دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39259
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39259 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

عقائد

١۔توحید

٢۔نبوت

٣۔معاد

٤۔عدل

٥۔امامت

١۔توحید

اثبات صانع

انسان جب حقیقت بینی کی فطرت سے کام لیتا ہے تو عالم ھستی کے ہر گوشہ و کنار پر نظر ڈالنے سے اسے پروردگار عالم او رخالق کائنات کے وجود کی بہت سی دلیلیں نظر آتی ہیں، کیونکہ انسان اپنی حقیقت پسند انہ فطرت سے محسوس کرتاہے کہ مخلوقات میں سے ہر ایک،وجود کی نعمت سے مالامال ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے وجود میں ،قہری طور پر ایک معین راستہ کو طے کررہا ہے اورایک مدت کے بعدوہ اپنی جگہ کو دوسرے کے لئے چھوڑتاہے، اس نے ہر گز اپنے اس وجود کو خودہی اپنے لئے فراہم نہیں کیا ہے او رجس منظم راہ پر گامزن ہے ، اسے خودہی اپنے لئے نہیں بنایا ہے اوراپنے سفر کے راستہ کی ایجاد اور اس کے نظم و نسق میں کسی قسم کی مداخلت نہیں رکھتا، کیونکہ انسان نے، انسانیت اور انسانی خصوصیات کو اپنے لئے خود اختیار نہیں کیا ہے، بلکہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور انسانی خصوصیات اسے عطا کی گئی ہیں۔

اسی طرح حقیقت پسندانہ انسانی فطرت اس بات کو قبول نہیں کرتی ہے کہ یہ سب اشیاء خودبخود وجود میں آئی ہوں گی اور کائنات میں موجود نظام یوں ہی کسی حساب و کتاب کے بغیر وجود میں آگئے ہوں گے، جبکہ انسان کا ضمیر اس قسم کے اتفاق کو منظم طور پر ایک دوسرے کے اوپر چنی گئی چند اینٹوں کے بارے میں قبول نہیں کرتا۔یہاں پر انسان کی حقیقت پسندانہ فطرت اعلان کرتی ہے کہ عالم ھستی کی ضرور کوئی پناہ گاہ ہے ،جوھستی کا سر چشمہ ،اور کائنات کو پیدا کرنے اوراسے باقی رکھنے کے لئے اس کی حفاظت کرنے والا ہے ،اور وہ لا محدودوجود اور علم و قدرت کاسر چشمہ،خدائے متعا ل کی ذات ہے ،اور اس کائنات کے وجود کا سر چشمہ خدا کی ذات ہے ،چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے :

( الّذی اعطی کل شی ء خلقه ثم هدی ) (طہ٥٠)

''(خالق کائنات)وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے ۔''

اسی فطرت کی وجہ سے،جہاں تک تاریخ بتاتی ہے ،انسانی معاشرہ کی اکثریت ،کائنات کیلئے ایک خدا کے قائل رہے ہیں اور اسلام کے علاوہ دوسرے تمام ادیان جیسے نصرانیت، یہودیت ،مجوسیت اور بدھ مت اس سلسلہ میں ہم عقیدہ ہیں اور جو پروردگار کے وجود کے مخالف ہیں ،ان کے پاس اسکے وجود کے انکار کے سلسلہ میں ہرگز کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ کہتے ہیں کہ:ہم پروردگار کے وجود کی کوئی دلیل نہیں رکھتے یہ نہیں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کے عدم وجود کی کوئی دلیل ہے ۔

مادہ پرست انسان کہتاہے :''میں نہیں جانتا''یہ نہیں کہتاہے''نہیں ہے''دوسرے الفاظ میں مادہ پرست انسان مذبزب ہے نہ منکر۔

خدائے متعال اپنے کلام میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وقالوا ما هی الّا حیاتنا الدّنیا نموت ونحیا وما یهلکنا الّا الدّهر وما لهم بذلک من علم ان هم الا یظنون )

(جاثیہ٢٤)

''اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف زندگانی دنیا ہے اس میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے اور انھیں اس بات کاکوئی علم نہیں ہے کہ یہ صرف ان کے خیالات ہیں اور بس۔''

ابتدائے خلقت کی بحث

انسان اپنی خداداد فطرت سے ہر مظہر وحادثہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے وجود میں آنے کی علت تلاش کرتا ہے اور ہرگز احتمال نہیں دیتا ہے کہ کوئی چیز خودبخوداور کسی سبب کے بغیر وجودمیں آئی ہوگی ۔اگرکسی ڈرائیور کی گاڑی خراب ہوجاتی ہے تو وہ گاڑی سے اتر کرگاڑی میں اس جگہ کو دیکھتا ہے جہاں خراب ہونے کا احتمال ہو تاہے تاکہ گاڑی کے رکنے کاسبب معلوم کرسکے اوراسے ہرگز یقین نہیں ہوتا ہے کہ گاڑی خرابی کے بغیر ر ک گئی، اور گاڑی کو پھر چلانے کے لئے اس کے تمام وسائل سے استفادہ کرتا ہے اور ہرگز اس اتفاق کا منتظر نہیں رہتا ہے کہ گاڑی خودبخود چلے گی۔

