درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48367
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48367 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

انتالیسواں درس

عصمت اور علم امام

مقدمہ

عصمت امام

علم امام

مقدمہ

جیسا کہ ہم نے گذشتہ درس میں بیان کر دیا کہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان موضوع امامت کے تحت صرف تین مسئلوں میں اختلاف ہے

١۔ پہلے یہ کہ امام کا تعینو انتخاب، خدا کی جانب سے ہو۔

٢۔ دوسرے یہ کہ امام ملکۂ عصمت سے آراستہ ہو۔

٣۔ تیسرے یہ کہ علم لدنی کا مالک ہو، اور سینتیسویں درس میں عقلی دلائل کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کردیا ہے اور اڑتیسویں در س میں ائمہ علیہم السلام کا خدا کی جانب سے منصوب ہونے کو بیان کر دیا اور اب اس درس میں عصمت اور علم خدادادی کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں ۔

عصمت امام ۔

منصب امامت کا الٰہی ہونا اور حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کا خدا کی جانب سے منصب امامت پر فائز ہونے کے اثبات کے بعد ائمہ ا طہار علیہم السلام کی عصمت کو اِس آیت کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے ۔

'' لَا ینالُ عَہدِ الظَالِمِینَ''(۱)

یعنی منصب امام صرف انھیں حضرات کے لئے سزاوار ہے جو گناہوں سے آلودہ نہ ہوں۔

اس کے علاوہ آیہ ''اولوا الامر''(۲) جو امام کی اطاعت کو مطلق قرار دیتی ہے اور امام کی اطاعت کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے مساوی قرار دیتی ہے، اُس کے ذریعہ بھی ائمہ علیہم السلام کی عصمت کو ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی بھی صورت میں امام کی اطاعت کو اطاعت خدا کے خلاف قرار نہیں د یا جا سکتا لہٰذا او لوالامر یعنی امام کی مطلق اطاعت کا حکم دینا اس کے معصوم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

اسی طرح ائمہ ا طہار علیہم السلام کی عصمت کوآ یہ تطہیر سے بھی ان کا معصوم ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے:

( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذہِبَ عَنکُمُ الرِجسَ اَہلَ البَیتِ وَ یُطَہِّرَ کُم تَطہِیراً)(۳)

اے اھل بیت !(رسول) خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کی ) برائی سے دوررکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ایسا پاک و پاکیزہ رکھے ۔

بندوں کی تطہیر کا ارادۂ تشریعی، کسی خاص فرد سے مخصوص نہیں ہے، لیکن اہل بیت علیہم السلام کی طہارت کے سلسلہ میں خدا کا ارادہ، ارادۂ تکوینی ہے کہ جس میں اراد کا ارادہ کرنے والے (خدا ) سے تخلف ممکن نہیں ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

(( اِنَّمَا اَمرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیٔاً اَن یَقُولَ لَهُ کُن فَیَکُونُ ) .(۴)

پس تطہیر مطلق اور کسی بھی قسم کی نجاست اور پلیدی سے دورری عین عصمت ہے اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ مسلمانو ںمیں سے کوئی بھی فرقہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کی عصمت کا قائل

نہیں ہے فقط شیعہ فرقہ ہے جو حضرت زہراء علیہا السلام اور بارہ اماموں کی عصمت کا قائل ہے۔(۵)

اس مقام پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے کہ اس آیت کے سلسلہ میں وہ روایتیں جو نقل ہوئیں ہیں، ان میں سے اکثر کو اہل سنت کے علماء نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، جو اِس بات پردلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت ،خمسہ طیبہ کے سلسلہ میںنازل ہوئی ہے۔(۶)

شیخ صدو ق حضرت علی علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما یا: اے علی! یہ آیت تمہارے اور حسن و حسین علیہم السلام اور تمہار ی نسل سے ہونے والے اماموں کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے ،میں نے سوال کیا کہ آپ کے بعد کتنے امام ہوں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے علی! تم ہوگے پھر حسن اور پھر حسین اور حسین کے بعد علی بن الحسین اس کے بعد محمد بن علی اس کے بعد جعفر بن محمد اس کے بعد موسیٰ بن جعفر اس کے بعد علی بن موسیٰ اس کے بعد محمد بن علی اس کے بعد علی بن محمد اس کے بعد حسن بن علی اور پھر حسن کے فرزند حجت خدا امام ہوں گے۔

