درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48357
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48357 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

چونتیسواں درس

اسلام کا جہانی اور جاودانی ہونا

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

مقدمہ

اسلام کا جہانی ہونا

اسلام کے جہانی ہونے پر قرآن کے دلائل

اسلام کا جاودانی ہونا

چند شبہات کا حل

مقدمہ

ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا اور اُن کے پیغامات پر یقین کرنا لازم ہے، لہٰذا انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کا انکار یا اُن کے پیغامات میں سے کسی پیغام کا منکر ہونا ربوبیت تشریعی کے انکار اور شیطان کے کفر کے مانند ہے۔

لہٰذا آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے ثابت ہوجانے کے بعد آپ پر اور اُن سبھی احکام پر ایمان لانا کہ جو خدا کی طرف سے نازل ہوئے ہیں ضروری اور واجب ہے،لیکن کسی بھی نبی اوراُس کی کتاب پر ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُس کی شریعت پر عمل کرنا بھی ضروری ہو، جیسا کہ مسلمین تمام انبیاء علیہم السلام اور اُن کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ گذشتہ شریعتوں پر عمل نہیں کرسکتے، جس طرح سے کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا کہ ہر اُمت پر اُسی دور کے نبی کی شریعت پر عمل کرنا واجب ہے(۱) لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت پر عمل کرنا تمام انسانوں پراُسی وقت واجب ہوگا

کہ جب آپ کی رسالت کسی خاص قوم سے مخصوص نہ ہو اور آپ کے بعد کسی دوسرے نبی کی بعثت نہ ہوئی ہو کہ جسکی وجہ سے شریعت اسلام کے منسوخ ہونے کا سوال پیدا ہو ۔

اِسی وجہ سے اس مسئلہ پر بحث کرنا ضروری ہے، کہ کیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت جہانی اور جاودانی ہے یا پھر کسی خاص قوم اور زمانے سے مخصوص ہے؟

اِس مسئلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اِسے صرف عقلی بنیاد پر حل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ نقلی علوم اور تاریخ میں تحقیق و جستجو کر نی ہو گی یعنی اس کو حل کرنے کے لئے معتبر اسناد کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

اور جس کے لئے قرآن کریم کی حقانیت اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و عصمت آشکار ہوچکی ہو اُس کے لئے کتاب و سنت سے زیادہ معتبر مدرک کچھ اور قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

اسلام کا جہانی ہونا۔

اسلام کا جہانی ہونا اور کسی خاص قوم سے مخصوص نہ ہونا اس دین کی ضروریات میں سے ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ جو اسلام کو نہیں مانتے اُن لوگوں کوبھی بخوبی معلوم ہے کہ اسلام جہانی ہے اورکسی خاص سرزمین سے مخصوص نہیں ہے۔

اس کے علاوہ تایخی شواہد بے شمار ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں ،کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیصر روم، بادشاہ ایران، مصر و حبشہ کے حاکم ،اور شامات کے فرمانروا ،نیز عر ب کے قبیلوں کے رئیسوں کے نام، خاص خطوط تحریر فرمائے ،اور اُنھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے ،اُسے قبول نہ کرنے کی صورت میں عذاب سے ڈرایا،(۲) لہذا اگر دعوت اسلام عمومی نہ ہوتی تو دوسر ی سر زمینوں کے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے لئے خطوط روانہ نہ کرتے۔

لہٰذا کوئی بھی شخص حقانیتِ اسلام پر ایمان اور اُس کی شریعت پر عمل کرنے میں فرق کا قائل نہیں ہوسکتا، اور کوئی بھی اُس شریعت پر عمل کرنے اور اُس کی پیروی کرنے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

اسلام کے جہانی ہونے پر قرآنی دلائل۔

جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا کہ ایسے مطالب کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل قرآن کریم ہے کہ جس کی حقانیت اور معتبر ہونا گذشتہ دروس میںثابت ہوچکا ہے، لہٰذا اگر کوئی ایک فرد بھی قرآن کا اجمالی مطالعہ کر ے تو اسے بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ اس کی دعوت جہانی ہے، اورکسی خاص قوم یا سرزمین سے مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ بہت سی آیات میں(یَٰأَ یُّہَا النَّاسُ ) اے لوگو!(۳) یا پھر (یَا بَنِی ئَ ا دَمَ)اے اولاد آدم(۴) جیسے عناوین کے ذریعہ لوگوں کو خطاب کیا ہے، اور اپنی ہدایت کو (اَلنَّاس وَالعَالَمِینَ)تمام انسانوں '(۵)(۶) کے لئے قرار دیا ہے، اس کے علاوہ بہت سی آیات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کو تمام انسانوں(اَلنَّاس وَ العَالَمِینَ)(۷)(۸) کے لئے مقرر کیا ہے اورایک آیت میں اس کی دعوت کو ہر اس شخص سے مخصوص ، اور شامل ہوجانا ہے جو اس سے باخبر ہوجائے(۹) ا سی طرح دوسرے مقامات پر ادیان آسمانی کے ماننے والوں کو اہل کتاب کے عنوان سے خطاب کیا ہے(۱۰) اور انھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کو قبول کرنے کی طرف دعوت دی ہے، نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن کے نزول کے ھدف کا دوسرے ادیان پر اسلام کی کامیابی کو قرار دیا ہے ۔(۱۱)

