درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48359
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48359 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

اڑ تا لیسواں درس

عالم آخر ت کی خصو صیا ت (آخرت کی پہنچان)

مقد مہ:

عقل کی روشنی میں آخر ت کی خصوصیا ت

مقدمہ :

انسان جن چیزوں کے با رے میں تجربہ نہیں رکھتا اور جنکو باطنی دلیلوں اور علم حضور ی کے ذریعہ نہیں سمجھ سکتا، یا پھر اپنے احسا سا ت کی روشنی میں سے در ک نہیں کرسکتا ، اس کے بارے میں شنا خت کا مل حاصل کرن اس کے لئے محال ہے لہٰذا اس نکتہ کی طرف تو جہ کر تے ہو ئے ہمیں اس با ت کی تو قع نہیں رکھنی چا ہیے کہ ہم آخر ت اور اس میں رو نما ہو نے والے حوا دث کو صحیح معنوں میں پہچا ن سکتے ہیں یا ان کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں، بلکہ ایسے مسا ئل میں صر ف عقل ور و ایا ت کے ذریعہ ثا بت شد ہ اوصا ف اور مسلما ت پر اکتفا کر لینا ضروری ہے اوراس سے اُوپر پر وا ز کر نا منا سب نہیں ہے ۔

افسوس کا مقام ہے کہ بعض افرادنے یہ سمجھا نے کی لا حا صل کوشش کی ہے کہ آخر ت بھی اسی دنیا کے مانند ہے اور اس بارے میں یہا ں تک آگے بڑھ گئے ہیں کہنے لگے بہشت اسی دنیا میں آسمان کے کسی کرّے یا سیارے میں ہے جدید علمی ترقی کے ذریعہ ایسے وسائل ایجاد کئے جا سکتے ہیں کہ جن کی مدد سے وہاں منتقل ہوا جا سکتا ہے جہاں نہا یت راحت و آرام کے سا تھ زندگی گذا را ی جا سکتی ہے ۔

اور دوسری جا نب بعض لو گ تو سر ے سے ہی آخر ت کا انکا ر کر بیٹھے ہیں اور انکے تصو ر میں آخر ت اور جنت صر ف اخلا قی قدر و منز لت کا نام ہے یعنی قو م و ملت کے خد مت گذا ر اور نیک افراد اُس سے لو لگا ئے ہیں اور ان کی نظر میں دنیا و آخر ت کے درمیان فر ق صر ف فا ئدے اور قدر و منز لت کی بنیا د پر ہے ۔

ایسی صو رت میں ہم سب سے پہلے گروہ اول سے سوال کرتے ہیں کہ بہشت آخراگر آسمان کے کسی سیّارے پر ہے اور آنے والی نسل وہاں پہنچے گی تو قیا مت کے دن انسانوں کا دو بارہ زند ہ ہو نا، اور ایک جگہ پر جمع ہونا جس کی قرآن مجید نے بھی تصر یح فر ما ئی ہے اس کے کیا معنی ہو ں گے ؟اور کیسے گذشتہ قو موں کے اعما ل کی جزا اور سزا وہاں دی جا ئے گی ؟ دوسرے گر وہ سے بھی ہمارا یہی سوال ہے کہ جب جنت صر ف اخلا قی اہمیت و ضرو رت کا نام ہے تو جہنم بھی خلا ف ِاخلا قی چیزو ں کے علا وہ کو ئی دو سر ی شے نہیں ہو گی اور ایسی صو رت میں قرآن مجید نے جو قیا مت کے وقوع پر اورانسانوں کے دو با رہ زندہ ہو نے پر اتنی تا کید کی ہے اس کا کیا ہو گا؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ انبیا ء (ع)قیا مت اور آخر ت کے اسی مفہوم کو صراحت کے سا تھ بیان کر دیتے تا کہ اپنے اُوپر ہونے والے تمام اعتر اضا ت اور تہمتوں سے محفو ظ رہتے اور ان پر دیوانگی اور افسانہ گو ئی وغیر ہ کے الزا ما ت نہ لگتے ؟

