درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48428
ڈاؤنلوڈ: 4064

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48428 / ڈاؤنلوڈ: 4064
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

تیسواں درس

انبیاء علیہم السلام اور عوام

مقدمہ

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ میں لوگوں کا کردار

انبیاء علیہم السلام سے مخالفت کے اسباب

انبیاء علیہم السلام سے ملنے کا طریقہ

انسانی معاشروں کی تدبیر میں بعض سنت الٰہی

مقدمہ

قرآن مجید جہاں گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی داستانوں کو ذکر کرتا ہے اور ان کی درخشاں زندگی کے ہرہرگوشہ کی تفصیل بیان کرتا ہے اور اُن کی تاریخ میں موجود تحریفات کے پردے فاش کرتا ہے وہیں انبیاء علیہم السلام کی تبلیغات کے مقابلہ میں لوگوں کے ردّ عمل کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے ایک طرف انبیا ء الٰہی علیہم السلام کے مقابلہ میں لوگوں کی مخالفتوں نیز ان کی مخالفت کے اسباب و علل کو بیان کرتا ہے اور دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کا لوگوں کو ہدایت اور تربیت کرنے کے علاوہ کفر و شرک جیسے عوامل سے بر سر پیکار ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے نیز انسانی معاشروں میں جاری سنت الٰہی خصوصا انبیاء علیہم السلام اور لوگوں کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ جس میں عبرت آموز نکات پوشیدہ ہیں۔

یہ مباحث اگر چہ براہ راست اعتقادی مسائل سے مربوط نہیں ہوتی لیکن چونکہ مسائل نبوت سے مربوط بہت سارے روشن پہلو ، مختلفابہامات سے پردہ ہٹانے کے علاوہ تاریخ کے وادثات سے عبرت حاصل کرنے اور انسانی زندگی کو سنوار نے میں نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں اسی وجہ سے اس درس میں جو مہم نکات ہیں ان کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے مقابل میں لوگوں کا کردار۔

جب بھی انبیاء الٰہی علیہم السلام قیام کرتے اور لوگوں کو خدئے ا واحد(۱) اور اس کے احکامات کی اطاعت کرنے نیز باطل خدائوں کی پرستش سے بیزاری، شیاطین اور طاغوت سے کنارہ کشی، ظلم و فساد، گناہ اور معصیت سے پرہیز کرنے کے لئے دعوت دیتے تھے تو انہیں عموماً لوگوں کی مخا لفتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا(۲) مخصوصاً معاشرہ کے وہ افراد جو حاکم اور مالدار ہونے کی وجہ سے اپنے عیش و نوش(۳) میں مست ،علم و دانش(۴) مال و ثروت کی فراوانی پر مغرور تھے، وہ شدت سے مقابلہ کرتے تھے فقیر طبقات کی ایک بڑی جماعت کواپنا حامی بناکر لوگوں کو راہ حق کی پیروی سے روکتے تھے(۵) اور اس طرح صرف وہی لوگ ایمان لاتے تھے جو معاشرہ کے پچھڑے ہوئے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے(۶) اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ ایک سماج صحیح و سالم عقائد اور عدل کی بنیادوں پر قائم ہونے کے ساتھ احکامات الٰہیہ کا مطیع ہوتا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ایسا سماج دیکھنے میں آیا، اگر چہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیما ت کا ایک حصہ آہستہ آہستہ ضرور سماج میں نفوذ کرجاتا تھا، یا کبھی حاکمان وقت کی طرف ان کی جھوٹی عظمتوں کو بتانے کے لئے پیش کیا جاتا تھا ،جیسا کہ آج زیادہ تر حقوقی نظام آسمانی شریعتوں کے اقتباس کا نتیجہ ہیں جنھیں منبع و ماخذ کے بغیر اپنے افکار کے عنوان سے پیش کیاگیا ہے۔