اس کے بعد فرمایا: کہ یہ اسماء اسی ترتیب سے ساحت عرش پر لکھے ہوئے ہیں، اور جب میں نے ان اسماء کو دیکھا تو خدا سے سوال کیا کہ یہ اسماء کس کے ہیں! تو خدا نے فرمایا:اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ تمہارے بعد ہونے والے امام ہیں کہ جنھیں پاک قراردیا گیا ہے اور وہ معصوم ہیں نیز ان کے دشمنوں پر بے شمار لعنت کی گئی ہے۔(۷)

ان آیتوں کے علاوہ حدیث ثقلین جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ائمہ ا طہار علیہم السلام کو قرآن کے مساوی قرار دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ یہ دونوں کسی بھی حال میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے، جو ائمہ معصومین علیہم السلام کی عصمت پر ایک روشن دلیل ہے، اس لئے کہ ایک معمولی خطا کا بھولے سے بھی سرزد ہوجانا قرآن عملی مفارقت کا سبب ہوگا۔

علم امام۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ائمہ ا طہار علیہم السلام لوگوں کے مقابلہ میں علمی اعتبار سے بہت بلند مقامات کے حامل تھے جیسا کہ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(لَا تُعَلِّمُوهُم فَاِنَّهُم اَعلَمُ مِنکُم )

انھیں تعلیم نہ دو اس لئے کہ وہ تم لوگوں سے کہیں زیادہ جاننے والے ہیں(۸)

مخصوصاً حضرت علی علیہ السلام جو بچپنے سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سائے میں رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آخری سانسوں تک آپ کے علوم سے مستفید ہوتے رہے، جیسا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود فرمایا:

(اَنَا مَدِینَةُ العِلمِ وَ عَلِّ بَابُهَا )(۹)

میں علم کا شہر ہوں اور حضرت علی علیہ السلام اُس کا دروازہ ہیں۔

اس کے علاوہ خود امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

( اِنَّ رَسُولَ اللَّهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَّمَن اَلفَ بَابٍ وَ کُلُّ بَابٍ یَفتَحُ اَلفَ بَابٍ فَذَلِکَ اَلفَ اَلفَ بَاب حَتَّی عَلِمتُ مَاکَانَ وَ مَایَکُونُ اِلی یَومِ القِیَامَةِ وَ عَلِمتُ عِلمَ المَنایا وَ البَلایا وَ فَصلَ الخِطابِ)(۱۰)

یعنی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے علم کے ہزار باب سکھائے اور میں نے ہر باب سے ہزار ہزار باب کھولے جو مجموعاً ہزار ہزار باب (دس لاکھ باب ) ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اُن سب سے میںباخبرہوگیا ، اموات و آفات کے اسرار کا میں عالم اور 'عدل کے ساتھ حکم کرنا'' کا مالک ہوں۔

لیکن علوم آ ل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف اُن علوم پر منحصر نہیں ہے کہ جسے واسطہ کے ساتھ یا واسطہ کے بغیر انھوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ،بلکہ ائمہ اطہار علیہ السلام غیر عادی علوم سے بھی سرفراز تھے جس سے بصورتِ الہٰام باخبر ہوجاتے تھے(۱۱) بالکل اسی طرح کہ جیسے جناب خضر، جناب ذوالقرنین،(۱۲) حضرت مریم اورجناب موسیٰ کی والدہ پر افاضہ ہوا کرتا تھا(۱۳) جن میں سے بعض کو قرآن نے وحی سے تعبیر کیا ہے لیکن یہاں وحی سے مراد وحی نبوت نہیں ہے، اسی وجہ سے بعض ائمہ علیہم السلام بچپنے میں مقام امامت پر فائز اور دوسروں سے تعلیم حاصل کرنے سے بے نیاز ہوتے تھے۔

یہ مطلب ان روایتوں کے ذریعہ ثابت ہے جو خود ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہوئیں ہیں جن کی حجیت آپ لوگوں کی عصمت سے ثابت ہے، لیکن ان میں سے بعض کو بطور نمونہ پیش کرنے سے پہلے قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ضروری ہے جس میں بعض افراد کو'ومن عندہ علم الکتاب'(۱۴) کے عنوان سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقانیت پر بہ طور شاھد پیش کیا گیا ہے، اور وہ آیت یہ ہے

