس صورت میں پاک کرنے والی ہے جب مٹی، ریت، پتھر، اینٹ اور ان جیسی چیزکی ہو۔(١)

مسئلہ: اگر زمین سے چھونے کی وجہ سے پائوں کے تلوے یا جوتے کی تہ میں موجود نجاست زائل ہوجائے تو یہ پاک ہوجاتے ہیں، لیکن بہتر ہے کم ازکم پندرہ قدم راہ چلیں۔(٢)

آفتاب :

آفتاب بھی آئندہ بیان ہونے والی شرائط کے ساتھ درج ذیل چیزوں کو پاک کرتاہے :

*زمین

*عمارت اور وہ چیزیں جو عمارت میں نصب کی جاتی ہیں، جیسے دروازہ اور کھڑکی وغیرہ.

*درخت اور نباتات۔(٣)

آفتاب کے مطہر ہونے کی شرائط:

*نجس چیز اتنی ترہوکہ کسی چیزکے اس سے چھونے کی صورت میں وہ چیز بھی تر ہوجائے۔

*نجس چیز آفتاب کی گرمی سے خشک ہوجائے، اگر رطوبت باقی رہے تو پاک نہیں ہوگی۔

____________________

(١) توضیح المسائل، مسئلہ ١٨٣، ١٩٢. (٢) العروة الوثقیٰ، ج١، ٢ص ١٢٥.

(٣)العروة الوثقیٰ، ج ١، ص ١٢٩، وتحریر الوسیلہ، ج ١، ص ١٣٠.

۴۶

*بادل یا پردہ جیسی کوئی چیز آفتاب کی گرمی کے لئے مانع نہ ہو، البتہ اگر یہ چیز رقیق اور اتنی نازک ہوکہ آفتاب کی گرمی کو نہ روک سکے تو کوئی حرج نہیں ۔

*صرف آفتاب اسے خشک کرے، مثال کے طور پر ہوا کی مددسے خشک نہ ہوجائے۔

*آفتاب پڑنے کے وقت عین نجاست زاس میں موجود نہ ہو، پس اگر عین نجاست موجود ہوتو آفتاب پڑنے سے پہلے اسے برطرف کیا جائے۔

*دیوار یازمین کے باہر اور اندر والے حصہ ایک ہی دفعہ خشک کرے پس اگر اس کے باہر والے حصہ کو آج خشک کرے اور اس کے اندروالے حصہ کو کل تو اس صورت میں صرف اس کا باہروالاحصہ پاک ہوگا۔

مسئلہ: اگر زمین اور اس کے مانند کوئی اور چیز نجس ہو، لیکن ترنہ ہوتو اس پر تھوڑا ساپانی یا کوئی اور چیز ڈال کر اسے ترکیا جائے اور اس کے بعد آفتاب پڑنے سے وہ پاک ہوسکتاہے۔(١)

اسلام :

کافر، شہادتین پڑھنے کے بعد مسلمان ہوجاتاہے اور اسلام لانے سے، اس کا تمام بدن پاک ہوجاتاہے، یعنی کہے:''اشهدان لااله الا اﷲ واشهدان محمداً رسول اﷲ''. (٢)

____________________

* جیسے خون عین نجاست ہے۔

(١) العروة الوثقیٰ، ج١، ص ١٢٩ تا ١٣١ 'تحریر الوسیلہ'ج ١، ص ١٣٠.

(٢)تحریر الوسیلہ،ج١،ص١٣١توضیح المسائلم ٢٠٧.

۴۷

عین نجاست کا برطرف ہونا:

دومواقع پر عین نجاست کے برطرف ہونے سے نجس چیز پاک ہوجاتی ہے اور پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں:

الف: حیوان کا بدن، مثلا ایک پرندہ کی چونچ نجاست کھانے کی وجہ سے نجس ہوگئی ہوتو نجاست برطرف ہونے پر پاک ہوجاتی ہے۔

ب۔ انسان کے بدن کا اندرونی حصہ، جیسے منھ، ناک اور کان کا اندرونی حصہ ۔مثلاً اگر مسواک کرتے وقت مسوڑوں سے خون آئے، جب آب دہن میں خون کا رنگ نہ ہوتو پاک ہے اور منھ کے اندر پانی ڈالنے کی ضروت نہیں(١)

