دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39265
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39265 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام

(دوسرے امام)

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد خلافت کی باگ ڈور سنبھالی۔آپ معاویہ کے بلوے کو دبانے کے لئے ایک لشکر کو مسلح اور منظم کرنے میں لگ گئے ۔آپ نے لوگوں میں اپنے نانااور والدگرامی کی سیرت کو جاری رکھا ۔لیکن کچھ مدت کے بعد معلوم ہوا کہ معاویہ کی مخفیانہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے آپ کی کوششیں نا کام ہورہی ہیں ،آپ کے لشکر کے سردارمعاویہ سے سازباز کر چکے ہیں ،اوریہاںتک آمادہ تھے کہ آپ کوگرفتار کرکے معاویہ کے حوالہ کردیں یاقتل کردیں ۔

بدیہی ہے کہ ایسے حالات میں معاویہ سے جنگ کرنے میں امام حسن مجتبیٰ کے لئے شکست و ناکامی یقینی تھی، یہاں تک کہ اگر امام تنہا یا اپنے نزدیک ترین افراد کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے قتل ہوتے ،تو معاویہ کی سلطنت میں کسی قسم کی ہلچل نہ مچتی اور لوگوں کے دلوںپر بھی کوئی اثرنہ ہوتا،کیونکہ معاویہ اپنی مخصوص شاطرانہ چال سے آسانی کے ساتھ آپ کو مختلف ذرایع حتی اپنے ہی افراد کے ذریعہ قتل کراسکتا تھا،اس کے بعد لباس عزا پہن کر آپ کی انتقام کادعویٰ کر کے فرزند پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خون سے اپنے دامن کو دھوسکتا تھا ۔ان ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ کی طرف سے صلح کی تجویز کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کیا اور خلافت سے دستبر دارہوگئے ۔لیکن معاویہ نے تمام شرائط کو پامال کر کے ان میں سے کسی ایک پر عمل نہیں کیا۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اس طرح اپنی ،اپنے بھائی حضرت امام حسین اور اپنے چند اصحاب کی جان کو یقینی خطر ہ سے بچالیا اور اپنے خاص اصحاب کا ایک مختصرومحدود لیکن حقیقت پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا اور اصلی اسلام کو بالکل نا بود ہونے سے بچالیا۔

البتہ معاویہ ایسا شخص نہیں تھا جو امام حسن مجتبیٰ کے مقصد اورآپ کے منصوبہ سے بے خبر رہتا،اس لئے صلح بر قرار ہونے اور پورے طور پر تسلط جمانے کے بعد معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کے دوستوں اورحامیوں کو جہاں کہیں پایا ان کو مختلف ذرائع سے نابود کردیا ،اگر چہ صلح کے شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ خاندان ر سالت کے حامی اوردوست امان میں رہیں گے۔

بہر حال معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے مقدمات کو مستحکم کرنے کے لئے امام حسن مجتبی علیہ السلام کو آپ کی بیوی کے ہاتھوں زہر دلا کر شہید کرا یا ،کیونکہ صلح نامہ کے دوسرے شرائط میں یہ بھی تھا کہ معاویہ کے بعد خلافت پھر سے حضرت امام حسن مجتبی کو ملے گی ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام

(تیسرے امام)

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے برادر بزرگوار کے بعد حکم خد ا اور اپنے بھائی کی وصیت سے امامت کے عہدہ پرفائز ہوئے او رمعاویہ کی خلافت کے دوران تقریباًدس سال زندگی گزاری اوراس مدت میں اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے رہے اور جب تک معاویہ زندہ تھا امام کوئی موثرکام انجام نہ دے سکے ۔تقریباً ساڑھے نوسال کے بعد معاویہ مر گیا ،اورخلافت جوسلطنت میں تبد یل ہو چکی تھی اس کے بیٹے یزید کو ملی ۔

یزید ،اپنے ریاکار باپ کے برعکس ،ایک مست ،مغرور،عیاش،فحاشی میں ڈوبا ہوا اور لاابالی جوان تھا ۔یزید نے حکومت کی باگ ڈورسنبھالتے ہی مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے اس کے لئے بیعت لے ورنہ ان کا سر قلم کر کے اس کے پاس بھیجدے ۔اس کے بعد مدینہ کے گورنر نے حکم کے مطابق امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت کا تقاضا کیا،آپ نے مہلت چاہی اور رات کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ راہی مکہ ہوئے ۔اورحرم خدا میں ،جواسلام میں ایک سرکاری پناہ گاہ ہے ،پناہ لی ،لیکن وہاں پر کچھ مہینے گزار نے کے بعد ،سمجھ گئے کہ یزید کسی قیمت پر آپ سے دست بردارہونے والا نہیںہے ،اوربیعت نہ کرنے کی صورت میں ،آپ کاقتل ہونا قطعی ہے۔اور دوسری جانب سے اس مدت کے دوران عراق سے کئی ہزار خطوط حضرت کی خدمت مین پہنچے تھے کی جن میں آپ کی مدد کاوعدہ دے کر ظالم بنی امیہ کے خلاف تحریک چلانے کی دعوت د ی تھی ۔