انسان کو اگر بھوک لگ جائے تو وہ روٹی کی فکر میں پڑتاہے اورجب اسے پیاس لگتی ہے تو پانی تلاش کرتا ہے اور اگر سردی محسوس کرتاہے تولباس اور آگ ڈھونڈتا ہے ۔وہ کبھی کسی اتفاق کے ذریعہ ان ضرورتوں کو دور کرنے کا انتظار نہیں کرتا اور اس خوش فہمی میں آرام سے نہیں بیٹھتا۔

جوشخض کسی عمارت کو تعمیر کرنا چاہتا ہے وہ لامحالہ اس کے سازوسامان ،معماراور مزدور وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اوروہ بالکل یہ امید نہیں رکھتا کہ اس کی آرزو خودبخود پوری ہوجائے۔ انسان جب سے ہے اسی وقت زمین پر پہاڑ،جنگل ، وسیع دریا اورسمندر موجود ہیں۔اور اس وقت سے سورج ،چاند اورچمکنے ہوئے ستاروں کو آسمان پرمنظم اورمسلسل متحرک دیکھ رہاہے ۔اس کے باوجوددنیا کے سائنسدان اپنی انتھک علمی کوشش اور تگ دو سے مخلوقات اور حیرت انگیزمظاہر کے وجود میں آنے کے اسباب وعلل کے بارے میں بحث کررہے ہیں اور وہ ہر گز یہ نہیں کہتے کہ جب سے ہم ہیں اسی وقت سے ان کواسی طرح دیکھ رہے ہیں،لہذایہ خودبخودپیدا ہوئے ہیں۔

اسی جستجو کی فطرت اور اسباب وعلل کی بحث و تحقیق نے انسان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ عالم ہستی اور اس کے حیرت انگیز نظام کی پیدائش کے بارے میں کھوج کرے کہ کیا یہ وسیع کائنات ،جس کے اجزاایک دوسرے سے مربوط ہیں اور حقیقت میں ایک عظیم مظہر ہے ،خودبخود وجود میں آیا ہے یا اس کا سر چشمہ کہیں اور ہے ؟اور کیا یہ حیرت انگیز نظام ،جو ثابت اور بلا استثناء قوانین کے مطابق کائنات کے گوشہ وکنار میں جاری ہے اور ہرچیز کو اس کے خاص مقصد کی طرف راہنمائی کرتا ہے ،ایک بے انتہا قدرت اور علم کی طرف سے جاری اور اس کا نظام چلایا جاتا ہے،یاکسی حادثہ اور اتفاق کے نتیجہ میں پیدا ہواہے ؟

معرفت خدا اور ملتیں

ہم جانتے ہیں کہ عہد حاضر میں روئے زمین پر دین داروں کی اکثریت ہے،اور وہ خالق کائنات پراعتقاد رکھتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں ۔کل کے انسان کی حالت بھی آج کے انسان کی سی تھی ،جہاں تک تاریخ بتاتی ہے ،وہ یہ کہ انسانوں کی اکثریت دین دار تھی اوروہ کائنات کے لئے ایک خدا کے قائل تھے ۔

اگر چہ خداشناس اور دین دارمعاشروں میں ،فکری اختلاف بھی تھااور ہر قوم چشمہ تخلیق کو مخصوص اوصاف سے متصف کرتی تھی ،لیکن اصل مقصد میں وہ اتفاق نظر رکھتے تھے ،حتی قدیم ترین تمدن کے آثار جنھیں انسان نے کشف کیاہے ،ان میں دین اور خداشناسی کی علامتیں پائی جاتی ہیںاور ایسی علامتیں بھی ملی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماورائے طبیعت پر بھی اعتقاد وایمان رکھتے تھے ۔حتی جدید بر اعظموںجیسے امریکہ اورآسٹریلیا اور قدیمی براعظموں کے دور دراز جزائرجو آخری صدیوں میں کشف ہوئے ہیں ،ان کے اصل باشندے بھی خدا کے معتقد تھے،اور وہ تصور کائنات کے سلسلہ میں اختلافات نظر کے با وجود کائنات کا ایک سرچشمہ تسلیم کرتے تھے اگر چہ قدیم دنیاسے ان کے رابطہ کی تاریخ معلوم نہ ہو سکی ۔

اس بات پر غور کرنا کہ خدا کا اعتقاد انسانوں کے درمیان ہمیشہ سے موجود تھا ،اس مطلب کو واضح کر تا ہے کہ خدا کو پہچانناانسان کی فطرت ہے اور انسان اپنی خداداد فطرت سے ،کائنات کی تخلیق کے لئے ایک خدا کو ثابت کرتا ہے۔خدائے متعال نے انسان کی اس فطری خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

