دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39261
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39261 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

تہذیب اخلاق

انسان،اپنے خداداد ضمیر سے پسندیدہ اخلاق کی قدرو قیمت کو سمجھتا ہے اور اسکی انفرادی واجتماعی اہمیت کو جان لیتاہے ۔لہذا انسانی معاشرے میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جوپسندیدہ اخلاق کی تعر یف اور پسندیدہ اخلاق رکھنے والے شخص کااحترام نہ کرے ۔

جواہمیت انسان پسندیدہ اخلاق کو دیتاہے وہ محتاج تعارف وبیان نہیںہے اوراسلام میں اخلاق کے بارے میں جووسیع احکام بیان ہوئے ہیں وہ سب واضح ہیں ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( ونفس وماسوّٰ ها٭فَلهَمَهافجورَهاوتقوٰها٭قد افلح من زکّٰها٭وقد خاب من دسّٰهٰا ) ( شمس٧۔١٠)

''اورنفس کی قسم اور ا س خداکی قسم جسں نے اسے درست کیاہے ٠پھر بدی اور تقویٰ کی ہدایت دی ہے ٠بیشک وہ کامیاب ہوگیاجس نے نفس کوپاکیزہ بنالیا٠اوروہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیاہے ''

حصول علم

پسندیدہ معنوی صفات میں سے ایک علم ہے اورعالم کی جاہل پر فضیلت وبرتری اظہر من الشمس ہے ۔

جو چیز انسان کودوسرے حیوانات سے جدا کرتی ہے ،بیشک وہ عقل کی طاقت اور علم کا زیور ہے۔دوسرے حیوانات میں سے ہر ایک اپنی خاص بنا وٹ کے مطابق ناقابل تغیر فطرت رکھتاہے اور یکساں صورت میں اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اس کی زندگی میں ہرگزکسی قسم کی ترقی اور بلندی کی کوئی امید نہیں پائی جاتی .وہ اپنے اور دوسروں کے لئے کوئی نیا باب نہیں کھول سکتے ہیں یہ صرف انسان ہے جوعقل کی طاقت سے،ہرروز اپنے گزشتہ معلومات میں جدید معلومات کااضافہ کرتاہے اور طبیعت اورمادرای طبیعت کے قوانین کوکشف کرکے ہرزمانہ میں اپنی مادی اور معنوی زندگی کو تازگی اوررونق بخشتا ہے،اپنے ماضی کے ادوار پرنظرڈال کراپنے اوردوسروں کے مستقبل کی بنیاد ڈالتا ہے ۔

اسلام نے علم حاصل کرنے کے سلسلہ میں اس قدرتاکید کی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''علم حاصل کرناہرمسلمان پر واجب ہے ''(۱)

''علم حاصل کرو،اگرچہ چین میں بھی ہو''(۲)

''گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کر نیکی کو شش کرو''(۳)

اسلام،خلقت کے اسرار کوجاننے اورآسمانوں،زمین ،انسان کی فطرت،تاریخ وملل اور اپنے اسلاف کے آثار(فلسفہ ،علوم ریاضی وطبیعی وغیرہ)کے بارے میں غور وخوض کرنے کی بہت تاکید کرتا ہے اور اسی طرح اخلاقی اورشرعی مسائل (اسلامی اخلاق و قوانین )اور صنائع کے اقسام ۔جو انسان کی زندگی کو منظّم کرتے ہیں۔کو سیکھنے کی اسلام بہت ترغیب دیتااور تاکید کرتا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں علم کی اہمیت اس قدر ہے کہ جنگ بدر میں جب کفار کی ایک جماعت مسلمانوں کے ہاتھوں اسیرہوگئی، توآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسیروں میں سے ہر فرد زیادہ ر قومات ادا کرکے آزاد ہوسکتاہے ،لیکن اسیروں میں جو افراد تعلیم یافتہ تھے وہ یہ رقومات ادا کرنے سے اس شرط پر متثنیٰ قرار دیئے گئے کہ ان میں سے ہر ایک دس جوان مسلمانوں کو لکھناپڑھنا سکھائے ۔

اسلام کی نظرمیں طالب علم کی اہمیت

ہر مقصد تک پہنچنے کے لئے سعی وکوشش کی اہمیت خوداس مقصدکی اہمیت کے برابر ہوتی ہے اور چونکہ ہرانسان اپنی خداداد فطرت سے عالم بشریت میں علم ودانش کو ہر چیز سے بالا تر جانتا ہے ،لہذا طالب علم کی قدرو قیمت بالا ترین قدرو قیمت ہوگی اس چیز کے پیش نظر کہ اسلام ایسادین ہے کہ جو فطرت کی بنیادوں پر مستحکم واستوار ہے لہذا ا بلاشبہہ طالب علم کی سب سے زیادہ قدروقیمت کا قائل ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''جو علم حاصل کرنے کی راہ میں ہو ،وہ خداکا محبوب ہے ''(۵)

