درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48361
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48361 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

پچپنواں در س

ایمان اور عمل کا آپس میں رابطہ

مقدمہ:

ایما ن کاعمل سے رابطہ

عمل کا ایما ن سے رابطہ

نتیجہ

مقدمہ :

ہمیں یہ با ت معلوم ہو چکی ہے کہ ابد ی سعا دت و شقا و ت کا اصل سبب ایما ن اور کفر ہے، اور مستحکم ایما ن ہمیشہ کی خو شبختی کی ضما نت ہے ہر چند ممکن ہے کہ گنا ہوں کا ارتکاب محدود عذا ب کا با عث بن جا ئے ، اور دوسری طر ف مستحکم کفر ہمیشہ کی بد بختی کا سبب ہے اور اس کے ہو تے ہو ئے کو ئی بھی نیک کا م آخر ت کی سعا دت کا سبب نہیں ہو سکتا ،اسی کے ضمن میں اشا رہ کر تے چلیں ، کہ ایمان اور کفر میں شد ت اور ضعف کو قبول کر نے کی صلا حیت ہے اور ممکن ہے کہ بڑے بڑے گنا ہو ں کے ارتکا ب کی وجہ سے ایمان سے ہا تھ دھو نا پڑے، اور اسی طر ح نیک کا م انجام دینا، کفر کی بنیاد وں کو کمزور کر دیتا ہے، اور ممکن ہے کہ ایمان کے لئے را ہ ہموا ر کر دے اس مقام پر ایمان اور عمل کے در میان را بطے کے سوا ل کی اہمیت کاا ندا زہ ہو تا ہے ہم اس درس میں اس سوال کے جو اب کو بیان کریں گے ۔

ایمان کا عمل سے رابطہ

گذشتہ بیا نات سے واضح ہو چکا ہے کہ ایمان ایک قلبی اور نفسانی حا لت کا نام ہے کہ جو علم و

دانش کی وجہ سے مزید تقویت پاتے ہیں ، اور اس کا لا زمہ یہ ہے کہ با ایمان انسان اجما لی طور سے ان چیزوں کے لوازم پر جن پر ایمان رکھتا ہے عمل کر نے کا فیصلہ کر تا ہے

اس بنا پر وہ شخص جو کسی حقیقت سے آشنا ہے، لیکن اس کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ کبھی بھی اس کے لوازمات پر عمل نہیں کریگا وہ ہر گز ایما ن نہیں رکھ سکتا ،یہاں تک کہ اگرعمل کر نے یا نہ کرنے کے سلسلے

میں شک میں مبتلا ہو جائے تب بھی جا نے کہ وہ ایمان نہیں لا یا ہے، قر آن کریم کا ارشاد ہے

(( قَا لَتِ الَا عرَابُ آمَنَّا قُل لَم تُومِنُوا وَ لَکِن قُولُوا اَسلَمنَا وَ لَمَّا یَدخُلِ الاِ یمَانُ فِ قُلُوبِکُم ) )(۱)

یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو (اے رسول ) آپ کہدیجئے کہ تم ایمان نہیں لا ئے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے ہیں ابھی ایمان تمھارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہو اہے، لیکن حقیقی ایمان کے بھی کچھ مرا تب ہیں اور ایسا نہیں ہے ایمان کے ہر مر تبے کا لازمہ یہ ہو کہ اس سے مر بوط تمام و ظا ئف انجام دئے جا ئیں اور ممکن ہے کہ شہو انی یا غضبی دبا ئو کمزور ایمان رکھنے والے انسا ن کو گنا ہ کے ارتکاب پر مجبور کر دے لیکن اس طر ح نہیں کہ وہ ہمیشہ گناہو ں میں ملوث رہے اور تمام لو از مات کی مخا لفت کرتا ر ہے البتہ جتنا زیا دہ ایمان میں استحکا م پا یا جا ئیگا اور جتنا زیادہ کا مل ہو گا اتنا ہی زیا دہ اس کے منا سب اعمال کو انجام دینے میں اثر رکھے گا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایمان ذا تی اور فطری طور سے اپنے لو ازما ت اور متعلقات پر عمل کر نے کا تقاضا کر تا ہے اور یہی تا ثیر کی مقدا ر کا تقاضا بھی اس کی شدت و ضعف سے وابستہ ہے اور با لا خر انسان کا فیصلہ اور ارادہ ہی ہے جو کسی کا م کو انجام دینے یا تر ک کر نے کو متعین کر تا ہے ۔

عمل کا ایمان سے رابطہ

انسان کا اختیا ری عمل یا تو منا سب اور ایمان کے سا تھ ہو گا یا غیر منا سب اور ایمان کے خلا ف ہو گا پہلی صو رت میں ایمان کو تقویت حا صل ہو تی ہے اور دل کی نو را نیت میں اضا فہ ہو تا ہے، اور دوسری صو رت میں ایمان کمزور اور انسان کا قلب تا ریک ہو جا تا ہے اس بنا پر وہ اعما ل صا لحہ جو ایک مو من کے ذ ریعہ ا نجام پا تے ہیں با وجو دیکہ یہ اس کے ایمان سے کسب فیض کرتے ہیں مگر اس کی قوت ایمان اور ثا بت قدمی میں اضا فہ کر تے ہیں اور بہت سا رے نیک کا م کے لئے ر اہ ہمو ار کر تے