____________________

(١) توضیح المسائل، م ٢١٦، ٢١٧

۴۸

سبق: ٦ کا خلاصہ

١۔ جس زمین پر پانی جاری نہ ہوتا ہو، وہ آب قلیل سے پاک نہیں ہوتی ۔

٢۔ اگر کسی زمین کو آب قلیل سے پاک کیا جائے، جہاں سے پانی جاری ہوجائے وہ جگہ پاک ہوگی اور وہ جگہ جہاں پانی جمع ہوجائے، نجس ہے۔

٣۔ اگر پائوں کے تلوے اور جوتے کی تہ نجس ہوں اور زمین پر چلنے سے ، نجاست برطرف ہوجائے، توپاک ہوتے ہیں۔

٤۔ آفتاب چند شرائط کے ساتھ، زمین، عمارت، درخت اور نباتات کو پاک کرتا ہے۔

٥۔ اگر کافر، مسلمان ہوجائے ،تو پاک ہوجاتاہے۔

٦۔ منہ اور ناک کے اندر نجاست برطرف ہونے سے یہ دونوں پاک ہوجاتے ہیں اور پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔

۴۹

سوالات:

١۔ دیوار کا ایک حصہ نجس ہوا ہے، وضاحت کیجئے کہ اسے کس طرح پاک کیا جائے؟

٢۔ جوتے کی تہ اگر نجس کیچڑسے ناپاک ہوئی ہو تو راہ چلنے سے کب پاک ہوگی؟

٣۔ کیا آفتاب، لکڑی، گندم اور چاول کو پاک کرتا ہے؟

٤۔ کافر اگر شہادتین کو انگریزی یا اردو میں پڑھے تو کیا وہ پاک ہوگا؟

۵۰

سبق نمبر٧

وضو

نماز کے پہلے مقدمہ، یعنی بدن اور لباس نجاست سے پاک کرنے کے بعد ہم دوسرے مقدمہ یعنی ''وضو''کو بیان کرتے ہیں۔

نماز گزار کے لئے نماز پڑھنے سے پہلے ، وضو کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس عظیم عبادت کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔

بعض مواقع پر''غسل'' بھی کرنا چاہئے، یعنی پورے بدن کو دھونا اور اگر وضو یا غسل کرنے سے معذور ہوتو، ان کی جگہ پر ایک دوسرا کام بنام''تیمم'' بجالائے کہ اس سبق اور آئندہ چند درسوں میں ان میں سے ہر ایک کے احکام بیان کئے جائیں گے ۔

وضو کا طریقہ:

وضو میں سب سے پہلے چہرے کو دھونا چاہئے اور اس کے بعد دائیں ہاتھ کو پھر بائیں ہاتھ کو، ان اعضاء کو دھونے کے بعد، ہتھیلی میں بچی رطوبت سے سرکا مسح کریں یعنی بائیں ہاتھ کو سرپر کھینچ لیں اور اس کے بعد دائیں پائوں اور پھر بائیں پائوں کا مسح کریں۔ اب وضو کے اعمال کے بارے میں بیشتر آشنائی حاصل کرنے کے لئے درج ذیل خاکہ ملا حظہ فرمائیں:

۵۱

اعمال ِوضو(١)

١۔دھونا:

١۔ چہرہ

٢۔ دایاں ہاتھ

٣۔بایاں ہاتھ

لمبائی میں بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کی انتہا تک، اور چوڑائی میں انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے فاصلہ کے برابر ،چہرہ کو دھویا جائے۔ کہنی سے انگلیوں کے سرے تک

٢۔مسح :

١۔سر سرکے اگلے حصہ کا جو پیشانی کے اوپر واقع ہوتا ہے

٢۔ دایاں پائوں

٣۔بایاں پائوں

انگلیوں کے سرے سے پیرکے اوپر والے حصے کے آخر تک *

اعمال وضوکی وضاحت:

دھونا:

١۔چہرے اور ہاتھ دھونے کی واجب مقدار وہی ہے جو بیان ہوئی لیکن یہ یقین حاصل کرنے کے لئے کہ واجب مقدار کو دھولیا ہے، تھوڑا سا چہرے کے اطراف کو بھی دھونے میں شامل کرلیں۔(٢)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ،ج١،ص٢١.م١.

