درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48377
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48377 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

اٹھائیسواں درس

چند شبہات کا حل

کیا اعجاز اصل علیت کے لئے ناقض نہیں ہے؟

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔

کیا خارق عادت امور سنت الٰہی میں تغیر ایجاد کرنے کے مترادف نہیں ہیں؟

کیوں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معجزات پیش کرنے سے خودداری فرماتے تھے؟

کیا معجزات برہان عقلی ہیں یا دلیل اقناعی؟

چند شبہات کا حل۔

مسئلہ اعجاز کے سلسلہ میں چند شبہات ہیں کہ جن کے جوابات اِس درس میں دئے جائیں گے۔

پہلا شبہ یہ ہے

کہ ہمیشہ مادی موجودات کا وجود میں آنا ،کسی خاص علت کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ جنھیں علمی آزمائشات کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے، اور کسی موجود کی علتوں کا نا شناختہ رہ جانا، اس موجود کے لئے علت نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، لہٰذا خارق عادت امور کو اِس عنوان سے قبول کیا جاسکتا ہے ،کہ وہ ناشناختہ علل و عوامل کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں، اور جب تک ان امور کے علل و اسباب نا شناختہ ہیں اس وقت تک انھیں حیرت انگیز امور میں شمار کیا جاسکتا ہے، لیکن قابل شناخت علتوں کا انکار علمی آزمائشوں کے ذریعہ اصل علیت کے نقض کے معنی میں ہے اور غیر قابل قبول ہے۔

اِس شبہ کا جوا ب یہ ہے کہ اصل علیت کا صرف تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی وابستہ موجود ، یا معلول کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے، لیکن تمام علتوں کا آزمائشوں کے ذریعہ قابل شناخت ہونا کسی بھی صورت میں اصل علیت کا لازمہ نہیں ہے اور اس لازمہ کے لئے کوئی دلیل بھی نہیں ہے اس لئے کہ علمی آزمائش امور طبیعی میں محدود ہیں، اور کسی بھی صورت میں ماوراء طبعیت امورکے وجود ، یا عدم یا اُ س کی اثر گذاری کو آزمائش و سیلئہ کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاہی کے معنی میں صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ اگر یہ آگاہی عادی علتوں کے ذریعہ حاصل ہوئی ہو تو اِس میں اور بقیہ عادی موجودات میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی صورت میں اُسے خارق عادت امر نہیں کہا جا سکتا، اور اگر آگاہی غیر عادی طریقہ سے حاصل ہوئی ہو تو اُسے خارق عادت امور میں سے شمار کیا جائے ، لیکن جب وہ اذن الٰہی پر منحصر اور نبوت کی دلیل ہو تو معجزہ کی قسموں میں شامل ہے، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لوگوں کے ذ خائر اور خوراک سے آگاہی آپ کے معجزات میں سے تھا(۱) لیکن معجزہ کو صرف اِسی ایک قسم میں منحصر نہیں کیا جاسکتا، اس اعتبار سے کہ بقیہ اقسام کی نفی کردی جائے لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ایسے امور اور بقیہ خارق عاد ت امور میں اصل علیت کے اعتبار سے فرق کیا ہے؟

دوسرا شبہ یہ ہے

کہ خدا کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ وہ کسی بھی موجود کو کسی خاص علت کے سہارے وجود میں لاتا ہے، اور قرآن کی آیتوں کے مطابق سنت الٰہی قابل تغیر نہیں ہے۔(۲)

لہٰذا خارق عادت امور سنت الٰہی میں تغیر و تبدل کا سبب بنیں ، مذکورہ آیتوں کی بنیاد پر یہ بات غیر قابل قبول ہے؟