(( قُل کَفَی بِاللّهِ شَهِیداً بَینِ وَ بَینَکُم وَمَن عِندَهُ عِلمُ الکِتَابِ ) (۱۵)

آپ کہہ دیں کہ خدا میرے اور تمہارے درمیان شہادت اور گواہی دینے کے لئے کافی ہے اسی طرح وہ لوگ بھی کافی ہیں کہ جن کے پاس علم الکتاب ہے۔

پس اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ شخص جس کی گواہی خدا کی گواہی کے برابر ہو، اور علم الکتاب سے آراستہ ہو ، وہ کمالات کے عظیم درجات پر فائز ہوگا ۔

ایک دوسری آیت میں اسی شاہد کی طرف اشارہ کیا ہے:

( افَمَن کَانَ عَلی بَیِّنَةٍ مِن رَبِّهِ وَ یَتلُوهُ شَاهِد مِّنهُ ) (۱۶)

تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی کا ایک گواہ ہواس آیت میں(مِنہُ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ شاہد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان اور آپ کے ا ہل بیت سے ہے، اہل تشیع و تسنن کی طرف سے نقل ہونے والی روایتوں کے مطابق اس شاہد سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

منجملہ ابن مغازلی شافعی نے عبد اللہ بن عطا سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں ایک روز امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ ''عبد اللہ بن سلام ( آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور میں اہل کتاب کے بزرگ علماء میں سے تھے) کے فرزند ہمارے سامنے سے گذرے تو میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ومن عندہ علم الکتاب.سے مراد اس شخص کے والد ہیں؟ توامام علیہ السلام نے فرمایا نہیں،بلکہ اس سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں، اور آیہ ''

( وَیَتلُوهُ شَاهِد مِنه ) اور آیہ( اِنَّما وَلِیُکُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا ) (۱۷)

(اے ایماندارو)تمارے مالک و سرپرست بس یہی ہیں ۔ خدا اس کا رسول اور وہ مومنین جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیںاور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے اسی طرح بہت سی روایتوں کے مطابق جو شیعہ اور سنی اسناد کے(۱۸) مطابق وارد ہوئی ہیں، سورۂ ہود میں ''شاہد'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں، لہٰذا ''منہ'' سے مراد امام علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

علم الکتاب کے حامل ہونے کی اہمیت اُس وقت آشکار ہوگی کہ جب ہم جناب سلیمان علیہ السلام کے حضور میں تخت بلقیس کے حاضر کرنے کی داستان کا مطالعہ کریں:

(( وَقَالَ الذِّى عِندَهُ عِلم مِنَ الکِتَاب أَناَ آتِیکَ بِهِ قبَلَ أن یَرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُکَ ) (۱۹)

یعنی جس کے پاس کتاب کا ایک مختصر علم تھا اس نے کہا کہ میں تخت بلقیس کو آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے یہاں حاضر کروں گا۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ علم الکتاب کے ایک حصہ سے باخبر ہونا ایسے حیرت انگیز امورکا باعث ہے، پس تمام علم الکتاب سے متصف ہونا کیسے عظیم اثرات کیرونما ہونے کا سبب ہوسکتا ہے، یہی وہ نکتہ ہے جسے امام صادق علیہ السلام نے ''جناب سدیر'' سے نقل ہونے والی روایت میں فرمایا ہے، سدیر کہتے ہیں کہ میں،، ابو بصیر، یحییٰ بزاز اور دائود بن کثیر جو امام صادق علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ حضرت بڑے غضب کے عالم میں وارد مجلس ہوئے فرمایا: کہ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جو یہ خیال کرتے ہیںکہ ہمارے پاس علم غیب ہے، حالانکہ خدا کے علاوہ کوئی بھی علم غیب سے واقف نہیں ہے میں اپنی کنیز کو تنبیہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ فرار ہوگئی جبکہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ کس حجرہ میں مخفی ہے۔(۲۰)

''( انا راده الیک و جاعلوه من المرسلین'''' ) قصص ٧٠''.

