درس عقائد

درس عقائد 0%

درس عقائد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

درس عقائد

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 48358
ڈاؤنلوڈ: 4062

تبصرے:

درس عقائد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 92 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48358 / ڈاؤنلوڈ: 4062
سائز سائز سائز
درس عقائد

درس عقائد

مؤلف:
اردو

سولہواں درس

خدا کی لاثانیت

مقدمہ

اس کی لاثانیت پر دلیل

مقدمہ

گذشتہ دروس میں وجود خدا کی ضرورت کو ثابت کیا جا چکا ہے ، اور آخر کے چند دروس میں مادی جہان بینی کے تحت بحث گذر چکی ہے ، اس نظریہ کے تحت تحقیق و جستجو سے یہ پہلو روشن ہوگیا، کہ علت (خدا) کے بغیر جہان کو فرض کرنا، نا معقول اور غیر قابل قبول ہے۔

لیکن اب اس کے بعد ،ہم توحید کے سلسلہ میں بحث کریں گے اور مشر کین کے غلط عقائد کو برملا کریں گے ،لیکن سوال یہ ہے کہ شرک آ میز عقائد انسانوں کے درمیان کیسے رائج ہوئے، اس سلسلہ میں ماہر سماجیات کے نظریات مختلف ہیں، لیکن ان تمام نظریات میں سے کوئی بھی نظریہ قابل اعتماد دلائل سے متصف نہیں ہے، اس ضمن میں شاید یہ کہنا درست ہو کہ آسمانی اور زمینی موجودات میں تنوع واختلاف، شرک آ میز عقائد میں مبتلا ہونے کا سبب بنا، اس طرح ان لوگوں نے ہر موجود کے لئے ایک خاص خدا کو فرض کرلیا، اچھائیوں اوربرائیوں کے لئے الگ الگ خدا کے ہونے پر اعتقاد پیدا کرلیا، اور اس طرح ان لوگوں نے جہان کے لئے دو خدا فرض کرلئے۔

اس کے علاوہ چونکہ زمینی حوادثات میں جب آفتاب، ماھتاب اور ستاروں کی دخالت کو مشاہدہ کیا تو ان کے ذہنوں میں یہ خیال آیا کہ یہ چاند سورج اور ستارے زمینی موجودات کی بہ نسبت ربوبیت سے متصف ہیں، اورچونکہ اپنی طبیعت میں کسی معبود کی پرستش کو لمس کرتے تھے لہٰذا ان لوگوں نے اپنے خیالی معبودوں کے لئے بت بنالئے، اور ان کی پرستش میں مشغول ہوگئے ،اس طرح بتوں کو ضعیف افکار سے متصف لوگوںکے درمیان اصالت مل گئی، اور پھر ہر قبیلہ نے اپنے توھمات کی بنیاد پر بتوں کی عبادت کے لئے قوانین وضع کرلئے تا کہ ایک طرف خدا پرستی کی حس کی تسکین ہوتی رہے اور دوسری طرف اپنی نفسانی خواہشات کو تقدس کا لباس عطا کر سکیں ،اور انھیں مذہبی شکل و صورت دے کر اپنی مراد حاصل کرلیں ،اسی وجہ سے آج بھی بت پرستوں کے درمیان ناچنا ،گانا ، شراب نوشی اور شہوت رانی، مذہبی رسومات کے تحت رائج ہے...