امام حسین علیہ السلام عمومی حالات کے مشاہدہ سے اورشواہدوقرائن سے سمجھ چکے تھے کہ آپ کی تحریک ظاہری طورپر آگے نہیں بڑھ سکتی ہے،اس کے باوجود یزید کی بیعت سے انکار کرکے قتل ہونے پر آمادہ ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تحریک کا آغاز کر کے مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستہ میں سرزمین کربلا (کوفہ سے تقریبا ً ستر کلومیٹر پہلے) دشمن کے ایک بڑے لشکر سے آپ کی مڈ بھیڑ ہوئی۔

امام حسین علیہ السلام راستہ میں لوگوں کو اپنی مدد کے لئے دعوت دے رہے تھے اوراپنے ساتھیوں سے تذکرہ کرتے تھے کہ اس سفر میں قطعی طورپر قتل ہونا ہے اور اپنا ساتھ چھوڑ نے پر اختیا ر دیتے تھے، اسی لئے جس دن آپ کا دشمن سے مقابلہ ہوا توآپ کے گنے چنے جان نثار ساتھی باقی بچے تھے جنہوں نے آپ پر قربان ہونے کا فیصلہ کیا تھا ،لہٰذاوہ بڑی آسانی کے ساتھ دشمن کی ایک عظیم فوج کے ذریعہ انتہائی تنگ محاصرہ میں قرار پائے اور یہاں تک کہ ان پر پانی بھی بندکیاگیا ،اور ایسی حالت میں امام حسین علیہ السلام کو بیعت کرنے یا قتل ہونے کے درمیان اختیار دیاگیا ۔

امام حسین علیہ السلام نے بیعت کرنے سے انکار کیااورشہادت کے لئے آمادہ ہوگئے۔ ایک دن میں صبح سے عصر تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن سے لڑتے رہے ۔اس جنگ میں خود امام،آپ کے بیٹے، بھائی ،بھتیجے ،چچیرے بھائی اورآپ کے اصحاب کہ جن کی کل تعدادتقریباستر افراد کی تھی، شہید ہوئے ۔صرف آپ کے بیٹے امام سجاد علیہ السلام بچے،جو شدیدبیمار ہونے کی وجہ سے جنگ کرنے کے قابل نہیں تھے ۔

دشمن کے لشکر نے،حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مال کو لوٹ لیا اورآپ کے خاندان کو اسیر بنا لیا اورشہداء کے کٹے ہوئے سروں کے ہمراہ اسیروں کو کوفہ اور کوفہ سے شام لے جایا گیا ۔

اس اسیری میں امام سجاد علیہ السلام نے شام میں اپنے خطبہ سے اسی طرح حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے کوفہ کے مجمع عام میں اور کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار میں اور شام میں یزید کے دربار میں اپنے خطبوں سے حق سے پردہ اٹھایا اور بنی امیہ کے ظلم وستم کو دنیا والوں کے سامنے آشکار اور واضح کردیا ۔

بہرحال امام حسین علیہ السلام کی تحریک ،ظلم ، و زیادتی اورلاابالی کے مقابلہ میں خود آپ اورآپ کے فرزندوں ،عزیزوں اوراصحاب کے پاک خون کے بہنے اورمال کی غارت اورخاندان کی اسیری پر ختم ہو ئی ۔یہ تحریک اپنی خصوصیات و امتیازات کے پیش نظر اپنی نوعیت کا ایک ایسا واقعہ ہے انقلاب کی تاریخ کے صفحات پر رقم ہے ۔یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اس واقعہ سے زندہ ہے اور اگریہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو بنی امیہ اسلام کا نام ونشان باقی نہ رکھتے۔

اس جانکاہ واقعہ نے نمایاں طور پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کے مقاصد کو بنی امیہ اوران کے طرفداروں کے مقاصد سے جدا کر کے حق وباطل کوواضح وروشن کردیا۔

یہ واقعہ نہایت کم وقت میں اسلامی معاشرہ کے کونے کونے میں منتشر ہوا اورشدیدانقلابوں اور بہت زیادہ خونریزوںکا سبب بنا جو بارہ سال تک جاری رہے وآخر کاربنی امیہ کے زوال کا ایک بنیادی سبب بنا۔

اس واقعہ کا واضح ترین اثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی معنوی پرورش کے نتیجہ میں رونما ہوا جن کے دلوں میں علی بن ابیطالب کی ولایت نے جڑ پکڑ لی اوران لوگوںنے خاندان رسالت کی دوستی کواپنالائحہ عمل بنالیا اور دن بدن ان کی تعداد اور طاقت بڑھتی گئی ۔اور آج کی دنیامیں تقریباًدس کروڑمسلمان شیعہ کے نام سے موجود ہیں ۔

کیاامام حسن اورامام حسین علیہما السلام کی روش مختلف تھی ؟

اگرچہ ان دومحترم پیشوائوں کی روش۔جونص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق برحق امام ہیں ۔ظاہراً مختلف نظرآتی ہیں،بعض لوگوں نے اس حدتک کہا ہے کہ:ان دوبھائیوں کے درمیان اس حد تک نظریاتی اختلاف پایاجاتاتھا کہ ایک نے چالیس ہزار سپاہی ہونے کے باوجود صلح کی اور دوسرے نے رشتہ داروں کے علاوہ چالیس دوست واحباب کے ساتھ جنگ کی حتی کہ شش ماہہ طفل شیرخوار کو بھی اس راہ میں قربان کیا۔