انبیاء علیہم السلام سے مخالفت کے اسباب۔

انبیاء علیہم السلام سے مخالفت کے اسباب میں سے خواہشات نفسانی اور فحشا سے لگائو(۷) کے علاوہ خود خواہی، غرور، اور استکبار ،جیسے عوامل ہیں کہ جو زیادہ تر سماج کے مالدوں اور اثر و نفوذ رکھنے والوں کے درمیان پائے جاتے ہیں(۸) نیز گذشتہ آباو اجداد کی سنتوں کی پیروی بھی مہم عوامل میں سے تھی(۹) ۔اسی طرح دانشمندوں ،حکمرانوں، اور مالداروں کی مخالفت کے اسباب میں سے سماجی مقام اور اقتصادی منابع کو اپنے لئے محفوظ رکھنا تھا(۱۰) اور دوسری طرف لوگوں کا جہالت اور نادانی کی وجہ سے کفر کے سربراہوں کے دھوکے میں آجانا اور اُن کی پیروی کرنا سبب بنتا تھا کہ وہ کیسے اوہام اور باطل عقائد پر ایمان رکھنے سے دست بردار ہوں اور اس ایمان کو قبول کرنے سے پرہیز کریں جسے صرف چند محروم افراد نے قبول کیا ہے جبکہ یہ لوگ معاشرے کے مالداروں اور شرفا کی جانب سے مطرود و مردود بھی کردیئے جاتے تھے اس کے علاوہ سماج پر حاکم فضاکے اثرات کو بے اثر نہیں سمجھا جاسکتا۔(۱۱)

انبیاء علیہم السلام سے ملنے کا طریقہ۔

مخالفین ، انبیاء علیہم السلام کی تبلیغات کو ناکام بنانے کے لئے مختلف طریقے اپناتے تھے ۔

الف: تحقیر و استہزاء :

وہ لوگ پہلے مرحلہ میں پیغمبروں کی شخصیت کی تحقیر کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے(۱۲) تاکہ لوگ ان سے بد ظن ہوجائیں۔

ب:ناروا بہتان:

اور پھر ان پر بہتان باندھتے تھے نیز ان کی طرف ناروا نسبتیں دیتے تھے جیسے سفیہ و احمق اور مجنون کے نام سے پکارتے تھے(۱۳) اور جب کوئی معجزہ پیش کرتے تو جادو گر کا نام دیتے تھے(۱۴) اسی طرح الٰہی پیغاما ت کو اساطیر الاولین کہتے تھے۔(۱۵)

ج: مجادلہ اور مغالطہ :

اورجب انبیاء الٰہی علیہم السلام حکمت اور دلائل کے ذریعہ استدلال پیش کرتے یا جدال احسن کی صورت میں ان لوگوں سے مجادلہ کرتے یا لوگوں کو نصیحت کرتے ،اور کفر و شرک کے ناگوار نتائج سے آگاہ کرتے نیز خدا پرستی کے نیک انجام کے سلسلہ میں خبر دیتے، اور مومنین کو دنیا و آخرت میں سعادت کی خوشخبری دیتے ،تو کفر کے سربراہ، لوگوں کو ایسی باتوں کے سننے سے منع کرتے اور پھر اپنی ضعیف منطق کے ذریعہ اُن کا جواب دیتے، اس کے علاوہ اس امر میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے تھے تا کہ لوگوں کو اُن کی باتوں کے سننے سے روک دیں(۱۶) وہ لوگ اپنی منطق میں اپنے آباء و اجداد اور بزرگان ملت کے دین اور ان کے رسم و رواج کا سہارالیتے(۱۷) اس کے علاوہ اپنی مادی ثروت کی چمک دمک، دکھلاتے اور با ایمان لوگوں کے ضعف اور ناداری کو ان کے عقائد کے باطل ہو نے کو دلیل بناتے(۱۸) اور اپنے لئے یہ بہانہ بنالیتے کہ کیوں خدا نے اپنے رسول کو فرشتوں میں سے انتخاب نہیں کیا؟ یا اُن لوگوں کے ساتھ کیوں کسی فرشتہ کو نہ بھیجا؟ یاکیوںانھیں مالدار نہیں بنایا؟(۱۹) اور کبھی ان کی لجاجت اس حد تک بڑھ جاتی کہ کہتے کہ ہم اسی صورت میں ایمان لا ئیں گے کہ جب ہم پر بھی وحی نازل ہو یا پھر خدا کو ہم دیکھ لیں اور اس کی آواز بلاواسطہ سنیں۔(۲۰)

