دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 39250
ڈاؤنلوڈ: 2823

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39250 / ڈاؤنلوڈ: 2823
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

قرآن مجید، نبوت کی سند

سب سے بڑی دلیل کہ جس کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سند نبوت کے طور پر پیش کیا ہے نیز معارف اسلام یعنی اصول و فروع کے لئے ماخذ و مصدر ہے کہ جس پر سب سے زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے وہ کتاب آسمانی یعنی قرآن مجید ہے ۔

قرآن مجید ،خدائے متعال کے کلام اور خطاب کا ایک مجموعہ ہے ،جو مقام کبریائی کی عزت وعظمت کے مصدر سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور اس کے ذریعہ راہ سعادت کی نشاندہی کی گئی ۔

قرآن مجید عالم بشریت کو ایسے علمی وعملی احکام و قوانین کی نشاندہی کرتا ہے کہ جن پر عمل کر کے انسان دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کر سکتا ہے ۔

قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا معجزہ ،حجت اورایک ایسی سند وثبوت ہے جو دشمن کو ہر جہت سے عاجز اور کمزور بنا دیتا ہے اور ہر قسم کے عذر، اعتراض،نزاع اورلڑ ا ئی جھگڑے کے راستہ کو اس کے لئے بند کردیتاہے اور اپنے مقاصد کوواضح ترین صورت میں ثابت کرتا ہے ۔

قرآن مجید اپنے مقاصد میں لوگوں کو آنکھیں بند کر کے تقلید کر نے کی دعوت دینے کے بجائے اس کے ساتھ عام اور خدادادمنطق کی زبان میں بات کرتا ہے اورکچھ معلومات کی یاد دہانی کرتا ہے ،جنھیں انسان خواہ نخواہ اپنی فطرت سے درک کرتا ہے ،اوریاد دہانی کراتاہے کہ انسان کبھی ان کو قبول کرنے اور اعتراف کرنے سے پہلو تہی نہیں کرسکتا ہے۔خدائے متعال فرماتا ہے :

( نّه لقول فصل٭وماهو بالهزل ) (طارق١٤١٣)

''بیشک یہ قول فیصل ہے اور مذاق نہیں ہے ۔''

قرآن مجید ایک مطلب کو بیان کرتا ہے ،جہاں تک اس کی دلالت کی شعاعیں پھیلتی ہیں،ہمیشہ اورسبھی کے لئے زندہ وپایندہ ہے ،نہ لوگوں کی معمولی باتوں کے مانند بعض جہات سے فہم وتفکر کے ذریعہ اس پر احاطہ کیا جاسکتا ہے اور بعض لحاظ سے غفلت اور لاپر وائی کا اس میں امکان ہو،بلکہ یہ ایسے خدائے متعال کا کلام ہے جو ہرظاہروبا طن اور مصلحت ومفسدہ سے آگاہ ہے ۔

اس لحاظ سے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی حقیقت پسندانہ آنکھوں کو کھول دے اور ہمیشہ ان دوآیئہ شریفہ کو مد نظر رکھے ،خدا کے کلام کو زندہ اور پائندہ جانے ۔اورجو دوسروں نے سمجھ کر بیان کیا ہے ،اس پر اکتفانہ کرے ،آزادفکر کے راستے کواپنے اوپر بند نہ کرے، کیونکہ یہ انسانیت کا تنہا خصوصی سر مایہ ہے اور قرآن مجید اس پر عمل کرنے کی بہت تاکید کر تا ہے ۔قرآن مجید ہمیشہ اورسبھی کے لئے قول فیصل اور ایک زندہ حجت ہے اوریہ کتاب کسی خاص گروہ کے فہم تک محدود ومنحصرنہیں ہو سکتی ہے ،خدائے متعال فرماتا ہے :

( ولا یکونوا کالّذ ین اوتوا الکتٰب من قبل فطال علیهم الامد فقست قلوبهم ) ۔ (حدید ١٦)

''اوروہ(مسلمان)ان اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں ،جنھیں کتاب دی گئی توایک عرصہ گزرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے ''

قرآن مجید لوگوں سے چاہتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی طرف پلٹیں ،حق کو قبول کریں ،یعنی پہلے اپنے آپ کو بلا قید وشرط حق کو قبول کرنے پرآمادہ کریں اور جب دیکھیں کہ یہ حق ہے اور ان کی دنیوی واخروی سعادت ومنافع اسی میں ہے ،تو شیطانی وسوسوں اور ہواوہوس کی آواز کی طرف کان دھرے بغیر اسے قبول کریں ۔

اس کے بعد،اسلامی معارف کو اپنے زندہ شعور کے سپرد کریں ،اگر دیکھیںکہ یہ حق ہے اور انھیں قبول کر کے ان پر عمل کرنے میں ان کے لئے حقیقی مصلحت وآسودگی ہے تو ان کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور البتہ اس صورت میں انسانی معاشرے میں عام ہونے والی زندگی کی روش اور دین،ایسے ضوابط اور احکام ہوںگے جنھیں انسان اپنے فطری میلانات کے تحت چاہتا ہے ۔