لیکن عمیق اوردقیق تحقیقات سے اس نظریہ کے خلاف ثابت ہوتا ہے،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام تقریباً ساڑھے نوسال معاویہ کی سلطنت میں رہے اورکھلم کھلا مخالفت نہیں کی ۔امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی کی شہادت کے بعد تقریباً ساڑھے نوسال معاویہ کی سلطنت میں زندگی گزاری اور تحریک کا نام تک نہیں لیا اور مخالفت نہیں کی ۔

پس دونوں کی روش میں اس ظاہری اختلاف کی اصلی ا بنیاد کو معاویہ اور یزید کی متضاد روشوں میں ڈھونڈ نا چاہئے نہ کہ ا ن دو محترم پیشوائوں کے نظریاتی اختلاف میں ۔

معاویہ کی روش بظاہراایک ایسی روش نہیں تھی جو بے دینی پر استوارہو اوراپنی اعلانیہ مخالفت سے احکام دین کا مذاق اڑائے ۔

معاویہ اپنے آپ کو ایک صحابی اور کاتب وحی کے طورپرپہچنواتا تھا اور اپنی بہن کے ذریعہ (جو زوجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام المٔو منین تھیں )اپنے آپ کو ''خال المومنین''کہلاتا تھا اور خلیفہ دوم کا مور د اعتماد تھا اورعام لوگ خلیفہ پرپورا اعتماداورخاص احترام رکھتے تھے ۔

اسکے علاوہ اس نے لوگو ں کی نظر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قابل احترام اکثراصحاب (جیسے ابوہریرہ،عمروعاص،سمرہ،بسر اورمغیرةبن شعبہ و غیرہ)کو گورنری اوردیگر حساس حکومتی عہدوںپر فائز کیاتھا جولوگوں کے حسن ظن کو اس کی طرف مبذول کرتے تھے اور لوگوں میں اس کے فضائل اور دین کے سلسلہ میں صحابہ کے محفوظ ہونے کے بارے میں ۔یعنی جو کام بھی انجام دیں معذور ہیں۔ بہت سی روایتیں نقل کرتے تھے،لہذا معاویہ جوبھی کام انجام دیتا تھا وہ قابل توجیہ ہوتا تھا اور جب اس سے کام نہیں بنتا تھا تو معاویہ بھاری انعام واکرام اور لالچ دے کر اعتراض کرنے والوں کا منہ بندکرتاتھا ۔جہاں پر یہ حربہ کارگر ثابت نہیں ہوتا تھا ،تواپنے انہی حامیوں اور طرفداروں کے ذریعہ مخالفت کرنے والوں کو نابود کراتاتھا ۔چنانچہ اس کے ان ہی حامی صحابیوں کے ہاتھوں ،دسیوں ہزاربے گناہ شیعیان علی اوردیگر مسلمانوں حتی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں کی ایک جماعت کو بھی قتل کیا گیا ۔

معاویہ تمام کاموں میں ایک حق بجانب روپ اختیارکرتا تھا اور ایک خاص صبرو تحّمل سے قدم بڑھاتا تھا اورایک خاص مہربانی سے لوگوں کو اپنا محب اور مطیع بنا لیتا تھا یہاں تک کہ کبھی اپنے خلاف گالیاں سنتاتھا اور جھگڑوں سے رو برو ہوتا تھا،لیکن خنداں پیشا نی اور عفوو بخشش کے ساتھ جواب دیتا تھا ،وہ اس طرح اپنی سیاست کو نافذ کرتاتھا ۔

حضرت امام حسن اورامام حسین علیہما السلام کابظاہراحترام کرتاتھا اوردوسری طرف سے اعلان کرتااتھا جوبھی شخص اہل بیت علیہم السلام کے فضّائل میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس کی جان ومال اور عزت و آبرو کسی صورت میں محفوظ نہیں ہے اور جوشخص اصحاب کی منقبت میں کوئی حدیث بیان کرے گا تو اسے انعام واکرام سے نوازا جائیگا۔

اسی طرح یہ بھی حکم دیتا تھا کہ خطباء مسلمانوں کے منبروں سے علی کو(لازمی طورپر)گالیاں دیںاور اس کے حکم سے حضرت علی کے حامیوں کو جہاں بھی پاتے تھے موقع پر ہی قتل کرڈالتے تھے اوراس کام میں اس قدر زیادتی کی کہ حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں کی ایک بڑی تعداد کوبھی آپ کی دوستی کے الزام میں قتل کیا گیا ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے انقلاب سے اسلام کونقصان پہنچتا۔ اور آپ اور آپ کے ساتھیوں کا خون رایگان ہوتا۔