(٢)تحریر الوسیلہ ،ج١،ص٢١م١،٢.

* ( تمام مراجع) احتیاط واجب اس میں ہے کہ جوڑ تک بھی مسح کریں (مسئلہ ٢٥٨)

۵۲

٢۔ احتیاط واجب کی بناپر ز چہرے اور ہاتھوں کو ،اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے، اور اگر نیچے سے اوپرکی طرف دھویا جائے ،تو وضو باطل ہے۔(١)

سرکا مسح:

١۔ مسح کی جگہ: سرکا اگلا ایک چوتھائی حصہ جو پیشانی کے اوپر واقع ہے۔

٢۔ مسح کی واجب مقدار: جس قدر بھی ہوکافی ہے(اس قدر کہ دیکھنے والا یہ کہے کہ مسح کیاہے)۔

٣۔ مسح کی مستحب مقدار: چوڑائی میں جڑی ہوئی تین انگلیوں کے برابر اور لمبائی میں ایک انگلی کی لمبائی کے برابر۔

٤۔ مسح بائیں ہاتھ سے بھی جائز ہے ٭٭

٥۔ ضروری نہیں ہے کہ مسح، سرکی کھال پر کیا جائے بلکہ سرکے اگلے حصے کے بالوں پر بھی صحیح ہے۔ اگر سرکے بال اتنے لمبے ہوں کہ کنگھی کرنے سے بال چہرے پر گرجائیں تو سرکی کھال پر یا بالوں کی جڑ پر مسح کیا جائے گا ۔

٦۔ سرکے دیگر حصوں کے بالوں پر مسح جائز نہیں ہے اگرچہ وہ بال سرکے اگلے حصے یعنی مسح کی جگہ پر ہی کیوں نہ جمے ہوئے ہوں۔(٢)

پا ؤں کا مسح:

١۔مسح کی جگہ: پائوں کا اوپر والاحصہ۔

____________________

(١)توضیح المسائل م٢٤٣.

(٢)توضیح المسائل ۔م ٢٤٩و ٥٠ ٢ و ٢٥١و ٢٥٧ وتحریر الوسیلہ ج ١ ص ٢٣ م١٤.

٭ (تمام مراجع) اوپرسے نیچے کی طرف دھویا جائے۔(مسئلہ ٢٤٩)

٭٭ ( تمام مراجع ) احتیاط واجب کی بناپر دائیں ہاتھ سے مسح کرنا چاہئے (مسئلہ ٢٥٥)

۵۳

٢۔ مسح کی واجب مقدار: لمبائی میں انگلیوں کے سرے سے پائوں کے اوپر والے حصے کی ابھار تک زاور چوڑائی میں جس قدر بھی ہو کافی ہے اگر چہ ایک انگلی کے برابر ہو۔

٣۔ مسح کی مستحب مقدار: پائوں کا اوپر والا پورا حصہ۔

٤۔دائیں پائوں کا بائیں پائوں سے پہلے مسح کرنا چاہئے۔ ٭٭ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ دائیں پائوں کو دائیں ہاتھ سے اور بائیں پائوں کو بائیں ہاتھ سے مسح کریں۔(١)

سراور پاؤں کے مسح کے مشترک مسائل:

١۔ مسح میں ہاتھ کو سراور پائوںپر کھینچنا چاہئے اور اگر ہاتھ کو ایک جگہ قرار دے کر سریاپائوں کو اس پرکھنچ لیا جائے تو وضو باطل ہے، لیکن اگر ہاتھ کو کھینچتے وقت سریا پائوں میں تھوڑی سی حرکت پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(٢)

