دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39249
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39249 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

عورت کے بارے میں اسلام کا نظریہ

جس دن اسلام کاسورج بشریت کے افق پر طلوع ہوا ، اس وقت عورت کی سماجی حالت وہی تھی جو خلاصہ کے طور پربیان کی گئی ۔

اس زمانہ کی دنیا میں عورت کے بارے میں چندغلط اور خرافات پر مشتمل افکار اورظالمانہ طرز عمل کے علاوہ کچھ نہیں تھا .لوگ(حتی خودعورت کاطبقہ )عورت کے لئے کسی مقا م یاحق کے قائل نہیں تھے اوراسے ایک پست مخلوق سمجھتے تھے جوشریف انسان (مرد)کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔

اسلام نے پوری طاقت کے ساتھ ان افکار کی مخالفت کی اورعورت کے لئے حسب ذیل حقوق مقررفرمائے :

١۔عورت ایک حقیقی انسان ہے اورانسان کے نرومادہ جوڑے سے پیداکی گئی ہے اورانسان کی ذاتی خصوصیات کی حامل ہے اورانسانیت کے مفہوم میں مرد کو اس پر کوئی امتیاز حاصل نہیںہے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :

( یایّها النّٰاس اِنّاخلقنکم من ذکرٍوانثی ) ...) (حجرات١٣)

''انسانو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے ...''

کئی دوسری آیتوں میں فرماتا ہے :

( بعضکم من بعض ) (آل عمران ١٩٥)

''تم سب ہم جنس ہو ''

٢۔عورت،مرد کے مانندمعاشرہ کاعضو ہے اورقانونی شخصیت کی مالک ہے ۔

٣۔عورت چونکہ فطری رشتہ دارہے اسلئے سرکاری اورقانونی طورپربھی رشتہ دار ہے ۔

٤۔بیٹی ،اولادہے جس طرح بیٹااولادہے،اسلئے بیٹیاں ،بیٹوںکی طرح اولادہیں ،اس لحاظ سے عورت بھی مرد کی طرح اپنے سببی اور نسبی رشتہ داروں جیسے باپ اورماں سے میراث پاتی ہے ۔

٥۔عورت فکری آزادی کی مالک ہے اوراپنی زندگی میں ہرقسم کا فیصلہ کرسکتی ہے اورشر عی حدود میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لئے شوہرمنتخب کرسکتی ہے اور باپ یاشوہرکی ولایت اورسر پرستی میں رہے بغیر آزادی کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے اورہر جائز پیشہ کو منتخب کرسکتی ہے ۔

عورت عمل کے میدان میں مستقل ہے اوراس کاکام اورکوشش محترم ہے اور وہ مالک بن سکتی ہے اوراپنی دولت وثروت کو مرد کی سر پرستی اورمداخلت کے بغیرتصرف کرسکتی ہے اوراپنے انفرادی واجتماعی مال اورحقوق کادفاع کرسکتی ہے اور دوسروں کے حق میں یاخلاف گواہی دے سکتی ہے ۔وہ جنسی آمیزش کے مسئلہ کے علاوہ (جس میں ازدواجی زندگی کے معاہدہ کے مطابق اپنے شوہر کی اطاعت کرناضروری ہے )اپنے شوہر کے لئے کوئی دوسرا کام انجام دے تو وہ قابل قدر ہے۔

٦۔مرد کو عورت پر حکم چلانے اورظلم کرنے کا کوئی حق نہیںہے اور ہرظلم جومردوں کے بارے میں مقدمہ چلا کرقابل سزا ہے وہ عورتوں کے بارے میں بھی مقدمہ چلانے اورسزا دینے کے قابل ہے۔

٧۔عورت معنوی دینی شخصیت کی مالک ہے اوراخروی سعادت سے محروم نہیں ہے ،وہ وایسی نہیں ہے جیساکہ اکثرادیان اورمذاہب عورت کو ایک شیطان کے مانند،رحمت خداوندی سے مایوس تصور کرتے ہیں ۔

خدائے متعال اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے :

( من عمل صٰلحاً من ذکر او انثی و هو مؤمن فلنحیینَّه حیٰوة طیّبة ولنجزینَّهم اجرهم باَحسنِ ماکانوا یعملون ) (نحل٩٧)

''جوشخص بھی نیک عمل کرے گاوہ مرد ہو یاعورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطاکریں گے اورانھیں ان اعمال سے بہترجزادیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے ہیں''

(...( انّی لااضیع عملَ عامل منکم من ذکر اوانثی ) ...)

(آل عمران ١٩٥)

''میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یاعورت...''

درج ذیل آیہ شریفہ کے مطابق ممکن ہے ایک عورت تقوی اوردین کی بدولت ہزاروں مردوں پرامتیاز اور فوقیت حاصل کرے :

(یایّہا النّاس انّا خلقٰنکم من ذکر وانثی وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انَّ اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم ...) (حجرات ١٣)

''انسانو! ہم نے تم کو ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیاہے اورپھر تم میں شاخیں اورقبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیز گار ہے ...''

