دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39243
ڈاؤنلوڈ: 2820

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39243 / ڈاؤنلوڈ: 2820
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

دینی تعلیم

محمد حسین طباطبائی

(مفسر تفسیر المیزان)

مرتّبہ: سید مہدی آیت اللّہی

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا:

( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

(سورۂ احزاب : آیت ٣٣)

اے اہلبیت اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور تمہیں اسی طرح پاک رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ پنجتن اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' اہل بیت'' سے مراد وہی حضرات ہیں اور وہ : محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی ، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں:مسند احمد بن حنبل(وفات ٢٤١ ھ ):ج١، ص٣٣١،ج٤،ص١٠٧، ج٦،ص٢٩٢ و ٣٠٤؛ صحیح مسلم(وفات٢٦١ ھ) : ج٧،ص١٣٠؛ سنن ترمذی(وفات ٢٧٩ ھ ): ج٥،ص٣٦١ و...؛ الذریة الطاہرة النبویة دولابی(وفات: ٣١٠ ھ ): ص١٠٨؛ السنن الکبریٰ نسائی(وفات ٣٠٣ ھ ): ج٥ ،ص١٠٨ و ١١٣؛ المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(وفات: ٤٠٥ ھ ):ج٢، ص ٤١٦، ج٣،ص١٣٣و ١٤٧ و ١١٣؛ البرہان زرکشی(وفات ٧٩٤ ھ ) ص١٩٧؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی(وفات ٨٥٢ ھ):ج٧،ص١٠٤؛ اصول الکافی کلینی(وفات ٣٢٨ ھ ): ج١،ص ٢٨٧ ؛ الامامة و التبصرة ابن بابویہ (وفات ٣٢٩ ھ): ص٤٧، ح٢٩؛ دعائم الاسلام مغربی(وفات ٣٦٣ ھ):ص٣٥ و ٣٧؛ الخصال شیخ صدوق(وفات ٣٨١ ھ):ص٤٠٣ و ٥٥٠؛ الامالی شیخ طوسی(وفات ٤٦٠ ھ):ح ٤٣٨،٤٨٢ و ٧٨٣ نیز مندرجہ ذیل کتابوں میں اس آیت کی تفسیر کی طر ف مراجعہ کریں: جامع البیان طبری(وفات ٣١٠ ھ)؛ احکام القرآن جصاص(وفات ٣٧٠ ھ )؛ اسباب النزول واحدی(وفات ٤٦٨ ھ)؛ زاد المسیر ابن جوزی(وفات٥٩٧ ھ)؛ الجامع لاحکام القرآن قرطبی(وفات ٦٧١ ھ)؛ تفسیر ابن کثیر (وفات ٧٧٤ ھ)؛ تفسیر ثعالبی (وفات٨٢٥ ھ)؛ الدر المنثور سیوطی(وفات ٩١١ ھ)؛ فتح القدیر شوکانی(وفات ١٢٥٠ ھ)؛ تفسیر عیاشی(وفات ٣٢٠ ھ)؛ تفسیر قمی(وفات:٣٢٩ ھ)؛ تفسیر فرات کوفی (وفات ٣٥٢ ھ) آیۂ اولوا الامر کے ذیل میں ؛ مجمع البیان طبرسی(وفات ٥٦٠ ھ) اور بہت سی دوسری کتابیں۔

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات، ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''دینی تعلیم'' کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

دینی معلومات

لفظ ''دین'' کثیر الاستعمال الفاظ میں سے ایک ہے ۔عام طور پر دیندار اسے کہتے ہیں جو کائنات کے لئے ایک خداکا قائل ہو اور اس کی خوشنودی کے لئے خاص قسم کے اعمال بجا لاتاہو۔