ان سب با تو ں اور بحثو ں کے بعد اختلا فا ت اور منا ظرات جو فلا سفہ اورمتکلمین کے درمیان واقع ہو ئے ہیں کہ آیا معا د ( قیا مت میں دو با رہ زندہ ہو نا اور حساب و کتا ب ہو نا)جسمانی ہے یا رو حا نی؟ کیا یہ ما دی دنیا با لکل فنا ہو جا ئے گی یا نہیں؟ کیا یہ اخروی جسم ، وہی دنیاوی جسم ہے یا اس کے مثل و مانند کوئی دوسری شی ہے ؟ اگر چہ یہ عقلی اور فلسفی کو ششیں حقیقت جوئی کی راہ میں قا بل داد و تحسین ہیں اور انھیں کے سا ئے میں ضعیف و قوی نظر یا ت بھی سامنے آئے ہیں لیکن ہمیں اس با ت کی توقع نہیںرکھنی چا ہیے کہ ان بحثو ں سے ہم ابدی زندگی کی تہہ تک پہنچ جا ئیں گے اور اصل حقیقت ہمارے لئے اس طر ح رو شن ہوجا ئے گی کہ گویا ہم نے اسے پالیا ہے ۔

وا قعاً کیا ابھی تک اسی دنیا ئے فا نی کے تمام حقا ئق پو ری طرح سے کشف ہو گئے ہیں ؟ کیا سا ئنس والوں نے اس حقیقت کو کشف کر لیا ہے کہ ما دہ کیا چیز ہے؟ انر جی کیا ہے؟ یا مختلف مو جود طا قتیں اور قوتیں کیااور کیسی ہیں ؟کیا اس دنیا کے مستقبل کے سلسلے میں کو ئی یقینی پیشین گو ئی کر سکتے ہیں ؟ کیا انھیں یہ معلوم ہے کہ اس دنیا کی مقنا طیسی کیفیت ختم کر دی جا ئے الکٹر ون ذرا ت اپنی حر کت سے رک جا ئیں تو کیا ہو گا ،یا ان چیز وں کا وا قع ہو نا ممکن ہے یا نہیں ؟

کیا فلسفیوں نے اس دنیا سے متعلق سا رے عقلی مسا ئل کو یقینی طور سے حل کر لیا ہے ؟اور کیا جسمی اور نو عی صو رتیں جسم و روح کے در میان رابطے کے سلسلے میں مزید حقائق جاننے کی تحقیقات کی ضر ور ت نہیں ہے ؟

لہذا ہم اپنے ان نا قص علوم اور محدود علم و دا نش کے ذریعہ اس دنیا کے حقا ئق تک کیسے پہچانیں جب کہ ہما رے پاس اس کے با رے میں کو ئی تجربہ بھی نہیں ہے انسان کے علم کے ناقص ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے وہ قطعاً کسی چیز کو پہچا نتا ہی نہیں، یا اس را ہ میں اس کی تما م تر کو ششیں بیکا ر ہیں ۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اس خدا داد عقل کے ذریعہ بہت سے اسرارِ طبیعت اور راز خلقت کو کشف کر سکتے ہیں، البتہ ہمیں اپنے علوم اور تجر با ت کو بڑھانے کے لئے علمی اور فلسفی روش اور طر یقوں سے مدد لینی چا ہیے، لیکن اس کے سا تھ سا تھ لازم ہے کہ اپنی عقلی طا قت کی حد اور سا ئنسی تجر با ت کی سطح کو ملحوظ رکھیں اور اپنی حد سے زیا دہ پر واز کرنے کی کو شش نہ کریں،اور اس اصول کو بھی قبو ل کریں

( وَ ماَ أُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلّا قَلِیْلا ً ) (۱)