ان حالات میں بعید نہیں تھا معاویہ امام حسین کو اپنی ہی افراد میں سے کسی کے ذریعہ قتل کرواتااور اس کے بعد عام لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور افکار کو بدلنے کے لئے آپ کے ماتم میں اپنا گریبان چاک کرتا اورآپ کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے سے آپ کے شیعوں کا قتل عام کرتا،کیونکہ اس نے یہی رویہ عثمان کے بارے میں اختیار کیا تھا ۔(۱)

لیکن یزید کی سیاسی روش کسی صورت میں اس کے باپ کی روش سے مشابہ نہیں تھی ۔وہ ایک خود خواہ اور لا ابا لی و بے دین جوان تھا ،زور وزبردستی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا تھا،لوگوں کے افکار و نظریات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا ۔

یزید نے اسلام کوپس پردہ پہنچائے جانے والے نقصانات کو اپنے مختصر دور حکومت میں اچانک آ شکار کیا اور اس سے پردہ ہٹادیا۔

اپنی حکومت کے پہلے سال میں ،خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قتل عام کیا ۔

دوسرے سال مدینہ منورہ کو منہدم کیا اور تین دن تک لوگوں کی عزت،ناموس اور جان ومال کواپنے سپاہیوں کے لئے مباح قرار دیا۔

تیسرے سال کعبہ کو منہدم کردیا۔

اسی وجہ سے ،امام حسین علیہ السلام کے انقلاب نے لوگوں کے ذہنوںاور افکار میں جگہ پائی اورروز بروز یہ اثر گہرا اورنمایاںہوتاگیا اور ابتدائی مرحلہ میں خونین انقلابوں کی صورت میں ظاہر ہوا اورآخرکارمسلمانوں کی ایک عظیم تعداد کوحق وحقیقت کے حامیوں اور محبان اہل بیت علیہم السلام کے عنوان سے وجود میں لایا۔

١۔تاریخ گواہ ہے کہ عثمان نے معاویہ سے مسلسل مدد کی درخواست کی لیکن معاویہ نے اسکامثبت جواب نہیں دیا ،لیکن جب عثمان قتل کئے گئے تو ان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانہ سے امیرالمؤ منین حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کی ۔

یہی وجہ تھی کہ معاویہ نے یزید کو اپنی وصیتوں کے ضمن میں تاکیدو نصیحت کی تھی کہ امام حسین علیہ السلام سے کوئی سروکار نہ رکھے اوران پراعتراض نہ کرے۔لیکن کیا یزیدکی مستی اورخودخواہی اسے اس با ت کی اجازت دیتی کہ وہ اپنے فائدے اور نقصان میں تمیز دے سکے ؟!

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

(چوتھے امام)

امام سجاد علیہ السلام نے اپنی امامت کی مدت میں جس روش کو اختیار کیااسے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے کہ جو مجموعی طورپر ائمہ اطہار علیہم السلام کی عام روش کے مطابق ہے۔ حضرت امام سجادعلیہ السلام کربلا کے جانکاہ واقعہ میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ تھے اورحسینی انقلاب میں شریک تھے اور آپ کے والدگرامی کی شہادت کے بعد آپ اسیر کئے گئے اور کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے شام لے جائے گئے۔امام سجاد علیہ السلام نے اپنی اسیری میں تقیہ سے کام نہیں لیا اور بلا جھجک حق وحقیقت کا اظہار کرتے تھے ،اور موقع و محل کے مطابق اپنی تقریروں اور بیانات کے ذریعہ خاندان رسالت کی حقا نیت اوران کے فخر ومباہات کو عام وخاص تک پہنچاتے تھے اور اپنے والد بزگوار کی مظلو میت اور بنی امیہ کے دردناک ظلم وستم اور بے رحمی کو تشت ازبام کر کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کو ایک پر تلاطم طوفان میں تبدیل کرتے تھے ۔

لیکن قید اور اسیری سے رہائی پانے کے بعد ،امام سجاد علیہ السلام مدینہ لوٹے اورجاںنثاری کا ماحول آرام وسکون کے ماحول میں تبدیل ہوا ،گھر میں گوشہ نشینی اختیار کی اور غیروں کے لئے دروازہ بندکردیا اور خدائے متعال کی عبادت میں مشغول ہوئے ۔اور خاموشی سے حق و حقیقت کے حامیوں کی تربیت کرتے رہے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اپنی امامت کے ٣٥سال کے دوران بالواسطہ یا براہراست لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی پرورش وتربیت کی اور ان کو اسلامی معارف کی تعلیم دی۔

جو دعائیں حضرت امام سجاد علیہ السلام محراب عبادت میں آسمانی لہجہ میں پڑ ھتے اور ان کے ذریعہ اپنے پروردگار سے رازونیاز فرماتے تھے ، وہ عظیم اسلامی معارف کے ایک مکمل دورہ پر مشتمل ہیں ۔ دعائوں کے مجموعہ کو ''صحیفئہ سجادیہ ''کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

(پانچویں امام)

حضرت امام محمدباقر علیہ السلام کی امامت کے زمانہ میں دینی علوم کی نشرو اشاعت کے لئے کسی حدتک ماحول سازگار ہوا ۔بنی امیہ کے د بائوکے نتیجہ میں اہل بیت علیہم السلام کی احادیث نابود ہو چکی تھیں جبکہ احکام کے لئے ہزاروں احادیث کی ضرورت ہوتی ہے ،لیکن اصحاب کے ذریعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نقل کی گئی احادیث کی تعداد پانچ سوسے زیادہ نہ تھی ۔

