درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48373
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48373 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

آٹھواں درس

خدا کی صفات

مقدمہ

یہ بحث مند رجہ ذیل مو ضو عات پہ مشتمل ہے

خدا کا ازلی و ابدی ہونا

صفات سلبیہ

موجودات کو وجود بخشنے والی علت

موجودات کو وجود بخشنے والی علت کی خصوصیات

مقدمہ

گذشتہ دروس میں ہم نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ فلسفی دلائل کا نتیجہ ایک ایسے موجود کا ثابت کرنا ہے جو بعنوان (واجب الوجود) ہے اور دوسرے دلائل کے ذریعہ اس کے سلبی اور ثبوتی صفات کو ثابت کیا جاتا ہے تاکہ خدا وندعالم اپنے مخصوص صفات کے ذریعہ مخلوقات کے دائرے سے الگ ہو کر پہچانا جائے ، اس لئے کہ معرفت کے لئے صرف واجب الوجود کی حثیت سے جاننا کافی نہیں ہے، کیوں ؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ مادہ یا انرجی (قوت و طاقت) بھی واجب الوجود کا مصداق بن سکتے ہیں، لہٰذا اس کی سلبی صفات ثابت ہونا چاہیے تا کہ اس طرح یہ معلوم ہو جائے کہ واجب الوجو د کی ذات ، اُن صفات سے منزہ ہے جو مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور اس کی صفات مخلوقات پر صادق نہ آ سکتی اسی طرح اس کی صفات ثبوتیہ کا بھی ثابت ہونا ضروری ہے تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ لائق پرستش و عبادت ہے، اور دوسرے عقائد، نبوت، معاد ا ور فروع کے اثبات کا راستہ آسان ہوجائے۔

گذشتہ برہان و دلیل سے یہ ثابت ہوگیا کہ واجب الوجود کو علت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ ممکنات کے لئے خود علت ہے، یا دوسری تعبیر کے مطابق واجب الوجود کے لئے دو صفت ثابت ہیں ایک یہ کہ وہ ہر شی سے بے نیاز ہے، اس لئے کہ اگر اس میں معمولی سے احتیاج بھی پائی گئی تو وہ جس شی کا محتاج ہوگا وہ شیء اس کی علت بن جائے گی، کیونکہ بخوبی ہمیں معلوم ہے کہ (فلسفی اصطلاح )

میں علت کے معنی یہی ہیں کہ تمام موجودات اس کے محتاج ہوں اور دوسرے یہ کہ ممکن الوجودشی اس کی طرف نسبت دیتے ہوئے معلول ہیں، اور اس کی ذات تمام اشیاء کی پیدائش کی سب سے پہلی علت ہے۔

ان دو نتیجوں کے بعد ان کے لوازمات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، صفات سلبیہ اور صفات ثبوتیہ کو پیش کریں گے، البتہ انھیں ثابت کرنے کے لئے فلسفی اور کلامی کتابوں میں متعدد دلیلیں ذکر کی گئیں ہیں، اسی لئے ہم یہاں صرف یہاں بات کو آسانی سے سمجھنے کے لئے اور سلسلہ کلام کو ربط دیتے ہوئے انھیں دلائل کو ذکر کریںگے جو گذشتہ براہین سے مربوط ہوں۔

خدا کا ازلی و ابدی ہونا۔

اگر کوئی موجود کسی دوسرے موجود کا معلول اور اس کا محتاج ہو تو پھر اس کا وجود اسی کا تابع کہلائے گا اور علت کے جاتے ہی اس کا وجود مٹ جائے گا، یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی موجود کا معدوم ہوجانا ،اس کے ممکن الوجود ہونے کی علامت ہے، اور چونکہ واجب الوجود کا وجود خود بخود ہوتا ہے اور وہ اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں ہوتا ہے لہٰذا وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی بھی رہے گا۔

