دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39245
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39245 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

٤۔عدل

خدائے متعال،عادل اوردادرس ہے ،کیونکہ''عدل''صفات کمالیہ میں سے ایک ہے ،اور خدائے متعال تمام صفات کمالیہ کا مالک ہے ۔اس کے علاوہ خدائے متعال اپنے کلام پاک میں عدل کی بار بارتعریف ا ور ظلم وستم کی مذمّت کرتا ہے ،اور لوگوں کو عدل کا حکم دیتاہے اورظلم سے روکتا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جس چیز کوبرا سمجھتاہو وہ خود اس میں پائی جاتی ہواور جس چیز کو نیک اور خوبصورت سمجھتا ہو وہ اس میں موجود نہ ہو ! سورہ ٔ نساء میں فرماتا ہے :

( انّ اللّه لا یظلم مثقال ذرَّة ) ...) (نسائ٤٠)

'' خدائے متعال ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا''

نیزسورئہ کہف میں فرماتاہے :

(...( ولا یظلم ربّک احد ) (کہف٤٩)

'' تیرا پر وردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے ''

اسی طرح سورئہ نساء میں فرماتا ہے :

( ما اصابَکَ من حسنة فمن اللّٰه و ما اصابَکَٔ من سیّئة فمِن نَّفسک ) ...) (نسائ٧٩)

''تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔''

سورئہ سجدہ میں فرماتا ہے :

( الّذی احسن کل شی ء خلقه ) ...) (سجدہ١)

''اس نے ہرچیز کو حسن کے ساتھ بنایاہے۔''

اس بناپر،ہر مخلوق اپنی جگہ پر انتہائی حسن کے ساتھ خلق کی گئی ہے ۔بعض مخلو قات میں جو بدصو رتی ،نا مناسب یا عیب ونقص پایا جا تا ہے ،وہ موازنہ اور نسبت کی وجہ سے پیش آتا ہے ۔مثلا سانپ اور بچھو کا وجود ہماری نسبت بد اور نا مناسب ہے اور کانٹے کو جب پھول سے موازنہ کیا جاتاہے تو کانٹازیبا نہیںہو تا،لیکن یہ سب اپنی جگہ پر حیرت انگیز مخلوق اور سرا پا خو بصورت ہیں ۔دوسرے الفاظ میں ،یہ کہا جائے کہ تمام اشیاء اپنے وجوداور وجود کی بقا میں جس جس چیز کی محتاج ہین اور ان میں سے جو عیب پایاجاتا ہے ،وہ انھیں خود رفع نہیں کر سکتیں اور وہ اتفاقی طور پر اور خودبخودبھی رفع نہیں ہوسکتا۔بلکہ یہ سب عالم مشہود سے مافوق ایک مقام کی طرف سے فراہم کئے جاتے ہیں ۔

وہی ہے جو ہر حاجت اور عیب کو دور کر تا ہے ،البتہ خودہرحاجت وعیب سے پاک و منز ہ ہے ورنہ دوسرے مبداء کی ضرورت پڑے گی جواس کے عیب و نقص کودور کرے اور اس صورت میں وہ خود بھی عالم کے ضرورت مندوں میں سے ایک قرار پائے گا ۔

وہی ہے ،جو اپنی لامتنا ہی قدرت اور علم سے کائنات کی ہر مخلوق کو وجود بخشتا ہے کائنات اور کائنات میں موجود ہ ہر شی کو تکامل کی شاہراہ پر ناقابل استثناء قوانین کے ذریعہ مقصد اور کمال کی منز ل کی طرف راہنمائی کر تا ہے اس بیان سے یہ نتیجہ نکلتے ہیں :

١۔خدائے متعال کائنات میں ،مطلق سلطنت کا مالک ہے اور ہر مخلوق جووجود میں آتی ہے اورہرواقعہ جو رونما ہوتا ہے ،ان کاسرچشمہ اس کا حکم وفرمان ہے۔چنانچہ فرماتا ہے :

(...( له الملک و له الحمد ) ...) (تغابن١)

''مطلق سلطنت اوربادشاہی اسی سے مخصوص ہے اور حقیقت میں ہر ستائش کا وہی سزاوار ہے کیونکہ نیکی اور اچھائی اسکی خلقت سے پیدا ہوئی ہے ''