د۔ دھمکی دینا اور طمع دلانا : ایک دوسرا طریقہ جو انبیاء علیہم السلام کی داستانوں میں مشاہدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ انبیاء علیہم السلام، اور اُن کے اطاعت گذ اروں کو مختلف اذیتوں، شکنجوں ،شہر بدر کرنے، سنگ سار کرنے، اور قتل کرنے کی دھمکی دیتے تھے،(۲۱) اس کے علاوہ مختلف چیزوں کی لالچ دلاتے تھے خصوصاً کثیر دولت کے ذریعہ لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کی اطاعت سے روکتے تھے۔(۲۲)

ھ ۔ خشونت اور قتل: لیکن جب وہ لوگ انبیا ء علیہم السلامی کاصبر و استقامت، اور صلاہت ومتانت کو مشاہدہ کرتے(۲۳) اور دوسری طرف اُن کے چاہنے والوں کے اخلاص کو دیکھتے تواپنی تبلیغات کے ناکام ہونے اور استعمال کئے گئے ہتھکنڈوں کے ناکارہ ہونے کی صورت میں اپنی دھمکیوں کو عملی کر دیتے اور آزاز و اذیت شروع کردیتے جیسا کہ اسی طرح انھوں نے بہت سے انبیاء الٰہی کو قتل کرڈالا(۲۴) اورانسانی معاشرہ کو عظیم نعمتوں اور قوم اور سماج کو صالح رہبروں سے محروم کردیا۔

انسانی معاشروں کی تدبیر میںبعض سنت الٰہی۔

اگر چہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا اصلی ہدف یہ تھا کہ لوگ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں ضروری تعلیمات سے آشنا ہوجائیں اور اُن کی عقل و تجربہ کا ضعف وحی کے ذریعہ ختم ہوجائے یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اُن کے لئے حجت تمام ہوجائے(۲۵) لیکن خدا نے انبیا ء کی بعثت کے دوران اپنی حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اُن کی دعوتوں کو قبول کرنے کے لئے فضا کو ہموار بنایا ، تا کہ اس طرح انسانوں کے تکامل کے لئے راستہ آسان ہوجائے اور چونکہ خدا اور ا سکے رسول سے روگردانی کے عظیم عوامل میںسے لوگوں کی نہایت مشکلات کے ہوتے ہوئے ان سے غفلت اور بے نیازی تھی(۲۶) لہٰذا خدا فضاء کو اس طرح ہمو ار کرتا تھا کہ لوگ ان ضرورت مندں کی طرف متوجہ ہوجائیں اور غرور و تکبر کی سواری سے اُتر جائیں اِسی وجہ سے بلائوں کو نازل کرتا اور انھیں سختیوں سے دوچار کردیتا تا کہ مجبور ہو کر اپنی ناتوانی کا احساس کرلیں اور خدا کی طرف متوجہ ہوجائیں۔(۲۷)

لیکن اس عامل کا اثر ہر ایک پر مؤثر نہ تھا خصوصاً وہ لوگ جو دولت میں سرمست اور سالہا سال لوگوں پر ظلم و ستم کے ذریعہ کثیر مال و دولت جمع کرلی تھی قرآن کی تعبیر کے مطابق ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوچکے تھے وہ ان سب کے باوجود بھی وہ متوجہ نہیں ہوتے(۲۸) اسی طرح خواب غفلت میں گرفتار رہتے، اور اپنی باطل راہ پر قائم رہتے اُن پر انبیاء علیہم السلام کے مواعظ، عذاب کی دھمکیاں ،اور ان کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور جب خدا اُن سے بلائو ںکو ٹال دیتا، اورانھیں نعمتوں سے نوازدیتا ،تو یہ کہتے کہ نعمتوں اور بلاوں کا آنا جانا زندگی کا ایک لازمہ ہے اور ایسا تو ہوتا