ا س کے باوجود کہ جہاد،دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے اور اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا امام حکم جہاد دیدیں توعام مسلمانوں کا جنگ میں شریک ہونا ضروری ہوجاتا ہے ،لیکن جو لوگ دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اس حکم سے مستثیٰ اور معاف ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو ہمیشہ علمی مراکزمیں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول رہنا چاہئے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( وما کان المؤمنون لینفروا کآفّةً فلولا نفر من کلّ فرقة منهم طائفة لیتفقَّهوا فی الدّین ولینذروا قو مهم اذا رجعواالیهم لعلّهم یحذرون ) (توبہ١٢٢)

''صاحبان ایمان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سب کے سب جہاد کے لئے نکل پڑیں تو ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نہیں نکلتی ہے کہ دین کا علم حاصل کرے اورپھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئے تواسے عذاب الہی سے ڈرائے کہ شاید وہ اسطرح ڈرنے لگیں ۔''

معلم اورمربی کی اہمیت

علم اور طالب علم کے بارے میں مذکورہ بیان سے اسلام میں معلم کی بھی اہمیت واضح ہوجا تی ہے ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''من تعلّمت منه حر فا صرت له عبدا'' (۶)

''جومجھے ایک کلمہ تعلیم دیدے میں خود کواس کا بندہ قراردوں گا''

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''لوگوں کے تین گروہ ہیں :پہلا:عالم ربانی دوسرا:جواپنی اوردوسروں کی نجات کے لئے علم حاصل کرتا ہے ۔تیسرا:وہ لوگ جو عقل ودانش سے عاری ہوتے ہیں ان لوگوں کی مثال اس مکھی کی سی ہے جو جانوروں کے سروصورت پربیٹھتی ہے اورہواکے چلنے پر ادھر ادھر اڑتی ہے یاجہاں سے بھی بدبو آتی ہے اسکی طرف دوڑتی ہے'' ۔

معلم اور شاگرد کا فریضہ

قرآن مجید،علم ودانش کو انسان کی حقیقی زندگی جانتا ہے ،کیونکہ اگر علم نہ ہوتاتوانسان اورجمادات اورمردوں میں کوئی فرق نہ ہوتا۔

اس بناپر،طالب علم کو چاہئے کہ اپنے معلم کو زندگی کا مرکز تصور کرے تاکہ تدریجاًاپنی حقیقی زندگی کواس سے حاصل کرسکے ،اس لحاظ سے اسے یہ تصورکرناچاہئے کہ اس کے تو سط سے اسے زندگی ملی ہے اس لئے اس کی عزت وتعظیم میں کوتاہی نہ کرے اوراگر تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں اس کی طرف سے اگر سختی بھی دکھائی دے تو اس کی زندگی اورموت کے بعد اس کے احترام میں کوتاہی نہ کرے ۔

اسی طرح معلّم کوبھی اپنے آپ کواپنے شاگرد کی زندگی کا ذمہ دار سمجھنا چاہئے اورجب تک اسے ایک زندہ انسان اور فخرومباہات کے درجہ تک نہ پہنچا دے اس وقت تھکن محسوس نہ کرے اورآرام سے نہ بیٹھے۔

اگرکبھی اس کاشاگرد تعلیم وتربیت حاصل کرنے میں کوتاہی کرے تواستاد کاحوصلہ پست نہیں ہونا چاہئے ،اگر وہ تعلیم وتربیت میں ترقی کا مظاہرہ کرے تواس کی ہمت افزائی کرنی چاہئے،اگرلاپروائی کرے تواس کی حوصلہ افزائی کر کے اس میں شوق پیدا کرنا چاہئے اور شاگرد کے جذ بات کوہرگز اپنے طرزعمل سے مجروح نہ کرے ۔

ماں باپ کے بارے میں انسان کا فریضہ

ماں با پ اپنے فرزندکی پیدائش کا ذریعہ اوراس کے ابتدائی مربی ہیں اس سبب سے دین مقدس اسلام میں سب سے اہم نصیحت وتاکید ماں باپ کی اطاعت اوراحترام کے بارے میں کی گئی ہے ،یہاں تک کہ خدائے متعال توحید کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وقضی ربُّک اَلّا تعبدواالّا ایّاه وبالوالدین احسٰناً ) ...)

(اسرائ٢٣)

''اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنااورماں باپ کے ساتھ اچھا برتائو کرنا ...''