مختصر یہ کہ اس زمانے میں کربلا کے جانکاہ واقعہ اور حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ٣٥سالہ کوششوں کے نتیجہ میں شیعوں کی ایک بڑی تعداد و جودمیں آگئی تھی۔لیکن وہ فقہ اسلامی سے خالی ہاتھ تھے ۔چونکہ بنی امیہ کی سلطنت،اندرونی اختلافات، راحت طلبی اور حکّام کی بے لیاقتی کے نتیجہ میں کمزور ہورہی تھی اور اس کے پیکر میں روز بروز سستی کے آثار نمایاں ہوتے جارہے تھے،لہذ اامام محمد باقرعلیہ السلام نے اس فرصت سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے علوم اہل بیت علیہم السلام اور فقہ اسلامی کے نشرواشاعت کاکام شروع کیا اور تعلیم وتربیت کے بعد اپنے مکتب سے بہت سے دانشوروں کومعاشرے کے حوالے کیا۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام

(چھٹے امام)

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں اسلامی علوم کی نشرواشاعت کے لئے زمین زیادہ ہموار اورحالات زیادہ مناسب تھے ،کیونکہ حضرت امام محمد باقرکے ذریعہ احادیث کی نشرواشاعت اورآپ کے مکتب کے شاگردوں کی تبلیغ سے لوگوں میں اسلامی معارف اورعلوم اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں شوق پیدا ہو چکا تھا اور حدیث سننے کے تشنہ تھے۔

اس کے علاوہ اموی سلطنت نیست ونابودہوچکی تھی اور عباسی سلطنت ابھی پوری طرح سے مستحکم نہیں ہو سکی تھی اوربنی عباس نے اپنے مقاصدکو حاصل کرنے اور بنی امیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت اور شہدائے کربلا کے خون کودستاویز قرار دیا تھا ،لہذا وہ اہل بیت علیہم السلام سے خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے ۔

اس فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مختلف علوم کی تعلیم و تربیت کا کام شروع کیا ۔تمام اطراف واکناف سے علماء ودا نشور گروہ در گروہ آپ کے گھر پر آتے تھے اورآپ کی شاگردی کاشرف حاصل کر کے معارف اسلامی کے مختلف ہنر،اخلاق،تاریخ انبیاء وامم اور حکمت و مو عظہ کے بارے میں سوالات کرتے تھے اور جواب حاصل کرتے تھے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مختلف طبقات کے لوگوں سے بحثیں کیں اور گونا گوں ملل ونحل سے مناظرے کئے اور علوم کے مختلف شعبوںمیں کافی شاگردوں کی تربیت کی، آپ کی احادیث اور علمی بیانات سے سیکڑوں کتابیں تالیف ہوئی ہیں ،جو ''اصول''کے نام سے مشہورہیں ۔

شیعوںنے،جو اسلام میں اہل بیت علیہم السلام کی روش پر چلتے ہیں،اپنے دینی مقاصداور مسائل سے آپ کی برکتوںسے مکمل طور پر ابہام کو دور کیا ہے اور اپنے مذہبی مجہولات کو آپ کے واضح اور روشن بیانات سے حل کردیا ۔اسی لئے شیعہ مذہب (کہ وہی مذہب اہل بیت ہے )لوگوں میں ''مذہب جعفری''کے نام سے معروف ہوگیا ۔

امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہماالسلام کی تحریک

اگر چہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے پیروئوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جارہا تھا ،لیکن بنی امیہ کے حکاّم کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کے پیروئوںپر زبردست دبائو کی وجہ سے امام سجاد علیہ السلام کے لئے ممکن نہیں تھا ،کہ معارف اسلامی کی تعلیم کا کام عملی اور اعلانیہ طورپر انجام دیں،یہاں تک کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ میں اموی سلطنت اندرونی اختلافات اور بنی عباس سے کشمکش کے نتیجہ میں کمزور ہونے کے بعدختم ہوئی گئی۔

اس لئے شیعہ اوراہل بیت علیہم السلام کے پیرو اور حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ٣٥سالہ امامت کے دوران تر بیت یافتہ شاگردوں کو موقع ملا اور وہ دوردراز علاقوں سے سیلاب کی طرح امام محمد باقر علیہ السلام کے گھر پرآ کر دینی علوم اور اسلامی معارف کی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی اسلامی معارف کی نشر واشاعت کاکام شروع کیا ،دنیا کے کونے کونے سے آنے والے دانشوروں کو قبول کر کے آپ ان کی تعلیم وتربیت فرماتے تھے اورآپ کی کوششوں کے نتیجہ میں ہزاروں دانشور مختلف علوم و فنون کو آپ سے سیکھ کر دنیابھرمیں ان علوم کی نشرواشاعت میں مشغول ہوئے ۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگردوں کی تالیف کی ہوئی کتابوں کی تعداد چارسوہے جو''اصول اربعمئاة''کے نام سے شیعوں میں معروف ہیں ۔