رہتا ہے نیز ایسا تو گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی ہوا ہے(۲۹) اور حسب سابق مال کو جمع کرنے اور ظلم و ستم میں مشغول ہوجاتے، حالانکہ غافل تھے کہ نعمتوںکی افزائش دنیا و آخرت میں بدبخت ہونے کے لئے ان کے واسطے ایک حیلہ ہے(۳۰) ۔

بہر حال جب بھی انبیاء الٰہی علیہم السلام کے پیروکار تعداد کے اعتبار سے اس حد تک ہو جاتے کہ وہ ایک مستقل جامعہ تشکیل دے سکتے اور اُن میں دفاع کی قوت آجاتی تو انھیں دشمنان خدا سے جہاد کے لئے حکم دے دیا جاتا تھا(۳۱) اور ان کے ہاتھوں جماعت کفار پر عذاب الٰہی نازل ہوتا تھا(۳۲) وگرنہ مومنین انبیاء علیہم السلام کے حکم سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے اور پھر اُن پر بازگشت اور ایمان لانے کی ناامیدی کے بعد عذاب نازل ہو جاتا تھا(۳۳) یہ ہے وہ سنت الٰہی جو کبھی بھی نہیں بدلتی۔(۳۴)

سوالات

١۔ انبیا ء علیہم السلام کی دعوت کے مقابل میں لوگوں کا رد عمل کیا تھا؟

٢۔ انبیاء علیہم السام سے مخالفت کے اسباب کیا ہیں؟

٣۔ انبیاء علیہم السلام کے مخالفین کیسے کیسے طریقے اپناتے تھے؟

٤۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور ان کے مقابل میں لوگوں کی مخالفت کی صورت میں سنتِ الٰہی کیا ہوتی تھی؟

____________________

(١) سورۂ نحل۔ آیت/ ٣٦، سورہ انبیاء ۔آیت /٢٥، سورۂ فصلت ۔آیت/ ١٤، سورۂ احقاف۔ آیت/ ٢١

(٢) سورۂ ابراہیم۔ آیت/ ٩، سورۂ مومنون ۔آیت/ ٤٤

(٣) سورۂ سبا۔ آیت/ ٣٤،

(٤) سورۂ غافر ۔آیت/ ٨٣، سورۂ قصص۔ آیت /٧٨، سورہ زمر۔ آیت /٤٩

(٥)سورہ احزاب۔ آیت/ ٦٧، سورہ سبا۔ آیت/ ٣١/٣٣

(٦) سورۂ ہود۔ آیت/ ٤/٢٧/٣١

(۷)سورۂ مائدہ۔آیت/٧٠

(۸)سورۂ غافر آیت/٥، سورۂ اعراف آیت/ ٧٦

(۹)سورۂ بقرآیت/ ١٧٠، سورۂ مائدہ آیت/١٠٤، سورہ یو نس آیت/ ٧٨، سورہ انبیاء آیت/٥٣، سورۂ شعرائآیت' ٧٤، سورۂ لقما ن/ آیت ٢١،سورۂ زخرف آیت/٢٢،٢٣.

(۱۰)سورۂ ہودآیت /٨٤، ٨٦، سورۂ قصص آیت /٧٦،٧٩، سورہ تو بہ آیت/ ٣٤.

(۱۱)سورہ ابرا ہیم /آیت ٢١، سورۂ فاطرآیت/٤٧، سورۂ ہود آیت/٢٧، سورۂ شعراء آیت/٣٤.

(۱۲) سورۂ حجر۔ آیت ١١، یس آیت ٣٠، زخرف آیت٧، مطففین آیت ٢٩،٣٢.

(۱۳)سورۂ اعراف آیت ٦٦، سورۂ بقرہ آیت ١٣، سورۂ مومنون آیت ٢٥.

(۱۴)سورۂ ذاریات آیت٣٩، ٥٢،٥٣.

(۱۵)سورۂ انعام آیت ٢٥، انفا ل آ یتٍ ٣١، سورۂ نحل آیت ٢٤، مومنون ٨٣، نمل ٦٨، قلم ١٥، مطففین.١٣

(۱۶)سورۂ نوح ٧، سورۂ فصلت ٢، انعام ١١٢، ،١٢١، سورۂ غافر ٥، ٣٥، اعراف ٧٠، ٧١، کہف ٥٦.