جن روایتوں میں گناہان کبیرہ کو گنوایا گیا ہے ان میں شرک کے بعدوالدین کے ساتھ برے برتائوکو گناہ کبیرہ شمار کیاگیا ہے .خدائے متعال مذکورہ آیہ شریفہ کے ضمن میں بھی فرماتا ہے :

(...( اِمّا یبَلغنَّ عندک الکبر احدهما اوکلاهمافلا تُقل لَّهمااُفٍّ ولا تنهرهما و قل لهما قولاً کریماً٭واخفِض لهما جناح الذُّلّ من الَّرحمة ) ...) (اسرائ٢٤٢٣)

''...اور اگرتمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوںبوڑھے ہوجائیں توخبرداران سے اف بھی نہ کہنا اور جھڑکنا بھی نہیں اوران سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا ، اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کندھوں کو جھکادینا۔''

چہ خوش گفت زالی بہ فرزندخویش

چو دیدش پلنگ افکن وپیل تن

گر از عہد خردیت یاد آمدی

کہ بیچارہ بودی درآغو ش من

نہ کردی در این روز بر من جفا

کہ تو شیر مردی و من پیر زن

''کیاخوب کہا ہے ایک بوڑھیا نے اپنے بیٹے سے جب اس کو ایک طاقتورشیر اورہاتھی کے ماننددیکھااگرتجھے وہ اپنابچپن یاد آتاجب کہ تم میری آغوش میں ایک بیچارہ طفل تھے؟توآج تم مجھ پریہ ظلم نہ کرتے کہ تم ایک شیرمرد بن چکے ہو اورمیں ایک بوڑھی عورت ہوں۔''

دین مقدس اسلام میں ،ماں باپ کی اطاعت ،واجب کے ترک ہونے یاحرام میں مرتکب ہونے کے علاوہ، واجب ہے،اورتجربہ سے ثابت ہواہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماں باپ کو رنج وتکلیف پہنچائی ہے،وہ اپنی زندگی میں خوشبخت اورکامیاب وکامران نہیں ہوئے ہیں ۔

بزر گوں کا احترام

بوڑھوں کا احترام بھی لازم ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

''بوڑھوں کااحترام اور تعظیم کرنا خدا کی تعظیم اورا حترام کرناہے ''(۷)

اپنے رشتہ داروںکے بارے میں انسان کافریضہ

انسان کے ماں باپ کے ذریعہ جورشتہ دارنسبی رابطہ رکھتے ہیں ،وہ طبیعی خاندان کوتشکیل دینے کا سبب بنتے ہیں اورخونی رشتہ اورانسانی خلیوں کے اشتراک کی وجہ سے انسان کو خاندان کاجزوقرار دیتے ہیں ۔اس طبیعی اتحاد اورارتباط کی وجہ سے اسلام نے اپنے پیروئوں کوصلہء رحم کاحکم دیا ہے اورقرآن مجید اور ائمہ دین کی روایتوں میں اس سلسلہ میں بہت ہی تاکید کی گئی ہے ۔خدائے متعال فرماتا ہے:

(...( وَاَّتقوااللّٰه الّذی تسا ئلَون به وَالارحام ان اللّه کان علیکم رقیباً ) (نسائ١)

''اور اس خداسے بھی ڈروجس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواورقرا بت داروںکی بے تعلقی سے بھی ۔اللہ سب کے اعمال کا نگراں ہے ۔''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''میں اپنی امت کو صلہء رحم کی نصیحت کرتا ہوں اوراگررشتہ داروں کے درمیان ایک سال کی دوری کافاصلہ ہو تو بھی اپنے رشتہ کے پیوندکونہ توڑیں ۔''(۸)

ہمسایوں کے بارے میں انسان کافریضہ

چونکہ ہمسایہ زندگی بسر کر نے کی جگہ پر ایک دوسرے سے نزدیک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے زیادہ رابطہ رکھتے ہیں اورگویا ایک بڑے خاندان کے حکم میں ہوتے ہیں لہذا ان میں سے کسی ایک کا اچھا اور برا طرزعمل ہمسایوں پر دوسروں کی نسبت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔

جورات کو اپنے گھر میں صبح ہونے تک شور و غل مچا تاہے ،وہ شہر کے آخر میں رہنے والوں کوتکلیف نہیں پہنچاتا ہے ،لیکن اپنے ہمسایہ کے آرام وآسائش میں خلل ڈالتا ہے ۔

جو مالدار اپنے خوب صورت محل میں عیش وعشرت میں زندگی گزار رہا ہے،دور رہنے والے مفلسوں کی نگاہوں سے دور ہے ،لیکن ہر لمحہ اپنے ایک تنگ دست اور غریب ہمسایہ کی جھونپڑی میں اُگے ہوئے ایک پھول کے پودے کو آگ لگا تا ہے ،تو یقینا ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جائے گا ۔اس لحاظ سے دین مقدس اسلام میں ہمسایہ کے حالات کی رعایت کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''جبرئیل امین نے ہمسایہ کے بارے میں اس قدرمجھے نصیحت کی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ خدائے متعال ہمسایہ کو وارثوں میں قرار دے گا ''(۹)

