درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48356
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48356 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

پانچواں درس

خدا کی معرفت

مقدمہ

حضوری اورحصولی معرفت

فطری معرفت

مقدمہ

اب تک ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دین کی اساس و بنیاد کائنات کے خلق کرنے والے پر اعتقاد (یقین ) رکھنا ہے اور معرفت الٰہی اورمعرفت مادی کے درمیان اصلی فرق اسی کا پایا جانا اور نہ پایا جانا ہے

لہٰذا سب سے پہلا وہ مسئلہ جو حقیقت کے چاہنے والوں کے لئے پیدا ہوتا ہے اور جس کا جواب ہر شی سے پہلے ضروی ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا کسی خدا کا وجود ہے یا نہیں؟ اور اس سوال کے جواب کو حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان کیا جاچکا ہے اسے حل کرنے کے لئے عقل کی جولانیوں کی ضرورت ہے تا کہ کسی قطعی نتیجہ تک پہنچا جا سکے نتیجہ چاہے ٫٫ اثبات ،،میں ہو یا

٫٫ نفی،، میں اثبات کی صورت میں اس کے فرعی مسائل (توحید عدل اور تمام صفات الٰہی ) کی باری آتی ہے، نتیجہ کے نفی ہونے کی صورت میں مادی نظریہ کی تائید و تصدیق ہوتی ہے کہ جس کے بعد دین کے بقیہ مسائل کو حل کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

حضوری اور حصولی معرفت۔

خدا کے سلسلہ میں دو اعتبار سے اس کی معرفت کا تصور کیا جاتا ہے ۔ ١۔معرفت حضوری۔

٢، معرفت حصولی۔ خدا کی نسبت معرفت حضوری کا مطلب یہ ہے کہ انسان مفاہیم ذہنی کو واسطہ بنائے بغیر شہود قلبی کے ذریعہ خد ا کی ذات سے آشنا ہو جائے۔

لہٰذا یہ بات روشن ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کے سلسلہ میں ایک واضح شہود سے روبرو ہوجائے

تو( جیسا کہ بلند مرتبہ عارفوں نے دعویٰ کیا ہے)، پھر کسی بھی عقلی استدلال و برہان کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ایسا شہود اور علم حضوری عام افراد(۱) کے لئے عرفانی سیر و سلوک کے مراحل طے کرنے کے بعدہی میسر ہے، اگر چہ ایسے انکشافات کا امکان عام افراد کے لئے کسی حد تک بجا ہے لیکن چونکہ معرفت کو حاصل کرنے کے لئے کافی معلومات نہیں رکھتے لہٰذا یہ چیز ان کیلئے ممکن نہیں ہو گی ۔

معرفت حصولی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کلی مفاہیم (جیسے بے نیاز خالق، عالم و قادر) یعنی ادراکات ذھنی اور ایک لحاظ سے غائبانہ طور پر خدا کی طرف نسبت دے،اور اس حد تک اعتقاد ررکھے ، کہ ایسی ذات کا وجود ہے کہ جس نے اس جہان کو پیدا کیا ہے اور پھر معرفت حصولی کے دوسرے ذرائع کو اس سے متعلق ایک منظم اصول تک رسائی ہو سکے ، جو کچھ بھی فلسفی براہین اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ در اصل یہی معرفت حصولی ہے، لیکن جب ایسی معرفت انسان کو حاصل ہو جائے تو اسے معرفت حضوری کے سلسلہ میں بنی کوشش کرنا چا ہیے۔

فطری شناخت۔

عرفا ء ، حکماء اور دینی رہبروں کے اکثر اقوال میں اس عبارت کو اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ''خدا کی شناخت فطری ہے'' یا ' ' انسان فطرة ًخدا شناس ہے'' اس مطلب کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے فطر ت کے معنی سمجھنا ہوں گے۔

فطرت ایک عربی کلمہ اور ''نوع خلقت'' کے معنی میں ہے،اورانھیں امور کو فطری کہا جاتا ہے کہ جس کا ، خلقت و آفرینش تقاضا کرے، اسی وجہ سے اس کے لئے تین خصوصیات کا لحاظ کیا گیا ہے ۔

١۔ فطرت وہ موجود ہے جو نوع از موجودات کے تمام افراد میں، پائی جائے اگر چہ وہ کیفیت شدت و ضعف کے اعتبار سے متفادت ہوں۔

٢۔ فطری امور طول تاریخ میں ہمیشہ ثابت و مستحکم و نا قابل تبدیل رہے ہیں اور ایساکبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ کسی نوع کی فطرت ایک زمانہ گذر جانے کے بعد اپنی اقتضا بدل دے اور اسی طرح زمانے کے بدلنے کی طرح اس کی اقتضا بدلتی رہے۔

( فِطرَتَ اللّه الَّتِى فَطَرَ النَّاسَ عَلَیهَا لَا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) ،)

یہی خدا کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق کی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سو رہ روم۔ آیت/ ٣٠.