آخر ایک یکسان روش ہوگی جس کے تمام اجزاء ومواد انسان کی خصوصی بناوٹ سے مکمل ہم آہنگ ہوں گے اورتضادوتناقض سے مکمل طورپر دور ہوںگے،نہ ایک ایسی متضاد روش جو کہیں پر معنویات سے وجود میں آتی ہو اور کہیں پر مادیات سے اور کہیں عقل سلیم کے موافق ہو اور بعض مواقع پر ہواہوس کے تابع ہو ۔خدائے متعال قرآن مجید کی توصیف میں فرماتا ہے :

(۔۔.( یهدی الی الحق والی طریق مستقیم ) (احقاف ٣٠)

''(یہ کتاب)حق وانصاف اورسیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے ''

نیز فرماتا ہے :

( انّ هذاالقرآن یهدی للّتی هی اقوم ) ۔ (اسرائ٩)

''بیشک یہ قرآن اس راستہ کی طرف ہدایت کر تا ہے جو بالکل سیدھا ہے ...''

ایک دوسری آیت میں اسلام کی اس توانائی کے سبب کو اسلام کے انسان کی خلقت کے مطابق ہونے کو بتاتاہے کیونکہ بالکل واضح ہے کہ جوروش وراستہ انسان کی فطری خواہشوں اورحقیقی ضرورتوں کو پورا کرے، وہ انسان کو بہترین صورت میں کامیاب وخوش بخت بناسکتا ہے:

( فاقم وجهک للدّین حنیفا فطرت اللّه الّتی فطر النّاس علیها لا تبدیل لخلق اللّه ذلک الدّین القیّم ) ۔ (روم٣٠)

''آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا اورخلقت الہیٰ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے ''

نیزفرماتا ہے :

(۔..( کتٰب انزلنه الیک لتخرج النّاس من الظّلمات الی النّور ) ۔ (ابراہیم ١)

''یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خداسے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے...''

قرآن مجید ،لوگوں کو ایک ایسے راستہ کی طرف دعوت دیتا ہے کہ جو خود بھی روشن ہواورمنزل مقصودکو بھی واضح طور پر دکھائے ،یہ راستہ قطعا وہی راستہ ہوگاجو انسان کی فطری خواہشات،جواسکی واقعی ضرورتیں ہیں ..کو پورا کرسکے اورعقل سلیم کی نظرسے موافق ہونا چاہئے اوریہ وہی دین فطرت ہے جسے ''اسلام ''کہتے ہیں۔

لیکن جس روش کی بنیادمعاشرہ کی ہواوہوس اور شہوانی خواہشات کے لئے یا معاشرے کے بااثر افراد کے ذریعہ رکھی گئی ہو ،اسی طرح جو روش اسلاف کی اندھی تقلید پربنی ہو، اسی طرح جو راہ وروش ایک پسماندہ اورناتواں ملت نے ایک توانا اورقدرتمند ملت سے حاصل کر کے عقل و منطق سے اس کی تحقیق کئے بغیر جو کچھ اس سے حاصل کیا ہے، اسے آنکھیں بند کرکے قبول کر کے خود کواسکے مشابہ بنائے ،ایسی روشیں تاریکی میں ڈوبنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور حقیقت میں یہ ایک ایسے راستہ پر چلنے کے مترادف ہے کہ جہاں منزل مقصودتک پہنچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ،چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے :

( او من کان میّتا فاحیینه وجعلنا له نوراً یمشی به فی النّاس کمن مثله فی الظّلمات لیس بخارج منها ) ... ) (انعام١٢٢)

''کیاجوشخص مردہ تھا پھرہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قراردیا جس کے سہارے وہ لوگوںکے درمیان چلتا ہے اسکی مثال اسکی جیسی ہو سکتی ہے جو تاریکیوں میں ہو اور ان سے نکل بھی نہیں سکتاہو...''

قرآن مجید کی اہمیت

قرآن مجید ایک آسمانی کتاب ہے جو عالمی وابدی دین اسلام کی پشت پناہ ہے ۔اس میں معارف اسلامی کے کلیات دلکش انداز میں بیان ہوئے ہیں ،اس لحاظ سے اس کی قدر وقیمت دین خدا کی قدروقیمت کے مساوی ہے ،وہ دین جس سے انسان کی حقیقی سعادت و خوشبختی وابستہ ہے ،وہ ہرچیز سے زیادہ قیمتی،اہم اوربلندہے بلکہ قدروقیمت میں کوئی چیز اس سے قابل موازنہ نہیں ہے ۔اسکے علاوہ قرآن مجید خدائے متعال کا کلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لافانی معجزہ ہے ۔