یہ شبہ بھی گذشتہ شبہ سے مشابہ ہے بس فرق اتنا ہے کہ گذشتہ شبہ میں عقلی دلائل استعمال ہوئے تھے اور اس شبہ میں قرآنی آیت کا سہارا لیا گیا ہے اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ موجودات کے علل و اسباب کو عادی علل و اسباب میں منحصر سمجھنے کو تغیر ناپذیر سنت الٰہی کا جز سمجھنا بے بنیاد بات ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے ، جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ علت حرارت کا آگ میں منحصر ہونا خدا کی تغیر ناپذیر، سنتوں میں سے ہے، اِیسے د عووں کے مقابلہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف معلولات کے لئے مختلف علتوں اور اسباب عادی کے لئے غیر عادی اسباب کا جمع ہونا ایک ایسا امر ہے جو ہمیشہ دیکھا گیا ہے

اور اس وجہ سے ُاسے سنت الٰہی کا جزء شمار کرنا چاہیے اور اسباب کے عادی اسباب میں منحصر ہونے کو

اُس کے لئے ایک قسم کا تغیر سمجھنا چاہیے کہ کی قرآن نے نفی کی ہے۔

بہر حال ان آیتوں کی تفسیر کرنا جو سنت الٰہی کے تغیر ناپذیر ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اس 'صورت میں کہ عادی اسباب کا جانشین قبول نہ کرنا اس عنوان کے تحت ہے کہ وہ خدا کی تغیر ناپذیر سنتوں میں ہے ایک بے بنیاد تفسیر ہے، بلکہ بہت سی وہ آیا ت جو معجزات اور خارق عادت امور کے ہونے پر دلالت کرتی ہیں،' اس تفسیر کے باطل ہونے کے لئے ایک محکم دلیل ، بلکہ اُن آیتوں کی صحیح تفسیر کو تفسیر کی کتابوں میں تلاش کرنا ہوگا اور ہم اس مقام پر صرف ایک اجمالی اشارہ کریں گے کہ یہ آیات ،معلول کی اپنی علت سے مخالفت نہ کرے پر دلالت کرتی ہیں نہ یہ کہ علتوں کا متعدد ہونا یا علت عادی کی جگہ علت غیر عاد ی کے آ جانے کی نفی کرتی ہیں بلکہ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاحد یقین اسباب کی تأثیر اور غیر عادی علل ان آیتوں کے موارد میں سے ہیں۔

تیسرا شبہ یہ ہے

کہ قرآن کے مطابق لوگ بارہا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی درخواست کرتے تھے اور آنحضرت ایسی خواہشوں کے جواب سے خودداری فرماتے تھے(۳) لہذا اگر معجزہ نبوت کو ثابت کرنے کا وسیلہ ہے تو پھر کیوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وسیلہ کے استعمال سے خودداری فرماتے تھے؟

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ایسی آیتیں ان درخواستوں سے مربوط ہیں جو اتمام حجت اور ( ضحیح قرائن صدق، گذشتہ انبیاء (ع)کی بشارتیں، اورمعجزات کے ذریعہ آپ کی نبوت کے اثبات کے بعد) ضد اور عناد کی وجہ سے کی جاتی تھیں(۴) اورحکمت الٰہی کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی خواہشو ں کا جواب نہ دیا جائے۔

مزید وضاحت:

