درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48368
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48368 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

دوسرا درس

دین میں تحقیق

تحقیق کے عوامل

دین میں تحقیق کی اہمیت

ایک شبہ کا حل

تحقیق کے عوامل

انسان کی نفسانی (روحانی و معنوی) خصوصیات میں سے ایک خاصیت حقائق اور واقعیات کا پتہ لگانا ہے جو ہر انسان میں آغاز ولادت سے پایا جاتا ہے، اور عمر کی آخری سانسوں تک یہ غریزۂ فطری باقی رہتا ہے، یہی حقیقت جوئی کی فطرت جسے ''حس کنجکاوی'' بھی کہا جاتا ہے انسان کو دین کے دائرے میں موجودہ مسائل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اور دین حق کی شناخت کے لئے آمادہ کرتی ہے، جیسے:کیا غیر مادی اور غیرمحسوس شیء (غیب) کا وجود ہے؟ اور اگر ایسا کچھ ہے تو پھر کیا جہان مادی و محسوس اور جہان غیب میں کوئی ربط ہے؟ اور اگر ان دونوں میں ربط ہے تو پھر کیا کوئی نا محسوس موجود ہے جو اس جہان مادی کا خالق ہو؟

کیا انسان کا وجود اسی مادی بدن میں منحصر ہے ؟اور اس کی حیات صرف اسی دنیا سے مخصوص ہے یا اس دنیوی د زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے؟ اور اگر انسان کے لئے ایک دوسری زندگی آخرت ہے تو کیا اس دنیاوی زندگی اور اس آخرت میں کوئی ربط ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی ربط ہے تو پھر

امور دنیوی میں کون سے امور آخرت کی زندگی میں مؤثر ہیں؟ اور کون سا راستہ زندگی کو صحیح گذارنے کے طور طریقہ کی پہچان کے لئے ہے؟ ایسا طور طریقہ جو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کی ضمانت دے؟ اور وہ طور طریقہ کیا ہے؟

پس حقیقت جوئی کی فطرت وہ اولین عامل ہے جو انسان کو مسائل کی جستجو منجملہ دینی مسائل اور دین حق کو پہچاننے کے لئے ابھارتی ہے۔

حقیقت کی شناخت کے لئے انسانی فطرت میں جو عوامل جوش و ولولہ کا سبب بنتے ہیں ان میں سے ایک ان تمام آرزؤں کو حاصل کرنا ہے جو ایک یا چند فطرتوں (حقائق کی شناخت کے علاوہ) سے متعلق اور کسی خاص معلومات پر منحصر ہیں، جیسے کہ مختلف دنیوی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا، علمی کوششوں کا نتیجہ ہے اور علوم تجربی کی کامیابیاں انسانوں کے لئے اپنی آرزؤں کے حصول میں نہایت مددگار ہیں، اسی طرح اگر دین ، انسان کے منافع و مصالح اور اس کی آرزؤں کو پورا کردے ،اور برے کاموں سے اسے روک دے تو یہ امر اس کے لئے نہایت مطلوب ہوگا، لہذا منفعت طلبی کی حس اور نقصان سے بچنے کی فطرت، دین میں اور زیادہ تحقیق و جستجو کی امنگ کو افزائش دینے کا سبب ہے۔

لیکن معلومات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے اور تمام حقائق کو درک کرنے کے لئے کافی و سائل کا ہونا ضروری ہے، یہ ممکن ہے کہ انسان تحقیق کے لئے ایسے مسائل کا انتخاب کرے کہ جنھیں حل کرنا آسان سہل الوصول اور محسوس ہو لیکن دینی مسائل کی جستجو سے صرف اس بناپر پرہیز کرتا رہے کہ ان کا حل کرنا مشکل اور کسی اہم علمی نتائج تک پہچنا ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے یہ امر ضروری ہے کہ لوگوں کے لئے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ دینی مسائل کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان مسائل میں تحقیق و جستجو بقیہ مسائل کی جستجو سے کاملاً متفاوت ہے۔

بعض ماہرین نفسیات کا عقیدہ ہے کہ اساساً خدا پرستی ایک مستقل آرزو ہے، جس کے سرچشمہ کو ''حس دینی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسے حس جستجو، حسن نیکی اور حسن زیبائی (خوبصورتی) میں انسانی روح کے لئے چوتھاپہلوشمار کیا جاتا ہے۔

ان لوگوں نے تاریخی شواہد کی رو سے یہ امر ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی کی حس ہر زمانہ میں مختلف شکلوں میں رہی ہے لہذا اس حس کا ہمیشگی اور اس طرح وسیع ہونا اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔

البتہ اس فطرت کے عمومی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام انسانو ںمیں زندہ و بیدار بھی ہو اور اسے مطلوب کی جانب بر انگخیتہ کرنے میں مدد بھی کرے ، بلکہ صحیح تربیت کے نہ ہونے اور فاسد معاشرہ کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی دوستی بہت ضعیف پڑ گئی ہو یا اسے اپنی صحیح مسیر پر حرکت کرنے سے منحرف کر دے ، جیسا کہ بقیہ تمام فطرتوں میں ضعف اور انحراف کا امکان ہے۔

اس نظریہ کے تحت دین میں تحقیق و جستجو ایک مشتعل فطرت ہے ، دلائل اور برہان کے ذریعہ اسے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس مطلب کو آیات و روایات کے ذریعہ مورد تائید قرار دیا جاسکتا ہے کہ جو دین کے فطری ہونے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن چونکہ اس میل فطری کی تاثیر آشکار نہیں ہے لہٰذا کوئی بحث و مباحثہ کے دوران اپنے موقف کی تائید میں اس کے وجود کا منکر ہو سکتا ہے اسی وجہ سے ہم تنہا اسی بیان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ عقلی دلائل کے ذریعہ اس حقیقت کو ثابت کریں گے۔

دین میں تحقیق۔

یہ حقیقت روشن ہوچکی ہے کہ ایک طرف حقائق کی شناخت کا فطری رجحان اور دوسری طرف حصول منفعت و مصلحت اور خطرات سے بچنے کی فطری خواہش ایک ایسا طاقتور عامل ہے جو تفکر و تحقیق اور علوم کی تحصیل میں نہایت مددگار ہے،یہی وجہ ہے جب کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ طول تاریخ میں بعض انسانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم پروردگار کی طرف سے انسانوں کو دوجہان کی سعادت تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں'' جنھوں نے اپنے پیغامات کے ابلاغ اور انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی بھی قسم کی زحمت اٹھانے سے دریغ نہیں کیا، اور تمام سختیوں کو اپنے لئے خریدا حتی کہ اپنی جانوں کو بھی اس ہدف کے تحت قربان کردیا، تو اس کے اندر دین میں تحقیق و جستجو کی ایک عجیب سی امنگ پیدا ہوتی ہے، اور وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ان لوگوںنے جو

دعویٰ کیا تھا کیا ان کا یہ دعوی درست اور منطقی دلائل کی رو سے صحیح تھا یا نہیں، خصوصاً یہ جزبہ بیداری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ا نھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے حیات جاودانی اور نعمت و سعادت کی بشارت دی ہے، عذاب دائمی اور ابدی شقاوت سے ڈرایا ہے، یعنی ان کی دعوت کو قبول کرلینا فراوان نعمتوں کے حصول کا موجب اور اس سے انکار کرنا دائمی خسران کا سبب ہے، ان سب حقائق کے جاننے کے بعد کون شخص دین سے غفلت کے لئے عذر پیش کرسکتا ہے اور دین کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو سے منہ پھیر سکتا ہے؟

ہاں! ممکن ہے کہ بعض اشخاص، آرام طلب اور کاہل ہونے کی وجہ سے یہ تحقیق انجام نہ دیں یا پھر دین کے قبول کرلینے کے بعد اس کی پابندیوں اور بعض نفسانی خواہشوں پر ر وک لگ جانے کی وجہ سے دین میں جستجو کرنے سے پرہیز کریں۔(۱)

لیکن ایسے اشخاص کو اپنی آرام طلب طبیعت کی سزا بھگتنا ہوگی، اور عذاب ابدی میں گرفتار ہونا ہوگا ایسے لوگوں کی حالت ان بچوں سے بھی بد تر ہے جو دوائوں کی تلخی کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور اپنے لئے حتمی موت کو دعوت دے د یتے ہے، اس لئے کہ یہ بچے اپنے فائدہ و نقصان کو سمجنے کے سلسلہ میں کافی عقل و شعور نہیں رکھتے ڈاکٹر کی ہدایتوں سے مخالفت دنیا کی چند روزہ نعمتوں سے محرومی سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بالغ انسان ،سود و زیاں کو درک کرنے اور جلد ختم ہوجانے والی نعمتوں کے سلسلہ میں غور و فکر کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن نے اپنے غافل انسانوں کو حیوانات سے بھی زیادہ گمراہ جانا ہے۔

( اُولَئِکَ کَالاَنعَامِ بَل هُم اَضَلُّ، اُولَئِکَ هُمُ الغَفِلُونَ ) (۲) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گزرے، یہی لوگ ( امور حق سے) بالکل بے خبر ہیں۔

ایک اور مقام پر حیوانات سے بدتر کہا ہے۔

( اِنَّ شَرَّ الدَّوآبٍّ عِندَ اللّهِ الصُمُّ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ ) (۳)

اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرہ گونگے (کفّار ) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے

ایک شبہ کا حل۔

اس مقام پر شاید کوئی شحص اپنے لئے یہ بہانا نہ پیش کرے کہ ایک مسئلہ کے تحت تنہا اسی صورت میں تحقیق و جستجو مفید ہے کہ جب اس کے حل کی امید ہو لیکن ہم دین اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں ایسی فکر کے مالک نہیں ہیں، اسی وجہ سے اپنی طاقت کو ایسے امور میں صرف کرنے کی بجائے کیوں نہ ایسے موارد میں صرف کریں جس میں زیادہ سے زیادہ نتیجہ بر آمد ہونے کی توقع ہو ، ایسے شخص کا جواب اس طرح دیں گے ۔

سب سے پہلے یہ کہ: دین کے اساسی مسائل کو حل کرنا کسی بھی صورت میں علمی مسائل کے حل کرنے سے کم نہیں ہے اور اس بات کو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض مشکل مسائل کا حل دانشمندوں کے سالہا سال کی زحمتوں کا نتیجہ ہے ۔

دوسرا یہ کہ : احتمال کی قدر و قیمت تنہا ایک عامل کے تابع (مقدار احتمال) نہیں ہے، بلکہ اس درمیان متحمل کی مقدار کو بھی جاننا ہوگا، مثلاً اگر ایک اقتصادی تجارت میں منفعت ٥% اور دوسری تجارتوں میں ١٠ % ہو لیکن اگر پہلی والی تجارت میں متحمل کی منفعت ایک ہزار روپیہ اور دوسری

تجارت میں ایک لاکھ ر وپیہ ہو تو پھر پہلی تجارت پانچ گونہ دوسری تجارت پر فوقیت رکھتی ہے اگر چہ پہلی تجارت میں مقدار احتمال ٥ % فیصد جودوسری تجارت کی مقدار احتمال ١٠% کا نصف ہے(۴)

چونکہ دین میں تحقیق کی منفعت کا احتمال بے شمار ہے ہر چند قطعی نتیجہ ہے کہ دستیابی کا احتمال ضعیف ہو، لیکن اس راہ میں تحقیق اور کوشش ہر اس راہ سے زیادہ ہے جسمیں نتیجہ محدود ہو، اور تنہا اسی صورت میں دینی مسائل میں ترک تحقیق قابل قبول ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ دین غیر درست اور اس کے مسائل قابل حل نہیں ہیں، لیکن ایسا یقین و اطمینان کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟!

سوالات

١۔ حقائق کی شناخت کے لئے انسان کا غریزہ کیا ہے؟

٢۔ کیوں انسان تمام حقائق کی تحقیق نہیں کرتا؟

٣۔ حس دینی کا مطلب کیا ہے؟ اور اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کون سی دلیل ذکر کی گئی ہے؟

٤۔ اصول دین میں تحقیق کی ضرورت کو بیان کریں؟

٥۔ کیا دین کے قطعی مسائل کو حل کرنے کی امید نہ ہونے کو، ترک تحقیق کے لئے عذر بنایا جاسکتا ہے؟

__________________

(١) ''بل یرید الانسان لیفجرامامه'' . سورۂ قیامت ۔آیت٥/. ترجمہ: مگر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی (ہمیشہ) برائی کرتا جائے

(٢)سورۂ اعراف۔ آیت/ ١٧٩. وہ لوگ چو پائے بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں.

(۳)سورۂ انفال۔ آیت/ ٢٢. وہ لوگ تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے کفار ہیں جو حقائق کو درک نہیں کرتے.

(۴)٥٠: ٥٠٠٠١٠٠ضرب ١٠٠٠۔ ١٠: ١٠٠ ١٠٠٠ : ١٠١٠٠ ضرب ١٠٠۔ ٥: ١٠ تقسیم ٥٠.

تیسرا درس

انسان بن کے جینے کی شرط

مقدمہ

انسان کمال طلب ہے

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

نتیجہ

مقدمہ

گذشتہ درس میں آسان عبارتوں کے ذریعہ دین میں تحقیق اور دین حق کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی گئی کہ یہ امر منفعت جوئی اور ضرر سے بچنے کے لئے ایک فطری عامل ہے جسے ہر انسان اپنے وجود میں پاسکتا ہے(۱) یا علم حضوری اس کی تشخیص میں اشتباہ نہیں کرسکتا۔

اس درس میں اسی مطلب کو ایک دوسرے انداز میں ثابت کریں گے، جو دقیق مقدمات پرمشتمل ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کرے، جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کا معتقد نہ ہو وہ کمال انسانی کو حاصل نہیں سکتا، بلکہ اسے سرے سے ایک حقیقی انسان نہیں مانا جاسکتا یا دوسری تعبیرکے مطابق انسان بن کے جینے کے لئے جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔

یہ دلیل تین مقدمات پر مشتمل ہے۔

١۔انسان ایک کمال جو (کمال طلب) موجود ہے۔

٢۔ کمال انسانی حکم عقل کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اختیاری کردار کے سایہ میں حاصل ہوتا ہے۔

٣۔ عقل کے احکام عملی ایک خاص نظری شناخت کے پرتو میں آشکار ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہترین جہان بینی کے تین اصول ہیں، یعنی مبدا وجود کی شناخت (توحید) حیات کا انجام(معاد) حاصل کرنے کے لئے ضمانت شدہ راستہ (نبوت) یا ہستی کی پہچان انسان کے پہچان اور راہ کی پہچان ہے اب اس کے بعد ان تینوں مقدمات کی وضاحت کے ساتھ بحث کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انسان کمال طلب ہے۔

اگر انسان اپنے باطنی اور رو حی (معنوی) میلانات میں غور و فکر کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ یہ سارے تمایلات ایک مخصوص ہدف کی جانب گامزن ہیں، اصولاً کوئی بھی انسان اس بات کو پسند نہیں کرتا، کہ اس کے وجود میں کوئی نقص ہو اور اپنی پوری تاب و توانائی کے ساتھ اپنے ذاتی عیوب و نقائص کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے تا کہ اپنے مطلوب ہدف تک پہنچ سکے، اور جب تک وہ عیوب دور نہیں ہوتے انھیں لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھتا ہے۔

یہ میلانات جب اپنی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں تو یہی مادی و معنوی تکامل (کمال کی طرف جانے) کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن اگر اسباب و شرائط کی بنیاد پر یہی میلانات انحرافی مسیر پر گامزن ہوجائیں تو غرور و گھمنڈ، ریا کاری اور خودخواہی جیسی بری صفت انسان کے اندر پیدا جاتی ہے

بہر حال کمال طلبی کی صفت ایک قوی فطرت ہے جو روح انسان میں پائی جاتی ہے ، جس کے واضح نمونہ اور آثار بخوبی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں لیکن ایک معمولی توجہ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سب کا ریشہ وہی کمال جوئی ہے۔

انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے۔

نباتات کا رشد کرنا خارجی اسباب و شرائط کا نتیجہ اور ایک جبری امر ہے ،کوئی بھی درخت اپنے اختیار سے رشد نہیں کرتا، اور اپنی مرضی کے مطابق پھل نہیں دیتا، اس لئے کہ وہ ارادہ اور شعور کا حامل نہیں ہے۔

لیکن جانوروں کے رشد و نمو میں انتخاب کے آثار مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ارادہ و انتخاب اپنی طبیعی تقاضوں کے مطابق ایک محدود دائرے میں غرائز ہ حیوانی کے تحت ہر حیوان کی اپنی حسی قوت کے مطابق ایک محدود شعور کے پر تو میں ہے۔

لیکن انسان کی ذات نباتاتی و حیوانی خواصیات کے حامل ہونے کے علاوہ دورو حانی امتیازی پہلوؤں کا بھی مالک ہے، ایک طرف تو اس کے فطری میلانات اور خواہشات کے لئے کوئی حد مقررنہیں ہے اور دوسری طرف اس کی قوت عقل کی کامل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معلومات کو بے نہایت بنا سکتا ہے، ان دونوں خصوصیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کے ارادوں کی وسعت طبیعت کے حدود سے بھی کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔

جس طرح نباتات کے کمالات ایک خاص نباتی طاقت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور حیوانی کمالات انھیں حسی ادراکات کے نتیجہ پائے جانے والے ارادوں کی وجہ سے ہے اسی طرح انسانی کمالات کا سر چشمہ در واقع اس کا روحانی پہلو ہے جو عقل اور ارادوں کے ذریعہ حاصل ہوتے

ہیں، وہ عقل کہ جو مطلوب کے مراتب کو پہچان لے اور تزاحم(اھم اور مھم کو سمجھنے کے وقت ان میں سے بہترین کو ترجیح دے۔

لہٰذا رفتار و کردار کے انسانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عقل کی راہنمائی میں انسانی میلانات کے ذریعہ وجود میں آنے والے ارادوں کے ذریعہ حاصل ہو اور وہ عمل جو صرف اور صرف حیوانی غرائز کے ذریعہ عمل میں آئے، وہ حیوانی ہے جس طرح کہ وہ حرکت جو مکینکی طاقت کے ذریعہ انسانی بدن میں پیدا ہوتی ہے وہ ایک فیزیکی(طبیعی حرکت ہے۔

عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے

اختیاری عمل ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مطلوب نتیجہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس کی قدر و قیمت اس کے ہدف کے مطابق ہے جو روح کے تکامل(کمال کی طرف جانے) میں اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا جو عمل بھی کسی روحی کمال کے خاتمہ کا سبب ہے اس کی قدر و قیمت منفی ہوگی۔