قرآن مجید کا معجز ہ

یقینا عربی زبان ،ایک قوی اور وسیع زبان ہے ،جو انسان کے باطنی مقاصد کو واضح ترین اور دقیق ترین صورت میں بیان کر سکتی ہے اور یہ اس خصوصیت میں مکمل ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے کہ عصر جاہلیت (قبل از اسلام )کے اعراب اکثر خانہ بدوش اور تہذیب وتمدن سے بے بہرہ اورزندگی کے بیشتر حقوق سے بالکل محروم تھے ۔لیکن وہ قدرت بیان اورکلام کی فصاحت وبلاغت میں ایک بلندمقام رکھتے تھے ،چنانچہ تاریخ کے صفحات میں ان کا حریف پیدانہیں کیا جاسکتا ۔

ادبیات عرب کے میدان میں ، فصیح کلام کی بہت قدروقیمت تھی اورادیبانہ اور فصیح کلام کا کافی احترام کیا جاتا تھا .اعراب جس طرح بتوں اوراپنے خدائوں کو خانہ کعبہ میں نصب کرتے تھے ،اسی طرح صف اول کے ادیبوں اورشعراء کے دلکش اشعار کو بھی کعبہ کی دیوارپر لٹکا تے تھے ۔اس کے باوجود کہ وہ ایک وسیع زبان کو ان تمام علا متوں اور دقیق قواعد وضوابط اور کم ترین غلطی اور اشتباہ سے استعمال کرتے تھے اور کلام کی فصاحت وبلاغت میں کمال دکھاتے تھے ،جب ابتدائی ایام میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن مجید کی چند آیتیں نازل ہوئیں ،تواعراب اور اس قوم کے ادیبوں اور سخنوروں میں ہلچل مچ گئی اورقرآن مجید کا دلکش اورپرُ معنی بیان کا دلوں پر ایسا اثر ہوا کہ دل والوں کواپنافریفتہ بناکر رکھدیا اور وہ ہرفصیح کلام کو بھول گئے اور نامورشعراء جو اپنے اشعار کعبہ کی دیوار پر لٹکائے تھے ، انہیں اتاردیا۔

یہ خدائی کلام ،اپنی ابدی زیبائی و دلکشی سے ہر دل کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا اور اپنی شیرین بیانی سے شیرین زبانوں پر تالا لگادیتا تھا ۔لیکن دوسری جانب مشرکوں اور بت پرستوں کے لئے انتہائی تلخ وناگوار تھا ،کیونکہ خدا کا کلام اپنے موثر بیان اور قطعی حجت سے دین توحید کو برہان واستدلال بخشتا تھا اورشرک وبت پرست کی روش کی سرزنش کر تا تھا ۔ جن بتوں کو لوگ خدا کہتے تھے ان کے سامنے نیازمندی کاہاتھ پھیلاتے تھے ، ان کی بارگاہ میں قربانیاں پیش کرتے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے ، قرآن ان کی مذمت کرتا اورانھیں پتھر اور لکڑی کے بے جان وبے فائدہ مجسمے سے تعبیر کر تاتھا ،وحشی اعراب جنہوں نے غروروتکبر میں غرق ہو کر اپنی زندگی کی بنیاد خونخواری اور ڈاکہ زنی پر ڈالی تھی ...کو حق پرستی کے دین اورعدالت وانسانیت کے احترام کی طرف دعوت دیتا تھا ،یہی وجہ تھی کہ اعراب جنگ و لڑائی کے راستہ سے سامنے آگئے اوراس شمع ہدایت کو خاموش کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کر تے رہے لیکن اپنی بے جاکوششوں میں ناامیدی و نا کامی کے علاوہ کچھ نہیں پایا۔اوائل بعثت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ولید نامی ایک ادیب اور فصاحت وبلاغت کے ماہر کے پاس لے گئے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورئہ''حم سجدہ''کی چند آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ولید اپنے تکبر وغرورکے باوجود بڑی سنجیدگی سے سن رہاتھا ،یہاں تک کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیہء شریفہ کی تلاوت فرمائی :

( فان اعرضوافقل انذر تکم صٰعقة مثل صٰعقة عاد وثمود )

(فصلت١٣)

''پھر اگر یہ اعراض کریں تو کہدیجئے کہ ہم نے تم کو ویسی ہی بجلی کے عذاب سے ڈرایا ہے جیسی قوم عاد وثمود پر نازل ہوئی تھی ۔''

جوں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی ،ولید کی حالت بگڑ گئی ،اس کابدن کاپننے لگا،اس کے ہوش اڑ گئے ،محفل درہم برہم ہوگئی ،اور لوگ متفرق ہو گئے۔