اس طرح واجب الوجود کے لئے دو صفتیں اور ثابت ہوتی ہیں، ایک اس کا ازلی ہونا، یعنی گذشتہ ادوار میں بھی تھا ،اور دوسرا ابدی ہونا یعنی وہ مستقبل میں بھی باقی رہے گا، اور کبھی کبھی ان دونوں اصطلاحوں کو ایک کلمہ (سرمدی) کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔

لہذا ہر وہ موجود جس میں سابقۂ عدم یا امکان زوال ہو وہ کبھی بھی واجب الوجود نہیں ہو سکتا لہذااس طرح سے تمام مادی قضایا کے واجب الوجود ہونے کا مفروضہ باطل ہو جاتا اور اس کا باطل ہونا بہت زیادہ واضح و روشن ہے۔

صفات سلبیہ۔

واجب الوجود کے لوازمات میں سے ایک صفت بساطت اور اس کا مرکب نہ ہونا ہے، اس لئے کہ ہر مرکب شی کا اس کے اجزا کی جانب محتاج ہونا واضح ہے، جبکہ واجب الوجود ہر قسم کی احتیاج سے مبرا ہے۔

اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ واجب الوجود کے اجزا بالفعل نہیں ہیں ،بلکہ ایک لکیر کے ضمن میں دو لکیروں کا فرض کرنا ہے، تو یہ فرض بھی باطل ہے، اس لئے کہ وہ چیز جو بالقوہ اجزا کی مالک ہو وہ عقلاً تجزیہ کے قابل ہوگی، اگر چہ وہ خارج میں متحقق نہ ہو اور تجزیہ کے ممکن ہونے کا مطلب تمام امکان کا زائل ہونا ہے، چنانچہ اگر ایک میٹر لمبی لکیر کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جائے تو اس کے بعد وہ ایک میٹر لمبی لکیر نہیں رہ سکتی، اور یہ مطلب ہمیں پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ واجب الوجود کے لئے زوال نہیں ہے۔

اور چونکہ بالفعل اجزا سے مرکب ہونا اجسام کا خاصہ ہے، لہٰذا اس سے یہ مطلب بھی واضح جاتا ہے کہ کوئی بھی جسمانی موجود واجب الوجود نہیں ہو سکتا یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس کے ذریعہ خدا کا مجرد ہونا اور جسمانی نہ ہونا ثابت ہوجاتا ہے، نیز یہ مطلب بھیروشن ہوجاتا ہے کہ ذات خداوند متعال کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ظاہر ی وسائل سے محسوس نہیں کیا جاسکتا، ا س لئے کہ محسوس ہونا اجسام و جسمانیات کے خواص میں سے ہے جسمانیت کی نفی کے ذریعہ اجسام کے اپنے تمام خواص جیسے مکان و زمان سے متعلق ہونا بھی واجب الوجود سے سلب ہوجاتا ہے، اِس لئے کہ مکان اُس کے لئے متصور ہے جس میں حجم و امتداد ہو، اسی طرح ہر وہ شی جس میں زمانہ پایا جاتا ہو وہ لحظہ اور امتداد زمانہ کے لحاظ سے قابل تجزیہ ہے اور یہ بھی ایک قسم کا امتد اد اور اجزا بالقوہ کی ترکیب ہے، لہٰذا خدا کے لئے مکان و زمان کا تصور باطل ہے اور کوئی بھی مکان و زمان سے متصف موجود واجب الوجود نہیں ہوسکتا۔

سر انجام، واجب الوجود سے زمان کی نفی کے ذریعہ حرکت و تغیر اور تکامل( کمال کی طرف جانے ) کا تصور بھی باطل ہوجاتا ہے، اس لئے کہ زمان کے بغیر کوئی بھی حرکت اور تغیر غیر ممکن ہے۔

لہٰذا وہ لوگ جو خدا کے لئے مکان ،جیسے عرش کے قائل ہوئے ہیں، یا اس سے حرکت اور آسمان سے نزول کی نسبت دی ہے یااُ سے آنکھوں سے قابل دید سمجھا ہے ،یا اسے قابل تغیر اور حرکت جانا ہے، در اصل ان لوگوں نے خدا کو بخوبی درک نہیں کیا ہے۔(۱)