مذکورہ تمام عوامل کے علاوہ سب سے مہم وجہ وقت کے ظالموں اور جبارںکی خود خواہی اورتکبر جیسے عوامل سبب بنے ،کہ وہ پنا مقصد حاصل کرنے کے لئے سادہ لوح افراد کے افکار سے فائدہ اٹھائیں، لہٰذا اپنی قدرت و حدود سلطنت کو وسعت دینے کے لئے شرک آلود عقائد کی بنیاد ڈالی ، اور ا س کی ترویج کرتے رہے اور اپنے لئے ایک قسم کی ربوبیت کے قائل ہوگئے اور اس طرح طاغوتوں کی پرستش مذہبی مراسم کا جز شمار کی جانے لگی کہ جس کی مثالیں ہند، چین،ایران اور مصر کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی قابل مشاہدہ ہیں۔

بہر حال شرک آلود ادیان مختلف اسباب و علل کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں جنہوں نے دین الٰہی کے سایہ میں انسان کے تکامل اور کامیابی کے راستہ میں بڑے موانع ایجاد کئے، اسی وجہ سے انبیاء الٰہی کی تبلیغ کا ایک عظیم حصہ، شرک اور شر ک آلود ہ افراد سے مقابلہ کے لئے مخصوص تھا۔

لہٰذا شرک آلود عقائد کی بنیاد، جہانی حوادثات کے مقابلہ میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے موجود کی ربوبیت کے اعتقاد پر استوار ہے، یہاں تک کہ بہت سے مشرکین اس جہان کے خالق کی، یگانگی کے قائل تھے، اور خالقیت میں توحید کو قبول کرتے تھے، لیکن وہ اس سے کم مرتبہ دوسرے درجہ کے ںدا کے بھی قائل تھے جو ان کے اعتقاد کے مطابق بطور مستقل اس جہان کو چلانے والے ہیں، اور خالق جہان کو خدائوں کا خدا اور رب الارباب کا نام دیتے تھے۔

لیکن یہ کم درجہ والے خدا کہ جس کے اختیار میں کائنات کا نظام ہے بعض لوگوں کے گمان کے مطابق فرشتہ ہیں کہ جنھیں مشرکین عرب خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، لیکن بعض لوگوں کے خیا ل کے مطابق جنّات ہیں، یا ستاروں کی روحیں یا گذشتہ لوگوں کی روحیں یا پھر نامرئی موجودات ہیںہم نے دسویں درس میں اشارہ کردیا ہے کہ حقیقی خالقیت اور ربوبیت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا خدا کی خالقیت کو قبول کرتے ہوئے کسی دوسری کی ربوبیت کو قبول کرنا درست نہیں ہے اور جو لوگ اس طرح کے عقیدے رکھتے ہیں وہ اس تناقض سے بے خبر ہیں، لہٰذا ان کے عقائد کو باطل کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکے تناقض کو بیان کردیا جائے۔

خدا کی یکتائی کے اثبات میںمختلف دلیلیں فلسفی اور کلامی کتابوں میں موجود ہیں، لیکن ہم یہاں پر صرف انھیں دلائل کو پیش کریں گے کہ جو ربوبیت میں یگانگت کو م براہ راست ثابت کرتے ہوں اور مشرکین کے عقائد کو باطل کرتے ہوں۔

خدا کی لاثانیت پر برہان و دلیل۔

اگر اس جہان کے لئے دویا دو سے ز ائد خدائوں کے فرض کو تسلیم کرلیا جائے تو چند حال سے خالی نہیں،یا یہ کہ اس جہان کی تمام مخلوقات، ان تمام خدائوں کی مخلوق اور معلول قرار پائے گی یا یہ کہ مخلوقات کے مجموعوں ،میں سے ہر مجموعہ، مفروض خدائوں میں سے کسی ایک کی مخلوق اور معلول ہو گا یا یہ کہ یہ تمام موجودات، تنہا ایک خدا کی خلق کردہ اور بقیہ خدا مدبّر کی حیثیت سے ہوں گے۔

لیکن ایک موجود کے لئے چند خدائوں کا ہونا محال ہے، اس لئے کہ دو یا چند خالقوں (علت جہان آفرین) کا کسی موجود کو خلق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان خدائوں میں سے ہر ایک ،کسی ایک وجود کا افاضہ کرے، جس کے نتیجہ میں متعدد وجود خلق ہو جائیں گے ، حالانکہ ہر موجود کے لئے صرف ایک ہی وجود ہے، وگرنہ ایک موجود نہیں رہ سکتا۔