ہیں اور اس آیہ شر یفہ کے ذریعہ تکا مل ایمان میں عمل صا لح کی تا ثیر کو ظا ہر کیا جا سکتا ہے ۔

( اِلَیهِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصّا لِحُ یَرفَعُهُ ) (۲)

پا کیز ہ کلما ت اور اچھے اعتقا دات اللہ کی طر ف بلند ہو تے ہیں اور عمل صا لح انھیں بلند کر تا

ہے(۳) اور اسی طر ح متعدد آیتوں میں نیک اعما ل انجام دینے وا لوں کے ایمان میں زیا دتی اور نور و ہد ا یت میں اضا فہ کو بیان کیا گیا ہے(۴) دوسری طر ف اگر مقتضا ئے ایمان کے سا تھ سا تھ مخا لف سبب اور محر ک وجود میں آجا ئے ،اور غیر منا سب عمل انجام دینے کا سبب بن جا ئے، اور اس شخص کا ایمان اتنا مستحکم نہ ہو جو اسے غیر شائستہ عمل سے روک سکے، تو اس کا ایمان کمزور ی کی طرف ما ئل ہو جا ئیگا، اور گنا ہ کے دو با رہ انجام دینے کا خدشہ پیدا ہو جا ئیگا اور اگر یہ حا لت اسی طر ح با قی ر ہ گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا ،کہ اصل ایمان کو زوا ل کی طر ف جا نے کا خطر ہ پیدا ہو جا ئے گا اور ( معاذاللہ ) اس کو کفر اور نفاق میں تبدیل کر دیگا، قر آن مجید، ان افراد کے با رے میں جو نفاق کا شکار ہو گئے ہیں فر ما تا ہے

( فَاعقَبَهُم نِفَا قًا فِ قُلُو بِهِم اِلیٰ یَومِ یَلقَونَهُ بِمَا اَخلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَ بِمَا کَانُویَکذِ بُونَ ) )(۵)

چو نکہ ان لو گوں نے خدا سے وعدہ خلا فی کی اور جھوٹ بو لے لہٰذا خد انے ان کے دلو ں میں نفا ق کو داخل کر دیا ہے اس دن تک جس دن یہ لو گ خدا سے ملا قا ت کر یں گے اور یہ ارشا د ہو رہا ہے

(( ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِین أَسَائُ وا السُّوأَ یٰ اَن کَذَّبُوابا یَٰتِ اللّهِ وکَانُو بِهَا یَستَهزِؤُنَ ) (۶) اور اس وقت ان لو گو ں کا انجام جو بد ترین گنا ہو ں کا ارتکاب کر تے تھے یہ ہوا کہ انھوں نے خدا کی آیا ت کو جھٹلا یا اور اسکا مذا ق اڑا یا ۔اور اسی طر ح دوسری متعدد آیتوں میں گنہگا روں کے کفر اور تا ریکی قلب اور سنگ دلی میں اضا فہ کا ذکر کیا ہے(۷)

نتیجہ

ایمان اور عمل کے آپس کے رابطے کو دیکھتے ہو ئے اور انسان کی سعا دت میں ان دو نوں کے کردا ر کی طرف توجہ کر تے ہو ئے انسان کی سعاد تمندا نہ حیا ت کو ایک درخت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے(۸) اس طر ح کہ خدا وند عالم کی وحدا نیت اور اس کے بھیجے ہو ئے رسولوں اور اسکے پیغاما ت اور روز قیامت پر ایمان رکھنا ،گو یا اس درخت کی جڑ کو تشکیل دیتا ہے اور ایمان کے لو ازما ت پر عمل کرنے کا فیصلہ اس کے تنہ کی حیثیت رکھتا ہے، کہ جو بغیر کسی واسطہ کے جڑ سے اگتا ہے اور وہ شا ئستہ اور منا سب

اعمال کہ جو ریشہ ایمان سے مترشح ہوتے ہیں اس کی شا خ و بر گ کی طرح ہیں، اورا بدی سعا دت اس درخت کا پھل ہے اگر جڑ کاوجود نہ ہو، تو تنہ اور شا خ و بر گ وجو د میں نہیں آسکتے، اور میو ہ بھی نہیں

آسکتا ،لیکن ہر گز ایسا نہیں ہے جڑ کے وجود سے منا سب شا خ و بر گ اور بہترین پھلو ں کا ہو نا لازم ہے بلکہ کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے، در خت فضا اور زمین کی نا ساز گا ری اور مختلف آفتوں کی وجہ سے مر جھا جاتے ہیں اور اس میں منا سب شا خ و بر گ نہیں اُگ پا تے اسی صورت میں وہ درخت نہ صرف یہ کہ خا طر خو اہ پھل نہیں دیتا بلکہ خشک ہو جا تا ہے اور بہت ممکن ہے اس درخت کی شا خ یا تنہ یا اسکی جڑوں میں قلم ( پیو ند ) لگا ئی جا تی ہے ان سے دوسرے آثا ر ظاہر ہو ں اور ممکن ہے اتفاقاًوہ پیو ند(قلم) کسی دوسرے در خت میں تبدیل ہو جا ئے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایمان کفر میں تبدیل ہو جائے ۔