ممکن ہے ہر معاشرے اور ملت میں ، قانون کے مطابق معاشرہ کے ہر فرد کے لئے فرائض معین ہوئے ہوں ،اور ان پر لوگ عمل کرتے ہوں، تو یہ تصور کیا جائے کہ وہاں پھر''دین'' کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن اسلام کے احکا م اور ضوابط پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اس معنی کے خلاف ثابت ہو تا ہے ،کیونکہ دین اسلام صرف خدا کی عبادت و ستائش تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں انسا ن کے تمام انفرادی و اجتماعی مسائل کے لئے جامع قواعد و ضوابط اور مخصوص قوانین وضع کئے گئے ہیں اور بشریت کی وسیع دنیا کے بارے میں حیرت انگیز صورت میں تحقیق کی گئی ہے۔اور انسان کی ہر انفرادی و اجتماعی حرکت و سکون کے لئے مناسب قوانین وضع کئے گئے ہیں ۔ایسے دین کو تکلفاتی اور رسمی دین سے تشبیہ یا نسبت نہیں دی جاسکتی ہے ۔

خدائے متعال نے قرآن مجید میں دین اسلام کو مذکورہ بیان شدہ کیفیت میں تو صیف فرمائی ہے اور اس کے علاوہ یہودیت و نصرانیت کوکہ جن کی آسمانی کتا بیں توریت و انجیل ہیں اور ان میں اجتماعی احکام وقواعدوضوابط ہیں ۔اسی صورت میں بیان فر مایا ہے، چنانچہ فر ماتا ہے:

( وکیف یُحکّمو نکَ وعندهم التّورٰة فیها حکم اللّه انّا انزلنا التورٰة فیها هدیَ وّ نور یحکم بها النبیّون الّذین اسلموا للّذین هادوا والرّبّنیون والاحبار.وقفینا علی أثارهم بعیسیٰ ابن مریم وء اتینه الانجیل فیه هدی وّنور و مصدقاً لما بین یدیه من التورٰة و هدی وّ موعظة للمتّقین و لیحکم اهل الانجیل بما انزل اللّه فیه و انزلنا الیک الکتٰب بالحق مصد قاً لما بین یدیه من الکتب ومهیمنا علیه فاحکم بینهم بما انزل اللّه ) (مائدہ٤٣۔٤٨)

'' اوریہ کس طرح آپ سے فیصلہ کرائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میں حکم خدا بھی ہے... بیشک ہم نے توریت کو نازل کیاجس میں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبیاء یہودیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ والے علماء یہود... اور ہم نے انھیں انبیاء کے نقش قدم پر عیسی بن مریم کو چلا یا۔...اور ہم نے انھیں انجیل دیدی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کر نے والی اور ہدایت تھی اور صاحبان تقوی کے لئے سامان نصیحت تھی اہل انجیل کو چاہئے کہ خدانے جو حکم نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں ۔...اور اے پیغمبر!ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی مصداق اور محافظ ہے لہذا آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں ''

توریت اور انجیل۔ جو اس وقت یہودو نصاری کے ہاتھ میں ہیں۔ بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں،کیونکہ توریت میں بہت سے قوانین اور تعزیراتی ضوابط موجود ہیں اورظاہری طور پرانجیل بھی توریت کی شریعت کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔

نتیجہ

مذکورہ بیان سے واضح ہوتا ہے کہ''قرآن مجید کی اصطلاح میں دین '' کہ وہی زندگی کی روش ہے،اور اس سے انسان پہلو تہی نہیںکرسکتا ۔دین اور ایک اجتماعی قانون کے درمیان جو فرق پایا جا تا ہے وہ یہ ہے کہ دین خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اجتماعی قانون لو گوں کے افکار کی پیداوار ہو تا ہے ۔دوسرے الفاظ میں دین لوگوں کی اجتماعی زندگی اور خدائے متعال کی پر ستش اور اس کی فرمانبرداری کے درمیان ایک ربط پیداکرتا ہے ،لیکن اجتماعی قانون میں اس رابط کی کوئی اہمیت نہیں ہو تی ہے۔