( ولئن سأ لتهم من خلقهم لیقو لن اللّه ) (زخرف٧٨)

''اگر ان سے پوچھ لوگے کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقینا کہیں گے خدانے''

نیز فرماتا ہے:

( و لئن سالتهم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن اللّه )

(لقمان٢٥)

''اگر ان سے پوچھ لوگے کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقینا کہیںگے : خدا''

انسان کی زندگی میں تجسس کا اثر

اگر انسان نے خالق کائنات اور اس کے نظام کے پیدا کرنے والے ۔جو کہ اس کی فطرت کا اقتضاء ہے ۔کے بارے میں مثبت جواب دیا ،تو اس نے کائنات اور اس کے حیرت انگیز نظام کی پیدائش کے لافانی مبداء کو ثابت کیا اوراس نے تمام چیزوں کو خدا کے محکم ارادہ سے جو اسکی لامحدود قدرت وعلم پرمبنی ہے ۔اور نتیجہ میں وہ پورے وجود میں ا یک قسم کے اطمینا ن واعتماد کو محسوس کرتا ہے۔اوروہ اپنی زندگی میں رونما ہونے والی ہر قسم کی مشکلات اور سختیوں سے دوچارہونے پرہرگز نا امیدنہیں ہوتا ہے بلکہ ان سے نپٹنے کے لئے ہر قسم کی تدبیر سے کام لیتا ہے ،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کوئی بھی علت وسبب۔ خواہ وہ کتناقوی ہو۔ اس کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے اور ہر چیز اس کے زیر فرمان ہے ۔

ایسا شخض کبھی اسباب وعلل کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا اور جب کبھی دنیا کے حالات اس کے مطابق ہوتے ہیں تو غرور و تکبر سے اس کادماغ خراب نہیں ہوتا اوروہ اپنی اورکائنات کی حقیقی حیثیت کوفراموش نہیں کرتا ،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ظاہری اسباب وعلل خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق حکم خدا سے ہے ۔آخر کار ایسا انسان یہ جان لیتا ہے کہ عالم ہستی میں خدائے متعال کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے اور خدا کے فرمان کے علاوہ کسی بھی فرمان کے سامنے مطلق طورپر تسلیم نہیں ہونا چاہئے ۔لیکن جس نے مذکورہ سوالات کا منفی جواب دیا ،وہ اس امید اور حقیقت پسندی عالی منشی اور فطری شجاعت کا حامل نہیں ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جن ملتوں میں مادیت کا غلبہ ہے وہاں روز بروز خود کشی کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں ،اور جن کااعتقاد حسی اسباب و علل تک محدود ہو وہ چھوٹے سے چھوٹے نامناسب حالات کے رونما ہونے پراپنی سعادت و کامیابی سے نا امید ہو کر اپنی زندگی کاخاتمہ کردیتے ہیں،لیکن جو لوگ خدا شناسی کی نعمت سے مالامال ہیں،وہ موت کے دہانے پربھی نا امید نہیں ہوتے ،کیونکہ وہ خدائے قادر وبینا پر ایمان رکھتے ہیں ،اس لئے مطمئن و امید وار ہوتے ہیں ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جبکہ چاروں طرف سے دشمن کے تیر وتلوار کا نشانہ بنے ہوئے تھے ،فرماتے ہیں :

''تنہا جو چیز اس ناگوار مصیبت کو میرے لئے آسان بنا رہی ہے ،وہ یہ ہے کہ میں خدائے متعال کو مستقل اپنے اعمال پر ناظر دیکھتا ہوں ۔''

توحید کے بارے میں قرآن مجید کا اسلوب

اگر انسان پاک طبیعت اور مطمئن دل سے ،کائنات پر نظر ڈالے تو اس کے ہر گوشہ وکنار میں وجود خدا کے آثار ودلائل کا مشاہدہ کرے گا اور اس حقیقت کے ثبوت میں ہر در و دیوار سے گواہی سن لے گا ۔ اس دنیا میں جو چیز بھی انسان کے سامنے آتی ہے وہ خدا کی پیدا کی ہوئی اور مظہر ہے،یا کوئی خاصیت خدانے اس میں پیدا کردی ہے ،یاایک ایسا نظام ہے جو خدا کے حکم سے ہر چیز میں جاری ہے اورانسان بھی انہی میں سے ایک ہے اوراس کاپورا وجود اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے ،کیونکہ نہ اس کااپنا وجوداپنے آپ سے ہے اورنہ ہی اس سے ظاہر ہونے والی خاصیتیں اس کے اختیار میں ہیں اورنہ اس نے اپنی زندگی کی اس نظام کو خود بنایا ہے جو اس کی پیدائش سے ابھی تک جاری ہے اوروہ یہ فرض کرسکتا ہے کہ اس کائنات کا نظام اتفاقی طور پر وجود میں آگیا ہے ،اورنہ ہی وہ اپنے وجود اور اپنے وجود کے نظام کو اس ما حول کی طرف نسبت دے سکتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے ،کیونکہ مذکورہ وجوداور یہ نظام خود اس ماحول کی پیداوار نہیں ہے اورنہ وہ اتفاقاً وجود میں آیا ہے۔