لیکن دوسرا فرض یہ کہ ان خدائوں میں سے ہر ایک، کسی ایک مخلوق یا مخلوقات کے کسی خاص مجموعہ کا خالق کہلائے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ہر مخلوق اپنے خالق کی مدد سے قائم ہو اور کسی دوسری مخلوق کی محتاج نہ ہو مگر یہ احتیاج ایسی ہو جو ا سکے خالق تک پہنچتی ہو اور تنہا وہی خدا اس مخلوق کی رسیدگی کرتا ہو ، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس جہان کے لئے چند خدائوں کا فرض متعدد نظام کے موجود ہونے کا لازمہ ہے جو ایک دوسرے سے جدا ہیں ، حالانکہ اس جہان میں صرف ایک ہی نظام ہے اور تمام موجودات ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے سے متاثر ہیں ، ایک دوسرے کے محتاج ہیں، گذشتہ و آئندہ کے تمام موجودات میں ارتباط برقرار ہے، ہر موجود اپنے بعد آنے والے موجود کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے پس وہ جہان جس میں صرف ایک ہی نظام برقرار ہے اور اس کے اجزا ایک دوسرے سے مربوط ہیں، اسے چند علتوں کا معلول (چند خدائوں کا خلق کردہ) نہیں قرار دیا جاسکتا۔

اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تمام مخلوقات کا خالق ایک خدا ہے اور بقیہ خدا جہان کی تدبیر اور اس کی ہدایت کے عہدہ دار ہیں، تو یہ فرض بھی صحیح نہیں ہوسکتا ،اس لئے کہ ہر معلول اپنی پوری ہستی کے ساتھ علت وجود آفرین کے ذریعہ قائم ہے اور کوئی بھی مستقل موجود اس میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ یہ تمام معلولات علت وجود آفرین کی طاقت و قدرت کے زیر سایہ ہیں اور تمام تاثیر اور اثر پذیری اس کے اذن تکوینی کے ذریعہ انجام پاتے ہیں، اس بنا پر ان خدائوں میں سے کوئی بھی حقیقی رب نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ رب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مربوب کی ذات میں بطور مستقل تصرف کرے جبکہ فرض یہ ہے کہ ایسے تصرفات مستقل نہیں ہیں، بلکہ یہ سارے تصرفات ا سکی ربوبیت کے زیر سایہ اور اسی کی قدرت سے انجام پاتے ہیں اس طرح کے اختیارات و تصروفات ، توحید (ربوبی) سے منا فات نہیں رکھتے ، جیسے کہ اگر خالقیت بھی اذنِ خدا سے ہو تو توحید خالقیت کے منافی نہیں ہے قرآن اور روایات میں بعض بندوں کے لئے ایسی خالقیت اور غیر استقلالی ربوبیت ثابت ہے، جیسا کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے۔

( وَاِذ تَخلُقُ مِنَ الطِّینِ کَهَیئَةِ الطَّیرِ بِاِذنِ فَتَنفُخُ فِیهَا فتََکُونُ طَیرًا باِذنِ ) (۱)

اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندہ کی شکل بناتے اور پھر اس پر کچھ دم کر تے ہو اور وہ میرے حکم سے سچ مچ پرندے بن جاتے ۔

اسی طرح ایک ا اور مقام پر فرمایا ۔

( فَالمُدَ بِّرَاتِ أَمراً ) (۲)