کلی طور پر ہر وہ مفہوم جو کسی بھی انداز میں نقص، محدودیت یا احتیاج پر دلالت کرے خدا کے لئے منتفی ہے، اور صفات سلبیہ کا مطلب بھی یہی ہے۔

موجودات کو وجود بخشنے والی علت۔

گذشتہ دلیل کے ذریعہ جو مطلب واضح ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ واجب الوجود ممکنات کی پیدائش کا سبب ہے، اب اس کے بعد اس مطلب کے دوسرے پہلو کے سلسلہ میں بحث کریں گے، پہلے مرحلہ میں علت کی اقسام کی ایک مختصر وضاحت کرنے کے بعد علیّت الٰہی کی خصوصیات بیان کریں گے۔

علت اپنے عام معنی میں ہر اس موجود کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی دوسرے موجود سے وابستہ اور اس کے مد مقابل ہو، یہاں تک کہ یہ شروط اور مقدمات(۲) کو بھی شامل ہے اور خدا کے علت نہ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی بھی موجود سے وابستہ نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کے لئے کسی قسم کی شرط یا معدی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن مخلوقات کے مقابلہ میں خدا کے علت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلقت کووجود بخشنے والا ہے، جو علیت فاعلی کی ایک خاص قسم ہے، اس مطلب کی وضاحت کے لئے ہم مجبور ہیں کہ علت کی اقسام کو اجمالاً بیان کریں ،اور اس کی تفصیلی وضاحت کو فلسفی کتابوں کے حوالہ کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ایک سبرے کے اُگنے اور بڑھنے کے لئے مناسب بیج، زمین، خاک، آب و ہوا وغیرہ کی ضرورت ہے،اوریہ بھی طبیعی ہے کہ اسے کوئی زمین میں بوئے، اور اس کی آبیاری کرے، مذکورہ علّت کی تعریف کے مطابق جو کچھ ذکر کیا گیا وہ سبزے کے رشدو نمو کی علتیں ہیں۔

ان مختلف علتوں کو مختلف نظریات اور عقائد کے تحت چند اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے علتوں کا وہ مجموعہ کہ جس کا وجود معلول کے لئے ہمیشہ ہونا ضروری ہے (علت حقیقی) اور علتوں کا وہ مجموعہ کہ جس کی بقا ،معلول کی بقا کے لئے لازم نہیں ہے (جیسے سبزہ کے لئے کسان) ( علت اعدادی) یا( معدات) کہا جاتا ہے، اسی طرح جانشین پذیز علتوں کو ( علت جانشینی) اور بقیہ علتوں کو ( کلت انحصاری) کا نام دیا جاتا ہے۔

لیکن ایک علّت اور بھی ہے جو ان تمام علتوں سے متفاوت ہے جسے سبزہ کی رشد کے لئے ذکر کیا گیا ہے، جسے بعض نفسانی قضایا میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جب انسان اپنے ذہن میں کسی کی صورت کو خلق کرتا ہے یا کسی امر کے انجام دینے کا ارادہ بناتا ہے تو ا س کے ساتھ فوراً ہی ایک نفسانی اثر بنام (صورت ذہنی) اور (ارادہ) متحقق ہوتا ہے کہ جس کا وجود، نفس کے وجود سے وابستہ ہے اسی وجہ سے ا ُسے اس کا معلول مانا جاتا ہے، لیکن معلول کی یہ قسم ایسی ہے کہ جو اپنی علت سے کسی بھی اعتبار سے مستقل و بة نیاز نہیں ہے اور وہ کبھی بھی اس سے جدا ہو کر مستقل نہیں رہ سکتی، اس کے علاوہ نفس کی فاعلیّت، صورت ذہنی یا ارادہ کی طرف نسبت دیتے ہوئے ان شرائط سے مشروط ہے کہ جس کی وجہ سے نقص، محدودیّت اور ممکن الوجود ہونا لازم آتا ہے، لہٰذا جہان کے لئے واجب الوجود کی فاعلیت قضایا ئے ذھنی کے لئے نفس کی فاعلیت سے بالا تر ہے کہ جس کی نظیر تمام فاعلوں میں نہیںملتی اس لئے کہ وہ کسی بھی احتیاج کے بغیر اپنے اس معلول کو وجود میں لاتا ہے کہ جس کی تمام ہستی اس سے وابستہ ہے۔