نکاح

(ازدواج)

نکاح کے مسائل اوراحکام

اسلامی تعلیمات میں نکاح اورازدواجی زندگی کے موضوع کو کافی اہمیت دی گئی ہے ۔اس کی اہمیت اس حدتک ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

نکاح میری سنت ہے اورجو بھی میری سنت پر عمل نہ کرے ،اسے اپنے آپ کو مجھ سے نسبت نہیں دینی چاہئے اوروہ اپنے آپ کومسلمان شمارنہ کرے۔(۱)

نکاح کے احکام

دین اسلام میں نکاح کی دوقسمیں ہیں :

١۔'' دائمی نکاح'':یہ وہ نکاح ہے کہ عقدجاری ہونے کے فوراًبعد میاں بیوی کارشتہ ہمیشہ کے لئے برقرار ہوجا تا ہے ۔یہ رشتہ صرف طلاق کے ذریعہ توڑاجاسکتا ہے ۔اس ازدواج میں مرد کو مہر کے علاوہ بیوی کی حیثیت کے مطابق اس کی زندگی کے اخراجات اداکرنے ہوتے ہیں اور کم از کم چار راتوں میں سے ایک رات کو اس کے ساتھ گذارے بیوی اس سلسلہ میں شوہر کے تقاضا کو مسترد نہیں کرسکتی ہے ۔

٢۔موقت نکاح جسے''متعہ''کہا جاتا ہے ۔یہ نکاح ،ایک محدود اورمعین مدت کے لئے میاں بیوی کے درمیاں رابطہ کو پیدا کر تاہے اورجوں ہی مدت ختم ہوئی یامرد نے باقی مدت کو بخش دیا تو طلاق کے بغیر میاں بیوی کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ۔

اس ازدواج میں نکاح دائم کے احکام میں سے کوئی حکم نہیں پایا جاتا ہے ،مگر یہ کہ عقد کے وقت شرط کی گئی ہو ۔

نوٹ

نکاح موقت''متعہ''اسلام میں جائزہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں رائج تھا ،یہاں تک کہ دوسرے خلیفہ نے بعض وجوہات کی بنا پر اس پرپابندی لگادی ،اس لئے اہل سنت اسے جائز نہیں جانتے ،لیکن شیعوں کے نزدیک جائز ہے اوراسے اسلام کے شاہکاروں میں سے ایک جانتے ہیں ،کیونکہ معاشرے کی ضرورتوں کے ایک اہم حصہ کو۔جس کودوسرے راستہ سے روکنا ممکن نہیںہے دور کرتا ہے اورعمومی عفت کا بہترین حامی اورضامن ہے ۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اگرموقت نکاح کو ممنوع نہ قرار دیا گیا ہوتا تو شقی اوربدبخت کے علاوہ کوئی زنانہ کرتا''(۲)

جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے

اسلام میں بعض عورتوں کے ساتھ رشتہ داری اورنسبی رشتہ کی وجہ سے نکاح کرنا حرام اورممنوع ہے، اور وہ حسب ذیل ہیں :

١۔ماں ،دادی،نانی اور جتنا سلسلہ اوپرچلا جائے ۔

٢۔بیٹی،نواسی اورجتنا سلسلہ نیچے چلاجائے۔

٣۔پوتی اورجتنا سلسلہ نیچے چلاجائے۔

٤۔بہن،بھانجی اورجتنا سلسلہ نیچے چلاجائے۔

٥۔بھتیجی ،بھتیجی کی بیٹی اورجتنا سلسلہ نیچے چلا جائے ۔

٦۔پھوپھی

٧۔خالہ

نوٹ

جوعورتیں نسبی رشتہ کی وجہ سے مردپر حرام ہیں وہی عورتیں ایک شیرخواربچہ کو دودھ پلانے سے حرام ہوجاتی ہیں ۔

بعض عورتیں سببی رشتہ (دامادی )کی وجہ سے مردپر حرام ہوجا تی ہیں ،وہ حسب ذیل ہیں :

١۔بیوی کی ماں اوراسکی دادی ونانی اور جتنا سلسلہ اوپر چلا جائے ۔

٢۔بیوی کی بیٹیاں ،اگرمردنے اس بیوی سے ہمبستری کی ہو۔

٣۔باپ کی بیوی ،اگرچہ باپ نے اس کے ساتھ ہمبستری بھی نہ کی ہو۔

٤۔بیٹے کی بیوی ،اگرچہ بیٹے نے اس کے ساتھ ہمبستری بھی نہ کی ہو۔

٥۔بیوی کی بہن ۔جب تک بیوی زندہ اور مردکے عقد میں ہو ۔

٦۔بیوی کی بھتیجی اور بھانجی ، جبکہ بیوی سے اجازت نہ لی ہو،لیکن بیوی کی اجازت سے حرام نہیں ہیں ۔بعض عورتیں دوسرے وجوہا ت سے مردپر حرام ہوجاتی ہیں :

١۔شادی شدہ عورت۔

٢۔پانچویں عورت ،جس مرد کے چار دائمی عقدوالی بیویاں ہوں ۔

٣۔کافر عورت،لیکن یہودی اورعیسائی کے مانند اہل کتاب ہو تو اس کے ساتھ موقت عقدکیا جا سکتا ہے ۔

عقد کاولی

دین اسلام میں ، مرداورعورت اگربالغ ہوں تواپنا شریک حیات انتخاب کرنے میں آزاد ومستقل ہیں ۔لیکن نابالغ بیٹی اور بیٹے کے ولی ان کے باپ ہیں ،اس معنی میں کہ باپ اپنی نابالغ بیٹی کاعقد کسی لڑکے سے کرسکتا ہے اوراپنے نابالغ بیٹے کا عقد کسی لڑکی سے کر سکتا ہے ۔