معجزہ اِس جہان میںموجوہ نظام کے درمیان ایک علیحدہ مسئلہ ہے جسے لوگوں کی خواہشوں کو پورا کرے (جیسے ناقۂ حضرت صالح ـ ) اور کبھی بطور ابتدائی (جیسے حضرت عیسی کے معجزات) انجام دیا جاتا تھا، لیکن اس کا ہدف خدا کے انبیاء (ع)کو پہچنوانا اور لوگوں پر حجت کو تمام کرنا تھا، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنارسولوں کی دعوتوں کو جبراً قبول کرنے اور اُن کے احکامات کے سامنے مجبوراً تسلیم ہوجانے کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی وقت گذارنے کے لئے ایک کھیل اور عادی اسباب و مسببات میں ہنگامہ ایجاد کرنے کے لئے تھا، اور ایسے ہدف کے ہوتے ہوئے ایسی خواہشوں کا جواب کبھی نہیں دیا جا سکتا، بلکہ ایسی خواہشوںکاجواب دینا حکمت کے خلاف ہوگا، یہ خواہشیں ان درخواستوں سے مشابہ ہیں کہ جو ایسے امور سے مربوط تھیں کہ جس کی وجہ سے راہ اختیار ختم ہوجاتا، اور لوگوںکو انبیا ء علیہم السلام کی دعوت قبول کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا، یا ان درخواستوں کی طرح ہیں کہ جنھیں عناد اور دشمنی یا حقیقت طلبی کے علاوہ کسی دوسرے اغراض کے تحت پیش کئے کرتے تھے، اس لئے کہ ایسی درخواستوں کا جواب دینے کی وجہ سے معجزات کھلونا بن جاتے اور عوام اُسے اپنے لئے وقت گزارنے کا بہترین وسیلہ تصور کرلیتی، یا اپنے شخصی منافع حاصل کرنے کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جمع ہوجاتی، اور دوسری طرف آزادانہ اختیار،و انتخاب کا راستہ بند ہوجاتا، اس کے علاوہ لوگ مجبور ہو کر انبیاء علیہم السلام کی اطاعت قبول کرتے، اور یہ دونوں صورتیں معجزات کے پیش کرنے کی حکمت کے خلاف ہیں، لیکن ان مقامات کے علاوہ جہان حکمت الٰہی کا تقاضا ہو،وہاں ان کی خواہشوں کا جواب دے دیا جاتا تھا جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بے شمار معجزات قطعی سند کے ساتھ ثابت ہیں، جن میں ہر ایک سے واضح اور جاودانی قرآن کریم ہے کہ جس کی وضاحت انشاء اللہ آئندہ آئے گی۔

چوتھا شبہ یہ ہے

کہ معجزہ چونکہ اذن الٰہی پر منحصر ہے جو اس بات کی علامت ہوسکتا ہے کہ خدا اور معجزہ دکھانے والے کے درمیان خاص ارتباط پایا جاتا ہے اس لئے کہ اُسے خدا نے یہ خاص اجازت عنایت کی ہے، یا ایک دوسر ی تعبیر کے مطابق اس نبی نے اپنی خواہش اور عمل کو اُس کے ارادہ کے ذریعہ تحقق بخشا ہے، لیکن ایسے ارتباطات کا عقلی لازمہ یہ نہیں ہے کہ اُس میں اور خدا کے درمیان اُس ارتباط کے علاوہ دوسرے ارتباطات بھی پائے جاتے ہوںلہذا معجزہ کو د عوی نبوت کے صحیح ہونے پر دلیل عقلی نہیں مانا جاسکتا، بلکہ اُسے صرف ایک ظنی اور قانع کردینے والی دلیل کا نام دیا جاسکتا ہے۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ خارق عادت امور اگرچہ الٰہی کیوں نہ ہوں، خود بخود رابطہ وحی کے ہونے پر دلالت نہیں کرتے اِسی وجہ سے اولیاء علیہم السلام کی کرامت کو اُن کے نبی ہونے کی دلیل نہیں مانی جاسکتی لیکن یہاں بحث اس شخص کے سلسلہ میں ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ دکھایا ہے اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے(۵) ، جو عظیم اور بدترین گناہوں میں سے ہونے کے علا وہ دنیا و آخرت میں تباہی کا موجب بھی ہے، اُس میں ہرگز خداُ سے ایسے ارتباط کے برقرار ہونے کی صلاحیت نہیں ہوسکتی، اور خدا کبھی بھی ایسے فرد کو معجزہ کی قدرت عطا نہیں کرسکتا کہ جس کی وجہ سے لوگ گمراہ اور بدبخت ہوجائیں(۶)

نتیجہ:

عقل بخوبی درک کرتی ہے کہ صرف وہی شخص خدا سے خاص ارتباط برقرار کرنے اور معجزہ کی قدرت سے سرفراز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جو اپنے مولا سے خیانت نہ کرے اور ا سکے بندوں کی گمراہی اور بدبختی کا موجب نہ بنے، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنا د عوای نبوت کے صحیح ہونے پر ایک قاطعِ دلیل عقلی ہے۔