نیزفرمایا:

''جوشخص اپنے ہمسایہ کو تکلیف پہنچائے گا ،اس تک بہشت کی خوشبونہیں پہنچے گی ۔جو اپنے ہمسایوں کے حق کی رعایت نہیں کرے گا ،وہ ہم میں سے نہیں ہے،اور جو سیر ہوگااور وہ جانتا ہو اس کا ہمسایہ بھوکا ہے اور اسے کچھ نہ دے تو وہ مسلمان نہیںہے ۔''(۱۰)

ماتحتوں اور بیچاروں کے بارے میں انسان کا فریضہ

بیشک معاشرے کی تشکیل لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہوتی ہے اور ایک معاشرے کے افراد کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ محتاجوں اور بے چاروں کی دستگیری کریں اور جو لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کو پوراکرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ،کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کر کے ان کی مشکلات کو حل کرے ۔

آج تو یہ مسئلہ واضح ہوچکا ہے کہ مالداروں کے مفلس و نادار ا فراد کی طرف توجہ نہ کرنے کی وجہ سے ایسا بڑا خطرہ لاحق ہے کہ ،جو معاشرے کو نابود کر سکتا ہے اورسب سے پہلے مالدار ہی اس خطرے کے شکار ہوں گے۔

اسلام نے اس خطرہ کے پیش نظرچودہ سوسال پہلے ہی حکم دیا ہے ،کہ مالداروں کو اپنی آمدنی کے ایک حصہ کو ہر سال کمزوروں اور حاجتمندوں میں تقسیم کرنا چاہئے اور اگراس سے ان کی ضرورت پوری نہ ہو سکے تو مستحب ہے کہ غریبوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے جتنا ممکن ہوسکے راہ خدا میں انفاق کریں ۔

خدائے متعال فرماتا ہے :

( لن تنالواالبرّ حتّٰی تنفقوا مِمّاتُحِبّون ) ...) (آل عمران ٩٢)

''تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو''

لوگوں کی خدمت و مدد کے بارے میں نقل کی گئی حدیثیں بے شمار ہیں۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''خیرالنّاس انفعهم للنّاس'' (۱۱)

''لوگوں میں سب سے بہتروہ ہے جوسب سے زیادہ لوگوں کے لئے فائدہ مند ہو۔''

نیز فرماتے ہیں :

''قیامت کے دن خداکے نزدیک اس شخص کا مقام سب سے بلند ہو گا جوخدا کے بندوں کی حاجت روائی کی راہ میں سب سے زیادہ اقدام کرے۔''(۱۲)

در بلا یار باش یاران را

تا کند فضل ایزدت یاری

بہ ہمہ حال بدروی روزی

تخم نیکی کہ این زمان کاری

معاشرے کے بارے میں انسان کا فریضہ

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد سے کام کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے کام وکوشش سے استفادہ کرتے ہیں اوراپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔ان افراد سے تشکیل پانے والا معاشرہ ایک بڑے انسان کے مانند ہے اور تمام افراد اس بڑے انسان کے اعضاء کے مانند ہیں ۔

انسان کے بدن کاہرعضو، اپنے مخصوص کام کو انجام دیتا ہے اور اپنے کام کے نفع کے علاوہ دوسرے اعضاء کے منافع سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے ،یعنی اپنی سر گرمی کی حالت میں اپنے نفع کو دوسرے اعضاء کے منا فع کے ضمن میں حاصل کرتا ہے اوردوسروں کی زندگی کے سائے میں اپنی زندگی کو جاری رکھتا ہے ۔اگر سارے اعضاء خود غرض ہوتے اور دوسروں کے کام نہ آتے،مثلا جہاںپر ہاتھ پائوںاپنے کام میں مشغول ہیں ،آنکھ اپنی نگاہ سے ان کاتعاون نہ کرتی یامنہ غذاکو چبانے اوراس سے لذت حاصل کرنے پر اکتفا کرتا اور معدہ کی ضرورت کوپورا نہ کرتا یعنی کھانے کو نہ نگلتا توانسان بلا فاصلہ مر جاتا اورنتیجہ کے طور پر خود غرض وانحصار طلب اعضاء بھی مر جاتے۔

معاشرہ کے بارے میں معاشرے کے افراد کا فریضہ بھی ایک انسان کے بدن کے اعضاء کے مانند ہے ۔یعنی انسان کواپنا منافع معاشرے کے منافع کے ضمن میں حاصل کرنا چاہئے اور اپنے کام وکوشش سے معاشرے کو فائدہ پہنچانے کا خیال ہونا چاہئے تاکہ اپنی محنتوں سے بہرہ مند ہو سکے اور سبھی کو فائدہ پہنچائے تاکہ خود بھی بہرہ مند ہوسکے ۔تمام لوگوںکے حقوق سے دفاع کرے تاکہ خود اسکے حقوق نابودنہ ہوں ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم اپنی خدادادفطرت سے سمجھتے ہیں اوردین مقدس اسلام بھی ۔جوفطرت وخلقت پر استوارہے۔اس کے علاوہ کوئی اور حکم نہیں رکھتا۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

''مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اوراجنبیوں کے مقابلہ میں ایک دست،ایک دل اوریک جہت ہیں ''(۱۳)

مزیدفرماتے ہیں :

''المسلم من سلم المسلمون من یده ولسانه'' (۱۴)

''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان امان میں رہیں ''

مزیدفرماتے ہیں:

''من اصبح ولم یهتم بامورالمسلمین فلیس بمسلم'' (۱۵)

'' جو مسلمانوں کے مسائل کواہمیت نہ دے وہ مسلمان نہیں ہے۔''

اسی وجہ سے،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک میں لشکر اسلام کو لے کرروم کی سرحد کی طرف روانہ ہوئے تواس وقت تین افراد نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی تھی۔اسلامی لشکر کے جنگ سے واپس آنے پرجب یہ تینوں آدمی ان کے استقبال کےلئے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا،توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے رخ کو موڑ لیااور ان کے سلام کا جواب نہیں دیا اوراسی طرح مسلمانوں نے بھی ان سے اپنا منھ موڑلیا،نتیجہ میں مدینہ منورہ میں کسی نے حتی ان کی عورتوںنے بھی ان سے بات نہیں کی انہوں نے بے بس ہوکرمدینہ کے پہاڑوں میں پناہ لی اور توبہ واستغفار کیا۔چند دنوں کے بعد خدائے متعال نے ان کی توبہ قبول کی پھروہ شہرکے اندرآگئے ۔

____________________

١۔اصول کافی ،ج١،ص٣٠۔

٢۔نہج الفصاحہ،ح٣٢٤،ص٦٣۔

۴۔نہج الفصاحہ،ح٣٢٧،ص٦٤۔

۵۔بحارالانوار،(ج١ ص١٧٨،ح٦٠)

۶۔عوالی اللئانی ،ج١،ص٢٩٢،ح١٩٣۔

۷۔بحارالانوار،ج٧٥،ص١٣٦ح٢۔

۸۔اصول کافی .ج٢،ص١٥١۔

۹۔مستدرک الوسائل ،ج٨،ص٤٢٧۔

۱۰۔سفینتہ البحار،ج١،ص١٩٠۔

۱۱۔نہج الفصاحہ،ح١٥٠٠،ص٣١٥۔

۱۲۔کنزالعمال ،ج٦ ،ص٥٩٥۔

۱۳۔ نہج الفصاحہ ، ص ٦٢٥، ح ٣٠٨١ و ٣٠٨٢۔

۱۴۔بحارالانوارج٧٧ص٥٣۔

۱۵۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٦٣۔

عدالت

قرآن مجیداورائمہ دین کی روایتوں کے مطابق عدالت کی دوقسمیں ہیں:انفرادی عدالت اوراجتماعی عدالت ۔عدالت کی یہ دونوں قسمیں دین مبین اسلام کی نظر میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

انفرادی عدالت

انفرادی عدالت سے مرادوہ عدالت ہے کہ انسان جھوٹ ،غیبت اوردوسرے گناہان کبیرہ سے پرہیز کر ے اور دوسرے گناہوں کوباربار انجام نہ دے .جس میں یہ صفت ہو ،اسے عادل کہتے ہیں اوراسلام کے قوانین کے مطابق ایساشخص جج ،حاکم ،تقلید ،اوردیگر اجتماعی ذمہ داریوں کوسنبھال سکتا ہے ۔لیکن جس میں یہ دینی صفات موجودنہ ہوں وہ ان اختیارات سے بہرہ مندنہیں ہوسکتاہے۔

اجتماعی عدالت

''اجتماعی عدالت''سے مرادوہ عدالت ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کے بارے میں افراط وتفریط نہ کرے اورسب کو قانون الہٰی کے مقابلہ میں مساوی قراردے اور اجتماعی عدالت کو نافذ کرنے میں دینی مقررات کے حق سے تجاوزنہ کرے،جذبات میں نہ آئے اورسیدھے راستہ سے منحرف نہ ہو ۔خدائے متعال فرماتاہے:

( انّ اللّه یامربالعدل ) ...) (نحل٩٠)

''بیشک اللہ عدل کاحکم یتا ہے ...''