اس کے بعد،کچھ لوگ ولید کے پاس آئے اور اس سے شکوہ کیا اور کہا کہ تم نے ہمیں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے رسواکر کے رکھدیا !اس نے جواب میں کہا :خدا کی قسم ہر گز نہیں !تم لوگ جانتے ہو کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا ہوں اور کوئی لالچ بھی نہیں رکھتا ہوں اور تم لوگ جانتے ہو کہ میں سخن شناس ہوں ،جو باتیں میں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنیں ان میں لوگوں کی باتوں کی شباہت نہیں پائی جاتی ،یہ دلفریب اور دلکش کلام تھا ،نہ اسے شعر کہہ سکتے ہیں اور نہ نثر ،با معنی اور عمیق کلام ہے ۔ اگر میں اس کلام کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرنے پر مجبورہی ہوںتو مجھے تین دن کی مہلت دیں تا کہ میں اس پر غور کرسکوں ۔جب تین دن گزرنے کے بعد اس کے پاس گئے تو ولید نے کہا :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام سحر وجادو ہے جو دلوں کو اپنا فریفتہ بنا لیتا ہے۔

مشرکین ولید کی راہنمائی پر قرآن مجید کو سحر وجادو کا نام دیکر اس کو سننے سے پرہیز کرتے تھے اور لوگوں کوبھی اسے سننے سے منع کرتے تھے ،بعض اوقات جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدالحرام میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے ،تو کفا رشور مچا تے اور تالیاں بجاتے تھے تاکہ دوسرے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سن نہ سکیں۔

اس کے باوجود کہ وہ لوگ قرآن مجید کے فصیح اوردلکش بیان کے عاشق ہوئے تھے ،اکثر و بیشتر آرام سے نہیں بیٹھتے تھے اور رات کی تاریکی سے استفادہ کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی دیوار کے پیچھے جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کو سنتے تھے ،پھر سر گوشی میں ایک دوسرے سے کہتے تھے :اس کلام کو مخلوق کا کلام نہیں کہا جاسکتا ہے!خدائے متعال اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( نحن اعلم بما یستمعون به اذ یستمعون الیک واذ هم نجوی اذ یقول الظٰلمون ان تتّبعون الا رجلا مسحوراً ) (اسراء ٤٧)

''ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کرسنتے ہیں تو کیاسنتے ہیں اورجب یہ باہم رازداری کی بات کرتے ہیں تو ہم اسے بھی جانتے ہیں، یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں تم لوگ ایک جادو زدہ انسان کی پیروی کر رہے ہو۔''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،بعض اوقات کعبہ کے نزدیک لوگوں کو قرآن مجید کی تلاوت کی طرف دعوت دیتے تھے ،عرب کے سخنور جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک سے گزرتے تھے تو جھک کر گزرتے تھے۔تاکہ دیکھے اور پہچانے نہ جائیں ،چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے:

( الا انهم یثنون صدورهم لیستخفوامنه ) ۔ (ہود ٥)

''ترجمہ کا خلاصہ :وہ اپنے آپ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھپانے کے لئے جھک جاتے ہیں ۔''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمتیں کفار ومشرکین نے نہ صرف قرآن مجید کو سحر وجادو کہا ،بلکہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری دعوت کو ہی جادو کہتے تھے ۔جب بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دیتے تھے اور انھیں کچھ حقائق کی یاد دہانی کراتے تھے یاکوئی وعظ ونصیحت فرماتے تھے تو کفار کہتے تھے :''جادوکر رہاہے ''جبکہ تمام حالات میں ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے لئے ایسے مسائل کوواضح فرماتے تھے ،کہ وہ خداداد فطرت اور انسانی شعور سے ان کی حقیقت کو درک کرتے تھے اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں سیدھا اور واضح راستہ دکھاتے تھے کہ انسانی معاشرے کی سعادت وکامیابی کو جادو نہیں کہا جاسکتا ہے۔

کیا یہ کہنا جادو ہے ؟کہ''اپنے ہاتھوں سے پتھر ولکڑی کے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش نہ کرو اور اپنے فرزندوں کو انکی قر بانی نہ کرو اور خرافات کی پیروی نہ کرو ''اور کیا پسندیدہ اخلاق ،جیسے سچائی ،صحیح ،خیر خواہی ،انسان دوستی ،صلح وصفا،انصاف ، عدالت اور انسانی حقوق کے احترام کو جادو کہا جاسکتا ہے؟خدائے متعال اپنے کلام پاک میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(۔۔.( ولئن قلت انکم مبعوثون من بعد الموت لیقولنّ الّذین کفروا انّ هذالّا سحر مبین ) (ہود٧)

ترجمہ کاخلاصہ :''جب آپ کفار سے کہتے ہیں کہ :موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو جائو گے تو کہتے ہیںکہ جادو کرتا ہے''۔

قرآن مجید کی مشرکین کو مناظرہ کی دعوت

کفارومشرکین کہ جن کے دلوں میں بت پرستی نے جڑپکڑ لی تھی ،اسلام کی دعوت کو قبول کرنے اور حق وحقیقت کے سامنے ہتھیا ر ڈالنے کے لئے ہر گز تیار نہیں تھے لہذاپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تر دید کرتے ہوئے کہتے تھے :''یہ جھوٹا ہے اور جس قرآن کوخدا سے نسبت دیتا ہے ،یہ ا س کا اپنا کلام ہے''