خداکے قانون سے رابط کا اچھا اثر

''دین''انسان کی اجتماعی زندگی اور خدائے متعال کی پر ستش کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے نتیجہ میں انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی اعمال کو خدائی ذمہ داری قرار دے کر اس کو خدا کے لئے جواب دہ جانتاہے ۔چو نکہ خدائے متعال اپنی لامحدود قدرت اوربے پناہ علم کی بناپر ہر جہت سے انسان پر احاطہ رکھتا ہے اور اس کے دل ودماغ کے تمام اسرارو افکارسے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس سے کوئی چیز پو شیدہ نہیں ہے، اسی لئے دین نے بشری قانون کی طرح امور کے نظم و نسق کو باقی رکھنے کے لئے محافظ اور نگہبان مقرر کئے ہیں اور مخالفت وسرکشی کر نے والوں کی سزاکے لئے قوانین وضع کر کے بشری قانون کی نسبت ایک اور امتیاز حاصل کیاہے اور وہ یہ کہ :دین،انسان کی حیرت اور ہوشیار ی کی باگ ڈور کو ایک باطنی و ابدی محافظ کے ہاتھ میں دیتا ہے۔کیو ںکہ دین سے نہ غفلت ہوتی ہے اور نہ خطا اور اس کی جزا اور سزا سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔خدائے متعال فرماتا ہے:

( وهو معکم این ما کنتم ) (حدید٤)

''اور تم جہاں بھی ہو ،وہ تمہارے ساتھ ہے''

( واللّه بمایعملون محیط ) (انفال٤٧)

''اور اللہ ان کے کام کااحاطہ کئے ہوئے ہے''

( وانکلا لما لیوفینهم ربّک اعمالهم ) ( ہود١١١)

''اور یقینا تمہارا پروردگار سب کے اعمال کاپوراپورا بدلہ دے گا۔''

اگرہم قانون کے دائرہ میں زندگی کر نے والے کے حالات کادین کے دائرہ میں زندگی کرنے والے کے حالات سے مواز نہ کریں گے تو دین کی برتری واضح اور روشن ہو جائے گی ۔کیونکہ جس معاشرے کے تمام افراد متدین ہوں اور اپنے دینی فرائض کو انجام دیں، ہر حالت میں خدائے متعال کو اپنے کاموں میں حاضر وناظر جانیں ،تو وہ ایک دوسرے سے بد ظن نہیںہوتے ہیں ۔

اس لئے ایسے ماحول میں زندگی کر نے والے عوام الناس،ایک دوسرے کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں اور نہایت ہی آرام و مسرت کی زندگی گزارتے ہیں اور انھیں کوابدی سعادت نصیب ہوتی ہے۔لیکن جس ماحول میں صرف بشری قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں پر،جب تک لوگ اپنے کام پرکسی کو نگراں محسوس کرتے ہیں اس وقت تک وہ کام میں کوتاہی نہیں کرتے ،ورنہ ممکن ہیکہ وہ ہر طرح کی کوتاہی کے مر تکب ہو ں ۔

جی ہاں ،اخلاق کے پابند معاشرے میں ،جو دلی سکون پایا جاتا ہے،وہ اسی دین کا مرہون منت ہوتاہے نہ کہ قانون کا ۔

دوسرے الفاظ میں ،دین،ایسے عملی و اخلاقی عقائد وضوابط کا مجموعہ ہے ،جسے انبیاء خدا کی طرف سے انسان کی راہنمائی اورہدایت کے لئے لائے ہیں ۔ان عقائد کو جاننا اور ان احکام پر عمل کرنا انسان کے لئے دونوں جہاںمیں سعادت کا سبب بنتا ہے ۔

اگر ہم دیندار ہوں اور خداو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام کی اطاعت کریں تو اس ناپائدار دنیا میں بھی خوش قسمت اوردوسری دنیا کی ابدی اور لامحدود زندگی میں بھی سعادت مند ہوں گے۔

وضاحت:ہم جانتے ہیں کہ سعادت مند وہ شخص ہے جس نے اپنی زندگی اشتباہ اور گمراہی میں نہ گزاری ہو ،اس کے اخلاق پسندیدہ ہوں اور نیک کام انجام دیتا ہو۔خدا کا دین ہمیں اسی سعادت اور خوش بختی کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ:

اولاً:جن صحیح عقائد کو ہم نے اپنی عقل وشعور سے درک کیا ہے ،انھیں مقدس و محترم جانیں ۔

ثانیا ً: ہم پسندیدہ اخلاق کے مالک ہوںاور حتی الامکان اچھے اور شائستہ کام انجام دیں، اس بناء پر دین تین حصوں میں تقسیم ہو تا ہے :