٣۔ فطری امور فطری ہونے کے لحاظ سے اور اقتضاء خلقت کے سبب اس کو سکھنے اور سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسے صحیح راستہ دکھانے اور قوت بخشنے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے۔

انسان کی فطریات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

الف: فطری معرفت کہ جو ہر انسان کے پاس تعلیم کے بغیر موجود ہے۔

ب: فطری میلانات اور رجحانات ہر فرد کی خلقت کا تقاضا و لارمہ ہیں، لہٰذا اگر ہر فطرت بشر کے لئے خدا کے سلسلہ میں ایک قسم کی شناخت ثابت ہو جائے کہ جس کے حصول کے لئے تعلیم و تعلم کی ضرورت نہ ہو تو اسے ''فطری خدا شناسی کا نام دیا جاسکتا ہے'' اور اگر تمام انسانوں میں خدا کی طرف توجہ اور اس کی پرستش کے میلانات ظاہر ہوجائیں تو اسے ( فطری خدا پرستی) کہا جاسکتا ہے۔

ہم نے دوسرے درس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ بہت سے صاحبان نظر کی رو سے دین اور خدا کی طرف توجہ پیدا کرنا انسان کی روحی خصوصیات کا تقاضا ہے کہ جسے ''حس مذہبی'' یا '' عاطفہ دینی '' کا نام دیا جاتا ہے، اب اس کے بعد ہم اس مطلب کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ خدا شناسی بھی انسانی فطرت کا تقاضہ ہے، لیکن جیسا کہ خدا پرستی کی فطرت ایک دیدہ و دانستہ میلان نہیں اسی طرح خدا شناسی کی فطرت بھی لاشعوری اور غیر دانستہ ہے اس لحاظ سے یہ فطرت عام افراد کو خدا شناسی کی عقلی جستجو و تلاش سے بے نیاز نہیں کر سکتی۔

لیکن اس نکتہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ہر انسان معرفت حضوری کے ایک ادنی درجہ پر فائز ہے لہٰذا معمولی فکر و استدلال کے ذریعہ ،وجود خدا کو ثابت کرسکتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنیلا شعوری شناخت (مشاھدہ قلبی) کو قوی بنا سکتا ہے، اور آگاھانہ طور پر معرفت کے مدارج طے کرسکتا ہے۔

نتیجہ:

خدا شناسی کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل ووجود خدا سے آشنا ہے اور اس کی روح میں خدا شناسی کی فطرت موجود ہے جسے رشد و کمال دیا جاسکتا ہے۔

لیکن یہ فطرت عام افراد میں اس حالت میں نہیں ہے کہ انھیں کلی حثیت سے تفکر اورعقلی

استدلالات سے بے نیاز کردے۔

سوالات

١۔ معرفت کا سب سے بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اور اس کے اساسی ہونے کی وجہ کیا ہے؟

٢۔ خدا کے سلسلہ میں شناخت حضوری اور حصولی کی وضاحت کریں؟

٣۔ کیا شناخت حضوری کو عقلی استدلالات کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

٤۔شناخت حضور ی کے لئے شناخت حصولی کیا مدد کرسکتی ہے؟

٥۔ فطرت کے معنی بیان کریں؟

٦۔ امور فطری کی خصوصیات بیان فرمائیں؟

٧۔ امور فطری کی اقسام ذکر کریں؟

٨۔ کون سا فطری امر خدا سے مربوط ہے؟

٩۔ خدا شناسی کے فطری ہونے کے بارے میں وضاحت پیش کریں؟

١٠۔ کیا خدا شناسی کی فطرت عام لوگوں کو عقلی استدلالات سے بے نیاز کر سکتی ہے؟ اور کیوں؟

____________________

(١) البتہ ایسے مشاھدات و انکشافات کے اھل افراد سے انکار نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے زمانہ طفولیت میں بھی ایسے شہودات کے مالک ہوا کرتے تھے یہاںتک کہ بعض ائمہ نے شکم مادر میں بھی ایسی شناخت کا ثبوت دیا ہے۔