یہاں پر انسان کو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ عالم ھستی کے لئے ایک سرچشمہ تسلیم کرے جو اشیا کو خلق کرنے والا اور ان کی پر ورش کرنے والا ہے ۔وہی ہر مخلوق کو پیدا کرتا ہے اوراس کے بعد بقا اورایک خاص نظا م کی شاہراہ پراس کے مخصوص کما ل کی طرف ہدایت کرتا ہے ،چونکہ انسان عالم ھستی میں اشیا ء کو آپس میں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک خاص نظا م سے منسلک پاتا ہے ،اس لئے مجبورا فیصلہ کرتا ہے کہ خلقت کاسرچشمہ اور اس کے نظام کو چلانے والا ایک ہی ہے۔

انسان پر یہ حقیقت معمولی توجہ سے واضح ہوجاتی ہے، اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایاجاتا۔ سوائے اس کے کہ انسان کبھی زندگی کی کشمکشوں میں ایسا گرفتار ہوتاہے کہ اپنی عقل و شعور کی تمام توانائیوں کو حیاتی مبارزوں کی راہ میں استعمال کرتاہے اور اپنے تمام وقت کو زندگی کی دوڑ دھوپ میں صرف کرتاہے، اور اس قسم کی چیزوں کے بارے میں غور کرنے کی تھوڑی سی بھی فرصت نہیں نکال پاتا اور نتیجہ میں اس حقیقت سے غافل رہتاہے، یا یہ کہ طبیعت کے دل فریب مظاہر سے متاثر ہو کر ہوس رانیوں اور عیاشیوں میں سرگرم ہوتاہے۔ چونکہ ان حقائق کی پابندی انسان کو بہت سی مادی لاابالیوں سے روکتی ہے، اس لئے وہ فطری طور پر ان حقائق کی تحقیق کے سلسلہ میں پہلوتہی کرتا ہے اور اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔

اس لئے قرآن مجید میں مخلوقات کی پیدائش اور ان میں جاری نظام کے بارے میں گوناگون طریقوں سے بہت زیادہ توجہ دلائے گئی ہے اور برہان و دلائل پیش کئے گئے ہیں ، کیونکہ اکثر لوگ خاص کروہ لوگ جو فطرت کے دل فریب مظاہر کے شیفتہ ہو چکے ہیں اوروہ اپنی زندگی کی سعادت و کامیابی کو عیاشیوں و خوش گزرانیوںمیں پاتے ہیں، ا ور مادیات و محسوسات سے انس و محبت کی وجہ سے فلسفی فکر او رنظریات کی عقلی تحقیق سے محروم ہیں۔

لیکن انسان ہر حالت میں عالم ھستی کا ایک جزو ہے اور کائنات کے دیگر اجزاء اور اس میں جاری جزئی او رکلی نظاموں سے ایک لمحہ بھی بے نیاز نہیں ہے، اور ہر لمحہ اپنے ذہن کو عالم ھستی اور اس میں جاری نظام کی طرف متوجہ کر سکتا ہے ، اور کائنات کے خالق کے وجود کو پاسکتا ہے۔ خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتاہے:

( اِنَّ فی السمٰوات و الارض لَایٰتٍ للمومنین، و فی خلقکم و ما یبثُّ من دابّة آیٰت لقوم یوقنون و اختلاف الّیل و النّهار و ما انزل اللّه من السمآء من رزق فاحیا به الارض بعد موتها و تصریف الریح ء اٰیٰت لقوم یعقلون ) (جاثیہ٣۔٥)

''بیشک آسمانوں او رزمینوں میں صاحبان ایمان کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ اور خود تمہاری خلقت میں بھی او رجن جانوروں کو وہ پھیلاتا رہنا ہے ان میں بھی صاحبان یقین کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔اور رات دن کی رفت و آمدہیں او رجو رزق خدانے آسمان سے نازل کیا ہے، جس کے ذریعہ سے مردہ زمینوں کو زندہ بنایاہے اور ہواؤں کے چلنے میں اس قوم کے لئے نشانیاں پائی جاتی ہیں جو عقل رکھنے والی ہے۔''

مثال اورو ضاحت

قرآن مجیدمیں آیتیں ہیں،جن میں انسان کو چاند،ستاروں،زمین ،آسمان ،سورج ،پہاڑوں، دریاؤں،نباتات، حیوانات او رخودانسان کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کا جو حیرت انگیز نظام ہے اس کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔

حقیقت میں کائنات کا نظام ، جو کائنات کی گوناگون سرگرمیوں کو خلقت کے مقاصد اور کائنات کے اہداف کی طرف بڑھاتاہے، وہ نہایت ہی حیرت انگیز او رتعجب خیز ہے۔ گیہوںکا ایک دانہ یا بادام کی ایک گٹھلی زمین سے اگنے کے بعد ایک پودے یا میوہ داردرخت میں تبدیل ہوجاتاہے۔ اوریہ دانہ یا گٹھلی مٹی میں قرار پانے کے بعد شگافتہ ہو کراس کی سبز نوک باہر نکلتی ہے اور اس میں جاتی ہے، جب یہ پودا اپنے مقصد کی منزل تک پہنچتا ہے تو اس دوران مختلف ا ور عظیم نظام سرگرم ہوتے ہیں کہ جن کی عظمت و وسعت کا مشاہدہ کرکے عقل متحیر ر ہ جاتی ہے۔

ستارے، آسمان اور چمکتا ہواسورج او ردرخشان اور زمیں ہر ایک اپنی وضعی وانتقالی گردشوں او راپنے اندر پوشیدہ توانائیوں سے اور اسی طرح اس دانہ یا گٹھلی میں قرار دی گئی ، پر اسرار طاقتیں ، اور سال کے موسم، اور ان کے حالات، ابرو ہوا اور بارش ،ا ور شب و روز، گندم کے ایک پودے کے اگنے میں مدد کرتے ہیں ،اس نئے پودے کو پرورش کے لئے اپنے گہوارہ میں سلاتے ہیں ،دایااور نرسوں کے مانندایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیںیہاں تک کہ یہ دانہ اپنی بالیدگی ورشد کے آخری مرحلہ تک پہنچ جائے۔

یہی مثال انسان کے ایک نو مولودبچے کی ہے کہ جس کا نظام پیدائش ایک پودے یاکسی دوسر ی چیز کی پیدائش سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔یہ خلقت کے منظم وپیچیدہ نظام کے لاکھوں بلکہ کروڑوں سا ل کی سرگر میوں کا ماحصل ہے ۔

ایک انسان کی روز مرہ کی زندگی کی گردش۔ اپنے وجود سے باہر عالم ھستی سے رکھنے والے رابطہ کے علاوہ ۔اپنے وجود کے اندر ایک حیرت انگیزنظام سے نشاط سے مربوط ہے کہ دور اندیش سائنسدانوں کی فکریں صدیوں سے مسلسل ان کے ظاہر کا مشاہدہ کرنے میں سر گرم عمل رہی ہیں اور ہر روز ان اسرار سے پردہ اٹھا یا جاتا ہے اور ابھی بھی ان کی معلو مات مجہو لات کی نسبت بہت کم ہیں ۔

قرآن مجید کی نظر میں خداشناسی کا طریقہ

جس شیر خوار بچہ نے دودھ پینے کے لئے ماں کا پستان پکڑرکھا ہے اور دودھ پی رہا ہے، حقیقت میں وہ دودھ چاہتا ہے ،اس کے علاوہ اگر کسی چیز کو ہاتھ میں اٹھا تا ہے تواسے کھانے کے لئے اپنے منہ تک لے جاتا ہے ،در اصل اس چیز کو اس نے کھانے کے لئے اٹھا یا تھااور جو ں ہی احساس کرتا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے اور اٹھائی ہوئی چیز کھانے کی نہیں ہے ،تو اسے پھینک دیتا ہے ۔

اسی تر تیب سے ،انسان جس مقصد کے پیچھے دوڑتا ہے ،اصل میں وہ حقیقت کو چاہتا ہے، اگر اس کے لئے واضح ہو جائے کہ اس نے غلطی کی ہے اور غلط راہ پر چلا ہے ،تو اپنی غلطی اور خطاسے ناراض ہو تا ہے اورغلط مقصد کی راہ کی محنت پر افسوس کرتا ہے اور مختصر یہ کہ انسان ہمیشہ اشتباہ اور خطا سے پر ہیز کرتا ہے اور حتی الامکان حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔

یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان فطرت اور جبلت کی رو سے حقیقت پسند ہے ، یعنی لامحالہ ہمیشہ حقیقت کی جستجو اور حق کی پیروی کرنے والا ہو تا ہے ،اس نے اس فطری عادت کو کسی سے یاد اور کہیں سے نہیں سیکھا ہے ۔

انسان اگر کبھی سخت رویہ اختیار کر کے حق کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا ہے ،وہ اس لئے ہے کہ وہ خطا واشتباہ سے دو چار ہوتا ہے اور حق و حقیقت اس کے لئے واضح نہیں ہوتی ہے اگر اس کے لئے حق واضح ہو تاتو غلط راستہ پر نہ چلتا ۔

