دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39262
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39262 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

ائمہ معصومین علیہم السلام کے اجمالی حالات

پہلے امام

نام: امیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام

پیدائش: ٢٣سال قبل ہجرت

خلافت: ٣٥ ہجری

شہادت: ٤٠ ہجری

مدت خلافت: تقریباًپانچ سال

مد ت عمر: ٦٣سال

دوسرے امام

نام: حسن علیہ السلام

مشہور لقب: مجتبی

کنیت: ابو محمد

والدگرامی: حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام

پیدائش: ٣ ہجری

شہادت: ٥٠ ہجری ،معاویہ کے ایماء پر اپنی زوجہ کے ذریعہ

زہرسے شہید کئے گئے۔

مدت عمر: ٤٨سال

مدت امامت: دس سال

تیسرے امام

نام : حسین علیہ السلام

لقب: سیدالشہدائ

کنیت: ابو عبد اللہ

والدگرامی : حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام

پیدائش: ٤ ہجری

شہادت: ٦١ ہجری ،یزیدبن معاویہ کے حکم سے شہیدکئے گئے۔

مدت عمر: ٥٧سال

مدت امامت: دس سال

چوتھے امام

نام: علی علیہ السلام

لقب: سجاداورزین العابدین

کنیت: ابومحمد

والدگرامی: حضرت امام حسین علیہ السلام

پیدائش: ٣٨ ہجری

شہادت: ٩٤ ہجری میں ہشام بن عبدالملک کے حکم سے

زہردیاگیا۔

مدت عمر: ٦٦سال

مدت امامت: ٣٥سال

پانچویں امام

نام : محمدعلیہ السلام

لقب: باقر

کنیت: ابوجعفر

والدگرامی: حضرت امام سجادعلیہ السلام

پیدائش: ٥٨ ہجری

شہادت: ١١٧ ہجری میں ابراہیم بن ولید کے حکم سے

زہردیاگیا۔

مدت عمر: ٥٩سال

مدت امامت: ٢٣سال

چھٹے امام

نام: جعفرعلیہ السلام

لقب: صادق

کنیت: ابوعبد اللہ

والدگرامی: حضرت امام محمدباقر علیہ السلام

پیدائش: ٨٠ ہجری

شہادت: ١٤٨ ہجری میں منصور عباسی کے حکم سے زہردیاگیا

مدت عمر: ٦٨سال

مدت امامت: ٣١سال

ساتویں امام

نام: موسی علیہ السلام

لقب: کاظم

کنیت: ابوالحسن

والدگرامی: حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام

پیدائش: ١٢٨ ہجری

شہادت: ١٨٢ ہجری

مدت عمر: ٥٤سال

مدت امامت: ٣٥سال

آٹھویںامام

نام: علی علیہ السلام

لقب: رضا

کنیت: ابوالحسن

والدگرامی: حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

پیدائش: ١٤٨ ہجری

شہادت: ٢٠٣ ہجری میں مامون عباسی کے ہاتھوں زہرسے

شہید کئے گئے

مدت عمر: ٥٥سال

مدت امامت: ٢١سال

نویں امام

نام: محمدعلیہ السلام

لقب: تقی اورجواد

کنیت: ابو جعفر

والدگرامی: حضرت امام رضا علیہ السلام

پیدا ئش: ١٩٥ ہجری

شہادت: ٢٢٠ ہجری میں معتصم عباسی کے ایماپراپنی زوجہ کے

ہاتھوںزہرسے شہید کئے گئے

مدت عمر: ٢٥سال

مدت امامت: ١٧سال

دسویں امام

نام: علی علیہ السلام

لقب: ہادی ونقی

کنیت: ابوالحسن

والدگرامی: حضرت امام محمدتقی علیہ السلام

پیدائش: ٢١٤ ہجری

شہادت: ٢٥٤ ہجری

مدت عمر: ٤٠سال

مدت امامت: ٣٤سال

گیارہویں امام

نام: حسن علیہ السلام

لقب: عسکری

کنیت: ابومحمد

والدگرامی: حضرت امام علی نقی علیہ السلام

پیدائش: ٢٣٢ ہجری

شہادت: ٢٦٠ ہجری

مدت عمر: ٢٨سال

مدت امامت: ٧سال

بارہویں امام

نام: م ح م د علیہ السلام

لقب: ہادی اورمہدی

کنیت: ابوالقاسم

والدگرامی: حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام

پیدائش: ٢٥٦ ہجری

آپ خداکے حکم سے نظروں سے غائب ہیں ،جس دن خدا چاہے گاظہورفرماکردنیاکو عدل وانصاف سے بھردیں گے۔

