درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48424
ڈاؤنلوڈ: 4064

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48424 / ڈاؤنلوڈ: 4064
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

چوبیسواں درس

عصمت انبیاء (ع)

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

وحی کے محفوظ رہنے کی ضرورت

عصمت کی دوسری اقسام

انبیاء (ع) کی عصمت

وحی کے محفوظ رہنے کی ضرورت۔

حس و عقل کی کمیوں کو پورا کرنے اور ضروری معا رف کے حصول میں مدد کرنے والے عامل یعنی اب جب کہ ہم نے وحی کی ضرورت کو سمجھ لیا ہے اس کے بعد یہ مسئلہ سامنے آتا ہے! یہ مطلب ہر ایک کو معلوم ہے کہ عادی انسان بالواسطہ وحی سے استفادہ نہیں کرسکتے اور وحی کو دریافت کرنے کی لیاقت اور استعداد سے سرفراز نہیں ہوسکتے ، بلکہ چندخاص اجزا (انبیاء الٰہی) کے ذریعہ وحی کے پیغامات کو اُن تک پہچا نا ہوگا، لیکن ان پیغامات کے صحیح ہونے کی ضمانت کیا ہے، اور کہاں سے یہ معلوم ہوکہ نبی خدانے وحی کو دریافت کر کے صحیح و سالم لوگوں کے حوالہ کیا ہے؟ اور اگرخدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان رابطہ ہے بھی تو کیا اس نے اپنی رسالت انجام دے دی ہے؟ اس لئے کہ وحی اُسی وقت مفید واقع ہو سکتی ہے

جب مرحلہ صدور سے مرحلہ وصول تک عمدی یا سہوی تمام خطائوں اور اضافات سے محفوظ رہی ہو، وگرنہ واسطوں میں سہو و نسیان کے احتمال یا ان میں عمدی تضرفا ت کے احتمال کے ہوتے ہوئے لوگوں تک پہنچنے والے پیغام میں نادرست اور خطا ہونے کا باب کھل جائے گا، اور اس طرح اعتمادکے اٹھ جانے کا سبب ہوگا لہذا کیسے(۱) معلوم ہو سکتا ہے کہ وحی صحیح و سالم لوگوں تک پہنچی ہے؟

یہ بات روشن ہے کہ جب وحی کی حقیقت لوگوں کے لئے مجہول ہو اور اسے دریافت کی استعداد سے وہ سرفراز نہ ہوں تو اس صورت میں واسطوں میں کافی نظارت بھی نہیں رکھ سکتے، اور صرف اسی وقت وحی میں ہونے والے تصرفات سے آزاہی ممکن ہے کہ جب عقل و منطق کے خلاف کوئی پیغام موجود ہو، جیسے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ خدا نے اُس پر وحی بھیجی ہے: کہ اجتماع نقیضین جائز یا واجب ہے یا العیاذ باللہ) ذات الٰہی میں تعدد یا زوال یا ترکیب کا ہونا امکان پذیر ہے، اِن مطالب کے جھوٹے ہونے کو عقل کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن وحی کی اصلی ضرورت اُن مسائل میں ہے کہ جس میں عقل نفی و اثبات کے قابل نہیں ہے اور اس میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ ان پیغامات کے صحیح یا باطل ہونے کو ثابت کر سکے، لہٰذا ایسے موارد میں کس طرح وحی کے پیغامات میں واسطوں کے عمدی یا سہوی تصرفا ت سے محفوظ رہنے کو ثابت کیا جا سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح سے عقل، حکمت الٰہی کے پیش نظر، بائیسویں درس میں بیان کئے گئے برہان کے مطابق اس امر کو بخوبی درک کرتی ہے کہ وظائف اور حقیقتوں کا پتہ لگانے کے لئے کسی دوسرے راستہ کا ہونا ضروری ہے، اگر چہ اس کی اصلی حقیقت سے وہ بے خبر ہے اور اس طرح یہ بھی درک کرتی ہے کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے پیغامات صحیح و سالم حالت میں لوگوں تک پہنچیں، وگرنہ غیر صحیح و سالم ہونے کی صورت میں نقض غرض لازم آئے گی۔