حصل کلام یہ ہے کہ ا یمان کو ایسے ا مور کے ذریعہ یاد کیا گیا ہے جو سعا دتِ انسانی کا ا صلی سبب ہے لیکن ا س سبب کا اثر اعما ل صا لحہ کے ذریعہ لا زم غذا ئوں کے مکمل جذ ب ہو جا نے پر مشر وط ( مو قو ف) ہے اور گنا ہوں سے پر ہیز کے ذریعہ اس کے نقصا ن دہ امور کو دو ر کر نے اور آفتو ں کو ختم کر نے پر مو قو ف ہے اور وا جبات کا تر ک کر نا اور محر ما ت کا ارتکا ب کر نا ایمان کی جڑو ں کو کمزو ر بنا تا ہے اور کبھی کبھی ایمان کے در خت کو خشک کر دیتا ہے جس طر ح غلط عقا ئد کے پیو ند، اس کی حقیقت میں تبدیلی کا با عث بن جا تے ہیں ۔

سو الا ت

١۔نیک اعما ل میں ایمان کا کیا اثر ہے ؟ وضا حت کیجئے ؟

٢۔ نیک اور برے اعما ل کا ایمان کی قوت اور کمزو ری میں کیا اثر ہے شر ح کیجئے؟

٣۔ ایمان اور عمل کے آپس کے روا بط اور ان دو نوں کا انسان کی سعا دت سے کیا را بطہ ہے بیان کیجئے ؟

____________________

١۔ حجرات ١٤،

۲۔ فاطر /١٠

۳۔ اس بنا پر کہ ضمیر فا علی، العمل الصا لح کی طرف اور ضمیر مفعولی الکلم الطیب کی طر ف پلٹتی ہے ۔

۴۔آل عمران ١٧٣، انفال ٢ ، تو بہ ٫ ١٢٤، کہف ١٣ ، مر یم ٧٦، احزا ب ٢٢، محمد ١٧، مد ثر ٣١،

۵۔ تو بہ ٧٧،

۶۔ روم ١٠ ،

۷۔ بقر ہ ١٠ ، آل عمران ٩٠ ، نسا ء ١٣٧، ما ئدہ ٦٨،تو بہ ٣٧ ،اسرا ء ٦٠ ، ٨٢، صف ٥ نو ح ٢٤،

۸۔ ر۔ک: ابرا ہیم ٢٤ ۔ ٢٧،

چھپنو ا ں در س

مقدمہ :

انسان کا حقیقی کما ل

یہ بحث مشتمل ہے ذیل کی گفتگو پر

عقلی بیان

خو اہش اور نیت کا کردا ر

مقدمہ :

بعض ایسے افرا د جو اسلا می ثقا فت سے کا فی حد تک ما نوس نہیں ہیں اور آگا ہی نہیں رکھتے ،اور اپنے ظا ہر ی اور سطحی معیا ر کی بنیا د پر انسانی رفتار و اعمال کی قدرو قیمت کا اندا زہ لگا تے ہیں، نیز محر ک و فا عل کی نیت کی اہمیت کی طر ف کو ئی تو جہ نہیں دیتے اور بہ تعبیر دیگر حُسنِ فعلی کے مقا بلہ میں حُسنِ فعلیکو اہمیت نہیں دیتے یا دوسروں کی دنیا وی زندگی میں آسا ئش و آرام کے حوالے سے موثر ہونے کو معیا ر قدر و قیمت سمجھتے ہیں ایسے لو گ بہت سا رے اسلا می عقا ئد اور معا رف کی تحقیق اور اس کو سمجھنے میں گمرا ہی سے دو چا ر ہو جا تے ہیں ، یا اس حقیقت کو کو سمجھنے اور بیان کر نے سے قا صر رہتے ہیں، من جملہ ایمان کا اثر اور اس کا اعما ل صا لحہ سے رابطہ اور کفر و شر ک کا تبا ہ کن کر دار اور بعض چھو ٹے اور کم مدت اعما ل کو بڑے اور طو لا نی مدت اعما ل پر فوقیت و بر تری کے سلسلہ میں کج فکری کا شکا ر ہو جاتے ہیں، مثلاً ایسا تصو ر کر تے ہیں وہ بڑے ایجا دا ت کے ما لک افر اد جنھوں نے دوسر وں کے لئے آ سا ئش و آرا م کے اسبا ب فر اہم کئے ہیں یا وہ حر یت پسند افر اد جنھوں نے اپنی ملت کی آزا دی کی راہ میںجنگ و جدا ل کا سا منا کیا ہے ان کو آخر ت میں بلند و با لا مقام ملنا چا ہیے ہر چند کہ وہ خدا او ر قیامت پر ایمان نہ رکھتے رہے ہوں ،اور کبھی کبھی نوبت یہا ں تک پہنچ جا تی ہے کہ اسی دنیا میں انسانی قدر و قیمت اور زحمت کر نے وا لوں اور محنت کشو ں کی آخری کا میا بی پر ایمان رکھنے ہی کو انسانی سعا دت کے لئے ایمان کی ضرورت بتا تے ہیں ،اور حد تو یہ ہے خدا کے مفہوم کو بھی ایک قیمتی مفہوم اور اخلا قی مو ا زین کے مطا بق رقم کر تے ہیں ۔