اخلاق واحکام کے چند سبق

١۔اخلاق کے چند سبق

٢۔احکام کے چند سبق

١۔اخلاق کے چند سبق

جیسا کہ معلوم ہوا،دین مقدس اسلام ایک ایسا عام اور لافانی نظام ہے،جسے خدائے متعال نے انسان کی دنیوی واخروی زندگی کے لئے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ،تاکہ انسانی معاشرے میں نافذ ہوجائے،اورانسانیت کی کشتی کو جہالت وبدبختی کے بھنور سے نکا ل کر نجات کے ساحل پرلگا دے ۔

چونکہ دین،زندگی کا نظام ہے ،لہذاضروری ہے کہ زندگی سے مربوط چیزوں کے بارے میں انسان کے لئے ایک فریضہ کومعین کرے اور اس کے انجام کو انسان سے طلب کرے۔کلی طورپر ہماری زندگی تین امور سے مربوط ہے :

١۔خدائے متعال سے ،کہ ہم اسکی مخلوق ہیں ،اسکی نعمت کاحق ہرحق سے زیادہ ہے اوراس کی ذات اقدس کے بارے میں فرض شناسی ہر واجب سے زیادہ واجب ہے۔

٢۔زندگی کارابطہ خودہمارے ساتھ۔

٣۔اپنے ہم جنسوں سے رابطہ،ہم اپنے ہم جنسوںکے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنے کاروکوشش کوان کے تعاون اورمددسے انجام دیں۔اس بناپر، ہم قاعدے کے مطابق کلی طور پرتین فرائض رکھتے ہیں :

الف:خداکے بارے میں فریضہ۔

ب:اپنے بارے میں فریضہ۔

ج:دوسروں کے بارے میں فریضہ۔

خدا کے بارے میں انسان کافریضہ

خدا کے بارے میں ہمارا فریضہ،اہم ترین فریضہ ہے۔اس کو انجام دینے میں ہمیں پاک دل اورخالص نیت سے کوشش کرنی چاہئے۔سب سے پہلے انسانی فریضہ یہ ہے کہ اپنے پروردگار کو پہچانے،کیونکہ خدائے متعال کا وجود ،ہر مخلوق کے وجود کاسر چشمہ ہے اور ہروجود وحقیقت کا خالق ہے۔اس کے مقدس وجودکی معرفت اوراس کا علم ہر حقیقت بیں نگاہ کے لئے روشنی ہے ۔اس حقیقت سے بے اعتنائی اوردوری ،ہرقسم کی جہالت ،بے بصیرتی اورفریضہ کے نہ جاننے کا سر چشمہ ہے۔جوشخص حق کی معرفت سے بے اعتنائی کرے اورنتیجہ میں اپنے ضمیر کے روشن چراغ کو بجھادے،تواس کے لئے حقیقی انسانی سعادت کوحاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔

چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں ،جولوگ خداشناسی سے رو گردا نی کر تے ہیں اوراپنی زندگی میں اس حقیقت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ،وہ انسانی معنویات سے کلی طورپر دور ہیں اوران کی منطق چوپایوں اوردرندوں کی منطق ہے خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:

( فعرض عن مّن تولّی عن ذکرنا ولم یرد الّا الحیوة الدنیا٭ذلک مبلغهم من العلم ) ...) (نجم٣٠٢٩)

''لہذاجو شخص بھی ہمارے ذکرسے منہ پھیرے اورزندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے،آپ بھی اس سے کنارہ کش ہو جائیں،یہی ان کے علم کی انتہا ہے ۔''

البتہ یہ یاددہانی ضروری ہے کہ،خداشناسی ،انسان کے لئے۔جوایک حقیقت بین اوراستدلالی فطرت والی مخلوق ہے۔اضطراری اورقہری ہے،کیونکہ وہ اپنے خداداد شعور سے خلقت کے جس شئے پر بھی نگاہ کرتا ہے ،خالق کائنات کے وجوداور اس کے علم وقدرت کے آثار کا مشا ہدہ کرتا ہے ۔اس بناپر خداشناسی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان نے خداشناسی کو اپنے لئے ایجادکیا ہے،بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان اس واضح حقیقت کو ،کہ جس پر پردہ نہیںڈالا جاسکتا ،بے اعتنا ئی کی نگاہ سے نہ دیکھے اوراپنے ضمیر کو،جواسے ہروقت خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ،مثبت جواب دے اوراس معرفت کی تحقیق کر کے ہرقسم کے شک وشبہہ کواپنے دل سے نکال دے۔

خدا پرستی

خدا شناسی کے بعدہمارادوسرافریضہ خداپرستی ہے،کیونکہ حق کی معرفت کے ضمن میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سعادت وخوشبختی۔جوہماراتنہا مقصدہے۔ایک ایسے پروگرام پرعمل کرنے اوراسے نافذ کرنے میں پوشیدہ ہے،جسے خدائے متعا ل نے ہماری زندگی کے لئے معین فرمایا ہے اور اسے اپنے انبیاء کے ذریعہ ہم تک پہنچایا ہے ،پس خدائے متعال کے حکم کی اطاعت اور اسکی بندگی ایسافریضہ ہے کہ جس کے مقابلہ میں ہر فریضہ ناچیز اور حقیر ہے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( وقضی ربّک الّا تعبدوا الّا ایّاه ) ۔..) (اسرائ٢٣)

''اور آپ کے پروردگارکا فیصلہ ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا...''