١۔عقائد

٢۔اخلاق

٣۔عمل

١۔عقائد

اگر ہم اپنی عقل وشعور کی طرف رجوع کریں تودیکھیں گے کہ اس عظیم اور وسیع کائنات کی ہستی،اس حیرت انگیز نظا م کے ساتھ ، خودبخود وجود میں آنا ۔ اور اس کا اول سے آخر تک کانظم و نسق،کسی منتظم کے بغیر ہونا ممکن نہیں ہے۔یقینا کوئی خالق ہے،جس نے اپنے لامحدودعلم وقدرت سے اس عظیم کائنات کوپیدا کیا ہے اور تمام امور میں پائے جانے والے ثابت وناقابل تغیر قوانین کے ذریعہ کائنات کے نظام کوانتہائی عدل وانصاف کے ساتھ چلایاہے ۔کوئی بھی چیز عبث خلق نہیں کی گئی ہے اور کوئی بھی مخلوق خدائی قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔

لہذا یہ باور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ،ایسا مہر بان خدا،جو اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہے،انسانی معاشرے کوانسان جو زیادہ ترنفسانی خواہشات کا اسیر بن کر،گمراہی اور بدبختی سے دوچار ہو تا ہے ۔کی عقل کے رحم وکرم پر چھوڑدے ۔

اس بناپر،معصوم انبیاء کے ذریعہ بشرکے لئے ایسے قواعد وضوابط کابھیجنا ضروری ہے تاکہ ان پر عمل کر کے انسان سعادت و خوش بختی تک پہنچ جائے ۔

چونکہ پروردگار کے احکام کی اطاعت کی جزا اس دنیا کی زندگی میں مکمل طور پر ظاہر نہیں ہو سکتی ،لہذا ایک دددوسرے جہان کا ہونا ضروری ہے کہ جہاں پرلوگوں کا حساب و کتاب ہو، اگر کسی نے نیک کام انجام دیا ہے تو اسے اس کی جزا ملے اور اگر کسی سے کوئی برا کام سرزد ہوا ہو تو اسے اس کی سزا ملے ۔

دین ،لوگوں کو ان اعتقادات اوردیگر تمام حقیقی عقائد ۔جن کو ہم بعد میں تفیصل سے بیان کریں گے ۔کی طرف تشویق کر تاہے اور انھیں جہل وبے خبری سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتا ہے۔

٢۔اخلاق

دین،کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ زندگی میں پسندیدہ صفات اختیار کریں اور اپنے آپ کو قابل ستائش اورنیک خصلتوں سے آراستہ کریں ۔ہم فرض شناس،خیر خواہ، انسان دوست، مہر بان ،خوش اخلاق اور انصاف پسند بن کر حق کا دفاع کریں ۔اپنے حدوداور حقوق سے آگے نہ بڑھیںاور لوگوں کے مال ،عزت ،آ برو او رجان پر تجاوز نہ کریں ۔علم ودانش حاصل کرنے میں کسی بھی قسم کے ایثار اور فدا کار ی سے دریغ نہ کریں، خلاصہ یہ کہ اپنی زندگی کے تمام امور میں عدل وانصاف اور اعتدال کو اپنا شیوہ قرار دیں ۔

٣۔عمل

دین ،ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وہ کام انجاں دیں جن میں ہماری اپنی اور اپنے معاشرے کی خیر وصلاح ہو ۔اورفساد وتباہی مچانے والے کاموں سے پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ دین ہمیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ خدائے متعال کی عبادت وپرستش کے عنوان سے کچھ اعمال جیسے نماز، روزہ وغیرہ ۔جو بندگی اور فرمانبرداری کی نشانی ہے۔کو بجا لائیں۔

یہ وہ قواعد وضوابط اور احکام ہیں ،جنھیں دین لے کر آیا ہے اور ہمیں ان کی طرف دعوت دیتا ہے ۔چنانچہ واضح ہے کہ ان ضوابط اور احکام میں سے کچھ کا تعلق عقیدہ سے کچھ کا اخلاق سے اور کچھ کا عمل سے ہے ، جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ ان کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا ہی انسان کے لئے سعادت و خوش بختی ہے ،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کے لئے سعادت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ حقیقت شناس ہو اور پسندیدہ اخلاق و اعمال پر مبنی زندگی بسر کرے۔