اور تم کو بہت تھو ڑا علم دیا گیا ہے ۔

ہا ں، کبھی کبھی عا لما نہ اور عمیق نظر، حکیما نہ تو ا ضع وا نکسا ری اور ذمہ دا را نہ دینی احتیا ط کے پیش نظر ہمیں قیا مت کے حقا ئق کے متعلق یقینی رائے دینے، غیب کی با تیں اور بے جا تا ویلا ت سے پر ہیز کر نا ا ہیے، سو ائے ان حقا ئق کے جنکے با رے میں خدا وند عالم اور عقلی دلیلوں نے ہمیں اجا زت دی ہے ۔

بہر حا ل مو منین کے لئے کا فی ہے کہ جو پر ور دگا ر نے نا زل فر مایا ہے اسے صحیح تسلیم کر تے ہو ئے اس پر ایما ن رکھے جن کے بارے میں صحیح تشخیص نہیںدے سکتا جن کی خصو صیا ت سے وا قف نہیں ہو سکتا خصو صاًوہ امو ر جن کے با رے میںہما رے علم و تجر بے نا قص ہیں ۔

اب ہم اس با ت کی کو شش کر تے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس حد تک ہم آخر ت کی خصو صیا ت اور دنیا و آخر ت کے فر ق کو عقل کی رو شنی میں بیان کر سکتے ہیں ۔

عقل کی روشنی میں آخرت کی خصو صیا ت۔

قیامت کی ضرورت کے سلسلے میں جو دلائل ہم نے بیان کئے ہیں انھیں کے پیش نظر آخرت کی خصوصیات کو بیان کریں گے،ان میں سے چند اہم خصوصیات یہ ہیں،

١۔آخرت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اسے ابدی اور جاودانی ہو نا چاہیے،کیونکہ ہم نے پہلی دلیل میں ابدی حیات کے امکان اور انسانی فطرت کے مطابق ہونے سے بحث کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ حیات ابدی حکمت الٰہی کا تقاضہ ہے،

٢۔دوسری خصوصیت جو دونوں ہی دلیلوں سے ثابت ہے اور دلیل اول میں اس کی طرف اشارہ بھی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ عالم آخرت کا نظام ایسا ہو کہ جس میں آخرت کی تمام نعمتیں اور رحمتیں بالکل خالص اور بغیر کسی رنج و زحمت کے حاصل ہوں تاکہ ایسے افراد جو کسی گناہ اور معصیت میں مبتلا ہوئے بغیر انسانی کمال کے اہم درجات تک پہنچے ہیں اس سعادت سے لطف اندوز اور نعمتوں سے سرفراز ہوں۔

دنیا کے بر خلاف کہ جہاں ایسی خالص سعادت ممکن ہی نہیں ہے بلکہ د نیاوی خوشبختی نسبی ہے جو ہمیشہ رنج ومعصیت کے ساتھ ہوتی ہے۔

٣۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ جہانِ آخرت کے کم از کم دو الگ الگ حصے ہونے چاہیے تاکہ نیک اور بد یا مومن وکافر ایک دوسرے سے جُد ا رہیں اور دونوں اپنے اپنے اعمال و کردار کے لئے تلافی کریں اور یہ دونوں مقام اور منزلیں شریعت الہٰی کی زبان میں جنت و جہنم کے نام سے موسوم ہیں۔

٤۔چوتھی خصوصیت جو برہانِ عدالت سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ابدی جہان کو اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ جس میں تمام انسانوں کو ان کے نیک اور برے اعمال کی جزا وسزا دینے کی گنجائش ہو،مثلاً اگر کسی نے لاکھوں انسانوں کو ناحق قتل کیا ہے تو اسے وہاں اس کی سزا ملے اور اگر کسی نے لاکھوں انسانوں کی حیات اور زندگی بچائی ہے تو اسے اس کی جزا ملنے کا امکان ہو۔

٥۔سب سے مہم خصوصیت جو اسی برہان عدالت سے ثابت ہوتی ہے اس کا ذکرپہلے بھی ہو چکا ہے کہ آخرت صرف جزا وسزا کا مقام ہے نہ اعمال وکردار کا ۔

توضیح:

