درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48360
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48360 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

سیتیسواں درس

امام علیہ السلام کی احتیاج

مقدمہ

وجود امام علیہ السلام کی ضرورت

مقدمہ

وہ لوگ جو اعتقادی مسائل میں گہری فکر کے مالک نہیں ہیں، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلاف صرف یہ ہے کہ شیعہ حضرات معتقد ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد امام علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا لیکن سنی حضرات معتقد ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا، بلکہ پہلے مرحلہ میں خود لوگوں نے جانشین مقرر کیا ،اور دوسرے مرحلہ میں اُسی جانشین نے اپنے لئے دوسرے جانشین کا انتخاب کیا، اور تیسرے مرحلہ میں جانشین کا انتخاب چھ لوگوں پر مشتمل شوری کو سونپ دیا گیا تھا، اور خلیفہ چہارم کو پھر خود لوگوں نے انتخاب کیا، لہٰذا مسلمانوں کے درمیان خلیفہ کی تعیین کے لئے کوئی روش نہیں ہے اسی وجہ سے خلیفہ چھا رم کے بعد جس کے پاس بھی فوجی طاقت تھی وہ خلیفہ بن بیٹھا، جیسا کہ آج غیر مسلمان ممالک میں ہوتا ہے۔

یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق شیعہ حضرات خلیفہ اول کی تعیین کے سلسلہ میں اسی روش کے قائل ہیں جو خلیفہ دوم کو معین کرنے کے لئے اپنائی گئی تھی، صرف فرق اتنا ہے کہ وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات کو لوگوں نے نہیں مانا ،لیکن خلیفہ دوم کے سلسلہ میں خلیفہ اول کی بات سب نے مان لی۔

لیکن ہم یہاں پر اِن سوالات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ۔

١۔ خلیفہ اول کو خلیفہ دوم کی تعیین کا حق کس نے دیا؟ اور کیوں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ( اہل تسنن کے اعتقاد کے مطابق) خلیفہ کی تعیین میں اسلام کا خیال نہیں رکھا، اور کیوں ایک مسلمان سماج کو سرپرست کے بغیر تنہا چھوڑ دیا، حالانکہ آپ جب بھی مدینہ سے خارج ہوتے تھے اپنے لئے کوئی جانشین مقرر فرمادیتے تھے، اس کے علاوہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد سر اٹھانے والے فتنوں سے باخبر تھے، اس طرح کے سوالات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ سنی اور شیعہ حضرات کے درمیان اختلاف ،کیایہ ہے کہ امامت ایک دینی مقام اور ایک الٰہی منصب ہے کہ وہ جسے چاہے منصوب کرئے یا پھر ایک دنیوی سلطنت اور اجتماعی عو امل کے تابع ہے؟

اور شیعوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے جانشین کو معین کرنے میں مستقل نہیں تھے ،بلکہ آپ نے اُسے خدا کے فرمان کے مطابق انجام دیا ہے در اصل ختم نبوت کی حکمت امام معصوم علیہ السلام کو معین کرنے سے مر بوط ہے جس کے ذریعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اسلامی سماج کی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔

اس مطلب سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں شیعوں کے نزدیک فرعی ہونے کے بدلے امامت ایک ''اصل اعتقادی'' ہے اور کیوں وہ لوگ ان شرائط ( علم خدادادی) عصمت (خدا کا منصوب کرنا) کو امام میں ہونا ضروری سمجھتے ہیں؟ اور کیوں شیعہ اعتقاد مفاہیم احکام الہی کی شناخت اور اسلامی سماج پر فرما راوائی جیسے مفاہیم اس طرح سے ملے ہوئے ہیں، کہ گویا اِن تمام مفاہیم پر مفہوم امامت چھایا ہوا ہے لہٰذا ہم یہاں پر مفہوم امامت اور عقائد تشیع کے درمیان اس عقیدہ کی موقعیت اور اس کی حجت کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں۔

وجودا مام علیہ السلام کی ضرورت۔

بائیسویں درس میں یہ نکتہ روشن ہوگیا تھا کہ خلقتِ انسان کا ہدف اسی وقت کامل ہوسکتا ہے کہ جب وحی کے ذریعہ اُس کی ہدایت کی جائے اور حکمتِ الٰہی کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے پیغمبروں کو مبعوث کرے تا کہ وہ انسانوں کو دنیا و آخرت میں سعادتمندی کا درس دے سکیں، نیز انسانوں کو درجۂ کمال تک تربیت کریں، اور اگر ممکن ہو تو سماج میں احکامِ الٰہی کو جاری کریں۔