اور ان کی قسم جو زمین و آسمان کے درمیان تیرتے پھرتے ہیں۔

نتیجہ۔

جہان کے لئے چند خدائوں کا توہّم ، خدا کو مادی اور اعدادی علتوں سے قیاس کرنے کے ذریعہ وجود میں آیا ہے حالانکہ علت وجود آفرین کو ایسی علتوں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی، اور کسی بھی معلول کے لئے چند علت وجود آفرین یا رب یا مستقل مدبّر فرض نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اس توہّم کو دفع کرنے کے لئے پہلے علت وجود آفرین کے معنی اور پھر اس کی خصوصیات اور نوعیت میں خوب غور کرنا ہوگا، تا کہ معلوم ہوجائے کہ معلول واحد کے لئے چند علتوں کا تصور باطل ہے، اور پھر اس جہان کے انتظامات میں غور و فکر کرنا ہوگا تا کہ معلوم ہو جائے کہ ایسا منظم جہان چند خدائوں یا چندارباب یا مستقل مدبروں کا خلق کردہ نہیں ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی واضح ہوگئی، کہ خدا کے بعض شائستہ بندوں کے لئے ولایت تکوینی کو ماننا جبکہ مستقل خالقیت اور ربوبیت کے معنی میں نہ ہو تو، یہ توحید سے منافات نہیں رکھتا، جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی ولایت تشریعی الٰہی ربوبیت تشریعی سے کوئی منافات نہیں رکھتی، اس لئے کہ یہ خدا کی عطا کردہ اور اسی کے حکم سے ہے۔

سوالات

١۔شرک آلود عقائد کی پیدائش کے اسباب بیان کریں؟

٢۔ شرک سے آلود عقائد کی بنیاد کیا ہے؟

٣۔ خالقیت اور ربوبیت کے درمیان پائے جانے والے لازمہ کو بیان کریں؟

٤۔کیوں ہر موجود کے لئے چند خالقوں کا فرض کرنا باطل ہے؟

٥۔کیوں مخلوقات کے ہر مجموعہ کے لئے کسی ایک خالق کو فرض نہیں کیاجا سکتا؟

٦۔ اس امر میں کیا اشکال ہے کہ یہ جہان خدائے واحد کا خلق کردہ ہے اور اس کے لئے متعدد، ارباب ہیں ؟

٧۔چند خدائوں کا توہم کہاں سے وجود میں آیا اور اسے دفع کرنے کا راستہ کیا ہے؟

٨۔کیوں اولیاء الٰہی کے لئے ولایت تکوینی کا تصور خالقیت وربوبیت میں توحید سے منافات نہیں رکھتا؟

___________________

(١)سورۂ مائدہ۔ آیت/ ١١٠

(٢)سورہ نازعات ۔آیت /٥

سترہواں درس

توحید کے معانی

مقدمہ

نفی تعدد

نفی ترکیب

زائد برذات صفات کی نفی

توحید افعالی

تاثیر میں استقلال

دو مہم نتیجہ

شبہ کا جواب

مقدمہ

کلمہ توحید لغوی اعتبار سے ''یگانہ اور یکتا'' کے معنی میں آیاہے لیکن فلاسفہ، متکلمین، علماء اخلاق اور عرفاء کی نظر میں یہ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے، اور ان معانی میں سے ہر ایک توحید پر دلالت کرتا ہے، جنھیں اقسامِ توحید یا ''مراتب توحید'' بھی کہا جاتا ہے، لیکن یہاں پر ان کا بیان کرنا ہمارے ہدف سے خارج ہے۔

اسی وجہ سے یہاں پر ہم اس بحث سے مناسب اصطلاحات کا ذکر کریں گے،

١۔تعدد کی نفی:

توحید کی سب سے پہلی اور معروف اصطلاح خد ا کی وحدانیت کا اعتقاد رکھنا ہے نیز شرک صریح کے مقابلے میں تعدد خدا کی نفی ،یعنی دو یا دو سے زائد خدا کے وجود سے انکار اس طرح سے کہ ہر ایک کا وجود مستقل اور ایک دوسرے سے علیدہ ہو ۔

٢۔ ترکیب کی نفی :

دوسری اصطلاح اس معنی میں ہے ، کہ اس کی احدیت نیز درون ذاتی کے اعتبار سے ، اس کے بسیط ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے یعنی ذات الھی ، بالفعل اور بالقوہ اجزا