اولاد کے حقوق اورتبعیت

١۔اگرشادی شدہ عورت،سے کوئی بچہ پیدا ہو تو یہ بچہ اس کے شوہر کاہے،چنانچہ وہ بچہ دائمی بیوی ہو تو شوہرا پنا بچہ ہونے سے ا نکار نہیں کرسکتا ہے۔

٢۔اگربچہ اپنی زندگی کا خرچ پورانہ کرسکتا ہو ،تو اسکے ماں باپ کو اس کے اخراجات کو پورا کرنا چاہئے اورچنانچہ ماں باپ اپنے اخراجات پو رے نہ کرسکتے ہو ں توان کے اخراجات ان کے فرزند کے ذمہ ہیں ۔

اسلام میں متعدد بیویاں

شریعت اسلام کے مسلمات میں سے ہے کہ مرد ایک ساتھ چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔ اس حکم کے فلسفہ کو سمجھنے کے لئے درج ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے :

١۔یہ حکم،اختیاری احکام میں سے ہے اور واجبی وحتمی حکم نہیں ہے، یعنی مسلمان مردپر واجب نہیں ہے کہ چاربیویاں رکھے بلکہ ایک ہی وقت میں دویاتین یاچاربیویاں رکھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ،چونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے میں شرط یہ ہے کہ ان کے درمیان عدالت کی رعایت کرے اور یہ کام بہت مشکل ہے اورہرایک کے بس کی بات نہیںہے ۔ اس لئے اس کام کے لئے قدم اٹھانا اپنے لئے استثناء حالت پیدا کرنا ہے ۔

٢۔بشر کی ضرورتوں میں سے ایک تناسل وتوالداورآبادی بڑھاناہے ۔ خالق کائنات نے اسی غرض سے انسان کو مرداورعورت میں تقسیم کیا ہے .اسلام بھی چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے انسان کی ضرورتوں کو مد نظر رکھا ہے اسی لئے ازدواج کا حکم دیا ہے اورچونکہ مرداورعورت میں تناسل اور توالد صلاحیت کے لحاظ سے ، فرق ہے ،اس لئے متعدد شادیاں جائز کی ہیں ۔

اب ہم اختلاف کی علتیں بیان کرتے ہیں :

الف:کلی طورپر عورت نوسال کی عمر میں ازدواج کی صلاحیت پیداکرتی ہے جبکہ مرد کے لئے یہ استعداد پندرہ سال میں پیدا ہوتی ہے۔

نتیجہ کے طورپر اگرہم کسی معین سال کو مدنظر رکھ کر لڑکے اورلڑکیوں کی ولادت کو (اکثرًلڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہیں )درج کریں گے اور بعد والے سالوں کی ولادتوں کو اس پر اضافہ کریں گے توسولہویں سال ہر لڑکا جوازدواج کی شرعی صلاحیت پیدا کرے گا اس کے مقابلہ میں سات لڑکیاں ازدواج کی صلاحیت پیدا کریںگی ۔اگرلڑکوں کے ازدواج کی عمر جو معمولاً بیس سال سے اوپر ہے، کو مدنظر رکھیں ،تواکیسویں سال میں ہرایک لڑ کے کے مقابلہ میں دولڑکیاں شا دی کے لا ئق ہوںگی اورپچیسویں سال میں کہ عام طور پر شادی اسی عمر میں کردی جاتی ہے ۔ہردس لڑکوں کے مقابلہ میں سولہ لڑکیاں شادی کے لائق ہو جائیں گی ۔

ب۔عورت غالباًپچاس سال کی عمرمیں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کھودیتی ہے جبکہ مرداپنی طبیعی عمر کے آخری دنوں تک یہ صلاحیت رکھتا ہے ۔

ج۔اعدادوشمار کے مطابق نوزاد لڑکوں کی موتیں نوزادلڑکیوں سے زیادہ ہوتی ہیں اورعورتوں کی اوسط عمرمردوں کی نسبت زیادہ ہے کیونکہ گوناگوں عوامل کی وجہ سے عورتوں کی نسبت مردوں میں موتیں زیادہ ہوتی ہیں ۔اسی طرح(اعدادوشمار کے مطابق)مردکی عمرغالباًعورت کی عمرسے کم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں ہمیشہ بیوہ عورتیں ،بیوی کے بغیرمردوں سے زیادہ ہوتی ہیں ۔

اس بات کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں متعدد شادیوں کی رسم صدیوں تک باقی تھی اور باوجود اس کے کہ بعض لاابالی اورفاقد عدالت مردوں نے بھی یہ کام انجام دیا ہے ،لیکن کبھی کوئی مشکل یاعورتوں کی کمی کا مسئلہ پیش نہیں آیا ہے ۔

کہتے ہیں:چونکہ متعدد شادیوں کامسئلہ عورت کی فطرت کے خلاف ہے،چوں کہ اس کے جذبات کو مجروح کرتا ہے یہا ں تک کہ بعض اوقات اسے انتقام لینے پر مجبور کرتا ہے اورمرد کی زندگی خطرہ میں پڑجاتی ہے ۔

