درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48372
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48372 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

بائیسواں درس

بشر کو وحی اور نبوت کی ضرورت

بعثت انبیاء (ع) کی ضرورت

بشری علم کی ناکامی

بعثت انبیاء (ع)کے فوائد

بعثت انبیاء (ع) کی ضرورت۔

یہ مسئلہ نبوت کے مسائل میں سے ہے جسے ایک ایسے برہان کے ذریعہ ثابت کرنا ہوگا کہ جو تین مقدمات پر مشتمل ہو۔

پہلا مقدمہ یہ ہے انسان کی خلقت کا ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے مختار ہونے کے ساتھ اعمال کے ذریعہ راہ تکامل کو انتہائی کمال تک طے کرے، ایسا کمال کہ جو انسان کے مختار ہوئے بغیر قابل دست رسی نہیں ہے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انسان کو اس لئے خلق کیا گیا ہے، کہ وہ خدا کی اطاعت و عبادت کے ذریعہ اپنے وجود میں رحمت الٰہی کی دریافت کی لیاقت پیدا کرے، جو صرف اور صرف انسان کامل سے مخصوص ہے، اورخدا کاا رادہ بھی انسان کی سعادت اور اس کے کمال سے متعلق ہے لیکن چونکہ یہ سعادت اختیاری افعال انجام دئے بغیر میسر نہیں ہے اس مسئلہ نے بشری زندگی کو دو راہے پر کھڑا کردیا ہے ،تا کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاہے انتخاب کرے جن میں سے ایک راستہ شقاوت کی طرف جاتا ہے جو بالتبع ارادہ الٰہی سے متعلق ہے نہ بالاصالةً۔

یہ مقدمہ عدل و حکمت الٰہی کی بحث کے ضمن میں واضح ہوگیا۔

دوسرا مقدمہ: یہ ہے کہ غور و فکر کے ذریعہ اختیار و انتخاب کرنا، مختلف ا مور کی انجام دہی میں بیرونی عوامل کا مہیا ہونا اور ان کی طرف باطنی کشش کے پائے جانے کے علاوہ امور کے صحیح یا غلط ہونے اور اسی طرح شائستہ اور ناشائستہ راستو ں کی ضرورت ہے، اور انسان اسی صورت میں غور و فکر کے ساتھ انتخاب کر سکتا ہے کہ جب ہدف اور اس تک پہنچنے والے راستہ کو اچھی طرح جانتا ہو ، اور اس کے فراز و نشیب ، پیچ و خم سے پوری طرح آگاہ ہو لہذا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی معرفت کے حصول کے لئے خدا وند متعال ضروری وسائل و امکانات ، بشر کے اختیار میں قرار دے، وگرنہ اس کی مثال اس شخص کی ہوگی جو کسی کو اپنے مہمان سرا پر دعوت دے، لیکن اسے اس کا پتہ اور وہاں تک جانے والے راستہ کی نشاندہی نہ کرے ، ظاہرہے کہ ایسا عمل حکمت اور غرض کے خلاف ہوگا۔

یہ مقدمہ بھی چونکہ واضح ہے لہٰذا ا س کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

تیسرا مقدمہ :یہ ہے کہ انسانوں کی وہ معمولی معرفت جو حس و عقل کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے اگر چہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے لیکن سعادت حقیقی اور راہ کمال کو فردی و اجتماعی ، مادی و معنوی، دنیوی و آخروی پہلوں کے لحاظ سے پہچاننے کے لئے کافی نہیں ہے، اور اگر ان مشکلات کے حل کے لئے کوئی اور راستہ نہ ہو تو انسان کی خلقت سے خدا کا ہدف پورا نہیں ہو سکتا۔

ان مقدمات کی بدولت ہم اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ راہ تکامل کی پہچان کے لئے حس و عقل کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ انسان کے اختیار میں ہونا چاہیے، تا کہ انسان براہ راست یا ایک یا چند واسطہ کے ذریعہ اس سے مستفید ہو سکے، ہاں،یہ وہی وحی کا راستہ ہے جسے خدا نے اپنے انبیاء (ع)کے اختیار میں دے دیا ہے، جس سے عوام، انبیاء (ع)کے ذریعہ اور انبیاء (ع) براہ راست مستفید ہوتے ہیں، اور جو چیز کمال نہائی اور سعادت کے حصول میں ضروری ہے اسے انسانوں کے اختیار میں قرار دیا ہے۔