لہذا اسی صورت میںعقل ، انسان کے اختیاری اعمال پر قضاوت کرسکتی ہے کہ جب انسانی کمالات اور ان کے مراتب سے پوری طرح آگاہ ہو، اور اچھی طرح سے جانتی و پہچانتی ہو کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اوراس کی زندگی کی شعاعوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اور وہ کمالات کے کتنے مدارج طے کرسکتا ہے؟ یا دوسری تعبیر کے مطابق اس کے وجود کے کتنے پہلو ہیں ؟اور اس کی خلقت کامقصد وہدف کیا ہے؟

اسی وجہ سے صحیح آئیڈیالوجی کا حاصل کرنا، یعنی اختیار ی اعمال پر ایک پرُ ارزش نظام کا حاکم صحیح جہان بینی اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی راہ میں ایک قدم ہے ، لہٰذا جب تک وہ ان مسائل کو حل نہیں کرتا اس وقت تک کردار و اعمال کے سلسلہ میں کوئی قطعی قضاوت نہیں کر سکتا، جس طرح سے کہ جب تک ہدف معلوم نہیں ہوتا اس وقت تک اس ہدف تک جانے والے راستہ کی تعیین غیر ممکن

ہے، لہذا یہ معارفِ نظری جو جہان بینی کے اساسی مسائل کو تشکیل دیتے ہیں حقیقت میں اسے عقل احکام عملی اور باارزش نظام کے مبنیٰ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

نتیجہ۔

ان مقدمات کی تشریح کے بعد اب ہم دین میں تحقیق کی ضرورت، صحیح آئیڈیا لوجی اور جہان بینی کو اس طرح ثابت کر یں گے۔

انسان اپنی فطرت کی وجہ سے اپنے انسانی کمال کی جستجو میں ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے مطلوبہ کمال کو حاصل کرلے، لیکن قبل اس کے کہ وہ ان امور کو پہچانے جو اسے کمال تک پہنچاسکتے ہیںضروری ہے کہ وہ اپنے انتہائی کمال کو پہچانے، اور اس انتہائی کمال کا جاننا اپنے وجود کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام کے بارے میں اطلاع حاصل کرنے میں ہے اس کے بعد اپنے کمال کے مختلف مراتب میں مختلف اعمال کے درمیان موجود، رابطہ کے مثبت یامنفی ہونے کو تشخیص دے، تا کہ وہ اس طرح اپنے انسانی کمال کے صحیح راستہ کو پہچان سکے، لہٰذا جب تک وہ نظری شناخت (اصول جہان بینی) کو حاصل نہیں کرتا اس وقت تک صحیح عملی نظام (آئیڈیالوجی) کو قبول نہیں کرسکتا۔

لہذا دین حق کی معرفت حاصل کرنا جو صحیح جہان بینی اور آئیڈیالوژی کو شامل ہے ضروری ہے اور اس کے بغیر کمال انسانی تک پہنچنا غیر ممکن ہے جیسا کہ وہ رفتار جوایسے افکار و اقدار کا نتیجہ نہ ہو وہ انسانی نہیں ہو سکتی یا وہ لوگ جو انھیں جاننے کے باوجود انکار کرتے ہیں، تنہا اپنی حیوانی خواہشات اور جلد ختم ہو نے والی مادی نعمتوں پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی اھمیت اصل میں ایک حیوان سے زیادہ نہیں ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے

'( 'یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الاَنعَامُ'' ) .(۲)

وہ دنیا میں سکون حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ( بے فکری سے) کھاتے پیتے ہیں جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں ۔

چونکہ وہ لوگ اپنی انسانی صلاحیتوں کو تباہ کرتے ہیں لہٰذا درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے

( ''ذَرهُم یَأکُلُوا وَیَتَمَتَعُوا وَیُلهِهِمُ الاَمَلُ فَسَوفَ یَعلَمُونَ'' ) .(۳)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں انھیں کی حالت پر چھوڑ دیجئے تا کہ (خوب )عیش و نوش کر لیں اور ( زندگی کے ) مزے اڑالیں اور ان کی تمنا ئیں انہیں لہو و لعب میں مشغول رکھے عنقریب وہ جان لیں گے ۔

سوالات

١۔ دین میں تحقیق کی دوسری دلیل کن مقدمات پر مشتمل ہے؟

٢۔ انسانی کمال طلبی کی وضاحت کریں؟

٣۔ انسان کی مہم خصوصیات کو بیان کریں؟

٤۔مذکورہ خصوصیات اور ان کے حقیقی کمال میں کیا رابطہ ہے؟

٥۔ کسی طرح آئیڈیالوژی، جہان بینی پر منحصر ہے؟

٦۔ دوسری دلیل کی منطقی صورت بیان کریں؟

__________________

(۱)اس دلیل کی شکل کچھ اسطرح ہے اگر منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے۔ ایسے

دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا جو بے نہایت منفعت کی طرف راہنمائی اور عظیم ضرر سے نجات دینے کا مدعی ہے ضروری ہے (تحقق معلول کے لئے علت ناقصہ ضرورت بالقیاس ہے) لیکن منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے، لہذا ایسے دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ضروری ہے۔

یہ استدلال جسے ''قیاس استثنائی'' کی شکل میں بیان کیا گیا ہے عقل کے احکامِ عملی اور ضرورت بالقیاس کی طرف ان کی باز گشت کے سلسلہ میں ایک خاص منطقی تحلیل ہے جو معلول (نتیجہ مطلوب) تک پہنچنے کے لئے ایک علت (فعل اختیاری) ہے، جیسا کہ اسے بیان کیا جاچکا ہے۔

اس درس میں یعنی مورد بحث دلیل کو اس شکل میں بیان کیاجاسکتا ہے، اگر کمال انسانی تک پہنچنا مطلوب فکری ہو تو اصول جہان بینی کی پہچان جو تکامل روح کے لئے شرط ہے ضروری ہوگا، لیکن کمال تک پہنچنا مطلوب فطری ہے، لہٰذا ان اصول کا جاننا ضروری ہے۔

(۲)سورۂ محمد۔ آیت/ ١٢ ۔ وہ حیوانوں کی طرح زندگی گذارتے ہیں اور کھاتے ہیں۔

(۳)سورۂ حجر۔ آیت/ ٣. انھیں ،انھیں کے حال پر چھوڑدیں کہ کھائیں اور زندگی گذاریں اور ان کی دنیوی آرزوئیں انھیں مگن رکھیں کہ عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا.

چوتھا درس

جہان بینی کے بنیادی مسائل کا راہ حل

مقدمہ

شناخت کی قسمیں

معرفت کی قسمیں

تنقید

نتیجہ

مقدمہ:

جب ایک انسان معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور دین حق کے اصول و قواعدکی پہچان کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو وہ پہلے ہی مرحلہ میں ان سوالوں کاسامنا کرتاہے کہ وہ کس طرح ان مسائل کو حل کرے؟ کس طر یقہ سے بنیادی اور صحیح معارف کو حاصل کرے؟ اور اصولاً ان کی شناخت کے راستے کیا ہیں؟ نیز ان میں سے کسے ان معارف تک پہنحنے کے لئے انتخاب کرے؟

ان مطالب پر فنی اور تفصیلی گفتگو کرنے کے لے فلسفہ کی ایک بحث ا(شیاء کی معرفت) (اپیستمولوژی) کا سہارا لینا ضروری ہے ،' کہ جسمیں شناخت انسان کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے، اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ہم یہاں پر ان تمام پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے اس لئے کہ وہ ہمیں اس کتاب میں اصل ہدف سے دور کردیں گے، اس وجہ سے ان میں سے فقط بعض کے بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے،اور مزید تحقیق کے لے (انشاء اﷲ)ہم ضرورت پڑنے پر اشارہ کریں گے(۱)

شناخت کی قسمیں ۔

انسان کی اس شناخت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

١۔ شناخت علمی( تجربی) (خاص اصطلاح میں) یہ شناخت، حسی امور کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اگر چہ عقل ادراکات حسی کی عمومیت اور اس کے مجرد عن المادہ ہونے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے شناخت علمی سے ،تجربی علوم مثلاً سائنس، لبیرٹری، اور زیست شناسی (علم حیات )جیسے علوم میں استفادہ کیا جاتا ہے۔

٢۔ شناخت عقلی : ایسی شناخت مفاہیم انتزاعی (معقولات ثانیہ) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اس میں اساسی اور بنیادی رول عقل کا ہوتا ہے ، ہر چند اس بات کا امکان ہے کہ بعض قضایا بہ عنوان مفا ھیم انتزاعی یا مقدمہ از قیاس ہونے کی وجہ سے حسی و تجربی ہوں ، اس شناخت کی وسعت منطق، علوم فلسفیہ، اور ریاضیات سب کو شامل ہے۔

٣۔ شناخت تعبدی : اس شناخت کی حثیت ثانوی ہے، جو (قابل اعتما د ماخذ و مدرک ) (اتورتیہ) اور صادق شخص کے خبر دینے کے ذیعہ حاصل ہوتی ہے وہ مطالب جو پیروان دین ، اپنے دینی رہنماہونے کے ناطے ان کے اقوال کو قبول کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ان کا یہ اعتقاد حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے اعتقاد سے کہیں زیادہ قومی ہوتا ہے جو اسی شناخت کا ایک حصہ ہے۔