سے مرکب نہیں ہے ۔اس صفت کو زیادہ تر بصورت صفات سلبیہ بیان کیا جاتا ہے، جیسا کہ دسویں

درس میں اشارہ کیا جاچکا ہے، اس لئے کہ ہمارا ذہن مفہومِ ترکیب اور اس کے بطلان سے مفہوم بساطت کی بہ نسبت زیادہ آشنا ہے۔

٣۔زائد برذات صفات کی نفی۔

تیسری اصطلاح ذات الٰہی کا صفات ذاتیہ کے ساتھ یگانگت اور صفات کے زائد برذات نہ ہونے کے معنی میں ہے، کہ جسے (توحید صفاتی) کہا جاتا ہے اور روایات میں ''نفیِ صفات'' کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جبکہ اشاعرہ صفات الٰہیہ کے زائد بر ذات اور قدماء ثمانیہ ہونے کے قائل ہیں۔

توحید صفاتی کی دلیل یہ ہے کہ اگر تمام صفات الٰہی میں سے ہر ایک کے لئے جدا گانہ و علیحدہ مصداق فرض کر لئے جائیں تو چند صورتوں سے خا لی نہیں ہے،'پہلی صورت، یا ان صفات کے مصادیق ذات الٰہی میں یا داخل ہوں گے جس کا لاز می نتیجہ یہ ہوگا کہ ذات الٰہی کا اجزا سے مرکب ہونا لازم آئے گا کا مرکب کہلائے، جس کو ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ ایسا ہونا محال ہے یا وہ مصادیق ذات الٰہی سے جدا فرض کئے جائیں گے ایسی حالت میں یا تو وہ واجب الوجود ہوں گے یعنی وہ پیدا کرنے والے سے بے نیاز ہوں گے ، یا وہ ممکن الوجود ہوں گے کہ جس کے لیے ایک خالق کا ہونا ضروری ہے ، لیکن صفات واجب الوجود ہونے کا فرض تعددِ ذات اور شرک ِصریح کا موجب ہے، اور ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ کسی مسلمان کا عقیدہ ایسا ہو گا، یا پھر صفات کا ممکن الوجود ہونے کا یہ مطلب ہے کہ خدا وند عالم ان صفات سے عاری ہے مزید بر آں ، وہ ان صفات کو خلق کرے اور پھر ان سے متصف ہوجائے جیسے اگر وہ حیات نہیں رکھتا لیکن وہ ایک موجود بنام ''حیات'' خلق کرے ،اور اس طرح وہ حیات کا مالک بن جائے اسی طرح اس کی دوسری صفات بھی فرض کر لی جائیں، حالانکہ یہ امر محال ہے کہ علت وجود آفرین مخلوقات کے کمالات کا حامل نہ ہو اور اس فرضیہ سے بدتر، تو یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوقات کے ضمن میں علم و قدرت اور بقیہ صفات کمالیہ سے متصف ہو۔

اس فرضیہ کے بطلان کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ خداوند عالم کے صفات زا ئد برذات نہیں ہیں بلکہ وہ عین ذات ہیں اور وہ ا یسے مفاہیم ہیں کہ عقل جس سے ایک مصداق بسیط کہ جسے ذات مقدس الٰہی رہتے ہیں اخذ کرتی ہے ۔

٤۔توحید افعالی۔

فلاسفہ اور متکلمین کے نزدیک توحید کی چوتھی اصطلاح ''توحید ِافعالی'' ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے امور کو انجام دینے میں نہ تو کسی شی کا محتاج ہے اور نہ ہی کسی بھی موجود میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ اس کے امور میں اس کی مدد کر سکے۔