اگر چہ گذشتہ در سو ں میں جو بیان ہوا اس کی روشنی میں ایسی گفتگو اور ایسے خیا لا ت کی خطا اور کمزوری کو بھی پہنچا نا جا سکتا ہے، لیکن اس مو جودہ زما نہ میں ایسے افکا ر کی نشر واشا عت اور آئند ہ کی نسل کے لئے جو خطر ہ پیدا ہو گیا ہے اس کو بچا نے کے لئے ضرو ری ہے کہ اس کے با رے میں تھوڑی سی وضا حت کر دی جا ئے ۔

البتہ ایسے مسا ئل پر ایک جا مع اور مفید گفتگو کر نے کے لئے وسیع زما نہ اور ساز گا رحا لا ت

در کا ر ہیں ۔

اس لئے اس مقام پر ان مسا ئل کے عقیدتی پہلو کو دیکھتے ہو ئے اور اس کتا ب کی مناسبت کا لحاظ کرتے ہوئے صر ف بنیادی ترین مسا ئل کو بیان کر نے ہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔

انسان کا حقیقی کمال

اگر ہم سیب کے درخت کو ایک بغیر پھل کے در خت کے سا تھ تصور کریں اور دو نوں کا مقابلہ کریں، تو سیب کے در خت کو بے پھل درخت سے زیا دہ قیمتی شما ر کریں گے، اور یہ فیصلہ صر ف اس لئے نہیں ہے کہ انسان پھل دا ر درخت سے زیا دہ فا ئدہ اٹھا تا ہے بلکہ اس لئے کہ پھل دا ر درخت کا وجود بے پھل در خت سے زیا دہ کا مل ہے اور اس کے آثا ر بھی اس سے زیا دہ ہیں اس لئے اس کی قدر و منز لت بھی زیا دہ ہو گی لیکن اگر یہی سیب کا درخت اگر کسی آفت کا شکار ہو جا ئے یا اس کو کو ئی مر ض لا حق ہو جا ئے اور اس کی نشو و نما رک جائے تو یہ اپنی قدر و قیمت کھو دے گا، اور ممکن ہے کہ ا س کی گندگی اور دوسروں کے لئے نقصا ن کا سبب بن جائے ۔

انسان کا بھی دوسرے تمام جا نو روں کے مقا بلے میں یہی حکم ہے اور اس صو رت میں جب وہ اپنے لا ئق اور منا سب کمال تک پہنچ جا ئے اور اس کے وجود سے اسکی فطر ت کے مطا بق آثا ر ظا ہر ہو نے لگیں، تو گو یا وہ انسان جانوروں سے زیا دہ قدر و قیمت کا حا مل ہے لیکن اگر آفت و گمرا ہی کا شکا ر

ہو جائے تو ممکن ہے کہ دورے سا رے جا نو روں سے بھی پست تر اور نقصا ن دہ ہو جا ئے جیسا کہ قر آن مجید میں ذکر ہو ا ہے کہ بعض انسان سا رے حیو انا ت(۱) سے بھی برُے ہیں اور چو پا یوں(۲) سے زیا دہ گمرا ہ ہیں دوسری طر ف سے اگر کسی نے سیب کے در خت کو صر ف پھو ل کھلنے اور غنچہ لگنے تک ہی دیکھا ہو تو وہ گما ن کر ے گا، کہ اس کی تر قی اور پھو لنے پھلنے کی آخر ی حد یہی ہے اور اب اس سے زیا دہ کما ل ا س میں نہیں پایا جا تا اسی طر ح جنھو ں نے صر ف انسان سے متو سط کما لا ت کا مشا ہد ہ کیا ہے وہ انسان کے آخری کمال اور اس کی حقیقت کو نہیں درک کر سکتے اور صر ف وہ ہی لو گ انسان کی واقعی قدر و قیمت کاا ندا زہ لگا سکتے ہیں ،کہ جو اس کے کما ل کی آخر ی منز ل کو پہچا نتے ہیںلیکن انسان کا آخر ی کما ل اس کا کمال ما دی نہیں ہے اس لئے کہ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ انسان کی انسانیت کا تعلق ملکو تی روح سے ہے اور انسانی تکا مل بھی در حقیقت وہی روح کا تکا مل ہے جو اپنی اختیا ری کا ر کر دگی سے حا صل ہو تا ہے چا ہے وہ قلبی اور اند رونی کا ر کر دگی ہو یا، بیرو نی او ر اعضا و جوا رح کی مدد سے حاصل ہونے والی کار کردگی اور ایسے کمال کا اندا زہ کسی حسی تجر با ت اور پیمانے کے ذریعہ نہیں لگا یا جا سکتا لہذا اس تک پہنچنے کے لئے آزما یشی وسا ئل کا سہارا نہیں لیا جا سکتا بس جو خود کما ل تک نہیں پہنچ سکتا اور اس کو علم حضور ی اور قلبی مشا ہدہ کے ذر یعہ نہیں پا سکتا اس کو چا ہیے کہ اس کما ل تک پہنچنے کیلئے عقلی دلیل یا وحی پر وردگا ر اور آسما نی کتا بوں کا سہارا لے۔