اِن آیات کومد نظر رکھتے ہوئے قرآن کی دعوت کے عمومی ہونے اور اسلام کے جہانی ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔

اسلام کا جاودانی ہونا۔

گذشتہ آیات جس طرح عمومی کلمات ''بنی آدم، العالمین، الناس'' کے استعمال اور غیر عرب قوموں کو خطاب کرنے کے علاوہ بقیہ آسمانی ادیان کے ماننے والوں کو مخاطب کرکے اسلام کے جہانی ہونے کو ثابت کرتے ہیں، اسی طرح زمان کو مطلق قرار دیتے ہوئے کسی خاص زمانہ سے مخصوص ہونے کی نفی کر تی ہے بلکہ اس آیت کی تعبیر(لیظہرہ علی الد ین)(۱۲) کسی بھی قسم کے شبہ کو زائل کردیتی ہے، اسی سورۂ فصلت کی ( ٤٢) آیت کے ذریعہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ جس میں خدا فرماتا ہے :( وَاِنَّهُ الکِتَٰب ٭عَزِ یز لَا یَأ تِیهِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیهِ وَلَامِن خَلفِهِ تَنزِیل مَن حَکِیمٍ حَمِیدٍ ) اور اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ قرآن کبھی بھی مقام اعتبار سے ساقط نہیں ہوسکتا، نیز یہ آیت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کسی دوسرے نبی اور اس کی شریعت کے ذریعہ دین اسلام کے منسوخ ہونے کو بھی رد کرتی ہے ،اس کے علاوہ اسی طلب کے تحت بے شمار روایتیں بھی وارد ہوئیں ہیں :

(حلال محمد حلال الی یوم القیامة، و حرامه حرام الی یوم القیامة (۱۳)

جس طرح سے اسلام جہانی ہے اسی طرح سے جاودانی بھی ہے جو دین کی ضروریات میں سے ہونے کے علاوہ کسی بھی دلیل سے بے نیاز ہے۔

چند شبہات کا حل۔

اسلام کے دشمن جنھوں نے اسلام کو نابود کرنے کے لئے اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا ،اور برابر اُس سے بر سر یکار رہے ،اور ہمیشہ اس کے خلاف اپنی مہم جاری رکھی ،انہوں نے یہ شبہہ ظاہر کیا ہے جن کہ ذریعے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام عربوں سے مخصوص ہے اور بقیہ انسانوں کا اس سے کوئی سرو کار نہیں ۔

انھوں نے اپنے اعتراض کی تائید میں یہ آیت پیش کی ہے کہ جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواپنے رشتہ داروں کو اکٹھا کرکے انھیں اسلام کی طرف دعوت دینے کا حکم دیتی ہے، اسی طرح سورۂ مائدہ کی ٦٩، آیت کو بھی اپنی سند بناتے ہیں کہ جس میں خدا یہود و نصاریٰ اور صائیین کی طرف اشارہ کرنے کے بعد سعادت کے لئے ایمان کو معیار قرار دیتا ہے اور سعادت کے لئے اسلام کو قبول کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا، اس کے علاوہ اسلامی فقہ میں اہل کتاب کا شمار مشرکین میںنہیں ہے بلکہ جزیہ کوادا کرنے کے ذریعہ دامن اسلام میں ان کے مال و جان محفوظ ہیں اور وہ اپنی شریعت کے مطابق اعمال انجام دے سکتے ہیں، لہٰذا اس طرح انھیں اجازت دینا گویا اُن ادیان کی حقانیت کو تسلیم کرنا ہے۔

اس شبہ کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ آیت جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ د اورں اور اہل مکہ کا تذکرہ ہے، در اصل وہ آیت آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کے پہلے مرحلہ کو بیان کرنے والی ہے اور اس کے بعد اہل مکہ اور اس کے اطراف میں رہنے والوںاور اسی طرح پھیلتے پھیلتے تمام انسانوں کو اپنے دائرے میں شامل کرلیتی ہے، لہٰذا ایسی آیت کو اُن آیتوں کے لئے (مخصوص کرنے والی )نہیں مان سکتے کہ جو اسلام کے جہانی ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اس لئے کہ یہ آیات عمومی طور پر لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہیں اور انھیں تخصیص سے کوئی سر و کار نہیں ہے۔