(...( اِنِ الحکم الاّ للّٰه ) ...) (یوسف٤٠)

''حقیقت میں ہر حکم خدائے متعال کی طرف سے ہے''

٢۔خدائے متعال عادل ہے ،کیونکہ عدالت حکم میں یا اس کے جاری ہونے کی صورت میں یہ ہے کہ اس میں استثنا اور امتیاز نہیں ہے ۔ یعنی جو مواقع حکم سے مربوط ہیںوہ ،یکساں ثابت ہوں اور جو مواقع قا بل نفاذہیں وہ یکساں نافذکئے جائیں ۔چنانچہ معلوم ہوا کہ کائنات اور اس میں موجود چیزوں کا نظم و نسق کچھ ناقابل استثنا قوانین کے سایہ میں ہیں۔جن کا مجموعہ قانون علیت ومعلو لیت ہے ۔ چل رہا ہے ۔مثلا آگ کچھ خاص شرائط کے ساتھ ،ایک جلنے والی چیز کو جلائے گی ، خواہ یہ کالا کوئلہ ہو یا ہیرا ،خشک لکڑی ہو یا ایک ضرورت مند مفلس کا لباس ۔

اس کے علاوہ جس نے عدالت کو نظرانداز کیا،وہ اپنی کچھ ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ظلم و ستم کو انجام دیتا ہے ۔خواہ یہ ضرورت مادی ہو جیسے کوئی شخص دوسرے کے مال کو لوٹ لیتا ہے اور اپنے انبار میں اضافہ کرتا ہے ،یا معنوی ضرورت ہو جیسے کوئی شخص دوسروں کے حقوق پر تجاوز کر کے یا قدرت اثرورسوخ اور تسلّط کا اظہار کر کے لذت محسوس کرتا ہے ۔

چنانچہ یہ معلوم ہوا کہ،خالق کائنات کی ذات اقدس کے بارے میں کسی قسم کی حاجت قابل تصور نہیں ہے اورجو بھی حکم اس کے منبع جلال سے جاری ہوتا ہے،اگر ایک تکوینی حکم ہے تو وہ عام مصلحتوں کو پورا کرنے کے لئے ہے کہ خلقت کے لئے جس کی مراعات ضروری ہے اور اگر ایک تشریعی حکم ہے تو وہ اس کے بندو ں کی سعادت اور خوشبختی کے لئے ہے اور اس کا نفع انہی کو ملتا ہے۔خدائے متعا ل ا پنے کلام پاک میں فر ماتا ہے :

( انّ اللّه لایظلم مثقال ذرةٍ ) ...) (نسائ٤٠)

''خدائے متعال ذرہ برابرظلم نہیں کرتاہے ''

(...( وما اللّه یرید ظلماً للعباد ) (غافر٣١)

''خدائے متعال اپنے بندوںپر ظلم کرنا نہیں چاہتا ہے ۔''

٥۔امامت اور امت کی رہبری

اسلامی معاشرہ کے دینی اور دینوی امور کی سرپرستی کو''امامت'' کہتے ہیں۔امامت دین اسلام کے مقدس اصولوں میں سے ایک مسلم اصول ہے ۔جن آیات میں خدائے متعال نے اپنے دین کی تشکیل کوبیان کیا ہے ، ان میں اس مطلب کی بھی وضاحت کی ہے ۔

''امامت''کا مقصد لوگوں کی دنیا میں دین کی رہبری کرنا ہے اور پیشوا شخص کو ''امام''کہتے ہیں۔

شیعوں کاعقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خدائے متعال کی طرف سے ایک امام معین ہو نا چاہئے تاکہ وہ معارف اور دینی احکام کا محافظ ونگہبان ہو اور حق کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرے ۔