چھٹا درس

خدا شناسی کا آسان راستہ

خدا شناسی کے راستے

آسان راستہ کی خصوصیات

آشنا علامات و آثار

خدا شناسی کے راستے

خدا کی معرفت حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع اور مختلف طریقے ہیں ، کہ جن کی طرف مختلف فلسفی وکلامی کتابوں، دینی رہنمائوں کے بیانات، اور آسمانی کتابوں میں اشارہ کیا گیا ہے، یہ دلائل مختلف جہتوں سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں جیسے کہ بعض دلیلوں میں حسی و تجربی مقدمات سے استفادہ کیا گیا ہے اور بعض دلائل محض مقدمات عقلی پر مشتمل ہیں، بعض دلیلیں خدائے حکیم کے وجود کا اثبات کرتی ہیں تو بعض ایک ایسے وجود کو ثابت کرتے ہیں جو اپنی پیدائش میں کسی دوسرے وجود کا محتاج نہیں ہے، (واجب الوجود) لہٰذا اس کی صفات کی پہچان کے لئے کچھ دوسرے دلائل کی ضرورت ہے ۔

خدا شناسی کے دلائل کو اُن پلوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو کسی ندی یا دریا سے عبور کرنے کے لئے بنائے گئے ہوں، ان میں بعض پل لکڑی کے ہوتے ہیں کہ جن سے صرف ایک ہلکا (کم وزن) آدمی آسانی سے گذرسکتا ہے اور بعض محکم اور طولانی ہوتے ہیں کہ جن سے ہر کوئی گذر سکتا ہے اور بعض پل آہنی و پر پیچ راستوں پر مشتمل ہوتے ہیں نشیب و فراز اور سُرنگوں سے گذرتے ہیں کہ جنھیں بڑی بڑی ٹرینوں کے گذرنے کے لئے بنایا جاتا ہے۔

وہ لوگ کہ جو سادہ ذہن ہیں وہ آسان راستوں سے خدا کو پہچان سکتے ہیںاور اس کی عبادت انجام دے سکتے ہیں، لیکن وہ لوگ کہ جن کے ذہنوں میں شک و شبہات پائے جاتے ہیں انھیں محکم پل سے گذرنا ہوگا، اورجن کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا انبار ہے اور طرح طرح کے وسوسہ پیدا ہوتے ہیں انھیں ایسے پل سے گذرنا ہوگا کہ جو زیادہ سے زیادہ استحکام کا حامل ہو، اگر چہ اس میں نشیب و فراز اور پیچ و خم کی مشکلات موجود ہوں۔

ہم اس مقام پر خدا شناسی کے آسان دلائل کے سلسلہ میں بحث کریں گے، اس کے بعد متوسط دلائل پیش کریں گے، لیکن پیچ وخم سے بھر پور راستے کہ جنھیں طے کرنے کے لئے فلسفہ کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اسے ایسے افراد طے کریں کہ جن کے ذہنوں میں شبہات کا انبار ہے، جو اپنے شبہات کو زائل کرنے نیز بھولے بھٹکے لوگوں کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔

آسان راستہ کی خصوصیات۔

خدا شناسی کا آسان راستہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں سے مہم خصوصیات یہ ہیں

١۔ اس راستہ کو طے کرنے کے لئے پیچیدہ دلائل کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ ایک آسان دلیل ہے کہ جسے یہاں ذکر کیا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے وہ تمام لوگوں کے لئے خواہ وہ کسی طبقہ سے ہوں قابل فہم ہے۔

٢۔ یہ راستہ براہ راست ( خداء علیم و قدیر) کی طرف ہدایت کرتا ہے، جبکہ فلسفہ و کلام کے اکثر براہین پہلے مرحلہ میں ایک ایسے موجود کو ثابت کرنا چاہتے ہیں جو (واجب الوجود) ہے اور اس کی صفات، علم و قدرت، حکمت و خالقیت اور ربوبیت کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔

٣۔یہ راستہ ہر شی سے زیادہ فطرت کو بیدار کرنے اور فطری معرفت دلانے میں اثر انداز ہے اسی راستہ کو طے کرنے کے بعد انسان میں ایک ایسی عرفانی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ گویا وہ دست خدا کو جہان کی خلقت اور اسکی تدبیر میں مشاھدہ کرتے ہوئے محسوس کررہا ہے وہی دست خدا کہ جس سے اس کی فطرت آشنا ہے۔

انھیں خصوصیات کی وجہ سے اس راستہ کو انبیاء اور دینی رہبروں نے عام لوگوں کے لئے انتخاب کیا اور لوگوں کو اس راستہ کی طرف آنے کی دعوت دی،اور خواص کے لئے ایک دوسرے طریقہ کا ر کا انتخاب کیا یا ملحدوں اور مادی فلاسفہ کے مقابلہ میں مخصوص دلائل پیش کئے۔