اور چونتیسویں اور پینتیسو یں درس میں اس امر کو روشن کردیا گیاہے کہ دین ِاسلام، جاودانی، ابدی اورنسخ نہ ہونے والا دین ہے ،اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کسی نبی کی بعثت واقع نہیں ہوسکتی، اور ختمِ نبوت بعثت انبیا ء علیہم السلام کی حکمت سے اُسی وقت سازگار ہے کہ جب آخری شریعت تمام انسانوں کی ضروریات کو پورا کرسکے، اور تاقیامت اس کی بقا کی ضمانت ہو۔

یہ ضمانت قرآن میں موجود ہے اور خدا نے اس کتاب کو کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رکھنے کی ضمانت لی ہے، لیکن قرآن کی آیات سے تمام احکامات آشکار نہیں ہیں، نماز کی رکعات کی تعداد اور اُسے انجام دینے کی کیفیت اس طرح اور بھی بہت سے مستحبّات ہیں کہ جن کی کیفیتوں کو قرآن نے بیان نہیں کیا، اس کے علاوہ خود قرآن نے بھی احکامات کی تفاصیل بیان نہیں کی ہے، بلکہ یہ کام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد تھا، تا کہ جو علم خدا نے(وحی کے علاوہ) آپ کو عطا فرمایا تھا، اس کی مدد سے تشریح فرماتے(۱) اِسی وجہ سے آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نسبت کا شمار اسلام کو پہچاننے والے اصلی منابع میں سے ہوتا ہے۔

لیکن آپ کی زندگی کی دشوار یا ں، جیسے شعب ابی طالب کے تین سال، اور دس سال دشمنان اسلام سے جنگ کے دوران ، آپ کو اجازت نہیں دی، کہ تمام احکامات الہی کی تفصیلوں کو بیان کرتے ، اور جو کچھ اصحاب نے آپ سے معلوم کیا تھا، اس کا بھی سالم رہ جانا خطرے سے خالی نہیں تھا، یہاں تک کہ وضو کا مسئلہ جو آج تک اختلاف کا شکار ہے اُسے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان سالہا انجام دیا تھا، لہذا جب احکام عملی کا یہ حال ہے، جبکہ یہ احکام ہمیشہ لوگوں کی نظروں کے سامنے اور اُن کی ضروریات میں سے ہیں، جس میں تحریف آسان نہیں ہے، تو پھر پیچیدہ اور سخت ترین احکامات خصوصاً وہ احکامات جو دنیا پرستوں اور ہوسرانوں کے مخالف ہیں ان میں تحریف کے امکانات کہیں زیادہ موجود ہیں(۲)

ان نکات کے پیش نظر یہ امر آشکار ہوجاتا ہے کہ دین اسلام اُسی وقت دین کامل اور تاقیامت تمام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے والا بن سکتا ہے کہ جب اُس میں اُن ضروری مصلحتوں کو پورا کرنے والے اسباب موجود ہوں وہ مصلحتیں کہ جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خطرات کا شکار ہو ئیں، اور یہ مشکل آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جانشین کے معین کئے بغیر حل نہیں ہو سکتی تھی، اور جانشین بھی ایسا ہو جو علوم الٰہی سے آراستہ اور احکامات کو اِس طرح بیان کرے ،جس طرح وہ نازل ہوئے ہیں، نیز عصمت کی صفت سے مزین بھی ہو،تا کہ نفسانی اور شیطانی حملات کا شکار نہ ہو اور دین میں جان بوجھ کر کوئی تحریف نہ کرے، اس کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح لوگوں کی تربیت کر سکے اور انھیں کمال کی آخری منازل تک رہنمائی کر سکے اور اگر شرائط جمع ہوجائیں حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر احکام الہی کو جاری کرے اور جہان میں حق و عدالت کو قائم کرے۔

نتیجہ: ختمِ نبوت اُسی وقت حکمت الٰہی سے سازگار ہو سکتی ہے کہ جب اُسے امام معصوم کے نصب سے مربوط کیا جائے جو نبوت و رسالت کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام صفات سے متصف ہو۔