ایک دوسری تعبیر کے مطابق جب یہ معلوم ہوگیا کہ الٰہی پیغامات ایک یا چند واسطوں سے لوگوں تک پہنچتے ہیں تا کہ انسان کے اختیاری تکامل کا راستہ ہموار رہے، اور بشر کی خلقت سے خدا کا ہدف پورا ہوجائے لہذا صفات کمالیۂ الٰہی سے یہ امر بخوبی روشن ہوجاتا ہے کہ اس کی طرف سےآنے والے تمام پیغامات عمد ی یا سہوی تصرفات سے محفوظ ہیں، اس لئے کہ اگر خدا یہ ارادہ کرلے کہ اس کے پیغامات بندوں تک سالم نہ پہنچیں ،تو یہ حکمت کے خلاف ہوگا، جبکہ خدا کا حکیمانہ ارادہ اِس بات کی پوری طرح نفی کرتا ہے، اوراگر خدا اپنے بے کراں علم کے ہوتے ہوئے یہ سمجھ نہ سکے، کہ وہ کس طرح اور کن واسطوں سے اپنے پیغامات کو سالم لوگوں تک پہنچائے تو یہ اس کے لامتناہی علم سے سازگار نہیں ہے، اور اگر شائستہ واسطہ پیدا نہ کرسکے اور انھیں شیاطین کے ہجوم سے محفوظ نہ رکھ سکے تو یہ امر، اس کی لا محدود قدرت سے منافات رکھتا ہے،لہذا چونکہ خدا ہر شی کے بارے میں جانتا ہے لہٰذا خدا کے لئے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ جسے واسطہ بنارہا ہے، اس کی خطا کاریوںسے بے خبر ہو(۲) اور اسی طرح یہ احتمال بھی باطل ہے کہ اس نے اپنی لامحدود قدرت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے پیغامات کو شیاطین اور عمدی یا سہوی تصرفات سے محفوظ نہ رکھ سکا(۳) جس طرح سے کہ حکمت الٰہی کے پیش نظر یہ احتمال بھی باطل ہے، کہ اس نے اپنے پیغامات کو لوگوں تک صحیح و سالم نہ پہنچانے کا ارادہ کرلیا ہے(۴) ، لہٰذا خدا کا علم، اس کی قدرت و حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے پیغامات کو سالم اور تصرفات سے محفوظ لوگوں تک پہنچائے اور اس طرح وحی کا محفوظ رہنا عقلی برہان کے ذریعہ ثابت ہوجاتا ہے۔(۵)

عصمت کی دوسری قسمیں ۔

فرشتوں اور ا نبیاء (ع)کی وہ عصمت جودلیل کی بناء پر ثابت ہوتی ہے وحی کے پیغام پر منحصر ہے لیکن عصمت کی دوسری قسمیں بھی ہیں جو اس دلیل کے ذریعہ قابل اثبات نہیں ہیں ، جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، پہلی قسم فرشتوں سے متعلق ہے ، دوسری قسم انبیاء (ع) کی عصمت ہے اور تیسری قسم بقیہ انسانوں ، جیسے ائمہ (ع)، حضرت مریم ، اور حضرت زھراء کی عصمت ہے

فرشتوں کی عصمت کے سلسلہ میں ابلاغ وحی کے علاوہ دو مسئلہ پیش کئے جا سکتے ہیں ۔

پہلا مسئلہ ان فرشتوں کی عصمت کا ہے، جو دریافت وحی اور اُسے رسول تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں دوسرا مسئلہ ان فرشتوں کی عصمت کا ہے، جنھیں وحی سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ وہ کتابت اعمال، رزق پہنچانے اور قبض اوراح وغیرہ کے ذمہ دار ہیں۔

اس طرح انبیاء (ع) کی عصمت ان چیزوں کے سلسلہ میں جو ان کی رسالت سے مربوط نہیں ہے اس میں بھی دو مسئلہ ہیں، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)کا عمدی گناہوں اور سرپیچیوں سے محفوظ و مصؤن رہنا دوسرا مسئلہ انبیاء (ع)کا سہو و نسیان سے معصوم ہونا ہے اور انھیں دو مسئلہ کو غیر انبیاء (ع)کی عصمتوں میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔

لیکن فرشتوں کی عصمت وحی کے ابلاغ کے علاوہ دوسرے مسائل میں دلیل عقلی کے ذریعہ اسی وقت قابل حل ہے کہ جب ملائکہ کی ماہیت او ران کی حقیقت معلوم ہو جائے ، لیکن ملائکہ کی ماہیت کا سمجھنا نہ ہی آسان ہے اور نہ ہی اِس کتاب کے متناسب، اِسی وجہ سے فرشتوں کی عصمت کی دلیل میں قرآن سے دو آیتوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں، خدا وند عالم قرآن کے سورۂ انبیاء کی ستا ئسیویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :( بَل عِبَاد مُّکرَمُونَ لَا یَسبِقُونَهُ بِالقَولِ وَهُم بِاَمرِهِ یَعمَلُون )

بلکہ فرشتے خدا کے معزز بندے ہیں وہ گفتگو میں اس سے سبقت نہیں کرسکتے اور وہ اس کے حکم پر چلتے ہیں۔

اور اسی طرح سورۂ تحریم کی چھٹی آیت میں ارشاد فرماتا ہے :

( لَا یَعصُونَ اﷲَ مَا اَمَرَهُم وَ یَفعَلُونَ مَا یُؤمَرُونَ )

خدا جس بات کا حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اورجو حکم انھیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

یہ دو آیتیں پوری صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ملائکہ منتخب مخلوق ہیں، جو فرمان الٰہی کے مطابق اعمال انجام دیتے ہیں اور کبھی بھی اس کے فرمان سے روگردانی نہیں کرتے، اگر چہ ان آیتوں کی عمومیت تمام فرشتوں کی عصمت کو شامل ہے۔

لیکن انبیاء (ع) کی عصمت کے علاوہ بقیہ انسانوں کی عصمت کے سلسلہ میں بحث کرنا مباحث امامت سے سازگار ہے اسی وجہ سے اس حصہ میں انبیاء (ع)کی عصمت کے تحت بحث کریں گے اگر چہ اُن میں سے بعض مسائل کو تنہا نقلی اور تعبدی مسائل کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے اور اصولی اعتبار سے اسے کتاب و سنت کی حجیت ثابت ہونے کے بعد ذکر ہونا چاہئے، لیکن موضوعات کی مناسبت سے اِسی مقام پر اس کے سلسلہ میں بحث کریں گے اور کتاب و سنت کی حجیت کی بحث کو اصل موضوع کے عنوان سے قبول کرتے ہوئے اُسے اِسی مقام پر ذکر کر تے ہیں ۔

انبیاء (ع) کی عصمت ۔

گروہ مسلمین میں اس مسئلہ کے تحت شدید اختلافات ہے کہ انبیاء (ع) گناہوں کے مقابلہ میں کس حد تک معصوم ہیں، انثا عشری شیعوں کا عقیدہ ہے کہ انبیاء (ع) اپنے آغاز ولادت سے آخری لمحہ حیات تک تمام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، بلکہ بھولے سے بھی کوئی گناہ نہیں کرتے لیکن اہل سنت کی بعض جماعتوں نے عصمت انبیاء (ع) کو گناہان کبیرہ کے مقابلہ میں مانا ہے، بعض نے دوران بلوغ سے، اور بعض نے کہا کہ بعثت کے بعد سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ اہل سنت کے بعض فرقوں (حشویہ اور اہل حدیث) کے اعتقاد کے مطابق) انبیاء (ع) ہر قسم کی عصمت سے عاری ہیں، ان سے گناہان کبیرہ صادر ہوسکتا ہے بلکہ وہ نبی ہوتے ہو ئے بھی عمداً گناہ کرسکتے ہیں۔

انبیاء علیہم السلام کی عصمت کو ثابت کرنے سے پہلے ہمیں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)اور غیر ا نبیاء میں سے بقیہ انسانوں کے معصوم ہونے کا مطلب صرف گناہوں سے معصوم ہونا نہیں ہے بلکہ اس بات کا امکان ہے کہ ایک معمولی انسان خصوصاً کم عمر ہو نے کی وجہ سے کوئی گناہ انجام نہ دے۔

بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہایت طاقتور ملکہ نفسانی کے مالک ہیں، کہ جو سخت سے سخت شرائط و حالات میں اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں اور یہ ملکہ گناہوں کی آلودگیوں سے آگاہی، شکست ناپذیر ارادہ، اور نفسانی خواہشوں کو مہار کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے، اور چونکہ یہ ملکہ عنایت الٰہی کے ذریعہ حاصل ہوتاہے لہٰذا اس کی فاعلیت کو خدا کی جانب نسبت دی جاتی ہے، وگرنہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ خدا معصوم انسان (انبیاء و آئمہ) کو زبردستی گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے

یا اس سے اختیار کو چھین لیتا ہے ان لوگوں کی عصمت جو منصب الٰہی ،جیسے نبوت و امامت سے متصف ہیں مراد یہ ہے ، کہ خدا نے گناہوں سے محفوظ رہنے کی ضمانت انھیں د ے دی ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی عصمت کا لازمہ یہ ہے کہ وہ تمام حرام اعمال کو ترک کردے ،جیسے کہ وہ گناہ جو تمام شریعتوں میں حرام ہیں، یا وہ امور جو خود اسی کے زمانہ کی شریعت میں حرام ہوں، لہٰذا انبیاء (ع) کی عصمت ان اعمال کے ذریعہ خدشہ دارنہیں ہوتی جو اس کی شریعت یا خود اس کے لئے جائز ہوں یا وہی عمل گذشتہ شریعت میں حرام ہو یا بعدمیں حرام کردیا جائے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ گناہ سے مراد یہ ہے، کہ جس سے ایک معصوم محفوظ رہتا ہے ایک ایسا عمل ہے کہ جسے فقہ میں حرام کہا جاتا ہے اور اسی طرح اس عمل کو ترک کرنا کہ جسے فقہ میں واجب کہا جاتا ہے۔

لیکن گناہ کے علاوہ دوسرے کلمات جیسے (عصیان) (ذنب) وغیرہ وسیع معنی میں استعمال ہوتے ہیں کہ جس میں ترک اولیٰ بھی شامل ہے اور ایسے گناہوں کا انجام دینا عصمت کے خلاف نہیں ہے۔

سوالات

١۔کس طرح وحی کو کسی بھی قسم کے خلل سے محفوظ رہنے کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٢۔ دریافتِ وحی اور ابلاغ میں محفوظ رہنے کے علاوہ کن مقامات پر عصمت ضروری ہے؟

٣۔ فرشتوں کی عصمت کیسے ثابت کی جاسکتی ہے؟

٤۔ انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کے سلسلہ میں کتنے اقوال ہیں؟ اور اہل تشیع کا نظریہ کیا ہے؟

٥۔ عصمت کی تعریف کریں اور اس کے لوازمات بیان کریں؟

___________________

(١)قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے:(وَمَاکَانَ اللَّهُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لَٰکِنَّ اللَّهَ یَجتَبِی مِن رُّسُلِهِ مَن یَشَائُ )سورۂ آل عمران۔ آیت/ ١٧٩.

(۲)قرآن اس بارے میں فرماتا ہے ''اللَّهُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ '':سورۂ انعام ۔آیت /١٢٤

(۳)قرآن اس سلسلہ میں فرماتا ہے :

(عَلِمُ الغَیبِ فَلاَ یُظهِرُ عَلَٰی غَیبِهِ اَحَدًا ٭ اِلَّامَنِ ارتَضَیٰ مِن رَّسُولٍ فَاِنَّهُ یَسلُکُ مِن بَینَ یَدَیهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَداً ٭لِّیَعلَمَ اَن قَد اَبلَغُوا رِسَٰلَٰتِ رَبِّهِم وَ اَحَاطَ بِمَا لَدَ یهِم وَاَحصیٰ کُلَّ شَئٍ عَدَدَا ) سورۂ جن۔ آیت/ ٢٨٢٦.