دین کافطری ہون

انسان اپنی فطرت اورخداداد طینت کے لحاظ سے دین کاخواہاں ہے ،کیو نکہ انسان اپنی زندگی کے سفر میں سعادت حاصل کرنے کے لئے مسلسل ہاتھ پائوں مارتا ہے اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان اسباب ووسائل سے استفادہ کرتاہے جواس کے مقاصد میں مؤثر ہیں ،بیشک وہ ہمیشہ ایسے سبب کی تلاش میں ہوتاہے جو مؤثر ہو اور وہ ناکام نہ ہو ۔دوسری طرف ہم عالم طبیعت میں کوئی ایسا سبب نہیں پاتے ہیں جس کا اثر دائمی ہو اور وہ کبھی رکاوٹوں کے مقا بلہ میں نا کام نہ ہو۔

انسان فطرت کے مطابق اپنی سعادت کے لئے ایک ایسا سبب چاہتا ہے جو ناکام نہ ہو اور ایک ایسا پشت پناہ بھی چایتا ہے کہ جو کبھی ساتھ نہ چھوڑے تاکہ اپنی زندگی کو اس سے منسلک کر دے اور باطنی آرام وسکون حاصل کر سکے ،حقیقت میں دین بھی یہی چاہتاہے۔ کیونکہ صرف خدائے متعال ہے جو اپنے ارادہ میں ہر گز مغلوب و ناکام نہیں ہو تا ہے اور عذر و قصور اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور خدائے متعال سے مربوط زندگی کے طریقوں کا نام ہی ''دین اسلام ہے''۔

اس بنا ء پریہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی فطری خواہش ،دین کے تین بنیادی اصو لوں توحید،نبوت اور معاد کو ثابت کرنے کے بہترین دلائل میں سے ایک ہے،کیونکہ فطری ادراک دوستی اور دشمنی کے مفہوم کو مخلوط نہیں کر تاہے اورتشنگی کو سیراب نہیں سمجھتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ پرندے کے مانند اس کے بھی پر ہوتے تا کہ پر واز کر تا یاایک ستارہ کے مانند آسمان پر ہو تااور طلوع وغروب کرتا ،لیکن ان کی حقیقت محض ایک تصور ہے یہ اور بات ہے کہ انسان دل کی گہرائیوں سے اپنی سعادت، مطلق راحت وسکون یا انسانی تقاضوں کی بناپر وہ سنجیدہ زندگی کی خاطر ایک پناہ گاہ کی تلاش میں ہے اور ہر گز اس سے منہ نہیں موڑ تا ہے۔

اگر کائنات میں ناقابل مغلوب سبب (خدا)نہ ہو تا تو انسان اپنی بے آلائش طبیعت سے اس کی فکر میں نہیں پڑ تا اور اگر مطلق وآرام (جوآخرت کا سکون وآرام ہے)کا وجود نہ ہوتاتو انسان فطری طورپر اس کو پانے کی فکر ہی نہ کرتا اور اگر دینی طریقہ(جو نبوت کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے ) حق نہ ہو تا ،تو انسان کے باطن میں اس کی تصویر بھی نہ ہو تی ۔

انسان مختلف قسم کی جسمانی و روحانی ،مادی ومعنوی ضرورتیں رکھتا ہے کہ جس کو اجتماعی زندگی کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے اور انسانی معاشر ے کا ہر فرد عام و سائل کو استعمال کر کے،کسی رکاوٹ کے بغیر ،اس دنیا کی چند روزہ زندگی کو آرام وآسائش میں گزارتا ہے اور دوسری دنیا کے لئے زادراہ حاصل کرتا ہے،پس انسانی معاشرے میں ایک ایسا قانون نافذ ہونا چاہئے جو خالق کائنات کے ارادہ کے مطابق اور فطرت و خلقت سے ہم آہنگ ہو۔ اس قانون کے مطابق ہر ایک کو اپنی جگہ پر قرار پانا چاہئے اور معاشرے میں اپنی قدرو منزلت کے مطابق اس سے استفادہ کرے اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے پرہیز کرے آخر کارمعاشرے کے تمام لوگ خدائے متعال کے ارادہ کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور سب آپس میں بھائی بھائی اور حق وانصاف کے مقا بلہ میں برا بر ہو جائیں ۔