دنیاوی زندگی ایک چیز ہے جس کا دار ومدار متضاد خواہشات اور آرزؤوں پر ہے اور ہمیشہ یہ خواہشات زندگی کے دوراہے پر ٹھہر جاتی ہیں اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور یہی انتخاب ان کے عمل کے راستے کو ہموار کرتا ہے اور عمر کے آخری لمحہ تک اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور حکمت وعدالتِ الٰہی کا تقا ضا یہی ہے کہ اس کے اوامر پر عمل کرنے والوں کو جزا اور اس سے منحرف افراد کو سزا کا مستحق قرار دے۔

اب ایسی صورت میں اگر ہم یہ فرض کریں کہ عالم آخرت بھی عمل انجام دینے کی جگہ ہے تو رحمت الٰہی اور اس کی فیاضی کا تقا ضا یہ ہے کہ ان اعمال کی انجام دہی میں مانع نہ ہو اور انسان کو اتنا موقع دے کہ وہ اپنے راستے کا انتخاب خود کرے،تو ایسی صورت میں ضرورت پیش آئیگی کہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی عالم ہو جس میں ان اعمال پر جزا و عقوبت قرار دی جائے،پس ہم نے جس دنیا کو آخرت فرض کیا تھا وہ آخرت نہیں بلکہ دوسری دنیا شمار ہوگی اور آخرت صرف آخری جہان کو کہا جائے گا جہاں اعمال پر ثواب اور عقاب مترتب ہوں اور وہاں اعمال بجالانے کی گنجائش نہ ہو۔

بس یہیں سے دنیا اور آخرت کا اساسی اور بنیادی فرق سامنے آتا ہے یعنی دنیا اسے کہتے ہیں جہاں انسان کی آزمائش اور امتحان ہو اور اچھے یا برے اعمال بجالائے اور آخرت اس ابدی زندگی کا نام ہے جہاں صرف اپنے کئے کی اچھی یا بری جزا یا سزا ملے ۔

(وَاِنَّ الْيَوْمَ عَمَل وَلَا حِساب وَغَداً حِساب وَلَا عَمَل (۲)

سوالات:

١۔ہم کیوں آخرت کو صحیح اور مکمل طریقہ سے نہیں پہچان سکتے؟

٢۔آخرت کے بارے میں غلط تصور اور کج فکری کے دو نمونے ذکر کرتے ہوئے اس پر تنقید کیجئے؟

٣۔ہم آخرت کی خصوصیات کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟

٤۔عقل کی روشنی میں عالم آخرت کی خصوصیات کو ذکر کرتے ہوئے اس کی مکمل شرح کیجئے؟

____________________

١۔ بنی اسرائیل۔ آیت٨٥

۲۔ نہج البلا غہ خطبہ ٤٢

انچاسواں درس

موت سے قیامت تک

مقدمہ:

ہر ایک کو موت آنی ہے

روح قبض کرنے والا

یہ موضوعات مندرجہ ذیل کی پر مشتمل ہیں

قبض روح آسان ہے یا سخت

موت کے وقت ایمان اور تو بہ کا قبول نہ ہونا

دنیا میں واپسی کی آرزو

عالم برزخ

مقدمہ:

ہمیں معلوم ہو چکا کہ ہم اس محدود علم کے ذریعہ آخرت اور مطلق عالم غیب کی حقیقت اور اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ ہم صرف عقلی براہین سے حاصل ہونے والے کلی مسائل اور وحی و روایات سے اخذ ہونے والی بعض خصو صیات کے ذکر پر اکتفا کریں گے ،اگرچہ ممکن ہے کہ قرآن مجید میں عالم آخرت کی توصیف میں ذکر شدہ بعض الفاظ متشابہ ہوں اور ان کو سننے کے بعد جو تصورات ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، شاید وہ واقعی مصداق کے مطابق نہ ہوں اور یہ خطا ہمارے قاصر ذہن کی ہے نہ بیان کی، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم نے ہمارے ذہنی ساخت وسازکے لحاظ سے بہترین الفاظ کا انتخاب کیا ہے جو حقائق کو کما حقہ بیان کرتے ہیں۔