ان کے بعد آنے والے باقی ائمہ علیہم السلام نے بھی ان دو اماموں کی روش پرعمل کرتے ہوئے معارف اسلامی کی نشرواشاعت کی ،بنی عباس کے سخت اورشدید دبائو کے باوجود ،انہوں نے بھی بہت سے دانشوروں کی پرورش و تربیت کی اوراسلام کے علمی خزانوں کو ان کے حوالے کیا ۔ان ہی ائمہ ھدیٰ علیہم السلام کی کوششوں کے نتیجہ میں آج،دنیا کے کونے کونے میں کروڑوں اہل حق موجود ہیں ۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

(ساتویں امام)

بنی عباس نے بنی امیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد خلافت پر قبضہ جمایا۔پھر اس کے بعدبنی فاطمہ کی طرف رخ کیا اور پوری طاقت کے ساتھ خاندان نبوت کو نابودکرنے پر اترآئے ،کچھ لوگوں کے سر قلم کئے ،کچھ کو زندہ دفنادیا اورکچھ کو عمارتوں کی بنیادوں میں یادیواروں میں چن دیا۔

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر کو جلادیا اور خودحضرت کو چند بارعراق بلایا۔اس طرح چھٹے امام کی زندگی کے آخری دنوں میں تقیہ اور سخت ہو گیا تھااور چونکہ حضرت پرشدید پابندی تھی ،لہذاخاص شیعوں کے علاوہ آپ کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے اورآخرکارعباسی خلیفہ منصور کے ذریعہ زہرسے شہید کئے گئے ۔اس طرح ساتویں امام حضرت موسی کاظم کی امامت کے زمانہ میں دشمنوں کا دبائو بہت سخت تھا اور روزبروز بڑھتاجارہا تھا ۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے شدید تقیہ کے باوجود علوم اسلامی کی نشرواشاعت کو جاری رکھا اور بہت سی احادیث کو شیعوں کے حوالہ کردیا ۔چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آپ سے منقول فقہی احادیث پانچویں اور چھٹے امام کے بعددوسرے ائمہ کی نسبت سب سے زیادہ ہیں۔تقیہ کی شدت کی وجہ سے آپ سے منقول احادیث میں ''عالم وعبدصالح ''جیسی تعبیریں استعمال کی گئی ہیں اور حضرت کا نام صریحاً ذکرنہیں کیا گیا ہے ۔حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام عباسی خلفاء کے چار افراد:منصور،ہادی ،مہدی، اور ہارون کے معاصر تھے ۔آخر کار ہارون کے حکم سے آپ کو گرفتارکر کے قید خانہ میں ڈال دیا گیا اور برسوں تک ایک زندان سے دوسرے زندان میں منتقل ہوتے رہے اور سر انجام زندان میں ہی زہردے کر آپ کو شہید کیا گیا ۔

حضرت امام رضا علیہ السلام

(آٹھویں امام)

حالات پر غوروفکر کرنے سے ہر صاحب نظرکے لئے واضح تھا کہ خلفائے وقت اوردشمنان اہل بیت علیہم السلام جتنا ائمہ ھدیٰ کو جسمانی اذیتیں پہنچا کر نابود کرنے کی کوشش کرتے تھے اوران کے شیعوں سے سختی سے پیش آتے تھے ،اتنا ہی ان کے پیروئوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور ان کا ایمان مزید مستحکم ہوتا جارہا تھا اوردربار خلافت ان کی نظروں میں ایک نجس اور ناپاک دربار سمجھاجاتا تھا ۔

یہ مطلب،ایک باطنی عقیدہ تھا جو ائمہ اطہارعلیہم السلام کے معاصر خلفاء کو ہمیشہ رنج وعذاب میں مبتلا کر رہا تھا اور حقیقت میں انھیں بے بس اور بیچارہ کرکے رکھدیا تھا۔

مامون ،بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا اور حضرت امام رضاعلیہ السلام کا معاصر تھا ۔اس نے اپنے بھائی امین کوقتل کرنے کے بعدخلافت پر اپنی گرفت مظبوط کرلی اور اس فکر میں پڑا کہ اپنے آپ کو باطنی رنج وپریشانی سے ہمیشہ کے لئے نجات دے اور زور وزبردستی اوردبائو کے علاوہ کسی اور راستہ سے شیعوں کو اپنے راستہ سے ہٹادے۔

اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جس سیاست کو مامون نے اختیار کیا ،وہ یہ تھی کہ اپنا ولی عہد ،حضرت امام رضا علیہ السلام کوبنایا تاکہ حضرت کو ناجائز خلافت کے نظا م میں داخل کر کے ،شیعوں کی نظروں میں آپ کو مشکوک کر کے ان کے ذہنوں سے امام کی عصمت وطہارت کو نکال دے ۔اس صورت میں مقام امامت کے لئے کوئی امتیاز باقی نہ رہتا ،جو شیعوں کے مذہب کا اصول ہے ،اس طرح ان کے مذہب کی بنیادخود بخود نابود ہو جاتی۔