سوالات

١۔ اصل علیت کا مطلب کیا ہے؟ اور اسکا لازمہ کیا ہے؟

٢۔ کیوں اصل علیت کو مان لینا اعجاز کوقبول کرنے کے خلاف نہیں ہے؟

٣۔ کیوں اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاہی کے معنی میں صحیح نہیں ہے؟

٤۔ کیا اعجاز کو قبول کرلینا تغیر ناپذیر سنت الٰہی کے خلاف نہیں ہے؟ کیوں؟

٥۔ کیاانبیاء علیہم السلام ابتداء امر میں معجزات پیش کرتے تھے یا جب لوگوںکی طرف سے درخواست ہوئی تو اس وقت اپنا معجزہ پیش کرتے تھے؟

٦۔ کیوں انبیا ء علیہم السلام معجزہ کے حوالے سے بعض خواہشوں کا جوا ب نہیںدیتے تھے؟

٧۔ اس امر کی وضاحت کریں کہ معجزہ ایک دلیل ظنی اور اقناعی نہیں ہے بلکہ ادعاء نبوت کے سچے ہونے پر ایک عقلی دلیل ہے؟

____________________

(١)سورۂ آل عمران۔ آیت/ ٤٩.

(٢) سورۂ بنی اسرائیل۔، آیت/ ٧٧،.سورۂ احزاب۔ آیت/ ٦٢. سورۂ فاطر۔ آیت/ ٤٣ سورۂ فتح۔ آیت/ ٢٣.

(۲)سورۂ انعام۔ آیت/ ٣٧ سورۂ یونس۔ آیت /٢٠ سورۂ رعد۔ آیت /٧ سورۂ انبیا ۔ آیت/ ٥

(۳) سورۂ انعام۔ آیت/ ٣٥ ١٢٤ سورۂ طہ۔ آیت /١٣٣ سورۂ صافات ۔آیت /١٤ سورۂ قمر۔ آیت /٢ سورۂ شعراء ۔آیت /٣ ٤ ١٩٧ سورۂ اسرائ۔ آیت /٥٩ سورۂ روم۔ آیت /٥٨

(۵)سورۂ انعام۔ آیت/ ٢١ ٩٣ ١٤٤ سورۂ یونس ۔آیت/ ١٧ سورۂ ہود۔ آیت /١٨ سورۂ کہف ۔آیت/ ١٥ سورۂ عنکبوت۔ آیت/ ٦٨ سورۂ شوریٰ۔ آیت /٢٤

(۶)سورۂ الحاقہ۔ آیت /٤٤ ٤٦

انتیسواں درس

انبیاء علیہم السلام کی خصوصیات

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

انبیاء علیہم السلام کی کثرت

انبیاء علیہم السلام کی تعداد

نبوت و رسالت

اولو العزم انبیاء علیہم السلام

چند نکات

انبیاء علیہم السلام کی کثرت۔

اب تک ہم نے مسائل نبوت میںسے تین مسئلہ کے تحت بحث کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں اُن معلومات کا بنیادی نقش ہے کہ جنھیں معلوم کرنے میں علومِ بشری ناکافی ہیں، اس مشکل کے تحت حکمت الٰہی کا تقاضایہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری رکھے اور انھیں ضروری حقائق کی تعلیم دے تا کہ وہ انھیں صحیح و سالم تمام انسانوں تک پہنچادیں، اس کے علاوہ ا سے لوگوں کے سامنے اس طرح بیان کر ے کہ اُن پر حجت تمام ہوجائے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے سب سے عمومی راستہ معجزہ ہے۔