وجود بخشنے والی علت کی خصوصیات۔

اب تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق وجود آ)فرین علت (وجود بخشنے والی علت) کی چند خصوصیات بیان کی جاسکتی ہیں۔

١۔ علت وجود آفرین کو اپنے معلولات کے تمام کمالات سے بنحو احسن و اکمل متصف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ہر موجود میں اس کی ظرفیت کے مطابق اضافہ کر سکے برخلاف علت ٫٫مادی،، وعلت٫٫معدی،، کة وہ فقط اپنے معلولات میں تغیر و تحول ایجاد کرتی ہے، اس کے لئے لازم نہیں ہے وہ ان تمام کمالات کے مالک ہوں جیسے کہ خاک کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں سبزہ کی تمام خصوصیات ہوں،یا ماں باپ اپنی اولاد کی خصوصیات سے متصف ہوں، لیکن وجود آفرین خدا کا اپنی بساطت کے باوجود تمام کمالات وجودی سے متصف ہونا ضروری ہے۔(۳)

٢ ۔ علّت وجود آفرین اپنے معلول کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور اس کی خلقت کے ساتھ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، لیکن فاعل طبیعی کاحال بالکل اس سے متفاوت ہے کہ جن کا کام صرف معلول کے میں تغیر ایجاد کرنا اور قوت و طاقت صرف کرنا ہے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مخلوقات کی خلقت سے واجب الوجود سے کوئی چیز کم ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات الٰہی میں تجزیہ پذیری ممکن ہے جبکہ اس کا باطل ہونا ثابت ہو چکا ہے۔

٣۔علت وجود آفرین ایک حقیقی علت ہے جسکا معلول کی بقا کے لئے باقی رہنا ضروری ہے لیکن علت اعدادی میں معلول کی بقا، علت کی بقا سے وابستہ نہیں ہے۔

لہٰذا جو کچھ بھی بعض اہل سنت کے متکلمین سے نقل ہوا ہے کہ عالم اپنی بقا میں خدا کا محتاج نہیں ہے، یا بعض اقوال جو غربی فلاسفہ سے نقل ہوئے ہیں کہ جہان طبیعت کی مثال ایک گھڑی کی طرح ہے ہمیشہ کے لئے اس میں چابی بھر دی گئی ہے جسے اپنی حیات کو جاری رکھنے کے لئے خدا کی ضرورت نہیں ہے یہ سب کچھ حقیقت کے بر خلاف ہے بلکہ جہان ہستی ہمیشہ ہر دور اور تمام حالات میں خدا کی محتاج ہے، اور اگر وہ( حق تعالی )ایک لحظہ کے لئے بھی افاضہ ہستی سے نظر پھیر لے، تو اس کا وجود مٹ جائیگا۔

سوالات

١۔ صفات خدا کی پہچان کیوں ضروری ہے؟

٢۔گذشتہ برہان سے کیا نتیجہ حاصل ہوتا ہے؟

٣۔ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کو ثابت کریں؟

٤۔ کس طرح ذات خدا کے بسیط ہونے اور اجزا بالفعل و بالقوہ سے مبرا ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟

٥۔ خدا کے جسمانی نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟

٦۔ کیوں خدا کو دیکھا نہیں جاسکتا؟

٧۔ کس دلیل کی بنیاد پر خدا مکان و زمان نہیں رکھتا؟

٨۔ کیا حرکت و سکون کو خدا سے نسبت دی جا سکتی ہے؟ کیوں؟

٩۔ علت کی قسمیں بیان کریں؟

١٠۔ علّت وجود آفرین کی خصوصیات کی شرح بیان کریں؟

____________________

(١)مکان رکھنا، آسمان سے نازل ہونا اور آنکھوں سے دیکھائی دینے کا عقیدہ بعض اہل سنت کا ہے، تغیر و تکامل کا نظریہ فلاسفہ غرب کی ایک جماعت کا ہے جن میں سے ھگل، برگسوں اور ویلیام جیمز ہیں، لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تغیر اور حرکت کی نفی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ساکن ہے بلکہ اس کی ذات کے ثبات کے معنی میں ہے اور ثبات، تغیر کی نقیض ہے، لیکن سکون حرکت کے مقابلہ میں عدم ملکہ ہے، اور اس چیز کے علاوہ کہ جس میں حرکت کی قابلیت ہو کسی دوسری شی کے لئے نہیں بولا جاتا

(٢)علل اعدادی کو کہا جاتا ہے۔

(۳)یہ معلوم ہونا چا ہیے کہ مخلوقات کے کمالات کے حاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے مفاہیم (جیسے مفہوم جسم و انسان) بھی خدا پر قابل صدق ہوں، اس لئے کہ ایسے مفاہیم محدود اور ناقص موجودات پر دلالت کرتے ہیں، اسی وجہ سے خدا پر قابل صدق نہیں ہیں کہ جو بے نہایت کمالات کا مالک ہے۔

نواں درس

صفات ذاتیہ

مقدمہ

صفات ذاتیہ اور فعلیہ

صفات ذاتیہ کا اثبات

حیات

علم

قدرت

مقدمہ

ہمیں یہ معلوم ہے کہ خدا وند عالم علت وجود آفرین کائنات ہے، جس میں تمام کمالات جمع ہیں اور موجودات میں پائی جانے والی تمام صفتیں اور کمالات اسی کی ذات سے وابستہ ہیں، لیکن بندوں میں کمالات کے افاضہ سے اس کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تقریب ذہن کے لئے اس مثال کا سہارا لیا جاسکتا ہے، کہ استاد اپنے شاگرد کو جو کچھ اپنے علم سے فائدہ پہنچا تا ہے اس کی وجہ سے استاد کے علم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، البتہ خدا کی جانب سے وجود اور وجودی کمالات کا افاضہ اس مثال سے کہیں زیادہ بالاتر ہے، شاید اس ضمن میں سب سے واضح تعبیر یہ ہو کہ عالم ہستی ذات مقدس الٰہی کا جلوہ ہے، جسے اس آیت کریمہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے،

( اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ ) .(۱)

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے

الٰہی کمالات کے لامتناہی ہونے کے پیشِ نظر ہر وہ مفہوم جو نقص و محدودیت سے پاک ہو اور کمال ہونے پر دلالت کرتا ہو اسے خدائے وحدہ 'لا شریک کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ قرآنی آیات اور ائمہ معصومین کی طرف سے صادر ہونے والی احادیث، ادعیہ، اور مناجاتوں میں نور، کمال، جمال، محبت اور بہجت جیسے مفاہیم استعمال ہوئے ہیں، لیکن جو کچھ فلسفہ و کلام کتابوں میں صفات الٰہی کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے، ان کی دو قسمیں ہیں، (صفات ذاتیہ اور فعلیہ) لہٰذا پہلے مرحلہ اول میں اس تقسیم کی وضاحت کے بعد ،ان میں سے اہم ترین صفات کے سلسلہ میں بحث کریں گے۔

صفات ذاتیہ اور فعلیہ۔

وہ صفات جسے خدا کی ذات سے نسبت دی جاتی ہے وہ یا تو وہ مفاہیم ہیں جو ذات احدیت میں موجود ہ کمالات سے حاصل ہوتے ہیں جیسے حیات، علم اور قدرت، یا پھر وہ مفاہیم ہیں جو عبد اور معبود کے درمیان رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں جیسے خالقیت، رازقیت، لہٰذا پہلی قسم کو صفات ذاتیہ اور دوسری قسم کو صفات فعلیہ کہا جاتا ہے۔