اس سیاست کو عملی جامہ پہنانے میں ایک اور کامیابی بھی تھی وہ یہ کہ،بنی فاطمہ کی طرف سے خلافت بنی عباس کو سرنگوں کرنے کے لئے جو پے درپے تحریکیں سراٹھارہی تھیں ،ان کو کچل دیا جاتا،کیونکہ جب بنی فاطمی مشاہدہ کرتے کہ خلافت ان میں منتقل ہوچکی ہے ،تو فطری طورپراپنے خونین انقلابوںسے اجتناب کرتے۔البتہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بعدامام رضاعلیہ السلام کو راستے سے ہٹانے میں مامون کے لئے کوئی حرج نہیں تھا ۔

مامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کو پہلے خلافت قبول کرنے اوراس کے بعدولی عہدی کاعہدہ قبول کرنے کی پیش کش کی۔امام نے مامون کی طرف سے تاکید ، اصرار اور دھمکی کے نتیجہ میں آخر کار اس شرط پر ولی عہدی کو قبول کیا کہ حکومت کے کاموں میں جیسے عزل ونصب میں مداخلت نہیں کریں گے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے ایسے ماحول میں لوگوں کے افکار کی ہدایت کرنے کا کام سنبھالا اور جہاں تک آپ کے لئے ممکن تھا مختلف مذاہب وادیان کے علماء سے بحثیں کیں اوراسلامی معارف اوردینی حقائق کے بارے میں گراں بہا بیانات فرمائے (مامون بھی مذہبی بحثوںکے بارے میں کافی دلچسپی رکھتاتھا ) اسلامی معارف کے اصولوں کے بارے میں جس طرح امیرالمومنین کے بیانات بہت ہیں اوردیگر ائمہ کی نسبت بیش تر ہیں۔

حضرت امام رضاعلیہ السلام کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ تھی ،کہ آپ کے آباء واجدادکی بہت سی احادیث جو شیعوں کے پاس تھیں ،ان سب کوآپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ کے اشارہ اورتشخیص سے ان میں سے ،دشمنوں کے ناپاک ہاتھوں کی جعل اوروضع کی گئی احادیث کومشخص کرکے مسترد کیاگیا ۔

حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ولی عہدی کے طور پر جوسفر مدینہ منورہ سے'' مرو''تک کیا،اس کے دوران ،خاص کر ایران میں عجیب جوش وخروش پیداہوا اورلوگ ہرجگہ سے جوق در جوق زیارت کے لئے آپ کی خدمت میں آتے تھے اور شب وروزآپ کے شمع وجود کے گردپروانہ وار رہتے تھے اورآپ سے دینی معارف واحکام سیکھتے تھے ۔

مامون نے جب دیکھا کہ لوگ بے مثال اورحیرت انگیز طور پر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی طرف متوجہ ہیں تواس کو اپنی سیاست کے غلط ہونے کا احساس ہوا ،اسلئے اس نے اپنی غلط سیاست میں اصلاح کرنے کی غرض سے امام کوزہر دیکر شہید کیا اور اس کے بعد اہل بیت علیہم السلام اور ان کے شیعوں کے بارے میں خلفاء کی اسی پرانی سیاست پر گامزن رہا ۔

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام

(نویں امام)

حضرت امام علی نقی علیہ السلام

(دسویںامام)

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام

(گیارہویں امام)

ان تین ہستیوں کی زندگی کے حالات مشابہ تھے ۔امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کے اکلوتے بیٹے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو بغداد بلایا اور پیارو محبت سے پیش آیا ،اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کی اورپورے احترام کے ساتھ اپنے پاس رکھا ۔

یہ طرزعمل ،اگرچہ دوستانہ دکھائی دیتاتھا ،لیکن مامون نے حقیقت میں اس سیاست کے ذریعہ امام علیہ السلام پر ہرلحاظ سے شدید پابندی لگائی تھی ۔حضرت امام علی نقی وحضرت امام حسن عسکری علیہما السلام کا اپنی امامت کے دوران سامرامیں ۔جوان دنوںدارالخلافہ تھا۔سکونت کرنابذات خودایک قسم کی نظر بندی تھی۔

ان تین اماموں کی امامت کی مدت مجموعی طور پر٥٧سال ہے ،ان دنوں ایران ،عراق اورشام میں رہنے والے شیعوں کی تعداد لاکھوںتک پہنچ گئی تھی اور ان میں ہزاروں رجال حدیث بھی موجودتھے۔اسکے باوجودان تین ائمہ علیہم السلام سے منقول احادیث بہت کم ہیں اور ان کی عمریں بھی کم تھیں ۔نویں امام ٢٥سال کی عمر میں دسویں امام ٤٠سال کی عمر میں اور گیارہویں امام ٢٧سال کی عمر میں شہید کئے گئے ۔یہ سب نکات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ان کے زمانے میں دشمنوںکی طرف سے ان پر شدید پابندی تھی اور ان کے کام میں روڑے اٹکائے جا تے تھے، لہذا یہ ائمہ اپنی ذمہ داریوںکوآزادانہ طورپر انجام نہیں دے سکتے تھے ،پھر بھی دین کے اصول اورفروع کے بارے میں ان تین ائمہ سے بعض گراں بہا احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

حضرت امام مہدی موعودعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف

(بارہویںامام)