لیکن سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تنہا اسی دین یا فلاں دین سے منسوب ہونا سعادت حقیقی کے حصول کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ سعادت کے لئے ایمان واقعی اور ان وظائف پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اور اُن دلائل کی بنیاد پر جو اسلام کے جہانی اور جاودانی ہونے کو ثابت کرتے ہیں وہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ظہور کے بعد ان قوانین پرعمل ضروری ہے جو آپ پر نازل ہوئے۔

لیکن اہل کتاب کا مشرکین کے مقابلہ میں ممتاز ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ اسلام کو قبول کرنے اور اُس کے قوانین پر عمل کرنے سے معاف کردئے گئے ہیں، بلکہ ایک دنیوی مصلحت ہے جو اُن کے لئے رکھی گئی ہے، بلکہ شیعوں کے اعتقاد کے مطابق یہ چھوٹ بھی ایک معین مدت کے لئے ہے کہ جب امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور ہوگا تو اُن سے یہ اختیار بھی چھین لیا جائے گا اور ان سے بھی اسی طرح کا برتاؤ ہو گا کہ جس طرح مشرکین سے ہوا ہے، اس مطلب کو اس جملہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے( لیظهره علی الدین کله )

سوالات

١۔کس صورت میں تمام انسانوں پر اسلام کی پیروی کرنا واجب ہے؟

٢۔ اسلام کے جہانی اور جاودانی ہونے پرقرآنی دلائل کیا ہیں؟

٣۔ اس مطلب کے لئے ان دلائل کے علاوہ کیا کوئی اور دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں؟

٤۔ اس امر کی وضاحت پیش کریں کہ وہ آیت جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے رشتہ داروں کو دعوت اسلام کا حکم دیتی ہے کیا وہ آیت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کو ان کے رشتہ داروں سے مخصوص ہونے پر دلالت کرتی ہے۔؟

٥۔ اس مطلب کی وضاحت کریں کہ کیا سورۂ مائدہ کی آیت (٦٩) دوسری امتوں کا اسلام کی پیروی سے معاف ہونے پردلالت کرتی ہے؟

٦۔ کیا اہل کتاب کا اپنی شریعت کے مطابق عمل کرنا شریعت اسلام کے احکام کی پیروی سے معذور ہونے کی دلیل ہے؟

____________________

(١)اسی کتاب کے انتیسویں درس کی کی طرف رجوع کیا جائے.

(۲) یہ خطوط تاریخ میں درج ہیں جنھیں ''مکاتیب الرسول'' نامی کتاب میںجمع کردیا گیا ہے۔

(۳)سورۂ بقرہ ۔آیت٢١، نسائ۔ آیت ١٧٤، فاطر آیت ١٥

(۴)سورۂ اعراف۔ آیت ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٣١، ٣٥، سورہ یس ۔ آیت٦٠.

(۵)سورۂ بقرہ۔ ١٨٥، ١٨٧، سورہ آل عمران۔ ١٣٨، ابراہیم۔١، ٥٢، جاثیہ ۔٢٠، زمر۔ ٤١، نحل۔ ٤٤، کہف۔٥٤، حشر ۔٢١.