ان تینوں مقدموں میں تیسرے مقدمہ کی بہ نسبت ممکن ہے کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہو لہٰذا اس سلسلہ میں تھوڑی سی وضاحت کریں گے تا کہ اس طرح راہ تکامل کی تشخیص میں علوم بشری کی کمزوری اور بشر کیلئے راہ وحی کی ضرورت پوری طرح روشن ہوجائے۔

بشری علوم کی ناکامی۔

زندگی کے صحیح راستہ کو اس کے تمام جوانب کے ساتھ پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان کے آغاز و انجام نیز بقیہ موجودات کے ساتھ اس کے روا بط اور مخلوقات کے ساتھ اس کی معاشرت کے علاوہ سعادت و شقاوت میں اثر انداز ہونے والے مختلف پہلؤں کا جانا ضروری ہے نیز مصالح و مفاسد ،سود و زیاں میں کمی اور زیادتی کی تشخیص بھی ضروری ہے، تا کہ اس طرح کھربوں انسان کے وظائف مشخص ہو سکیں، جو مختلف طبیعی اور اجتماعی شرائط اور بدنی او روحی تفاوت و اختلافات کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں، لیکن ان تمام امور پر ایک یا چند افراد کی بات کیا ہزاروں علو م انسانی کے ماہرین بھی اکٹھا ہوجائیں تو بھی ایسے پیچیدہ فارمولے کو کشف کرکے اسے منظم اصول و قوانین کی ایسی شکل نہیں دے سکتے کہ جو تمام انسانوں کے لئے فردی و اجتماعی، مادی، معنوی، دنیوی و اخروی اعتبار سے مصالح و مفاسد کی ضمانت دے سکے، اس کے علاوہ بے شمار مصالح و مفاسد کے ٹکرائو کے دوران جو اکثر اوقات پیش آتے ہیں ان میں اہم کو انتخاب کر کے وظیفہ کو معین کرنا بھی ان کی استطاعت کے باہر ہے۔

تاریخ بشر میں بدلتے ہوئے قوانین نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ہزاروں سال تک ہزاروں حقوق دانوں کی تحقیق و جستجو سے آج تک کامل اور عیب و نقص سے مبرا قوانین کا ایک مجموعہ وجود میں نہیں آسکا ،بلکہ ہمیشہ قانون کو وضع کرنے والے ایک مدت کے بعد اپنے ہی وضع کردہ قانون میں خطا سے آگاہ ہوئے، یا تو اسے بدل دیا یا پھر اسے کسی دوسرے وضع کردہ قانون کے ذریعہ کامل کردیا۔

لیکن اس مقام پر اس مطلب کی طرف توجہ مبذول رہے ،کہ انھوں نے بہت حد تک اپنے قوانین کو وضع کرنے میں الٰہی قوانین کا سہارا لیا ہے اور یہ بھی معلوم رہے، کہ قانون گذاروں کی تمام سعی و کوشش دنیوی اور اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لئے صرف ہوتی رہی ہے، لیکن کبھی بھی انھوں نے اخروی منافع کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور دنیوی قوانین سے اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا، بلکہ اگر وہ اس مسئلہ کو مد نظر رکھ کر قو انین وضع کرتے تو کبھی بھی اس راہ میں کامیاب نہ ہوتے، اس لئے کہ مادی اور دنیوی مصلحتوں کو ایک حد تک تجربوں کے ذریعہ معین کیا جاسکتا ہے لیکن معنوی اور اخروی مصلحتیں کسی بھی حال میںتجربہ حسی کے قابل نہیں ہیں، اور پوری طرح سے اس کے مصالح کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اسی طرح ان کے لئے مصالح اخروی اور مصالح دنیوی کے ٹکرائو کے ہنگام اہم ومہم کو تشخیص دینا بھی غیر ممکن ہے؟