(۴)(لِیَهلِکَ مَن هَلَکَ عَن بَیِنَّةٍ وَّ یَحیَ مَن حََّ عَن بَیِنَّةٍ ) سورۂ انفال ۔آیت/ ٤٢

(۵) سورۂ شعراء ۔آیت/ ١٩٣۔ سورۂ تکویر۔ آیت /٢١۔ سورۂ اعراف ۔آیت /٦٨۔ سورۂ شعرائ۔ آیت /١٠٧ ١٢٥ ١٤٣ ١٦٢ ١٧٨۔ سورۂ دخا ء آیت/١٨ سورۂ تکویرآیت/ ٢٠ سورۂ نجم آیت /٥۔ سورۂ حاقہ آیت /٤٤۔ سورۂ جن آیت/ ٢٨٢٦.

پچیسواں درس

انبیاء (ع)کے معصوم ہونے کی دلیلیں

مقدمہ

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

عصمت انبیاء (ع) پر عقلی دلائل

عصمت انبیاء (ع) پر نقلی دلائل

عصمت انبیاء (ع) کاراز

مقدمہ

شیعوں کے معروف اور قطعی عقائد میں سے انبیاء (ع) کا عمدی اور سہوی گناہوں سے معصوم ہونے کا عقیدہ ہے جس کی ائمہ علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی ہے اور اپنے مختلف بیانات کے ذریعہ دشمنوں کے اقوال کو باطل قرار دیاہے ائمہ علیہم السلام کا عصمت انبیاء (ع) کے سلسلہ میں اپنے دشمنوں سے احتجاجات میں سے سب سے زیادہ مشہور امام رضا علیہ السلام کا احتجاج ہے جو کتب حدیث اور تاریخ میں درج ہے۔

لیکن مباح امور میں انبیاء علیہم السلام کا سہو و نسیان باعث اختلاف رہا ہے اور ائمہ علیہم السلام کی جانب سے وارد ہونے والی روایات، اختلاف سے خالی نہیں ہیں، جس کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اِس بحث کی وسعت سے خارج ہے، لیکن اتنا مسلم ہے کہ اِسے ضروری اعتقادات میں سے شمار نہیں کیا جا سکتا ، اور وہ دلائل جو انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے تحت بیان کئے گئے ہیں دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

١۔ عقلی دلائل۔

٢۔ نقلی دلائل۔

اگر چہ اس بحث میں زیادہ تر اعتماد نقلی دلائل پر کیاگیا ہے، ہم یہاں دو دلیلوں کے بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے بعد کچھ قرآنی دلائل کو ذکر کریں گے۔

عصمت انبیاء (ع)پر عقلی دلائل۔

انبیاء علیہم السلام کا گناہوں کے ارتکاب سے معصوم رہنے پر پہلی عقلی دلیل یہ ہے کہ ان کی بعثت کا پہلا ہدف انسانوں کو اُن حقائق اور وظائف کی طرف ہدایت کرنا ہے جسے خدا نے انسانوں کے لئے معین فرمایا ہے، در حقیقت یہ لوگ انسانوں کے درمیان خدا کے نمائندے ہیں ،کہ جنھیں لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت کرنا ہے، لہذا اگر ایسے نمائندے دستورات خدا کے پابند نہ ہوں اور اپنی رسالت کے بر خلاف اعما ل کے مرتکب ہوں تو لوگ اُن کے اعمال کو اُن کی گفتار سے جدا کہیں گے اور اِس طرح لوگوں کا اعتماد اُن کی گفتار پر ختم ہوجائے گا اور یوں اُن کی بعثت کا ہدف مکمل نہ ہوسکے گا، لہذا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء (ع) پاک اور تمام گناہوں سے دور ہوں بلکہ سہو و نسیان کی بنیاد پر کوئی نا شائستہ عمل بھی انجام نہ دیں، تا کہ لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ انھوں نے سہو و نسیان کو گناہوں کے ارتکا ب کے لئے بہانہ بنالیا ہے۔

عصمت انبیاء علیہم السلام پر دوسری عقلی دلیل یہ ہے کہ وہ وحی کو لوگوں تک پہنچانے اور انھیں راہ مستقیم کی طرف ہدایت کرنے کے علاوہ ان پر لوگوں کی تربیت اور تزکیہ کی بھب ذمہ داری ہے تا کہ وہ مستعدا افراد کو کمال کے آخری منازل تک لے جائیں یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق تعلیم اور ہدایت کے وظیفہ کے علاوہ وظیفہ تربیت کے بھی ذمہ دار ہیں،اور وہ بھی ایسی تربیت جو سماج کے برجستہ اور عاقل حضرات کو بھی شامل ہوتی ہے۔