(۶) سورۂ انعام ۔٩٠، یوسف ۔١٠٤، ص۔٨٧ ،تکویر ۔٢٧، قلم۔٥٢

(۷)سورۂ نسائ۔ ٧٩، حج۔ ٤٩، سبائ۔ ٢٨ (۸)سورۂ انبیائ۔١٠٧، فرقان۔١

(۹) انعام ۔١٩ (۱۰) سورۂ آل عمران۔ ٦٥، ٧٠، ٧١، ٩٨، ٩٩، ،١١٠، مائدہ۔ ١٥، ١٩

(۱۱) سورۂ توبہ ۔٣٣، فتح ۔٣٨، صف۔٩

(۱۲)سورۂ توبہ ۔٣٣،' فتح ۔٣٨، صف۔٩

(۱۳) کافی ،ج،١،ص ٥٧

پینتیسواں درس

خاتمیت

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

مقدمہ

خاتمیت پر قرآنی دلائل

خاتمیت پر روائی دلائل

ختم نبوت کا راز

چند شبہات کے جوابات

مقدمہ

١۔ دین اسلام کے جاودانی ہونے کی وجہ سے شریعت اسلام کا کسی دوسرے نبی کی بعثت سے منسوخ ہونے کا احتمال ختم ہوجاتا ہے، لیکن یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ کوئی ایسا نبی مبعوث ہو جوخود دین اسلام کی ترویج کرے اور اس کا مبلغ ہو،جیسا کہ گذشتہ انبیاء علیہم السلام میں سے بہت سے نبی ایسی ہی ذمہ داریوں کے پابند تھے یہ انبیاء علیہم السلام خواہ صاحب شریعت نبی کے زمانہ میں رہے ہوں جیسے جناب لوط علیہ السلام ، صاحب شریعت پیغمبر جناب ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں تھے اور اُن کی شریعت کے تابع تھے ،یا بنی اسرائیل کے درمیان مبعوث ہونے والے اکثر انبیاء علیہم السلام صاحب شریعت نبی کے بعد مبعوث ہوئے اور ان کی شریعت کے تابع تھے اِسی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے لئے ایک جداگانہ بحث کرنا ضروری ہے تا کہ ایسے تو ہمات ختم ہوجائیں۔

خاتمیت پر قرآنی د لائل۔

اسلام کے ضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تمام ہوگیا ہے یعنی (آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم ہیں) اور آپ کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی نبی مبعوث ہونے والا ہے یہاں تک کہ غیر مسلموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ اسلام کے اعتقادات میں سے ہے اور اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اسی وجہ سے دوسری ضروریات کی طرح اِس کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس مطلب کو قرآن اور متواتر دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کے قرآن کریم فرماتا ہے:

( مَاکَانَ مُحَمَّد اٰبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَلَکِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبیِیّنَ ) (۱)

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم مردوں میںسے کسی کے باپ نہیں ہیں بلک اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔

یہ آیت واضح انداز میں آپ کے خاتم ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن اسلام کے دشمنوں نے اس آیت پر دو اعتراض کئے ہیں۔

(١) پہلا اعتراض یہ ہے کہ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اس (کلمہ خاتم) کے وہی معنی مرادہیں جو مشہورہیں نیز یہ آیت سلسلہ انبیاء علیہم السلام کے ختم ہونے کی خبر بھی دے رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔

دوسرا ا عترض یہ ہے کہ ،بالفرض اگر ہم تسلیم کرلیں کہ مفاد آیت وہی ہے جو آپ نے بیان کیاہے،یعنی آنحضرت سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں ،لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت کے ساتھ ، رسا لت کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے ،

پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ خاتم کے معنی ختم کرنے اور تمام کرنے والے کے ہیں اور خاتم کو اسی وجہ سے انگوٹھی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے لگنے کے بعد تحریر مکمل ہو جاتی ہے

دوسرے اعترض کا جواب یہ ہے کہ جو بھی نمائندہ خدا مقام رسالت سے سرفراز ہو وہ مقام نبوت کابھی مالک ہے، لہٰذا انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کے ختم ہوتے ہی رسولوں کا سلسلہ بھی تمام ہوجاتا ہے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا کہ(۲) اگر چہ مفہوم نبی رسول سے اعم نہیں ہے لیکن یہاںپر خود نبی رسول سے عام ہے۔

خاتمیت پر روائی دلائل۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے سلسلہ میں سیکڑوں روا یات موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت اور تاکید کرتی ہیں جیسے کہ حدیث منزلت جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوئی ہے اُسے شیعہ اور سنی علماء نے تواتر کے ساتھ نقل کی ہیں جس کی وجہ سے اُس کی صحت اور مضمون میں کسی بھی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا اور وہ روایت یہ ہے۔

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے خارج ہونا چاہا تو حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کی دیکھ بھال اور اُن کے امور کی انجام د ھی کے لئے اپنا نائب بناکر مدینہ چھوڑ گئے ،لیکن حضرت علی علیہ السلام اس فیض الٰہی سے محروم ہو نے کے سبب غمگین و رنجیدہ خاطر تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت رسول اکرا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ سے فرمایا ۔

''اَمَا تَرضَیٰ اَن تَکُونَ مِنِّ بِمَنزِلَهِ هَارُونَ مِن مُوسیٰ اِلَّا اَنَّهُ لَا نَبَِّ بَعدِ (۳)

کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام سے تھی؟ اور ا سی جملہ کے فوراً بعد فرمایا :

(اِلَّا اَنَّهُ لَانَبِّيَ بَعدِ )

بس فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یہ جملہ آپ کی خاتمیت کے سلسلہ میں بھی ہر قسم کے شبہ کو دفع کردیتا ہے۔

ایک دوسری روایت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آپ فرماتے ہیں:

(ایُّها النَّاس اِنَّهُ لَا نَبَِّ بَعدِ وَلَا اُمَّةَ بَعدَکُم ):(۴)

اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں آئے گی۔

اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :

(اَیُّهَا النَّاسُ اِنَّهُ لَا نَبَِّ بَعدِ وَلَا سُنَّةَ بَعدَ سُنَّتِی )(۵)