اور چونکہ قرآن کریم کا بیان آخرت کے مقدمات کو بھی شامل ہے لہذا اپنے کلام کاآغاز بھی انسان کی موت سے کرتے ہیں۔

ہر ایک کو موت آنی ہے۔

قرآن مجید اس بات پر بہت تاکید کرتا ہے کہ تمام انسان بلکہ تمام(ذی روح)کو ایک نہ ایک دن ضرور مرنا ہے اور کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں ہے،(کل من علیہا فان)(۱) جو بھی روئے زمین پر ہے سب فنا ہو جانے والا ہے۔

( کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوتِ ) (۲)

ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے،

( اِنَّکَ مَيِّت وَ اِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ) (۳)

بے شک تم بھی مرو گے اور یہ لوگ بھی مریںگے۔

( وَماَجَعَلْناَ لِبَشَرٍمِنْ قَبْلِکَ اَلْخُلْدَ أَفَاِ ینْ مِتَّ فَهُمُ اَلْخالِدُونَ ) (۴)

اور ہم نے آپ سے پہلے بھی بشر کے لئے ہمیشگی نہیں قراردی تو کیا اگر آپ مر جائیں تو یہ لوگ ہمشہ باقی رہیں گے ۔

نتیجتاً موت ایک قانون کلی اور ناقابل انکار حقیقت ہے جس سے کسی شی کو بھی فرار نہیں ہے۔

روح قبض کرنے والا:

قرآن مجید ایک طرف تو قبض روح کی نسبت خداوند عالم کی طرف دیتا ہے ،اور فرماتا ہے :

(( اَللّٰهُ يَتَوَفیّٰ اَلْاَنْفُسَ حَینَ مَو ِتهَا ) )(۵) خدا موت کے وقت روح قبض کرتا ہے۔

اور دوسری طرف ملک الموت کو قبض روح پر مامور بتاتا ہے۔

( قُلْ يَتَوَفٰاکُمْ مَلَکُ اَلْمَوْتِ اَلَّذِی وُکِّلَ بِکُم ) (۶)

آپ کہدیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے۔

اور ایک دوسرے مقام پر قبض روح کو فرشتوں اور رسولوں کی طرف نسبت دی ہے،

( حَتّیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ کُمُ اَلْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلَنَا ) (۷)

یہاں تک کہ جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے نمائندے اُسے اٹھا لیتے ہیں۔

اور یہ واضح چیز ہے کہ جب فاعل اپنے کسی کام کو دوسرے فاعل کے ذریعہ انجام دے تو اس فعل کی نسبت دونوں کی طرف صحیح ہے اور اگر دوسرا فاعل کسی تیسرے شخص کے وسیلے سے کام انجام دے تو یہ تیسرا شخص بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے ،پس چونکہ خداوند عالم، ملک الموت کی روح قبض کرتا ہے اور ملک المو ت بھی اپنی ما تحت فر شتوں کے ذریعے قبض رو ح کر تا ہے لہٰذا قبض ِروح کی نسبت تینوں کیطرف دینا صحیح ہے ۔

قبض روح آسان ہے یاسخت؟

قر آن مجید سے یہ با ت معلو م ہو تی ہے کہ مو ت کے فر شتے سا رے انسانوں کی رو ح کو ایک طر یقہ سے قبض نہیں کر تے، بلکہ بعض افرا د کی روح نہا یت آسا نی اور احترام کے سا تھ اور بعض افراد کی نہا یت ہی سختی اور اہا نت کے سا تھ قبض کر تے ہیں، اس دعوے کی شا ہد مثا ل یہ آیہ شر یفہ ہے( اَلّذِیْنَ تَتَوَفَّا هُمُ الْمَلَا ئِکَةُ طَیّبِینَ یَقُولُونَ سَلَام عَلَیْکُمْ ) )(۸) جنھیں ملا ئکہ اس عالم میں اٹھا تے ہیں کہ وہ پا ک و پا کیزہ ہو تے ہیں اور ان سے ملا ئکہ کہتے ہیں کہ تم پر سلا م ہو ۔