اس طرح وجود ِامام کی ضرورت بھی ثابت ہوجاتی ہے اور علوم الٰہی سے آراستہ ہونے کے علاوہ مقامِ عصمت پر فائز ہونے کی ضرورت بھی، نیز امام کا خدا کے فرمان کے مطابق منصوب ہونا بھی صرف اِس لئے ہے کہ اُسے معلوم ہے کہ کہاں منصب امامت کو قرار دے بلکہ وہی بندوں کی ولایت کامالک ہے اور اس میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ اِس منصب کو با صلاحیت لوگوں کو عطا کردے۔

اس مقام پر اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ اہل سنت امام کی بیان کی گئی خصوصیات میں سے کسی بھی خصوصیت کے قائل نہیں ہیں، اور نہ ہی انھیں اس بات کا دعویٰ ہے کہ وہ خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے منصوب ہوئے ہیں، نیز مقام عصمت پر فائز ہونے اور علوم الہی سے آراستہ ہونا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اُنھوں نے اپنی کتابوں میں اُن کی خطائوں اور لوگوں کے سوالات کے مقابل میں عاجزی کو تحریر بھی کیا ہے، جیسا کہ انھوں نے خلیفہ اول کے لئے نقل کیا ہے کہ (انّ ل شیطان یعترین) اور خلیفہ دوم کی نسبت نقل کیا ہے کہ اس نے خلیفہ اول سے بیعت کو ایک بے تدبیر امر کا نام دیا(۳) اور بارہا اپنی زبان سے اس جملہ کی تکرار کی (لولا علّى لهلک عمر )(۴) خلیفہ سوم(۵) اور خلفاء بنی عباس اور بنی امیہ کی خطائیں اس قدر آشکار ہیں کہ انھیں بیا ن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ جو بھی تاریخِ خلفاء سے معمولی آشنائی رکھتا ہو اسے بخوبی ان خطائوں کا علم ہے جو انھوں نے انجام دی ہیں۔

سنیوں کے مقابلہ میں صرف شیعہ حضرات ان شرائط کا بارہ اماموں میں ہونا ضروری سمجھتے ہیں، مذکورہ وضاحت کے ذریعہ امامت کے سلسلہ میں شیعوں کے عقیدہ کی صحت آشکار ہوجاتی ہے، جسے ثابت کرنے کے لئے مفصل دلائل کی ضرورت نہیں ہے اس کے باوجود ہم اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے آئندہ دروس میں کتاب و سنت سے سہارا لیں گے۔

سوالات

١۔ مسئلہ امامت میں شیعوں کا نظریہ اور اس مسئلہ میں اہل سنت سے اختلاف کو بیان کریں؟

٢۔ کیوں شیعہ حضرات امامت کو (اصل اعتقاد)کے عنوان سے معتبر جانتے ہیں؟

٣۔ وجود ِامام علیہ السلام کی ضرورت کو بیان کریں؟

٤۔ مذکورہ بیانات سے کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں؟

____________________

(١)سورۂ بقرہ۔ آیت ١٥١، آل عمران۔ ١٦٤. جمعہ۔ ٢،. نحل ۔٦٦ ٦٤. احزاب ۔٢١ حشر۔٧

(۲) علامہ امینی نے الغدیر میں سات سو احادیث گھڑنے والوں کے نام ذکر کئے ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف ایک لاکھ احادیث کے گھڑنے کی نسبت دی گئی ہے (الغدیر ج٥ ص ٢٠٨)

۳۔ شرح نھج البلاغہ ،ج ١ ،ص ١٤٢ ، ١٥٨ ،ج،٣، ص٥٧

۴۔الغدیر ،ج٦، ص ٩٣ کے بعد ،

۵۔الغدیر ٨،ص ٩٧کے بعد

اڑتیسواں درس

منصب امام

منصب امام

گذشتہ درس میں ہم نے وضاحت کر دی ہے کہ ختم نبوت کا سلسلہ ،امام معصوم علیہ السلام کو منصوب کئے بغیر حکمت الٰہی کے خلاف ہے، اور جہانی و جاودانی اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اُس کے لئے شائستہ جانشین معین کئے جائیں، جو نبوت و رسالت کے علاوہ تمام مناصب الٰہی سے سرفراز ہو۔