(۱۷)سورۂ بقرہ ١٧٠، مائدہ ١٠٤، اعراف٢٨، انبیائ٥٣، یونس ٧٨ لقمان ٢١.

(۱۸)سورۂ یونس آیت/٨٨،سباء آیت/٣٥،' قلم آیت/ ١٤،مریم آیت /٧٧، مدثر آیت/ ١٢، مزمل آیت/١١، احقاف آیت١١

(۱۹)سورۂ انعام آیت/٧،٩،اسرائ/ ٩٠،٩٥، فرقان/ ٨٤

(۲۰)سورۂ بقرہ آیت /١١٨، انعام آیت/١٢٤، نساء آیت/١٥٣

(۲۱)سورۂ ابراہیم آیت/١٣، ہود آیت/٩١، مریم آیت/ ٤٦، یس آیت /١٨، غافرآیت/٢٦

(۲۲)انفال آ)یت/ ٣٦

(۲۳)سورۂ ابراہیم آیت/١٢

(۲۴)سورۂ بقرہ آیت/٦١،٨٧،٩١، آل عمران آیت/٢١١، ١١٢، ١٨١، مائدہ آیت/٧٠، نساء آیت/١٥٥

(۲۵)سورۂ نساء آیت/٦٥، طہ آیت/١٣٤

(۲۶) سورۂ علق آیت/٦

(۲۷)سورۂ انعام آیت/٤٢،اعراف آیت /٩٤

(۲۸)سورۂ انعام آیت /٤٣، سورۂ مومنون آیت/ ٧٦

(۲۹)سورۂ اعراف آیت /١٨٣، ٩٥

(۳۰)سورۂ اعراف آیت/١٩٣،١٨٢، آل عمران آیت/ ١٧٨، توبہ آیت/٥٥،٥٨، مومنون آیت/ ٥٤،٥٦

(۳۱)سورۂ آل عمران آیت /١٤٦

(۳۲)سورۂ عنکبوت آیت/٤١٠. اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں ذکر ہوا ہے

(۳۳)سورۂ آل عمران آیت/١٤٦

(۳۴)سورۂ فاطر آیت/٤٣، غافر آیت/٨٥، اسراء آیت/٧٧

اکتیسواں درس

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مقدمہ

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اثبات

مقدمہ

ہزاروںانبیاء علیہم السلام، مختلف ادوار میں اورمختلف سرزمینوں پر مبعوث ہوئے اور انسانوں کی تربیت و ہدایت میں اپنا ممتاز کردار پیش کیا، انسانی معاشروں میں درخشاں آثار چھوڑے ،اور ان میں سے ہر ایک نے انسانوںکی ایک جماعت کی تربیت کی، اور بقیہ انساوںپرغیر مستقیم اثر چھوڑا، بلکہ اُن میں سے بعض توحیدی اور ایک عادلانہ سماج قائم کرنے اور اُس کی رہبری کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

انبیاء الٰہی کے درمیان حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام، اور حضرت مو سی علیہ السلام نے خدا کی جانب سے زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے اخلاقی وظائف اور فردی و اجتماعی احکام و قوانین پر مشتمل کتاب ،بشر کی دسترس میں قرار دی، لیکن یہ کتابیں یا تو زمانہ کے گذرنے کے ساتھ بالکل محو ہوگئیں یا اُن میں لفظی اورمعنوی تحریفیں کی گئیں، اور اس طرح آسمانی شریعتیں مسخ ہوگئیں جب کہ جناب موسی علیہ السلام کی کتاب توریت میں بے شمار تحریفیں ہوئیں اور اب حضرت عیسی علیہ السلام کی انجیل کے نام سے کوئی کتاب باقی نہیں رہی، بلکہ آج جو کچھ ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد اُن کے حواریوں کے نوشتہ جات ہیں، جنھیں کتاب مقدس کا نام دیا گیا ہے۔