آشنا نشانیاں ۔

خدا شناسی کا آسان راستہ جہان میں خدا کی آیات پر غور و فکر اور قرآن کی تعبیر کے مطابق آیات الٰہی میں تفکرکرنا ہے زمین و آسمان اور انسان کا وجود بلکہ کل جہان کی ہر شی ایک مطلوب و مقصود نشانی کے وجود سے آشنا ہے او ر ساعت قلب کی سوئیوں کو اس مرکز ہستی کی طرف ہدایت کر رہی ہیں کہ جو ھمہ وقت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔

یہی کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے اسی کی نشانیوں میں سے ہے، کیا ایسانہیں ہے کہ اس کے مطالعہ سے اس کے مؤلف اور اس کے ہدف سے آپ آشنا ہوں گے؟ کیا آپ یہ احتمال دے سکتے ہیں کہ یہ کتاب خود بہ خود وجود میں آگئی ہے اور اس کا کوئی مؤلف و مصنف نہیں ہے؟ کیا یہ احمقانہ تصور نہیں ہے کہ کوئی یہ تصور کر بیٹھے کہ سیکڑوں جلد پر مشتمل دائرة المعارف کی کتاب ایک دھماکے سے وجود میں آ گئی، اس کے ذرّات نے حروف کی شکل اختیار کر لی اور دوسرے چھوٹے چھوٹے دھماکوں سے کاغذات بن گئے اور پھر چند دھماکوں سے پوری کتاب مرتب ہوگئی۔

کیا اس عظیم ھستی کی خلقت کو بے شمار اسرار و حکمت کے باوجود آنکھ بند کر کے ایک حادثہ مان لینا اس تصور سے ہزار گُنا احمقانہ نہیں ہے کہ جسے ہم نے بیان کیا؟!

ہاں، ہر باہدف نظام ا پنے ناظم کے عظیم ہدف پر دلالت کرتا ہے اور ایسے باھدف نظام تو اس جہان میں بے شمار ہیں کہ جن میں سب کی باز گشت ایک ہی چیز کی طرف ہے یعنی خالق حکیم نے

اس جہان کو خلق کیاہے اور اس کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔

گلستان کے دامن میں کھلنے والا پھول اور پھولوں کا درخت ،خاک و را کھ کی آغوش سے اپنی مختلف شکل و صورت میں سر اٹھاتا ہے سیب کا ایک تنا ور درخت تنہا ایک معمولی بیج کا نتیجہ ہے جو ہر سال سیکڑوں خوش ذائقہ اور لذیذ پھل عطا کرتا ہے، یہی حال بقیہ درختوں کا بھی ہے۔

اسی طرح وہ بلبل جو درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھی نغمہ سرائی کرتی ہے،انڈے کی چھال توڑ کر باہر آنے والا چوزہ زمین پر دانے چگنے کے لئے نوک مارتا ہے یا گائے کا پیدا ہونے والا بچھڑا سیر ہونے کے لئے اپنی ماں کے پستان ڈھونڈھتا ہے یا نوزاد (نو مولود) کی بھوک مٹانے کے لئے مائووں کے پستان میں اترنے والا دودھ یہ سب کچھ اسی کی آشکار نشانیاں ہیں۔

واقعاًآپ تصور کریں کہ نو مولود کے متولد ہوتے ہی ماں کے پستان میں دودھ کا آ جانا کیسا مرتب اور دقیق نظام ہے۔

وہ مچھلیاں جو انڈے دینے کے لئے پہلی مرتبہ سیکڑوں کیلو میٹر کا راستہ طے کرتی ہیں یا وہ پرندے جو دریائی گھاس پھوس میں اپنے گھونسلوں کو بخوبی پہچان لیتے ہیں یہاں تک کہ ایک بار بھی بھولے سے کسی دوسرے کے گھونسلے میں قدم نہیں رکھتے یا پھر شہد کی مکھیاں جو خوشبودار پھولوں کے رسوں کو حاصل کرنے کے لئے صبح اپنے آشیانے(چھتہ) سے باہر آتی ہیں، طولانی مسافتوں کو طے کرتی ہیں اور شام ہوتے ہی مستقیم طور پر اپنے (چھتہ) لوٹ آتی ہیں... یہ سب کی سب اس کی نشانیاں ہیں ،اور سب سے زیادہ عجیب مسئلہ تو یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اور گائے ، بھینس ، بھیڑ، بکریاں اپنی احتیاج سے کہیں زیادہ دودھ اور شہد دیتی ہیں تا کہ خدا کا برگزیدہ انسان اس سے استفادہ کر سکے۔

خود انسان کے بدن میں نہایت پیچیدہ اور حکیمانہ نظام قابل مشاہدہ ہیں منظم مجموعوں سے بدن کی ترکیب اور ہر مجموعہ کامتناسب اعضاسے مرکب ہونا اور ہر عضو کا لاکھوں زندہ خلیوں سے ترکیب پانا جبکہ یہ سب کے سب تنہا ایک خلیہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان تمام خلیوں کا ایک خاص ترکیبات سے وجود میں آنا اور پھر ہر عضوبدن کا ایک خاص مقام پر واقع ہونا ، اور تمام اعضاء بدن کا