ایسا سوچنے والوں نے اس حقیقت میں غفلت برتی ہے کیوںکہ مذکورہ مخالفت عادت سے مربوط ہے نہ اسکی فطرت اورطبیعت سے،کیونکہ اگراس کی بنیاد فطرت پر ہوتی تومتعدد شادیوں کا کام عملاًکبھی واقع ہی نہ ہوتا ۔کیونکہ جوعورتیں کسی مرد کی دوسری ،تیسری یا چوتھی بیوی بنتی ہیں ،وہ عورتوں کے اسی طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں جوکہ اپنی مرضی اوررغبت سے شادی شدہ کسی مردسے شادی کرنے پرآمادہ ہوتی ہیں۔اگریہ کام انکی فطری اورطبیعی جذبات کے خلاف ہوتا،توہرگزایسی چیز کوقبو ل نہ کرتیں ،چنانچہ اگرازدواج میں کسی عورت سے یہ شرط کی جائے کہ اسے تنہازندگی گزارناہوگی اورکسی سے بات نہیں کرے گی ،توچونکہ یہ کام اسکی فطرت کے خلاف ہے ،اس لئے ہرگز وہ اس شرط کوقبول نہیں کرے گی۔

اسکے علاوہ دین اسلام میں اس مشکل کوحل کر نے کے لئے ایک راستہ موجود ہے ،وہ یہ کہ عورت ازدواج کے وقت،عقدلازم کے ضمن میں شرط رکھ سکتی ہے کہ اس کاشوہردوسری شادی نہ کرے اورا س طرح اس کا سد باب کر سکتی ہے ۔

اولاد کی میراث کا مسئلہ بھی دوسری صورت میں منظم کیاجاسکتا ہے،مثلاًحکومت کو مردکاوارث قراردیں اورمعاشرے کے فرزندوں اورنوزاد بچوں کی تربیت حکومت کے ذمہ چھوڑکربچوں کو پرورش گاہ اورنرسریوں میں پالا جائے ۔

اگرچہ یہ طریقہ انسانی معاشروں میں استثنائی طورپر انجام پاتا ہے ،لیکن ایک ناقابل تغیرقانون کی حیثیت سے جاری رہنے کی ہرگز صلاحیت نہیں رکھتا،کیونکہ،یہ طرزعمل،مختصر زمانہ میں ،انسانی جذبات،غمخواری ،مہرومحبت اورقوی خاندانی ہمدردی۔جونسل کی ایجاد کے لئے انسان کااصلی محرک ہے کونابود کرکے رکھدیتاہے اورنتیجہ کے طورپرنسل بڑھانے کے موضوع کولوگوں میں خاص کرعورتوں میں کہ واقعاً ایام حمل کے دوران ناقابل برداشت تکلیفیںاٹھاتی ہیں ایک بیہودہ عمل دکھاتا ہے اورمہرومحبت والے خاندان کوایک تاریک زندان میں تبدیل کردیتا ہے ۔

ایسے حالات کے رونماہونے کی وجہ سے تناسل وتوالدکاراستہ بالکل بندہوجاتا ہے اورخاندان جوحقیقت میں شہری معاشرہ کو تشکیل دیتاہے نابود ہوکررہ جاتاہے،اورخاندان کی تشکیل اورتناسل وتوالدفنی وسائل اورسیاسی فریب کاریوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں،جیسے بچہ پیداکرنے والوں کے لئے بڑے بڑے انعامات کااعلان کرنایاسخت قوانین نافذ کرناوغیرہ ۔بدیہی ہے کہ اس قسم کی حالت،جوفطرت کے ساتھ ساز گار نہیں ہوتی،پائدارنہیں ہے ۔

اس کے علاوہ واضح ہے کہ اس صورت میں ،انسان کی زندگی ایک وحشتناک شکل میں تبدیل ہوکرخشک وبے لذت ہوگی اورحقیقت میں ،انسان کی زندگی کاماحول مویشیوں سے زیادہ پست اوردرندوں کے ماحول سے زیادہ خطرناک ہوگا۔

____________________

١۔بحارالانوار.ج١٠٣،ص٢٢٠ح٢٣۔

۲۔وسائل الشیعہ ،ج١٤،ص٤٣٦،باب متعہ ۔

طلاق

(میاں بیوی کی جدائی)

میاں بیوی کے شرعی رابطہ کے ختم ہونے کے بعد،ایک دوسرے سے جدا ہوکرازدواجی حقوق کے قوانین کی پابندی سے آزاد ہونے کو''طلاق''کہتے ہیں ۔

طلاق کاقانون اسلام کا ایک ناقابل انکارامتیاز ہے جو وہ مسیحیت اورچند دیگرادیان پر رکھتا ہے اورانسانی معاشرے کی ایک ضرورت کوپورا کرتا ہے ،کیونکہ بے شمار ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ میاں اوربیوی کے اخلاق آپس میں سازگارنہیں ہوتے اورپیارومحبت کا ماحول ایک میدان جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے اوران کے درمیان مصالحت ممکن نہیں ہوتی ،اس صورت میں اگر میاں بیوی کارشتہ توڑنے کے قابل نہ ہوتا تو میاں بیوی کوعمر بھرایک بدبختانہ زندگی گزارنا پڑتی جو کہ در حقیقت ایک شعلہ ورجہنم ہے اورتلخی و محرومیت کے ساتھ نامناسب جسمانی اذیتیں برداشت کرناپڑتیں اور اس مطلب کی بہترین مثال یہ ہے کہ عیسائی حکومتیں بھی عام ضرورتوں کے پیش نظر آخر کار''طلاق'' کوقانونی حیثیت دینے پر مجبورہوئیں ۔