بشر کے موجودہ قوانین کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہزاروں سال پہلے جینے والے انسانوں کے علوم کا انداہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ قطعی نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں جینے والے اس عصر میں جینے والوں کے مقابلہ میں زندگی کے صحیح راستہ کی تشخیص میں نہایت ناتواں تھے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس عصر کے انسانوں سے ہزاروں سالہ تجربات کے پیش نظر کامل قوانین کے مجموعہ کو وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر بھی لی ہے یا بالفرض یہ قوانین انسانوں کی اخروی سعادت کے ضامن بھی بن گئے ہیں، لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کس طرح ہزاروں انسانوں کو ان کی جہالت میں چھوڑ دینا حکمت الٰہی سے سازگار ہے؟

نتیجہ۔ آغاز سے انجام تک انسانوں کی خلقت کا ہدف اسی صورت میں قابل تحقّق ہے کہ جب زندگی کے حقائق اور فردی و اجتماعی وظائف کی معرفت کے لئے حس و عقل سے ماورا کوئی دوسرا راستہ بھی موجود ہو، اور وہ راستہ وحی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔

اس بحث کی روشنی میں یہ مطلب بھی واضح ہوگیا کہ اس برہان کا تقاضا یہ ہے کہ اس زمین پر قدم رکھنے والے سب سے پہلے انسان کا نبی ہونا ضروری ہے تا کہ وہ وحی کے ذریعہ زندگی کے صحیح طریقہ کو پہچانے اور ہدف خلقت اُس کے متعلق متحقق ہوجائے اور اس کے بعد آنے والے انسان اسی کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہوں۔

بعثت انبیاء (ع) کے فوائد۔

انبیاء الٰہی انسانوں کے کمال کو مشخص کرنے اور وحی کو دریافت کرنے کے بعد لوگوں کے سامنے اُسے بیان کرنے کے علاوہ انسانوں کے تکامل(بتدریج کمال تک پہنچنے) کے لئے دوسرے مہم راستوں سے بھی آگاہ تھے جو درج دیل ہیں۔

١۔ بہت سے ایسے مطا لب ہیں کہ جنھیں درک کرنے کے لئے انسانی عقول میں طاقت نہیں ہے، بلکہ اسے سمجھنے کے لئے گذشتہ زمانے کے علاوہ بے شمار تجربوں کی ضرورت ہے یا پھر وہ مطالب حیوانی خواہشات میں ملوث ہونے اور مادیات سے وا بسطہ ہونے کی وجہ سے فراموشی کا شکار ہوگئے ہیں، یا پھر زہریلی تبلیغات اور لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈوں کی وجہ سے مخفی ہوگئے ہیں، ایسے مطالب بھی انبیاء الٰہی کی جانب سے بیان کئے جاتے ہیں جنھیں پے درپے تذکرات اور بار بار تکرار کے ذریعہ پوری طرح فراموش ہونے سے بچا لیا جاتا ہے اور صحیح تعلیم کے ذریعہ ایسی زہریلی تبلیغات کے اثرات سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔

یہیں سے انبیاء (ع)کا ''مذکِّر'' اور ''نذیر'' اور قرآن کا ''ذکر'' اور تذکرہ'' جیسی صفات سے متصف ہونا سمجھ میں آتا ہے امام علی علیہ السلام بعثت انبیاء (ع) کی حکمتوں کو بیان کرنے کے دوران فرماتے ہیں(لِیسَتأدُوہم میثاقَ فِطرَتہ و یُذکِّروہم مَنسِِّ نِعمَتِہ وَ یَحتجّوا عَلَیہم

بِالتّبلیغ)یعنی خدا نے اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجا تا کہ لوگوں سے پیمان فطرت پر وفاداری کا اقرار لیں، فراموش شدہ نعمتوں کی یاد دلائیں اور تبلیغ کے ذریعہ اتمام حجت کریں:

٢۔انسان کے تکامل(کمال کے آخری درجہ تک پہنچنے) کے مہم ترین عوامل میں سے اسوہ اور نمونہ کا ہونا ہے کہ جس کی ا ہمیت علم نفسیات ثابت ہے انبیاء الٰہی انسان کامل اور دست الٰہی کے ہاتھوں تربیت پانے کی وجہ سے اس کردار کو بہترین صورت میں پیش کرتے ہیں، لوگوںکو اپنی تعلیمات کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ ان کی تربیت اور تزکیہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ قرآن میں تعلیم و تزکیہ کو باہم ذکر کیا گیا ہے یہاں تک کہ بعض مقامات پر تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کیا گیا ہے۔