دین کے فائدے

مذکورہ بیانات سے ثابت ہوگیا کہ فرداور معاشرے کی اصلاح میں دین ایک گہرا اثر رکھتاہے بلکہ یہ سعادت ونیک بختی کا منفرد وسیلہ ہے ۔جو معاشرہ دین کا پابند نہ ہو وہ حقیقت پسندی اورجدت فکرسے محروم ہے ،ایسے معاشرے کے لوگ اپنی قیمتی زندگی کو گمراہی اور ظاہر داری میں گزارتے ہیں ،عقل کو پامال کر کے حیوانوں کی طرح تنگ نظری اور بیوقوفی میں زندگی گزارتے ہیں اور اخلاقی انحطاط اورکردار کی پستی کا شکار ہوتے ہیں اور اس طرح انسانی خصو صیات و امتیازات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

اس قسم کا معاشرہ ،علاوہ اس کے کہ ابدی اور انتہائی کمال وسعادت تک نہیں پہنچتا ہے،اس دنیا کی ،اپنی مختصر اورناپائدار زندگی میں بھی انحرافات اور گمراہیوں کے منحوس نتائج سے دوچار ہو تا ہے اور کسی نہ کسی وقت اپنی غفلت کے برے نتائج کو بھگتے گا اور واضح طورپر اسے معلوم ہو گا کہ سعادت کا راستہ دین ہی تھا اورسر انجام اپنے کردارسے پشیمان ہو گا۔ خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( قد افلح من زکّها٭وقد خاب من دسّها ) (شمس٩۔١٠)

''بیشک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا.اوروہ نامرادرہا جس نے اسے آلودہ کرلیا ''

البتہ جاننا چاہئے کہ جس چیز سے انسان کی سعادت اورفردو معاشرے کی خوش بختی وابستہ ہے ،وہ دینی ضوابط پر عمل کرنا ہے ۔صرف نام سے کام نہیں چلتا،کیونکہ جس چیز کی اہمیت و قیمت ہے وہ خود حقیقت ہے نہ حقیقت کا دعویٰ۔جوشخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اس کا باطن تاریک ہے اوروہ اخلاقی طور پر گراہوا اور بد کردار ہے،اس کے باوجود سعادت کے فرشتہ کا منتظر ہے،تو اسکی مثال اس بیماری کی جیسی ہے جو طبیب کے نسخہ کو جیب میں رکھ کر صحت یابی کی تو قع رکھتا ہے، یقینا ایسا انسان اس فکر کے ساتھ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:

( انّ الذّین ء امنوا والّذین هادوا والنّصٰارٰی والصّٰائبین من اٰمن باللّه و الیوم الاخر و عمل صٰالحاً فلهم اجرهم عند ربّهم ) (بقرہ٦٢)

''جو لوگ بظاہر ایمان لائے یا یہودی ،نصاریٰ اور صابیئن(۱) ہیں ان میں سے جو واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا اس کے لئے پروردگار کے یہاں اجر وثواب ہے ...''

ممکن ہے اس آیہ شریفہ کے مضمون سے یہ تصور کیا جائے کہ جولوگ خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئے ہوں ،اگر چہ انہوں نے تمام پیغمبروں یا بعض پیغمبروںکو قبول بھی نہ کیا ہو ،تب بھی وہ نجات پائیں گے ۔لیکن جاننا چاہئے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر ١٥٠ اور١٥١ میں پروردگار عالم ان لوگوں کو کافر جانتاہے جو تمام پیغمبروں یا بعض پیغمبروں پر ایمان نہ رکھتے ہوں ۔

تاریخ ادیان کا ایک خلاصہ

ادیان کے وجود میں آنے کے بارے میں اجمالی تحقیق ، مطمئن ترین راہ ۔جس پر دینی نقطہ نگاہ سے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید ہی کا بیان ہے، کیونکہ یہ ہر قسم کی خطا،اشتباہ، تعصب اور خود غرضی سے منزہ و پاک ہے۔

( انّ الدّین عند اللّه الا سلام ) (آل عمران ١٩)

''دین خدا ، دین اسلام ہی ہے''