اور کا فر وں کے با رے میں یو ں ارشا دہوا:( وَلَو تَرَیٰ اِذْ یَتَوَفیٰ الّذِیْنَ کَفَرُوْا المَلََا ئِکَةُ یَضْرِ بُوْنَ وُ جُوْهَهُمْ وَ اَدْبَاْ رَهُمْ ) )(۹) کاش تم دیکھتے جب فر شتے ان کی جان نکا ل رہے تھے اور انکے رخ اور پشت پر ما ررہے تھے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مو منین اور کفار کے در میان ان کے ایما ن اور کفر کے در جا ت کے اعتبا ر سے قبض روح کے بھی در جا ت اور طبقا ت ہوں۔

مو ت کے وقت ایما ن اور تو بہ کا قبول نہ ہو نا

کفار اور گناہگا ر، افراد جب اپنی مو ت کو سامنے دیکھتے ہیں اور اپنی نیوی زندگی سے ما یو س ہو جا تے ہیں تو اپنے گذشتہ اعمال و کر دا ر پر نا دم و پشیما ن ہو جا تے ہیں اور اپنے ایما ن اور تو بہ کا اظہا ر کر نے لگتے ہیں اگر چہ اس وقت یہ دو نوں ہی چیزیں ان کے لئے عبث و بیکا ر ہیں :

اُس دن جب خدا کی کھلی آیا ت ظا ہر ہوں گی تو اس شخص کا ایمان جو پہلے نہیں لا یا یا اُس نے اپنے ایمان کے دوران کو ئی کا ر خیر انجام نہیں دیا تو اُس کا ایمان اسے کو ئی فا ئدہ نہیں پہنچا ئے گا:

( وَ لَیسَتِ التَوبَةُ لِلَّذینَ یعَمَلُونَ السِّیاٰتِ حتَّی اِذا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الموتُ قَالَ اِنِّ تُبْتُ الآنَ ) (۱۱)

اور توبہ ان لو گوں کے لئے نہیں ہے جو پہلے بر ائیاں کر تے ہیں اور پھر جب مو ت سا منے نظر آ تی ہے تو کہتے ہیں ،کہ اب ہم نے تو بہ کر لی ہے ۔

اور فر عون کے قو ل کو نقل کر رہا ہے جب وہ غرق ہو رہا تھا تو اس نے کہا

( آمَنت اَنَّه لا اِلٰه اِلّاالّذِ آمَنَت بِهِ بَنُو اِسرا ئیلَ وَ اَنَا مِنَ المُسلِمینَ ) (۱۲)

میں ایمان لا یا اس پر کہ کوئی خدا نہیں ہے سو ائے اس خدا کے جس پر بنی اسرا ئیل ایمان لائے ہیںاور میں اہل اسلا م میں سے ہوں ،اس کے جو اب میں ارشاد ہو رہا ہے ۔

( ألَآن وَ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ المُفسِدِینَ ) )(۱۳)

اب (مرنے کے وقت ایمان لا تا ہے ) حا لا نکہ تو اس سے پہلے نا فر مانی کر چکا اور تو تو فسا د بر پا کرنے والوںمیں سے تھا ۔

دنیا میں واپسی کی آرزو۔

اسی طر ح قر آن کر یم کفار اور گنہگا ر وں کے متعلق نقل کر تا ہے کہ جب مو ت کے با دل ان کے سر پر منڈلا نے لگتے ہیںاور عذا ب و ہلا کت کا سایہ ان کی آنکھوں کے سا منے چھا جاتا ہے ، تب وہ آرزو کرتے ہیں کہ کا ش ہم دنیا میں واپس چلے جا تے ،اور اعمال صا لحہ انجام دیتے، اور اہل ایمان میں سے ہو جاتے ،یا پر وردگار سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس کر دے، تا کہ وہ تلافی مافات کرلیں لیکن ان کی یہ تمنا ئیں کبھی بھی پو ری ہو نے والی نہیں ہیں(۱۴)