اسلام میں طلاق کا اختیارمرد کو دیاگیا ہے،البتہ اس حکم میں مرداورعورت کی فطری حالت کومدنظر رکھا گیا ہے ،کیوںکہ اگرطلاق کا اختیار عو رت کے ہاتھ میں ہوتا ،چونکہ عورت مردسے زیادہ جذبات کی اسیر ہوتی ہے ،اسلئے میاں بیوی کارابطہ ہمیشہ کمزور پڑتا اور تشکیل پایاہوا خاندان متزلزل ہوکرآسانی کے ساتھ بکھر جاتا ۔اسکے باوجوددین اسلام میں ایسی راہیں موجود ہیں کہ عورت بھی طلاق کے حق سے استفادہ کرسکتی ہے ،اپنے شوہرسے معاشرت کے ضمن میں دوراندیشی کے پیش نظر عقدنکاح کے وقت شرط رکھے کہ اگراحتمالی مشکلات میں سے کوئی مشکل پیش آئے تو طلاق جاری کرنے کی وکا لت کا حق ہوگا یایہ شرط رکھے کہ اگرشوہر بلاوجہ اسے طلاق دے تواس پراس کے مشکلات کوحل کرنے کی ذمہ داری ہوگی ۔

اسلامی شریعت نے اگرچہ طلاق کوقانونی حیثیت دی ہے ،لیکن اس کی غیر معمولی اورزبردست مذمت کی ہے اوربہت نصیحت کی ہے کہ اگرمسئلہ اضطرار کی حدتک نہ پہنچے تومرد اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اورازدواجی رشتہ کونہ توڑے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

''خدائے متعال کے نزدیک ناپسند ومنفورترین چیزوں میں سے ایک طلاق ہے''(۱)

اسی لئے اسلام میں طلاق کے لئے چند مشکل قوانین وضع کئے گئے ہیں،جیسے طلاق دوعادل افرادکے سامنے انجام پانا چاہئے اوران دنوں میں ہو کہ عورت اپنی عادت کے ایام میں نہ ہواور مردنے ان دنوںاس سے ہمبستری نہ کی ہو۔

اسی طرح مقرر ہوا ہے کہ اگرطرفین کے درمیان کوئی اختلاف یانزاع پیدا ہوجائے تودوافراد کوحُکُم قراردیں تاکہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کرائیں اورصرف اس صورت میں طلاق دی جائے کہ جب مصالحت کی تمام کوششیں نا کام ہوجائیں ۔

طلاق صحیح ہونے کی شرائط

اپنی بیوی کو طلاق دینے والے مرد میں درج ذیل شرائط ہونی چاہئیے :

١۔بالغ ہو۔

٢۔عاقل ہو ۔

٣۔اپنی اختیار سے طلاق د ے ۔

٤۔طلاق دینے کاقصدرکھتاہو ۔

اس بنا پر نابالغ،دیوانہ یاطلاق دینے پر مجبورشخص یامذاق میں صیغۂ طلاق پڑھنے والے کا طلاق صحیح نہیں ہے ۔

٥۔طلاق کے وقت،عورت خون حیض کو سے پاک ہونا چاہئے اور پاک ہونے کے بعد شوہر نے اس کے ساتھ ہم بستری نہ کی ہو ۔

٦۔طلاق اپنے مخصوص صیغوں میں پڑھا جائے اوردو عادل کے سامنے انجام پائے ۔

طلاق کی قسمیں

طلاق کی دوقسمیں ہیں :

١۔طلاق رجعی :یہ وہ طلاق ہے کہ مرد اپنی اس بیوی کو طلاق دے کہ جس کے ساتھ ہم بستری کی ہو ۔اس صورت میں مرد طلاق کا عدہ تمام ہونے سے پہلے رجوع کرکے نئے عقد کے بغیر ازدواجی رابطہ کو پھرسے بر قرارکرسکتا ہے ۔

٢۔طلاق بائن :یہ وہ طلاق ہے ، کہ جس میں طلاق جاری ہونے کے بعد مرد رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے ۔اس کی چند قسمیں ہیں :

الف:عورت کے ساتھ مرد کے ہمبستری ہونے سے پہلے دیاجانے والاطلاق ۔

ب:یائسہ عورت کی طلاق،یعنی وہ عورت جس میں بچہ پید اکرنے کی صلاحیت موجودنہ ہو ۔

ج:اس عورت کی طلاق جس کی عمرابھی نوسال تمام نہ ہوئی ہو ۔

مذکورہ تین قسم کے طلاقوں میں عدہ نہیں ہے ۔

د:اس عورت کی طلاق جس کو تین مرتبہ طلاق دی گئی ہو۔اس طلاق میں اس کے علاوہ کہ مرد رجوع نہیں کرسکتا ہے،اسے پھرسے اپنے عقدمیں بھی نہیں لاسکتا ہے مگر یہ کہ یہ عورت کسی دوسرے مردکے عقد دائمی میں آجائے اوراس سے ہم بستری کی جائے پھر وہ مرداسے طلاق دیدے یامرجائے تواس صورت میں عدہ تمام ہونے کے بعدپہلا شوہر اس کے ساتھ پھرسے عقد کرسکتا ہے۔