اگر کوئی منصف انسان کتاب توریت اور انجیل کا مطالعہ کرے تو اُسے بخوبی معلوم ہو جائے گا، کہ یہ کتابیں حضرت موسی علیہ السلام اور جناب عیسی علیہ السلام کی نہیں ہیں توریت کا حال تو یہ ہے کہ وہ خدا کو ایک انسان کی شکل میں بیان کرنے کے علاوہ خدا اور اس کے رسولوں کی طرف شرمناک نسبتیں دیتی ہے ،کہ خدا بہت سے امور سے بے خبر ہے(۱) اور بارہا جس عمل کو انجام دیتا ہے اس سے پشیمان ہوجاتا ہے(۲) وہ اپنے بندوں میں سے ایک بندہ (حضرت یعقوب علیہ السلام) سے کشتی لڑتا ہے لیکن اُسے مغلوب نہیں کر پاتا اور جب تھک جاتا ہے تو اُس سے التماس کرتا ہے کہ اُسے چھوڑ دے ، تا کہ اس کی مخلوقات اپنے خدا کو اِس حال میں مشاہدہ نہ کرے،(۳) اسی کتاب میں جناب دائود علیہ السلام کی طرف زنا محصنہ کی نسبت دی ہے(۴) اور جناب لوط علیہ السلام کی طرف شراب نوشی اور محارم سے زنا کی نسبت بھی دی گئی ہے،(۵) اس کے علاوہ کتاب توریت کے لانیوالے حضرت موسیٰ کی موت کی شرح بھی بیان کرتی ہے کہ وہ کیسے اور کہاں انتقال کر گئے(٦)

کیا صرف یہی نکات ہمارے سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہیں کہ یہ توریت حضرت موسی علیہ السلام کی توریت نہیں ہے؟ لیکن انجیل کا حال تو توریت سے بھی برُا ہے ا س لئے کہ اولاً جو کتاب حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی یہ وہی انجیل نہیں ہے اور خود مسیحیوں نے بھی کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا ہے،

بلکہ آج جو کچھ بھی اُن کے حواریوں کے نوشتہ جات ہیں یہ کتا ب شراب نوشی کی تجویز کے علاوہ اُسے بنانے کو حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں شمار کرتی ہے(۷) خلاصہ یہ ہے کہِ ان دو

اولوالعزم رسولوں پر جو کچھ بھی نازل ہوا تحریف کا شکار ہوگیا، اور اب اس میں لوگوں کی ہدایت کی صلاحیت باقی نہیں رہی، لیکن یہ تحریفیں کیسے ہوئیں اس کی بڑی مفصل داستان ہے جسے یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔(۸)

ہاں! حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے چھ سو سال بعد جب جہل اور ظلم و بربریت نے دنیا کے گوشہ گوشہ کو تاریک بنارکھا تھا، اور ہدایت کے چراغ خاموش ہوچکے تھے، تو خداوند متعال نے اس دور کے پست ترین اور تاریک ترین سرزمین پر اپنے آخری رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا ،تا کہ ہمیشہ کے لئے چراغ وحی کو فروزاں بنادے ،اور نسخ و تحریف سے محفوظ جاودانی کتاب کو بشر کے ہاتھوں میں تھا دے اور اس طرح لوگوں کو حقیقی معارف، آسمانی حکمتیں اور الٰہی قوانین کی تعلیم سے آراستہ کردے نیز دنیا و آخرت میں سعادت کی راہ کی طرف گامزن کر دے ۔(۹)