صفات کی ان دو قسموں میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں، خدا ان صفات کے لئے عینی مصداق ہے لیکن دوسری قسم میں خالق و مخلوق کے درمیان موجودہ نسبت کی حکایت ہے، ذات الٰہی اور مخلوقات دو طرفہ حثیت سے پہچانے جاتے ہیں ، جیسے کہ صفت خالقیت مخلوقات کی ذات ،وجود خدا سے وابستگی کی بنا پر اخذ ہوتی ہے اور اس نسبت کی تشکیل اس کی دوطرفہ ، خدا ،و مخلوق سے ہوتی ہے خارج میں ذات مقدس الٰہی اور مخلوقات کے علاوہ کسی تیسری شیء کا کوئی وجود نہیں ہے، البتہ خداوند متعال خلقت کی قدرت سے متصف ہے لیکن (قدرت) اس کی ذاتی صفات میں سے ہے اور٫٫خلق کرنا،، ایک ایسا مفہوم ہے جو اضافی ہونے کے ساتھ مقام فعل سے ظہور میں آتا ہے، اسی وجہ سے (خالقیت) کا شمار صفات فعلیہ میں کیا جاتا ہے، مگر یہ کہ (خلق پر قادر) ہونے کے معنی لئے جائیں تو اس صورت میں اس کی بازگشت بھی صفت قدرت کی طرف ہوگی۔

حیات،و علم اور قدرت خدا کی مہم ترین صفات ذاتیہ میں سے ہیں، لیکن اگر سمیع و بصیر بہ معنی ،سنی اور دیکھی جانے والی چیزوں کا علم رکھنے والا ہو، یا سمع و ابصار کے معنی میں ہوں تو ان صفات کی باز گشت علیم و قدیر ہے اور اگر ان صفات کا مطلب بالفعل دیکھنا اور سننا ہوجو سنی اور دیکھی جانے والی اشیا اور سننے اور دیکھنے والوں کے درمیان موجودہ رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں تو انھیں صفات فعلیہ میں سے شمار کیا جائے گا، جیسا کہ کبھی (علم ) بھی اسی عنایت کے لئے استعمال ہوتا ہے اوراسے (علم فعلی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بعض متکلمین نے کلام اور ارادہ کو بھی صفات ذاتیہ میں سے شمار کیا ہے کہ جن کے سلسلہ میں آئندہ بحث کی جائے گی۔

صفات ذاتیہ کا اثبات۔

قدرت و حیات اور علم الٰہی کو ثابت کرنے کے لئے سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ جب ان مفاہیم کو مخلوقات کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اوصاف اس کے کمالات پر دلالت کرتے ہیں، لہذا ان صفات کی علت یعنی ذات الٰہی میں ، بطور کامل ہونا ضروری ہے، اس لئے کہ مخلوقات میں پائی جانے والی تمام صفات و کمالات خدا کی طرف سے ہیں لہذا عطا کرنے والے کے پاس ایسے اوصاف ہونا ضروری ہیں تا کہ وہ دوسروں کو عطا کر سکے، اس لئے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ حیات عطا کرنے والا خود حیات سے سرفراز نہ ہو،یا مخلوقات کو علم و قدرت عطا کرنے والاخود جاہل و ناتواں ہو لہذا مخلوقات میں مشاہدہ ہونے والے کمالات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خدا بھی ان کمالات کا بغیر کسی کمی و کسر کے حامل ہے،یا دوسری تعبیر کے مطابق خدا لامتناہی علم و قدرت اور حیات کا مالک ہے

اب اس کے بعد ان صفات کی وضاحت کرتے ہیں۔

حیات۔

حیات کا مفہوم دو طرح کی مخلوقات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ایک سبزہ اور گھاس پھوس جن میں رشد و نمو کی صلاحیت ہوتی ہے ، دوسرے حیوان اور انسان کہ جو ارادہ اور شعور سے متصف ہیں لیکن پہلا معنی ، نقص و احتیاج کا مستلزم ہے اس لئے کہ رشد و نمو کا لازمہ یہ ہے کہ موجود اپنے آغاز میں اس کمال سے عاری ہو ،بلکہ خارجی عوامل کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے تغیرات سے آہستہ آہستہ کمالات کا مالک بن جائے، اور ایسا امر خداسے منسوب نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ صفات سلبیہ میں گذرچکا ہے۔