ھ۔طلاق خلع:اس عورت کی طلاق جو اپنے شوہرکو پسند نہیں کرتی ہے اوراپنامہر یاکوئی اورمال اسے بخش کر اس سے طلاق حاصل کرے ،اس کو''خلع''کہتے ہیں ۔اس طلاق میں جب تک بیوی اپنے شوہر کو بخش دئے گئے مال کامطالبہ نہ کرے ،اس وقت تک مرد رجوع نہیں کرسکتا ہے ۔

طلاق مبارات:یہ وہ طلاق ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوںاور بیوی مرد کو کچھ مال دے اوراس کے مقابلہ میں وہ اسے طلاق دے ۔اس طلاق میں بھی جب تک بیو ی ا پنے اداکئے ہوئے مال کا مطالبہ نہ کرے،مرد رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے ۔

ز۔نواں طلاق:ان شرائط کے ساتھ جو فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں، اس طلاق کے بعدعورت مرد پرہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے اورکسی صورت میں اس کے ساتھ دوبارہ ازدواجی رشتہ برقرارنہیں کرسکتا ہے ۔

عدت کے احکام اور اس کی قسمیں

جس عورت نے اپنے شو ہر کے ساتھ ہم بستری کی ہو اورازدواج کے رشتہ کو مستحکم کیا ہو، اگر اس کاشوہراسے طلاق دیدے ،تو اسے ایک معین مدت تک عدہ رکھناچاہئے،یعنی اس مدت میں ازدواج کرنے سے پرہیز کرے ۔اس کام کے دواہم نتائج ہیں :

اول یہ کہ:نطفوںکے مخلوط ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔

دوسرے یہ کہ:ممکن ہے اس مدت کے دوران میاں بیوی اپنی جدائی سے پشیمان ہوکر رجوع کریں ۔

عدہ کی مدت کے دوران مرد کو بیوی کے اخراجات کو اداکرناچاہئے اوراسے اپنے گھرسے نہ نکالے ۔اوراگریہ چوتھی بیوی تھی تو عدہ تمام ہونے تک دوسری عورت سے عقدنہ کرے۔اگرطلاق مرد کی مہلک بیماری کے دوران انجام پائے تو اس کے ایک سال کے اندرمرنے کی صورت میں بیوی اس کے ترکہ سے میراث لینے کی حقدار ہے ۔

عدت کی قسمیں

عدہ کی تین قسمیں :

١۔حاملہ عورت کا عدہ

٢۔غیرحاملہ عورت کاعدہ

٣۔عدہ وفات

ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :

١۔اگرحاملہ عورت کو طلاق دی جائے تواس کاعدہ بچہ کی پیدائش یا اسکے سا قط ہونے تک ہے۔اس بناپر اگرطلاق دینے کے ایک گھنٹہ بعداسکابچہ پیداہو جائے تو وہ دوسراشوہر کرسکتی ہے۔

٢۔جوعورت حاملہ نہ ہواوراس کی عمر پورے نوسال ہو یا یائسہ نہ ہو،جبکہ اس کے شوہرنے اس کے ساتھ ہم بستری کی ہو اور حیض کے علاوہ دنوں میں طلاق دی ہوتواسے اتنا انتظار کرناچاہئے کہ دوبارحیض دیکھے اور پاک ہوجائے اور جوںہی تیسرے حیض کودیکھے گی اس کا عدہ تمام ہو جائے گا۔

٣۔جس عورت کا شوہر مر جائے اوروہ حاملہ نہ ہوتواسے چار مہینے دس دن عدہ رکھنا چاہئے۔اگرحاملہ ہو تو اسے بچے کی پیدائش تک عدہ رکھنا چاہئے لیکن اگر چار مہینے دس دن گزرنے سے پہلے، بچہ پیدا ہوجائے تواسے اپنے شوہرکے مرنے کے دن سے چارمہینے دس دن تک انتظار کرنا چاہئے اوراسے''عدہ وفات''کہتے ہیں ۔

____________________

۱۔وسائل الشیعہ ،ج١٥ ص٢٦٦ باب ۔

اسلام میں غلامی

شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سے انسان پیداہوا ہے یہ فکر اس کے ہمراہ تھی کہ انسان کو بھی دوسری اشیاء کے ماننداپنی ملکیت قراردے سکتا ہے ۔

قدیم مصر،ھندوستان ،ایران ،عربستان ،روم ،یونان ،یورپ اور امریکہ کے تمام ممالک میں غلام بنانے کارواج تھا اوریہ رواج یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی عام تھا اسلام نے بھی اس میں کچھ تبدیلیاں لاکراسے جائز قراردیا ہے ۔

برطانیہ کی حکومت،پہلی حکومت تھی جس نے غلامی کی روش کی مخالفت کی اور١٨٣٣ئ میں سرکاری طورپر غلامی کے طرز عمل کو منسوخ کیا ۔اسکے بعدیکے بعددیگرے دوسرے ممالک نے بھی اس روش کی پیروی کی ۔یہاں تک کہ سنہ ١٨٩٠ء میں ''بروکسل''میں منعقد ایک مٹینگ میں ایک عمومی قانون کی حیثیت سے غلامی ممنوع قراردی گئی اورا س طرح دنیاسے غلام کی خریدو فروخت ختم ہوگئی ۔