کبھی انسان نفسانی خواہشات کی پیروی میں ایک قسم کی دماغی بیماری سے دو چار ہوتا ہے اور حق کی شیرینی کا مزہ اس کے منہ میں کڑوا بن جاتا ہے ،اس وقت حق کو جانتے ہوئے بھی اس کی پیروی نہیں کرتا ہے ۔اس کے باوجود کہ وہ حق کی حقانیت اور یہ کہ اسے اس کی پیروی کرنی چاہئے ،کااعتراف کرتا ہے ،لیکن اسکی اطاعت کرنے سے سر کشی کرتا ہے۔ چنانچہ بہت سے ایسے اتفاقات بھی ہو تے ہیں کہ انسان مضر اورنقصان دہ چیزوں کا عادی ہو کر ،اپنی انسانی فطرت ،جوکہ خطرہ اورضررسے محفوظ رکھتی ہے ،کو پامال کر تا ہے ،اور ایک ایسے کام کو انجام دیتا ہے ،جس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ نقصان دہ ہے۔ (جیسے :سگریٹ ،شراب اور نشہ آور چیزوں کے عادی لوگ )قرآن مجید انسان کو حق پسندی اور حق کی پیروی کر نے کی دعوت دیتا ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ تاکید کرتا ہے اور گوناگون بیانات کے ذریعہ انسان سے درخواست کرتا ہے کہ حق پسندی اور حق کی پیروی کی فطرت کو اپنے اندر زندہ رکھے۔

خدائے متعال فرماتا ہے:

( فماذا بعد الحق الا الضلل ) ۔ (یونس٣٢)

''اورحق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔''

( والعصر انّ الانسان لفی خسر الّا الذین ء آمنوا وعٰملوا الصّٰلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصّبر ) (عصر ١۔٣)

''قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میں ہے ۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کوحق اور صبر کی وصیت ونصیحت کی۔''

واضح ہے کہ خداوند عالم کی یہ ساری تاکید یں اس لئے ہیں کہ اگر انسان اپنی حقیقت پسندی کی فطرت کو زندہ نہ رکھے اور حق و حقیقت کی پیروی کی کوشش نہ کرے تو اپنی سعادت و کامیا بی کا پابند نہ ہو گا اور وہ نفسانی خواہشات اوراپنی مرضی کے مطابق جوچاہے گا کہے گا اور جو چاہے گا کرے گا۔ اور غلط تصورات اور خرافی افکار میں گرفتار ہو گا اور اس وقت ایک چوپایہ کی طرح اپنی راہ ( جو انسانی سر مایہ ہے) سے بھٹک کر ، ہوا و ہوس ،لا ابا لی اور اپنی نادانی کی پھینٹ چڑھ جائیگا ۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( ارء یت من اتّخذ الٰهه هوٰه افانت تکون علیه وکیلا ٭ ام تحسب ان اکثر هم یسمعون او یعقلون اِنْ هم الّا کالانعام بل هم اضلّ سبیلا ) (فرقان ٤٣،٤٤)

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنا لیا ہے،کیاآپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں ؟کیاآپ کاخیال یہ ہے ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے؟ ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ گم کردہ راہ ہیں ۔''

البتہ جب انسان کی حقیقت پسندانہ فطرت زندہ ہو تی ہے اورحق کی پیروی کرنے کی عادت اس میں کارفرما رہتی ہے ،تو یکے بعد دیگرے اس کے لئے حقائق واضح ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ جس حق وحقیقت کو پالے گا اسے دل سے قبول کرے گا اور سعادت و خوشبختی کی راہ میں روزبروز آگے بڑ ھتا چلاجائے گا ۔

خداوندمتعال تمام صفات کمالیہ کا مالک ہے

کمال کیا ہے؟

ایک گھر کو اس وقت کامل گھر کہہ سکتے ہیں ،جب ایک گھرانے کی ضروریات زندگی کے تمام چیزیں اس میں موجود ہوں ،چنانچہ اس میں مہمان خانہ،باو رچی خانہ ،غسل خانہ وغیرہ کے لئے کافی کمرے موجود ہوں ،جس گھر میں جس قدر یہ وسائل کم ہوں اسی قدر اسے ناقص سمجھا جائے گا ۔

اسی طرح ایک انسان میں اس کی فطری خلقت کے مطابق جن چیزوں کا موجود ہونا ضروری ہے ،اگر وہ سب اس میں پائی جاتی ہوں تو وہ کامل ہے ،اگر ان میں سے کسی ایک کی کمی ہو، یعنی وہ ہاتھ ،پائوں یا آنکھ سے محروم ہو تو اسی ا عتبارسے ناقص سمجھا جائے گا ۔

لہذامذکورہ بیان سے معلوم ہواکہ صفت کمال وہ چیز ہے کہ جو خلقت کی ضرور توںکو پیداکرتی ہے اوراس کے نقص کو دو ر کرتی ہے ،علم کی صفت کے مانند کہ جہل کی تاریکی کو دور کر کے عالم کے لئے معلوم کو واضح کردیتا ہے اور'' قدرت''کہ صاحب قدرت شخص کے مقاصد اور ا غراض کو ممکن بنادیتی ہے اور اسے ان پر مسلط کر دیتی ہے ا یسے ہی دوسرے صفات ہیں جیسے صفت حیات وغیرہ ۔