٣۔ لوگوں کے درمیان انبیاء (ع)کے موجودہونے کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ صورتحال کے موافق ہوتے ہی لوگوں کی سیاسی، اجتماعی رہبری کو بھی سنبھالتے ہیں، اور یہ امر بخوبی روشن ہے کہ ایک سماج کے لئے معصوم رہبر کا ہونا عظیم نعمتوں میں سے ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ سماج کی بہت سی مشکلات کو روک دیا جاتا ہے، اور سماج اختلاف ،گمراہی اور کج روی سے نجات پاجاتا ہے اور کمال کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔

سوالات

١۔انسان کی خلقت کا ہدف کیا ہے؟

٢۔کیا جس طرح خداکا حکیمانہ ارادہ انسان کی سعادت سے متعلق ہے اسی طرح اس پر عذاب سے بھی متعلق ہے؟ یا پھران دونوں میں کوئی فرق ہے؟

٣۔غور و فکر کے ساتھ انسان کو اختیار و انتخاب کے لئے کن امور کی ضرورت ہے؟

٤۔ کیوں عقلِ بشر تمام معارف کے سمجھنے میں ناقص و قاصر ہے؟

٥۔ بعثت انبیاء (ع) کی ضرورت پر موجود ہ برہان کو بیان کریں؟

٦۔ اگر انسان طولانی تجربوں کے ذریعہ دنیوی اور اجتماعی سعادتوں کو حاصل کر لیتا تو کیا پھر بھی اسے وحی کی ضرورت تھی؟ اور کیوں؟

٧۔ کیا سب سے پہلے انسان کے نبی ہونے پر دلیل قائم کی جاسکتی ہے؟

٨۔ انبیاء (ع)کے موجود ہونے کے تمام فوائد کو بیان کریں؟

تیئسواں درس

چند شبہات کا حل

کیوں بہت سے لوگ انبیاء ٪ کی ہدایت سے محروم ہو گئے؟

کیوں خدا نے انحرافات اور اختلافات کا سد باب نہیں کیا؟

کیوں انبیاء الٰہی صنعتی اور ا قتصادی امتیازات سے سرفراز نہ تھے؟

چند شبہات کا حل۔

بعثت انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں جو دلائل ذکر ہوئے ہیںانھیں دلائل کے ضمن میں چند شبہات اور سوالات ہیں جن کے جوابات یہاں ذکر کئے جائیں گے۔

کیوں بہت سے لوگ انبیاء ٪ کی ہدایت سے محروم ہو گئے؟

اگر تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے بعثت انبیاء ٪ کااقتضا یہ ہے کہ وہ انبیاء ٪ کو مبعوث کرے تو پھر کیوں سب کے سب فقط ایک ہی سرزمین ایشیا میں مبعوث ہوئے، اور بقیہ سر زمینیں اس نعمت سے محرم رہیں، خصوصاً گذشتہ ادوار میں ارتباطات کے و سائل بہت محدود تھے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک، کسی خبر کو پہنچانا نہایت سختی سے انجام پاتا تھا اور شاید اس وقت کچھ ایسی قومیں رہی ہوں، جنھیں اصلاً بعثت انبیاء ٪ کی کوئی خبر نہ ملی ہو۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے ، انبیاء ٪ کی بعثت کسی خاص سرزمین سے مخصوص نہیں تھی، بلکہ قرآن کی آیات کے مطابق ہر امت اور ہر قوم کے پاس پیغمبر بھیجے گئے جیسا کہ سورۂ فاطر کی چوبیسویں آیت

میں خدا فرماتا ہے:(( وَان مِّن اُمَّةٍ اِلَّاخَلا فِیها نَذِیر )

اور دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گئی جس کے پاس ہمارا ڈرانے والاپیغمبر نہ آیا ہو۔

سورۂ نحل کی آیت چھتیسویں میں وارد ہوا ہے :

( وَلَقَد بَعَثنَا فِ کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعبُدُوااللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطَّاغُوتَ )

اور ہم نے تو ہر امت میں ایک نہ ایک رسول ضرور بھیجا کہ وہ لوگوں سے کہے کہ خداکی عبادت کرو اور بتوں کی عبادت سے بچے رہو۔