اس تہمت کو دور کرنے کے لئے قرآن مجید نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربوں کے میدان فصاحت وبلاغت کے ہراول دستے کو مقابلہ کی دعوت دیتے ہوئے ان سے چاہا کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ان لوگوں کا شک و شبہہ صحیح ہے اور وہ سچ کہتے ہیں توقرآن مجید کے کلام کے مانند کلام لے آئیں اور اس طرح اسلام کی دعوت کے بے بنیاد ہونے کو ثابت کریں چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے :

( ام یقولون َتقَّوله بل لا یو منون ٭فلیاّ توا بحدیث مثله ان کانوا صادقین ) (طور٣٤٣٣)

''یا یہ کہتے ہیں کہ نبی نے قرآن گڑ ھ لیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگر یہ اپنی بات وںمیں سچے ہیں تو یہ بھی ایساہی کوئی کام لے آئیں ۔''

( ام یقولون افترٰیه قل فتوا بسورةٍ مثله وادعوا من استطعتم من دون اللّه ان کنتم صٰدقین ) (یونس ٣٨)

''کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبر نے گڑھ لیا ہے تو کہدیجئے کہ تم اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم الزام میں سچے ہو ۔''

کفار ومشرکین عرب ،جو سخنوری کے استاد اور ملک فصاحت و بلاغت کے فرمانرواتھے ،سخنوری میں اس تکبر وغرورکے باوجود اس دعوت کو قبول کرنے سے پہلو تہی کرتے ہوئے مقابلہ سے چشم پوشی کی اور کلام کے مقابلہ کوخونین مقا بلہ میں تبدیل کرنے پر مجبورہوئے یعنی ان کے لئے رسوائی اور مقابلہ کی نسبت قتل ہونا زیادہ آسان تھا ۔

عرب سخنور قرآن مجید کا جواب لانے سے عاجز ہوئے ،نہ صرف نزول قرآن کے زمانے میں زندگی گزارنے والے ،بلکہ جو نزول قرآن کے زمانے کے بعد پیداہوئے وہ بھی اس کا کوئی جواب نہ لا سکے اور مقابلے کے بعد شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئے ۔انسان کی فطرت ہمیشہ اس چیز کی طرف مائل ہوئی ہے کہ اس سے کوئی شا ہکار یاہنر ظاہر ہو جائے اور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے ،اگرچہ یہ کارنامہ مکہ بازی اور رسی کھینچنے کے مانند معاشرہ میں براہ راست اثربھی نہ رکھتا ہو ،پھر بھی لوگوں کی ایک جماعت اس کی جیسی مثال یااس سے بہترمثال پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے بھی گھات میں کچھ لوگ ہمیشہ رہے ہیں کہ اگر اس آسمانی کتاب سے مقابلہ کرنے کی فرصت مل جائے تو اس سے گریز نہ کریں گے۔

یہ لوگ مقابلہ سے عاجز آچکے تھے اور سحرو جادو کو بہانہ بناکر یہ نہیں کہہ سکے کہ قرآن مجید جادو ہے ،کیونکہ جادو ایک ایسا عمل ہے جو خاصیت کے مطابق حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرتا ہے ،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کے روپ میں پیش کرتا ہے اور اگر قرآن مجید اپنے زیبالحن اور فصیح نظم سے دلوں کو جذب کرتا ہے تو یہ اس کی فطری خاصیت کی زیبائی ہے اور علم جادو سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے .اگر لفظ کے ذریعہ کچھ مقاصد کی طرف دعوت دیتا ہے اور کچھ معارف کے بارے میں لوگوں کو یاد دہانی کراتا ہے کہ انسانی شعور اور خداداد فطرت سے ان کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور لوگوں کو کچھ رفتار وکردار کا جیسے :حق شناسی ،نیک نیتی ،عدل وانصاف اور انسان دوستی کو قبول کرنے پر مجبور کرے تو ان کی تعریف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔

چونکہ قرآن مجید،حقیقت کو بیان کرنے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ،اس لئے یہ لوگ عاجز ہو کر یہ بھی نہ کہہ سکے ہیں کہ قرآن مجید کلام بشر سے مافوق ہے اس لئے کہ زیبائی، دلکشی ،بلا غت اور کشش میں بے نظیر ہے اور یہ اس کے کلام خدا ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ہے ۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ ہر ایک صفت یامہارت ،جیسے جرئت ،شجاعت، پڑھنا اور لکھنا وغیرہ جو قابل ترقی ہے ، لا محالہ تاریخ بشریت میں ان میں سے ایک غیر معمولی ذہنیت والا مقابلہ میں جیت کر اول آتا ہے ،کیا حرج ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی بول چال کے اس مقابلہ میں کامیاب قرار پا کر فصاحت وبلاغت میں اول آئیں ،اس صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام باوجود اس کے کہ کلام بشر ہے نا قابل منا قشہ ہو گا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عصر سخن وروں نے یہ بات نہیں کہی اور نہ ہی قرآن مجید کے حریفوں میں سے کوئی شخص یہ کہہ سکا اور ثابت کر سکا ،کیونکہ ہر صفت یا مہا ر ت جو کسی غیر معمولی ہنر مند کے ذریعہ تر قی کے کمال تک پہنچتی ہے ،کچھ بھی آخر کار یہ ایک ایسا امر ہے جو انسان کی قابلیت اور استعداد سے وجود میں آتا ہے اور فطرت بشر کا نتیجہ ہے ،لہذا یہ کام دوسروں کے لئے ممکن ہے کہ اس غیر معمولی ذہین شخص کے نقش قدم پر چل کر ضروری سعی و کوشش کے ذریعہ اسی غیر معمولی ذہین انسان کی طرح ایک کارنامہ انجام دیں اگرچہ کسی بھی جہت سے اس سے بہتر نہ ہو۔