لیکن حیات کا دوسرا معنی ،ایک کمالی مفہوم ہے، ہر چند اس کے امکانی مصادیق نقص کے ہمراہ ہیں لیکن پھر بھی اس کے لئے لامتناہی مقام فرض کیا جاسکتا ہے، کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیت اور نقص کا شائبہ نہ ہو، جیسا کہ مفہوم وجود اور مفہوم کمال میں بھی ا یسا ہی ہے ۔

حیات اپنے اس معنی میں کہ جو علم اور فاعلیت ارادی کا ملازم ہے یقیناًوجود غیر مادی ہو گا اگر چہ حیات کو مادی امور یعنی جاندار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اصل میں وہ اروح کی صفت ہے اور بدن کا روح سے رابطہ ہونے کی وجہ سے حیات کو بدن سے متصف کیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ جس طرح امتداد ، شی جسمانیت کا لازمہ ہے ،حیات بھی وجود مجرد(غیر جسمانی) کا لازمہ ہے لہذا اس طرح حیات خدا پر ایک اور دلیل ایک دلیل متحقق ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ ذات مقدس الٰہی مجرد اور غیر جسمانی ہے جیسا کہ گذشتہ دروس میں اسے ثابت کیا جاچکا ہے اور ہر موجود مجرد، حیات سے سرفراز ہے، لہذا اس طرح خدا متعال بھی ذاتاً حیات کا مالک ہے۔

علم۔

علم کا مفہوم تمام مفاہیم میں ہر ایک سے زیادہ واضح و روشن ہے، لیکن مخلوقات کے درمیان

اس کے مصادیق محدود اور ناقص ہیں،لہٰذاان خصوصیات کے ساتھ یہ خدا پر قابل اطلاق نہیں ہے لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ عقل میں اتنی توانائی ہے کہ وہ اس مفہوم ِکمالی کے لئے ایک ایسے مفہوم کا انتخاب کرئے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیتاور نقص نہ ہو بلکہ عالم ہونا اس کی عین ذات ہو،علم خدا کے ذاتی ہونے کے یہی معنی ہیں ۔

خدا کے علم کو متعدد راستوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے، ایک وہی راستہ ہے کہ جس کی طرف تمام صفات ذاتیہ کے اثبات کے لئے اشارہ کیا جاچکا ہے، یعنی چونکہ مخلوقات کے درمیان علم پایا جاتا ہے لہٰذا خالق کی ذات میں اس کی کامل صورت کا ہونا ضروری ہے۔

دوسرا راستہ دلیل نظم کی مدد سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ ایک مجموعہ جس قدر نظم و ضبط کا حامل ہوگا اتنا ہی اس کے ناظم کے علم پر دلالت کرے گا، جس طرح سے کہ ایک علمی کتاب یا خوبصورت شعر یا کوئی نقاشی (آرٹ) وجود بخشنے والے کے ذوق اوراس کے علم و دانش پر دلالت کرتے ہیں اور کبھی بھی کوئی عاقل یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایک فلسفی یا کوئی علمی کتاب کسی جاہل یا نادان شخص کے ہاتھوں لکھی گئی ہوگی لہٰذا کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسا نظم یافتہ جہان کسی جاہل موجود کا خلق کردہ ہے؟!