ہم نے اِن مطالب کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ،لیکن یہ دلائل انبیاء علیہم السلام کے متعدد ہونے اور آسمانی کتابوں کے متعدد ہونے کو ثابت نہیں کرسکتے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بشری زندگی اس طرح ہوتی کہ ایک ہی رسول اُس کی ضرورتوں کو کائنا ت کے ختم ہونے تک اِس طرح پورا کردیتا کہ ہر فرد اور گروہ اُسی ایک رسول کے ذریعہ پیام اسلام کو اخذ کرتا تو یہ امر اُن دلائل کے تقاضے کے خلاف نہ ہوتا۔

لیکن ہمیںمعلوم ہے کہپہلے یہ کہ ، ہر انسان کی عمر خواہ نبی ہو یا غیر نبی محدود ہے لہٰذا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایک ہی رسول جہان کے ختم ہونے تک زندہ رہے اور خود ہی تمام انسانوںکی ہدایت کا فریضہ انجام دے۔

دوسرے یہ کہ : بشر کی زندگی مختلف حالات اور ادوار میں کبھی بھی ایک جیسی نہیں رہتی لہٰذا شرائط کا مختلف او ر متغیر ہوتے رہنا خصوصاً روابط اجتماعی کا پیچیدہ ہونا احکام اور اجتماعی قوانین کے درمیان میں اثر ا نداز ہے، بلکہ بعض حالات میںجدید قوانین کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اگر یہ قوانین اسی رسول کے ذریعہ بیان ہوتے جو ہزاروں سال پہلے مبعوث ہوئے تھے تو یہ ایک غیر مفید امر ہوتا اور انھیں ان کے مقامات پر جاری کرنا اور ہی زیادہ سخت ہوتا۔

تیسرے یہ کہ : اکثر زمانوں میں مبعوث ہونے وا لے رسولوں کو اپنی تبلیغ کے لئے حالات اور شرائط ایسے نہیںتھے جو اپنے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچا سکتے۔

چوتھے یہ کہ :جب بھی ایک رسول کسی قوم کی جانب مبعوث ہوتا تھا تو اس کی تعلیمات کو زمانہ کے گذرنے کے ساتھ بدل دیا جاتا اور ا ُس میں تحریف کردی جاتی تھی(۱) اورآہستہ آہستہ ایک رسول کا لایا ہوا دین انحراف کا شکار ہوجاتا تھا، جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی تھی وہی دین ان کے بعد انحراف سے دو چار ہوگیا اور تثلیث جیسے عقائد اُس دین کے جزبن گئے۔

ان نکات کے پیش نظر انبیاء علیہم السلام کا متعدد ہونا اور شریعتوں کا بدلتے رہنا اور بعض احکامات میں اختلافات کا راز سمجھ میں آجاتا ہے،(۲) لیکن ان سب شر یعتوں میں اصول عقائد اور مبانی اخلاقی کے اعتبار سے فردی و اجتماعی احکامات میں ھماھنگی تھی مثلاً نماز تمام شریعتوں میں تھی اگر چہ ان نمازوں کی کیفیت متفاوت اور ان کے قبلہ مختلف تھے یا زکوٰة اور صدقہ دینا تمام شریعتوں میں تھا اگر چہ اس کی مقدار میں اختلاف تھا۔

بہر حال تمام رسولوں پر ایمان لانا اور نبوت کی تصدیق کے ساتھ اُن میں کسی فرق کے قائل نہ ہونا نیز اُن پر نازل ہونے والے تمام پیغامات اور معارف کو قبول کرنا نیز اس علاوہ ان میں یکسانیت کا قائل ہونا ہر انسان پر لازم ہے،(۳) ایک نبی کا ا نکار تمام انبیاء علیہم السلام کے انکار کے برابر اور کسی ایک حکم کا منکر ہونا تمام احکامات الٰہیہ کے منکر ہونے کے مساوی ہے(۴) البتہ کسی بھی اُمت کے لئے کسی بھی زمانہ میں اسی دور کے نبی کے احکامات کے مطابق وظائف معین ہوتے رہے ہیں ۔