لیکن وحی خداوند عالم اور قرآنی ارشادات اور اہلبیت عصمت وطہارت علیہم السّلام کے نورانی بیانات کے لحاظ سے کسی بھی شک وتردید کا مقام نہیں ہے کہ انسان کا آخری کمال اسی کے وجود کا ایک مرتبہ ومقام ہے کہ جس کی طرف تقرب الٰہی کے عنوان سے اشارہ کیا گیا ہے،اور اس کمال کے آثار رضائے پروردگار اور ابدی نعمتیں ہیں جو آخرت میں ظاہر ہونگی،اور اس تک پہنچنے کا کلی راستہ خدا پرستی اور تقویٰ ہے کہ جو تمام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام حالات میں شامل ہے،لیکن عقلی نقطہ نظر سے اس موضوع کے لئے پیچیدہ ترین دلیلوں کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کے لئے کافی حد تک فلسفی مقدمہ اور تمہید کی ضرورت ہے،لیکن ہم یہاں بہت آسان گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

عقلی بیان

انسان فطری طور سے لامحدود کمالات کا خواہاں ہے علم اور قدرت ان کمالات کو ظاہر کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں،اور ایسے کمال تک پہنچنا ہی لامحدود لذتوں اور ہمیشہ کی سعادت کا سبب ہے اور اس وقت یہ کمال انسان کے لئے میسر ہوتا ہے کہ جب انسان علم وقدرت کے لامحدود سر چشمہ اور کمالِ مطلقِ حقیقی یعنی خداوند عالم سے وابستہ ہوجائے ،اور اسی رابطہ کو قرب خداوندی کا نام دیا جاتا ہے(۳) بس انسان کا حقیقی کمال جو اس کا مقصد خلقت ہے خداوند عالم کے تقرب اور اس سے رابطہ کے زیر سایہ حاصل ہوتا ہے،اور وہ انسان جو اس کمال کے سب سے کم اور پست مرتبے کو بھی اپنے پاس نہیں رکھتا ،یعنی جو شخص ضعیف ترین ایمان کا حامل بھی نہیں ہے وہ اس درخت کے مانند ہے جو ابھی پھل دینے نہیں لگا اگر ایسا درخت کسی آفت سماوی یا روگ ومرض کی وجہ سے پھل کی صلاحیت کو

کھو دے تو اُس کی منزلت بے پھل درخت سے بھی زیادہ گر جائے گی،اس بناء پر کمال اور انسانی سعادت میں ایمان کے کردار کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ انسان کے روح کی اصل خصوصیات خداوند عالم سے علم وآگاہی اور اختیار کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ہے،اور بغیر اس رابطے کے مناسب کمال اور اس کے آثار سے محروم ہو جائے گا، بلکہ یوں کہا جائے کہ انسان کی انسانیت کا وجود نہیں ہو سکتا،اور اگر انسان برُے اختیارات کے ذریعہ ایسی بلند صلاحیتوں کو برباد کردے، تو گویا اس نے اپنے اوپر بدترین ظلم کیا ہے اور وہ ابدی سزا کا مستحق ہوگا،اور قرآن مجید ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے،

( اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَاللَّهِ الَّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لَا يُؤمِنُونَ ) (۴) بے شک خدا کے نزدیک جانوروں میں کفار سب سے بدتر ہیں،پس وہ ایمان نہیں لاتے۔

خلاصہ یہ کہ ایمان اور کفر میں سے ہر ایک انسان کے لئے سعادت و کمال کی طرف ترقی کی حرکت یا عذاب و بد بختی کی طرف تنز لی کی حرکت کو معین کرتا ہے،اور ان میں سے جو بعد میں ہوگا وہی آخری اور عاقبت ساز اثر رکھے گا،(آخرت کی اچھائی یا برُائی اسی کے قبضے میں ہے)۔