بعض آیا ت میں اس بات کی طر ف اشا رہ ہو تا ہے کہ اگر انھیں واپس بھی کر دیا جاتا تو وہ بھی وہی فعل انجام دیتے جو پہلے انجام دیا کرتے تھے(۱۵)

اور روز قیا مت بھی ان کی یہی آرزو اور تمنا ئیں ہو نگی جو بدرجہ اولی قا بل قبو ل نہ ہو ں گی:

( حَتیٰ اِذَاْ جَاْ ئَ أَحَدَ هُمُ الْمَوتُ قَالَ ربِّ ارجِعوُنِ٭ لَعلَّ اَعْمَلُ صَالحاً فِیمَا تَرَکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا ) )(۱۵)

یہا ں تک کہ جب ان میںسے کسی کو موت آئی تو کہنے لگے پر ور دگا ر ا :تو مجھے ایک بار اس ( دنیا) کو جسے میں چھوڑ آیا ہو ں پھر واپس کر دے ،تا کہ میں اس مر تبہ اچھے اچھے کام کروں ( جو اب دیا

جا ئیگا ) ہر گز نہیں یہ ایک لغو با ت ہے جسے وہ بک رہا ہے ۔

(أ( وتَقُولَ حِیْنَ تَرَ یٰ العذابَ لَوْ أَنّ لِ کَرَّةً فَاَ کُونَ مِنَ المُحسَنِینَ ) (۱۶)

یا جب وہ عذا ب کو دیکھیںگے تو کہیں گے کا ش پلٹا دیئے جاتے تو نیک بند وں میں سے ہو جاتے( اِذْ وُقِفُوْا عَلیٰ النارِ فَقَا لُوْا یَاْ لَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِا یَاْ تِ رَبِّنَا وَ نَکُونَ مِنَ الْمُؤمِنِینَ ) )(۱۷)

( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر تم اِن لو گو ں کو اُس وقت دیکھتے تو تعجب کر تے ) کہ جب جہنم کے کنا رے پر لا کر کھڑ ے کئے جا ئیں گے تو اُسے دیکھ کر کہیں گے اے کا ش ہم دنیا میں دو با رہ لو ٹا دئے جا تے اور اپنے پ ر ور دگا ر کی آیتوں کو نہ جھٹلا تے اور ہم مو منین میںسے ہو تے ۔

(( اِذِ الْمُجْرِمُوْ نَ نَا کِسُوا رُئُ و سِهِم عِنْدَ رَبِّهِم رَبّنَا اَبْصَرناَ وَ سَمِعْنَا فارجِعنَا نَعمَلُ صالِحاً اِنَّا مُو قِنُونَ ) )(۱۸)

اور جب مجر مین حسا ب کے وقت اپنے پر ور دگا کی با رگا ہ میں اپنے سر جھکا ئے کھڑ ے ہو ں گے اور عرض کر رہے ہو ں گے کہ پر ور دگا ر ہم نے اچھی طر ح دیکھ لیا ہے اور سن لیا ہے تو ہمیں دنیا میں ایک با ر پھر لوٹا دے، تا کہ ہم نیک کا م کریں، اب تو ہم کو قیا مت کا پو را پورا یقین ہے ۔

ان آیا ت سے یہ صا ف ظاہر ہو تا ہے کہ قیا مت اعمال و انتخا ب کی جگہ نہیں یہا ں تک کہ وہ یقین جو دم مرگ یا آخر ت میں حاصل ہوگا انسان کے تکامل( بتدریج کامل تک پہنچنے) کیلئے فائدہ بخش نہیں ہوگا،اورانعام کا مستحق نہیں قرار پائے،اسی لئے کفار اور گنہگار اس دنیا میں واپسی کی آرزو کریں گے تاکہ اس دنیا میں پلٹ آئیں اور اپنے اختیار سے ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں۔