اس مطلب کو قرآنی آیات اور سنی و شیعہ تفا سیر میںموجود ہ روایات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔جیسا کہ قرآن میں سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں خدا فرماتا ہے:

( اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دَینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دیناً )

میں نے آج تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے دین ِاسلام سے راضی ہوگیا۔

یہ آیت تمام مفسرین کے قول کے مطابق حجة الوداع کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے چند ماہ پہلے نازل ہوئی، جس میں اسلام کاآسیب پذیری سے محفوظ رہ جانے کی وجہ سے کفار کی نااُ میدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ''آج میں نے تمہارے دین کو کامل اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا'' اور ان روایات کی روشنی میںجو اِس آیت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اکمال و اتمام، کفار کی ناامیدی سے مر بوط اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے حکم خداوندی کے مطابق جانشین کے انتخاب کے ذریعہ متحقق ہوجاتا ہے، اس لئے کہ کفار اِس خیال خام میں تھے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد چونکہ آپ کا کوئی فرزند نہیں تھا، لہٰذا اسلام بے سرپرست اور سرگردان ہوجائے گا، لیکن جانشین کے انتخاب کے ذریعہ دین کامل ہوگیا اور کافروں کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا(۱)

دین کے اکمال کی داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے فارغ ہو کر مدینہ کی جانب لوٹے تو غدیر خم کے مقام پر تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور ایک مفصل خطبہ دینے کے بعد آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوںکو مخاطب کر کے سوال کیا(اَلَستُ اَولیٰ بِکُم مِن اَنفِسِکُم )(۲) کیا میں خدا کی جانب سے تمہارا ولی نہیں ہوں، سب نے مل کر، ہاں کہا ، یہ جواب سن کر آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر فرمایا ''مَن کُنتُ مَولَاہُ فَعَلِیّ مَولَاہُ''. اور اس طرح آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فرمادیا، اور پھر حاضرین نے آپ کی بیعت کی نیز خلیفہ دوم نے بیعت کرنے کے ضمن میں حضرت علی ـ کو ان القاظ میں تہنیت پیش کی(بَخٍ بَخٍ لَکَ یَا عَلیّ اَصبَحتَ مولای وَ مولیٰ کُل مُومِن وَ مُؤمِنَةٍ)(۳) اُس روز یہ آیت نازل ہوئی( اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دَینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُم الِاسلَامَ دِینا ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا:( تَمامُ نبُوَّتِی وَ تَمامُ دِینِ اللّہِ ولایةُ علیٍّ بَعدِی)

اور ایک روایت میں آیاہے کہ جسے بعض اہل سنت کے بزرگ علماء نے نقل کیا ہے کہ ابو بکر اور عمر اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا، کہ کیا یہ ولایت صرف حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا: ہاں یہ وصایت علی علیہ اسلام اور میرے اوصیاء سے تاروز قیامت مخصوص ہے، تو انھوں نے پھرسوال کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوصیاء کون لوگ ہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''

(عَلِی اَخِی وَ وَزِیرِی وَ وَارِثِی وَ وَصِی وَ خَلِیفَتِی فِی اُمَّتیِ وَ وَلیُّ کُلّ مومن مِن بَعدِی ثُمَّ اِبنِی الحَسن ثُمَّ اِبنِی الحسین ثُمَّ تِسعَةُ مِن وُلدِ اِبنِی الحُسین واحداً بَعدَ واحدٍ القرآن مَعَهُم وَ هُم مَعَ القُرآنِِ لَا یُفارِقُهُم وُ لَا یُفَارِقُهُم حَتَّی یَرِدوا عَلیَّ الحَوض )(۴)

ان روایات کی روشنی میں جو مطلب سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے پہلے اس امر کے لئے مامور کردئے گئے تھے لیکن آپ کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں لوگ آپ کی جانشینی کو آپ کے شخصی و نجی نظر یہ پر حمل نہ کر یں، اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیں، اِسی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موقع کی تلاش میں تھے تا کہ اس امر کا اعلان کردیں، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہو ئی( یَااَیُّهَاالرَّ سُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ الیکَ مِن رَبِّک وَ اِن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَهُ وَ اللَّهُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) .(۵)