٤۔شناخت شہودی : یہ شناخت دوسری اقسام کے بر خلاف مفہوم ذ ہنی کے واسطہ کے بغیر معلوم ذات عینی سے متعلق ہوتی ہے، جس میں کسی قسم کے اشتباہ کا امکان نہیں رہ جاتا لیکن جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جو کچھ بھی شہودی اور عرفانی کے نام سے بیان کیا جاتا ہے در حقیقت شھودات کی ایک ذہنی تفسیر ہوتی ہے جو قابل خطا ہے۔(۲)

معرفت کی قسمیں

شناخت کی قسمیں جن اصولوں کی بنیاد پر بیان کی گئیں ہیں انھیں اصولوں کے ذریعہ جہاں بینی کی بھی تقسیمات کی جاسکتی ہیں۔

١۔ معرفت علمی: یعنی انسان ،علوم تجربی کے ذریعہ حاصل ہونے والے نتائج کے ذریعہ ہستی کے سلسلہ میں ایک کلی معلومات حاصل کر ے۔

٢۔ معرفت فلسفی: وہ معرفت جو از راہ استدلال اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہو ۔

٣۔ معرفت دینی: وہ معرفت جو رہبران دین پر ایمان رکھنے اور ان کی گفتار کو قبول کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

٤۔ معرفت عرفانی: وہ معرفت جو کشف و شہود اور اشراق کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعا جہان بینی کے بنیادی مسائل کو انھیں چار تقسیموں کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، تا کہ ان میں کسی ایک کے برتر ہونے کا سوال پیدا نہ ہو ۔

تنقید۔

حس و تجربی شناخت کی وسعت اور مادی و طبیعی قضایا میں محدودیت کی وجہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ علوم تجربی کی بنیاد پر معرفت کے اصول کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اس سے مربوط مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ اس کے مسائل علوم تجربی کی حدود سے خارج ہیں، اور علوم تجربی میں ان مسائل کے تحت نفی و اثبات کا امکان نہیں ہے، جس طرح سے کہ وجود خدا کو آزمائشوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، یا (العیاذ باللہ) اسکی نفی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ علوم تجربی کے آلات ماوراء طبیعت تک پہنچنے سے قاصر ہیں، بلکہ ان کے ذریعہ تنہا مادی قضایا میں اثبات و نفی کا حکم صادر کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا علمی و تجربی معرفت (اپنے اصطلاحی معنی ) کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہے اور اسے صحیح معنوں میں کلمہ معرفت سے یاد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے '' جہان مادی کی شناخت'' کا نام دیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ ایسی شناخت معرف کے بنیادی مسائل کا جواب نہیں دے سکتی۔

لیکن وہ شناخت جو تعبدی روش کے ذریعہ حاصل ہو ، جسیا کہ ہم نے اشارہ بھی کیا ہے اس کی ایک ثانوی حثیت ہے، کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے مصدر یامصادر کا اعتبار ثابت ہوچکا ہو، یعنی پہلے مرحلہ میں کسی کی بعثت ثابت ہو تا کہ اس کے پیغامات کو معتبر سمجھاجاسکے، اور ہر امر سے پہلے پیغام ارسال کرنے والے یعنی وجود خدا کا اثبات ہونا چاہیے، لہٰذا یہ بات بطور کامل روشن ہے کہ خود پیغام ارسال کرنے والے کا وجود اور کسی پیغمبر کے وجود کو پیغام کے مستند ہونے کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا ، جیسے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ قرآن کہتا ہے ''خدا ہے'' پس اس کا وجود ثابت ہے، البتہ وجود خدا کے اثبات، شناخت پیغمبر اور حقانیت قرآن کے بعد ''مخبرصادق'' اور '' منا بع معتبر'' کے ذریعہ، تمام فرعی مسائل اور احکامات کو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی مسائل کو سب سے پہلے حل کرنا ضروری ہے، پس معلوم یہ ہو ا کہ روش تعبدی بھی بنیادی مسائل کے حل کے لئے نا کافی ہے، لیکن اشراقی عرفانی روش کے سلسلہ میں بہت طولانی بحث ہے۔

پہلے یہ کہ مسائل جہان بینی ایک ایسی شناخت ہے جو ذہنی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن متن شہود میں اسکا کوئی مقام نہیں ہے لہذا ایسے مفاہیم کے سلسلہ میں شہودپر اعتماد کرنا سھل انگاری اور ان کے ارادوں کے مطابق ہوگا۔