کسی خاص ھدف کے تحت حرکت کرنا، جیسے پھیپھڑوں کے ذریعہ ا کسیجن کا حاصل کرنا اور پھر خون کے گلبل( globule )کے ذریعہ انھیں بدن کے مخنلف اعضاء تک پہنچ جانا نیز ایک معین مقدار میں جگر کے ذریعہ قند کی کمی کو پورا کرنا، نئے خلیوں کی پیدائش کے ذریعہ آسیب دیدہ عضلات کو بدلنا اور مختلف غدوں سے حاصل ہونے والے ہارمون اور سفید گلبل کے ذریعہ ضرررساں جراثیم سے مقابلہ جو بدن کو منظم رکھنے اور اس کی حیات کو باقی رکھنے کے لئے نمایاں کام انجام دیتے ہیں... یہ سب کی سب خداوند متعال کی نشانیاں ہیں، اور یہ عجیب نظام ہے کہ سیکڑوں سال گذرنے کے بعد ہزاروں دانشمند اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے کہ یہ تمام امور کس کے وسیلہ سے برقرار ہیں۔

ہر خلیہ اپنے چھوٹے سسٹم کے ساتھ کسی نہ کسی ھدف کے تحت اور خلیوں کا ہر دستہ ایک ایسے عضو کو تشکیل دیتا ہے جو خود با ھدف نظام ہے اور ایسے سیکڑوں سسٹم اپنی پیچیدگیوں کے ساتھ پورے ایک بدن پر حاکم ہیں، سلسلہ یہیں پر تمام نہیں ہوتا ،بلکہ موجودات کے اندرایسے ہزارں اور لاکھوں سسٹم ایسی بے کراں ہستی کو تشکیل دیتے ہیں جسے جہان طبیعت کا نام دیا جاتا ہے جونظم و کمال کے ساتھ حکیم واحد کے ہاتھوں جاری و ساری ہیں۔ اور یہ بات واضح و روشن ہے کہ علم و دانش جتنا بھی پیشرفت اور ترقی کرے گا اتنے ہی حکمت الٰہی کے اسرا رو رموز آشکار ہو تے جائیں گے اور یہی نشانیاں پاک نفس اور صاف طبیعت والوں کے لئے کافی ہیں۔

سوالات

١۔ خدا شناسی کی مختلف راہیں اور خصوصیات بیان فرمائیں؟

٢۔ خدا شناسی کا آسان راستہ کیا ہے؟ اور اس کی خصوصیات کیا ہیں؟

٣۔ موجودات عالم کی با ھدف نشانیاں ، بسط و تفصیل سے بیان کریں؟

٤۔ دلیل نظم کی منطقی شکل بیان کریں؟

ساتواں درس

واجب الوجود کا اثبات

مقدمہ

یہ بحث مندرجہ ذیل مو ضوعات پر مشتمل ہے

متن برہان

امکان اوروجوب

علت و معلول

علتوں کے تسلسل کا محال ہونا

تقریر برہان

مقدمہ

ہم نے گذشتہ دروس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسلامی فلاسفہ اور متکلمین نے خدا کے وجود کے ثابت کرنے کے لئے بہت سے دلائل اور براہین ذکر کئے ہیں جو فلسفہ وکلام کی بسیط کتابوں میں موجود ہیں، ہم ان تمام براہین میں سے ایک ایسے برہان کو بیان کریں گے کہ جسے سمجھنے کے لئے معمولی مقدمات کی ضرورت ہے ،اور جس کا سمجھنا آسان ہے۔ لیکن یہ مطلب واضح رہے کہ یہ دلیل صرف خدا کے وجود کو (واجب الوجود) ہونے کے اعتبار سے ثابت کرتی ہے یعنی وہ ایسا موجود ہے کہ جس کا وجود ضروری اور کسی پیدا کرنے والے سے بے نیاز ہے، اور ہم بقیہ صفات (ثبوتیہ و سلبیہ) جیسے علم و قدرت جسم کا نہ ہونا، زمان و مکان سے بے نیاز ہونا وغیرہ کو دوسرے دلائل کے ذریعہ ثابت کریں گے۔