لہٰذا ایسے مقامات انھیں لوگوں کے لئے شائستہ ہیں کہ جو انسانی کمالات کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوں اور ملکہ نفسانی (ملکہ عصمت) کے عظیم درجہ پر فائز ہو۔

اس کے علاوہ مربی کا کردار افراد کی تربیت کرنے میں ،اُس کی گفتار سے کہیں زیادہ موثر ہوتا ہے اور وہ افرادجو کردار کے اعتبار سے عیوب اور نقائص کے حامل ہو تے ہیں ان کی گفتار بھی مطلوب تاثیر سے برخوردار نہیں ہو سکتی،لہذا انبیاء علیہم السلام کی بعثت اس عنوان کے تحت کہ وہ سماج کے مربی ہیں اسی صورت میں قابل تحقق ہے کہ جب ان کا کردار اور ان کی گفتار ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہو۔

عصمت انبیاء (ع) پر نقلی دلائل۔

١۔ قرآن کریم بعض انسانوں کو مخلص(۱) (جنھیں خدا کے لئے خالص کردیا گیا ہو) کے نام سے یاد کرتا ہے یہاں تک کہ ابلیس بھی انھیں گمراہ کرنے کی طمع نہیں رکھتا جیسا کہ قرآن نے اُس کے قول کو نقل کیا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو گمراہ کرے گا لیکن مخلصین اُس کی دسترس سے خارج ہیں۔ سورۂ ص کی آیت نمبر (٨٣٨٢) میں ہے :

( قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُوِیَنَّهُم اَجمَعِینَ ٭ اِلَّا عِبَادَکَ مِنهُمُ المُخلَصِینَ )

وہ بولا تیری ہی عزت و جلال کی قسم ان میں سے تیرے خالص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کروں گا۔

اور بے شک ابلیس کا انھیں گمراہ نہ کرنے کی طمع اُس عصمت کی وجہ سے ہے جو انھیں گناہوں سے مقابلہ میں حاصل ہے، وگرنہ وہ تو اُن کا بھی دشمن ہے اگر اُسے موقع مل جائے تو اُنھیں بھی گمراہ کئے بغیر نہ چھوڑے۔

لہٰذا عنوان (مخلَص) عنوان (معصوم) کے مساوی ہے، اگر چہ ہمارے پا س اس صفت کا انبیاء (ع) سے مخصوص ہونے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ صفت انبیاء (ع) کو بھی حاصل ہے جیسا کہ خود قرآن نے بعض انبیاء (ع) کو مخلصین میں سے شمار کیا ہے سورۂ ص کی آیت (٤٦٤٥) میں فرماتا ہے :

( وَاذکُر عِبٰدِنَا اِبرَاهِیمَ وَ اِسحَاقَ وَ یَعقُوبَ اُولِی الاَیدِ وَالاَبصَارِ٭ اِنَّا اَخلَصنَا هُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَیٰ الدَّارِ )

اے رسول! ہمارے بندو ںمیں ابراہیم اسحاق اور یعقوب (ع)کو یاد کرو جو قوت و بصیرت والے تھے ہم نے ان کو ایک خاص صفت کی یاد سے ممتاز کیا تھا۔

اور سورۂ مریم کی (٥١) آیت میں فرماتا ہے :

( وَاذکُر فِ الکِتَابِ مُوسیٰ اِنَّهُ کَانَ مُخلَصاً وَ کَانَ رَسُولاً نَّبِیاً )

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! قرآن میں موسیٰ ـکا تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ میرا برگزیدہ اور بھیجا ہوا صاحب شریعت نبی تھا۔

اس کے علاوہ قرآن نے یوسف علیہ السلام کا سخت ترین لحظات میں محفوظ رہنے کو اُن کے

مخلص ہونے سے نسبت دے رہا ہے جیسا کہ سورۂ یوسف کی آیت (٢٤) میں فرماتا ہے:

( کَذَالِکَ لِنَصرِفَ عَنهُ السُّوئَ وَالفَحشَائَ اِنَّهُ مِن عِبَادِناَ المُخلَصِینَ )