یہ مطلب علت وجود آفرین کی خصوصیات یعنی ذات الٰہی کا تمام مخلوقات کے مقابلہ میں قیومیت سے متصف ہونے کی طرف توجہ کے ذریعہ سمجھ میں آجاتا ہے اس لئے کہ ایسی علت کا معلول اپنے تمام وجود کے ساتھ علت کے سہارے قائم ہوتا ہے اور بذات خود کسی بھی قسم کے استقلال سے عاری نہیں ہے۔

ایک دوسری تعبیر کے مطابق جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خدا کا عطا کردہ ہے اور اسی کے دائرہ قدرت میں ہونے کے ساتھ اسی کی مالکیت حقیقی اورتکوینی کے زیر سایہ ہے، اور نیز خدا کی قدرت و مالکیت، قدرت الٰہی کا ایک جز بلکہ اس کے طول میں سے ہے نہ یہ کہ اس کی قدرت خداکی قدرت کے مدمقابل کسی مزاحمت کا باعث ہے ، جیسے کہ ایک غلام کی مالکیت مولیٰ کی اعتباری مالکیت کے زیر سایہ ہوتی ہے ''العبد و ماف یدہ لمولاہ'' لہذاکیسے ممکن ہے کہ خدا ان مخلوقات محتاج و ضرورت مند ہو جو خود اسی کے ذات سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہیں؟!

٥۔تاثیر استقلالی۔

توحید کی پانچویں اصطلاح اثر انداری میں استقلال ہے(۱) یعنی مخلوقات اپنے امور میں ذات الٰہی سے بے نیاز نہیں ہیں، اور جو اثرات بھی ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں وہ خدا کی دی ہوئی طاقت اور اس کی اجازت سے ہے در حقیقت جو ذات ہر شی سے بے نیاز ہو کر اپنے امور انجام د یتی ہے وہ ذات اقدس الٰہی ہے، دوسروں کی تاثیر اور فاعلیت، اسی کی تاثیر اور فاعلیت کے زیرِ سایہ ہے۔

اسی وجہ سے قرآن کریم ،طبیعی اور غیر طبیعی فاعلوں (جیسے جن و انس اور ملک ) کی نسبت خدا کی طرف دیتا ہے اورفرماتا ہے کہ بارش کا برسنا، سبزہ کا اگنا اور درختوں کا پھل دینا یہ سب اسی کی طرف سے ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے تا کہ لوگ اس بات کو درک کریں اور برابر خد ا کی طرف متوجہ رہیں،کہ امور کی نسبت خدا کی جانب تمام عوامل کی بہ نسبت قریب ہے تقریب ذہن کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ اگر کسی محکمہ کا رئیس اپنے زیر دست خدمت گذاروں کو کسی امر کے انجام دینے کا فرمان صادر کرے جبکہ امور کا انجام دینا انھیں کار ی گروںپر موقوف ہے لیکن کاریگروں کے ذریعہ انجام دیئے گئے امور کی نسبت محکمہ کے رئیس کی طرف دی جاتی ہے بلکہ عقلا فرمان صادر کرنے والے کی طرف نسبت دینے کو قوی اور بہتر جانتے ہیں۔

فاعل تکوینی کے بھی مراتب ہیں اور چونکہ کسی بھی فاعل کا وجود ارادۂ الٰہی کے ذریعہ قائم ہے، بالکل اسی طرح کہ جیسے صورت ذہنیہ کا وجود، تصور کرنے والے کے ذریعہ قائم ہے ''وللہ المثل الاعلی'' لہٰذا اگر کسی فاعل سے کوئی اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو وہ خدا کے اذن اور ا س کے ارادہ تکویتی کے سبب سے ہیں (ولا حول ولا قوّة الا باللّه العل العظیم )

دو مہم نتیجے۔

توحید ِافعالی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی بھی موجود کو لائق عبادت نہ سمجھے، اس لئے کہ صرف انسان کا خالق اور اس کا رب لائق پرستش ہے اور بس، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق الوہیت ،خالقیت اور ربوبیت کا لازمہ ہے۔