بیشمارآیتوں اور روایتوں میں گفتاروکردارمیں عدالت کے بارے میں حکم ہواہے اورخدائے متعال نے اپنے کلام پاک میں چندمواقع پر ظالموں پر صراحتاً لعنت بھیجی ہے ۔

علم اخلاق میں ''عدالت'' سے مرادملکات وصفات نفسانی میں میانہ روی ہے اور یہ صفت اس میں پائی جاتی ہے جوانفرادی واجتماعی عدالت کی رعایت کرتا ہو۔

سچائی

لوگوں کے درمیان آپس میں رابطہ،جوانسان کی اجتماعی بنیاد ہے، ''گفتگو''سے برقرارہوتی ہے ۔اس بنا پرسچ بات جو انسان کیلئے پو شیدہ حقیقت کو ظاہر کرتی ہے ،اجتماع کے ضروری ارکان میں سے ایک ہے ،اوراہم فائدے۔جن سے اجتماع ہرگز بے نیاز نہیںہے ۔سچ بات سے حاصل ہوتے ہیں ۔سچائی کے فوائد کومند رجہ ذیل چندجملوں میں بیان کیاجاسکتا ہے :

١۔سچ بولنے والا،اپنے ہم جنسوں کے لئے قابل اعتمادہوتا ہے اور ان کواس کی ہربات کے بارے میں تحقیق کی ضرورت نہں ہوتی۔

٢۔سچ بولنے والا،اپنے ضمیر کے مقا بلہ میں سربلنداورجھوٹ کے رنج سے آسودہ ہوتا ہے ۔

٣۔سچ بولنے والا،اپنے عہدوپیمان کی وفاکرتا ہے اورجوامانت اسکے حوالہ کی جاتی ہے، اس میں خیانت نہیں کرتا ہے ،کیونکہ رفتار میں سچائی،گفتارکی سچائی سے جدانہیں ہے ۔

٤۔سچ بولنے سے،اکثر اختلافات اورلڑائی جھگڑے ختم ہوجا تے ہیں،کیونکہ اکثر اختلافات اورجھگڑے اس لئے وجودمیں آتے ہیں کہ ایک طرف یا دونوں طرف کے لوگ حق و حقیقت سے منکرہوتے ہیں ۔

٥۔سچ بولنے سے ،اخلاقی عیوب اور قانون کی خلاف ورزی کا ایک بڑاحصہ خودبخودختم ہوجا تا ہے ،کیونکہ اکثر لوگ اسی قسم کے کردارکو چھپانے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

حقیقی مسلمان وہ ہے جو سچ بولنے کو۔ خواہ اس کے نقصان میں ہو ۔جھوٹ بولنے پر ترجیح دیتا ہے چاہے وہ اس کے لئے مفید ہی کیوں نہ ہواوراس طر ح وہ اندرونی سکون حاصل کرتا ہے۔(۱)

جھو ٹ

''جھوٹ''اسلام میں گناہ کبیرہ ہے،جس کے لئے خدائے متعال کے کلام میں یقینی عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔

جھوٹ، صرف شرع میں ہی گناہ اور بر ا عمل نہیں ہے بلکہ عقل کی رو سے بھی اس کی برائی واضح ہے ۔یہ ناپسندیدہ عمل ،معاشرے میں پھیلنے سے،تھوڑی ہی مدت میں لوگوں کے اجتماعی رابطہ یعنی اعتماد کو ختم کر دیتا ہے ،اوراس قسم کے رابطہ کے ختم ہونے سے ،لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہوتا لہذا ،انفرادی طورپرزندگی گزارتے ہیں ،اگر چہ بظاہر اجتماعی صورت دکھائی دیتی ہے ۔

جھوٹ کے نقصانات

سچ بولنے کے بارے میں مذکورہ بیان سے جھوٹ بولنے کے نقصانات بھی واضح ہو جاتے ہیں۔جھوٹ بولنے والا انسانی معاشرے کا نابکاردشمن ہوتا ہے اوراپنے جھوٹ سے،جو ایک بڑا جرم ہے ،معاشرے کوخراب کرڈالتا ہے ،کیونکہ جھوٹ،نشہ آورچیز کے مانند ہے جومعاشرے کی عقل وشعورکی طاقت کونابود کرکے حقائق پر پردہ پوشی کرتا ہے یاشراب کے مانندہے جولوگوں کو مست کرکے عقل کی طاقت کو برے اوربھلے میں تمیز کرنے سے بیکار بنادیتا ہے ۔اسی لئے اسلام نے جھوٹ کوگناہان کبیرہ میں شمار کیا ہے اور جھوٹ بولنے والے کے لئے کسی قسم کی دینی شخصیت کاقائل نہیں ہے۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''تین طائفے منافق ہیں ،اگرچہ وہ نمازبھی پڑھیں اورروزہ بھی رکھیں :

جھوٹ بولنے والا،اپنے وعدہ پر وفانہ کر نے والااورامانت میں خیانت کرنے والا ہے''۔(۲)