غلام بنانے کے طریقے

ایسا لگتا ہے کہ یہ قدیم رسم انسان میں من مانی اوربے حساب رائج نہیں تھی کہ جوبھی چاہتا کسی دوسرے کو اپنی ملکیت میں لے لیتا ،بلکہ غلامی مندرجہ ذیل راہوں میں سے کسی ایک راہ سے انجام پاتی تھی:

١۔جنگ وفتح:قدیم الایام سے اگردوجانی دشمنوںمیں سے ایک،دوسرے پر فتح پاکر بعض افراد کو اسیر بناتا تھا ،تو وہ ان جنگی اسیروں کے لئے کسی انسانی احترام کا قائل نہیںہو تاتھابلکہ اپنے لئے ان کے ساتھ ہر طرح کابرتائو کرنے کاحق سمجھتا تھا۔یعنی قتل کرڈالے یا بخش دے یاآزاد کرے یاغلاموں کی حیثیت سے اپنے پاس رکھے اور ان سے استفادہ کرے ۔

٢۔تولید وتربیت :خاندان کے باپ ،خاندان کے سر پرست ہوتے تھے اور اپنی اولاد کو اجتماعی شخصیت کے مالک نہیں جانتے تھے بلکہ انھیں خاندان کے تابع اورمحض اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور خود کو ان کے بارے میں ہرقسم کا فیصلہ کرنے کامستحق سمجھتے تھے ۔اس لحاظ سے ضرورت کے وقت اپنی اولادکو بیچ دیتے تھے اوراسی اصل کی بنیاد پرکبھی عورتوں کو بھی بیچ دیتے تھے ۔

٣۔طاقت ور لوگ جواپنے آپ کودوسروں سے بلند سمجھتے تھے :ایسے افراداپنے حکم کولوگوں کانظم ونسق چلانے میں نافذ العمل جانتے ہوئے انھیں اپنا غلام شمارکرتے تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے قدرتمند بادشاہ اپنے کو خدائی کے قابل جان کر لوگوں کواپنی پرستش کرنے پر مجبور کرتے تھے ،یہ افراد لوگوں کو اپنا غلام بنانے میں مطلق العنان تھے اوراپنے ماتحتوں میں سے جس کو بھی چاہتے،اسے اپنا غلام بناتے تھے۔

غلامی کے بارے میں اسلام کا نظریہ

اسلام نے اپنی اولاد اور عورتوں کو بیچنے کے ذریعہ اورزبردستی اورغنڈہ گردی کے ذریعہ غلا م بنانے سے منع کیا ہے ۔اسلام کی نظرمیں ہرانسان جوانسانیت کے راستہ پرگامزن ہے اورکم از کم انسانیت کے اصول کا دشمن نہ ہو،وہ آزاد ہے اور کوئی شخص اسے اپناغلام نہیں بنا سکتا ۔

لیکن جوانسانیت کا جانی دشمن ہے اور جان بوجھ کر انسانیت کے اصول کے سامنے تسلیم نہیں ہوتا ہے اوراپنی پوری طاقت سے اسے نابود کرنے پر تلا ہوا ہے ،وہ ہرگز انسانی احترام کامستحق نہیں ہے اوراسے اپنے ارادہ وعمل میں آزاد نہیں ہونا چاہئے اورغلامی اس کے سواکچھ نہیںہے کہ انسان کے عمل وارادہ کی آزادی اس سے سلب کی جائے اوردوسرے کا ارادہ اس پر حکومت کرے اسی عالمی اصول پرجو ہمیشہ دنیا والوں کی طرف سے مورد تائید قرار پایا ہے کفارحربی سے لئے گئے جنگی اسیروں کو غلامی ،یعنی انھیں ارادہ وعمل کی آزادی سلب کرنے کی سزا دیتا ہے کیونکہ وہ انسانیت کے حقیقی دشمن ہیں۔

اسلام جو سلوک جنگی اسیروں کے ساتھ روا رکھتا تھا ، وہ وہی سلوک ہے جسے دوسرے بھی روا رکھتے ہیں ۔جب کوئی ملت جنگ کے بعدفاتح ملت کے سامنے کسی قید وشرط کے بغیرہتھیار ڈالتی ہے ،تو جب تک ان کے درمیان باقاعدہ صلح بر قرار نہ ہوتب تک اسے ارادہ وعمل کی آزادی سے محروم کرنے کی سزادی جاتی ہے ۔

ان ملتوں کا اسلام کے ساتھ جوتنہا اختلاف ہے،وہ یہ ہے کہ اسلام اسے''غلامی''کے نام پر یاد کرتا ہے اور یہ قومیں اس لفظ کو استعمال کرنے سے پہلوتہی کرتی ہیں ۔البتہ جس روش کووہ زندہ اور معاشرے کے لئے راہنما جانتے ہیں اپنی تعلیمات کی بنیاد کو نام گزاری کی بنیادپر استوارنہیں کرنا چاہئے ۔

