دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39267
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39267 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

وطن کادفاع

مذ کورہ بیانات کے پیش نظراسلامی معاشرہ اورمسلمانوں کے گھربار کادفاع اہم ترین واجبات میں سے ہے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللّه اموات بل احیا ء ولکن لاتشعرون ) (بقرہ١٥٤)

''اورجولوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں ان کی زندگی کاشعور نہیں ہے ''

اسلام کی ابتداء میں جان ہتھیلی پر لے کر خونین جنگوں میں شرکت کر نے والے مجاہدوں اوراپنے پاک خون میں غلطاں ہونے والے شہیدوں کے بارے میں انتہائی حیرت انگیزاورعبرتناک داستانیں موجود ہیں ،یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے پاک خون اورٹکرے ٹکڑے ہوئے بدن سے اس دین مقدس اسلام کومستحکم بنایا ہے ۔

حق کا دفاع

ایک دوسرادفاع جوآب وخاک کے دفاع سے عمیق تراوروسیع ترہوتا ہے ،وہ حق کادفاع ہے ۔یہ دین اسلام کا تنہامقصدہے۔اس خدائی روش کابنیادی مقصد حق وحقیقت کوزندہ کرنا ہے ،اسی لئے اس دین پاک کو''دین حق''کہاگیا ہے ۔یعنی وہ دین جوحق کی طرف سے ہے، حق کے سواکچھ نہیں ہے اور حق کے علاوہ کسی چیز کو اپنامقصد قرارنہیں دیتاہے ۔

خدائے متعال اپنی کتاب کی توصیف میں ،جوتمام حقائق کی جامع کتاب ہے فرماتاہے:

(...( یهدی الی الحق والی طریق مستقیم ) (احقاف٣٠)

''...قرآن مجید راہنمائی کرتاہے حق کی طرف اورسیدھے راستہ کی طرف جس میں کسی قسم کاتناقض اورتضادنہیں پایاجاسکتاہے''

اسلئے ہرمسلما ن پر لازم ہے کہ وہ حق کی پیروی کرے اورحق بات کہے حق سنے اوراپنی تمام توانائیوں اور ہرممکن راہ سے حق کادفاع کرے۔

غیظ وغضب

غیظ و غضب ایک ایسی حالت ہے کہ اگر انسان میں پیدا ہوجائے تو اسے انتقام کی فکر میں ڈالتی ہے اور اس کے باطنی آرام کو انتقام لینے کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔ اگر انسان اس حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کے سلسلہ میں تھوڑی سی سستی اور کوتا ہی کرے تو بلافاصلہ اس کی عقل سلیم غیظ وغضب کے سامنے ہتھیا ر ڈال دیتی ہے اور ہر برا ئی اور نارواو ناشائستہ چیزاسے صحیح نظر آتی ہے اور وہ اس حد تک پہنچتا ہے کہ انتقامی جذبہ کی وجہ سے ہر درندہ سے بڑا درندہ و اور ہر آگ سے زیادہ شعلہ ور ہوتا ہے ۔

اسلام میں انتقام لینے کے سیلاب کو روکنے کے لئے بہت ہی تاکید ہوئی ہے اور اس کی پیروی کرنے کی زبر دست مذمت کی گئی ہے۔ خدائے متعال ان لوگوں پربہت عنایت کرتا ہے اور انھیں عفو کرتاہے جو اپنے غیظ و غضب پر قابو پاتے ہیں اورغصہ کی حالت میں بردباری سے کام لیتے ہیں۔ فرماتاہے:

(...( والکاظمین الغیظ و العافین عن النّاس ) (آل عمران/١٣٤)

''...اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔''

(...( و اذاما غضبوا هم یغفرون ) ( شوری/٣٧)

''... اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کرتے ہیں۔''

کام کا واجب ہونا اور صنعت و حرفت کی اہمیت

کام اور سرگرمی ،وہ بنیادیں ہیں،جن پر نظام خلقت استوار ہے اور یہ ہر مخلوق کی بقاء کے ضامن ہیں۔ خدائے متعال نے اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کو اس کے حالات کے مطابق کچھ وسائل سے مسلح کیا ہے کہ ان سے استفادہ کرنے پر وہ منافع کو حاصل کرتاہے اور نقصانات سے بچتا ہے۔