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''انسان جب ایمان کی لذت کوچکھ لیتا ہے ، تو جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اگر چہ مذاق میں بھی ہو۔''(۳)

غیبت وتہمت

دوسروں کی''بدگوئی''کرنا اوران کی سرزنش کرنا،اگرسچ ہوتو''غیبت''ہے اور اگرجھوٹ ہوتو''تہمت''ہے کبھی اسے''بہتان'' بھی کہا جاتا ہے ۔

البتہ پروردگار عالم نے انسان کو(پیغمبروںاورائمہ اطہار کے علاوہ)معصوم خلق نہیں کیاہے اورہرشخص خود میں موجود نقائص کی وجہ سے خطاو لغزش سے محفوظ نہیں ہے اور عام لوگ اس پردہ کے پیچھے زندگی کرتے ہیں جسے اللہ نے اپنی حکمت سے ان کے اعمال پر کھینچا ہے ۔چنانچہ اگر ایک لمحہ کے لئے اس الہیٰ پردے کوان کے نقائص اور عیوب سے ہٹا د یا جائے تو سب ایک دوسرے سے متنفرہو کربھاگ جائیں گے ،اور ان کے معاشرے کی عمارت زمین بوس ہوکرویران ہو جائیگی ۔اس لئے خدائے متعال نے غیبت کوحرام قراردیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے پیچھے امان میں رہیں ۔اور ان کی زندگی کاظاہری ماحول آراستہ ہوجائے تاکہ یہی ظاہری زیبائی تدریجا ًباطنی برائی کی اصلاح کرے۔

خدائے متعال فرماتا ہے :

(...( ولایغتب بعضکم بعضًااٰیحبّ احدُکم ان یا کلَ لحم اخیه میتاً ) ...) (حجرات١٢)

''...ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیاتم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گاکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟..''

''تہمت''کا گناہ اور اس کی برائی غیبت سے زیادہ شدید ہے اوراس کی برائی عقل کی رو سے واضح ہے ۔خدائے متعال نے اپنے کلام پاک میں اس کی برائی اورناجائز ہونے کو مسلم جاناہے اوربلا چون وچراذکر فرماتاہے:

( انّمایفتری الکذب الَّذین لایؤمنون ) ...) (نحل١٠٥)

''بیشک جوایمان نہیںرکھتے ہیں وہ افتراکہتے ہیں ...''

لوگوں کی عزت پر تجاوز

اسلام میں عصمت دری ،گناہان کبیرہ میں سے ہے اورمواقع کے فرق کے مطابق اس جرم کے لئے سخت سزائیں ،جیسے کوڑے،سنگسار اورقتل وضع ہوئی ہیں۔

اس برے عمل کی راہ کا کھلاہونا ،اگرچہ طرفین کی رضامندی سے ہی ہو نسلوں کو۔جسے اسلام نے زیادہ اہمیت دی ہے ،متزلزل کرکے رکھدیتا ہے اور وراثت وغیرہ کے احکام کومعطل کردیتاہے اورآخر کارماں باپ اور فرزند کے پیار کو بے اثر کرکے رکھدیتا ہے اورمعاشرے کے حقیقی ضامن زادو ولدکی فطری دلچسپی کونابود کردیتاہے۔

رشوت

کسی ایسے حکم یا کام کے انجام دینے کے لئے پیسے یا کوئی تحفہ لینا ،جبکہ وہ کام پیسے یاتحفہ لینے والے کافریضہ ہو ، تو اس کو ''رشوت ''کہتے ہیں ۔

اسلام میں '' رشوت ''گناہ کبیرہ ہے اوراس کامرتکب ہونے والا،اجتماعی اوردینی فوائد(عدالت)سے محروم اورعذاب الہیٰ کامستحق ہوتاہے ۔کتاب وسنت اسکے گواہ ہیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے اوران کے درمیان واسطہ بننے والے، پر لعنت کی ہے ۔(۴)

چھٹے امام حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' کسی کی حاجت پورا کرکے رشوت لینا خداسے کفرکے برابر ہے ''(۵)

البتہ یہ سب سرزنش اورمذمت اس رشوت کے بارے میں ہے جو حق بجانب حکم اور عادلانہ عمل کے بارے میں لی جائے اور جو رشوت غیر حق بجانب حکم اورظالمانہ عمل کے لئے لی جائے ،اس کاگناہ بہت بڑا اوراس کی سزاشدیدتر ہے۔

حسن معاشرت

انسان جو سماج میں زندگی بسر کرتا ہے ، اس کے لئے لوگوںکے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔بیشک یہ مل جل کر رہنا اس لئے ہے تاکہ انسان اپنی انسان اپنی اجتماعی زندگی کاتحفظ کرسکے اور روزبروزاپنی مادی ومعنوی ترقی میں اضافہ کرے اورزندگی کی مشکلات کوبہتروآسان ترصورت میں حل کرے۔