دوسرا یہ کہ : الفاظ و مفاہیم کے قالب میں شہودات کی تفسیر اور انھیں بیان کرنا، ایک قوی ذہن کا کام ہے، جسے عقلی کاوشوں اورفلسفی تحلیلوں میں ایک طولانی مدت تک جانفشانیوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا جو لوگ ایسے ذہن کے حامل نہیں ہوتے وہ اپنی تعبیرات میں متشابہ مفاہیم کا استعمال کرتے ہیں جو گمراہی کے عظیم عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ : بہت سے مقامات پر جو چیز واقعاً شہود میں آشکار ہوتی ہے خیالی انعکاس

اور ذہنی تفسیر کی وجہ سے خود خود مشاہدہ کرنے والے کے لے ، شک و تردید کا باعث ہوتی ہے۔

چوتھے یہ کہ : ان حقائق کی جستجو جسے تفسیر ذہنی (معرفت) کا نام دیا جاتا ہے سیر و سلوک میں سالہا سال زحمت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، سیر و سلوک کی روش کو قبول کرنا علمی شناخت کا ایک حصہ ہے، جس میں معرفت کے بنیادی مسائل اور مبانی نظری سے واقف ہونے کی ضرورت ہے،لہٰذا سیر و سلوک میں سفر سے پہلے ان مسائل کا حل کرنا ضروری ہے تا کہ نتیجہ میں کشف و شہود حاصل ہو سکے درں حالیکہ شہود ی شناخت کا مرحلہ انجام کار ہے اصولاً عرفان حقیقی اس کو حاصل ہوتا ہے جو راہ خدا میں خالصةً لوجہ اللہ(صرف خدا کی مرضی کے لئے) زحمت اٹھائے اورایسی سعی و کوشش راہ بندگی و اطاعت میں شناخت خدا پر منحصر ہے، جسے سب سے پہلے حاصل کرنا ضروری ہے۔

نتیجہ:

اس تحقیق کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ تنہا وہ راستہ جس نے معرفت شناسی کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کے سامنے راہیں ہموار کی ہیں وہ راہ عقل اور روش تدبر و تفکر ہے، اور اس لحاظ سے جہان بینی واقعی کو جہان بینی فلسفی تسلیم کرناچاہیے ۔

البتہ عقل کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنا اور معرفت کو فلسفی مباحث میں منحصر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحیح معرفت حاصل کرنے کے لئے تمام فلسفی مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے بلکہ اس راہ میں صرف بد یہی اور چند مسائل کا حل کر لینا ہی کافی ہے کہ جو معرفت کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، اگر چہ اس کے باوجود ایسے مسائل اور اسی قسم کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے فلسفی مہارتوں کا زیادہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح شناخت عقلی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے مفید طریقہ شناخت کو بہ روی کار لانے کا مطلب یہ نہیں ہے بقیہ معلومات کو ترک کردیا جائے بلکہ بہت سے عقلی استدلالات میں ان مقدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جو علم حضوری یا حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، جس طرح سے کہ ثانوی مسائل اورفرعی اعتقادات کو حل کرنے کے لئے تعبدی شناخت کا سہارالیا جاسکتا ہے اور انھیں کتاب و سنت (دین کے معتبر منابع) کی اساس پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔

صحیح معرفت اور آئیڈیالوجی کو حاصل کرنے کے بعد سیر و سلوک کے مراحل کو طے کرنے کے لے مکاشفات و مشاھدا ت کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور بہت سے وہ مسائل جو عقلی استدلالات کے ذریعہ حل ہوتے ہیں انھیں ذہنی مفاہیم کے واسطہ کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سوالات

١۔ شناخت انسان کی اقسام اور ہر ایک کی وسعت کو بیان فرمائیں؟

٢۔ معرفت کی کتنی قسمیں تصور کی جا سکتی ہیں؟

٣۔ معرفت کے بنیادی مسائل کس طرح ثابت کئے جا سکتے ہیں؟

٤۔ جہان بینی علمی ( معرفت علمی ) پر تنقید و تبصرہ کریں؟

٥۔ معرفت کے مسائل کو بیان کرنے کے لئے تجربی شناختوں سے کس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٦۔ عقیدتی مسائل کے اثبات میں کس طرح اور کن موارد میں تعبدی شناختوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

٧۔ معرفت عرفانی کی تعریف کریں؟ اور کیا شہود عرفانی کے ذریعہ معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے؟

____________________

(۱) اس سلسلہ میں مزید اطلاع حاصل کرنے کے لئے اس کتاب کے ددوسرے حصہ ''آموزش فلسفہ'' اور مقالہ ''شناخت'' جو کتاب پاسداری از سنگرھای ایدۓولوژیک'' میں ہے، اور ایدۓولوژی تطبیقی کے درورس میں سے پانچویں درس سے سولہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے

(۲) رجوع فرمائیں، آموزش فلسفہ۔ تیرہوان درس.