اس کے علاوہ انسان کا تمام اعتماد خدا پر ہونا چاہیے اور اپنے تمام امور میں اسی پر توکل کر نا چاہیے ،اور صرف اسی سے مدد مانگنا چاہیے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کا خوف دل میں نہیں آنا چاہیے نہ کھائے یہاں تک کہ جب اس کی احتیاجات کو پورا کرنے والے اسباب کا وجود نہ ہو تو تب بھی نا امید نہ ہو اس لئے کہ خدا غیر عادی راہوں سے اس کی احتیاجات کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

ایسا انسان ولایت خاصہ کے سایہ میں ہوتا ہے اور بے نظیر روحی اطمینان سے برخوردار ہوتا ہے( اَلََا اِنَّ اَولِیَا ئَ اللّهِ لَا خَوف عَلَیهِم وَلَا هُم یَحزَنُونَ ) .(۲)

آگاہ ہوجاؤ اس میں شک نہیں، کہ دوستان خد ا ( قیامت میں ) نہ کوئی خوفہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔

( اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نَستَعِینُ )

اس آیہ شریفہ میں یہ دو نتیجے موجود ہیں، جسے ہر مسلمان روزانہ کم از کم دس مرتبہ تلاوت کرتا ہے۔

شبہ کا جواب۔

اس مقام پر شاید ذہن میں یہ شبہ اٹھے کہ اگر توحید کامل کا اقتضا یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے مدد طلب نہ کرے تو پھر اولیاء الٰہی سے بھی مدد طلب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر اولیاء الٰہی سے توسل اسی عنوان کے تحت ہو کہ وہ خدا سے ماوراء ہو کے مستقل حثیت سے مدد کرتے ہیں تو ایسا توسل توحید سے سازگار نہیں ہے، لیکن اگر اس عنوان کے تحت ہو کہ خدا نے انھیں اپنی رحمت تک پہنچنے کا وسیلہ اور بندوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ تصور نہ صرف یہ کہ توحید کے منافی نہیں ہے اس کا شمار عبادت و اطاعت خدامیں ہے، اس لئے کہ یہ توصل اسی ذات الٰہی کے اذن سے انجام دیا گیا ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ خدا نے کیوںایسے وسائل بنائے ؟اور کیوں لوگوں کو ان سے توسل کا حکم دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام احکام حکمتوں پر مبنی ہیں جن میں سے بعض حکمتوں کو یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ۔

١۔ لائق بندوں کے مقام کو پہچنوانا ۔

٢۔ لوگوں کو ان کے مقام تک لے جانے کے لئے انھیں شوق دلانا۔

٣۔ لوگوں کو اپنی عبادتوں پر مغرور ہونے اور اپنے آپ کو کمالات کے آخری مراتب پر فائز ہونے کے تصور سے روکنا وغیرہ، جیسا کہ وہ لوگ جو ائمہ علیہم السلام سے توسل کے منکر تھے وہ اسی طرح کے تصورات کی وجہ سے گمراہ ہوئے ہیں جس کی مثالیں بے شمار ہیں۔

سوالات

١۔ توحید کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں؟

٢۔توحید صفاتی کے لئے کیا دلیل ہے؟

٣۔ توحید افعالی کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟

٤۔تاثیر استقلالی میں توحید بہ معنی یگانگت کی شرح پیش کریں؟

٥۔ وہ نتائج جو توحید کی آخری دو قسموں سے حاصل ہوتے ہیں وہ کیا ہیں؟

٦۔کیا اولیاء سے توسل کرنا توحید سے منافات رکھتا ہے؟ کیوں؟!

٧۔ کیوں خدا نے، لوگوں کو اولیا سے توسل کا حکم دیا ہے اور اس کی حکمت کیا ہے؟!

____________________

(١)عرفاء ''توحیدِ افعالی کو اس معنی میں استعمال کرتے ہیں.

(۲)سورۂ یونس۔ آیت/ ٦٢.