ہم نے اُس کو یوں بچایا تا کہ ہم اس سے برُائی اور بدکاری کو دور رکھیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔

٢۔ قرآن انبیاء (ع) کی اطاعت کو مطلق قرار دے رہا ہے جیسا کہ سورۂ نساء کی آیت (٦٤) میں فرماتا ہے:( وَمَا اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللَّهِ )

اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں۔

اور ان لو گوں کی مطلق اطاعت اُسی صورت میں صحیح ہے کہ جب ان کی اطاعت اطاعت خدا ہو، اور ان کی پیروی کرنا اطاعت خدا کے خلاف نہ ہو وگرنہ ایک طرف خدا کی اطاعت کا حکم اور دوسری طرف اُن لوگوں کی اطاعت کا حکم جو خطائوں سے محفوظ نہیں ہیں غرض کے خلاف ہوگا۔

٣۔ قرآن نے الٰہی منصبوں کو انھیں لوگوں سے مخصوص جانا ہے ،کہ جن کے ہاتھ ظلم سے آلودہ نہ ہوں، جیسا کہ قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب میں فرماتا ہے، کہ جب انھوں نے منصب امامت کی اپنی اولاد کے لئے درخواست کی( لَا یَنَالُ عَهدِ الظَّالِمِینَ ) (۲)

فرمایا ہاں! مگر میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نہیں ہو سکتا ۔

اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ ہر گناہ نفس پر ایک ظلم ہے اور قرآن کی زبان میں ہر گنہگار ظالم ہے، پس انبیاء الٰہی جو منصب الٰہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں ،ہر قسم کے گناہ اور ظلم سے پاک ہوتے ہیں۔

عصمت انبیاء (ع) کا راز ۔

اس درس کے اختتام پر بہتر ہے کہ ہم انبیاء (ع) کے معصوم ہونے کے اسرار کی طرف ایک مختصر اشارہ کردیں،لہذا انبیاء علیہم السلام کا وحی کو حاصل کرنے میں معصوم ہونے کا راز یہ ہے کہ اصولاً وحی کو درک کرنا خطا بردار ادراکات سے ممکن نہیں ہے اور جو بھی اسے حاصل کر لینے کی صلاحیت سے سرفراز ہو، وہ ایک ایسے علم کی حقیقت کا مالک ہے جسے وہ اپنے سامنے حاضر پاتا ہے، او روحی سے اس کا رابطہ ہوتا ہے ،خواہ وہ وحی لانے والا فرشتہ ہویا کوئی اور ہو بخوبی اُسے مشاہدہ کرتا ہے(۳) اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ و حی حا صل کرنے والا شک میں مبتلا ہوجائے کہ اس پر وحی ہوئی ہے یا نہیں؟ یا کس نے اس پر نازل کی ہے؟ یا وحی کے مطالب کیا ہیں؟ اور اگر بعض من گھڑت تو جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا۔

داستانوں میں آیا ہے کہ مثلاً کسی نبی نے اپنی نبوت میں شک کیا ،یا وحی کے مطلب کو بھلادیا ،یا وحی نازل کرنے والے کو پہچان نہ سکا، یہ سب کچھ صاف بہتان ہے اور ایسے بہتان بالکل اسی طرح ہیں کہ کوئی اپنے وجود یا کسی حضوری اور وجدانی امر کے تحت شک کرے!!

لیکن انجام وظائف (لوگوں تک پیغام الٰہی کے پہچانے) میں انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کے راز کو بیان کرنے کے لئے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے اختیاری افعال اس صورت میں انجام پاتے ہیں، کہ جب انسانوں کے باطن میں اُس کے انجام دینے میں رجحان ہو ،جو مختلف اسباب و عوامل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور ایک شخص علم اور مختلف ادراکات کے ذریعہ مطلب تک پہنچنے والے راستہ کو معین کرتا ہے۔

اور اِسی کے مطابق امور کو انجام دیتا ہے لیکن جب اس میں متضاد رجحان ہوں تو اس صورت میں وہ بہترین کو انتخاب کرنے کی کوشش میں رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی علوم کی کمزوری بہترین کو معین کرنے میں خطا سے دوچار ہونے کا سبب بن جاتی ہے یا بہترین سے غفلت یا پست ترین شی سے انس اشتباہ کا سبب بن جاتا ہے صحیح فکر اور صحیح انتخاب کا موقع نہیں مل پاتا۔