اور اگر قرآن میں محدود انبیاء ٪ کا نام آیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کل انبیا ء کی تعداد اتنی ہی تھی بلکہ خود قرآن کے بیان کے مطابق بہت سے انبیاء ٪ تھے کہ جن کے اسماء اس قرآن میں ذکر نہیں کئے گئے ، جیسا کہ سورۂ نساء کی آیت ١٦٤ میں خدا فرماتا ہے:

(( وَرُسُلاً لَّم نَقصُصهُم عَلَیکَ )

جن کا حال تم سے بیان نہیں کیا گیا۔

دوسرے: اس برہان کا تقاضایہ ہے کہ حس و عقل کے ماوراء کوئی ایسا راستہ ہونا چاہیے کہ جس کے ذریعہ یہ امکان ہو کہ لوگوں کی ہدایت کی جاسکے، لیکن بشر کی ہدایت کو مرحلۂ فعلیت تک پہنچنے کے لئے دو شرط ہے۔

١۔ پہلییہ کہ وہ لوگ خود اس نعمت الٰہی سے استفادہ کرنا چاہیں۔

٢۔دوسرے یہ کہ کوئی دوسرا اُن کی ہدایت میں مانع ایجاد نہ کرے، اور لوگوں کا انبیاء ٪سے محروم ہونے کا سبب خود اُن کے ناجائز اختیارات تھے، جس طرح کہ بہت سے لوگوں کا انبیاء ٪ کی ہدایت سے محرو م ہونا اِنھیں موانع کی وجہ سے ہے، جسے وہ لوگ خود انبیاء ٪ کی تبلیغ میں ایجاد کرتے تھے، اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ انبیاء الٰہی برابر ایسے موانع کو برطرف کرنے کے لئے کوشاں رہے ، اور ہمیشہ ستمگروں، ظالموں اور مستکبروں سے بر سر پیکار رہتے تھے، بلکہ انبیاء ٪ کی ایک کثیر تعداد راہ تبلیغ اور لوگوں کی ہدایت کی راہ میں شہید بھی ہوگئی ،بلکہ جب بھی انھیں نیک ساتھیوں کی حمایت ملی تو

اُنھوں نے وقت کے اُن ظالموں سے مقابلہ کیا ،کہ جو اُن کے اہداف میں موانع ایجاد کرتے تھے۔

قابل توجہ نکتہ تو یہ ہے کہ انسان کی تکاملی حرکت کی خصوصیات کا تقاضا یہ ہے کہ یہ تمام تدابیر اس طرح انجام پذیر ہوں کہ حق و باطل کے حامیوں کے لئے حسن انتخاب یا سوء انتخاب فراہم ہو جائے ،مگر یہ کہ ظالموں اور مستکبروں کا تسلط اس حد تک بڑھ جائے کہ ہادیوں کی ہدایت کا راستہ پوری طرح بند ہوجائے اور سماج سے نور ہدایت خاموش ہو جائے، یہی وہ صورت ہے کہ جب خدا غیب اور غیر عادی راہوں سے حق کے طرفداروں کی مدد فرماتا ہے۔

نتیجہ: اگر ایسے موانع انبیاء ٪کے راستو ںمیں نہ ہوئے تو ان کی دعوتِ توحید تمام انسانوں کے کانوں تک پہنچ جاتی اور تمام انسان وحی اور نبوت کے ذریعہ نعمت ہدایت سے بہر مند ہوجاتے، لہذا بہت سے لوگوں کا ہدایت انبیاء ٪سے محروم ہونے کا گناہ ،ان لوگوں کی گردنوں پر ہے کہ جنھوں نے راہ ہدایت انبیاء میں رکاوٹیں ایجاد کی ہیں۔

کیوں خدا نے انحرافات اور اختلافات کا سد باب نہیں کیا؟

اگر انبیاء ٪ تکامل انسان کے شرائط کو کامل کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں تو پھر کیوں ان کے ہوتے ہوئے بشرخطا اور بدبختیوں کا شکار ہوا اور ہر زمانہ میں لوگوں کی ایک بڑی جماعت کفر و الحاد میں گرفتار رہی، یہاں تک کہ ادیان آسمانی کے پیروکاروں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے شعلہ بھڑکائے جس کی وجہ سے خونی جنگیں دیکھنے میں آئیں؟ کیا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ نہ تھا کہ وہ کچھ ایسے راستہ بھی مہیا کرتا، جن کے ذریعہ ایسی بدبختیوں کا سد باب ہوجاتا اور کم از کم ادیان آسمانی کے پیروکار ایک دوسرے کے مقابلہ میں نہ ٹھہرتے۔