متن برہان۔

کوئی بھی موجودعقلی،فرض کی بنیاد پر یاواجب الوجود ہے یا ممکن الوجود، ان دو صورتوں سے خارج نہیں ہے لہٰذا تمام موجودات کو ممکن الوجود نہیں کہا جاسکتا، اس لئے کہ ممکن الوجود کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے اور اگر تمام علتیں ممکن الوجود ہوں اور یہ سب کی سب کسی دوسری علت کی محتاج ہوں تو پھر کبھی کوئی موجود متحقق نہیں ہوسکتا، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق علتوں کا تسلسل محال ہے لہذا مجبوراً علتوں کا تسلسل ایک ایسے موجود پر تمام ہونا چاہیے کہ جو کسی دوسرے موجود کا معلول نہ ہو یعنی وہ

واجب الوجود ہو۔

یہ دلیل اثبات خدا کے لئے تمام دلیلوں میں ہر ایک سے آسان ہے جو چند عقلی مقدمات پر مشتمل ہے، جسے سمجھنے کے لئے کسی بھی حسی اور تجربی مقدمہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن چونکہ اس دلیل میں فلسفی مفاہیم اور اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ ان اصطلاحات اور مقدمات کہ جن سے یہ دلیل مرتب ہوئی ہے وضاحت کر دی جائے۔

امکان اور وجوب۔

ایک معمولی قضیہ آسان ہونے کے باوجود، دو اساسی مفہوم (موضوع و محمول) سے تشکیل پاتا ہے، جیسے یہ قضیہ٫٫ خورشید منور ہے،، خورشید کے منور ہونے پر دلالت کرتا ہے اس میں٫٫خورشید،، موضوع اور٫٫منور،،محمول ہے۔

موضوع کے لئے محمول کا ثابت ہونا تین حالتوں سے خارج نہیں ہے یا محال ہے جیسے یہ کہا جائے ٫٫تین کا عدد چار کے عدد سے بڑا ہے،، یا ضروری ہے جیسے یہ جملہ ٫٫دوچار کا نصف ہے ،،یا پھر نہ ہی محال ہے اور نہ ہی ضروری جیسے کہ ٫٫خورشید ہمارے سروں پر پہنچ چکا ہے،،منطقی اصطلاح کے مطابق صورت اول میں نسبت قضیہ وصف ٫٫امتناع،، اور دوسری صورت میں وصف ٫٫ضرورت،، یا ٫٫وجوب،، اور تیسری صورت میں وصف ٫٫امکان،،٫٫اپنے خاص مضامین،، سے متصف ہے۔

لیکن چونکہ فلسفہ میں (وجود) کے سلسلہ میں بحث کی جاتی ہے اور جو، شیٔ ممتنع و محال ہو کبھی بھی وجود خارجی سے متصف نہیں ہو سکتی، لہٰذا فلاسفہ نے موجود کو فرض عقلی کی بنیاد پر واجب الوجود اور ممکن الوجود میں تقسیم کردیا ہے، واجب الوجود یعنی ایک ایسا موجود جو خود بخود وجود میں آجائے اور کسی دوسرے وجود کا محتاج نہ ہو، لہٰذا ایسا موجود ہمیشہ ازلی و ابدی ہوگا اس لئے کہ کسی چیز کا معدو م ہونا اور کسی زمانہ میں نہ ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا وجود خود سے نہیں ہے بلکہ موجو دہونے کے لئے

اُسے کسی دوسرے موجود کی ضرورت ہے جو اس کے متحقق اور موجود ہونے کی شرط ہے یا اس کے فاقد ہوتے ہی اس کا مفقود ہونا ضروری ہے اور ممکن الوجود یعنی ایک ایسا موجود کہ جس کا وجود خود سے نہ ہو بلکہ اسے موجود ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کی ضرورت ہو۔

یہ تقسیم جوفرض عقلی کی بنیاد پر کی گئی ہے ایک ایسے وجود کی نفی کرتی ہے کہ جو ممتنع الوجود بالضرورة ہو، لیکن یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ خارجی موجودات ممکن الوجود ہیں یا واجب الوجود یا دوسرے الفاظ کے مطابق اس قضیہ کا صادق ہونا تین صورتوں میں تصور کیا جاسکتا ہے، ایک یہ کہ ہر موجود واجب الوجود ہو، دوسرے یہ کہ ہر موجود ممکن الوجود ہو ،

تیسرے یہ کہ بعض موجودات ممکن الوجود اور بعض واجب الوجود ہوں، پہلے اور تیسرے فرض کی بنیاد پر واجب الوجود کا پایا جانا ثابت ہے لہذا اس فرضیہ کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ہوگی کہ کیا ممکن ہے کہ تمام موجودات ممکن الوجود ہوں یا ایسا ہونا غیر ممکن ہے؟ اس فرضیہ کو باطل کرنے کے ذریعہ واجب الوجود کا وجود بطور قطعی ثابت ہو سکتاہے، اگر چہ وحدت اور بقیہ صفات کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضروت ہے ۔