اے رسول جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا جا چکا ہے اُسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا ،تو گویا تم نے میری رسالت کا کوئی کام نہیں کیا او تم ڈرو نہیں خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

آیت میں اِس امر کو لوگوں تک پہنچانے کی تاکید اس حد تک ہے کہ اگر یہ حکم انجام نہیں پایا تو گویا تبلیغ رسالت کے انجام نہ دینے کے برابر ہے، آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوشخبری دیتا ہے کہ اِس پیغام کے برُے نتائج سے محفوظ رکھے گا، یہ آیت جیسے ہی نازل ہوئی، آپ کو معلوم ہوگیا ،کہ اس پیغام کا لوگوں تک پہنچانے کا وقت آگیا ہے اور اِس سے زیادہ تاخیر جائز نہیں ہے، اسی وجہ سے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کردیا۔(۶)

اگر چہ وہی دن اِس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے اور لوگوں سے بیعت لینے سے مخصوص تھا، وگرنہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا پنے دوران حیات میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں حضرت علی ـ کی جانشینی کو ، لوگوں کے گوش گذار کرایا تھا بلکہ بعثت کے پہلے ہی سال جب آیہ،( وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الَاقرِبِینَ'' ) (۷) نازل ہوئی ،تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وقت فرمایا: جو شخص سب سے پہلے میری دعوت کو قبول کرے گااور میری مدد کر ے گا، وہ میرے بعد میرا جانشین و خلیفہ ہو گا، اور فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے ، جس شخص نے سب سے پہلے اعلان نصرت کیا حضرت علی علیہ السلام تھے(۸) اسی طرح جب آیہ( یَا ایها الذین آمنوا اطیعو الله و اطیعو الرسولَ و اُولی الامر منکم ) (۹) نازل ہوئی، اور اس آیت نے اولو الامر کی اطاعت کو مطلق اور اُسے اطاعت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برابر قرار دیا تو جابر بن عبد اللہ انصاری نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ یہ اولو الامر کون ہیں کہ جن کی اطاعت کاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے؟! تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا :

(هم خلفائی یا جابر و ائمةُ المسلمینَ مِن بَعدِی، اَوَّلُهُم علیُّ ابن ابی طالب، ثُّمَ الحسن، ثُّمَ الحسین، ثُّمَ علی بن الحسین ثم محمد بن علی المعروف بالتوراة بالباقر، سَتُدرِکُهُ یا جابر، فاذا لَقیتَهُ فاقرَأهُ منّی السلام،َ ثُّمَ الصادق جعفر بن محمد، ثّم موسیٰ بن جعفر، ثم علی بن موسیٰ، ثم محمد بن علی، ثم علی بن محمد، ثم الحسن بن علی، ثم سمیّی وَکنیّی حجة اﷲ فی ارضه بقیته فی عباد ه ابن الحسن بن علی )(۱۰)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشینگوئی کے مطابق جابر بن عبد اللہ انصاری امام باقر علیہ السلام کے زمانہ تک با حیات رہے اور آنحصرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلام کو پہنچایا ،

ایک دوسری حدیث میں ابو بصیر سے، اس طرح منقول ہے کہ ابو بصیر نے آیت اولوا الامر کے سلسلہ میں امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا ،تو آپ نے جواب میں فرمایا: یہ آیت حضرت علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، تو میں نے دوبارہ عرض کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کے اہلبیت علیہم السلام کے اسماء کیوں نہیں ذکر کئے؟ تو آپ( علیہ السلام )نے فرمایا: تم جا کر اُن لوگوں سے کہہ دو کہ جب نماز کے لئے آیت نازل ہوئی ، تو اس میں چار رکعت یا تین رکعت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا یہ وضاحت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیان فرمائی تھی، اسی طرح آپ علیہ السلام نے حج و زکات کے سلسلہ میں آیات کی تفصیل بیان فرمائی لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن آیتوں کی طرح اِس آیت کی بھی تفصیل بیان فرمائی جو اِس طرح ہے :(مَن کنت مولاه فعلی مولاه )(اوصیکم بکتاب الله و اهل یبیتی فانی سئلت الله عزو جلّ ان لا یُفَّرَقَ بینهماحتی یُورِدهما علیّ الحوض فاعطانیذلک )یعنی میں تمہیں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کے ساتھ ساتھ رہنے کی وصیت کرتا ہوں، میں نے خدا کی بارگاہ میں درخواست کی ہے کہ ان دونوں میں اس وقت تک جدائی نہ ڈالے کہ جب تک یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہنچ جائیں، اور خدا نے میری درخواست قبول کرلی ،اور اِسی طرح ایک دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :

( لا تعلموهم فانهم اعلم منکم انهم لن یخرجوکم من باب هدی ومن یدخلوکم فی باب ضلالة )(۱۱)

یعنی انھیں تعلیم دینے کی کوشش نہ کرو کیوں کہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں، جو ہرگز تمہیں باب ہدایت سے خارج اور چاہ ضلالت میں داخل نہیں کرسکتے''.

اسی طرح بارہا اس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا یہاں تک کہ اپنی حیات کے آخری ایام میں بھی فرمایا:

(اِنِّی تَارِکُ فِیکُمُ الثَّقلینِ کتابَ اﷲ وَ اَهلِ بَیتِی اِنَّهُمَا لَن یَفتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیّ الحَوض )(۱۲)

اور فرمایا( الان ان مثل اہل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبہا نجا ومن تخلف عنہا غرق)(۱۳)

اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کو بارہا مخاطب کر کے فرمایا:

(اَنتَ وَلیُّ کَلَ مَومنٍ بَعدِی)(۱۴)

ایسی سیکڑوں احادیث ہیں کہ جن کی طرف اشار کر نے کی یہاں پر گنجائش نہیں(۱۵)

سوالات

١۔قرآن کی کون سی آیت حضرت علیہ السلام کی جانشینی پر دلالت کرتی ہے؟ اور اس کی دلالت کو بیان کریں؟

٢۔ خضرت علی علیہ السلام کے منصب امامت پر فائز ہونے کی تفصیلات بیان کریں؟

٣۔ کیوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کے پیغام کو پہنچانے میں تأخیر سے کام لیتے تھے؟ اور پھر کیسے اس امر کو انجام دینے کے لئے کمر ہمت باندھ لی؟

٤۔ کون سی روایتیں تمام ائمہ علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں؟

٥۔ ان تمام روایتوں کو بیان کریں کہ جو اہل بیت علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں؟

____________________

(١) اس آیت کے سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر المیزان میں مراجعہ کریں

(٢) یہاں سورۂ احزاب ۔آیت ٦ '' النبی اولی بالمومنین من انفسہم'' کی طرف اشارہ ہے

(٣) اس حدیث کی دلالت اور سند کے قطعی ہونے کو ثابت کرنے لئے عبقات الانوار اور الغدیر کی طرف رجوع کیا جائے.

(۴)غاید المرام۔ باب ٥٨ حدیث ٤ جسے فرائد حموینی نے نقل کیا ہے.

(۵) سورۂ مائدہ۔ ٦٧ اور تفسیر المیزان کی طرف مراجعہ کیا جائے.

(۶) اس موضوع کو اہل سنت نے سات صحا بیو ں سے نقل کیا ہے ، زید بن ارقم، ابو سعید خدری٠ ابن عباس ، جابر بن عبد اللہ انصاری، براء بن عازب ، ابو ہریرہ، ابن مسعود، الغدیر ج١ ص ٣

(۸) سورۂ شعراء ٢١٤.

(۸) عبقات النوار ، الغدیر، المراجعات.

(۹) سورہ نساء آیت ٥٩

(۱۰) غایة المرام ، ج ١٠ ،ص٢٦٧ اور اثیات الھداة ، ج ٣ ،ص ١٢٣ ، و، ینادیع المودة، ص ٤٩٤

(۱۱) غایة المرام (طبع قدیم) ج٢ ص٥٦٢.

(۱۲) یہ روایت بھی متواترات میں سے ہے، جسے ترمذی، نسائی، صاحب مستدرک نے مختلف طرق سے نقل کی ہے.

(۱۳) مستدرک حاکم۔ ج٣ ص١٥١.

(۱۴) مستدرک حاکم۔ ج٣ ص ١٣٤ ١١١. صواعق ابن حجر۔ ص ١٠٣. مسند ابن حنبل ۔ج١ ص ٣٣١ ج٤ ص ٤٣٨ و

(۱۵) کمال الدین وتمام النعمة، بحار الانوار.