( الم اعهد الیکم یابنی آدم ان لّا تعبدواالشّیطن انّه لکم عدوّ مبین ٭وان اعبدونی هذا صراط مّستقیم ) (نسائ٥٩)

''اولاد آدم !کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرناکہ وہ تمہاراکھلا ہوا دشمن ہے ٠اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے ''

اس بناپر، ہمارا فریضہ ہے کہ مقام بندگی اور اپنی ضرورت کو پہچانیں اور خدائے متعا ل کی لا محدود عظمت وکبریائی کو مد نظر رکھیں اور اس کو ہر جہت سے اپنے اوپر مسلط جان کر اس کے فرمان کی اطاعت کریں ۔ہم پر واجب ہے کہ خدائے متعال کے سواکسی اورکی پرستش نہ کریں اور پیغمبرگرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ ھدی ۔کہ خدائے متعال نے ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں۔خدائے متعال فرماتا ہے :

(...( اطیعوااللّه واطیعواالرّسول واولی الامر منکم ) ۔..)

(نسائ٥٩)

''...اللہ کی اطاعت کرو ،رسول اور صاحبان امر(ائمہ )کی اطاعت کرو''

البتہ،خدائے متعال اوراولیائے دین کی اطاعت کے اثر میں ،عملًا خداسے منسوب ہر چیز کا مکمل احترام کرناچاہئے ۔خدااوراولیائے دین کے نام کو ادب کے ساتھ لینا چاہئے۔ خداکی کتاب (قرآن مجید)،کعبہ شریف،مساجد اوراولیائے دین کی قبور کا احترام کرنا چاہئے ،چنانچہ خدائے متعال فرما تا ہے:

(...( ومن یعظِّم شعائر اللّه فانّها من تقوی ) (حج٣٢)

''جوبھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقوی کا نتیجہ ہوگی .''

اپنے بارے میں انسان کافریضہ

انسان ،اپنی زندگی میں جو بھی روش اختیار کرے اور جس راستہ پر چلے،حقیقت میں وہ اپنے لئے سعادت و کامیابی کے علاوہ کوئی چیز نہیں چاہتا ۔چونکہ سعادت کو پہچاننا،کسی اورچیز کی پہچاننے کے ضمن میں ہے ،یعنی جب تک ہم خود کو نہ پہچانیں گے اس وقت تک اپنی حقیقی ضرورتوں ۔کہ ان کو پورا کرنے میں ہماری سعادت ہے۔کو بھی نہیں پہچان سکیں گے ۔اس بناپر انسان کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ خود کو پہچان لے تاکہ اس کے سبب اپنی سعادت وخوشبختی کو سمجھے اور اپنے پاس موجود وسائل کے ذریعہ اپنی ضرورتوں کودور کرنے کی کوشش کرے اوراپنی گراںبہا عمر،جواسکا تنہا سرمایہ ہے،کومفت میں ضا ئع نہ ہونے دے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیاہے ''(۱)

امیرالمؤ منین حضرت علی فرماتے ہیں :

''جس نے اپنے آپ کوپہچان لیا،وہ معرفت کے بلند ترین مقام پر پہنچ گیا ''(۲)

انسان،اپنے آپ کوپہچاننے کے بعدمتوجہ ہوتا ہے کہ اس کاسب سے بڑافریضہ یہ ہے کہ وہ گوہرانسانیت کی قدر کرے ۔

اس گوہرتابناک کو ہواوہوس کے ذریعہ پامال نہ کرے ،اپنی ظاہری وباطنی صفائی کے لئے کوشش کرے تاکہ ایک شیرین ،لذت بخش اورابدی زندگی کو حاصل کرسکے ۔

امیرالمؤ منین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''جوشخص اپنا احترام کرے گا ،اسکے سامنے نفسانی خواہشات حقیراورناچیز ہوں گی۔''(۳)

انسانی وجود دوچیزوں کامرکّب ہے :''روح اوربدن''انسان کا فریضہ ہے کہ ان دونوں ارکان کی صحت واستحکام کے لئے کوشش کرے اوراسلا م کے مقدس دین میں دونوں حصوں کے بارے میں بیان کئے گئے مفصل اور کافی احکام کے مطابق بدن اور روح کی صفائی کی کوشش کرے۔