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں خلافت کی انتظامیہ نے فیصلہ کیاتھا کہ ہر ممکن وسیلہ اورذریعہ سے حضرت کے جانشین کو نابود کریں ،تا کہ اس کے ذریعہ مسئلہ امامت اور اس کے نتیجہ میں مذہب تشیع کوختم کردیں ۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پر دوسری پابندیوں کے علاوہ یہ بھی ایک پابندی تھی ۔

اس لحاظ سے امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی پیدائش مخفی رکھی گئی اورآپ( عج) کی چھ سال کی عمر تک آپ (عج) کے پدربزرگوارزندہ تھے ۔آپ( عج) کولوگوں کی نگاہوںسے پوشیدہ رکھا جاتا تھا اورشیعوں کے چندخاص افراد کے علاوہ آپ( عج) کو کوئی نہیں دیکھ سکتاتھا ۔

والد گرامی کی شہادت کے بعد حضرت (عج) نے،خدا کے حکم سے غیبت صغری اختیار کی،اوراپنے چارخاص نائبوں کے ذریعہ جو یکے بعد دیگرے آپ( عج) کے نائب مقرر ہوئے تھے ،شیعوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے اوران کی مشکلات کو حل فرماتے تھے ۔

اس کے بعدسے حضرت(عج)آج تک غیبت کبری میں ہیں ،جب آپ(عج)کوخدا کاحکم ہو گاتو اس وقت ظہور فرماکرزمین کوعدل وانصاف سے بھردیں گے جوظلم وستم سے پھرچکی ہوگی ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت مہدی موعود(عج) اورآپ(عج)کی غیبت وظہور کے بارے میں شیعہ وسنی راویوں نے بے شما احادیث نقل کی ہیں اوراسی طرح شیعوں کی بزرگ شخصیتوں کی ایک بڑی تعدادآپ(عج)کے والد گرامی کی زندگی میں آپ(عج)کی خدمت میں پہنچ کرآپ(عج) کے نورانی جمال کادیدار کرچکی ہے اورآپ(عج)کے والدگرامی سے امامت کی خوش خبری سن چکی ہے۔

اسکے علاوہ نبوت اورامامت کی بحث میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ دنیاہرگز خدااوراس دین کی حفاظت کرنے والے امام سے خالی نہیں رہے گی۔

ائمہ دین کی روش کااخلاقی نتیجہ

خدا کے انبیاء اورائمہ دین کے بارے میں جو کچھ تاریخ سے خلاصہ کے طور پرحاصل ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ حقیقت پسنداورحق کے پیروتھے اورعالم بشریت کوحقیقت پسندی اورحق کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے تھے اوراس سلسلے میں ہر قسم کی جاں نثاری اورقربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ وہ کوشش کرتے تھے کہ انسان اورانسانی معاشرہ کی کما حقّہ تربیت کریں ۔وہ چاہتے تھے کہ لوگوں پر جاہلانہ یاخرافاتی افکارکی حکمرانی کے بجائے صحیح افکاروعقائد حکم فرما ہوں ،اور انسانیت کے پاک دامن کوحیوانی خصلتوں سے داغدار اورآلودہ نہ ہونے دیں درندوںکی طرح ایک دوسرے کو پھاڑنے اوراپنااپیٹ بھر نے کے بجائے انسانی عادات کو اپنا کر زندگی کے بازارمیں انسانیت کا سرمایہ لگاکرانسانیت کے نقد فائدے سے سعادت حاصل کریں۔یعنی وہ ایسے تھے جو اپنی سعادت نہیں چاہتے تھے مگر معاشرے کی سعادت اور عالم انسانیت کے لئے اس کے علاوہ کسی فریضہ کو تشخیص نہیں دیتے تھے ۔

انہوں نے اپنی بھلائی اورسعادت(کہ انسان اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں چاہتا ہے)ا س میں دیکھی تھی کہ سب کے خیرخواہ ہوں اور چاہتے تھے کہ دوسرے بھی ایسے ہی ہوں ،یعنی جوشخص جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتا ہے ،اسے دوسرے کیلئے پسند کرے اورجس چیزکواپنے لئے پسندنہیں کرتاہے اسے دوسروںکے لئے بھی پسندنہ کرے ۔

اسی حقیقت بینی اورحق کی پیروی کے نتیجہ میں ان حضرات نے اس عام انسانی فریضہ کی اہمیت ''خیرخواہی''اوردیگر جزئی فرائض ،جو اس کے فروع ہیں،کاپتہ چلایا ہے اورجاں نثاری وفداکاری جیسے صفات کے مالک بن گئے ہیں اورانہوں نے راہ حق میں جان ومال کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا اور بدخواہی پر مشتمل ہرصفت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔وہ اپنے مال وجان کے بارے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے ۔خودپرستی اورکنجوسی سے متنفر تھے ،جھوٹ نہیں بولتے تھے ،کسی پر تہمت نہیں لگاتے تھے ،دوسروںکی عزت اورجان ومال پر تجاوز نہیں کرتے تھے ۔ان صفات کی تفصیلی وضاحت اورآثار کو اخلاق کے حصہ میں ہوناچاہئے۔