ہماراضمیر فیصلہ کر تا ہے کہ خالق کائنات ( جو ھستی عالم اور مخلو قات عالم کا سر چشمہ ہے، ہر فرض کی گئی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور ہر نعمت وکمال کو فراہم کرتا ہے) تمام صفات کمال کا مالک ہے ، کیونکہ ایک حقیقت پسندنظر کے مطابق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص ا یسی نعمت کسی کو بخش دے جوخودنہ ر کھتاہویا جس عیب میں وہ خود مبتلا ہو دوسروں سے اس کو دور کرے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں اپنے تمام صفات کمال کی ستائش کرتا ہے اور خود کو ہر قسم کے عیب ونقص سے پاک ومنزہ قرار دیتاہے:

( وربّک الغنیّ ذوالرّحمة ) (انعام ١٣٣)

''تیرا پروردگار بے نیاز اور مہر بان ہے''

( اللّه لا اله الّاله هوله الاسما ء الحسنی ) (طہ ٨)

''وہ اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے،اس کے لئے بہترین نام ہیں ۔''

وہ زندہ، عالم،د یکھنے والا،سننے والا،قادر،خالق اور بے نیاز ہے ، پس خدائے متعال کو تمام صفات کمال کا مالک اور اس کی ذات اقدس کو ہر صفت نقص سے پاک و منزہ جاننا چاہئے ،کیونکہ اگر اس میں نقص ہو تا تو اسی لحاظ سے نیاز مند ہوتا اور اس اعتبارسے اس سے بالاتر کسی اور خدا کو ہونا چاہئے تھا جو اس کی نیاز مندی کو دور کر سکتا ۔

( سبحانه وتعالی عمّا یشرکون ) (یونس ٥)

''وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند وبرتر ہے''

توحید اور یکتائی

( لوکان فیهما آلهة الّا اللّه لفسد تا ) (انبیاء ٢٢)

'' یاد رکھو اگر زمین وآسمان میں اللہ کے علاوہ اور خدا بھی ہوتے تو زمین و آسمان دونوں بر باد ہو جاتے۔''

وضاحت

اگر کائنات پر کئی خدائوںکی حکومت ہوتی ،جیسا کہ بت پرست کہتے ہیںکہ کائنات کے ہر شعبہ کاایک الگ خدا ہے ۔ز مین وآسمان اور دریا و جنگل کا الگ الگ خدا ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کائنات کی ہر جگہ پر خدائوں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے الگ الگ انتظام بر قرار ہو تا اور اس صورت میں کائنات کا کام لامحالہ تباہی وبر بادی سے دوچار ہوتا ،چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کے تمام اجزاء آپس میں ھم آہنگ اور مکمل طور پر موافق ہیں اور سب مل کر ایک نظام کو تشکیل دیتے ہیں ،اس بناپر، کہنا چاہئے کہ خالقِ کائنات ایک سے زیادہ نہیں ہے۔

یہاں پر یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ فرض کئے گئے خدا، چونکہ عاقل ہوں گے اور وہ جانتے ہوں گے کہ ان کا اختلاف کائنات کو تباہی وبربادی کی طرف لے جائے گا،لہذا وہ ہر گز آپس میں اختلاف نہیں کریں گے ،کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے کے کام میں مؤثر ہوں گے اور ہر ایک دوسرے کی موافقت اور اجازت کا محتاج ہو گا اور اکیلے ہی کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ۔ جب کہ خدائے تعالی کو ا حتیاج سے منزہ وپاک ہونا چاہئے ۔

خدائے متعال کا وجود،قدرت اور علم

اس وسیع وعریض کائنات کے آپس میں ملے ہوئے اجزاء ،اور اس کی عام اورحیرت انگیز گردش، اور کائنات کے گوشہ وکنار میں جاری، آپس میں مرتبط اور آنکھوں کو خیرہ دینے والے جزئی نظام اور نتیجہ کے طور پر مختلف انواع کے مظاہر اپنے خاص مقصد کی طرف، انتہائی نظم وتر تیب کے ساتھ حرکت میں ہیں ،یہ نظم ہر عقلمند انساں کے لئے واضح کر دیتا ہے کہ عالم ھستی اور جو کچھ اس میں ہے اپنے وجود وبقا کے لئے ایک لا فانی وجود سے متصل ہیں ،جس نے اپنی لا محدود قدرت و علم سے کائنات اور کائنات میں مو جود ہر شئے کو خلق کیا ہے اوراپنی ہر مخلوق کو پرورش کے گہوارہ میں قرار دیا ہے اور اپنی خاص عنایتوں سے ان کے مطلوب کمال کی طرف ابھار تا ہے ِیہ وہی ہے جس کی ھستی لافانی ہے اور ہر چیز کو جانتاہے اور اس پر قادر ہے،خدائے متعال فرماتا ہے :

( له ملک السمٰوات والارض یحی ویمیت وهو علی کل شیء قدیر٭هوالاوّل والاٰخر والظّاهر والباطن وهو بکل شی ء علیم ) (حدید٣٢)