عالم برزخ۔

قرآنی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ موت اور قیامت کے درمیان فاصلہ کو برزخ کہا جاتا ہے جو انسان موت کے بعد اور قیامت سے پہلے قبر میں گذارتا ہے کہ جس میںتھوڑا بہت رنج و مصیبت اور خوشی ومسرت کا بھی سامنا ہوتا ہے،بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گنہگار مومنین اس دوران بعض رنج وعذاب میں مبتلا ہونے کے ذریعہ پاک کردئے جائیں گے،اور ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔

چونکہ برزخ سے مربوط آیات تفسیر طلب ہیں لہذا ان سے صرف نظر کرتے ہو ئے صرف ایک آیہ شریفہ پر اکتفا کرتے ہیں۔وَمِن وَرائِہِم بَرزَخ اِلیٰ ےَومِ ےُبعَثُونَ(۱۹) اور ان کے بعد (ان کی موت کے بعد)ایک برزخ ہے جب تک کہ اٹھا نہ لئے جائیں۔

سوالات:

١۔ اس دنیا میں انسان کے ہمیشہ نہ رہنے کو قرآ نی آیات سے واضح و روشن کیجئے ؟

٢۔انسان کی روح کون قبض کرتا ہے مربوط آیتوں کے درمیان جو اختلاف ہے اسے پیش کیجئے ؟

٣۔روحوں کے قبض کرنے کے سلسلے میں کیا فرق ہے؟

٤۔مرتے دم ایمان اور توبہ کے بارے میں قرآنی بیان کو مع آیات کے وضاحت کیجئے؟

٥۔قرآن کریم، دنیا میں کس طرح کی واپسی کا انکار کررہا ہے؟آیا اس واپسی کا انکار رجعت کے عقیدے کے منافی ہے؟

٦۔عالم برزخ کی شرح کیجئے؟

____________________

١۔ رحمٰن ۔ آیت ٢٦

٢۔ آل عمران ۔ آیت ١٨٥۔ انبیا ء ۔آیت ٣٥

٣۔زمر۔آیت٣٠

٤۔انبیا ئ۔آیت٣٤

٥۔زمر۔آیت٤٢

۶۔سجدہ۔آیت ١١

۷۔انعام ۔آیت٦١

۸۔ نحل۔آیت ٣٢ ۔انعام۔آیت ٩٣

۹۔ انفال ۔آیت ٥٠ ۔ محمد۔آیت ٢٧

۱۰۔انعام ۔آیت٥٨ ١۔اورصبا۔آیت ٥١ ،٥٣،غا فر۔آیت ٨٥ ،سجدہ۔آیت ٢٩

۱۱۔ نسائ۔آیت ١٨

۱۲۔ یو نس۔آیت ٩٠

۱۳۔یونس۔آیت٩١

۱۴۔ جا ن لینا چا ہیے کہ قر آن کر یم ان لو گو ں کے پلٹنے کی آرزوؤ ں اور تمنا وں کا انکا ر کر تا ہے جن کی سا ری زندگی گنا ہ اور معصیت میں بیت چکی ہو اور مو ت کے وقت دنیا میں واپسی کی تمنا رکھتے ہو ں تا کہ اپنے گنا ہو ں کی تلافی کر سکیں لیکن قیا مت سے واپسی کی قطعاً نفی کر تا ہے وہ اس معنی میں نہیں ہے کہ دنیا کسی طر ح واپسی ممکن نہیں ہے کیو نکہ ایسے افراد بھی تھے جو مو ت کے بعد دوبا رہ اسی دنیا میں زندہ ہو چکے ہیں اور شیعو ں کے عقیدہ کے مطا بق حضرت مہدی عج کے ظہور کے بعد کچھ لو گو ں کی رجعت ہو گی ۔

۱۴۔ انعام۔آیت ٢٧۔٢٨

۱۵۔ مو منون ۔آیت ٩٩ ۔١٠٠

۱۶۔زمر ۔آیت ٥٨، نیز شعراء ۔آیت ١٠٢

۱۷۔ انعام۔آیت ٢٧ ۔ ٢٨ نیز اعراف۔آیت ٣٥

۱۸۔ سجدہ ١٢ ،نیز فا طر ٣٧ ،

۱۹۔ مو منون ١٠٠