اے لوگو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میری سنت کے بعد کوئی سنت نہیں ہوگی

ختم نبوت کا راز۔

جیسا کہ ہم نے اِس مطلب کی طرف گذشتہ صفحات پر بھی ا شار ہ کیا ہے کہ پے در پے نبیوں کے مبعوث ہو نے کی حکمت ایک طرف زمین کے مختلف گوشوں میں رہنے والوں تک پیغامات الٰہی کا پہچانا اس قدر آسان نہیں تھا اوردوسری طرف اجتماعی روابط کا پھیلنے کی وجہ سے حالات کا پیچیدہ ہوجانا کہ جس کے سبب نئے آیئن اور جدید قوانین کی ضرورت تھی، اس کے علاوہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ افراد یا جماعتو ںکے درمیان تبدیلی اور جاہلانہ دخالتوں کی وجہ سے، وجود میں آنے والی تحریفات کا تقاضا یہ تھا کہ کسی جدید نبی کی بعثت کے ذریعہ تعلیم الٰہی کو آگے بڑھایا جائے اورتحریفات کا خاتمہ ہو۔

لہٰذا جب پوری کائنات کے لئے تبلیغ رسالت الھی کی ذمہ داری صرف ایک رسول اور اس کے حامیوں اور جانشینوں کی مدد سے ممکن ہو جا اور اس کی شریعت کے احکام و قوانین حال و آئندہ کی احتیاجات کے جواب دینے پرقادر ہوں نیز مسائل جدید کو حل کرنے کے لئے اس شریعت میں آنی صلاحیت ہو اور اس کے علاوہ تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت اُسے دی گئی، ہو تو پھر اس صورت میں کسی دوسرے پیغمبر کی بعثت کی کو ئی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن بشری علوم ایسے شرائط کی تشخیص سے ناتواں اور عاجز ہے ، فقط خدا ہے جو اپنے لامتناھی علم کی وجہ سے ایسے زمان و شرائط کے تحقق سے باخبر ہے جیسا کہ اُس نے آخری نبی اور اُس کی کتاب کے ساتھ انجام دیا۔

لیکن سلسلہ نبوت کے ختم ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا او راُس کے بندو ںکے درمیان اب کوئی رابطہ نہیں رہتا، بلکہ اگر خدا چاہے تو کسی بھی وقت اپنے شائستہ بندوں کو علم غیب کے ذریعہ اضافہ کرسکتا ہے اگرچہ وحی کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو، جیسا کہ شیعوں کے عقیدہکے مطابق خدا نے ائمہ علیہم السلام کو ایسے علوم سے نوازا ہے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں امامت سے متعلق مباحث کے سلسلہ میں بیان کریں گے۔

چند شبہات کے جوابات۔

گذشتہ بیان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ختمِ نبوت کا راز۔

ایکً ،یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کی مدد سے پیغامات ا لہی کو تمام انسانوں تک پہنچا سکتے تھے

دوسرے یہ کہ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کتاب (قرآن) کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت لے لی گئی ہے،

تیسرے یہ کہ ۔ شریعت اسلام تا قیامت پیش آنے والی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔

لیکن یہ ممکن ہے کہ ان مطالب کے پیش نظر کوئی یہ شبہ پیش کرے، جیسا کہ گذشتہ ادوار میں اجتماعی اور اقتصادی روابط کے پیچیدہ ہونے کی وجہ سے جدید احکامات یا اُن میں تغیرات کی ضرورت پڑھ جاتی تھی، یاپھر کسی دوسرے نبی کی بعثت کی ضرورت ہوتی تھی اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بھی نمایاں تغیرات وجود میں آئے ہیں، اور اجتماعی روابط پیچیدہ ہوگئے ہیں،لہذا اس صورت میں ہمیں کہاں سے معلوم کہ آئندہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے کسی دوسرے نبی کی بعثت کی ضرورت نہ پڑے؟

اس شبہ کے جواب میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ کس طرح کے تغیرات بنیادی قوانین کے بدل جانے کے موجب ہوتے ہیں، اس کی تشخیص بشر کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے کہ ہمیں احکام و قوانین کی حکمتیں اور علتوں پر تسلط نہیں ہے بلکہ ہم نے تو اسلام کے جاودانی ہونے کے دلائل آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاتمیت کے ذریعہ کشف کئے ہیں کہ اب اس کے بعد اسلام کے بنیادی قوانین کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔

البتہ ہم بعض اجتماعی مسائل کی پیدائش کا انکا ر نہیں کرتے کہ جن کے لئے نئے قوانین کی ضرورت ہے، لیکن اسلام نے اپنے مسائل کے قوانین کو وضع کرنے کے لئے ایسے اصول و قواعد وضع کر دئے کہ جس کی مدد سے باصلاحیت افراد ضروری احکامات کو حاصل کر کے انھیں جاری کر سکتے ہیں،اور ان مطالب کی تفصیلی بحث کو فقہِ اسلام کی بحث حکومت اسلامی (امام معصوم اور ولی فقیہ) کے اختیارات کے حصہ میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

سوالات

١۔ اسلام کے جاودانی ہونے کے اثبات کے بعد خاتمیت کے سلسلہ میں بحث کی کیا ضرورت ہے؟

٢۔ قرآنی دلیل کے ذریعہ کیسے خاتمیت کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٣۔ اس دلیل کے سلسلہ میں موجودہ شبہات کو ذکر کریں اور ان کے جوابات تحریر فرمائیں؟

٤۔ خاتمیت پر دلالت کرنے والی روایتوں میں سے تین روا یت کو ذکر کریں؟

٥۔ کیوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد سے انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوگیا؟

٦۔ کیا ختمِ نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد، علوم سے استفادہ کا راستہ بند ہوگیا ہے؟ کیوں؟

٧۔ کیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد وجود میں آنے والے سماجی تغیرات کے لئے جدید شریعت کی ضرورت نہیں ہے؟ کیوں؟

٨۔جدید مسائل کے پیدا ہونے کی وجہ سے سماج کی ضرورتوں کو آئین اسلام کے ذریعہ کیسے حل کیا جا سکتا ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ احزاب۔ آیت ٤٠.

(۲)اس کتاب کے انتیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے۔

(۳)بحارا الانوار۔ ج٣٧ص٢٨٩٢٥٤. صحیح بخاری ۔ج٣ ص٥٨. صحیح مسلم ۔ج٢ ص ٣٢٣. سنن ابن ماجہ ۔ج ١، ص٢٨. مستدرک حاکم۔ ج٣ ص١٠٩. مسند ابن حنبل۔ ج١ ص ٣٣١و ج٢ ص٣٦٩،٤٣٧.

(۴) وسائل اشیعہ ۔ج١ ص ١٥. خصال ۔ج١ص ٣٢٢ خصال ج۔٢ ص ٤٨٧.

(۵) وسائل الشیعہ، ج١٨ ص٥٥٥. من لا یحضرہ الفقی، ج٤ ص ١٦٣. بحار الانوار، ج٢٢ ص ٥٣١. کشف الغمہ ،ج١، ص٢١

چھتیسواں درس

امامت

مقدمہ

مفہوم امامت

مقدمہ

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے ،جب اِس شہر میں پہنچے تو اس شہر کے لوگوں اور وہاںبسنے والے مہاجر مسلمانوں نے بڑے زور و شور سے آپ کا استقبال کیا اسی وجہ سے اِنھیں انصار اور ہجرت کرنے والوں کو مہاجر کا نام دیا گیا، آپ نے وہاں ایک اسلامی سماج کی بنیاد ڈالی اور اس کی باگ ڈ ور اپنے ہاتھوں میں لی، مسجد النبی محل عبادت اور تبیلغ رسالت کے علاوہ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز ہونے کے ساتھ مہاجروں اور ناداروں کی پناہگاہ بھی تھی،وہا ں پر لوگوں کی اقتصادی و معاشرتی ضرور توں کو پورا کیا جاتا تھا ،اس طرح وہ جگہ محلِ قضاوت او رجھگڑوں کے حل و فصل اور جنگ کے لئے مشورہ، فوج کو میدان جنگ کی طرف حرکت دینے اور ان کی مدد کرنے کا مرکزتھی غرضکہ حکومت کے تمام مسائل اِسی مسجد میں حل وفصل ہوتے تھے بلکہ لوگوں کی دنیا اور ان کے دین کے تمام امور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ میں تھے اور خود مسلمان بھی آپ کی اطاعت میں کوشاںرہتے تھے اس لئے کہ خدا نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا مطلق حکم دیاتھا(۱) بلکہ خدانے سیاسی،قضائی اور جنگی مسائل میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے لئے نہایت تاکید کی تھی۔(۲)

ایک دوسری تعبیر کے مطابق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منصب نبو ت و امامت نیز تعلیم و تربیت کے فرائض اور سماج کے امور کو حل و فصل کرنے پر بھی مامور تھے، اور جس طرح اسلام وظائف عبادی، سیاسی ،اخلاقی، اقتصادی، اور حقوقی وغیرہ سے سرفراز ہے، اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے وظائف کو بیان کرنے کے ذمہ دار ہونے کے علاوہ قوانین الٰہی کو جاری کرنے کے عہدہ دار اور حکومتی منصب کے مالک تھے۔