تیسرا راستہ نظریجو ہے مقدمات فلسفی (غیر بدیہی)کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے جیسے یہ قاعدہ کہ ہر موجود جو مستقل ہو اور مجرد عن المادہ ہو وہ علم سے متصف ہو گا جیسا کہ یہ امر اس سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا جاچکا ہے۔

علم الٰہی کی طرف توجہ دینا خود سازی کے ٫٫باب،،میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں اس کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے ۔

( یَعلَمُ خَائِنَةَ الاَعیُنِ وَمَا تُخفِ الصُّدُورُ ) .(۲)

خدا خائن آنکھوں اور دل کے رازوں سے آگاہ ہے۔

قدرت۔

وہ فاعل کہ جو امور کو اپنے ارادہ سے انجام دیتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے امور میں صاحب ''قدرت'' ہے، لہذا قدرت یعنی فاعل مختار کا ہر اس امر کو انجام دینے کا ارادہ کہ جس کا اس سے صادر ہونے کا امکان ہے، جو فاعل جس قدر مرتبہ وجودی کی رو سے کامل ہوگا اس کی قدرت بھی اتنی ہی وسیع ہوگی، پس جو فاعل اپنے کمال میں لامتناہی ہو اس کی قدرت بھی بے نہایت ہوگی ۔

( اِنَّ اللَّهَ عَلَٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیر ) ۔(۳)

خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے۔

اس مقام پر چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے۔

١۔ جو امر قدرت سے متعلق ہو گا اس میں امکان تحقق کا ہونا ضروری ہے، لہذا جو شی اپنی ذات کے اعتبار سے محال ہو وہ قدرت کا متعلق نہیں بن سکتی، اور خدا کا صاحب قدرت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اپنی مثل بھی خلق کرسکتا ہے (اس لئے کہ خدا خلق نہیں کیا جاسکتا) یا دوکا عدد دو ہوتے ہوئے تین سے بڑا ہو جائے ،یا ایک فرزند کو فرزند ہوتے ہوئے باپ سے پہلے خلق کردے۔

٢۔ ہر کام کے انجام دینے کی قدرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان سب کو انجام دے، بلکہ وہ جسے چاہے گا انجام دے گا، اور جسے چاہے گا انجام نہیں دے گا حکیم خدا ،حکیمانہ فعل کے علاوہ کوئی اور فعل انجام نہیں دے سکتا اگر چہ وہ غیر حکیمانہ امور کے انجام دینے پر بھی قادر ہے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں حکمت خدا کے سلسلے میں مزید وضاحت کی جائے گی۔

٣۔ قدرت کے جو معنی بیان ہوئے ہیںاس میں اختیار کے معنی بھی ہیں، خدا جس طرح بے نہایت قدرت کا مالک ہے اسی طرح لامحدود اختیارات سے سرفراز ہے، اور کوئی خارجی عامل اسے کسی عمل کے لئے زبردستی یا اس سے قدرت کو چھین لینے کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے کہ ہر موجود کی قدرت اور اس کا وجود خود اسی کا مرہون منت ہے،لہٰذا وہ کبھی بھی اس طاقت کے مقابلہ میں مغلوب نہیں ہوسکتا کہ جسے اس نے دوسروں کو عطا کیا ہے۔

سوالات

١۔خدا کے لئے کن مفاہیم کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟

٢۔ صفات ذاتیہ و فعلیہ کی تعریف کریں اور ان دونوں کے درمیان کا فرق بیان کریں؟

٣۔ صفات ذاتیہ کو ثابت کرنے کے لئے ایک کلی ضابطہ کیا ہے؟

٤۔حیات کتنے،معانی میں استعمال ہوتا ہے اور کون سے معنی کا استعمال خدا کے لئے درست ہے

٥۔ حیات الٰہی پر خاص دلیل کیا ہے؟

٦۔ علم الٰہی کو ت تینوں راستوں( طریقوں) سے ثابت کریں؟

٧۔ مفہوم قدرت کو بیان کریں اور خدا کی نامحدود قدرت کو ثابت کریں؟

٨۔ کون سی چیزیں قدرت سے متعلق نہیں ہوتیں؟

٩۔ کیوں خدا ناپسند امور کو انجام نہیں دیتا ؟

١٠۔ خدا کے مختار ہونے کا مطلب کیا ہے؟

____________________

(١)سورۂ نور، آیت/٣٥.

(۲)سورۂ غافر ،آیت/ ١٩.

(۳)سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٠، اور دوسری آیات.