جب ایک ملک میں ایک حکومت تشکیل پاتی ہے اور وہ لوگوں کے عمو می کام کا نطم و نسق ہے ، تو و ہ کام خودبخود انجام نہیں پاتا ،بلکہ اگر کچھ شائستہ افراد اور ماہر لوگ اس کی حفاظت کی کوشش نہ کریں تونظام باقی ہی نہ رہے اور لوگوں کو اپنے فوائد سے بہرہ مند بھی نہ کرسکے۔۔انسانی معاشرہ میں جو بھی ادارہ وجود میں آتا ہے ،جیسے ثقافتی اور مختلف اقتصادی ادارے ،وہ بھی یہی حکم رکھتے ہیں اور ہر گز قابل وشائستہ مدیروں سے بے نیاز نہیں ہیں ورنہ بہت ہی کم مدت میں نابود ہو جائیں ۔یہ ایک واضح حقیقت ہے ،جسے سادہ لوح انسان بھی سمجھتا ہے اور بہت سے تجربوں اورآزمائشوں سے بھی اس کے صحیح ہونے کی گواہی ملتی ہے ۔

بیشک دین اسلام کا نظام بھی یہی حکم رکھتا ہے کہ جس کے بارے میں جرأت کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کاسب سے بڑانظام ہے اور وہ اپنی بقااور حفاظت میں بھی مدیروں کا محتاج ہے اور ہمیشہ شائستہ افراد کو چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے قوانین اور معارف کو لوگوں تک پہنچائیں اور اس کے دقیق ضوابط اور قوانین کواسلامی معاشرہ میں نافذ کریں اور ان کی رعایت اور حفاظت میں کسی قسم کی غفلت ولا پر وائی نہ کریں ۔

دوسرے اعتبار سے، یہ کہ ہم نے نبوت کی دلیل میں ذکر کیا ہے ،کہ خلقت کے مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کی سیدھے راستہ پر ہدایت کرنا ہے ۔جس طرح خدائے متعال نے اپنی تمام مخلوقات کی ضرورتوں کو پورا کیا ہے اور ان کی ترقی کے وسائل کو ان کے اختیار میں دیدیا ہے ، اس طرح اس کے لٔے ضروری ہے کہ انسان کے صحیح عقاۓد ،پسندیدہ اخلاق اور نیک کامو ںکی ضرورتوں کو پور کرنے کے لئے انبیاء کو بھیجے تا کہ وہ اس کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔

اسی دلیل کی بنا پر ، خدائے مہربان کو چاہئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ لیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد دین کی حفاظت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے امام اور پیشوا معین کر ے اور لوگوں کوان کی مرضی پر نہ چھوڑے ،جو اکثراوقات ہواوہوس سے مغلوب ہوتی ہے ۔جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کی ضرورتوں اور انسان کی انفرادی و اجتماعی بیماریوںکے علاج سے آگاہ کیا اور ان کو ہر طرح کے سہو ونسان سے محفوظ رکھا ،اسی طرح ضروری ہے کہ امام اور ایک دینی پیشواکو بھی علم وعصمت عطا کرے ۔اس عقلی دلیل سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کی ہدایت ،دین کے تحفظ او راسلام کے قوانین کو نافذ کرنے کیلئے خدا کی طرف سے امام معین ہو ۔

امام کی ضرورت پر ایک نقلی دلیل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف طریقوں سے روایت کی گئی ہے کہ امت اسلامیہ کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بعض پیشوا اورامام ہیں جو آپ کے جانشین ہوں گے ۔ایک معروف روایت ،جسے شیعہ وسنی راویوں نے نقل کیا ہے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

''امام بارہ افراد ہوںگے اور سب کے سب قریش سے ہوںگے ''۔(۱)

ایک اور مشہورروایت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جابر انصاری سے فرمایا:

''امام بارہ افراد ہیں''(۲)

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایک کرکے ان کے نام بتائے اور جابر سے فرمایا:

''تم اماموں میں سے پانچویں امام کو درک کروگے ، ان کو میراسلام کہنا ''(۳)