اس حالت میں مذکورہ غیر معمولی شخص ،جو راستہ کھولنے والا پہلا شخص ہے ،صرف پیشوااور پیش رو ہو سکتا ہے ،مثلا سخاوت میں حاتم طائی سے بلند کوئی شخص نہیں ہو سکتا ہے ،لیکن اس کے جیسا کام انجام دیا جاسکتا ہے ،خوشنویسی میں میر کے برابر اور نقاشی میں مانی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ،لیکن مناسب کوشش اور جستجو کے نتیجہ میں میر کے نہج پر ایک کلمہ لکھا جاسکتا ہے یا مانی کے اسلوب پر نقاشی کا ایک چھوٹاسا نمونہ بنایا جاسکتا ہے۔

اس عام قانون کی بناپر،اگر قرآن مجید فصیح و بلیغ ترین انسانی کلام (نہ کلام خدا) ہوتا تو دوسروں کے لئے خاص کر دنیا کے نامور سخن وروں کے لئے ممکن تھا کہ اسی اسلوب کا تجربہ کر کے ، ایک کتاب یا کم ازکم قرآن مجید کے سوروں کے مانند ایک سورہ کو بنا تے ۔

قرآن مجید نے مقابلہ کے مرحلہ میں لوگوں سے اپنے جیسے کلام کا تقاضا کیا ہے نہ کہ اس سے بہترکا:

( فلیا توا بحدیث مثله ) (طور٣٤)

( فاتوا بسورة مثله ) (یونس ٣٨)

( فاتوا بعشرسور مثله مفتریٰت ) (ہود١٣)

( لا یاتون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیرا ) (اسراء ٨٨)

قرآن مجید کی تعلیمات

قرآن مجید ٢٣سال کے عرصہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے دوران تدریجا نازل ہو ااور انسانی معاشرہ کی ضرورتوں کا حل پیش کیا ۔

قرآن مجید ،ایک ایسی کتا ب ہے کہ خود اس کے بیانات کے مطابق لوگوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔صحیح اعتقاد،پسندیدہ اخلاق اور شائستہ عمل،جو انسان کے انفرادی واجتماعی سعادت کی بنیادیں ہیں ،کی فصیح زبان میں تعلیم دیتا ہے :

۔( ونزّلنا علیک الکتٰب تبٰیََاناً لکلّ شی ئ ) ۔ (نحل٨٩)

''اورہم نے آپ پرکتاب نازل کیا ہے جس میں ہرشے کی وضاحت موجود ہے ''

قرآ ن مجید نے اسلامی معارف کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے ۔ان معارف کی تفصیلات خاص کر فقہی مسائل کی وضاحت کے لئے ،لوگوں کو خانہ نبوت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی طرف ہدایت کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے :

( وانزلنا الیک الذّکر لتبیّن للنّاس مانزّل الیهم ) ۔ (نحل ٤٤)

''اور آپ کی طرف بھی ذکر کو (قرآن)نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں...''

( وماانزلناعلیک الکتب الّا لتبیّن لهم الذی اختلفوا فیه ) ۔

(نحل٦٤)

''اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لئے نازل کی ہے کہ آپ ان مسائل کی وضاحت کردیں جن میں یہ اختلاف کئے ہوئے ہیں ''

جان لیجئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب خدا کی تفسیر اوردین کے معارف کی وضاحت کے لئے اپنے اہل بیت علیہم السلام کے کلام کو اپنے کلام کے مانند قرار دیتے ہوئے فرمایا :

''قرآن مجید اور میرے اہل بیت قیامت کے دن تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے اور جوبھی شخص قرآن مجید سے استفادہ کرنا چاہتا ہے ،اسے میرے اہل بیت کے دامن کو پکڑنا چاہئے۔''(۱)