سدیر کہتے ہیں: جب امام علیہ السلام اپنے گھر کی طرف جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں بھی ابو بصیر اور میسر کے ساتھ آنحضرت کے ہمراہ ہو لیا اور راستہ میں میں نے حضرت علیہ السلام سے عرض کی کہ ہم آپ پر قربان جائیں آپ نے جو کچھ اپنی کنیز کے سلسلہ میں فرمایا، اسے ہم نے تسلیم کیا اور ہم اس کے بھی معتقد ہیں کہ آپ بے شمار علوم کے مالک ہیں نیز کبھی بھی آپ کے سلسلہ میں علم غیب کا دعوی نہیں کرتے۔

ا مام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے سدیر! کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا میں نے عرض کی کہ کیوں نہیں،، تو آپ نے فرمایا کہ کیا اِس آیت کی تلاوت نہیں کی ہے:

( قَالَ الذِّى عِندَهُ عِلم مِن الکِتَابِ اَنَا آتِیکَ بِهِ قَبلَ اَن یَرتَدَّ اَلِیکَ طَرفُکَ )

وہ شخص ( آصف بن برخیا ) جس کے پاس کتاب خدا کا کچھ علم تھا بولا کہ میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا ۔

تو میں نے کہا کہ ضرور تلاوت کی ہے، پھر امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ شخص کتاب میںسے کس قدر علم کا مالک تھا؟ تو میں نے کہا کہ آپ ہی فرمائیں، پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک عظیم سمندر سے صرف ایک قطرہ کے برابر، اس کے بعد فرمایا کہ کیا اس آیت کی تلاوت کی ہے؟ (قل کفی باللہ شہیداً بین و بینکم ومَن عندہ علم الکتاب)

میں نے کہا کہ ضرور تلاوت کی ہے، تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ بتائو وہ شخص افضل ہے جو تمام کتاب کے علم سے واقف ہے یا وہ شخص جو صرف کتاب کا ایک حصہ جانتا ہے؟ تو میں نے جواب میں عرض کیا کہ جس کے پاس تمام کتاب کا علم ہے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا خدا کی قسم تمام کتاب کا علم ہما رے پاس ہے(۲۱) اب اس کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے علوم کو بیان کرنے والی روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

امام رضا علیہ السلام، امامت کے سلسلہ میں ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں : جب خدا کسی کو لوگوں کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے اور اس کے دل میں حکمت کے چشمے جاری اور اُسے علم کی دولت سے آراستہ کردیتاہے تا کہ وہ سوالات کے جوابات دے سکے ،اور حق کو پہچاننے میں سرگردان نہ ہو، چنانچہ ایسا شخص معصوم، خدا کی طرف سے تائید شدہ اور خطائوں سے محفوظ ہوتا ہے۔

در اصل خدا، اِس لئے اس کو یہ خصلتیں عطا کرتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں پر حجت تمام کر سکے لھذایہ ایک عطیہ ہے جسے خدا پسند کرتا ہے ا ُسے عطاء کرتا ہے

ا سکے بعد فرمایا کیا عوام میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ ایسے شخص کو پہچان کر اسے منتخب کرلیں، اور جب وہ کسی کا انتخاب کرتے ہیں تو کیا وہ شخص ایسی صفات کا مالک ہوتا ہے ؟!(۲۲)

حسن بن یحییٰ مدائنی امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب امام سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو وہ کس طرح جواب دیتے ہیں تو آپ ( علیہ السلام) نے میں فرمایا: کبھی اُس پر الہٰام ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ سے سنتا ہے اور کبھی دونوں ایک ساتھ(۲۳) واقع ہوتا ہے۔

ایک دوسری روایت میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''وہ امام جسے معلوم نہ ہو کہ اس پر کیسی مصیبت آنے والی ہے اور اس کا انجام کیاہوگا تو وہ بندوں پر خدا کی حجت نہیں ہوسکتا۔(۲۴)

ایک دوسری روایت میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب بھی امام کسی چیز کے متعلق جانناچاہتا ہے تو خدا اُس سے باخبر کردیتا ہے۔(۲۵)