٢۔ اگر مسح کے لئے ہتھیلی میں کوئی رطوبت باقی نہ رہی ہو تو ہاتھ کو باہر کے کسی پانی سے تر نہیں کرسکتے ،بلکہ وضو کے دیگر اعضاء سے رطوبت کو لے کر اس سے مسح کیا جائے گا۔(٣)

٣۔ ہاتھ کی رطوبت اس قدر ہونا چاہئے کہ سراور پائوں پر اثر کرے۔(٤)

٤۔مسح کی جگہ (سر اور پائوں کا اوپر والا حصہ)خشک ہونا چاہئے،اس لحاظ سے اگر مسح کی جگہ تر ہو تو اسے پہلے خشک کرلینا چاہئے، لیکن اگر رطوبت اتنی کم ہو کہ ہاتھ کی رطوبت کے اثر کے لئے مانع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔(٥)

____________________

(١) توضیح المسائل م٢٥٢ ٢٥٣ والعروة الوثقی، ج ١ص ٩ ٢٠ (٢)توضیح المسائل م ٢٥٥.

(٣)توضیح المسائل م٢٥٧. (٤)العروة الوثقیٰ ج١ ص٢١٢،م٢٦.

(٥)العروة الوثقیٰ ج١ص٢١٢م٢٦.

*تمام مراجع)احتیاط واجب یہ ہے کہ جوڑ تک بھی مسح کیا جائے.(مسئلہ ٣٤٩)

٭٭گلپائیگانی، اراکی،) بائیں پائوں کا دائیں پائوں سے پہلے مسح نہ کرے(خوئی) احتیاط کی بنا پر بائیں پائوں پر دائیں پائوں کے بعد مسح کرے۔(شرائط وضو شرط ٩)

۵۴

٥۔ہاتھ اور سریا پائوں کے درمیان کپڑا یا ٹوپی یا موزہ اورجوتا جیسی کسی چیز کا فاصلہ نہیں ہوناچاہئے،اگر چہ یہ چیزیں رقیق اور نازک ہی کیوںنہ ہوں ،اور رطوبت کھال تک پہنچ بھی جائے، (مگر یہ کہ مجبوری ہو)(١)

٦۔مسح کی جگہ پاک ہونی چاہئے،پس اگر نجس ہو اور اس پر پانی نہ ڈال سکتا ہوتو تیمم کرنا چاہئے۔(٤)

سبق:٧ کا خلاصہ

١۔وضو،یعنی چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھونا اور سر اور پائوں کا (آئندہ بیان ہونے والے شرائط کے ساتھ ) مسح کرنا۔

٢۔احتیاط واحب کی بنا پر چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے۔

٣۔وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے اور پائوں کے اوپر والے حصہ پر مسح کرناچاہئے۔

٤۔سر کے مسح کی واجب مقدار اس قدر ہے کہ دیکھنے والا کہے کہ مسح کیا۔

٥۔سر کا مسح سر کے اگلے حصے پر کرنا چاہئے جو پیشانی کے اوپر واقع ہوتا ہے۔

٦۔پائوں کا مسح جس قدر ہو کافی ہے،اگر چہ ایک انگلی کے برابر بھی ہو، لیکن لمبائی میں انگلی کے سرے سے پائوں کے اوپر والے حصے کے ابھار تک ہونا چاہئے۔

٧۔مسح میں:

*ہاتھ کو مسح کی جگہ پر کھینچنا چاہئے۔

*مسح کی جگہ پاک ہو ۔

____________________

(١)العروة الوثقیٰ ج١ ص٢١٢،م٢٧.

(٢)توضیح المسائل ۔م۔٢٦٠.

*مسح کی جگہ اور ہاتھ کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔

۵۵

سوالات:

١۔وضو کے احکام بیان کیجئے؟

٢۔جس شخص نے اپنے سر کے ایک طرف کے بال کو کنگھی سے آگے کرلیا ہو تو مسح کے وقت اس کا کیا فریضہ ہے؟