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے دور کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: '' خدا نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس وقت مبعوث کیا جب گذشتہ انبیاء علیہ السلام کی بعثتوں سے کافی فاصلہ واقع ہوچکا تھا، لوگ گہرے خواب میں پڑے سورہے تھے، دنیا کے گوشہ گوشہ میںفتون کے شعلے بھڑک رہے تھے، امور پراکندہ تھے، جنگ کے شعلہ بھڑک رہے تھے، گناہ اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، دھوکہ دھڑی اور حیلہ گری آشکار تھی، حیا ت بشر کا تناور درخت مرجھایا ہوا تھا اور اس کے سرسبز ہونے کی کوئی اُمید بھی نہ تھی، پانی کی قلت، مشعل ہدایت خاموش ، گمراہی کے پرچم لہرا رہے تھے، بشر کو بد بختیوں نے گھیر رکھا تھا، اور اپنا کریہہ چہرہ نمایاں کردیا تھا، ایسی گمراہی و جہالت اور بد اخلاقی کی وجہ سے فتنہ کے سر اٹھانے کا ہر دم خطرہ تھا، لوگوں پر ناامیدی، ڈر، اور نا امنی کے تاریک بادل چھا ئے ہو ئے تھے، اور اپنے لئے شمشیر کے علاوہ کسی اور چیز کو پناہگاہ نہیں سمجھتے تھے''۔(۱۰)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ظہورکے بعد بشر کے لئے خدا شناسی، حقیقت جوئی، نبوت کے سلسلہ میں جستجو تحقیق، اور دین اسلام کی حقانیت جیسے اہم موضوعات تصور کئے جاتے رہے ہیں، ان موضوعات کے اثبات کے ساتھ نسخ و تحریف سے محفوظ قرآن کریم کی حقانیت اور اس کا کتاب الھی و آسمانی ہونا نیز تا قیامت بشر کے لئے ضمانت شدہ راستہ ،تمام صحیح عقائد کے اثبات اورتمام احکامات کا تعارف رہتی دنیا تک کے لئے کی گئی ہے ، جس کے ذریعہ تمام معارف ہستی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اثبات۔

جیسا کہ ہم نے ستائسیویں درس میں بیان کیا کہ کسی بھی نبی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے تین راستے ہیں

۔ ١۔پہلا راستہ، اس نبی کی گذشتہ زندگی سے آشنائی اور حالات و قرائن سے مدد لینا۔

٢۔ دوسرا راستہ، گذشتہ نبی کی پیشینگوئی۔

٣۔ تیسرا راستہ ، انبیا ء علیہم السلام کا معجزہ دکھانا ہے۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے اثبات کے لئے یہ تینوں راستہ موجود تھے مکہ والوں نے آپ کی چالیس سالہ زندگی کو نزدیک سے مشاہدہ کیا تھا اور بخوبی اُنھیں معلوم تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں کوئی ضعیف پہلو نہیں ہے اور اِس حد تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سچا اور امانتدار سمجھتے تھے ،کہ آپ کو

امین کے لقب سے یاد کرتے تھے، لہٰذا ایسے شخص کی طرف جھوٹ بولنے اورجھوٹے دعویٰ کرنے کی نسبت نہیں دی جاتی تھی ،اس کے علاوہ گذشتہ نبیوں نے آپ کے ظہور کی بشارت دی تھی(۱۱) اور اہل کتاب کا ایک گروہ واضح نشانیوں اور علامات کے ساتھ انتظار میں تھا۔(۱۲) یہاں تک کہ یہ لوگ مشرکین عرب سے کہا کرتے تھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ایک رسول مبعوث ہونے والا ہے کہ جس کی خبر گذشتہ انبیا ء علیہم السلام نے دی ہے اور وہ ادیان توحیدی کی تصدیق بھی کرے گا۔(۱۳) اسی وجہ سے یہودو نصاریٰ کے بعض علما ء اِنھیں علامتوں کے پیش نظر آپ پر ایمان لائے(۱۴) اگر چہ ان میں سے بعض نے نفسا نی اور شیطانی خواہشات کی وجہ سے اسلام کو قبول کرنے سے روگردانی کرلی، قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے:

( اَوَلَم یَکُن لَّهُم آیَةً اَن یَعلَمَهُ عُلمَائُ بَنِ اِسرَائِیلَ ) (۱۵)