جوانسان کی پیدائش کے پہلے ہی دن سے اس کے ساتھ تھا ،جیسا کہ قرآن مجید میں تاکید ہوئی ہے کہ،بشرکی موجودہ نسل کی ابتداء میں دو شخص ایک مرد اور ایک عورت تھے ۔مرد کا نام''آدم '' اور اس کی بیوی کا نام ''حوا''تھا ۔ حضرت آدم پیغمبر تھے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی ۔حضرت آدم کا دین بہت سادہ اور چند کلیات پر مشتمل تھا ،جیسے ،لوگوں کو خداکو یادکر نا چاہئے اورآپس میں ، خاص کراپنے والدین کے ساتھ احسان ونیکی کرنا چاہئے،فساد ،قتل اور برے کاموں سے پر ہیز کرناچاہے۔

آدم اور اُن کی بیوی کے بعد ،ان کی اولاد انتہائی سادگی اوراتفاق واتحاد کے ساتھ زندگی گزارتی تھی ،چونکہ دن بدن ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ،لہذا رفتہ رفتہ انہوں نے اجتماعی زندگی اختیار کرلی۔

اس طرح وہ بتدریج زندگی کے طورطریقوں کو سیکھتے تھے اور تہذیب و تمدن سے قریب ہوتے تھے ۔چونکہ آبادی بڑھتی گئی اس لئے وہ مختلف قبیلوںمیں تقسیم ہو گئے اورہر قبیلہ میں کوئی نہ کوئی بزر گ پیدا ہوتاتھااورقبیلہ کے لوگ اس کااحترام کرتے تھے،یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا مجسمہ بنا کر اس کا احترام و ستائش کرتے تھے ۔اسی زمانہ سے لوگوں میں بت پرستی کا رواج پیدا ہوا ،چنانچہ ائمہ علیہم السلام کی روایتوں میں آیا ہے کہ بت پرستی اسی طرح شروع ہوئی ہے اور بت پرستی کی تاریخ بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے۔رفتہ رفتہ طاقتور افراد کمزوروں اور ضعیفوں پر زیادتی کرنے لگے اوراسطرح لوگوں میں اختلاف پیدا ہوتاچلاگیا ۔ اوریہ اتفاقی طور پر پیداہونے والے اختلافات ان کی زندگی میں گوناگوں کشمکش اور لڑائی جھگڑے پیداکرنے کا سبب بنے۔

یہ اختلافات ۔جو انسان کو سعادت کی راہ سے منحرف کر کے بدبختی اور ہلا کت کی طرف لے جاتے تھے ۔اس امر کاسبب بنے کہ خدائے مہر بان نے کچھ انبیاء کو منتخب کرکے آسمانی کتاب کے ساتھ بھیجا تا کہ انسان کے اختلافات کو دور کریں ،چنانچہ خدائے متعال اپنے کلام میں فر ماتا ہے:

( کان النّاس امّة واحدة فبعث اللّه النبیّن مبشّرین و منذرین وانزل معهم الکتٰب بالحق لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیه ) (بقرہ٢١٣)

''(فطری اعتبار سے)سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ بر حق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں''

دین اسلام اور اس کی آسمانی کتاب

دین اسلام ، ایک عالمی اور ابدی دین ہے۔اس میں اعتقادی ،اخلاقی اور عملی ضوابط کے امورکا ایک سلسلہ ہے جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان دنیا وآخرت کی سعادت وخوش بختی حاصل کرتا ہے ۔

دین اسلام کے قواعد وضوابط ۔جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ۔ایسے ہیں کہ اگر انسانی معاشرے کا کوئی فرد یاانسانی معاشروں میں سے کوئی معاشرہ ان پر عمل کرے تو اس کے لئے زندگی کے بہترین شرائط اور ترقی یافتہ ترین انسانی کمال حاصل ہو سکتے ہیں ۔

دین اسلام،کے نیک آثارہر فرداورہر معاشرے کے لئے مساوی ہیں اور چھوٹے بڑے،عالم و جاہل،مردوعورت،سفید فام و سیاہ فام اور مشرقی ومغربی، بلا استثناء اس مقدس دین کے فوائداور خوبیوں سے فیضیاب ہو سکتا ہے ،اوراپنی ضرورتوںکو اچھی طرح پورا کرسکتاہے ۔