اس کے علاوہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیرالمؤ منین علی علیہ السلام کو (خصوصاً)اپنے جانشین کے طور پر تعیین فرمایا ہے،آپ نے بھی اپنے بعدوالے امام کا تعارف کرایا ،اسی طرح ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب سے تاریخ بشریت کا آغاز ہوا اور انسانیت کے خاندان میں اجتماعی زندگی بڑھتی گئی ،تو دنیا کے اطراف واکناف میں ،چھوٹے یا بڑے ،ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ معاشرے وجود میں آتے گئے ،لیکن حا کم اور سرپرست کے بغیرکوئی معاشرہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہ سکا ۔جہاں پر بھی کوئی معاشرہ تشکیل پایا اس میں ایک حاکم اور سر پرست قہر و غلبہ یاانتخاب کے ذریعہ ہوا کرتا تھا ، یہاں تک کہ چھوٹے اور چند افراد پر مشتمل خاندانوں میں بھی یہی طریقہ رائج تھا ۔بیشک یہاںپرانسان اپنی خداداد فطرت سے سمجھتا ہے کہ ہر معاشرہ کے لئے ایک سر پرست کی ضرورت ہے۔ خدائے متعال فرماتا ہے :

( فاقم وجهک لِلدّیِن حنیفاً فطرت اللّه الّتی فطر النّاس علیها لا تبدیل لخلق اللّه ذلک الدِّینِ القیِّم ) (روم ٣٠)

''آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اورخلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے''

پروردگار عالم ،اس آیہ شریفہ میں اپنے دین کو دین فطرت سے تعبیر کرتا ہے اور بیان فرماتا ہے کہ اس مقدس دین کے احکام ان چیزوں کے مطابق ہیں کہ جن کو انسان اپنی خالص فطرت سے سمجھتاہے ۔

خدائے متعال ،اس آیہ شریفہ میں ،انسان کے تمام فطری ادراکات اور اس کی خالص فطرت کے فیصلوں کو معتبر قرار دیتا ہے اور ان کی تائید کرتاہے ان فطری فیصلوں میں سے ایک معاشرہ کی سرپرستی اور اسکی باگ ڈور سنبھالنا ہے۔

ولایت کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان

خدائے متعال اپنے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی توصیف میں فرماتا ہے :

( لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیه ما عنتّم حریص علیکم بالمئومنین رؤف رّحیم ) (توبہ١٢٨)

''یقیناتمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جوتمھیںمیں سے ہے اوراس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مو منین کے حال پر شفیق اور مہر بان ہے''

اس بات پر ہرگز یقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو قرآن مجید کی نص کے مطابق اپنی امت پر تمام لوگوں سے زیادہ ہمدردومہر بان تھا،وہ احکام الہیٰ میں سے ایک حکم کے بارے میں اپنی پوری عمر خاموش رہے،اور اس کے بیان سے چشم پوشی کرے جو اسلامی معاشرہ میں بلا شک و شبہ پہلے درجہ کی اہمیت کا حاصل ہو اور عقل سلیم اور فطرت کے مطابق ہو۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بہتر جانتے تھے کہ اسلام کا تشکیل پایا ہوا یہ وسیع نظام (جو دنیا کے وسیع ترین نظاموں میں سے ہے )صرف دس بیس سال تک کے لئے نہیں ہے کہ اس کی سرپرستی کو آپ خود کریں ،بلکہ یہ نظام عالم بشریت کو ہمیشہ چلا نے والا ہے ۔

چنا نچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعد ہزاروں سال تک کے حالات کے بارے میں دور اندیشی فرماتے تھے ،اور اس سلسلہ میں ضروری احکام جاری فرماتے تھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ دین،ایک اجتماعی نظام ہے اور کوئی بھی اجتماعی نظام حاکم اور سر پرست کے بغیر ایک گھنٹہ کے لئے بھی زندہ باقی نہیں رہ سکتا ۔

اس بنا پر ،سر پرستی ضروری ہے تاکہ دین کے معارف اور قوانین کی حفاظت کی جائے اور معاشرہ کے نظام کو چلا یا جاسکے اور لوگوں کی دنیاوآخرت کی سعادت کی طرف رہنمائی ورہبری کی جائے ۔لہذا کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحلت کے بعد آنے والے کل کوبھول جائیں یا اس کے بارے میں کوئی دلچسپی نہ رکھیں؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی جنگ یاحج کے لئے صرف کچھ دنوں کے لئے مدینہ سے باہرتشریف لے جاتے تھے ،تو لوگوں کے امور کو چلانے کے لئے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین مقرر فرماتے تھے اوراسی طرح مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئے شہروں کے لئے گورنرمقرر فرماتے تھے اور جنگ پر روانہ ہونے والے فوجی لشکر یاگروہ کے لئے کمانڈر اورامیر مقرر فرماتے تھے اور کبھی اس حد تک فرماتے تھے کہ:''تم لوگوں کا امیر فلاں شخص ہے اگر وہ ماراگیا تو فلاں شخص ہوگا ''۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس روش کے باوجود کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے سفر آخرت کے موقع پراپنی جگہ پر کسی کو معےّن نہیں کیا ہوگا ؟