خواہش(محرک)اور نیت کا کردار

مذکورہ اصل کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ،کہ انسان کے اختیاری کاموں کی حقیقی قدرو قیمت تب معلوم ہوگی، جب ہم یہ دیکھیں کہ وہ انسان کو حقیقی کمال یعنی قرب پروردگار تک پہنچا نے میں کتنا اثر رکھتی ہے،اگرچہ بہت سے اعمال کسی نہ کسی طرح چاہے بعض امور کا سہارا لے کر ہی صحیح دوسروں کے تکامل اور ترقی کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں تو وہ اچھائی اور فضیلت سے متصف کئے جاتے ہیں ،لیکن فاعل کی ابدی سعادت میں ان کی تاثیر اس اثر کے اوپر موقوف ہے جو روح کے تکامل اور میں اعمال نے اثر چھوڑ اتھا، دوسری جانب سے اگر دیکھا جائے تو خارج افعال کا فاعل کی روح سے جو ارتباط ہے وہ ارادہ کے ذریعہ حصل ہوتا ہے کہ یہ کام اس کے بغیر واسطہ کے ہے،اور کام کا ارادہ مقصد اور نتیجہ کی محبت،اور شوق و رجحان کی بنا پر وجود میں آتا ہے اورا سی کا نام خواہش اورسبب ہے جوروح کے اندر مقصد کی طرف بڑھنے کے لئے ایک حرکت پیدا کرتا ہے،اور کام کے ارادہ کی شکل مجسم ہو کر ظاہر ہوتا ہے،بس ارادی کام کی قدروقیمت خواہش(سبب) اور فاعل کی نیت کے تابع ہے،اور کام کے حسن کا بغیر فاعل کے حسن کے روح اور سعادت ابدی کے تکامل میں کوئی اثر نہیں ہے۔

اور یہی دلیل ہے کہ جو کام مادی اور دنیوی اسباب اور خواہشات کی بنا پر انجام پاتے ہیں وہ ابدی سعادت میں کوئی اثر نہیں رکھتے،اور اگر اجتماعی اور معاشرے کی سب سے بڑی خدمت بھی(ریا) دکھاوے یا خود نمائی کے لئے ہوتو فاعل کو اس کا ایک ذرہ فائدہ نہیں پہنچے گا(۵) بلکہ ممکن ہے اس کے لئے نقصان اور روحی انحطاط کا باعث بن جائے اس لئے قرآن کریم آخرت کی سعادت میں اعمال صالحہ کی تاثیر کو ایمان اور قصد قربت]اِرَادَه وَجهُ اللّه وَابتِغَائَ مَرَضَات اللّه [پر مشروط اور موقوف جانا ہے(۶)

حاصل کلام یہ ہے کہ نیک کام دوسروں کی خدمت کرنے میں منحصر نہیں ہے ،دوسر ا یہ کہ دوسروں کی خدمت کرنا بھی انفرادی عبادت کی طرح سعادت ابدی اور اخروی تکامل اور ترقی میں اس وقت مو ثر ہوگی کہ جب خدائی خواہشات اور آرزوئوں سے وابستہ ہو۔

سوالات

(١)ہر شی کی حقیقی قدرو قیمت کس چیز میں ہے؟

(٢)انسان کے آخری کمال کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟

(٣)ثابت کیجئے کہ انسان کا آخری کمال صرف ارتباط اور تقرب خدا کے زیر سایہ ہی حاصل ہو سکتا ہے؟

(٤)ثابت کیجئے کہ نیک کاموں کی تاثیر انسان کی ابدی سعادت میں الٰہی مقصد اور مراد پر موقوف ہے؟

____________________

١۔ انفا ل ٢٢،

٢ ۔ اعرا ف ١٧٩،

۳۔ زیا دہ تفصیل معلو م کر نے کے لئے مئو لف کی کتا ب ( خو د شنا سی بر ای خود سا زی ) کی طرف رجو ع کریں ۔

۴۔انفا ل ٥٥،

۵۔بقر ہ ٢٤٦ ، نسا ء ٣٨، ١٤٢، انفا ل ٤٧، مو عون ٦،

۶۔ نساء ١٢٤، نحل ٩٧ ، اسرا ء ١٩، طہٰ ١١٢، انبیا ء ٩٤، غا فر ٤٠ ، انعام ٥٢، کہف ٢٨ ، روم ٣٨، بقرہ ٢٠٧،٢٦٥،

ستاو نواں درس

حبط و تکفیر

مقدمہ:

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے

ایمان و کفر کا رابطہ

نیک و بد اعمال کا رابطہ

مقدمہ:

ایک اور مسئلہ جو ایمان و عمل صالح اور آخرت کی سعادت کے درمیان رابطے اور اس کے بر خلاف کفر وگناہ اور ابدی شقاوت کے درمیان رابطے کے سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا ایمان اور کفر کے ہر لمحات کا تعلق اس کے اخروی نتیجہ سے ہے؟ اسی طرح کیا ہر اچھے اور برے اعمال کا رابطہ اس کی جزا یا سزا سے یقینی و ثابت نیز نا قابل تبدیل ہے ؟یا یہ کہ کسی نہ کسی طرح تبدیلی ایجاد ہو سکتی ہے؟مثلاًنیک اعمال کے ذریعہ گناہوں کی تلافی کی جاسکتی ہے یا بر عکس یعنی نیک کام کے اثر کو گناہ کے ذریعہ ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ شخص جس نے اپنی حیات کے نصف حصّے کو کفر وگناہ کی حالت میں گذارا اور باقی نصف زندگی کو ا یمان اورا طاعت خدا میں بسر کیا ہے کچھ مدت تک عذاب میں گرفتار رہنے کے بعد اجر و ثواب کا مستحق ہو سکتا ہے ؟یا ایسا نہیں ہے بلکہ دونوں کو جمع کرکے جبری صورت میں اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خوشبختی یا بد بختی کو معین کردیاجائے گا؟یا ایسا بھی نہیں ہے بلکہ کوئی اور راستہ نکالا جائے گا؟