''آسمان وزمین کا کل اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی حیات وموت کا دینے والا ہے اور ہر شے پر اختیار رکھنے والا ہے ۔وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہر ہے وہی باطن اور وہی ہر شے کا جاننے والا ہے۔''

خدا کی قدرت

( وللّه ملک السمٰوات والارض وما بینهما یخلق ما یشآء واللّه علی کل شی ء قدیر ) ( مائدہ ١٧)

''اور اللہ ہی کے لئے زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی کل حکومت ہے۔وہ جیسے بھی چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے ''

وضاحت

جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص موٹر کار خرید نے کی قدرت رکھتا ہے ،تو ہمارا مقصد یہ ہو تا ہے ،کہ جو موٹر کار خرید نے کا محتاج ہے اس کے پاس اس کے خریدنے کی مالی طاقت ہے، اور اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں شخص بیس کلو گرام وزنی پتھر اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے ،تو ہمارا مقصد یہ ہو تا ہے کہ اس میں بیس کلو گرام پتھراٹھانے کی طاقت موجود ہے ۔

حقیقت میں ،کسی چیز پر توانائی و قدرت ر کھنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ اس کے تمام ضروری وسائل اس کے پاس ہیں،اور چونکہ عالم ھستی میں جس وجود کو بھی فرض کیاجائے ،اس کی نیاز مندی اور زندگی کی گردش کی ضرورت خدا کے وجود سے پوری ہوتی ہے ،یہ کہنا چاہئے کہ خدائے متعال ہر چیز کی قدرت و توانائی رکھتا ہے اور اسی کی ذات پاک کائنات کا سر چشمہ ہے۔

خدا کا علم

)( لا یعلم مَن خلق ) ۔ (ملک١٤)

''کیاپیداکرنے والا نہیں جانتا ہے؟''

وضاحت

چونکہ ہرمخلوق اپنی پیدائش وھستی میں خدائے متعال کی لا محدود ذات کی محتاج ہے،اس لئے اس مخلوق اور خدا کے درمیان پردے اور رکاوٹ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے یا اس کا خداسے پو شیدہ ہونا تصور نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کے لئے ہر چیز آشکار ہے اور ہر چیز کے داخل وخارج پر تسلّط اور احاطہ کرتا ہے۔

خداکی رحمت

جب ہم ایک ناتوان محتاج کو دیکھتے ہیں ،تو اپنی توانائی کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ،یاکسی مصیبت زدہ بے چارہ کی مدد کرتے ہیں یاایک نابینا کاہاتھ پکڑ کر اسے اس کی منرل مقصود تک پہنچاتے ہیں ۔ایسے کاموں کو ہم مہر بانی اوررحمت شمار کر کے پسندیدہ اور قابل ستائش جانتے ہیں ۔

جن کاموں کو کارساز اور بے نیازخدا انجام دیتا ہے ،وہ رحمت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہ اپنی بے شمار نعمتوں کو بخش کر سبھی کو بہرہ مند کرتا ہے اور ہر بخشش سے۔خود کسی کا نیاز مند ہوئے بغیر۔مخلوقات کی ضرورتوں کے ایک حصہ کو پورا کرتا ہے ،چنانچہ فرماتا ہے:

( وإ ن تعدوا نعمت اللّه لا تحصوها ) ۔ (ابرا ھیم ٣٤)

''اگرتم اس کی نعمتوں کو شمار کرناچاہوگے تو ہر گزشمار نہیں کرسکتے۔''

( ورحمتی وسعت کلّ شیئ ) ۔ (اعراف١٥٦)

''اور میری رحمت نے تمام چیزوں کا احاطہ کیا ہے۔''

تمام صفات کمالیہ

( وربّک الغنیّ ذوالرّ حمة ) ۔ (انعام٣٤ ١)

''تمہارے پروردگار بے نیاز اور صاحب رحمت ہے''

وضاحت

کائنات میں موجود ہر خوبی اورزیبائی ،جس کمال کی صفت کے بارے میں تصور کریں ،وہ ایک نعمت ہے جسے خدائے متعال نے اپنی مخلو قات کو عطا کیا ہے اور اس کے ذریعہ خلقت کی ضرورتوں میں سے کسی ایک کوپورا کیا ہے ،البتہ اگر وہ خود اس کمال کا مالک نہ ہوتا ،تو اس کمال کو دوسروں کو بخشنے میں عاجز ہوتا اور خود بھی ضرورتوں میں دوسروں کا شریک بن جاتا ،پس خداوند عالم کے تمام صفات کمال خود اسی کے ہیں اور اس نے کوئی کمال کسی دوسرے سے حاصل نہیں کیا ہے اور اس نے کسی کے سامنے دست نیاز دراز نہیں کیا ہے، بلکہ خود تمام صفات کمال ،جیسے:حیات، علم ،قدرت وغیرہ کا مالک ہے اورتمام صفات عیب اورنیاز مندی واحتیاج کے اسباب جیسے:ناتوانی ،نادانی ،موت،گرفتاری وغیرہ سے پاک ومنزہ ہے ۔