قرآن مجید کی نظر میں علم وجہل

قرآن مجید میں علم ودانش کی جو تعریف اور غور و حوض کی جو تشویق کی گئی ہے ،وہ کسی اور آسمانی کتاب میں پائی نہیں جاتی ۔اسی طرح جہل ونادانی کی جو سرزنش کی گئی ہے وہ بھی قرآن مجید کے خصوصیات میں سے ہے ۔قرآن مجید نے علم ودانش کو زندگی اورجہل ونادانی کو موت سے تعبیر کیا ہے۔اور اسلام سے قبل فساد سے بھرے ماحول کو (جاہلیت) کا ماحول کہا ہے چنانچہ فرماتا ہے :

( هل یستوی الّذین یعلمون والّذین لا یعلمون )

(زمر٩)

''کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے ؟''

(اومن کان میتا فاحیینہ وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظّلمات لیس بخارج منہا۔ (انعام ١٢٢)

'' جوشخص مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اوراس کے لئے ایک نور قراردیاجس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہوسکتی ہے جوتاریکیوں میں ہواوران سے نکل بھی نہ سکتا ہو ''۔

۔( فانها لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور ) (حج ٤٦)

''...در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جوسینوں کے اندر پائے جاتے ہیں ''

( لهم قلوب لا یفقهون بها و لهم اعین لا یبصرون بها ولهم آذان لا یسمعون ) ۔..) ( اعراف١٧٩)

''...ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اورآنکھیں ہیں دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں سنتے نہیں ہیں ۔یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ...''

( ومایستوی الاعمی والبصیر٭ولا الظلمات ولا النور٭ولا الظل ولاالحرور ٭ ومایستوی الاحیاء ولا الاموات ) . (فاطر٢٢١٩)

''اور اندھے اور بینا برابر نہیں ہوسکتے اور تاریکیاں اور نوردونوں برابر نہیں ہوسکتے اور سایہ اوردھوپ دونوں بربر نہیں ہو سکتے اورزندہ اور مردے برابر نہیں ہو سکتے...''

خدائے متعال اپنے کلام پاک کی بہت سی آیتوں میں ،انسان کوغوروفکر،اورتدبر کی ترغیب اور تشویق فرماتا ہے اور اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ آسمانوں ،زمین اور ان میں موجود گوناگون مخلوق کی خلقت کے بارے میں غورو فکر کریں ، بالخصوص انسان کی خلقت کے بارے میں غور و فکر سے کام لیںگزشتہ ملتوں اور امتوں کی تاریخ ،آثار ،رسو مات ،عادات اور طور طریقوں،جو حقیقت میں مختلف علوم وفنون انسانی ہیں ،مطالعہ کی تاکید کرتا ہے اور ان مطالعات کے ذریعہ اپنی حقیقی سعادت حاصل کریں۔اور جان لینا چاہئے کہ فنی نظریات اور علمی مسائل کی چھان بین کرنا اس دنیا کی چند روزہ محدود زندگی کی فلاح وبہبود کے لئے نہیں ہے بلکہ علمی مطالعات کی بنیاد پر جاودانی حیات کی سعادت وآسائش حاصل کر نے ہونا چاہئے ۔

خالق کائنات کے بارے میں قرآن مجیدکی تعلیم

(...( افی اللّه شکّ فاطر السّموات والارض ) ۔ (ابراہیم ١٠)

''کیا تمھیں اﷲکے بارے میں شک ہے جو زمین وآسمان کا پیدا کرنے والاہے....؟''

وضاحت

دن کے اجالے میں تمام چیزیں آنکھوں کے سامنے نمایاں ہوتی ہیں، ہم اپنے آپ کو، گھر ، شہر، بیابان، پہاڑ، جنگل اور دریا کو دیکھتے ہیں۔ لیکن جب رات کااندھیرا چھاجاتا ہے تو تمام وہ چیزیں جو روشن و نمایاں تھیں ، اپنی روشنی کو کھو دیتی ہیں، ہم اس وقت سمجھتے ہیں کہ ان کی وہ روشنی اپنی نہیں تھی بلکہ سورج سے مربوط تھی کہ وہ ایک قسم کے رابطہ کی وجہ سے انھیں روشن کئے ہوئے تھا۔ سورج بذات خود روشن ہے اور اپنے نور سے زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کو روشن اورنمایان کرتاہے۔ اگر ان اشیاء کی روشنی اپنی ہوتی تو ہرگز اسے کھو نہیں دیتیں۔

انسان اور دیگر تمام زندہ حیوانات اپنی آنکھوں، کانوں او ردیگر حواس سے اشیاء کو درک کرتے ہیں اور ہاتھ، پاؤں اور تمام اندرونی و بیرونی اعضاء سے سرگرمی انجام دیتے ہیں، لیکن وہ بھی ایک مدت کے بعد حس و حرکت کو کھو کرکسی قسم کی سرگرمی انجام نہیں دے پاتے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ وہ مرجاتے ہیں۔

ہم اس چیز کامشاہدہ کرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ ان جانداروں سے ظاہر ہونے والا شعور ، ارادہ اورتحرک ، ان کے جسم و بدن سے نہیںہے، بلکہ ان کی روح وجان سے ہے کہ جس کے نکل جانے کے بعد اپنی زندگی اورتحرک کو کھودیتے ہیں۔