اس لئے کہ یہ امر آشکارہے کہ وہ دین جو تاقیامت تمام انسانوں کی رہبری کا دعویدار ہے وہ اُن مسائل کے مقابل میں سہل انگار ی سے کام نہیں لے سکتا، اور وہ سماج جو اس دین کی بنیادوں پر قائم ہو وہ سیاسی اور حکومتی مناصب سے مبرا نہیں ہوسکتا وہ منصب جو عنوان امامت کے ضمن میں شمار کئے جاتے ہیں۔

لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کون اس مقام کا عہدہ دار و سزاوار ہے کون اُسے سنبھالے؟

کیا جس طرح خدا نے یہ منصب اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو عطا کیا تھا اِسی طرح کسی اور کو عطا کیا ہے؟ کیا یہ منصب صرف اِسی صورت میں قابل قبول ہے کہ جب خدا اُسے عطا کرے؟یا پھر خدا کی جانب سے اس منصب کو عطا کرنا صرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخصوص تھا، اور آپ کے بعد اس منصب کی ذمہ دار ی کو خود عوام تعین کرے؟کیا عوام کو ایسا کوئی حق ہے یا نہیں؟۔

اور یہی مسئلہ سنی اور شیعہ حضرات کے درمیان نقطہ اختلاف ہے، اس لئے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ منصب الٰہی خود خدا کی جانب سے باصلاحیت لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے، لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے اس امر کو انجام دیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بلا فصل خلیفہ بنادیا

نیز اُن کے بعد ان کے گیارہ فرزندوں کو اِس منصب کی عہدہ داری کے لئے مقرر فرمادیا تھا ، لیکن اہل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ امامت بھی رسالت و نبوت کے منصب کی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے ساتھ تمام ہوگیا ہے، اور اِس کے بعد سے امام کا انتخاب لوگوں کے اختیار میں دے دیا گیا ہے، یہاں تک کہ بعض اہل سنت کے بزرگ علماء کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اسلحہ کی بنیاد پر مسلط ہوجائے تو اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔(۳) لہذا معلوم ہے کہ یہ نظریہ جباروں اور ظالموں کے لئے ایک موقع غنیمت ہے جواپنے زور و ظلم کی بنیاد پر جس حد تک چاہیں سوء استفاد کر سکتے ہیں، اور اس طرح مسلمانوں کے ضعف اور اُن کی بدبختی کا سبب بن سکتے ہیں۔

در حقیقت اہل سنت نے امامت کو خدا کی جانب سے منصوب کئے بغیر قبول کر کے دین اور سیاست میں جدائی کی بنیاد ڈالی ہے، اور شیعوں کے عقیدہ کے مطابق یہی نقطہ اختلاف اسلام کی صحیح راہ اور خدا کی عبادت سے انحراف کا باعث بنا ہے، جس کی وجہ سے آج تک بلکہ آئندہ بھی ہزاروں ناگوار حوادث وجود میں آتے رہیں گے۔

اسی وجہ سے ہر فرد مسلمان پر واجب ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میںتعصب اور تقلید سے پرہیز کرتے ہوئے تحقیق کرے(۴) اور مذہب حق کو پہچان کر اُس کی شدت سے حمایت کر ے اِس مسئلہ میں یہ امر آشکار ہے کہ جہان اسلام کی مصلحت کو پیش نظر رکھنا چاہیے، بلکہ دشمنان ا سلا م کے لئے دو مذہبوںکے اختلافات اور تفرقہ سے فائدہ اٹھنے کا موقع نہیں دینا چاہئے، اور کسی بھی صورت میں کوئی بھی ایسا عمل انجام نہیں دینا چاہیے جو مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بنے، نیز کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کا اتحاد باقی رہ جائے، اس لئے کہ اس تفرقہ کا نقصان تمام مسلمانوں کو اٹھانا ہوگا اور مسلمانوں کے معاشرہ کے ضعیف ہونے کے علاوہ اُس سے کوئی اور نتیجہ ظاہر نہیں ہوسکتا، لیکن اس طرح مسلمانوں کے درمیان حفظ وحدت کی خاطر مذہب حق کی شناخت کا راستہ بند نہیں ہونا چاہئے تا کہ مسائلِ امامت کے سلسلہ میں طالبانِ حق تحقیق سے محروم نہ ہوسکیں، اس لئے کہ حق و حقیقت کو پالینا مسلمانوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کا باعث ہے۔

مفہوم امامت۔

امامت لغت میں رہبری کے معنیٰ میں ہے چنانچہ جو بھی راہ حق میں یا راہ باطل میں کسی گروہ کی رہبری کرے اسے امام کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں کفار کے لئے کلمہ ''أَ ئِمَّةَ الکُفرِ''(۵) استعمال ہوا ہے اور نمازی جس شخص کی اقتدا کرتے ہیں اسے امام جماعت کہا جاتا ہے۔