٣۔ایسے چار مسائل بیان کیجئے جو سر اور پائوں کے مسح میں مشترک ہوں؟

٤۔کیا راہ چلتے ہوئے سر کا مسح کیا جاسکتا ہے؟

٥۔کیا سخت سردیوں میں موزہ پر مسح کیا جاسکتا ہے؟

٦۔سر اور پائوں کے مسح کی واجب او رمستحب مقدار کو بیان کیجئے؟

۵۶

سبق نمبر٨

وضو کے شرائط

بیان ہونے والے شرائط کے ساتھ وضو صحیح ہے،اور ان میں سے کسی ایک کے نہ ہونے پر وضو باطل ہے۔

وضوکے شرائط:

١ ۔وضو کے پانی اور برتن کے شرائط

١۔وضو کا پانی پاک ہو (نجس نہ ہو )۔

٢۔وضو کا پانی مباح ہو (غصبی نہ ہو)۔*

٣۔ وضو کا پانی مطلق ہو(مضاف نہ ہو)۔

٤۔وضو کے پانی کا برتن مباح ہو۔

٥۔وضو کے پانی کا بر تن سونے اور چاندی کانہ ہو ۔

٢۔ اعضائے وضو کے شرائط:

١۔ پاک ہو ں۔

٢۔ ان تک پانی پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہ ہو۔

٣۔ کیفیت وضوکے شرائط :

١ ۔ترتیب کی رعایت(اعمال وضو میں بیان ہوئی ترتیب کے مطابق)

٢۔موالات کی رعایت (اعمال وضو کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔

٣۔ خودانجام دے ( کسی اور سے مدد نہ لے)۔

٤۔وضو کرنے والے کے شرائط :

١۔اس کے لئے پانی کا استعمال باعث حرج نہ ہو ۔

٢۔ قصد قربت سے وضو کرے ( ریاکاری نہ کرے)۔

____________________

*(تمام مراجع)وضو کاپانی اورو ہ فضا جس میں وضو کیا جاتا ہے، وہ بھی مباح ہو(مسئلہ ٢٧٢کے بعد ،تیسری شرط)

۵۷

وضو کے پانی اور اس کے برتن کے شرائط

١۔نجس او رمضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے،خواہ جانتا ہو کہ پانی نجس یامضاف ہے یا نہ جانتا ہو، یا بھول گیا ہو۔(١)

٢۔وضو کا پانی مباح ہونا چاہئے،اس لحاظ سے درج ذیل مواقع پر وضو باطل ہے:

*اس پانی سے وضو کرنا،جس کا مالک راضی نہ ہو(اس کا راضی نہ ہونا معلوم ہو)

*اس پانی سے وضو کرنا،جس کے مالک کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ راضی ہے یا نہیں۔

*اس پانی سے وضو کرنا جوخاص افراد کے لئے وقف کیا گیا ہو،جیسے:بعض مدرسوں کے حوض اور بعض ہوٹلوں اور مسافر خانوں کے وضو خانے...(٢)

٣۔بڑی نہروں کے پانی سے وضو کرنا،اگر چہ انسان نہ جانتا ہو کہ اس کا مالک راضی ہے یا نہیں، کوئی حرج نہیں ،اگر اس کا مالک وضو کرنے سے منع کرے،تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وضو نہ کیا جائے۔(٣)

٤۔اگر وضو کا پانی غصبی برتن میں ہو اور اس سے وضو کر لیا جائے تو وضو باطل ہے۔(٤)

اعضائے وضو کے شرائط

١۔دھونے اور مسح کرنے کے وقت ،اعضاء وضو کا پاک ہونا ضروری ہے۔(٥)

____________________

(١)توضیح المسائل٢٦٥.

(٢)العروة الوثقیٰ ج١ ص٢٢٥م٦،٧،٨، توضیح المسائل م ٢٦٧ تا ٢٧٢.

(٣)توضیح المسائل ،مسئلہ٢٧١.

(٤)توضیح المسائل ۔شرائط وضو۔شرط چہارم.

(٥)توضیح المسائل ص٣٥،شرط ششم.