لہٰذا دوسرے فرضیہ کو باطل کرنے کے لئے ایک دوسرے مقدمہ کو اس برہان میں شامل کرنا ہوگا، اور وہ یہ ہے کہ تمام موجود کا ممکن الوجود ہونا محال ہے، لیکن چونکہ یہ مقدمہ بدیہی اور آشکار نہیں ہے لہٰذا اس طرح اسے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ممکن الوجود کو علت کی ضرورت ہے اور علتوں میں تسلسل محال ہے لہذا اس صورت میں علتوں کے تسلسل کو ایک ایسے موجود پر ختم ہونا ہوگا کہ جو کسی دوسری علت کا محتاج نہ ہو یعنی واجب الوجود ہو ،یہیںسے فلسفی مفاہیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جس کی وضاحت کرنانہایت ضروری ہے۔

علت اور معلول۔

اگر کوئی موجود کسی دوسر ی موجود کا محتاج ہو، اور اس کا وجود دوسرے کے وجود پر منحصر ہو تو اسے فلسفہ کی اصطلاح میںمحتاج موجود کو ٫٫معلول،، اور دوسرے کو٫٫علت،، کہا جاتا ہے، لیکن علت کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ مطلقاً محتاج نہ ہو ، بلکہ وہ خود بھی کسی دوسری علت کی طرف نسبت دیتے ہوئے معلول اور اس کی محتاج ہو،اگر علت کسی بھی نیاز مندی سے مبرّا ہو تو اسے علت مطلق کہا جاتا ہے۔

یہاں تک ہم فلسفی اصطلاح علت و معلول اور ان کی تعریفوں سے آشنا ہوئے ہیں، اب اس کے بعد اس مقدمہ کی وضاحت ضرور ی ہے (کہ ہر ممکن الوجود کو علت کی ضرورت ہے)چونکہ ممکن الوجود کا وجود خود سے نہیں ہوتا لہٰذا وہ اپنے متحقق ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کا محتاج ہے، اس لئے کہ یہ قضیہ بدیہی اور آشکار ہے کہ ہر وہ محمول جسے موضوع کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے یا تو،وہ خود بخود (بالذات) ثابت ہے، یا کسی دوسرے کی وجہ سے (بالغیر) اس کا ثبوت ہے جیسے کہ ایک شی یا تو خود بخود روشن ہے یا پھر کسی دوسری شی کی وجہ سے روشن ہوتی ہے، اور اس طرح ایک جسم یا تو خود بخود روغنی ہے یا پھر کسی دوسری شی کے ذریعہ اسے روغنی بنایا گیا ہے، لہٰذا یہ امر محال ہے کہ کوئی شئینہ تو خود بہ خود روشن ہو ،نہ ہی کسی شی کی وجہ سے روشن ہوئی ہو، در آں حالیکہ وہ روشن ہے ،اسی طرح ایک جسم نہ خود بہ خود بالذات روغنی ہو اور نہ ہی کسی دوسری شی کی وجہ سے روغنی ہوا ہو، اور اس کے باوجود بھی روغنی ہو تو یہ محال ہے ۔

پس ایک موضوع کے لئے وجود کا ثابت ہونا یا تو بالذات ہے یا بالغیر، اگر بالذات نہیں ہے تو ضرور بالغیر ہے، لہٰذا ہر ممکن الوجود جو خود بخود وجود سے متصف نہیں ہوا ہے وہ حتماً دوسری شی کے ذریعہ فیض وجود سے مستفیض ہوگا ، پس یہ وہی مسلمہ حقیقت کہ جسکوہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہے لیکن بعض لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اصل علیت کا معنی یہ ہے کہ (ہر موجود علت کا محتاج ہے) لہٰذا ان لوگوں نے یہ اشکال کیا ہے کہ پھر خدا کے لئے بھی علت ہونی چاہیے،

لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ اصل علیت (موجود) بطور مطلق نہیں ہے بلکہ اس کا مو ضوع (ممکن الوجود) اور (معلول) ہے یا دوسری تعبیر کے مطابق ہر موجود محتاج علت کا محتاج ہے نہ ہر موجود۔

علتوں کے تسلسل کا محال ہونا۔

اس مقدمہ میں وہ آخری برہان جس کا استعمال ہوا ہے وہ یہ ہے کہ علتوں کا سلسلہ ایک ایسے موجود پر تمام ہو جو خود کسی کا معلول نہ ہو اس لئے کہ علتوں کا یہ نہایت تسلسل محال ہے اور اس طرح واجب الوجود کا وجود ثابت ہو جاتا ہے علت خود بخود موجود ہے اور کسی دوسرے وجود کی محتاج نہیں۔