جس نکتہ کی طرف یہاں پر اشارہ کرنا لازم ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ عقل ،مذکورہ نکات کے کے تحت انبیا ء علیہم السلام اور شریعتوں کے متعدد ہونے کے راز کو معلوم کر سکتی ہے لیکن اصل راز کا پتہ نہیں لگا سکتی ،کہ کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کسی دوسرے نبی کی بعثت یا کسی جدید شریعت کی ضرورت ہے ، فقط اس حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی بشر کی زندگی اس طرح ہو، کہ ایک نبی کے پیغامات تمام انسانوں تک پہنچ سکیں اور اس کے پیغامات آنے والوں کے لئے محفوظ رہ جائیں، نیز اجتماعی شرائط اس طرح متغیر نہ ہوں، کہ کسی جدید شریعت یا احکامات کلی میں تبدیلی کی ضرورت پڑے، تو ان حالات میں کسی جدید نبی کی بعثت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی تعداد۔

جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کردیا ہے کہ ہماری عقل انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکتی ، بلکہ اُسے صرف نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے اور قرآن کریم میں اگر چہ یہ خبر موجود ہے کہ ہر اُمت کے لئے ایک نبی ضرور مبعوث ہوا ہے(۵) لیکن اِ س کے باوجود قرآن نے اُن کی تعداد کو معین نہیں کیا ہے بلکہ اُن میں سے صرف ٢٤ رسولوں کا نام آیا ہے اور اُن میں سے بھی بعض رسولوں کی داستانوں کی طرف فقط اشارہ کیا گیا ہے اِس کے علاوہ اُن میں بھی بعض

نبیوں کے اسماء ذکر نہیں کئے گئے،(۶) لیکن معصومین علیہم السلام کی طرف سے منقول روایتوں کے مطابق خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو مبعوث کیا ہے(۷) جن کا سلسلہ حضرت آدم ابوالبشر علیہ السلام سے شروع اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ختم ہوتاہے۔

خدا کی طرف سے بھیجے گئے رسول ،نبی ہونے کے علاوہ نذیر، منذر، بشیر، مبشر(۸) جیسے صفات کے بھی حامل تھے نیز صالحین و مخلصین میں اُن کا شمار ہوتا تھا ،اور ان میں سے بعض منصب رسالت پر بھی فائز تھے بلکہ بعض روایتوں کے مطابق منصب رسالت پر فائز نبیوں کی تعداد ( تین سو تیرہ) ذکر کی گئی ہے۔(۹) اسی وجہ سے اس مقام پر مفہوم نبوت وامامت اورنبی و رسول کے درمیان فرق کو بیان کر ر ہے ہیں ۔

نبوت اور رسالت۔

کلمہ ''رسول'' پیغام لانے والے کے معنی میں ہے اور کلمۂ ''نبی'' اگر مادۂ '' نباء سے ہے تو اہم خبر کے مالک ، اور اگر مادہ ٫٫نبو ،، سے ہے تو بلند و بالا مقام والے کے ہیں ۔

بعض لوگوں کا گمان ہے کہ کلمہ نبی کلمہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اعم ہے یعنی نبی وہ ہے کہ جس کی طرف خدا کی جانب سے وحی کا نزول ہو اور اُسے لوگوں تک پہنچانے میں وہ مختار ہے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ ہے کہ جس پر وحی کو لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے۔

لیکن یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ قرآن میں بعض مقامات پر نبی کی صفت رسول کی صفت کے بعد مذ کو ر ہے(۱۰) حالانکہ قاعدہ کے مطابق جو چیز عام ہو اسے خاص سے پہلے ذکر ہونا چاہیے اس کے علاوہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ابلاغ وحی کے لئے وجوب پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔

بعض روایتوں میں وارد ہو اہے کہ مقام نبوت کا تقاضا یہ ہے کہ نبی فرشتہ وحی کو خواب میں مشاہدہ کرتا ہے اور بیداری میں صرف اس کی آواز سنتا ہے جبکہ مقام رسالت کا حامل شخص بیداری میں فرشتہ وحی کو مشاہدہ کرتا ہے۔(۱۱)