لہذا انسان جس قدر حقائق سے آشنا ہو، اور حقائق کے تحت زیادہ سے زیادہ توجہ سے سرفراز ہو، نیز ا س کے علاوہ باطنی ہیجانات اور ہنگاموں کو مہار کرنے میں عظیم قدرت سے سرفراز ہو تو وہ اتنا ہی حسن انتخاب میں کامیاب ہوگا ،اور خطائوں سے اُسی انداز ے کے مطابق محفوظ رہے گا۔

یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو مستعد، و راستہ ، عقل و بینش سے سرفراز ہونے کے علاوہ صحیح تربیت میں پلے، بڑھے ہیں وہ فضیلت و کمال کے درجات حاصل کرلیتے ہیں، یہاں تک کہ اس راہ میں مرتبہ عصمت تک بھی پہنچ جاتے ہیں، اور ان کے ذہنو ں میں گناہ کا خیال تک نہیں آتا، جیسا کہ کوئی بھی عاقل شخص اپنے ذہن میں زہر کو پینے یا غلاظتوں کے کھانے کی فکر کو نہیں لاتا، اسی طرح یہ لوگ بھی گناہوں کے ارتکاب کی فکر اپنے ذہن میں نہیں لاتے۔

اب اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ ایک شخص کی استعداد حقائق کو سمجھنے میں بے نہایت اور روح کی طہارت و پاکیزگی کے اعتبار سے عظیم مقامات پر فائز ہے اور قرآن کی تعبیر کے مطابق وہ روغن زیتون کی طرح زلال نیز خالص اور شعلہ ور ہونے کے نزدیک ہو بغیر اس کے کہ وہ کسی شعلہ سے ارتباط برقرار کرے (یکادزیتہا یضئی و لو لم تمسہ نار)اور اُسی قوی ا ستعداد اور روح کی پاکیزگی کی وجہ سے خدا کی تربیت میں پرہان چڑھے اور خدا اس کی روح القدس کے ذریعہ مدد کرے، ایسا شخص غیر قابل وصف کمالات کے مدارج کو طے کر تاہے بلکہ ہزاروں سال طولانی راستہ کو ایک شب میں طے کر لیتا ہے ، دوران طفولیت بلکہ شکم مادر میں، ہر ایک پر، اُسے برتری حاصل ہوگی، ایسے شخص کی نگاہ میں گناہوں کی حقیقت اسی طرح آشکار ہے جس طرح دوسروں کے لئے زہر پینے اور غلاظتوں کو کھانے کی حقیقت۔

اورجس طرح عادی و معمولی افراد کا ایسے کاموں سے پرہیز جبری نہیں ہے اسی طرح معصوم کا گناہوں سے بچنا کسی بھی صورت میں ان کے اختیار کے خلاف نہ ہوگا۔

سوالات

١۔انبیاء علیہم السلام کی عصمت کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کریں؟

٢۔ قرآن کی کون سی آیات انبیاء (ع) کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں؟

٣۔ وحی کو بیان کرنے میں انبیاء (ع) کے معصوم ہونے کا راز کیا ہے؟

٤۔ انبیاء (ع)کا گناہوں سے بچنا کیسے ان کے اختیار سے سازگار ہے؟

____________________

(١)اس بات کی طرف توجہ ہے کہ مخلَص لام کے فتحہ کے ساتھ،مخلِص لام کے کسرہ کے ساتھ جدا ہے، مخلَص لام کے فتحہ کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے شخص کو خالص بنادیا ہو ،اورمخلِص لام کے کسرہ کے ساتھ اس کا مطلب یہ ہے کہ شخص نے اپنے اعمال اخلاص کے ساتھ انجام دئے ہوں۔

(۲)سورۂ بقرہ۔ آیت ١٢٤.

(۳) قرآن اس سلسلہ میں فرماتا ہے :(مَاکَذَبَ الفُؤَادُ مَارَأیٰ) سورۂ نجم ۔آیت ١١