اگر دیکھنے او رسننے کا تعلق مثلا صرف آنکھ او رکان سے ہوتا، تو جب تک یہ دو نوں عضو موجود ہوتے دیکھنا اور سننا بھی جاری رہنا چاہئے تھا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

اسی طرح یہ عظیم کا ئنات کہ، جس کے اجزاء میں سے ہم بھی ایک جزو اور ایک وجود ہیں ہرگز شک و شبہ نہیں کرسکتے، کہ یہ کائنات اور ناقابل انکار خلقت ، اگر خود سے ہوتی، تو ہرگز اسے کھونہ دیتی، جبکہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اس کے اجزاء یکے بعد دیگرے اپنے وجود کو کھود یتے ہیں اورہمیشہ تغییر و تبدل کی حالت میں ہوتے ہیں، یعنی ایک حالت کو کھوکرد وسری صورت اختیار کرتے ہیں۔

لہذاہمیں قطعی فیصلہ کرنا چاہئے کہ تمام مخلوقات کی خلقت اوروجود کا سرچشمہ کوئی دوسری چیز ہے جوان کا خالق اور پروردگار ہے اور جوں ہی خلقت کا رابطہ اس ذات سے ٹوٹ جاتاہے تو وہ نیستی و نابودی کے دریا میں غرق ہو جاتی ہے۔

قرآن مجید کا احترام

معارف و احکام کا خزانہ اسلام کی آسمانی کتاب ''قرآن مجید'' ہے، جسے خدائے متعال نے وحی کے ذریعہ اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرنازل فرمایاہے۔

قرآن مجید دنیا کے مسلمانوں کی مادی و معنوی زندگی کا نہایت گرانقدر پشتپناہ ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو بارہا اس کتاب کی اسی عنوان سے تاکیدکیاور مکر ر طور پر (خاص کر اپنی زندگی کے آخری ایام میں ) لوگوں سے فرمایا ہے:

''میں اپنے بعد دوگراں بہا چیزیں تم لوگوں میں چھوڑ رہا ہوں جو قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی ، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے، ہر گز گمراہ نہیں ہوگے، ان میں سے ایک قرآن مجید ہے اور دوسری میری عترت (اہل بیت) ہیں، جو قرآن مجید کو بیان کرنے والے ہیں''۔

قرآن مجید کے تقدّس اور احترام کے لئے اتناہی کافی ہے کہ یہ :

١۔ کلام خداہے۔

٢۔پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قطعی ا ور زندہ سند ہے۔

٣۔ اسلام کے بنیادی قانون کا حامل ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:'' قرآن مجید سے جدانہ ہونا، کیونکہ اس میں آپ کے اسلاف مستقیل میں آپ کے آنے والوںکے حالات موجود ہیں اور آپ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے حکومت کرتاہے۔''

راہ خدا میں جہاد او رفداکاری کے متعلق قرآن کا دستور

اجتماعی طریقے، ایک پھل دار درخت کے مانند ہیں، جسے شگوفہ دینے، پھلنے اور پھولنے کے لئے ایک مناسب زمیں میں لگا ناچاہئے، پھر اس کی آبیاری کرنی چاہئے تاکہ زمین میں اسکی جڑیں مضبوط ومستحکم ہو جائیں، اور اس کے بعد وہ نشو و نما پائے اور اس میں مناسب موسم میں ، شکوفے نکلیں اورپھل آئیں۔

اسلام کایہ درخت سوفیصدی اجتماعی دین ہے،اس کے مکمل موثرہونے کے لئے مندرجہ ذیل مراحل کا طے کرنا ضروری ہے:

١۔ لوگ اسے قبول کریں۔

٢۔ تربیت کے ذریعہ ، اس کی حفاظت کی جائے تاکہ اپنی زندگی کو جاری رکھ سکے۔

٣۔ اس کے قوانین کی عملی مخالفت کی روک تھام کی جائے، اور حوادث کے گزند سے ان کی حفاظت کی جائے تا کہ اپنے آثار و فوائد کو انسانی معاشرہ میں پھیلاسکیں۔

بحث کا خاتمہ

بحث کے اختتام پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید نے صرف فصاحت و بلاغت کی دلکشی سے ہی دوسروں کو عاجز نہیں کیا ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی عاجز کیا ہے، کہ اس میں انسان کی تمام ضرورتوں کا حقیقی حل موجود ہے اور غیبی خبروں کے اعتبار سے بھی کہ جن کی اس نے پیشنگوئی کی ہے اور کچھ حقائق بیان بھی کئے ہیں اور دیگر جہات سے بھی جو اس آسمانی کتاب میں پائے جاتے ہیں، قرآن مجید چلینج کرتے ہوئے اعلان کرتاہے کہ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتے ہو۔

____________________

ا۔حقاق الحق،ج٩،ص٣٠٩۔٣٧٥۔