لہذا،لوگوںسے ایسا برتائو کرناچاہئے جومحبوبیت کاسبب بنے اور دن بدن انسان کے اجتماعی وزن کو بڑھاوادے اوراس کے دوستوں میں اضافہ ہو ،کیونکہ اگرلوگ کسی سے مل کر سنگینی یاتلخی کا احساس کریں گے توان کے دلوں میں نفرت اورتنگی پیدا ہوجائے گی اورآخر کارایک ایسادن آئے گا جب سب لوگ اس سے دوری اختیار کریں گے اورایسا شخص معاشرے میں منفورومبغوض ہو جائے گا اور اس کو سماج میں ہونے کے باوجود تنہائی کی حالت میں اوراپنے وطن میں ہوتے ہوئے بھی غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑے گی اوریہ حالت انسان کی بدبختی کا تلخ وتاریک ترین نمونہ ہے ۔

اس لئے دین مقدس اسلام نے اپنے پیروئوں کے لئے حسن معاشرت کی نصیحت وتاکید کی ہے اور اس کے بارے میں بہترین آداب ورسوم بیان فرمائے ہیں۔منجملہ حکم دیاہے کہ مسلمانوں کوملاقات کے وقت ایک دوسرے کوسلام کرناچاہئے اور فضیلت اس کے لئے ہے جو سلام کرنے میں سبقت حاصل کرے۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،سلام کرنے میں پہل کرتے تھے حتی عورتوںاور بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔اگرکوئی شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوسلام کرتاتوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسکا بہترین جواب دیتے تھے۔خدائے متعال فرماتا ہے:

( واذاحیّیِتم بتحیة فحّیواباحسن منهااوردُّوها ) ...)

(نسائ٨٦)

''جب تم لوگوں کوسلام کیاجائے،تو تم اس سے بہتر یاویساہی جواب دو''

مزید حکم دیاہے کہ انسان لوگوں سے ملتے وقت تواضع اورانکساری سے پیش آئے اور ہرایک کا اسکی اجتماعی حیثیت کے مطا بق احترام کرے۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( وعباد الرَّحمن الّذین یمشون علی الارض هوناً ) ...)

(فرقان٦٣)

''اور اللہ کے بندے وہی ہیں جوزمین پرآہستہ فروتنی اورانکساری سے چلتے ہیں ۔''

قابل ذکرنکتہ یہ ہے کہ تواضع اورانکساری کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان خود کو لوگوں کے سامنے ذلیل وخوار کرے اوراپنی انسانیت کو نقصان پہنچائے ،بلکہ مقصدیہ ہے کہ اپنی قدرومنز لت اورفخرومباہات کو لوگوں کے سامنے ظاہرنہ کرے اوردوسرے عظیم فخرومباہات کو خود سے مخصوص نہ کرے اورلوگوں کو حقیروناچیز نہ سمجھے ۔اسی طرح لوگوں کے احترام کا معنی یہ ہیں کہ لوگوں کا اس حدتک احترام کرے کہ چاپلوسی نہ ہو بلکہ ہرایک کا اس کی دینی واجتماعی قدرومنزلت کی حد میں احترام کرے،بزرگوں کاان کی بزرگی کے مطابق احترام کرے اوردوسروں کا بھی ان کی انسانیت کے مطابق احترام کرے ۔

نیز احترام واکرام کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگرکسی سے کوئی ناشائستہ کام سرزدہوتے دیکھے توآنکھیں بند کرکے گزرجائے یاایک ایسی محفل میں جہاں پراہل محفل انسانی شرافت کے خلاف کام انجام دیتے ہوں یاکوئی خلاف شرع عمل انجام دیتے ہوں تو رسوائی سے ڈرکران کے ساتھ ہم رنگ و جماعت ہوجائے ۔لوگوں کا احترام حقیقت میں انسانی شرافت اوران کی دینی قدروں کا احترام ہے نہ کہ ان کے جسم اوراعضاء کا احترام ۔اگر کوئی شخص اپنی انسانی شرافت اوردینی ترجیحات کونابودکردے تو کوئی دلیل نہیں بنتی کہ اس کااحترام کیا جائے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

دوسروں کی اطاعت کے ذریعہ خدا کی معصیت انجام نہیں دیناچاہئے ۔(۶)

____________________

١۔نہج البلاغہ صالح ، کلمات قصار نمبر ٤٥٨ دٹھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ۔

۲۔میزان الحکمہ،ج١٠،ص١٥٤۔

۳۔اصول کافی ،ج٢،ص٣٤٠ ،ح١١۔

۴۔سفینةالبحائج١،ص٥٢٣۔

۵۔سفینةالبحائج١،ص٥٢٣۔

۶۔وسائل الشیعہ ،ج١١،ص٤٢٢۔