یہ مسئلہ در حقیقت حبط و تکفیر(۱) کے مسئلہ کے جیسا ہے، کہ جو قدیم زمانے سے اشاعرہ اور معتزلہ فرقوں کے علماء کلام کے درمیان موضوع بحث وگفتگو رہا ہے ،اور ہم اس درس میں شیعوں کے نظرئے کو خلاصہ کے طور پر بیان کریں گے۔

ایمان اور کفر کا رابطہ۔

گذشتہ درسوں میں ہم یہ جان چکے ہیں کہ بغیر اعتقادی اصولوں پر ایمان رکھے ہوئے کوئی عمل صالح ابدی خوشبختی کا ذریعہ نہیں بن سکتا،بلکہ جملہ بدل کر کہا جائے کہ کفر اچھے اور شائستہ امور کو بے اثر بنا دیتا ہے، یہاں پر اس بات کا اضافہ ضروری ہے کہ انسان کی زندگی کے آخری لمحات میں ایمان کا پایا جانا اس کے سابقہ کفر کے بُرے اثرات کو محو کر دیتا ہے ، جس طرح روشن نور گذشتہ تاریکیوں کو بر طرف کردیتا ہے ،اور اس کے بر عکس، آخری وقت کا کفر، اس کے گذشتہ ایمان کے اثر کو ختم کردیتا ہے،اور انسان کے نامۂ اعمال کو سیاہ اور عاقبت کو تباہ کردیتا ہے،با لکل اُس آگ کے مانند جس کی ایک چنگاری پورے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے ، یایہ کم ایمان ایک روشن چراغ کی طرح ہے کہ جو دل ودماغ کے آشیانوں کو روشن اور تابناک کردیتا ہے اور تاریکیوں وتیرگیوں کو دور کردیتا ہے،اور کفر اُس چراغ کے بجھنے کے مانند ہے جو اپنے گل ہونے کے ساتھ ساتھ تمام اُجالوں کو ختم کرکے اندھیرے کو جنم دیتا ہے اور جب تک انسان کا دل ودماغ اس مادی وتغیر نیز پیچ وخم سے بھری ہوئی دنیا سے وابستہ رہے گا ،مسلسل روشنی و تاریکی ،نور وظلمت کی کمی اور زیادتی کے خطرے سے اس وقت تک دوچاررہے گا جب تک اس سرای فانی سے گذر نہ جائے،اور اس کے اوپر ایمان اور کفر کے انتخاب کرنے کا راستہ بند نہ ہوجائے،اور پھر چاہے جتنا آرزو کرے کہ ایک بار پھر اس دنیا میں آکر اپنی

تاریکیوں کو ختم کرلے،لیکن یہ تمنا اس کو کوئی فائدہ نہ پہچائے گی(۲)

ایمان وکفر کے درمیان یہ اثر متقابل قرآن کی نگاہ میں ایک ثابت امر ہے جس میں کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش نہیں ہے،اور اس بیان پر قرآن کریم کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں مثلاًسورۂ تغابن کی آیت نمبر(٩)وَ مَن ےُومِن بِاللّہِ وَ ےَعمَل صَالِحاً ےُکَفِّر عَنہُ سَیِّاٰ تِہِ،جو بھی خدا پر ایمان لایا اور عمل صالح انجام دیا تو یہ اس کے برے کاموں کو محو کردیگا،اور سورۂ بقرہ کی آیت نمبر (٢١٧) میں ارشاد ہورہا ہے کہ (وَمَن ےَرتَدِد مَنکُم عَن دِینِہِ فَےَمُت وَہُوَکَافِر فَاُولیِٔکَ حَبِطَت اَعمَالُہُم فِ الدُّنےَا وَالآخِرَةِ وَاُولیِٔکَ اَصحَابُ النَّارِ ہُم فِیہَا خَالِدُونَ)،تم سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے(مرتد ہوجائے)اور حالت کفر میں چلاجائے ،تو اس کے اعمال دنیاو آخرت میں باطل ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

نیک وبد اعمال کا رابطہ

ایمان و کفر کے مابین موجود رابطہ کی طرح نیک و بد امور کے درمیان بھی اسی طرح کا رابطہ فرض کیا جا سکتا ہے،لیکن بطور کلی اس طرح نہیں کہ ہمیشہ انسان کے نامۂ اعمال میں اس کے نیک کام ثبت ہو جائیں اور گذشتہ تمام برے اعمال اس سے مٹ جائیں(جیسا کہ بعض معتزلی متکلمین کا نظریہ ہے ) یا یہ کہ ہمیشہ دونوں اعمال کو جمع کر کے جبری صورت میں گذشتہ اعمال کی مقدار و کیفیت کو دیکھتے ہوئے اسی کے مطابق ثبت کردیا جائے(جیسا کہ بعض دوسرے افراد کا نظریہ ہے)بلکہ اعمال کے متعلق تفصیل کا قائل ہو نا پڑے گا یعنی اس طر ح کہ بعض نیک اعمال اگر شا یستہ طر یقہ سے انجام د ئے جا ئیں اور پیش خدا وہ امور قبو ل ہوں تو وہ بر ے اعما ل کے اثر ا ت کو ختم کر دیتے ہیں جیسے تو بہ اگر مطلو ب اور بہتر طریقہ سے انجام پا ئے، تو انسان کے گنا ہ بخش دئے جا ئیں گے(۳)