لیکن اس فرق کو مفہوم لفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے قبول نہیں کیا جا سکتا ، بہر حال جس مطلب کو قبول کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ '' نبی'' مصداق کی رو سے (نہ مفہوم کے لحاظ سے) رسول، سے عا م ہے، یعنی تمام ر سول مقام نبوت سے سرفراز تھے لیکن مقام رسالت صرف کچھ خاص انبیاء علیہم السلام سے مخصوص تھا جن کی تعداد ( ٣١٣) ہے، بس رسولوں کا مقام نبیوں کے مقابلہ میں بلند ہے جیسا کہ خود ،تمام ر سو ل فضیلت کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں تھے(۱۲) بلکہ ان میں سے بعض مقام امامت سے بھی سزاوار تھے۔(۱۳)

اولوالعزم انبیاء علیہم السلام۔

قرآن کریم نے بعض رسولو ں کو اولوالعزم کے نام سے یاد کیا ہے لیکن اُن حضرات کی خصوصیات کو بیان نہیں کیا ہے: روایتوں کے مطابق اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد پانچ ہے(۱۴) حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اور حضرت محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۵) قرآن کے بیان کے مطابق اِن حضرات کی خصوصیات صبر و استقامت میں ممتاز ہونے کے علاوہ اُن میں سے ہر ایک مستقل کتاب اور شریعت کے مالک تھے نیز ہم عصر اور متأخر انبیاء علیہم السلام، اُن کی شریعتوں کی اتباع کرتے تھے مگر یہ کہ، کوئی دوسرا اولوالعزم رسول مبعوث ہو اورگذشتہ شریعت منسوخ ہوجائے اِسی ضمن میں یہ امر بھی روشن ہوگیا کہ ایک زمانہ میں دو ، پیغمبر اکٹھا ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام جناب ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر، اور حضرت ہارون ـ جناب موسیٰ علیہ السلام ، کے ہم عصر اور حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم وقت ، ہم زمان تھے۔

چند نکات۔

اس درس کے آخر میں مسئلہ نبوت کے تحت فہرست وارچند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

الف: ہر نبی دوسرے نبی کی تصدیق اور اُس کے آنے کی پیشنگوئی کرتا تھا(۱۶) لہذا اگر کسی نبوت کا دعویٰ اور ہم عصر نبیوں یا گزشتہ رسولوں کی تکذیب کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔

ب: انبیاء علیہم السلام اپنی تبلیغ کی وجہ سے لوگوں سے اجر طلب نہیں کرتے تھے(۱۷) فقط رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجر رسالت کے عنوان سے اہل بیت علیہم السلام کی مودّت کی وصیت فرمائی تھی(۱۸) جس کی منفعت خود اُمت کے حق میں ہے(۱۹) ۔

ج: بعض انبیاء علیہم السلام منصب الٰہی کے مالک ہونے کے علاوہ قضاوت اور حکومت کے حق سے بھی سرفراز تھے جن میں سے حضرت داود ، اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا نام لیا جا سکتا ہے سورہ نساء کی ٦٥ آیت سے استدلال ہوتا ہے کہ ہر رسول کی اطاعت مطلقاً واجب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام رسول س مقام کے مالک تھے۔

د: جن، جو مکلف اور مختار مخلوقات میں سے ہیں اور عادی حالات میں انسان کے لئے قابل دید نہیں ہیں، بعض انبیاء علیہم السلام کی دعوتوں سے باخبر ہوتے تھے اور اُن میں صالح افراد اُن کی دعوتوں پر ایمان بھی لائے تھے، اُن لوگوں کے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیرو موجود ہیں(۲۰) اور ان میں سے بعض ابلیس کی پیروی کرتے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب بھی کرتے ہیں۔(۲۱)

سوالات

١۔ انبیاء علیہم السلام کے متعدد ہونے کی حکمت بیان کریں؟

٢۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوتیں اور ان کے احکامات ے مقابل میں لوگوں کا وظیفہ کیا ہے؟