انسان خداکی مخلوقات میں حیرت انگیز ترین اور پیچیدہ ترین مخلوق ہے، دوسری مخلوقات کی نسبت اس کی حا جتیں زیادہ ہیں اور لہذا زیادہ سرگرمی کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ذریعہ، اپنی بے شمار ضرورتوں کو پورا کرسکے اور اپنے خاندانی نظام جسے فطرتاً تشکیل دیناچاہئے کو بھی برقرار کرسکے۔

اسلام چونکہ ایک فطری اور اجتماعی دین ہے، لہذا اس نے کارو کسب کوواجب قرارد یا ہے اور بیکار انسانوں کی اہمیت کا قائل نہیں ہے۔

اسلام میں ،ہرفرد کوا پنے سلیقہ اورشوق کے مطابق صنعت وحرفت جس کی طرف خدائے متعال نے انسانی فکر کی ہدایت کی ہے ان میں سے کسی ایک کوانتخاب کرنا چاہئے اوراس طریقہ سے اپنی روزی کمائے اورمعاشرے کی ذمہ داریوں میں سے کسی ایک کواپنے ذمہ لے لے اور لوگوں کی آسودگی کے بارے میں کوشش کرے ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( واَن لیس للانسان اِلّا ماسعی ) (نجم٣٩)

''اور یہ کہ انسان کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے ،مگر یہ کہ سعی وکوشش کرے۔''

بیکاری کے نقصانات

مذکورہ بیانات سے واضح ہوا کہ کاروکوشش ایک راستہ ہے جسے خالق کائنات نے انسان کے اختیارمیں قراردیا ہے تاکہ اسے طے کر کے اپنی زندگی کی سعادت کو پاسکے ،البتہ خلقت و فطرت کی راہ سے انحراف چاہے کم ہی کیوں نہ ہوانسان کے لئے نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔اس صورت میں جس چیز پرنظام زندگی استوار ہے ،اس سے انحراف کرنے میں دنیاوآخرت کی بد بختی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

اسی لئے ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں :

''کام میں سستی اورتھکاوٹ کااظہارنہ کرناورنہ دنیاوآخرت تیرے ہاتھ سے چلی جائیگی۔''(۱)

خود اعتمادی

عقائد کے باب میں بار ہایاد دہانی کرائی گئی کہ اسلام کاعام پرو گرام یہ ہے کہ انسان خدائے یکتا کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرے اور خالق کائنات کے علاوہ کسی کے سامنے سرتعظیم خم نہ کرے ۔

سب خدا کی مخلو ق اور اس کی پرورش یافتہ ہیں اوراس کا رزق کھاتے ہیں اورکسی کو کسی پر فضیلت کاحق نہیں ہے ،سوائے اس چیز کے جوخدا کی طرف پلٹے ۔

ہر مسلمان کو اپنے نفس پر اعتماد کرنا چاہئے اورجوآزادی خدانے اسے دی ہے اس سے استفادہ کرے ،اورجو وسائل اسے فراہم کئے ہیں ان سے بھرپورا فائدہ اٹھائے اور زندگی کی راہ کوطے کرے ،نہ یہ کہ دوسروں پرامید باندھ کرہر روز خدا کے لئے ایک شریک ٹھہرائے اور ایک تازہ بت بنائے ۔

نوکر کو جاننا چاہئے کہ وہ اپنی روٹی کھاتا ہے نہ مالک کی ۔مزدورکو جانناچاہئے کہ وہ اپنی کمائی کی اجرت حاصل کرتا ہے نہ صاحب کار کی مفت میں دی گئی بخشش .ہرملازم کو ایمان رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے کام کی مزدوری حاصل کرتا ہے نہ رئیس یا حکومت مربوطہ ادارہ یامعاشرے کاتحفہ۔

آخر کار آزاد انسان کو خدا کے علاوہ کسی سے امید نہیں باندھنی چاہئے اور کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس کے باطن میں وہی پستی اورشر ک کی غلامی پیدا ہوجائے گی جس کے آشکارا طور پر بت پرست شکار ہیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، بیکاری کی عادت کر نے وا لوں اوراپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے والوں پرلعنت بھیجی ہے ۔

دور حاضر میں اجتماعی اور نفسیاتی تحقیقات سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اجتماعی برائیوں کاایک بڑا حصہ بیکاری کی وجہ سے ہے ۔یہی بیکاری ہے جومعاشرے کے اقتصاد اورثقافت کے پہیے کو چلنے سے روکتی ہے اور ہرقسم کے اخلاقی زوال اورخرافات پرستی کو رواج بخشتی ہے ۔

کھیتی باڑی اور اس کے فائدے

کھیتی باڑی جس کے ذریعہ معاشرے کے لئے اناج مہیا کئے جاتے ہیں اپنی اہمیت کے پیش نظر انسان کے پسندیدہ ترین مشغلوں میں شمار ہوتی ہے ،اسی لئے اسلام میں اس شغل کو اختیار کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔

چھٹے امام،حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''قیامت کے دن کا شت کاروں کا مقام ہرمقام سے بلندتر ہوگا ۔''(۲)

پانچویں امام حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام فرماتے ہیں :

''کوئی بھی کام کھیتی باڑ ی سے بہتراور اس کا فائدہ اس سے زیادہ عمومی نہںہے .کیونکہ نیک وبد،چرند وپرند سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورزبان حال سے کسان کے لئے دعا کرتے ہیں۔(۳)

دوسروںکے سہارے زندگی گزارنے کے نقصانات

''طفیلی زندگی''یعنی دوسروں کی امید اور پشت پناہی میں زندگی گزارنا۔حقیقت میں ایسی زندگی،انسانی فخر،شرافت اورآزادی کو کھودینے اور تمام اجتماعی برائیوں اور جرم وگناہ کا باعث ہے کہ جس کا سر چشمہ ذلت وخواری ہے ۔

جودوسرو ں کے سہارے ہوتا ہے اس کی نگاہ لوگوں کی دست کرم پر ہوتی ہے ، وہ حقیقت میں اپنے ارادہ و ضمیر کو اس راہ میں بیچ دیتا ہے ،اسے کرم فرما کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے وہ اس سے جو کچھ چاہتا ہے خواہ ''حق ہو یا باطل اچھا ہویابرُا''وہ اسے انجام دینے پر مجبورہوتا ہے۔اورہر ننگ وعار کو قبول کرنے ،اجنبی پرستی ،ہرظلم وبے انصافی پر راضی ہو جانے اورآخر کار،تمام انسانی قواعد وضوابط کو پامال کرنے پر بھی مجبور ہوتا ہے۔

اسلام میں ضرورت کے بغیر سوال کرنا حرام ہے ،فقراء کی مالی امداد،جو اسلامی ضوابط میں ہے ،صرف ان فقیروں سے مربوط ہے کہ جن کی آمدنی ان کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہو یا کوئی کار وبارنہ ہو۔

ناپ تول میں کمی کی سزا

اسلام کی نظر میں ناپ تول میں کمی کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔خدائے متعال اس گناہ کے مرتکب افراد کی سرزنش اور مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ویل للمطفّفین٭ اَلاَ یظُنّ اولئک أنهم مبعوثون٭ لیوم عظیم ) ( مطفّفین١۔٥)

''ویل ہے ان کے لئے جو ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں...کیا انھیں یہ خیال نہیںہے کہ یہ ایک روز دوبارہ اٹھا ئے جانے والے ہیں؟۔''

ناپ تول میں کمی کرنے والا، لوگوں پر ظلم کرنے کے علاوہ، ان کے مال کو چوری کے را ستہ سے لوٹتا ہے، لوگوں میں اپنے اعتماد کو کھودیتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے گاہکوں او راس کے بعد اپنے مال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

ظلم و ستم کی برائی

خدائے متعال نے اپنے کلام پاک میں سیکڑوں بار ''ظلم'' کا ذکر کیا ہے اور اس بری صفت جو درندوں کی خصلت ہے کی مذمت کی ہے(قرآن مجید کے دوتہائی سوروں میں ، جو مجموعاً ١١٤ سورے ہیں، ظلم کا ذکر کیا گیا ہے)

ایسا کوئی انسان پایانہیں جاسکتا کہ جس نے اپنی فطرت سے ظلم کی برائی کو درک نہ کیا ہو، یا کم ازکم یہ نہ جانتاہوکہ ظلم و ستم نے انسانی معاشرے کے پیکر پر کتنی دردناک مصیبتیں ڈھائی ہیں اور کتنا خون بہایاہے اور کتنے گھروں کو ویران کیا ہے۔

تجربے سے یقینی طور پر ثابت ہوا ہے کہ ظلم و ستم کے محل کتنے ہی مضبوط کیوںنہ ہوں پائدار نہیں ہوتے اور کسی نہ کسی وقت ظالموں کے سروں پر گر کرڈھیر ہوجاتے ہیں۔ خدائے متعال فرماتاہے:

(...( ان اللّه لا یهدی القوم الظّٰلمین ) ( انعام/١٤٤)

''...خدائے متعال ہرگز ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.''

اولیائے دین فرماتے ہیں:

''سلطنت اور ملک ، کفر سے باقی رہ سکتا ہے، لیکن ظلم و ستم سے باقی نہیں رہ سکتا''(۴)

مردم آزاری اور شرارت حرام ہے

یہ دو صفتیں ایک دوسرے کے نزدیک ہیں، کیونکہ ''اذیت'' پہنچانا، دوسروں کو زبان سے رنج و تکلیف پہنچاناہے، جیسے گالی دینا اور ایسی بات کہنا جس سے مخاطب رنجید ہ ہوجائے یا ہاتھ سے کوئی ایسا کام انجام دینا جس سے لوگ ناراض ہوجائیں۔ ''شرارت'' ایسا کام انجام دینا جو لوگوںکے لئے ''شر'' کا باعث ہو۔

بہر حال یہ دو صفتیں انسان کی ان آرزؤں کے مقابلہ میں قرار پائی ہیں، کہ انسان جن تک پہنچنے کے لئے اجتماع کو وجود میں لایا ہے، کہ وہ زندگی کی آرام و آسائش ہے۔

یہاں پر اسلام کا شرع مقدس، معاشرے کی مصلحت کو پہلے درجہ میں قرار دیتا ہے اور مردم آزاری و شرارت کو حرام قرار دیتا ہے ، چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے:

( وَالَّذین یُوذون المؤمنین و المومنات بغیر ما اکتسبوا فقد احتملوا بهتٰنا و اثماً مبیناً ) ( احزاب٥٨)

''اور جو لوگ صاحبان ایمان مرد یا عورت کو بغیر کچھ کئے دھرے اذیت دیتے ہیں، انہوں نے بڑے بہتا ن اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے سرپر اٹھا رکھا ہے۔''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''جس شخص نے کسی مسلمان کو اذیت پہنچائی، اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور میری اذیت خدا کی اذیت ہے، ایسے شخص پر توریت، انجیل اور قرآن مجید میں لعنت کی گئی ہے۔''(۵)

چوری

چوری ایک برا اور نامناسب مشغلہ ہے جو معاشرے کی اقتصادی حیثیت کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ بدیہی ہے کہ انسان کی زندگی کے ابتدائی ضروریات میں سے مال و ثروت ہے جسے انسان اپنی عمر کی قیمت پر حاصل کرتا ہے او راس کی حفاظت کے لئے اس کے گرد ایک حفاظتی دیوار بنادیتا ہے تا کہ ہر قسم کے تجاوز سے محفوظ رہے اور اس طرح اس کا مال معاشرے کی زند گی کی ضمانت او ر اس کا پشت و پناہ بن جائے۔ البتہ اس دیوار کو توڑنا اور اس نظم کو ختم کرنا ایک ایسی عمر کے سرمایہ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے کہ جس کو حاصل کرنے میں اس کی پوری عمر خرچ ہوئی ہے اور لوگوں کی سرگرمیوں کے ایک بڑے حصہ کو معطل کرنا لوگوں کے ہاتھ کاٹنے کے برابر ہے۔

اسی لئے اسلام نے اس نفرت انگیز عمل کے لئے کہ خود چور کا ضمیر بھی اس کے جرم ہونے کی گواہی دیتا ہے، یہ سزا مقرر کی ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ (یعنی دائیں ہاتھ کی چار انگلیاںکاٹ دی جائیں ) خدائے متعال فرماتاہے:

( والسّارق والسّارقة فاقطعوا ایدیهما جزائً بما کسبا ) ...)

(مائدہ ٣٨)

''چو ر مرد او رچور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے بدلہ اور خدا کی طرف سے ایک سزا ہے...''