دین اسلام نے اپنے معارف و ضوابط کوفطرت کی بنیاد پراستوا رکیا ہے اور انسان کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا ہے ،اور ان کوپورا کرتا ہے اور انسان کی فطرت اور ساخت بھی مختلف افراد،نسلوں اور متعدد زمانوں میں یکسان ہے ،اس لحاظ سے واضح ہے کہ انسانی معاشرہ مشرق سے لے کرمغرب تک ایک ہی قسم کا خاندان ہے اور وہ انسانی ساخت کے اصول وارکان میں آپس میں شریک ہیں اور مختلف افراداور نسلوں کی ضرورتیںبھی مشابہ ہیں اور بشر کی آنے والے نسلیں بھی اسی خاندان کی اولاد ہیں اور یقیناانہی کے وارث ہیںاوراُن کی ضرورتیںانہی کی ضرورتیں جیسی ہوںگی۔

نتیجہ کے طور پر،اسلام ایک ایسا دین ہے جوانسان کی واقعی اور فطری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اورسبھی کے لئے کافی اور ابدی ہے۔

اسی لئے خدائے متعال نے اسلام کودین فطرت کا نام دیا ہے اور لوگوں کو انسانی فطرت کو زندہ رکھنے کی دعوت دیتا ہے اور دین کے بزرگوں نے فرمایا ہے:

''اسلام ایک آسان دین ہے جو انسان پر میں سختی نہیں کرتا ۔''

خدائے متعال نے دین اسلام کوفطرت کی بنیاد پر بنایا ہے لہذا اس کی کلیات سبھی کے لئے قابل فہم ودرک ہیں ،لیکن پھر بھی اس نے اس کے اصلی معارف وضوابط کی بنیادوں کو پیغمبراکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ''قرآن مجید'' میں فرمایاہے۔ دین مقدس اسلام،آخری آسمانی دین ہے اس لئے یہ مکمل ترین دین ہے ۔اس دین کے آنے کے بعدگذشتہ دین منسوخ ہوگئے ،کیونکہ کامل دین کے ہوتے ہوئے ناقص دین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ دین اسلام ہمارے پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بشر کے لئے بھیجا گیا ہے۔نجات اورسعادت کا یہ دروازہ دنیا کے لوگوں کے لئے اس وقت کھولاگیا جب انسانی معاشر ہ اپنی فکری ناتوانی کے دور سے گزر رہاتھااور انسانیت کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے مکمل طور پرآمادہ ہوچکا تھا اور الٰہی معارف اور اس کے بلند مطالب کو حاصل کرنے کی لیاقت پیدا کر چکا تھا۔اسی لئے اسلام حقیقت پسندانسان کے لئے قابل فہم حقائق ومعارف اورپسندیدہ اخلاق لیکر آیا۔جو انسان کا امتیاز ہے،اور انسان کی زندگی کے انفرادی و اجتماعی کاموں کو منظم کرنے والے ضوابط، لائے اور ان پر عمل کرنیکی نصیحت کی ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ دین اسلام کے معارف کلی طورپر تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں : ''اصول دین ،اخلاق اورفروع فقہی '' نیز واضح رہے کہ اصول دین ،یعنی دین کی اصلی بنیادیں ،تین ہیںاور اگرانسان میں ان میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے تو وہ دین سے خارج ہو جاتا ہے:

١۔توحید،یعنی خداکی وحدانیت پر عقیدہ رکھنا۔

٢۔انبیاء کی نبوت پر عقیدہ رکھنا،جن کے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ٣۔معاد پر ایمان ،یعنی یہ عقیدہ ہوکہ،خدائے متعال مرنے کے بعدسبھی کوزندہ کرے گاان کے اعمال کاحساب لے گا ۔نیک لوگوں کو نیکی کی جزااور برے لوگوں کوسزادے گا۔مذکورہ تین اصولوں میں مزیددواصول اضافہ کئے جاتے ہیںجو مذہب شیعہ کے مخصوص عقائدہیں کہ جن کے نہ پائے جانے پر انسان شیعہ مذہب سے خارج ہوتا ہے ،اگر چہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اور وہ دو یہ ہیں :

١۔امامت

٢۔عدل

____________________

١۔جنہوں نے مجوسی مذہب سے یہودی مذہب کی طرف تمائل پیدا کر کے مجو سیت اور یہو دیت سے ایک در میانی دین ایجاد کیا،انھیں صابئین کہتے ہیں ۔