٣۔ کس صورت میں جدید نبی کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟

٤۔ انبیا ء اورر سولوں کی تعداد بیان کریں؟

٥۔ نبی اور رسول میں کیا فرق ہے اور مفہوم و مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

٦۔انبیاء علیہم السلام کو منصب الٰہی کی رو سے ایک دوسرے پر کیسے برتری حاصل ہے؟

٧۔ اولو العزم رسول کون ہیں؟ اور ان کی خصوصیات کیا ہیں؟

٨۔ کیا زمانِ واحد میں پیغمبروں کا متعدد ہونا ممکن ہے؟ اور ممکن ہونے کی صورت میں کسی ایک نمونہ کو بیان کریں؟

٩۔ انبیاء علیہم السلام کے اوصاف میں سے آپ کو مذکورہ اوصاف کے علاوہ اگر یاد ہوں تو ذکر کریں؟

١٠۔ جنات کا طرز عمل، ایمان اور کفر کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام کی بہ نسبت کیسا ہیں؟

____________________

(١)ایسے نمونہ سے آگاہی کے لئے علامہ شیخ محمد جواد بلاغی کی کتاب ''الھدایٰ الی دین المصطفیٰ'' کی طرف رجوع کیا جائے.

(٢)سورۂ بقرة ۔آیت /١٣١۔ ١٣٧۔ ٢٨٥، سورۂ آل عمران۔ آیت/ ١٩۔ ٢٠.

(۳) سورۂ شوریٰ۔ آیت/ ١٣ ، سورۂ نساء ۔آیت /١٣٦ ١٥٢، سورۂ آل عمران۔ آیت/ ٨٤ ٨٥

(۴) سورۂ نسائ۔ آیت /١٥٠، سورۂ بقرہ ۔آیت /٨٥

(۵)سورۂ فاطر۔ آیت/ ٢٤، سورۂ نحل۔ آیت/ ٣٦

(۶) سورۂ بقرہ ۔آیت /٢٤٦ ٢٥٦.

(۷) رجوع کیا جائے رسالۂ اعتقادت صدوق اور بحار الانوار (طبع جدید) ج١١ ص ٣٢٣٠٢٨ ٤٢.

(۸)سورۂ بقرة۔ آیت /٢١٣، سورۂ نسائ۔ آیت /١٦٥

(۹)بحار الانوار ۔ج٨١١ص ٢٨، ٣٢

(۱۰) بحار الانوار ج١١ ص٣٢ (۱۱) اصول کافی ج١ ص١٧٦(۱۲) سورۂ بقرہ۔ آیت /٣٥٣ سورۂ بنی اسرائیل۔آیت/٥٥ (۱۳)سو رہ بقرہ۔ آیت/ ١٢٤ سورۂ انبیاء ۔آیت/ ٧٣، سورۂ سجدہ۔ آیت/ ٢٤.

(۱۴)سورۂ احقاف ۔آیت ٣٥.

(۱۵)بحار الانوار ج١١ ص٢٤ اور معالم النبوة آیت/ ١١٣.

(۱۶)سورۂ آل عمران۔ آیت /٨١

(۱۷)سورۂ انعام۔ آیت/ ٩٠سورۂ یس ۔آیت/٢١، سورۂ قلم۔ آیت /٤٢، سورۂ یونس۔ آیت/ ٧٢، سورۂ ہود۔ آیت /٢٩ ٥١، سورۂ فرقان ۔آیت /٧٥، سورۂ شعرائ۔ آیت /١٠٩، ١٢٧،١٤٥، ١٦٤، ١٨٠، سورۂ یوسف ۔آیت/ ١٠٤

(۱۸)سورۂ شوریٰ۔ آیت/ ٢٣

(۱۹) سورۂ سبا ۔آیت /٤٧

(۲۰) سورۂ احقاف۔ آیت /٢٩، ٣٢

(۲۱) سورۂ جن ۔آیت/ ١، ١٤