مختصر یہ کہ جو بھی شخص گہری نگاہ سے اسلام کے بلند مقاصد اور ان کولانے والے عظیم الشان پیغمبر کے مقصد پر نظر ڈالے ،توکسی شک وشبہہ کے بغیر تصدیق کرے گا کہ مسلمانوں کے لئے ولایت وامامت کا مسئلہ حل شدہ اور واضح ہو چکا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ جانشین کا تقرر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعدمسلمانوں کے امور کی سرپرستی اور مسئلہ ولایت کے سلسلہ میں صرف سر بستہ بیانات پرہی اکتفانہیں فرمایا بلکہ پہلے ہی دن سے توحید ونبوت کی دعوت کے ساتھ ساتھ مسئلہ ولایت کو بھی واضح طور پر بیان فرمایا اور دین ودنیا کے تمام امور میں حضرت علی علیہ السلام کی سرپرستی اور جانشینی کو تمام مسلمانوں میں اعلان فرمایا۔

جیسا کہ بیان ہوا،اس روایت کے مطابق جسے شیعہ وسنی راویوں نے نقل کیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پہلے دن اعلانیہ دعوت دینے پر مامور ہوئے۔توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اورانھیں ایک جگہ پر جمع کیا اوراس محفل میں حضرت علی علیہ السلام کے وزیر، وصی اور خلّیفہ ہونے کوآشکار طور پر ثابت اور مستحکم فر مایا اوراسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں غدیرخم کے مقام پر ایک لاکھ بیس ہزار کے ایک عظیم مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑکر بلند کرکے فرمایا :

''من کنت مولاه فهذاعلی مولاه''

''جس جس کا میں مولا ہوں،اس کے یہ علی بھی مولا ہیں ''

امامت کی ضرورت پر ایک دلیل

چنانچہ نبوت کی بحث میں واضح ہوا کہ خالق کائنات کااپنی مخلوق پر عنایت وتوجہ کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی مخلوقات میں سے ہر مخلوق کی معین مقصد (جو کمال کے درجہ تک پہنچنا ہے) کی طرف رہنمائی کرے مثال کے طورپر پھل دار درخت کی رشد،نمو،کونپلیں کھلنے اور پھل دینے کی طرف راہنمائی کی جائے اور اسکی زندگی کا طریقہ ایک پرندہ کی زندگی کے طریقہ سے جدا ہے ۔اس طرح ایک پرندہ بھی اپنی زندگی خاص راستہ کو طے کرتا ہے اور اپنے خاص مقصد کے پیچھے جاتاہے ،نہ کہ درخت کے راستہ اور مقصد کے پیچھے،اسی طرح ہر مخلوق کی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے اور مناسب راستہ کو طے کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف راہنمائی نہیں کی جاتی اور معلوم ہے کہ انسان بھی خدا کی ایک مخلوق ہونے کے ناطے ہدایت کے اس کلی قانون میں شامل ہے ۔

واضح ہوا کہ انسان کی زندگی کی سعادت چونکہ خود اس کے اختیار اور ارادہ سے حاصل ہوتی ہے ،لہذا ہدایت الٰہی اور،دعوت وتبلیغ بھی انبیاء اور دین کو بھیجنے کے ذریعہ ہونی چاہئے تاکہ خدائے متعال پر انسان کی کوئی حجت باقی نہ رہے ۔ذیل کی آیت اسی معنیٰ پر دلالت کرتی ہے:

( رسلاً مّبشِّرین ومنذرین لئلاّیکون للناس علی اللّه حجةً بعد الرُّسّل ) ۔۔.) (نسائ١٦٥)

''یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے''

جو دلیل پیغمبروںکے بھیجنے اور دین کی دعوت کی برقراری کا تقاضا کرتی ہے وہی دلیل اس چیز کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ،اپنی عصمت سے دین کی حفاظت اورلوگوں کی رہبری کرنے والے پیغمبرکی رحلت کے بعد ، خدائے متعال کو چاہئے کہ اوصاف کمالی میں (وحی ونبوت کے علاوہ )آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند ایک شخص کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاجانشین مقرر فرمائے تاکہ وہ دین کے معارف اوراحکام کی کسی انحراف کے بغیر حفاظت کرے اور لوگوں کی رہنمائی کرے ،ورنہ عام ہدایت کا نظام درہم برہم ہو جا ئے گا اور خدائے متعال پر لوگوں کی حجت تمام ہوجائے گی ۔

امام کی ضرورت

عقل میں چوںکہ خطا ولغزش پائی جاتی ہے لہذا وہ لوگوںکو خدا کے پیغمبروں سے بے نیاز نہیں کر سکتی ،اسی طرح امت میں علمائے دین کی موجودگی اورانکی دینی تبلیغات ،لوگوں کو امام کے وجود سے مستغنی نہیں کر سکتے ،کیونکہ، جیسا کہ واضح ہوا کہ بحث اس میں نہیں ہے کہ لوگ دین کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں ،بلکہ بحث اس چیز میں ہے کہ خدا کا دین کسی قسم کی تحریف وتبدیلی یانابودی کے بغیر لوگوں تک پہنچ سکے ۔معلوم ہے کہ علمائے امت کتنے بھی صالح اور متّقی ہوں ،لیکن خطاو گناہ سے محفوظ و معصوم نہیں ہیں اور بعض معارف اوردینی قوانین کا ان سے پائمال ہونا یا تبدیل ہونا،اگرچہ عمدا ًنہ ہو ،محال نہیںہے ۔اس کی بہترین دلیل اسلام میں گوناگون مذاہب اوراختلافات کا وجود میں آنا ہے ۔

لہذا،ہر حالت میں امام کا وجود لازم اور ضروری ہے تاکہ دین خدا کے معارف اور اس کے حقیقی قوانین اس کے پاس محفوظ رہیں اور جب بھی لوگوں میں استعداد پیدا ہو جائے وہ ان کی رہنمائی سے استفادہ کر سکیں ۔

امام کی عصمت

مذکورہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ امام کو بھی پیغمبر کے مانند خطاومعصیت سے محفوظ ہونا چاہئے ،کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دین کی دعوت ناقص رہے گی اور الہٰی ہدایت اپنا اثر کھودے گی ۔

امام کے اخلاقی فضائل

امام میں شجاعت ،شہامت ،عفت ،سخاوت اور عدالت جیسی اخلاقی فضیلتیں موجود ہونی چاہئیں ،کیونکہ جو معصیت سے محفوظ ہے وہی تمام دینی قوانیں پر عمل کرتا ہے اور پسندیدہ اخلاق دین کی ضروریات میں سے ہیں اس لئے اس کو اخلاقی فضائل میں تمام لوگوں سے افضل ہونا چاہئے ،کیونکہ کسی کا اپنے سے برتر وبالاتر کی رہبری کرنا بے معنی اور عدل الہٰی کے منافی ہے ۔

امام کا علم

چونکہ امام دین کا حامل اور تمام لوگوں کا پیشوا ہوتاہے ،لہذا ضروری ہے کہ وہ لوگوں کی دنیا وآخرت اور انسان کی سعادت سے متعلق تمام مسائل کا علم رکھتا ہو ،کیونکہ عقل کے مطابق جاہل کا پیشوا بننا جائز نہیں ہے اور عام الہٰی ہدایت کی روسے بھی یہ بے معنی ہے ۔

____________________

١۔احمد بن حنبل،مسند،ج٥،ص٩٢۔

٢۔ینابیع المودہ ،باب ٧٧،ص٥٠٣۔

٣۔ینابیع المودہ،باب ٩٤،ص٥٥٣و٥٥٤۔