۵۸

٢۔اگر اعضائے وضو پر کوئی چیز ہو جو پانی کے اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہو یا مسح کے اعضاء پر ہو،اگر چہ پانی پہنچنے میں مانع بھی نہ ہو،وضو کے لئے اس چیز کو پہلے ہٹانا چاہئے۔(١)

٣۔ بال پین کی لکیریں،رنگ ،چربی اور کریم کے دھبے،جب رنگ جسم کے بغیر ہوں،تو وضو ء کے لئے مانع نہیںہیں،لیکن اگر جسم رکھتا ہو تو (کھال پر جسم حائل ہو نے کی صورت میں )اول اسے برطرف کرنا چاہئے۔(٢)

(٥) کیفیت وضو کے شرائط

ترتیب(٣)

:وضو کے اعمال ا س ترتیب سے انجام دئے جائیں:

*چہرہ کا دھونا

*دائیںہاتھ کا دھونا

*بائیںہاتھ کا دھونا

*سر کا مسح

*دائیں پیر کا مسح

*بائیں پیر کامسح

اگر اعمال وضو میں ترتیب کی رعایت نہ کی جائے تو وضو باطل ہے،حتیٰ اگر بائیں اور دائیں پائوں کا ایک ساتھ مسح کیا جائے*

____________________

(١)توضیح المسائل ص٣٧شرط ١٣و مسئلہ ٢٥٩.

(٢)استفتا آت ۔ج١ص٣٦و ٣٧س ٤٠تا ٤٥

(٣)تحریر الوسیلہ ج١ص٢٨.

*(گلپائیگانی ۔اراکی۔)بائیں پیر کو دائیں پیر سے پہلے مسح نہ کیا جائے۔(خوئی)احتیاط کی بناء پر بائیں پائوں پر دائیں پائوںکے بعد مسح کرنا چاہئے۔(شرائط وضو،شرط نہم)

۵۹

موالات

١۔موالات،یعنی اعمال وضو کا پے در پے بجالانا تا کہ ایک دیگر اعمال میں فاصلہ نہ ہو ۔

٢۔اگر وضو کے اعمال کے درمیان اتنا وقفہ کیا جائے کہ جب کسی عضو کو دھونا یا مسح کرنا چاہے تو اس سے پہلے والے وضو یا مسح کئے ہوئے عضو کی رطوبت خشک ہوچکی ہو،تو وضو باطل ہے۔(١)

دوسروں سے مدد حاصل نہ کرنا

١۔جو شخص وضو کو خود انجام دے سکتا ہو،اسے دوسروں سے مدد حاصل نہیں کرنی چاہئے، لہٰذا اگر کوئی دوسرا شخص اس کے ہاتھ اور منھ دھوئے یا اس کا مسح انجام دے ، تو وضو باطل ہے۔(٢)

٢۔جو خود وضو نہ کر سکتا ہو،اسے نائب مقرر کرنا چاہئے جو اس کا وضو انجام دے سکے، اگر چہ اس طرح اجرت بھی طلب کرے،تو استطاعت کی صورت میں دینا چاہئے، لیکن وضو کی نیت کو خود انجام دے۔(٣)

وضو کرنے والے کے شرائط

١۔جو جانتا ہو کہ وضو کرنے کی صورت میں بیمار ہو جائے گا یا بیمار ہونے کا خوف ہو،اسے تیمم کرنا چاہئے اور اگر وضو کرے،اس کا وضو باطل ہے، لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرنے کے بعدپتہ چلے کہ پانی مضر تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔(٤) *

____________________

(١)تحریر الوسیلہ۔ج١ ص٢٨و توضیح المسائل م٢٨٣.

(٢)العروة الوثقیٰ۔ج١ص٢٣٤.

(٣)توضیح المسائل۔م ٢٨٦.

(٤)العروة الوثقیٰ۔ج١ص٢٣٢۔توضیح المسائل ۔م ٢٨٨ و ٦٧٢.

*(خوئی )اگر وضو کے بعد پتہ چلے کہ پانی مضر تھا اور ضرر اس حد میں ہو کہ شرعاً حرام نہیں ہے تو اس کا وضو صحیح ہے. (گلپائیگانی)اگر وضو کے بعد معلوم ہوجائے کہ پانی مضر تھاتو احتیاط واجب ہے کہ وضو کے علاوہ تیمم بھی کرے (مسئلہ٢٩٤).

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326