بدن کی صفائی

دین مقدس اسلام نے کچھ قوانین و ضوابط کے ضمن میں ،جسمانی صفائی کی کافی تاکید کی ہے، جیسے :خون ،مردار ،بعض حیوانوں کا گوشت اورزہریلی غذائوں کو کھانے سے منع کی ہے ۔شراب نوشی ،نجس پانی پینے ،پرُخوری ،اور بدن کو ضرر پہنچانے کی نہی کی ہے اس کے علاوہ دوسرے احکامات ہیں کہ اس فصل میں ان سب کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ،خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسلام نے انسان کو تمام نقصان دہ چیزوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے ۔

صفائی کاخیال

صفائی،حفظان صحت کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول ہے،اسی لئے دین اسلام میں اس اصول کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔جواہمیت اسلام میں صفائی کو دی گئی ہے ،کسی اور دین میں نہیں پائی جاتی ہے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

''النظافة من الایمان'' (۴)

''صفائی ایمان کاحصہ ہے''

اسکے علاوہ اسلام عام طورپر صفائی اور پاکیزگی کا حکم دیتا ہے ، بالخصوص ہر ایک کے لئے صفائی کی نصیحت کرتا ہے ،جیسے :ہاتھ پائوں کے ناخن کاٹنا ،سراوربدن کے زائد بالوں کو صاف کرنا ،کھانا کھانے سے پہلے اوربعد میں ہاتھوں کو دھونا ،بالوںکو کنگی کرنا،کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ،دن میں کئی بارمسواک کرنا ،گھر کو جھاڑو کرنا،راستوں ، گھر کے دروازوں اور درختوں وغیرہ کے نیچے کوصاف ستھرا رکھنا۔

اسکے علاوہ اسلام نے بعض عبادتوں کا حکم دیا ہے کہ جن کا تعلق صفائی وپاکیزگی وغیرہ سے ہے ،جیسے: لباس اور بدن کو نجاستوں سے پاک کرنا،دن میں کئی مرتبہ نماز کے لئے وضو کرنااورنمازو روزہ کے لئے مختلف غسل کرنا۔

کُلّی اور مسواک

انسان منہ سے کھاناکھاتا ہے اورکھانا کھانے کی وجہ سے منہ آلودہ ہوتا ہے،دانتوں کے درمیان ،زبان پراورمنہ کی دوسری جگہوں پر کھانے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رہ جاتے ہیں،اس لئے منہ کے اندربدبو پیدا ہوجا تی ہے اور بعض اوقات کھانے کے ٹکڑوں میں کیمیائی عمل وردعمل اورخمیر ہونے کی وجہ سے زہریلے مواد وجود میں آتے ہیں اور کھانے کے ساتھ مل کر معدے میں جاتے ہیں۔

اسکے علاوہ ایساشخص لوگوں کے مجمع میں سانس لیکربدبو پھیلاتا ہے اور دوسروں کو اذیت پہنچاتا ہے ۔

اس لئے شرع مقدس اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیاہے کہ ہردن (خاص کرہروضوسے پہلے)اپنے دانتوں کو مسواک کریں اورصاف پانی سے کلّی کریں اوراپنے منہ کوآ لودگی سے پاک کریں۔

استنشا ق(ناک میں پانی ڈالنا)

سانس لینا،انسان کی ضروریات زندگی میں سے ہے اور غالبا ًجو ہواانسان کے رہنے کی جگہ پر ہوتی ہے ،گردوغبار اور کثافت سے خالی نہیں ہوتی ،البتہ ایسی ہوامیں سانس لینا نظام تنفس کے لئے مضر ہے ۔اس ضررکو روکنے کے لئے خدائے مہربان نے ناک کے اندرکچھ ایسے بال اگائے ہیں جو گرد وغبار کوپھیپھڑوں تک پہنچنے نہیں دیتے ،اس کے باوجودکبھی گرد وغبارناک کے اندر جمع ہو جا تا ہے جس کی وجہ سے ناک کے بال اپنی ذمہ داری نبھانے سے قاصر رہتے ہیں ۔اسلئے دین اسلام میں حکم دیاگیاہے کہ مسلمان دن میں کئی باروضوسے پہلے ناک میں پانی ڈالیں اور اپنی ناک میں صاف پانی ڈال کراپنے تنفس سے مربوط حفظان صحت کی رعایت کریں ۔

____________________

١۔بحارالانوار،ج٦١،ص٩٩۔

۲۔غررالحکم،ج٢ص١٢٨٧ص٦٩٨۔

۳۔غررالحکم ،ج٢،ص٦٨١،ح١١٠٩۔

۴۔نہج الفصاحہ،ح٣١٦١،ص٦٣٦۔