اور یہ امر با لکل روشنی کی اس شعاع کی طر ح ہے جو کسی خا ص اور معین مقام پر پڑے اور اس جگہ کو روشن کر دے، لیکن ہر نیک عمل ہر گنا ہ کے اثر کو ختم نہیں کر تا، اور اسی لئے ممکن ہے ایک شخص مو من ایک مدت تک اپنے گنا ہو ں کے عذاب میں مبتلا رہے اور آخر کا ربہشت میں پہنچ جا ئے گو یا کہ انسان کی روح کے مختلف ابعاد(پہلو) ہیں اور اعمالِ نیک یا بد میں سے ہر ایک صرف ایک پہلو سے مربوط ہوتا ہے مثلاً وہ نیک عمل جو ،،الف،،کے جنبہ سے متعلق ہے وہ،،ب،،کے جنبہ سے متعلق گناہوں کو محو نہیں کریگا،مگر یہ عمل صالح اتنازیادہ نورانی ہو کہ جو روح کے دوسرے جوانب سرایت کر جائے یا گناہ ا تنی زیادہ آلودگی رکھتا ہو کہ تمام پہلوں و اطراف وجوانب کو آلودہ کردے جیسا کہ روایات شریفہ میں وارد ہوا ہے کہ قبول شدہ نماز گناہوں کو دھودیتی ہے اور ان کے بخشش کا سبب بنتی ہے،اور قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ( وَاَقِمِ الصَّلَوٰ ة طَرفَِ النَهَارِ وَ زُلفاً مِنَ اللَّیلِ اِنَّ الحَسَنَاتِ يُذهِبنَ السِّیاتِ ) (۴) اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ دن کے دونوں اطراف میں اور رات گئے نماز قائم کریں اس لئے کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں۔

اور بعض گناہ جیسے عاق والدین،شراب پینا ایسے ہیں کہ جو ایک مدت تک عبادت کو قبول ہونے میں مانع ہو جاتے ہیں،یا جیسے کسی کی مدد کرنے کے بعد احسان جتانا جو اس کام کے ثواب کو ختم کر دیتاہے ، جیسا کہ قرآن میں موجود ہے(( لاتُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنَّ وَالَا ذَیٰ ) ٰ(۵) اپنے احسانات اورصدقات کو احسان جتانے اور تکلیف پہچانے کے ذریعہ ضائع نہ کرو ،لیکن نیک و بد اعمال کے ایک دوسرے میں اثر انداز ہونا نیز اس کی نوعیت اقسام اور اس کی مقدار کو وحی خدا اور معصومین علیہم السّلام کے کلمات کے ذریعہ معین کرنا پڑے گا،اور ان سب کے لئے کسی کلی قانون کو معین نہیں کیا جاسکتا۔

اس درس کے اختتام پر مناسب ہے کہ اشارہ کیا جائے کہ نیک و بد اعمال اس دنیا میں کبھی کبھی خوشحالی یا بد حالی، یا کسی نیک کام کی توفیق یا اس کے سلب ہوجانے میں اپنا اثر دکھاتے ہیں ،جیسا کہ دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا، بالخصوص والدین اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنا، طول عمر اور آفات و بلاؤں کے دور ہونے کا سبب بنتا ہے،یا بزرگوں کی بے احترامی بالاخص معلم اور اساتذہ کی بے احترامی،توفیقات کے سلب ہوجانے کا باعث ہے، لیکن ان آثار کے مترتب ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے ،کہ انسان کو پوری جزا یا سزا اسے مل چکی، بلکہ جزا اور سزا کی اصلی جگہ قیامت ہے۔

سوالات

١۔حبط وتکفیر کے معنی بیان کریں؟

٢۔ایمان اور کفر کے درمیان کتنی طرح کے رابطے کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟اور ان میں سے کون سا بہتر اور صحیح ہے؟

٣۔اعمال نیک اور بد کے رابطہ کو کیسے فرض کیا جاسکتا ہے؟ان میں سے کون سیصورت صحیح ہے؟

٤۔آیا نیک و بد اعمال کے دنیوی اثرات آخرت کی جزا یا سزا کا مقام لے سکتے ہیں؟یا نہیں؟

____________________

١۔ حبط و تکفیر یہ قر آن مجید کی دو اصطلا حیں ہیں کہ جس میں سے پہلے کا مطلب یہ ہے کہ نیک کا م کا بے اثر ہو جا نا اور دوسرے کا مطلب یہ ہے کہ گنا ہوں کی تلا فی ہو جا نا ۔

۲۔ در س نمبر ١٤ کی طرف رجو ع کریں ۔

۳۔ رجوع کریں ، نساء ١١٠، آل عمرا ن ١٣٥، انعام ٥٤، شو ریٰ ٢٥، زمر ٥٣ ، و........

۴۔ ھود ١١٤،

۵۔بقرہ ٢٦٤،