لیکن علم کلام میں امامت یعنی دینی اور دنیوی امور میں سماج ِاسلامی پر ریاست عام ،اِس تعریف میں دنیوی امور کا شامل کرنا دائرہ امامت کی وسعت کی بنا پر ہے وگرنہ سماج اسلامی کے دنیوی امور کی تدبیر دین اسلام کا ایک جزء ہے۔

مذہب تشیع کے لحاظ سے ایسی حکمرانی اسی وقت صحیح ہوگی کہ جب خداوند عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہو اور اصالة،ً یا،نیابةً ایسے مقام کا مالک وہی ہو سکتا ہے جو احکامِ اسلامی کوبیان کرنے میں خطاؤں سے معصوم اور گناہوں سے دور ہو، بلکہ امام کے لئے نبوت و رسالت کے علاوہ تمام الٰہی منصبوں پر فائز ہونا ضروری ہے تا کہ ، قوانین احکام اور معارف اسلامی کے سلسلہ میں اس کے بیانات حجت ہوں اور حکومتی پیمانہ پر اُس کے قوانین واجب الاطاعة قرار پائیں۔

اس بیان کے لحاظ سے شیعہ اور سنی حضرات کے درمیانِ موضوع امامت کے تحت اختلاف تین چیزوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔

١۔ اول یہ کہ امام خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔

٢۔ دوم یہ کہ علوم الٰہی کا مالک اور اس کا خطائوں سے محفوظ و مصؤن ہونا ضروری ہے ۔

٣۔ سوم یہ کہ گناہوں سے معصوم ہونا بھی ضروری ہے۔

البتہ معصوم ہونا امامت کے مساوی نہیں ہے، اس لئے کہ شیعوںکے اعتقاد کے مطابق حضرت زہرا بھی معصوم تھیں، اگر چہ مقام امامت کی مالک نہیں تھیں، جیسا کہ حضرت مریم بھی مقام عصمت پر فائز تھیں اور شاید او لیاء الٰہی کے درمیان اوربھی افراد موجود ہوں جو عصمت درجہ پر فائز ہوں کہ جن کی ہمیں کوئی اطلاع نہ ہو ، بلکہ بنیادی اعتبار سے معصوم شخص کا پہچاننا خدا کی جانب سے اطلاع کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

سوالات

١۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے علاوہ اور کن مناصب پر فائز تھے؟

٢۔ شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان نقطہ اختلاف کیا ہے؟

٣۔ نصب الٰہی کے بغیر امامت کو قبول کرلینے کی وجہ سے کیسے نتائج سامنے آسکتے ہیں؟

٤۔ امامت کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں؟

٥۔ امامت کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟

____________________

(۱)سورۂ آل عمران۔ ١٣٢٣٢ نسائ۔ ٨٠٦٩١٤١٢. مائدہ۔ ٩٢، انفعال ۔٤٦٢١. توبہ۔ ٧١ نور۔ ٥٦٥٤٥١. احزاب۔٦٦:٧١ .حجرات۔ ١٤ فتح ۔١٧١٦. محمد۔ ٣٣. مجادلہ۔ ١٢ ممتحن۔ہ ١٢ تغابن۔ ١٢ جن ٢

(۲) سورۂ آل عمران۔ ١٥٢. نسائ۔ ٤٢ ٥٩ ٦٥ ١٠٥، مائدہ۔ ٤٨، حج۔ ٦٧، احزاب۔ ٦ ٣٦. مجادلہ۔ ٨ ٩،. حشر۔٧

(۳)ابویعلی کی کتاب ''الاحکام السلطانیہ'' اور ابو القاسم سمرقندی کی کتاب کا ترجمہ السواء والاعظم'' ص ٤٠ ص٤٢ کی طرف رجوع کریں.

(۴)خدا کا شکر ہے کہ بہت بڑے بڑے دانشمندوں نے اس راہ میں بڑی تحقیق کی ہے جسے مختلف زبانوں میں مختلف انداز میں مرتب کیا ہے اور حق کے طلبگاروں کے لئے راستہ بالکل ہموار کردیا ہے ،جس میں سے عبقات الانوار، الغدیر، دلائل الصدق غایہ المرام ا ور اثبات الھدا، کا نام لیا جاسکتا ہے، لیکن وہ لوگ کہ جن کے پاس فرصت نہیں ہے وہ لوگ کت ا ب المراجعات کا مطالعہ کریں جو سنی اور شیعہ عالموں کے درمیان مکاتبات پر مشتمل ہے، اور اسی طرح ''اصل الشیعہ و اصولہا'' کا مطالعہ کریں، ان دونوں کتابوں کا فارسی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

(۵) سورۂ توبہ۔ آیت۔ ١٢