کیا اُن کے لئے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں۔

جس طرح علماء بنی اسرائیل کی طرف سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلہ میں خبر دینا ،اور گذشتہ نبیوں کی پیشینگوئیاں، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر اہل کتاب کے لئے روشن گواہیاں تھیں اسی طرح دوسروں کے لئے گذشتہ نبیوں کی حقانیت نیز خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقانیت پر حجت تھی، اس لئے کہ وہ لوگ ان پیشنگوئیوں کی صداقت اور علامتوں کو بخوبی مشاہدہ کرتے تھے اور اپنی عقل کی بنیاد پر اچھی طرح تشخیص بھی دیتے تھے۔

اور سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کی توریت و انجیل میں ایسی بشارتوں کو تحریف اور محو کردینے کی تمام سعی و کوشش کے باوجود اس میں ایسے نکات ا ب بھی موجود ہیں جو حق کے طلبگاروں پر حجت تمام کر دیتے ہیں، جیسا کہ علما یہود و نصاریٰ میں سے ایک کثیر تعداد،انھیں نکات کے پیش نظر حق طلبی کی وجہ سے دین اسلام پر ایمان لاچکی ہے۔(۱۶)

اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بے شمار معجزے پیش کئے جو احادیث کی صحیح کتابوں میں تواتر کے ساتھ نیز تاریخ کے دامن میں آج محفوظ ہیں،(۱۷) لیکن آخری رسول اور جاودانی دین کو پہچنوانے میں عنایت الٰہی کا تقاضا یہ تھا، کہ ان معجزات کے علاوہ جو اتمام حجت کردیتے ہیں، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک ایسا ابدی معجزہ عطا کر ے کہ جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے حجت رہے، ہاں وہ قرآن ہے، اسی وجہ سے آئندہ درس میں ہم اس کتاب کی اعجازی شان بیان کریں گے۔

سوالات

١۔ سابق رسولوں کی کتابوں کا حال بیان کریں؟

٢۔ توریت میں موجود تحریفوں میں سے چند تحریفوں کو ذکر کریں؟

٣۔ موجودہ انجیل کے غیر معتبر ہونے کی وضاحت کریں؟

٤۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی اہمیت کو بیان کریں؟

٥۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کو ثابت کرنے والے راستہ کو بیان کریں؟

____________________

(١)توریت سفر پیدائش۔ تیسرا باب شمارہ ٨۔١٢

(٢)توریت، سفر پیدائش۔ چھٹا باب شمارہ ٦۔

(٣)توریت، سفر پیدائش ۔٣٢٠ باب شمارہ ٢٤۔٣٢.

(٤) عہدقدیم، سموئیل کی دوسری کتاب گیارہواں باب۔

(٥) توریت سفر پیدائش انیسواں باب شمارہ ٣٠۔٣٨۔

(٦) تورات سفر تشنیہ ۔باب ٣٤

(۷)انجیل، یوحنا باب سوم.

(۸)اظہار الحق، مصنف رحمة اللہ ہندی، الہدیٰ الی دین المصطفیٰ مصنف علامہ بلاغی، راہ سعات، مصنف علامہ شعرانی.

(۹)سورۂ جمعہ ٣٢.

(۱۰)نہج البلاغہ ۔خطبہ ١٨٧

(۱۱)سورۂ صف آیت/٦

(۱۲)سورۂ اعراف۔ آیت /١٥٧،بقرہ آیت/١٤٦، سورہ انعام آیت/٢٠

(۱۳)سورۂ بقرہ۔ آیت /٨٩

(۱۴)سورۂ مائدہ آیت /٨٣، احقاف آیت/١٠

(۱۵) سورہ شعراء ۔ آیت /١٩٧

(۱۶)ان علماء میں مرزا محمد رضا (جنکا شمار تہران کے عظیم یہودی دانشمندوں میں ہوتا ہے) اور ''اقامة الشہود فی رد الیہود'' کے مصنف بھی ہیں، یزد کے علماء یہود میں سے حاج بابا قزوینی صاحب کتاب ''محضر الشہود فی رد الیہود'' بھی ہیں۔ مسیحیوں کے مطابق اسقف پروفیسر عبد الاحد دائود صاحب کتاب ''محمد در توریت و انجیل'' ہیں۔

(۱۷)بحار الانوار ج٢٧ ص٢٢٥ اتک ١٨، اور تمام حدیث و تاریخ کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں