دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39251
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39251 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

اسلام میں فیصلہ

مسائل عدلیہ کے کلیات

شرعی طور پر جو صفتیں قاضی میں ہونی چاہئیں ، حسب ذیل ہیں:

١۔ بالغ

٢۔عاقل

٣۔ اسلام

٤۔ عدالت، یعنی گناہان کبیرہ کو انجام نہ دے اور گناہان صغیرہ پر اصرار نہ کرے۔

٥۔ حلال زادہ

٦۔ علم، یعنی عدلیہ سے مربوط قوانین کو اپنے اجتہاد سے جانتاہو، اگر دوسرے کے فتوی کے مطابق سنائے تو کافی نہیں ہے۔

٧۔یادادشت۔ یعنی بھولنے والا فیصلہ نہیں دے سکتا ہے۔

٨۔بینائی۔ اکثر فقہا کی نظر میں نابینا جج نہیں بن سکتا ہے۔

اگر قاضی میں مذکورہ صفات میں سے کوئی ایک صفت نہیں پائی جاتی ہو تو وہ خو دبخودفیصلہ دینے کے منصب سے عزل ہوجاتاہے۔

قاضی (جج) کے فرائض

اسلام کی مقدس شریعت میں ، جو فیصلہ دینے کے منصب پر فائز ہو، اس کے لئے مندرجہ ذیل فرائض کا انجام دینا ضروری ہے:

١۔ لوگوں کے ایک دوسرے کے خلاف دعووں کے بارے میں فقہ کی کتابوں میں موجود قوانین کے مطابق فیصلہ دینا۔

٢۔ یتیموں او ردیوانوں کی سرپرستی کرنا، اگر ان کے باپ یا داد انے ان کے لئے کوئی سرپرست معین نہ کیا ہو۔

٣۔ عمومی اوقاف اور مجہول المالک اموال کی حفاظت کرنا۔

٤۔ احمقوں کے مال کی دیکھ بھال کرنا۔

٥۔ دیوانہ پن اور مفلس ہونے کا حکم جاری کرنا اور حکم جاری کرنے کے بعد مفلس کے مال کی حفاظت کرنا۔

٦۔ خیانت کرنے کی صورت میں وصی کو بدل دینا۔

٧۔ وصی کے ساتھ ایک امین کو بھی رکھنا، جب وصی اکیلے ہی ذمہ داری کو نبھانہ سکے۔

٨۔ اگر کوئی اپنا قرض ادانہ کرسکے تو اسے مہلت دینا۔

٩۔ممکن ہونے کے باوجود واجب نفقہ دینے سے اجتناب کرنے والوں پر ذمہ داری عائد کرنا۔

١٠۔ اس کے حوالہ کئے گئے اسناد اور امانتوں کا تحفظ کرنا۔

١١۔ شرعی حدود جاری کرنا۔

١٢۔ شرعاً معین شدہ افرا د کو جیل بھیجنے کا حکم جاری کرنا۔

فیصلہ کرنے کی اہمیت

اسلام میں ''قاضی''کے لئے معین کئے گئے فرائض کی تحقیقات سے فیصلہ کرنے کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اسی لئے قاضی اپنے فیصلہ میں جذبات سے کام نہیں لے سکتا ہے اور رشوت لینے کا ، یہاں تک کہ بر حق افراد سے بھی ،سخت منع کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ اسے ان افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہئے جو اس کے پاس رجوع کرتے ہیں ۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلا م''مالک اشتر'' کے نام لکھے گئے ایک حکم نامہ میں فیصلہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

''لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا جو دعویٰ دائر کرنے والوں کے رجوع کرنے سے تھک کر دل تنگ نہ ہو جائے اور کاموں کی رسیدگی میں مکمل طور پر صبروتحمل کا مظاہرہ کرتا ہو اورامور کے بارے میں فیصلہ دینااس کے لئے مشکل نہ ہو ۔دعوی ،کرنے والے اسے خواراورحقیرنہ سمجھیں امور کے مشکلات کے بارے میں تحقیقات اوردقت کرے اورکسی کام کو سر سری طورپر انجام نہ دے ،اگرکیس اس کے لئے واضح ہے تو لوگوں کی چاپلوسی ،دھمکی اورطمع و لالچ دلانے کے اثرمیں نہ آ ئے اورحکم الہیٰ کو کسی شک وشبہہ کے بغیر اظہار کرکے نافذ کرے اور لوگوں کے مال پر طمع کرنے سے پرہیز کرے ،چونکہ اس قسم کے لوگ کم پائے جاتے ہیں اسلئے ان کی اہم اورسنجیدہ ذمہ داری کے پیش نظرمناسب تنخواہ معین کرے تاکہ وہ اپنی آبرومند انہ زندگی میں دوسروں کے محتاج نہ رہیں اور رشوت لینے کے لئے کوئی بہانہ باقی نہ رہے اورانھیں فیصلہ سنانے کی آزادی دینا تاکہ دوسروں کی بد گوئی اورچالبازیوں سے محفوظ رہیں ۔''

گواہی

مرداورعورت کی گواہی

جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا کہ استدلال کی قدرت مرد میں اورجذبات کی قدرت عورت میں زیادہ ہوتی ہے،اس لئے اسلام میں دوعورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابرہے ۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :

(...واستشہدوا شہیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل ومراتان ممّن ترضون من الشُّہداء ان تضلَّ احدٰ ہما فتذکر احدٰہما الاخری...) (بقرہ ٢٨٢)

''...اوراپنے مردوں میں سے دوگواہ بنائو اوردومردنہ ہوں توایک مرداوردوعورتیں تاکہ ایک بہکنے لگے تودوسری یاددلادے۔''

گواہی کے کلیات

تنہا وہ عام راستہ کہ جس کے ذریعہ تمام حالات میں حوادث پر قابو پایاجا سکتا ہے، گواہی کو برداشت کرنا اور اس کو انجام دیناہے اور دوسرے وسائل جیسے ''لکھنا'' اور ''فنی وسائل'' جو حوادث کو ضبط کرنے اور شکل و اعتراف کو استحکام بخشنے کے لئے فراہم کئے گئے ہیں، عام نہیں ہیں اور انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔

اس لئے، اسلام نے اس بہت سادہ اور طبیعی وسیلہ کو اہمیت دی ہے اورحکم دیا ہے کہ لوگ اس راستہ سے حوادث پر قابو حاصل کریں اور ضرورت کے وقت گواہی دیں۔

گواہ کی شرائط

١۔ بالغ ہو، اس بناپر نابالغ بچے کی گواہی قبول نہیں ہے، صرف جو بچہ دس سال کی عمر تک پہنچاہو، اگر اس نے گناہ نہ کیا ہو، تو وہ زخم لگانے کے بارے میں گواہی دے سکتا ہے۔

٢۔ دیوانہ او راحمق نہ ہو۔

٣۔ مسلمان ہو، لیکن اگر وصیت کرتے وقت مسلمان گواہ تک رسائی ممکن نہ ہو تو کافرذمی (اہل کتاب جو اسلام کی پناہ میں ہو ) کی گواہی قابل قبول ہے۔

٤۔ عادل ہو، پس فاسق او رجھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی قبول نہیںہے مگر یہ کہ وہ توبہ کرکے اس پر ثابت قدم رہے۔

٥۔ حلال زادہ ہو، اس لحاظ سے حرام زادہ کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔

٦۔ اس پر الزام نہ ہو، اس بناپر اس شخص کی گواہی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے جو دعوے کے موضوع میں غرضمند ہو۔

٧۔ یقین رکھتا ہو ، اس بناپر جو حدس و یقین حس کے طریقہ سے حاصل نہ ہوا ہو، اس پرگواہی نہیں دی جاسکتی ہے اور اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی کے نقصان میں کو ئی حکم جاری ہواہو، تو گواہ ضامن ہے اور اس کی تنبیہ کی جانی چاہئے او راس کے جھوٹ کو بھی لوگوں میں اعلان کرناچاہئے۔

اقرار

اقرار کی اہمیت

معاشرے میں پامال اور ضائع ہونے والے حقوق کو زندہ کرنے کے بارے میں ''اقرار'' کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہے۔ کیونکہ عدلیہ جس کا کام انتہایی تلاش و کوشش، دلائل کو جمع کرنے کے لئے محنت و مشقت، قرائن، گواہوںکی گواہی او رحدس واندازہ سے انجام دیتی ہے،اسے''اقرار'' کے ذریعہ آسان ترین اور واضح ترین صورت میں دو جملوں میں انجام دیاجاتاہے۔

اسلام میں انفرادی نقطہ نظر سے بھی اقرار کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ اقرار کا سرچشمہ وہ فطرت ہے کہ اسلام کی تمام سعی و کوشش اس کو زندہ کرنے اور اسے عملی جامہ پہنا نے میں صرف ہوتی ہے او روہ ایک ایسے انسان کی حق پرستی کی فطرت ہے جس کے مقابلہ میں ہوا و ہوس پرستی قرار پائی ہے۔

خدا ئے متعال اپنے کلام پاک میں پیرواں اسلام سے مخاطب ہو کر فرماتاہے:

( یا ایّها الّذین آمنوا کونوا قوّاّمین بالقسط شهداء للّه و لو علی انفسکم او الوالدین و الاقربین ) ( نسائ١٣٥)

''اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو او راللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین او راقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو...''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''حق بات کہو اگر چہ اپنے نقصان میں ہو۔''(۱)

اقرار کے معنی اور اس کی شرائط

''اقرار'' شرع وشریعت میں ایک ایساقول ہے کہ کہنے والا دوسرے کاحق اپنے اوپر ثابت کرتا ہے، جیسے کہتا ہے:''میں ایک ہزار رو پئے کا فلاں شخص کا مقروض ہوں''۔

اقرار کرنے والے کے لئے بالغ ، عاقل اور صاحب اختیار ہونا شرط ہے، اس بناء پر بچہ، دیوانہ، مست، بیہوش، سوئے ہوئے اور مجبور شخص کا اقرار صحیح نہیں ہے۔

شفعہ

اگر دوآدمی، دوگھریا کسی اور ملکیت کے مشترک مالک ہوں اور ان میں سے ایک اپنے حصہ کو کسی تیسرے شخص کے ہاتھ بیچ دے، تو اس کادوسرا شریک حق رکھتا ہے کہ اسی عقد اور اسی قیمت پر اس کے حصہ کولے لے، اس حق کو ''شفعہ'' کہتے ہیں۔

واضح ہے کہ اسلام میں یہ حق کمپنیوں کے تسویہ اور شرکاء کے تصرفات کی وجہ سے رونماہونے والے نقصانات اور خرابیوں کودور کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اکثر یہ اتفاق پیش آتاہے کہ ملکیت میں تازہ شریک کے تسلط سے صاحب شفعہ کو نقصان پہنچتا ہے، یا سلیقوں میں اختلاف کی وجہ سے اختلافات اور کشیدگیوں کا ایک سلسلہ وجود میں آتاہے، یا مالکیت میں آزادی (صاحب شفعہ) شریک کے لئے کوئی فائدہ رکھتی ہو بغیر اس کے کہ بیچنے والے شریک کے لئے کوئی نقصان ہو۔

شفعہ، زمین، گھر، باغ اور دیگر غیر منقولہ اموال کے لئے ثابت ہے اور منقولہ اموال میں شفعہ نہیںہے۔

مرد اور عورت کا طبقہ

خالق کائنات نے نوع بشر کو دوسرے جاندارمخلوقا ت کے مانند نرومادہ میں تقسیم کیا ہے اوراس طرح اس نوع کی بقاء کا تنہاضامن تناسل و توالد کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔

مرد اور عورت،اس کے باوجود کہ نسل پھیلانے کے لئے دو مختلف نظاموں سے مسلح ہیں ،ان میں سے ہرایک ،ایک انسان کی مکمل فطری توانائیاں رکھتا ہے اوریہ انسان کی ذاتی خصوصیتوں میں بھی برابرہیں۔ان دونوں صنفوںکی تنہا خصوصیت جوسماج میں جداگانہ امتیازات کاسرچشمہ ہوسکتی ہے ، وہ یہ ہے کہ:

مرد کی صنف میں غوروخوض کی خاصیت زیادہ قوی ہوتی ہے اور عورت کی صنف میں جذبات اور ہمدردیاں زیادہ ہوتی ہیں ۔اورانہی خصو صیات کی وجہ سے،معاشرے میں ان دونوں میں سے ہر ایک نے مخصوص فرائض کو اپنے ذمہ لیکر معاشرہ کوچلاتے ہیں ۔اگر یہ اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ لیں تو معاشرہ ٹھپ ہوکررہ جائے گا۔

اسلام نے جواحکام ان دو صنفوں کے لئے وضع کئے ہیں ،ان میں کلی طورپرہرایک کی صفتوں اورخصوصیتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اور مشترک قوانین میں اسی نوعی اشتراک کومدنظر رکھ کران دونوں صنفوں کو حتی الامکان نزدیک لایا گیاہے ۔

یہ جاننے کے لئے کہ اسلام نے اپنی حقیقت بینی کی بناپر ،ان دوصنفوں کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے کیسے موثر قدم اٹھائے ہیں اوربالخصوص عورتوں کے حالات میں بہتری اورآسودگی لانے کے لئے کیسے قوانین بنائے ہیں، ہمیں اسلام سے قبل عورتوں کے عام حالات سے آگاہ ہونا چاہئے اور اس سلسلہ میں ایک تحقیق کریں اورماضی کے ترقی یافتہ اورغیرترقی یافتہ معاشروں میں جو برتائوعورتوں کے ساتھ ہوتا تھا اسے مدنظر رکھیں پھر عورتوں کے بارے میں اسلام کے وضع کئے گئے قوانین کی تحقیق کریں ۔

اسلام سے پہلے معاشرے میں عورت

الف:قبائلی معاشرے میں عورت

قدیم ملتوں میں جب ان کاطرز زندگی قانونی یادینی نہیں تھا اورصرف قومی آداب ورسوم کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے،توعورت،انسان شمارنہیں ہوتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ایک پالتوجانور جیسا سلوک کیا جاتا تھا ۔

انسان جب آغاز سے پالتوجانوروں کویکے بعددیگرے اپنااسیر بناکران کی تعلیم وتربیت کرتاتھا ،ان کی حفاظت اوران کی زندگی کے لئے بے پناہ محنت کرتااور رنج وتکلیف اٹھاتا تھا،تو یہ سب اسلئے نہیں تھا کہ انھیں انسانیت کی حیثیت سے پہچانے یا انھیں اپنے معاشرے کاایک عضوقراردے اوران کے لئے کچھ حقوق کا قائل ہو جائے ،بلکہ وہ ان کے گوشت ،کھال ،اون ،دودھ، سواری ، سامان ڈھونے اوردیگر فوائد سے بہرہ مندہونے کے لئے تھا۔

اس لئے ان جانوروں کی بقاء اورزندگی کے لئے ،کچھ وسائل جیسے خوراک اور رہائش وغیرہ فراہم کرتا تھا ،لیکن یہ محنت و مشقّت ان کے ساتھ ہمدردی کی بناپرنہیں ہوتی تھی بلکہ اپنے فائدے کے لئے ہوتی تھی۔

انسان ان جانوروں کا دفاع کرتاتھا اوراجازت نہیں دیتاتھاکہ کوئی انھیں مارڈالے یا انھیں اذیت پہنچائے اور اگرکوئی ان پر تجاوز کرتا،تووہ اس سے انتقام لیتا تھا ،لیکن یہ سب اس لئے تھا کہ خود کو ان کامالک جانتاتھا اوراپنے حقوق کی حفاظت کرنا چاہتاتھا نہ یہ کہ ان حیوانات کے لئے کسی حق کاقائل تھا ۔عورت کو بھی اسی طرح اپنے استفادہ کے لئے چاہتاتھا۔

عورت کی معاشرے میں رکھوالی کرتا تھا اوراس کادفاع کرتاتھا ،جواس پر تجاوزکرتا اسے سزادی جاتی تھی ،لیکن نہ اس لئے کہ وہ انسان ہے یامعاشرے کاعضوشمار ہوتی ہے یاکسی حق واحترام کی حقدارہے ،بلکہ اس لئے کہ زندہ رہے اورمرد کے جنسی خواہشات کا کھلونا بنی رہے اور اہل خانہ یعنی مردوں کے لئے کھانا پکائے اور تیار کرے ،ساحل نشیں قوموں کے لئے مچھلی پکڑے.سامان ڈھوئے ،گھر کاکام کرے اورضرورت کے وقت بالخصوص قحط سالی اورمہمان نوازی کے موقع پر اس کے گوشت سے غذا تیار کی جائے ۔

باپ کے گھر میں بھی عورت کی یہی حالت تھی یہاں تک کہ اسے شوہر کے حوالہ کیا جاتاتھا ،لیکن نہ اسکے اپنے اختیاروانتخاب سے،بلکہ ماں باپ کے حکم سے وہ بھی ایک قسم کا بیچناتھانہ کہ ازدواج عہدو پیمان۔

عورت،باپ کے گھر میں ،باپ کے ماتحت اورشوہر کے گھر میں ،شوہر کے ماتحت اور اس کی تابع ہوتی تھی اور ہر حالت میں صاحب خانہ کے زیرنظراور اسکی مرضی کے مطابق زندگی گزارتی تھی ۔

صاحب خانہ اسے بیچ سکتاتھایااسے کسی کوبخش سکتا تھا یادوسرے مقاصدکے لئے جیسے عیاشی یابچہ پید اکرنے یاخدمت کرنے کے لئے عاریت،قرض یاکرایہ پردوسروں کو دے سکتا تھا اگراس سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہوتی تواسے ہر طرح کی سزا دینے کا حق تھا،یہاں تک کہ قتل تک کر سکتا تھا،اوراس کے بارے میں کسی بھی قسم کی ذمّہ داری کا احساس نہیں ہوتاتھا ۔

ب۔عورت،ترقی یافتہ سلطنتی معاشرے میں

ترقی یافتہ سلطنتی معاشرہ،جیسے،ایران،مصر،ہندوستان اورچین کہ جو و قت کے بادشاہوں کی مرضی پر چلتا تھا اوراسی طرح متمدن معاشرہ جیسے کلدہ ،روم اور یونان جہاں کے لوگ قانونی حکومت کی زندگی بسر کرتے تھے ،اگر چہ عورت کی حالت دوسرے معاشروں سے بہترتھی اورکلی طورپرمالکیت سے محروم قرارنہیں دی جاتی تھی ،لیکن پھر بھی مکمل آزادی نہیں رکھتی تھی جس گھر میں عورت زندگی گزارتی تھی اس کاسر پرست جیسے باپ ، بڑا بھائی یاشوہر اس پر مطلق حکومت کرتاتھا ۔یعنی اسے حق ہوتاتھا کہ جس کے ساتھ چاہے اس کا عقد کرے یاعاریت و کرایہ پر دیدے یاکسی کو بخش دے اورخاص کر (خطاسرزدہونے پر) اسے قتل کرسکتا تھا یاگھرسے نکال سکتا تھا ۔

بعض ملکوں میں عورت فطری رشتہ داری سے محروم تھی اورمرداپنی محرم عورتوں سے شادی کرسکتا تھا۔

بعض دوسرے ممالک میں ،عورت باضابطہ اورقانونی رشتہ دار شمارنہیں ہوتی تھی ،اور میراث کی حقدار نہیںہوتی تھی ۔

بعض جگہوں پر کئی مرد ایک عورت سے شادی کرتے تھے اورزمانہ جاہلیت میں بعض عرب قومیں اپنی بیٹیوںکوزندہ دفنا تے تھے ،عورت کو منحوس جانتے تھے ۔اگر اس پر کوئی زیادتی اورظلم ہوتا تواسے عدالت میں جاکر شکایت کرنے اوراپنادفاع کرنے کا حق نہیں تھا اوراسے گواہی دینے کا حق بھی نہیں تھا ۔

خلاصہ یہ کہ اس معاشرے میں عورت ایک کمزورعضوشمار ہوتی تھی جسے مرد کی سرپرستی میں زندگی بسرکرنا ہوتی تھی ۔اسے ہرگز اپنے ارادہ سے فیصلہ کرنے ،کام اورپیشہ کے انتخاب میں آزادی نہیں تھی ۔بلکہ ایک چھوٹے بچے کے مانندتھی جسے بالغ ہونے تک کسی کی سرپرستی میں زندگی بسرکرنا پڑتی ہے فرق صرف یہ تھا کہ یہ عورت کبھی بالغ نہیں ہوتی تھی !

عورت ایک جنگی اسیر کے مانندتھی کہ جب تک آزاد نہ ہوجائے دشمن کی غلامی میں رہتا ہے اور اس کے کام وکوشش سے استفادہ کیا جاتا ہے ،اس کے مکروفریب سے ہوشیار رہتے ہیں ،فرق یہ تھا کہ عورت کو اس اسیری سے آزادہونے کی کبھی امید نہیں ہوتی تھی ۔

ج:عورت دینی معاشرہ میں

دینی معاشروں میں بھی عورت پر جو کچھ دوسرے معاشروں میں گزرتی تھی۔کوئی خاص فرق نہیں ہوتا تھا اوراس کے لئے کسی قسم کے حق کے قائل نہ تھے ۔

یہودیوں کی موجودہ توریت نے عورت کوموت سے زیادہ تلخ بتایاہے اور کمال سے مایوس شمار کیا ہے ۔

رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے،فرانس میں عیسائی پادریوںکا ایک اجتماع منعقد ہوا،جس میں عیسائی پاد ریوںنے عورتوں کی حالت پرمفصل بحث وتحقیق کے بعد حکم صادرکیا کہ :

''عورت ایک انسان ہے لیکن مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔!''

ان تمام معاشروں میں ،اولادباپ کی تابع ہوتی تھی نہ ماں کی اوران کے نسب کی بنیاد باپ سے تشکیل پاتی تھی نہ ماںسے ،صرف چین اورہندوستان کی چندجگہوں پرکئی شوہر کرنے کارواج تھا،بچے ماں کے تابع ہوتے تھے اوران کے نسب کی بنیاد مائیں تشکیل دیتی تھیں ۔

خلاصہ

اسلام سے پہلے،پوری دنیا میں تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی معاشروں میں ، عورت کو معاشرے کاایک سر گرم عضوشمارنہیں کیا جاتا تھا اور وہ استقلال وآزادی کی مستحق نہیں تھی اور ہمیشہ ایک کمزوراورمحکوم مخلوق شمار ہوتی تھی اور وہ خود بھی زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی انسانی خصلتوں کو کھوکرکے اپنے لئے کسی قسم کی اجتماعی شخصیت کو تصور نہیں کرسکتی تھی ۔

لفظ''عورت''ذلت،خواری ،پستی اور بیوقوفی کے معنی دیتا تھا ۔ہرزبان کے ادبیات کے نظم ونثر میں عورت کے بارے میں بہت سی نا شا یستہ باتیں اور خرافات پائے جاتے ہیں جو ماضی کے معاشروں میں عورت کے بارے میں روارکھے جانے والے نظریہ کی عکاسی کرتے ہیں ۔

____________________

١۔ میزان الحکمة ،ج ٢، ص ٤٦٨۔