اس سوال کا جواب تکامل انسان کے اختیارات کی خصوصیات میں غور و فکر کرنے کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے، اس لئے کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے تکامل کے اسباب و شرائط کا جبری ہونے کے بدلے اختیاری ہونا ضروری ہے تا کہ وہ لوگ جو راہ حق کو پہچاننا چاہتے ہیں اور اسے اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہ کمال اور سعادت ابدی کو حاصل کرنے میں مختارہیں،لیکن ایسے تکامل اور کمال کے لئے اسباب و شرائط کا مہیا ہوجانا اس معنی میں نہیں ہے کہ تمام انسانوں نے بہ نحو احسن اس سے استفادہ کیا ہو، اور صحیح راستہ کاانتخاب کیا ہو بلکہ قرآن کی تعبیر کے مطابق خدا نے انسانوں کو ایسے شرائط کے تحت اس لئے خلق کیا ہے تا کہ انھیں آزما سکے کہ ان میں کون نیکوکار ہے(۱) ، اس کے علاوہ قرآن میں بارہا اس بات کی تاکید ہوئی ہے کہ اگر خدا چاہتا تو تمام انسانوں کو راہ ہدایت کی طرف راہنمائی کردیتا اور ظلم و ستم کو دبا دیتا(۲) ۔ لیکن اس صورت میں انتخاب کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا، نیز انسانوں کے کردار قابل ارزش بھی نہ رہتے،اور اسطرح انسان کی خلقت سے غرض الٰہی (اختیار و انتخاب) میں نقض آجاتا۔

نتیجہ۔ انسانوں میں فساد و تباہ کاری اور کفر و عصیان کی طرف میلان خود ان کے ناجائز اختیارات کا نتیجہ ہے، اور خود انسانوں کی خلقت میں ایسے امور پر قدرت کا لحاظ رکھا گیا ہے لہذا ایسے اختیار کے اثرات کا حاصل ہونا بالتبع لازم ہے، اگر چہ خدا کا ارادہ یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو حاصل کرلے، لیکن چونکہ اس ارادہ کا تعلق مختار ہونے پر مشروط ہے لہٰذا اس صورت میں سوء ِاختیار کے نتیجہ میں انحطاط کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور حکمت الٰہی کا تقاضا تو یہ نہیں ہے کہ تمام انسان خواہ نخواہ ہدایت یافتہ ہوجائیں اگرچہ ان کے ارادہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

کیوں انبیاء ا لٰہی صنعتی اور اقتصادی امتیازات سے سرفراز نہ تھے؟

حکمت الٰہی کے تقاضوں کے پیش نظر کہ تمام انسان بہ نحو احسن اپنے حقیقی کمال کو حاصل کرلیں، کیا بہتر یہ نہ تھا ،کہ خدا وحی کے ذریعہ اس جہان کے اسرار لوگوں کے لئے فاش کردیتا، تا کہ مختلف نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے ذریعہ انسان راہ تکامل میں اپنے سفر کو سرعت بخش دیتا! جیسا کہ اس دور میں طبیعی طاقتوں کے ظہور اور مختلف اسباب کے ایجادات سے بشری تمدن نے نمایاں ترقی حاصل کی ہے، جن کی وجہ سے حفظ سلامت، امراض سے مقابلہ ارتباطات میں سرعت ،جیسے مطلوب عوامل اور آثار وجود میں آگئے، اس وضاحت کی روشنی میں آشکار ہے کہ اگر انبیاء الٰہی جدید علوم و صنائع اور آسائش کے وسائل لوگوں کے لئے فراہم کرنے کے ذریعہ اپنی اجتماعی اور سیاسی قدرت کو افزائش دے سکتے تھے اور بڑی آسانی سے اپنے اہداف تک پہنچ سکتے تھے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وحی و نبوت کے ہونے کی اصلی ضرورت ان امور میں ہے کہ جن میں بشر عادی وسائل کے ذریعہ کشف نہ کر سکے، اور اس سے جاہل ہوتے ہوئے کمال حقیقی کی طرف جانے والے راستہ کو معین نہ کر سکے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انبیا ء علیہم السلام کا اصلی وظیفہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو صحیح زندگی اور کمال حقیقی کے حصول میں مدد کریں، تا کہ وہ ہر حال میں اپنے وظیفہ کو پہچان سکیں، اور مطلو ب کو حاصل کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کریں، انسان ،خواہ دشت میں رہنے والا ہو، یا دریائوں کی سیر کرنے والا ہو یا کوئی بھی ہو، وہ ہر صورت میں اپنی انسانی حیثیت کو پہچان لے تا کہ معلوم ہوجائے کہ خدا کی عبادت کے وظائف کیا ہیں؟ تمام مخلوقات اور سماج میں رہنے والوں کے ساتھ رہن سہن کے واجبات کیا ہیں تا کہ انھیں انجام دینے کے ذریعہ کمال حقیقی اور سعادت ابدی تک پہنچ جائے لیکن صلاحیتوں اور صنعتی و طبیعی امکانات کا اختلاف خواہ ایک زمانہ میں ہو یا مختلف زمانوں میں، ایک ایسا امر ہے کہ جو خاص اسباب و شرائط کے تحت وجود میں آتا ہے اس کے علاوہ تکامل(کمال) حقیقی میں اس کا کوئی نقش بھی نہیں ہے، جیسا کہ آج کی علمی اور صنعتی ترقیاں دنیوی لذتوں کی افزائش کا باعث تو بنیں، لیکن لوگوں کی روحی اور معنوی تکامل میں ایک معمولی کردار بھی ادانہ کر سکیں، بلکہ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان سب کا اثر بالکل بر عکس رہاہے

نتیجہ: حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مادی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی دنیوی زندگی کو جاری زکھ سکے ، اور عقل و وحی کی راہنمائی میں کمال حقیقی اور سعادت ابدی کی جانب قدم بڑھائے، لیکن روحی اور بدنی توانائیوں میں اختلاف، نیز طبیعی اور اجتماعی شرائط میں اختلاف، اسی طرح علوم و صنائع سے فائدہ حاصل کرنے میں اختلاف ایک خاص تکوینی اسباب و شرائط کے تابع ہے، جو نظام علِّی و معلولی کے تحت وجود میں آتے ہیں یہ اختلافات انسان کی ابدی تقدیر میں کسی بھی خاص کردار سے متصف نہیں ہیں، اس لئے کہ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک فرد یا ایک جماعت اپنی سادہ زندگی اور حداقل مادی و دنیوی نعمتوں سے سرفراز ہوتے ہوئے کمال و سعادت کے عظیم درجات پر فائز ہوئے ہیں، اور اکثر دیکھنے میں آیا ہیے کہ ایک فرد یا جماعت ترقی یافتہ علوم صنائع اور بہترین وسائل زندگی سے سرفراز ہوتے ہوئے ،غرور و تکبر اور ظلم و ستم کے نتیجہ میں شقاوت ابدی میں گرفتار ہوگئے ہیں۔

البتہ انبیاء الٰہی نے اصلی وظیفہ (حقیقی اور ابدی سعادت و کمال کی طرف ہدایت) کے علاوہ لوگوں کو صحیح زندگی گذارنے کے لئے مدد کی ہے اور جہاں حکمت الٰہی نے تقاضا کیا وہاں ناشناختہ حقائق اور اسرار طبیعت سے پردہ بھی اٹھادیا، اور اس طرح تمدن ِبشر کو ترقی دینے میں مدد کی، جیسا کہ ایسی مثالیں جناب دائود اور ، جناب سلیمان اور جناب ذوالقرنین علیہم السلام(۳) کے حالات میں دیکھی جا سکتی ہیں، انھوں نے سماج کو کامیاب بنانے اور امور میں حسن تدبیر کے لئے نمایاں کام انجام دئے ہیں، جب جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سر زمین مصر پر انجام دیا(۴) ایسے خدمات جو کچھ بھی انبیاء نے پیش کئے وہ ان کے اصلی وظیفہ سے جدا تھے۔

لیکن یہ سوال کہ کیوں انبیائ٪ نے اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لئے صنعت و اقتصاد وغیرہ کا سہارا نہیں لیا ؟تو اس سوال کے جواب میں یہ کہنا بہتر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا ہدف جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے آزاد انتخاب کے لئے وسائل کا فراہم کرنا تھا ،اور اگر وہ غیر عادی طاقتوں کے بل بوتے پر قیام کرتے، تو آزادانہ تکامل اور رشد معنوی انسانوں کو حاصل نہ ہوتا، بلکہ عوام ان کی قدرتوں کے ڈر سے اطاعت کرتی ،نہ الٰہی فرمان اور آزاد انتخاب کے تحت۔

اسی سلسلہ میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں

اگر خداوند متعال اپنے انبیائ٪ کو مبعوث کرتے وقت سیم وزر کے گنجینہ، جواہرات اور قیمتی معادن اور باغات عطا کردیتا، ہوائوں کے پرندے اور زمین کے چرند ان کے لئے مطیع بنادیتا تو اس صورت میں جزا و سزا اور امتحان کا موقع باقی نہ رہتا۔

اور اگر اپنے انبیاء ٪کو بے مثال قدرت ، شکست ناپذیر عزت اور عظیم سلطنت عطا کرتا کہ جس کی وجہ سے لوگ ڈر کر یا طمع میں تسلیم ہوتے ہوئے، ظلم و ستم اور تکبر سے دست بردار ہوجاتے تو اس صورت میں اقدار مساوی ہوجاتے ،لیکن خدا کا یہ ارادہ تھا کہ پیغمبروں کی اطاعت اُن کی کتابوں کی تصدیق اور اُن کے حضور فروتنی کسی بھی عیب سے پاک ہوتے ہوئے حق کے لئے ہو،لہذا جس قدر بلا اور امتحان عظیم ہوں گے ثواب الٰہی اتنے ہی کثیر ہوںگے''۔(۵)

البتہ جب لوگ اپنے ارادہ اور رغبت سے دین حق کو قبول کرلیں اور ایک الٰہی سماج کو تشکیل دیدیں ،تو پھر اہداف الٰہی کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف قدرتوں سے استفادہ کرنا درست ہوگا، جیسا کہ ایسے نمو نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں ملتے ہیں۔(۶)

سوالات

١۔ کیا تمام انبیاء ٪کسی خاص سرزمین پر مبعوث ہوئے؟ دلیل کیا ہے؟

٢۔ کیوںانبیاء ٪ کی دعوتیں تمام انسانوں تک نہ پہنچ سکیں؟

٣۔کیوں خدا نے ایسے اسباب فراہم نہیں کئے کہ جس کی وجہ سے فساد و خون ر یزی کی روک تھام ہو ؟

٤۔ کیوں انبیاء ٪نے اسرار طبیعت کو فاش نہیں کیا تا کہ اُن کے ما ننے والے مادی نعمتوں سے زیادہ مستفید ہوتے؟

٥۔ کیوں انبیاء ٪نے اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لئے صنعتی اور اقتصادی قدرتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا؟

____________________

(١) رجوع کریں ۔سورۂ ہود۔ آیت/ ٧۔ سورۂ ملک۔ آیت /٢۔ سورۂ مائدہ۔ آیت/ ٤٨ سورۂ انعام۔ آیت/ ١٦٥.

(٢)سورۂ انعام۔ آیت/ ٣٥ ١٣٨٧١٠٧ ١٢٨۔ سورۂ یونس۔ آیت/ ٩٩۔ سورۂ ہود۔ آیت/ ١١٨۔ سورۂ نحل۔ آیت /٩ ٩٣۔ سورۂ شوریٰ۔ آیت /٨۔ سورۂ شعرائ۔ آیت/ ٤۔ سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٥٣.

(۳) رجوع کریں۔سورۂ انبیا ء آیت/ ٨٢٧٨ سورۂ کہف ۔آیت /٨٣ ٩٧. سورۂ سبائ۔ آیت /١٠ ١٣۔ بعض روایتوں کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نبی نہیں بلکہ ولی خدا تھے.

(۴) رجوع کریں۔ سورۂ یوسف ۔آیت/ ٥٥.

(۵) نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ۔ سورۂ فرقان ۔آیت /٧ ١٠۔ سورۂ زخرف ۔آیت /٣١ ٣٥۔

(۶)سورۂ انبیا ء ۔آیت /٨١ ٨٢۔ سورۂ نمل ۔آیت /١٥ ٤٤.