اسی طرح آپ کی جانب سے نقل ہونے والی متعدد روایتوں میں ایا ہے کہ روح، جبرئیل و میکائیل سے عظیم تر مخلوق ہے جو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پا س تھی، اُن کے بعد ائمہ علیہم السلام کی طرف منتقل ہوگئی جن سے ان کی مدد ہوتی ہے۔(۲۶)

سوالات

١۔امام علیہ السلام کی عصمت کو کن آیتوں کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٢۔کون سی روایت امام علیہ السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے؟

٣۔ ائمہ علیہم السلام کن راہوں سے علوم کو حاصل کرتے ہیں؟

٤۔ گذشتہ ادوار میں کون لوگ ایسے علم کے مالک تھے ؟

٥۔ کون سی آیت علم امامت پر دلالت کرتی ہے اس کی وضاحت کریں؟

٦۔ علم الکتاب کی اہمیت بیان کریں؟

٧۔علوم ائمہ علیہم السلام سے مربوط چند روایتوں کو پیش کریں؟

____________________

(١) سورۂ بقرہ آیت ١٢٤.

(٢)سورہ نسا۔آیت٥٩

(٣) سورۂ احزاب آیت ٣٣

(٤) سورۂ یس ٨٢.

(۵) مزید وضاحت کے لے تفسیر المیزان اور کتاب ''الامامة والولایة فی القرآن''. کی طرف رجوع کیا جائے

(۶) غایة المرام ص ۔٢٨٧ ٢٩٣.

(۷) غایة المرام (ط قدیم) ۔ج،٦۔ ص ٢٩٣

(۸) غایة المرام ۔ص،٢٦٥ اصول کافی۔ ج ١' ص٢٩٤

(۹)مستدرک حاکم۔ ج٣ ص ٢٢٦قابل توجہ نکتہ تو یہ ہے کہ ایک سنی عالم نے ایک کتاب بنام

''فتح الملک العلی بصحة حدیث مدینة العلم علی'' نے لکھی جو ١٣٥٤ میں قاہرہ میں چھپی ہے

(۱۰) ینابیع المودہ۔ ص٨٨ اصول کافی ۔ج ١ ص،٢٩٦

(۱۱) اصول کافی۔ کتاب الحجہ۔ ٢٦٤ ٢٧٠

(۱۲)اصول کافی ۔ج ١، ص ٢٦٨

(۱۳) سورۂ کہف۔ ٦٥ ٩٨ آل عمران ۔٤٢، مریم ١٧' ٢١ طہ۔ ٣٨ قصص۔٧

(۱۴) سورۂ رعد۔ ٤٣

(۱۵)سورۂ رعد ۔٤٣

(۱۶) سورۂ ہود۔ آیت/ ١٧

(۱۷) سورۂ مائدہ۔ آیت /٥٥

(۱۸)غایة المرام (ط قدیم) ٣٥٩.٣٦١

(۱۹) سورۂ نمل۔آیت ٤٠

(۲۰) اس حدیث کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام نے یہ باتیں نامحرموں سے کہی ہیں، اور یہ نکتہ معلوم رہے کہ وہ علم غیب جو خدا سے مخصوص ہے اس سے مراد وہ علم ہے جسے حاصل کرنے کے لئے تعلیم کی ضرورت نہ ہو جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے سائل کے سوال کے ( کیا آپ علم غیب کے مالک ہیں) کے جواب میں فرمایا کہ '' انما ہم تعلم من ذی علم '' وگرنہ ا نبیاء اور اولیاء الٰہی وحی اور الہٰام کے ذریعہ علوم غیبی سے واقف تھے، مادر حضرت موسیٰ کے لئے خدا کی جانب سے الہٰام انھیں مقامات میں سے ایک ہے کہ جس کے لئے شک نہیں کیا جاسکتا ۔

(۲۱)اصول کافی۔ ج١ ص٢٥٧(طبع دار الکتب الاسلامیہ).

(۲۲)اصول کافی۔ ج١ ص ١٩٨ ٢٠٣.

(۲۳)بحار الانوار ۔ج٢٦ ص٥٨.

(۲۴)اصول کافی ۔ج١ ص١٥٨.

(۲۵)اصول کافی ۔ج١ص ٢٥٨.

(۲۶) اصول کافی ج١ص ٢٧٣.