اسلام اور دوسرے نظریات کی تحقیق

گزشتہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کو منسوخ کرنے والی عام قراردادنے بجائے اس کے کہ اسلام کے کام میں کوئی گرہ لگا ئے ،ایک گرہ کو کھول دیاہے ۔حقیقت میں یہ قرار داد دین اسلام کے قوانین کی ایک دفعہ کا نفاذہے کیونکہ اس طرح عورتوں اوربچوں کو بیچنے کا موضوع ختم ہوا ہے ،اوریہ وہی چیز ہے جسے چودہ سو سال پہلے اسلام نے منسوخ کیا تھا۔اسلام نے جنگی اسیروں کی غلامی کا جو راستہ کھلا رکھا ہے ،وہ اس لئے ہے کہ انسان کو ہمیشہ اس حکم کی ضرورت ہے ،اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا .تنہا چیز جسے اسلام نے ''غلامی''کا نام دیا ہے وہ یہی جنگی اسراء ہیں ۔لیکن دوسرے لوگ ''غلامی '' کے نام کو زبان پر لائے بغیر عملاً''غلامی''کی رسم کو مستحکم کررہے ہیں ،اور جواستفادہ صدراسلام میں مسلمان (جنگی اسیروں )غلاموںسے کرتے تھے وہی استفادہ آج کی حکومتیں جنگی قیدیوں اور جنگ میں شکست کھائی ملتوں سے کرتے ہیں ۔

غلاموں کے ساتھ اسلام کاسلوک

اسلامی قوانین کے تحت،اسیر کئے گئے کفار حربی ،ممکن ہے مسلمانوں کے سرپرست اورحاکم کے حکم سے آزاد کئے جائیں یابطور غلام رکھے جائیں ۔

جنگ ہوازن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی ہزار عورتوں اور بچوں کو ایک ساتھ آزاد کیا ۔جنگ بنی المصطلق میں مسلمانوں نے کئی ہزاراسیروں کو آزاد کیا ۔

اسلام میں ،غلام ،گھر کے اعضاء کے مانند ہیں ،گھر کے دوسرے اعضاء کے ساتھ جیسا سلوک کیا جاتا ہے ویساہی برتائوان کے ساتھ بھی کیا جانا چاہئے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلاموں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام دو کرُتے خریدتے تھے،ان میں سے بہتراپنے غلام کودیتے تھے اورمعمولی کرُتے کو خودپہنتے تھے ۔

حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے غلاموں اورکنیزوں کے ساتھ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے ۔

اسلام حکم دیتا ہے کہ غلاموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں ،ان کے ساتھ سختی نہ کریں ، گالیاں نہ دیں اور جسمانی اذیتیں نہ پہنچائیں اورضرورت کے وقت ان کے ازدواج کے وسائل فراہم کریں یاخود ان کے ساتھ ازدواج کریں ۔خدائے متعال اس سلسلہ میں فرماتا ہے :

(...( بعضکم من بعض ) ...) (نساء ٢٥)

''سب ایک پیکر کے اعضاء ہیں''

اسلام میں ،غلام،اپنے مالک کی اجازت سے یادوسرے راستہ سے،مالک بن سکتے ہیں اور جس مال کے وہ مالک بن جائیں ،آزادی کے بعدان کے لئے کسی قسم کا ننگ و عار نہیں ہے ،جیسے کہ غلامی کے زمانہ میں بھی نہیں تھا .کیونکہ اسلام میں بزرگی اورفضیلت کا معیارصرف تقویٰ ہے لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص کو سب سے بہتر جانتا ہے۔اسلام کی نظرمیں ایک باتقوی غلام ہزاربے تقوی آزاد لوگوں سے بہتر ہے ۔

اسلام کی بعض عظیم شخصیتیں جیسے سلمان فارسی اوربلال حبشی آزاد کئے گئے غلام تھے .اسلام نے غلام کو آزاد کرنے کے مسئلہ کو ہمیشہ مد نظر رکھاہے اور اس کام کے لئے مختلف راستے کھولے ہیں منجملہ جرمانہ اور بعض گناہوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی کے لئے قراردیا ہے ،اس کے علاوہ غلاموں کو آزاد کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اسے اہم مستحبات میں قراردیا ہے تاکہ اس طرح ہرسال بہت سے غلام آزادہو کرآزاد معاشرے کے عضوبن سکیں ۔

نتیجہ یہ تھا کہ اسلام حتی الامکان غیراسلامی معاشروں (کفار حربی) سے ایک گروہ کو جنگی اسیروں کی صورت میں پکڑتاتھا اور انھیں حق وعدالت کے معاشرے میں داخل کرتاتھا ،ان کی تعلیم وتربیت کرتا تھا ،پھر مختلف راستوں سے آزاد کرکے اسلامی معاشرے کا حصہ بناتا تھا ۔

اس لحاظ سے جوشخص بھی جنگی اسیرہوتاتھا ،آزاد ہونے تک غلام رہتا تھا۔اگر وہ مسلمان ہونے کے فوراًبعدآزاد ہوتا ،تواس صورت میں ممکن تھا ہراسیر ہونے والا کافر، ظاہراً مسلمان ہوجاتا، اوراس طرح اپنے آپ کونجات دلاتا اورتھوڑی ہی دیر کے بعدپھرسے اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ جاتا۔