فلاسفہ نے تسلسل کو باطل کرنے کے لئے متعدد دلیلیں پیش کی ہیں لیکن حقیقیت تو یہ ہے کہ علتوں کے سلسلہ میں تسلسل کا باطل ہونا آشکا رہے جو ایک معمولی تفکر سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی چونکہ وجود معلول علت سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہے، اگر یہ فرض کرلیں کہ اس کی معلو لیّت عمومی ہے تو اس صورت میں کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا ،اس لئے کہ چند وابستہ موجودات کا ان کے مقابل موجود کے وجود ہونے کے بغیر فرض کرنا معقول نہیں ہے۔

آپ یہ فرض کریں کہ دوڑکے میدان میں ایک ٹیم طے کی جانے والی مسافت کے آغاز میں کھڑی ہے، اور سب کے سب دوڑنے کے لئے بالکل آمادہ ہیں، لیکن ہر ایک کا یہی ارادہ ہے کہ جب تک دوسرا نہیں دوڑتا وہ بھی نہیں دوڑے گا، یہ ارادہ اگر واقعاً عمومیت سے متصف ہو تو پھر ان میں سے کوئی بھی دوڑنے کے لئے قدم نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح اگر ہر موجود کا وجود میں آنا دوسرے موجود کے وجود میں آنے پر منحصر ہو توپھر کبھی بھی کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا، لہذاخارجی موجودات کا وجود میں آنا، اس بات کی علامت ہے کہ کوئی بے نیاز او غنی موجود ہے۔

تقریر برہان۔

گذشتہ بیان کئے گئے مقدمات کی روشنیمیں ایک بار پھر اسی برہان کا تکرارکرتے ہیں ہر وہ چیز جسے موجود کہا جاسکتا ہو وہ دو حال سے خارج نہیں، یا تو اس کے لئے وجود ضروری ہے یعنی وہ خود بخود موجود ہے کہ جسے اصطلاح میں (واجب الوجود) کہا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے وجود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وجود کی برکت سے عالم وجود میں آیا ہے تو اسے اصطلاح میں (ممکن الوجود) کہا جاتا ہے اور یہ بات روشن ہے کہ جس چیز کا وجود محال ہو اس کا موجود ہونا غیر ممکن اور کسی بھی صورت میں اسے موجود کا نام نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ہر موجود یا واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود ۔

مفہوم (ممکن الوجود) میں غور و فکر کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوشی بھی اس مفہوم کی مصداق بنے وہ علت کی محتاج ہوگی، اس لئے کہ جب کوئی موجود خود بخود موجود میں نہ آیا ہو تو مجبوراً کسی دوسرے موجود کے ذریعہ وجود میں آیا ہے جیسا کہ ہر وہ وصف جو بالذات نہ ہو تو اس کا بالغیر ہونا ضروری ہے اور قانون علیّت کا مفاد بھی یہی ہے کہ ہر وابستہ اور ممکن الوجود، کسی نہ کسی علت کا محتاج ہے کیا یہ کہنا درست ہے کہ بے علت خدا پر اعتقاد رکھناقانون علیت کو توڑناہے!

اور اگر ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہو تو کسی بھی حال میں کوئی موجود محقق نہیں ہوسکتا، یہ فرض بالکل اسی طرح ہے جسمیں ہر فرد اگر اپنے اقدام کو دوسرے کے آغاز پر مشروط کردے تو پھر کسی قسم کا کوئی اقدام وقوع پذیر نہیں ہوسکتا، لہذا خارجی موجودات کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی واجب الوجود موجود ہے۔

سوالات

١۔ امکان اور وجوب کی اصطلاح کو منطقی اور فلسفی اعتبار سے بیان کریں؟

٢۔ واجب الوجود اور ممکن الوجود کی تعریف کریں؟

٣۔تقسیم عقلی کی بنیاد پر واجب الوجود اور ممکن الوجود کی کتنی صورتیں فرض کی جا سکتی ہیں ؟

٤۔علت اور معلول کی تعریف کریں؟

٥۔ اصل علیّت کا مفادکیا ہے؟

٦۔ کیوں ہر ممکن الوجود کے لئے علت کی ضرورت ہے؟

٧۔کیا اصل علیّت کا تقاضہ یہ ہے کہ خدا کے لئے بھی کسی علت کا ہونا ضروری ہے؟ کیوں؟

٨۔کیا بدون خالق خدا پر اعتقاد اصل علیت کا نقض کرنا ہے؟

٩۔علتوں کے درمیان تسلسل کے محال ہے، بیان فرمائیں؟

١٠۔ اس برہان کی شکل منطقی کو بیان کریں اور واضح کریں کہ اس سے کون سا مطلب ثابت ہوتا ہے۔؟